Thursday, 25 December 2014

پاکستانی مصنف راشد اشرف کی دو مزید کتابیں منظر عام پر

(طیب فرقانی ،بیورو چیف بصیرت آن لائن )
میرے ای میل ان باکس میں ہر ہفتے گوگل کی جانب سے ایک برقی خط موصول ہوتا ہے جس میں کچھ یوں لکھا ہوتا ہے ’’ طیب یہ ہے وہ سب کچھ جو چھوٹ گیا راشد اشرف کی جانب سے ‘‘ ۔گوگل ٹوٹی پھوٹی اردو میں ترجمہ کرکے ہمیں یہ بتاتا ہے کہ راشد اشرف نے گوگل پر کسی نئی دستاویز کااشتراک کیا ہے اورآپ نے ابھی تک اسے پڑھا نہیں ہے ۔راشد اشرف ہر ہفتے پاکستان کے پرانی کتابوں کے اتوار بازا رجاتے ہیں اور وہاں سے قدیم و جدید قیمتی کتابیں ڈھونڈ کر لاتے ہیں ۔قیمتی سے میری مراد اہم اور معیاری ہے ۔اگرچہ راشد اشرف قیمت بھی کچھ نہ کچھ چکاتے ہی ہوں گے ۔ان کے اتوار بازا جانے کی ایک طویل داستان ہے جسے وہ بسا اوقات اردو نیٹ جاپان اور ہماری ویب کے ذریعے ہم تک پہنچاتے رہتے ہیں ۔لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہے جتنی آسانی سے میں آپ کو بتا رہا ہوں ۔اتوار بازا جانا ،کتابوں کے ڈھیر میں اہم کتاب تلاش کرنااور پھر قیمتی کتابوں کو اسکین کرکے اسکرائب پر اپ لوڈ کرنا صبرآزما اور مشقت بھرا کام ہے جو وہ کسی صلے کی تمنا کیے بغیر کرتے جا رہے ہیں ۔ایک انداز ے کے مطابق اب تک انھوں تقریباً ڈیڑھ لاکھ صفحات اسکین کرکے اسکرائب پر اپ لوڈ کر دیا ہے ۔ہندوستان میں ریختہ ڈاٹ کام نے قدیم و جدید کتابوں کو اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کا بے حد اہم کارنامہ انجام دیا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے لیکن راشد اشرف کی اپ لوڈ کی ہوئی کتابیں آپ پی ڈی ایف فائل میں ڈاؤن لوڈ بھی کرسکتے ہیں اور اپنے پاس محفوظ بھی رکھ سکتے ہیں ۔جب کہ ریختہ آپ کو ڈاؤن لوڈ کرنے کی سہولت فراہم نہیں کرتی ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ راشد اشرف ایسی کوئی کتاب اپ لوٖڈ نہیں کرسکتے جس سے کاپی رائٹ کا مسئلہ پیدا ہو۔ان کی اپ لوڈ کی ہوئی کتابیں آج سے تقریبا پچاس ساٹھ سال پرانی ہیں جن کے مصنفین اب بقید حیات نہیں ہیں ۔
اس طویل تمہید کے بعد آئیے اب رخ کرتے ہیں راشد اشرف کی طرف ۔راشدا شرف پیشے سے انجینئر ہیں اور کراچی پاکستان میں رہتے ہیں ۔وہیں ان کی پیدائش ہوئی ۔عمرکا ابتدائی حصہ حیدر آباد سندھ میں گزرا۔اور پھر وہ کراچی ہی آگئے ۔اپنی پیشہ ورانہ زندگی سے فرصت نکا ل کر وہ اردو زبان و ادب کو انٹر نیٹ سے جوڑنے میں اپنا رول بخوبی نبھارہے ہیں ۔ان کا خاص میدان نثر ہے ۔انھوں نے ابن صفی کو پڑھا بھی ،ان پر کتابیں بھی لکھی اور مرتب کی ہیں اور اپنی تحریروں میں ابن صفی کی پیروی بھی کرتے نظر آتے ہیں ۔تحریروں میں طنز و مزاح اور انوکھے اسلوب پیدا کرنا شاید انھوں نے ابن صفی سے ہی سیکھا ہے ۔انھوں نے اب تک دو کتابیں ابن صفی کے فن اور شخصیت پر لکھی اور مرتب کی ہیں ۔’’ ابن صفی کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا ‘‘ اور ابن صفی ۔شخصیت اور فن ‘‘ نے ہندو پاک میں ابن صفی کے چاہنے والوں کا دل موہ لیا ہے ۔اس کے بعد ان کی ایک اور کتاب مولاناعبد السلام نیازی پر آئی ۔اورا ب دوکتابیں ’’ چراغ حسن حسرت ‘‘ اور طرز بیاں اور ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی ہیں ۔یہ کتابیں اٹلانٹس پبلیکشنز نے شائع کی ہے ۔جن کا اجرا کراچی بین الاقومی کتابی میلے کے موقعے پر پاکستان کے صاحبان علم و فن کے ہاتھوں عمل میں آیا ۔اس موقع پرجناب امین ترمذی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’راشد اشرف نے کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو دوسال میں پانچ کتابیں لکھ ڈالیں ۔اور اس میں اس بات کا خاص خیال رکھا کہ محمود غزنوی کی طرح صرف حملوں کی گنتی میں اضافہ نہ ہوتا رہے بلکہ فتوحات پر بھی نظر رکھی جائے ۔‘‘پروفیسر رئیس فاطمہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے راشد اشرف کی کتابوں کا تعارف پیش کیا اور راشد اشرف کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا ’’ایسے عالم میں راشد اشرف کا دم غنیمت جانئے جو قحط الرجال کے اس عہد میں برابر اپنے اکابر اور باکمالوں کو یاد رکھے ہوئے ہیں اور دوسروں تک ان کا فیض جاریہ بھی پہنچاتے رہتے ہیں ۔راشد اشرف خوش رہو اور یہی کام کرتے رہو۔‘‘ اس موقعے پر جنا ب عقیل عباس جعفری ،جناب معین الدین عقیل اور معراج جامی بھی شریک ہوئے اور اظہار خیال کیا ۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ چراغ حسن ایک ادبی اور صحافتی شخصیت تھے جن پر یہ پہلی کتاب ہے ۔راشد اشرف نے اس کتاب میں ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والے مضامین کو مرتب و مولف کیا ہے ۔جب کہ ’’ طرز بیا ں اور ‘‘ میں خود نوشتوں پر تبصرے ،تحقیقی مقالہ جات اوراتوار بازا ر سے ملنے والی کتابوں کے احوال شامل ہیں ۔راشد اشرف کو خود نوشتوں ،خاکوں ،اور سفر ناموں سے خاص لگاؤ ہے اور یہ ان کا خاص میدان ہے ۔غیر افسانوی ادب کی تحقیق میں یہ بڑا کارنامہ ہے ۔ہماری دعا ہے کہ وہ اپنا کام یوں ہی جاری رکھیں ۔کام کرنے والوں کو وقت ان کا صلہ دیر سے ہی سہی دیتا ضرور ہے ۔
 

Tuesday, 25 November 2014

بنگال میں اردو کے ساتھ سوتیلا رویہ ؟

مغربی بنگال :ثانوی اور اعلا ثانوی اسکولوں میں سالانہ ٹسٹ اور امتحان کے سوالناموں پر اٹھے کئی سوال
شمالی دیناج پور (طیب فرقانی بیورو چیف )
ہر سال کی طرح اس سال بھی ریاست مغربی بنگال میں سالانہ امتحان اور ٹسٹ کا آغاز ہوچکا ہے ۔اسکولوں میں معمول سے زیادہ بھیڑ بھاڑ دیکھی جارہی ہے ۔کیوں کہ ان دنوں اسکولوں میں امتحان کی وجہ سے طلبا طالبات کی صد فی صد حاضری درج کی جاتی ہے ۔جب کہ سال بھر اسکولوں سے غائب رہنے والے طلبا طالبات بھی امتحانات و ٹسٹ میں حصہ لینے کے لئے اسکولوں کی زیارت کر رہے ہوتے ہیں ۔تعلیمی معیار کے ساتھ جو کھلواڑ سال بھر روا رکھا جاتا ہے وہ تو اپنی جگہ قابل غور اور قابل افسوس ہے ہی ،امتحانوں کے دوران طلبا طالبات کو دئے جارہے سوال ناموں پر بھی سیاست اور حکومت کی بے توجہی کے اثرات صاف دیکھے جاسکتے ہیں ۔یہاں کا رنگ ہی جدا ہے ۔یہاں سوال نامے تعلیمی بورڈ کے بجائے اساتذہ کی تنظیمیں بناتی ہیں ۔پچھلی حکومت تک تو صرف سی پی ایم پارٹی سے جڑے اسا تذہ کی تنظیم (آل بنگال ٹیچر ایسوسی ایشن ) یا کانگریس پارٹی سے متعلق ٹیچرس ایسوسی ایشن ہی سوالنامے بناتی تھی ۔لیکن اس بار سے ترنمول کانگریس کی ٹیچرس ایسوسی ایشن نے بھی اس میدان میں قدم رکھ دیا ہے ۔یہ تنظیمیں اپنے اپنے حساب سے سوالنامے بناکر اسکولوں کو بھیجتی ہیں ۔جس اسکول کا صدر مدرس جس پارٹی کا ہوتا ہے اس اسکول میں اسی پارٹی کی اساتذہ تنظیم کا بنایا ہوا سوا ل نامہ دیا جاتا ہے ۔ایسے میں سوال ناموں میں غلطیاں تو ہوتی ہیں، ان کو من مانے ڈھنگ سے بنایا جاتا ہے ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ ابھی تک اردو میڈیم اسکولوں کے طلبا کو آٹھویں جماعت کے بعد انگلش میں سوال نامہ دیا جاتا ہے ۔جب کہ وہ سال بھر اردو میڈیم میں پڑھائی کرتے ہیں ۔یہ عجیب و غریب منطق سمجھ سے باہر ہے کہ دوسرے میڈیم کے طلبا اپنی زبان میں سوالنامے حل کرتے ہیں لیکن اردو والوں کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے ۔نویں اور گیارہویں جماعت کے طلبا کو اسکول کے سالانہ امتحان میں اردو زبان میں سوال نامہ نہیں ملتا ۔جب کہ اسی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے بنگلہ میڈیم کے طلبا کو بنگلہ میں سوال نامہ دیا جاتا ہے ۔ہندی کا تو اس سے بھی بر احال رہا ہے ۔اس بار کئی اسکولوں میں ہندی میڈیم کے سوالنامے سرے سے آئے ہی نہیں ۔ایسے بچوں نے بس اپنی جوابی کاپی پر ہندی میں کچھ بھی لکھ دیا اور کام بن گیا ۔اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ریاست میں تعلیم کے تعلق سے کتنی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ۔شمالی بنگال میں زیادہ تر اسکول تینوں میڈیم میں تعلیم دیتے ہیں ۔ایسے میں ہر میڈیم کے طلبا کے لئے الگ الگ قانون بنانا یا اپنی طرف سے نافذکرنا کہاں کا انصاف ہوگا ؟ یہ سوال بہت اہم ہے ۔صرف بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اردو میں آٹھویں جماعت تک کے سوالنامے اس قدر بھدے انداز میں تیار کیے گئے ہیں کہ ان کو پڑھ پانا بھی مشکل ہورہا ہے ۔یہاں ساتویں جماعت کے ایک سوالنامے کا عکس منسلک کیا جاتا ہے ۔جس میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ سوالنامہ ہاتھ سے لکھ کر اور عکس بنوا کر تیار کیا گیا ہے جس کا فونٹ اس قدر چھوٹا ہے کہ ٹھیک سے پڑھ پانا مشکل ہے ۔اس پر طرہ یہ کہ املے کی فاش غلطیاں بھی اس میں روا رکھی گئی ہیں اور سوالنامے کو فریش بھی نہیں کیا گیا ہے ۔ش کو س اور آسمان کو اسمان لکھا گیا ہے ۔چھوٹے بچے کس طرح انھیں حل کریں گے یہ بھی ایک سوال ہے ۔اور اس سوال کا جواب کون دے گا یہ بھی ایک سوال ہے ۔کیوں کہ تعلیمی بورڈ یہ سوال نامے بناتا ہی نہیں ۔ہونا تو یہ چاہئے کہ بورڈ ہی اپنی نگرانی میں سوالنامے تیار کرائے اور اور انھیں تمام اسکولوں میں بھیجے ۔اس طرح سنجیدگی سے سوالنامے تیار بھی ہوں گے اور وقت پر انصاف کے ساتھ سب کو دست یا ب بھی ہوں گے ۔یہاں ایک اہم سوال اردو طلبا نے اور بھی اٹھایا ہے کہ سال بھر جب ان کی ا ردو کی کتاب بھیجی ہی نہیں گئی تو وہ کس کتاب کا امتحان دیں ؟ مسئلہ یہ ہے کہ پورا سال ختم ہوگیا اور اردو کی کتابیں اب بھی اسکولوں میں دست یاب نہ ہوسکیں ہیں ۔اب تو اگلا سیشن شروع ہو جائے گا ۔ ایسے میں ریاست مغربی بنگال میں تعلیمی صورت حال کا اللہ ہی مالک ہے ۔
ذیل میں پرچے کا انسلاک اور لنک ملاحظہ کریں 

Thursday, 1 May 2014

عبدل بھائی کی معلمی،انشائیہ،از طیب فرقانی

بلاگنگ کرنا ایک اچھا مشغلہ بھی ہے اور اشتراک معلومات کا بہترین ذریعہ بھی ۔ایک سال قبل   ۱۷؍اپریل ۲۰۱۳ کو میں نے اپنا پہلا بلاگ لکھا تھا  جسے  اب تک صرف ۳۵ لوگوں نے ہی پڑ ھا ہے ۔چوں کہ یہ ایک انٹر ویو پر مشتمل تھا اس لئے اور اس لئے بھی کہ میں ایک کم معروف بلاگر ہوں ۔میرا کوئی بلاگ اب  تک ۶۰ بار سے زیادہ نہیں پڑھا گیا ۔یہ کوئی شکایت نہیں ہے بلکہ ایک تجربہ ہے ۔ہاں میرے بلاگ کو وزٹ کرنے والوں کی تعداد ایک ہزار کے عدد کو پار کرچکی ہے ۔جس میں دنیا کے مختلف ممالک جیسے امریکہ ،مصر ،سعودی عرب،پاکستان اور ہندوستان کے مختلف شہروں کے وزیٹر شامل ہیں ۔جہاں تک تبصروں کا تعلق ہے تو اب تک مختلف اشاعتوں پر کل بارہ تبصرے ہی آپ کو ملیں گے جن میں آدھے خود میرے ہیں ۔میرے بلاگ سے بلا واسطہ صرف چار افراد جڑے ہوئے ہیں جب کہ گوگل فالوور کے تحت آپ کو نو حضرات نظر آئیں گے ۔ان کے علاوہ کچھ احباب بذریعہ ای میل بھی جڑے ہوئے ہیں ۔پھر بھی  بلاگنگ کا ایک سالہ تجربہ اچھا رہا ۔ابتدا میں بلاگنگ کرنے یا یوں کہیں کہ بلاگ بنانے کا عمل کافی دشوار گزار رہا ۔اس وقت گوگل بہت یاد آتا ہے جب میں سوچتا ہوں کہ بلاگ بنانے میں، خاص طور سے اردو بلاگ بنانے میں گوگل نے میری بڑی مدد کی ۔کسی سے سیکھے بغیر جب کہ آپ خود بھی تیکنالوجی سے خوب اچھی طرح واقف نہ ہوں بلاگ بنانا اور وہ بھی اردو میں بلاگ بنانا کافی مشکل کام تھا جسے خدا کے فضل سے ہی مکمل کیا گیا ۔پھر آہستہ آہستہ بلاگنگ ایک آسان کام ہوگیا،یوں کہیں کہ حلوہ ہوگیا ۔بلاگنگ کے ایک سال مکمل ہونے پر میں نے ارادہ کر رکھا تھا کہ قارئین کی خدمت میں کوئی تازہ انشائیہ پیش کروں گا ۔آج وہ وقت آگیا ۔آپ کی خدمت میں تازہ انشائیہ پیش کرتے ہوئے خوشی محسوس کر رہا ہوں ۔ذیل میں انشائیہ ملاحظہ کریں ۔۔۔۔۔طیب فرقانی 


عبدل بھائی کی معلمی


عبدل بھائی نے تعلیم سے فراغت کے بعد جب معلمی کا پیشہ اختیار کیا تو ان کے شاگردوں میں بھی کئی ایک ’’عبدل بھائی ‘‘ تھے ۔ذہین ،تیز طراراور بال کی کھال نکالنے والے ۔بال کی کھال نکالنا ان طلبا کے لئے ویسے بھی آسان تھا کیوں کہ وہ جس زمانے اور ماحول میں تھے وہاں گرل فرینڈ آسانی سے دستیاب ہوجاتی ہیں ۔جو اکثر اپنے بالوں سے نوازتی رہتی ہیں ۔پہلے بال کی کھال نکالنا اس لئے بھی دشوار تھا کہ گرل فرینڈ تو تھیں نہیں ،بیویاں ہوتی تھیں وہ بھی ایک عدد۔اور کسی نے اگر دو عدد بیویاں رکھ بھی لیں تو اسے اپنی ہی کھال بچانے کی فکر لگی رہتی تھی ۔اب تو گرل فرینڈ کا معاملہ یہ ہے کہ بسا اوقات وہ خود ہی چھوڑ کر دوسرے سے چپک جاتی ہے ۔اور رنڈوا کہلانا کسے پسند ہے ۔اس لئے بوائے فرینڈ بھی دوسرے سے چپک جاتا ہے ۔خیر قصہ کوتاہ ۔بات چل رہی تھی عبدل بھائی کی معلمی اور ان کے شاگردوں کی ۔اب وہ زمانہ تو رہا نہیں جب استاد ۵۶ گروں میں سے ایک بچا کر رکھتا تھا ،اورضرورت پڑنے پر اسی ترپ کے پتے کو استعمال کرکے رستم و سہراب کہلاتا تھا ۔اب تو بچے گرو کی کوہی گر سکھا دیتے ہیں اور ایسے موقعے پر گرو جی کا جی چاہتا ہے کہ وہ گڑ کی پوری بھیلی ہی نگل لیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ اب گڑبھی صرف سردیوں میں ہی کوئی کسان شہر کو لاکر دوچار پیسے کما لیتا ہے ۔ رہی مصری کی ڈلی تو وہ بھی بٹلہ ہاؤس کے منگل بازار میں ہی ملتی ہے ۔اس لئے اب گڑ کھاکے گل گلے سے پرہیز کا زمانہ لد گیا ۔اب سگریٹ پی کے سسکاری مارنے کازمانہ ہے ۔چنانچہ ایک دن ایک طالب علم اپنے استادعبدل بھائی کے سامنے ہی سگریٹ پینے لگا ۔عبدل بھائی کو ایسا لگا جیسے اس نے مشرقی تہذیب پر کالک نہ پوت کر اسے سگریٹ کے دھوئیں سے اجلا اور سفید کر دیا ہو ۔بالکل سفید ۔کورا۔عبدل بھائی اسے دیکھ کر خون کا گھونٹ بھی نہ پی سکے کیوں کہ ان کے جسم میں موٹاپے کی وجہ سے اتنی چربی تھی کہ ڈر تھا کہ کہیں چربی پگھل نہ جائے اور خون کی ندیاں بہنے کے بجائے چربی کی ندی بہہ نکلے ۔عبدل بھائی کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو خون نہیں ایسی حالت میں انھیں صرف ایک شعر یاد آیا 
کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالب 
شرم تم کو مگر نہیں آتی 
یہی شعر انہوں نے پڑھ دیا ۔پھر تو گویا علمی و ادبی محفل ہی گرم ہوگئی ۔شرم کا لفظ سن کے حاضرین محفل کا خون ہی تو گرم ہوگیا ۔تو شروع ہوگئی فلسفیانہ گفتگو ۔ایک بولا جناب شرم کسے کہتے ہیں ؟عبدل بھائی کے جسم میں اتنا پانی تو تھا کہ وہ شرم سے پانی پانی ہوجاتے یا ضرورت پڑنے پر ایک چلو پانی میں ڈوب مرتے ۔اس لئے انھوں نے ایک طویل فلسفیانہ تقریر کی ۔’’شرم ایک فطری جذبہ ہے جو انسان کو برائی سے روکتا ہے ۔جب تمھیں احساس ہوکہ تمہارے اندر شرم نہیں رہی تو سمجھ لینا کہ اب تم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہو۔شرم کا لفظ تین حروف سے بنا ہے ۔شین سے مراد ہے شرافت ۔رے سے مراد ہے ردا یعنی چادر اور میم ۔۔۔میم ۔۔۔۔‘‘ عبدل بھائی وفور جذبات میں میم کی مراد بھول گئے ۔اس بھول پر انھیں بڑی شرم آئی اور پھر وہ جھنجھلاگئے ۔تبھی ایک طالب علم نے لقمہ دیا ’’جناب میم سے محبت ۔‘‘اس پر عبدل بھائی کو اور غصہ آیا ۔’’محبت !
ہونٹ کی شیرینیاں کالج میں جب بٹنے لگیں 
چار دن کے چھوکرے کرنے لگے فرہادیاں 
محبت کا مطلب تم لوگ کیا جانو۔ارے محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے ۔یہ ماں سے بھی ہوتی ہے ،بہن سے بھی ہوتی اور بیوی سے بھی ہوتی ہے ۔‘‘پھر کسی طالب علم نے ٹوکا ’’اور جناب گرل فرینڈ سے ؟‘‘’’تمہاری اطلاع کے لئے عرض کردوں کہ گرل فرینڈ انگریزی لفظ ہے ۔انگریزوں کی یہ ناپاک سازش رہی ہے کہ گرل فرینڈ کو اس طرح پیش کرو کہ ساری دنیا سے محبت کا اصل مطلب ہی اٹھ جائے ۔یہی وجہ ہے کہ جناب محترم حالی مرحوم کو غزل سے سنڈاس کی بو آتی تھی ۔‘‘’’جناب یہ سنڈاس کیا ہوتی ہے ؟‘‘ ’’ہوتی ہے نہیں ہوتا ہے ۔یہ وہی ہوتا ہے جسے آج شہری زندگی میں واش روم اور ٹوائلٹ کہا جاتا ہے جب کہ دیہات اور شرفا کے یہاں پاخانہ اور بیت الخلا کہاجاتا ہے ۔لیکن ٹوائلٹ کلینر پرفیوم استعمال کر کے اپنی گندگی چھپانے والے کیا جانیں کہ ہمارے بزرگوں نے سنڈاس کی کیسی بھیانک بدبو برداشت کر کے ہمیں ترقی کی اس منزل تک پہنچایا ہے جہاں ہم نے شرم و حیا کی چادر کو تار تار کر دیا ہے ۔‘‘ اب پھر عبدل بھائی شرم کے موضوع پر لوٹ آئے ۔’’شرم انسان اور حیوان میں خط امتیاز ہے ۔یہ ایک انمول نعمت ہے جسے مل جائے وہ سنبھال کے رکھے ۔‘‘ پھر ایک طالب علم بولا ۔نہیں جناب اگر وہ ہمیں کیمپس میں کہیں ملے گی تو ہم اس سے کہہ دیں گے کہ آپ نے اسے یاد کیا ہے ۔‘‘ ’’ارے یہ نعمت کسی لڑکی کا نام نہیں ہے ۔نعمت مطلب خدائی انعام ۔‘‘ اب کے ایک فلسفی نما طالب علم بولا ’’ جناب ! انعام اللہ ان لوگوں پر فرماتا ہے جو سیدھے راستے پر چلیں ۔‘‘ ’’بالکل صحیح ۔ شاباش! ‘‘ یہ جواب سن کر عبدل بھائی کے اندارکا انقباض کچھ کم ہوا اور ماحول کے دھندلا پن میں روشنی کی ایک لکیر پھوٹی تو عبدل بھائی کو میم کی مراد یا د آگئی اور انھوں نے کرخدار آواز میں کہا’’شین سے شرافت ،رے سے ردا اور میم سے موت ۔یعنی جو ردائے شرافت اتار دے اس پر موت واقع ہوجاتی ہے ۔اور جو شرم و حیا کی چادرمیں لپٹا ہو موت کا ہاتھ اس کے گریبان تک کبھی نہیں پہنچتاہے ۔یہ مت سمجھنا کہ مرنا تو سبھی کو ہے ۔ہر گز نہیں ۔مرتا وہی ہے جو شرم وحیا سے عاری ہوجائے ۔صاحب شرم مر کے بھی زندہ رہتا ہے ۔غالب نے اپنے شعر
موت کا ایک دن معین ہے 
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی 
میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جو لوگ بے شرم ہوجاتے ہیں انھیں راتوں کو نیند نہیں آتی ۔وہ ڈرتے رہتے ہیں کہ انھیں حقیقی موت نہ آجائے ۔او ر۔۔۔۔آہا ہا۔۔۔ذوق نے بھی کیا خوب کہا ہے ۔
مزے جو موت کے عاشق بیاں کبھو کرتے 
مسیح و خضر بھی مرنے کی آرزو کرتے ‘‘
موت کے ذکر نے فضا کو سوگوار کر دیا ۔تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی ۔تبھی ایک ٹپکا ۔’’جناب! یہ جو کہتے ہیں کہ موت کے منہ سے نکل آیا تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟‘‘ ’’یہ دراصل موت نہیں ایک احساس ہے ۔ جب انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھا ۔اس کا بھی تعلق زیادہ تر بے شرمی سے ہی ہے ۔جب لوگ بے شرم ہوجاتے ہیں تو ٹیکس چوری کرتے ہیں ۔جمع خوری کرتے ہیں ۔اور پھر جب سی بی آئی کا شکنجہ کستا ہے تو جوڑ توڑ میں لگ جاتے ہیں ۔اگر یہ لوگ معمولی حیثیت کے ہوں تو سی بی آئی کا شکنجہ خونی قاتل بن جاتا ہے اور ان کا انت بے عزتی اور جیل کی شکل میں ہوتا ہے جو ایک شریف آدمی کے لئے موت سے کم نہیں ۔لیکن اگر یہ لوگ بڑی کمپنیوں کے ہوں ،اونچی دوکان والے ہوں (چاہے پکوان پھیکا ہی کیوں نہ ہو) تو وہ اپنے اثرو رسوخ اور سیاسی پارٹیوں کو دئے گئے چندوں اور حمایتوں کے عوض موت کے منہ سے نکل آتے ہیں ۔یاد رکھو شرم نیکی اور برائی کو پرکھنے کا ایک بہترین آلہ ہے ۔جس کام میں تمھیں شرم محسوس ہو سمجھو وہ کام برا ہے۔‘‘ پھر ایک ٹپکا ۔’’جناب !یہاں میں آپ سے اختلاف کروں گا ۔وہ یہ ہے کہ برائی کی تعریف سب کے نزدیک الگ الگ ہے ۔ایک چیز کو کوئی برا سمجھتا ہے تو اسی کو کوئی اور فیشن سمجھتا ہے ۔مثال کے طور پر ایک عورت گھر سے نکلنے کو بھی برا سمجھتی ہے وہیں دوسری عورت کینیڈا میں خوب پورن فلمیں بناتی ہے اور جب انڈیا آتی ہے تو لوگ اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور میڈیا اس کے گن گاتی ہے ۔لوگ اس کے قصے سنتے سناتے ہیں ۔یا اسی سگریٹ والے مسئلے کو لے لیں یہ اپنے والد کے سامنے پیتا ہے تو اس کے والد کچھ نہیں کہتے جب کہ آپ برا مان گئے حالاں کہ آپ ایک اعتبار سے اس کے باپ کے بھی باپ یعنی دادا ہیں ۔‘‘ عبدل بھائی کو اس ذکر پر پھر غصہ آگیا ۔اور وہ وہاں سے یہ کہہ کر چل دئے کہ 
جب بھی والد کی جفا یاد آئی 
اپنے دادا کی خطا یاد آئی 
پھر رکے ایک شعر اور پڑھا 
علم میں جھینگر سے بڑھ کر کامراں کوئی نہیں 
چاٹ جاتا ہے کتابیں امتحاں کوئی نہیں 
پھر چل دئے ۔۔۔۔۔۔
طیب فرقانی 
اسسٹنٹ ٹیچر گوالپوگھر لودھن ہائی اسکول 
شمالی دیناج پور مغربی بنگال (ہند)
ذیل کی لنک سے آپ اس انشائیے کو بصیرت آن لائن پر بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔
http://baseeratonline.com/2014/05/01/%d8%b9%d8%a8%d8%af%d9%84-%d8%a8%da%be%d8%a7%d8%a6%db%8c-%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b9%d9%84%d9%85%db%8c%d8%a7%d9%86%d8%b4%d8%a7%d8%a6%db%8c%db%81/
اردو نیٹ جاپان کی لنک بھی ملاحظہ کریں
http://urdunetjpn.com/ur/2014/05/03/tayyab-furqani-4/
اسے اس لنک پہ بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=46343

Saturday, 5 April 2014

گوال پوکھر لودھن ہائی اسکول میں ووٹر بیداری مہم کے تحت تقریب کا انعقاد



(طیب فرقانی بیورو چیف بصیرت آن لائن )
ووٹ ہمارا بنیادی حق ہے اور ہر حقدار کو اپنے حق کااستعمال ضرور کرنا چاہئے ۔عام انتخابات قریب ہیں اور ہم سبھی کو انتخاب کے دن پولنگ بوتھ پر جاکر ضرور ووٹ ڈالنا چاہئیے ۔ان خیالات کا اظہار یہاں گوال پوگھر لودھن ہائی اسکول میں اسکول کے صدر مدرس ماسٹرشبیر احسن نے کیا ۔وہ ووٹر بیداری مہم کے تحت منعقد پروگرام میں موجود طلبا ،اساتذہ اور سرپرستوں سے خطاب کر رہے تھے ۔اس بار الیکشن میں زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈالے جانے کے لئے ووٹر بیداری ڈے کا انعقاد کیا جا رہا ہے ۔جس کے تحت اسکولوں میں تقریب منعقد کرکے طلبا کے سرپرستوں سے ایک حلف نامے کے تحت یہ حلف لیا جارہا ہے کہ وہ حالیہ عام انتخابات میں اپنے حق کا استعمال ضرور کریں گے ۔اسی سلسلے کے تحت گوال پوکھر لودھن ہائی اسکول میں اسکول کے صدر مدرس ماسٹر شبر احسن کی رہنمائی میں تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔اس سے پہلے طلبا کو اطلاع دے دی گئی تھی کہ اپنے سرپرستوں کو تقریب میں لے کر آئیں تاکہ بیداری کی یہ مہم سب تک پہنچ سکے ۔قریب گیارہ بجے طلبا اپنے سرپرستوں کے ساتھ اسکول کے میدان میں جمع ہوئے اور صدر مدرس نے یہاں موجود تمام طلبا ،ان کے سرپرست اور اساتذہ سے خطاب کیا ۔انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ آپ اپنے پسند کے امیدوار کوہی ووٹ دیں لیکن ووٹ کے دن غیر حاضر نہ رہیں اپنے حق کا استعمال ضرور کریں ۔انہوں نے بتایا کہ اس بار ووٹنگ مشین میں ایک خانہ ایسا بھی ہوگا جس کو دبا کر آپ یہ بتا سکیں گے کہ آپ کو آپ کے علاقے سے انتخاب لڑ رہا کوئی بھی امیدوار پسند نہیں ہے اس لئے اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ کو کوئی بھی امیدوار پسند نہیں یا آپ کی امیدوں پر کھرا اتر نے والا نہیں تو بھی آپ الیکشن بوتھ پر ضرور جائیں اور اپنا احتجاج درج کرائیں ۔اس موقعے پر ماسٹر زبیر نے بھی خطاب کیا ۔انہوں نے ووٹ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ووٹ ہمارا بنیا دی حق ہے اور ہم اس کا استعمال ضرور کریں ۔قومی ترانے کے ساتھ تقریب کا اختتام ہوا ۔اس موقعے پر ماسٹر مسلم نوری ،عبدالخالق ،طیب عالم ،خورشید عالم ،گوتم داس ،گوبند برمن ،جہاں آرا عبدالصمد اور غلام حسنین کے ساتھ بڑی تعداد میں طلبا ،ان کے سرپرست اور اسکول کے تدریسی وغیر تدریسی اسٹاف موجود رہے ۔
ذیل میں لنک دی گئی ہے
http://baseeratonline.com/2014/04/04/%da%af%d9%88%d8%a7%d9%84-%d9%be%d9%88%da%a9%da%be%d8%b1-%d9%84%d9%88%d8%af%da%be%d9%86-%db%81%d8%a7%d8%a6%db%8c-%d8%a7%d8%b3%da%a9%d9%88%d9%84-%d9%85%db%8c%da%ba-%d9%88%d9%88%d9%b9-%d8%a8%db%8c%d8%af/

مودی بنگال کو بھی گجرات کی طرح تباہ حال بنادیں گے۔دیپا داس منشی

(طیب فرقانی بیورو چیف بصیرت آن لائن حلقہ شمالی دیناج پور )
انتخابات کے پیش نظر سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں او رہر پارٹی کے افراد و امیدوار جلسے جلوس کے ذریعے عوام تک پہنچنے اور ووٹ مانگنے میں پیش پیش ہیں ۔اسی سلسلے میں یہاں سرسی آئی ایم مدرسہ واقع چکلیہ کے میدان میں کانگریس کی امیدوار دیپا داس منشی نے اپنے ورکروں اور عوام سے خطاب کیا ۔انہوں نے بی جے پی کے وزیر اعظم کے امیدوار نریندر مودی اور مغربی بنگال کی موجودہ حکومت کو جم کر آڑے ہاتھوں لیا ۔انہوں نے کہا کہ مودی نے گجرات کو تباہ کیا ۔پرقہ پرستی کا بیج بویا اور ترقی کا جھوٹا اشتہار دے کر عوام کو گمراہ کرنے کا کھیل جاری کررکھا ہے ۔حالاں کہ گجرات کا ہر سطح پہ برا حال ہے ۔اگر وہ وزیر اعظم بن گئے تو وہ بنگال کو بھی گجرات کی طرح تباہ حال بنادیں گے ۔ واضیح ہو کہ دیپا داس منشی اپنے حلقے رائے گنج کے لئے دہلی کی طرز پر ایمس بنوانا چاہتی ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مرکزی حکومت سے اسے منظور کرالیا ہے لیکن ریاستی حکومت اس کے لئے زمین فراہم کرنے میں آنا کانی کر رہی ہے ۔اس لئے دیپا داس منشی نے ریاستی حکومت پر جم کر تنقید کی اور کہا کہ حکومت اقلیتوں کا فائدہ نہیں چاتی اس لئے وہ ایمس کے لئے زمین فراہم کرنے میں رخنہ ڈال رہی ہے ۔ اس موقع پر بہار کے کانگریسی لیدڑشکیل احمد جنہیں مغربی بنگال میں انتخابی مشاہد ناکر بھیجا گیا ہے ،بھی موجود رہے اور انہوں اپنی تقریر میں کانگریسی امیدوار دیپا داس منشی کی حمایت کرنے کو کہا ۔انہوں نے کہا کہ دیپا داس منشی یہاں کے لئے بے حد اہم اورقابل اعتماد کانگریسی لیڈر ہیں جنہیں سونیا گاندھی اور راہل گاندھی بھی پسند کرتے ہیں ۔مغربی بنگال اقلیتی سیل کے چیئر مین ایس ایم ایس حیدر نے ممتا حکومت پر الزام لگا یا کہ مرکزی حکومت کی طرف سے بھیجے گئے اقلیتی فنڈ کو حکومت نافذ نہیں کر رہی کیوں کہ وہ اقلیت دشمن ہے ۔رائے گنج کا حلقہ ۶۵ فیصد مسلم ووٹ کا حامل ہے اس لئے یہاں ہر امیدوار اقلیت کی بات کرتا نظر آتا ہے اور ان کے دکھ درد کو دور کرنے کا وعدہ کرتا نظر آتا ہے ۔ایسے میں سی پی آئی ایم کے مسلم امیدوار محمد سلیم کو بھی تنقید کا نشانا بنایا گیا ۔گوال پوکھر کے ایم ایل اے غلام ربانی نے محمد سلیم کو لامذہب اور بے دین بتاتے ہوئے کہا کہ جب مغربی بنگال میں مسلمانوں پر ظلم ڈھایا جارہا تھا تب وہ کہاں تھے ۔اس موقع پر مغربی بنگال کانگریس کے سابق صوبائی صدر پروفیسر پردیپ بھٹا چاریہ ،ضلع کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری ماسٹر عبدالغنی اور گوال پوکھر بلاک یوتھ کانگریس کمیٹی کے نائب صدر شہزاد جہانگیر کے علاوہ بڑی تعداد میں کانگریسی کارکنان موجود رہے ۔شہزاد جہانگیر نے نماندہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس بار اس حلقے سے ایک بار پھر کانگریس ہی کامیاب ہوگی ۔واضح ہو کہ اس حلقے میں سہ رخی مقابلہ ممکن ہے ۔جس میں کانگریس ،ترنمول کانگریس اور سی پی آئی ایم کے امیدوار اپنی اپنی جیت کا دعوی کرتے نظر آ رہے ہیں ۔فیصلہ تو بہر حال عوام کو ہی کرنا ہے ۔
ذیل میں لنک دیکھیں۔۔

Sunday, 30 March 2014

سیاسی ہلچل کے درمیان مغربی بنگال میں گیارہویں اور بارہوں جماعتوں کے امتحانات اختتام پذیر... اوردو کا چوطرفہ خسارہ

(طیب فرقانی بیوروچیف بصیرت آن لائن حلقہ شمالی دیناج پور)
شمالی دیناج پور میں جہاں اس وقت عام انتخابات کی وجہ سے جلسے ،جلوسوں اور میٹینگوں کا سلسلہ جاری ہے وہیں گیارہوں اور بارہوں جماعتوں کے امتحانات آج شام اختتام پذیر ہوگئے ۔اس حلقے میں کل ہی کانگریس اور ترنمول کانگریس کے امیدوار دیپا داس منشی اور ستیہ رنجن داس منشی نے بڑے اجتماعات کو خطاب کرکے عوام کو علاقے کی ترقی کا خواب پھر سے سجانے کو کہا وہیں نہ جانے کتنے طلبا کے مستقبل داؤ پر بھی لگے ۔۱۲مارچ سے شروع ہوئے امتحانات آج پوری طرح سے ختم ہوگئے ۔بارہویں جماعت کے امتحانات جمعرات کو ہی اختتام پذیر ہوگئے تھے ۔لیکن اصل معاملہ امتحانات سے جڑی بدعنوانیوں کا ہے ۔جو جوں کا توں ہے اور نہ جانے کب تک اس کا خاتمہ ممکن ہو۔بارہویں جماعت کے امتحانات تو خیر کسی حد تک شفافیت بھرے رہے لیکن گیارہوں جماعت کے امتحانات خاص طور سے اردو میڈیم اسکولوں میں پور ی طرح سے ایک بار پھر غیر شفاف رہے ۔نقلوں کا سلسلہ جاری رہا اور طلبا کے مستقبل سے کھلواڑ کی ایک اور تاریخ رقم کی گئی ۔جس کی وجہ سے اردو میڈیم اسکولوں کا معیار بد سے بد تر ہوتا جا رہا ہے ۔گیارہویں جماعت کے امتحانات چوں کہ ہوم سینٹر میں ہوتے ہیں اس لئے اسکولوں کے اساتذہ نے نقل کرانے کو اپنی مجبوری بنا لی ہے ۔اساتذہ سال بھر کلاس نہیں لیتے اور امتحانات کے وقت انہیں طلبا کو نقل سے باز رکھنے کی جرات نہیں ہوتی ۔ان کے پاس نقل کرانے کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں رہ جاتا ہے ۔چاہے طلبا اور اردو کا کتنا ہی خسارہ ہوجائے ۔دوسری بات یہ کہ گیارہوں بارہوں جماعتوں کے امتحانات کے سوالنامے صرف انگریزی اور اور بنگلہ میں ہی دئے جاتے ہیں باوجود اس کے کہ امتحانات اردو میں دئے جاسکتے ہیں ۔اس فلسفے کے پس پشت کون سا نظریہ قائم ہے یہ تو ذمہ داران بورڈ اور اردو اکادمی ہی بتا سکتی ہے لیکن طلبا کو ایسے میں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پرتا ہے ۔کیوں کہ نہ وہ بنگلہ ٹھیک سے جانتے ہیں اور نہ انگریزی ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو سمجھ میں آیا وہ لکھ دیا اور جو سمجھ میں نہیں آیا اس کا خدا ہی حافظ ۔اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ رہی کہ گیارہویں جماعت کے ہر مضمون کے لئے ۲۰ نمبرات کا پروجیکٹ دیا گیا ہے بشمول تمام زبانوں کے سوائے اردو کے ۔صرف اردو ہی ایک ایسی زبان یا مضمون رہا جو پروجیکٹ سے محروم رکھا گیا ہے ۔طلبا یہ سوال کرتے دکھے کہ آخر اردو کو ہی پروجیکٹ سے محروم رکھنے کی وجہ کیا ہے ۔انہوں نے اپنا احتجاج درج کرایا اور ذمہ داران اردو اور بورڈ سے مطالبہ کیا کہ اردو میں بھی ۲۰ نمبرات کا پروجیکٹ دیا جائے ۔اس طرح انتخابی موسم میں جہاں ہر پارٹی کے امیدوار نئے پرانے وعدوں کی جھری لگا رہے ہیں کیا وہ ان مسائل پر بھی توجہ دیں گے یہ دیکھنے والی بات ہوگی ۔
http://baseeratonline.com/2014/03/29/%d8%b3%db%8c%d8%a7%d8%b3%db%8c-%db%81%d9%84%da%86%d9%84-%da%a9%db%92-%d8%af%d8%b1%d9%85%db%8c%d8%a7%d9%86-%d9%85%d8%ba%d8%b1%d8%a8%db%8c-%d8%a8%d9%86%da%af%d8%a7%d9%84-%d9%85%db%8c%da%ba-%da%af%db%8c/

Friday, 28 March 2014

چھت کی سیر..............انشائیہ از طیب فرقانی ؔ

مرزا محمد ہادی رسوا کے ناول امراؤ جان ادا کے بارے میں وقت کے لحیم شحیم نقّادوں نے کہا ہے کہ اس ناول میں طوائف کے کوٹھے کو مرکز بنا کر اس وقت کے لکھؤوکی سیر کرائی گئی ہے اور لکھنوی تہذیب کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔ میں گرمی کی ایک شام چھت پر بیٹھا تنقید کے بخار میں مبتلا تھا تبھی مجھے خیال آیا کہ ہند وستان کے بعض علاقوں میں چھت کو بھی کوٹھا کہا جا تا ہے ۔ پرانے زمانے میں جب کہ گاؤں دیہات میں صرف مٹی یا پھونس کے مکانات ہو اکرتے تھے، اگر کوئی پختہ مکان بنوا لیتا تھا تولوگ اسی کو کوٹھا کا نام دے دیتے تھے۔اور کوٹھی کی چھت کو کوٹھا کہنے لگتے تھے۔
تعجب ہے کہ امریکہ کے خلائی مشن سینٹر\"ناسا\"نے \"گاڈپار ٹیکل \" ڈھونڈ لینے کا جھانسا دیا اور مریخ پر زندگی کی تلاش کا دلاسا دیا مگر چھت اور اس کی قیمتی سر گرمیوں کو یکسر بھلا دیا ۔ چھت بڑی غیر معمولی جگہ ہے۔ چھت پر اگر آپ تنہا بیٹھ کر مومن کا یہ شعر گنگنائیں !
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا 
جب کوئی دوسر ا نہیں ہوتا
تو ساری کائنات آپ کو اپنی آغوش میں سمٹتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
چھتیں مختلف قسم کی ہوتی ہیں ۔ شہروں میں تو زیادہ تر پختہ چھتیں ہوتی ہیں لیکن ان چھتوں کے نیچے رہنے والے لوگ پختہ ہوتے ہیں یا نہیں اس امر کا سراغ پا لینا بڑا مشکل ہے۔ بشیر بدر نے اپنے من میں ڈوب کرایسے پختہ لوگوں کا سراغ پا لینے کی کوشش کی تھی اور اس نتیجے پر پہنچے تھے ۔
گھروں پہ نام تھے ،ناموں کے ساتھ عہدے تھے 
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا
میر تقی میر کا اجڑا دیار \"دلّی \"آج بہت ترقی کر گئی ہے ۔لیکن آج بھی یہاں آسمان کا بوسہ لیتی ہوئی چھتوں کے نیچے پلاسٹک کی چھتوں والی جھگّی جھونپڑیاں موجود ہیں ۔جو انسا نی مساوات اور ترقی کے ڈھونگ کومنہ چڑھاتی رہتی ہیں۔ اور چونکہ ان جھگیوں میں رہنے والے لو گ بے زبان ہوتے ہیں۔ اس لئے بلڈوزروں کی بے رحمی سیاسی آنکھیں بھی انہی جھگیوں کو تاکتی رہتی ہیں۔
جھگی جھونپڑیوں کے لئے ہندوستان کا ممبئی شہر بہت مشہور جہاں کل ممبئی کی تقریباََ ساٹھ فیصد آبادی ممبئی کی چھ فیصد زمین پر بنے مکانات کی چھت کے نیچے گزارا کرتی ہے۔ ایسے شہر کو جب لوگ عروس البلاد کہتے ہیں تو میرے ذہن میں ایسی دلہن کا تصور آتا ہے جس کاآنچل ہی میلا ہو ۔ایسی بستی کا شاعر جب اپنے معشوق کو چھت پر دیکھتا ہے تو اس کے قلم سے کچھ اس طرح کے اشعار نکلتے ہیں ۔
مایوسئی دل ،درد محبت ،ستم دوست
آلام زمانے میں مرے نام بہت ہیں
کچھ فرصت نظارہ ملے آنکھ کو تب نہ
جلوے تیرے مانا کہ لب بام بہت ہیں 
آپ سے امید کی جاتی ہے کہ \"لب بام\"کو آپ \" منی کا جھنڈو بام\"نہیں سمجھیں گے۔
آج دنیا بھر میں بڑھتے تشدد کے پس پشت بھی چھتوں کا بڑا کردار ہے۔ کچھ سالوں قبل تک چھتیں سیمنٹ کی نہ ہو کر چھپروں کی ہو ا کرتی تھیں۔ یہ چھتیں ٹھنڈی ہو اکرتی تھیں ۔تو لوگوں کے دماغ بھی ٹھنڈے رہتے تھے۔مزید یہ کہ ان چھتوں میں گوریّا اپنے گھو نسلے بنا کر انسان کو ہر وقت امن و شانتی کا پاٹھ پڑھایا کرتی تھیں۔ جب سے چھتیں سیمنٹ کی ہوئی ہیں ، گوریّا نے بوریا بستر باندھ لیا، گرمی میں اضافہ ہوا،اوپر سے بلڈ پریشر کی مار الگ، لوگوں کے دماغ اس قدر گرم رہنے لگے کہ ٹھنڈا ہونے کا نا م ہی نہیں لیتے ۔ اجی ! نمرود تو بڑا کمزور تھا کہ ایک معمولی مچھر سے مارا گیا ، آج کے نمرودں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سنامی کی ہوا بھی کم پڑ جاتی ہے۔
گرمی بڑھی تو اس نے سوچا کہ اب ہوا محل تعمیر کئے جائیں چنانچہ اس نے اپنی بلندی و برتری کی پیاس بجھانے کے لئے چھت پر چھت اس قدر تعمیر کی کہ \"ورلڈ ٹریڈ سینٹر\" اور \"برج الخلیفہ\" وجود میں آگیا۔ اب تو اس کے پاؤں زمین پر پڑتے ہی نہیں ہیں ۔ وہ ہوا میں معلق ہو کر ہوا ہوائی ہو گیا ہے۔
در اصل جب سے انسان میں ہو ا سے باتیں کرنے ، ہوائی چھوڑنے ، اور ہوّا کھڑا کرنے کی ہو ا سمائی ہے،اسے ہوا سے لڑنے اور ہوا پر گرہ لگانے کی ہوا و ہوس ہوگئی ہے۔ اور اس نے ہوا خور ی چھوڑ کر ہوا دینے کی عادت ڈال لی ہے۔
ہماری زندگی میں چھتوں کی بڑی اہمیت ہے ۔جانور بلوں ، بھٹوں اور غاروں میں رہتے ہیں ۔اور انسان کو روٹی اور کپڑا کے ساتھ چھت کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔حد تو یہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد بھی قبروں ، مقبروں اور مزاروں کی چھت کے نیچے رہتا ہے۔لیکن یہ بات ان لوگوں کے سمجھ میں بھی آنی چاہئے جو یو پی کے پرتاپ گڑھ میں مکانات کو چتاؤں کی طرح پھونک دیتے ہیں اور احمد آباد میں اس ولی دکنی کے مزار کوڈھا دیتے ہیں جن کو کاشی عین کوچۂ یار لگتا تھا ۔ اور جن کے محبوب کے رخ کا تل ہری دوار میں بسنے والا ہندو نظر آتا تھا ۔
کوچۂ یارعین کاسی ہے جوگئی دل وہا ں کا باسی ہے
اے صنم ! تجھ جبیں اُپر یہ خال ہندوے ہر دوار باسی ہے
لیکن یہ تو سب جانتے ہیں کہ جس کے پاس کوئی چھت نہ ہوآسمان اس کی چھت ہے ۔ ہندوستان کے پڑوس میں واقع تبّت کو \"Roof of the World\"دنیا کی چھت کہا جاتا ہے ۔ لیکن یہاں کے رہنما بے چارے دلائی لاما، میانمار میں بے چھت کئے جارہے مسلمانوں کو اپنے ہم مذہبوں سے نہیں بچا سکے کیوں کہ خود انہیں \"دو گز زمیں نہ ملی کوئے یار میں \"
ہم اپنے بہت سارے کا م چھتوں کے اُوپر انجام دیتے ہیں ۔ جیسے سردیوں میں دھوپ لینا ،اناج اور کپڑے سکھا نا ،دیوالی اور شب برات کے موقع سے دیئے اور موم بتیاں جلا کر چراغاں کرنا ۔ لیکن چھتوں کا تعلق ایسے کاموں سے بہت ہے جن کے نام میں لاحقے کے طور پر\" بازی \"آتا ہے ۔ جیسے پتنگ بازی کرنا اور بسا اوقات پتنگ بازی کرتے کرتے قلا بازی کھا جانا اور دن بھر پتنگ بازی کرتے رہنے کی وجہ سے ابّا جی کی طرف سے تھپڑ بازی ہو جانا۔
لیکن ان سب بازیوں میں عشق بازی کا اپنا الگ مقام ہے۔ عشق بازی کے لئے چھت ہمیشہ سے مناسب مقام رہا ہے۔ ۔چچا غالب اپنے معشوق کو چھت پر دیکھ کر پھولے نہیں سماتے تھے اور انہیں بار بار دیکھنے کی ہوس ہوتی تھی ۔
مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس 
زلف سیاہ رُخ پہ پریشاں کئے ہوئے
حسرت موہانی کا معشوق تو خود ہی چھت پر آجاتا تھا وہ بھی دو پہر کی دھوپ میں ننگے پاؤں۔
دو پہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے 
وہ تیر ا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
لیکن آج کا عاشق دو پہر کو نہیں آتا بلکہ رات کو موبائل لے کر چھت پر ہی صبح کر دیتا ہے۔چوروں کے ایک گروہ نے صرف اسی لئے چوری سے توبہ کر لی کہ رات کو چوری کے سارے مواقع پر ان موبائل والے عاشقوں نے پہرے بیٹھا دئے ہیں ۔ جو رات کو چوری چھپے اپنے معشوق سے عشق بازی فرماتے ہیں اور صبح دیر تک خواب بازی فرماتے ہیں ۔ اماں جگا جگا کر جب جھنجھلا جاتی ہیں تو یہ کہہ کر ابا جی کا فائدہ کر وا دیتی ہیں \"رات بھر پتا نہیں کس اماّں کے ساتھ لگا رہتا ہے اور دن میں پڑا سوتا رہتا ہے\"۔
چھت پر خوب صورت چاند دیکھنے کا خوبصورت رواج بھی ہے ۔ یہ سن کر آپ کے من میں لڈّو پھوٹے گا کہ ایک چاند تو مشبہ ہے اور ایک چاند مشبہ بہ ہے اور دونو ں کو دیکھنے سے دل کو سکون ملتا ہے۔ایک عاشق نے تو ڈر کے مارے اپنے ماہ جبیں سے کہہ دیا تھا ؂ 
ماہ نو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہر گز
شہر میں عید کی تاریخ بدل جائیگی

لیکن چھت پر چاند دیکھتے وقت اس بات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ کہیں چاند کے ابّا نہ ٹپک پڑیں، ورنہ چاند کے بجائے تارے نظر آجائیں گے۔ ہمارے ایک بزرگ شاعراظہر شاہ خاں نے ایسے ہی ایک تجربے کا ذکر فرمایا ہے کہ ؂
چاند رات آئے تو سب دیکھیں ہلال عید کو
ایک ہمارا ہی نصیبہ ہڈیاں تڑوا گیا
چھت پہ ہم تھے چاند کے نظارے میں کھوئے ہوئے
بس اچانک چاند کا ابّا وہاں پر آ گیا
ریسرچ اسکالر: شعبۂ اردو، 
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۲۵

مغربی بنگال میں اب پرائمری ٹیٹ بھی خطرے میں

(طیب فرقانی بیورو چیف بصیرت آن لائن حلقہ شمالی دیناج پور )
مغربی بنگال کے بورڈ آف پرائمری ایجوکیشن نے نوٹس جاری کرکے اعلان کیا ہے کہ الیکشن کی وجہ سے پرائمری ٹیٹ غیر معینہ مدت کے لئے موخر کردیا گیا ہے ۔واضح ہو کہ بورڈ نے ۱۸؍فروری ۲۰۱۴ کو پرائمری ٹیچر کے لئے اہلیتی امتحانات کا اعلان کیا تھا ۔جس کے مطابق ۳۰؍مارچ ۲۰۱۴ کو امتحانات منعقد ہونا تھے جس میں وہ سارے امیدوار بھی شرکت کرنے والے تھے جو پچھلے امتحانات میں ناکام رہے تھے اور نئے امیدواروں کے لئے الگ سے رول نمبر اور امتحانات کے مقامات کا اعلان کرنا باقی تھا ۔عجیب بات یہ ہے کہ اس طرح کے تمام امتحانات میں حکومت کی لاپرواہیوں اور حکومت مخالف لابیوں کی وجہ سے مقدمات کا ایک طول سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔نتیجے میں عام آدمی بس امیدوں کے سہارے جیتا رہتا ہے ۔اس بار کا پرائمری ٹیٹ بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا ۔آخر کار اسی ہفتے کولکاتا ہائی کورٹ نے یہ حکم دیا کہ پرائمری ٹیٹ اپنے وقت پر ہی کرائے جائیں اور تربیت یافتہ امیدواروں کو ہی ترجیح دی جائے ۔اس حکم کے بعد ان تمام لوگوں نے راحت کی سانس لی تھی جو ٹیٹ کی تیاری کر رہے تھے اور اس شش و پنج میں تھے کہ امتحانات منعقد ہون گے یا نہیں ۔لیکن اچانک ہی حکومت نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور پھر سے ٹیٹ امتحانات کو موخر کردیا گیا جس کی وجہ سے امیدواروں میں اضطراب پایا جاتا ہے ۔امیدواروں کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کی ناکامی ہے جو عوام کو دھوکہ دے کر ووٹ بٹورنے کی سیاست کر رہی ہے ۔اگر الیکشن کی وجہ سے ہی امتحانات موخر کرنا مان لیاجائے تو کیا حکومت کو الیکشن کی خبر پہلے سے نہ تھی ۔ایسے ہی ایک امیدوار اکبر نے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اعلانات کر کے حکومتیں عوام کو اس دھوکے میں رکھتی ہیں کہ وہ ان کی خیر خواہ ہے اور پھر کوئی بہانہ بنا کر امتحانات موخر کردئے جاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جو کام پچھلی حکومت کر رہی تھی وہی موجودہ حکومت دہرانے میں لگی ہے اور مغربی بنگال کو ہر سطح پر پیچھے لے جایا جارہا ہے ۔واضح ہو کہ بورڈ کی ویب سائٹ بھی غیر فعال رہتی ہے ۔اور وقت پر امیدواروں کو اطلاعات نہیں مل پاتی ہے ۔
ذیل میں لنک ملاحظہ کریں

http://baseeratonline.com/2014/03/28/%d9%85%d8%ba%d8%b1%d8%a8%db%8c-%d8%a8%d9%86%da%af%d8%a7%d9%84-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%a7%d8%a8-%d9%be%d8%b1%d8%a7%d8%a6%d9%85%d8%b1%db%8c-%d9%b9%db%8c%d9%b9-%d8%a8%da%be%db%8c-%d8%ae%d8%b7%d8%b1%db%92/

Monday, 24 March 2014

تعلیم بھی سیاسی آلودگی کا شکار

(طیب فرقانی ،بیورو چیف بصیرت آن لائن حلقہ شمالی دیناج پور )
انتخابی موسم نے جہاں دوسرے شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا ہے وہیں تعلیم پر بہت برا اثر ڈالتے رہے ہیں ۔مغربی بنگال میں ٹیچر اہلیتی امتحانات کو اسی زاویے سے دیکھا جا رہا ہے ۔واضح ہو کہ مغربی بنگال میں موجودہ حکومت نے پرائمری ، اور ثانوی اسکولوں میں اساتذہ کی بحالی کے لئے بالتر تیب ۸؍فروری ۲۰۱۴ اور ۲۹؍جنوری ۲۰۱۴ کو نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا ۔جس کے مطابق پرائمری سطح کے لئے ۳۰؍مارچ ۲۰۱۴ اور ثانوی سطح کے لئے ۹؍مارچ ۲۰۱۴ کو اہلیتی امتحانات ہونے تھے ۔ان خبروں کے آنے کے بعدمعلمیکے امیدوار امتحانات کی تیاری میں جٹ گئے ۔ہزاروں لڑکوں اور لڑکیوں نے اپنے گھر سے دور کرایے کا مکان لے کر تیاری شروع کر دی ۔لیکن بد قسمتی سے ثانوی سطح کے اہلیتی امتحانات سے ٹھیک چار روز قبل تاریخ میں یہ کہہ کے ترمیم کر دی گئی کہ حالات ناساز گار تھے ۔اور اب اگلی تاریخ ۲۹؍ مارچ ۲۰۱۴ کی ہوگی ۔یہاں تک تو سب ٹھیک ٹھاک تھا ۔لیکن اسے حکومت کی لاپرواہ کہیں یا سوچی سمجھی حرکت کہ اب اس تاریخ میں بھی لوگ اہلیتی امتحانات نہیں دے سکیں گے ۔اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ دے بھی پائیں گے یا نہیں ۔چوں کہ قومی کونسل برائے تربیت اساتذہ (این سی ٹی ) کی ہدایات کے مطابق ۳۱؍ مارچ ۲۰۱۴ کے بعد غیر تربیت یافتہ اساتذہ کی تقرری نہیں ہوسکے گی ۔اور چوں کہ اس بار منعقد ہورہے امتحانات میں غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے لئے بھی اسامیاں نکالی گئی ہیں ۔اب سوال یہ تھا کہ کیا ۲۹؍ مارچ کو منعقد ہورہے اہلیتی امتحانات این سی ٹی کی ہدایات کو مد نظر رکھ کر لیے جا رہے ہیں یا نہیں اسی کو لیکر کولکاتا ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر کے اسے غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔جس پر ۱۹ مارچ کو حکم امتناعی جاری کر دیا گیا ۔اور حکومت سے کہا گیا کہ وہ ۲۵ ؍اپریل تک جائزہ لے کر اپنا جواب داخل کرے ۔اس خبر نے امیدواروں میں اضطراب پیدا کر دیا ۔کیوں کہ اپریل میں ہی عام انتخابات ہونا ہیں ۔ایسے میں امیدواروں میں کافی مایوسی پائی جارہی ہے اور وہ اپنی تیاری چھوڑ کر دوسرے کاموں میں لگ گئے ہیں ۔جب کہ اپوزیشن نے اسے حکومت کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ قرار دیا ہے ۔فارورڈ بلاک کے ایم ایل اے علی عمران نے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ حکومت سیاسی چال چل رہی اور ریوینو حاصل کرنے کی غرض سے اس نے اسامیاں نکالی تھیں اور اب خود حکومت کے کارندے نے اس پر اسٹے آرڈر لے لیا تاکہ عوام کو یہ باور کرایا جا سکے کہ وہ ان کی خیر خوا ہ ہے لیکن قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے امتحانات میں تاخیر ہورہی ہے ۔اس سلسلے میں الزامات درست ہوں یا نہ ہوں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کرنے سے قبل ان قانونی پیچیدگیوں کا جائزہ نہیں لیا تھا ۔اگر لیا تھا توآخری وقت سے قبل ہی کیوں نہیں امتحانات منعقد کئے گئے اور اگر نہیں لیا تھا تو کیا حکومت کو اتنی فرصت نہیں ہے کہ وہ عوام کے حق میں فیصلہ کرتے وقت قانونی پیچیدگیوں کا جائزہ لے سکے ۔واضح ہو کہ مغربی بنگال میں ائمہ اور موذنین کی امدادی تنخواہ کے سلسلے میں ممتا حکومت کا یہی لاپرواہی والا رویہ رہا ہے ۔ایسے میں عوام کی خیر خواہ کہی جانے والی حکومتیں تعلیم کو بھی سیاست کے میدان میں لاکر اپنا الو سیدھا کرنے میں لگی ہوئی ہیں ۔جو ایک افسوسناک رویہ ہے ۔
لنک ملاحظہ کریں

ترنمول کانگریس فرقہ پرستوں کا دامن تھام لے گی۔محمد سلیم

(طیب فرقانی،بیورو چیف بصیرت آن لائن حلقہ شمالی دیناج پور)
کانگریس سرمایہ داروں کی پارٹی ہے اور بی جے پی فرقہ پرست جب کہ ترنمول کانگریس کا ایجنڈہ فرقہ پرستوں کو مضبوط کرنا ہے ۔ان خیالات کا اظہار آج سی پی آئی ایم کے لیڈر محمد سلیم نے کیا ۔وہ اتر دیناج پو ر کے لوک سبھا حلقہ انتخاب رائے گنج کے گوال پوکھر بلاک میں سی پی آئی ایم کے کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے ۔انہوں نے کانگریس کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقے میں کانگریس کی امیدوار دیپا داس منشی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ کانگریس کی حالت پورے ملک میں خستہ ہے اور اس بار اسے کوئی بھی طاقت بار آور ہونے میں معاون نہیں ہوسکتی ۔کانگریس نے ٹو جی اسپیکٹرم ،کامن ویلتھ گیم اور کوئلہ بلاک جیسے تباہ کن گھپلوں گھوٹالوں کی ایک تاریخ رقم کی ہے ۔جس سے نہ صرف ملک کی معاشی حالت خراب ہوئی ہے بلکہ غریب اور زیادہ غریب ہوتے چلے گئے ہیں ۔اس لئے اس بار سی پی آئی ایم نہ صرف کانگریس کو کراری شکست دے گی بلکہ ملک کے غریب عوام کے حقوق کو ایوان بالا تک پہنچائے گی ۔انہوں نے مودی اور بی جے پی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ بی جے پی ایک فرقہ پرست اور سرمایہ دار پارٹی ہے ۔جس کے پی ایم امیدوار کے لئے ٹی وی پراسی طرح اشتہارات دئے جارہے ہیں جس طرح صابن اور شیمپو کے اشیا کا اشتہار دیا جاتا ہے ۔محمد سلیم نے کارکنوں میں جوش بھرتے ہوئے کہا کہ آپ سب خود کو سلیم سمجھ کر انتخابی مہم میں پوری طرح جٹ جائیں ۔واضح ہو کہ رائے گنج کا حلقہء انتخاب مغربی بنگال میں کانگریس کی قابل اعتماد اور مضبوط سیٹ رہی ہے۔یہاں سے پریہ داس رنجن منشی لگاتار دوبار ایم پی رہے ہیں اور ان کی شدید علالت کی وجہ سے تیسری بار ان کی اہلیہ دیپا داس منشی موجودہ ایم پی ہیں ۔لیکن علاقے سے ان کی بے تعلقی کی وجہ سے یہ علاقہ پس ماندہ ترین علاقوں میں شمار ہونے لگا ہے ۔جس کی وجہ سے عوام میں کافی ناراضگی پائی جاتی ہے ۔اسی کے مد نظر سی پی آئی ایم نے اس بار بنگال کے اپنے قد آور لیڈر محمد سلیم کو میدان میں اتارا ہے ۔اس علاقے میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ہونے کی وجہ سے مانا جاتا ہے کہ محمد سلیم کو مسلم چہرہ ہونے کا فائدہ مل سکتا ہے ۔جیت ہار کا فیصلہ تو یہاں کے ووٹر ہی کریں گے لیکن جس طرح سے ہر پارٹی کے امیدوار ووٹروں سے نئے نئے وعدے کر کے ان کو استعمال کر تے رہیں ہیں اس نے ووٹروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا ہے ۔انتخابی مہم کے آخری دنوں میں پیسے بانٹنے کا شیطانی کھیل بھی کھیلا جاتا ہے جس سے چند پیسوں کے لالچ میں غریب عوام دھوکہ کھا جاتے ہیں اور علاقے کی پس ماندگی جوں کی توں بنی رہتی ہے ۔محمد سلیم نے بھی اس ’’انتخابی رشوتانہ کھیل ‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ چند پیسوں کے لالچ میں نہ آئیں اور ایسے لوگوں کو اس الیکشن میں ہراکر کرپشن کو مٹانے میں سی پی آئی ایم کا ساتھ دیں ۔انہوں نے فرقہ پرستی کا خاص طور سے ذکر کیا اور کہا کہ سی پی آئی ایم نے اپنے دور اقتدار میں ایسے لوگوں کو پنپنے نہیں دیا ،اس کے بر خلاف موجودہ حکومت نے کولکاتا کے بریگیڈ میدان میں مودی کی ریلی ہونے دی ۔در اصل موجودہ حکمران پارٹی کی سربراہ ممتا بنرجی پی جے پی اور آر ایس ایس کا دوسرا چہرہ ہیں ۔جو الیکشن کے بعد بی جے پی کا دامن تھامنے میں دیر نہیں کریں گی ۔انہوں نے نریندر مودی کے اس بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے بنگالی عوام سے اپیل کی تھی کہ انھیں دہلی میں اور ممتا جی کو بنگال میں مضبوط بنائیں ۔چوں کی رائے گنج حلقہ انتخاب سے اس بار سماجوادی پارٹی بھی میدان میں ہے اس لئے محمد سلیم نے مظفر نگر فساد کا حوالہ دیتے ہوئے ملائم سنگھ اور ان کی پارٹی کو بھی فرقہ فرست کہا ۔اس بار کا لوک سبھا الیکشن اس حلقے میں اس لئے بھی دل چسپ مانا جارہا ہے کہ کانگریس کی امیدوار دیپا داس منشی کے دیور ستیہ داس رنجن منشی ا ن کے خلاف ترنمول کانگریس سے امیدوار ہیں جس پر چٹکی لیتے ہوئے محمد سلیم نے کہا کہ عوام دیور بھابھی کے اس کھیل کو اس بار پوری طرح ناکام بنا دے گی ۔محمد سلیم نے اردو طبقے کا خیال کرتے ہوئے اردو اور بنگلہ دونوں زبان میں تقریر کی ۔واضح ہو کہ مغربی بنگال میں اردوداں طبقہ سی پی آئی ایم کی اردو سے بے اعتنائی سے نالاں رہاہے یہی وجہ ہے کہ محمد سلیم کا انتخابی اشتہار جگہ جگہ اردو میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے ۔انہوں نے اپنی پارٹی کی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے عوام سے ایک موقع مانگا ۔اب عوام ان کو یہ موقع دے گی یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہاں موجود کارکنوں میں جوش بھر نے کے لئے محمد سلیم کافی محنت کرتے ہوئے دکھائی دئے ۔اس موقع پر سی پی آئی ایم سے منسلک فارورڈ بلاک کے ایم ایل اے محمدعمران اور بلاک اور ضلع سطح کے کارکنان کے ساتھ کامریڈ ماسٹر شبیر احسن بھی موجود رہے ۔
لنک ملاحظہ کریں

اتر دیناج پور میں تعلیم پر اثر انداز ہوتیں سیاسی سرگرمیاں

ابھی حال ہی میں بصیرت آن لائن اردو پورٹل نیوز پیپر کے لئے رضا کارانہ طور پر بطور بیورو چیف حلقہ شمالی دیناج پور سے خبریں دینے  کا عمل شروع کیا ہو اسی تعلق سے اس کالم ان خبروں کا سلسلہ اپنے بلاگ کے قارئین کے لئے شروع کر رہا ہوں تاکہ طیب فرقانی کی باتیں آسانی سے ان تک پہنچ جائیں ۔۔۔۔۔پہلی خبر مندرجہ ذیل سرخی کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں 

                                                                اتر دیناج پور میں تعلیم پر اثر انداز ہوتیں سیاسی سرگرمیاں 

مغربی بنگال کے ضلع اتر دیناج پور کے رائے گنج حلقے میں ملک کی دیگر ریاستوں اور علاقوں کی طرح انتخابات کے پیش نظر سیاسی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں ۔یہاں سے ملک کی چھوٹی بڑی متعدد پارٹیوں نے اپنے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے ۔خاص بات یہ ہے کہ علاقے میں مسلم ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ۔جس کی وجہ سے آسام میں اپنی حیثیت منوا لینے والی مسلم مسائل پر ارتکاز کرنے والی نسبتا جدید پارٹی یوڈی ایف ،جو مولانا بد ر الدین اجمل کی پارٹی کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، نے بھی اس بار لوک سبھا کے الیکشن میں اس علاقے سے اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے ۔یو ڈی ایف کے امیدوار سید ضمیر الحسن نے اس علاقے میں اپنی میٹینگیں کرنی شروع کردی ہیں ۔دوسری طرف کانگریس کی مضبوط سمجھی جانی والی امید وار دیپا داس منشی اور سی پی آئی ایم سے محمد سلیم اپنی اپنی دعوے داری کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں جٹے ہوئے ہیں ۔جیت کا تمغہ کسے ملے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ اس علاقے میں انتخابی موسم تعلیم کے لئے موسم خزاں بن کر آتا ہے ۔سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا مسئلہ ویسے ہی کمزور رہتا ہے لیکن انتخابی موسم میں اس پر خزاں کا موسم اور گہرا ہوجاتا ہے۔جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں اساتذہ پوری آب و تاب سے نہ صرف سیاست میں دل چسپی لیتے ہیں بلکہ اس میں عملی حصہ لے کر کسی امیدوار کو جیت دلانے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں ۔اساتذہ کا سیاست سے لگاؤ بچوں کی تعلیم پر برا اثر ڈالتا ہے ۔کیوں کہ اساتذہ اپنی سیاسی سرگرمیاں انجام دینے کے سلسلے میں میٹینگوں اور جلسوں میں شریک ہوتے ہیں اور اسکولوں سے غائب رہتے ہیں ۔سیاسی شخصیت ہونے کی وجہ سے اپنے اثر رسوخ کا استعمال کر کے وہ اسکول انتظامیہ اور صدر مدرس کو قابو میں رکھتے ہیں ۔ان کا اپنا تو بھلا ہوجاتا ہے لیکن قوم کے نو نہالوں کا جو ہوتا ہے وہ تو علاقے کی تعلیمی صورت حال ہی بتا تی ہے ۔کہتے ہیں کہ یہاں دو ہی پیشے کامیاب ہیں ،معلمی اور سیاست ۔جس میں نہ کوئی رسک ہے اور نہ کھونے کا کوئی غم ۔کل وقتی گارنٹی ۔یہی وجہ ہے کہ آج کل اسکولوں میں اساتذہ کی غیر حاضری کی شرح بڑھی ہوئی ہے ۔ایسے میں مسلمان یہ امید کرتے ہیں کہ کسی طرح کوئی چمتکار ہوجائے اور ان کی پس ماندگی دور ہو ۔لیکن وہ چمتکار کرے گا کون یہ دیکھنے والی بات ہوگی ۔
ذیل میں لنک بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے

Monday, 3 March 2014

سیکڑوں مسلم طلبا و اساتذہ جمعہ کی نماز سے محروم

مکرمی!
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ۔یہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی کا پورا حق حاصل ہے ۔اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جہاں کہیں فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ یا خلل پڑے اسے دور کیا جائے ۔اب آئیے اس تحریر کے مقصد کی طرف۔مغربی بنگال میں آج کل سکنڈری بورڈ کے تحت دسویں (مدھیامک ) کے امتحانات جاری ہیں ۔اس کا آغاز ۲۴؍فروری سے ہوا۔۲۷؍فروری کو ہندو مذہبی تہوار ’’شبھ راتری‘‘ کی وجہ سے امتحانات معطل رہے یا یوں کہیں کہ چھٹی رہی ۔جب کہ ۲۸ ؍فروری کو جمعے کے دن امتحانات جاری رہے ۔چوں کہ امتحانات کا وقت دن کے ۱۲؍بجے سے شروع ہوکر تین بجے تک جاری رہتا ہے ۔اسی دوران جمعے کی نماز کا وقت بھی ہوتا ہے ۔ایسے میں وہ مسلم طلبا جو اس بار دسویں (مدھیامک) کے امتحانات میں شامل ہوئے ہیں وہ نماز جمعہ ادا کرنے سے قاصر رہے کیوں کہ جمعے کی نماز کے وقت وہ امتحانات میں مصروف رہے ۔یہ ان کا مذہبی حق تھا جو امتحانات کی نذر ہوگیا ۔اس سے نہ صرف طلبا متاثر ہوئے بلکہ سینکڑوں وہ مسلم اساتذہ بھی متاثر ہوئے جو ممتحن کی حیثیت سے مقرر ہوئے ہیں ۔ایسی صورت میں اس کی ذمہ داری کون لے گا؟کیا اس کا ذمہ دار بورڈ کو ٹھہرایا جانا چاہئے ،حکومت کو یا پھر ان مسلم ارباب اقتدار کو جو وزیر اعلی کی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملاتے پھرتے ہیں اور انھیں مسلم عوام کی کوئی فکر نہیں ہے ۔تعجب ہے کہ موجودہ حکومت کے مسلم حامیوں میں مولانا برکتی جیسے اونچی پہنچ والے علما بھی شامل ہیں اور کسی کی بھی توجہ اس بات کی طرف نہیں گئی کہ وہ حکومت یا بورڈ کو توجہ دلاتے کہ جمعے کے دن کا یا تو شیڈیول ہی نہ رکھیں یا پھر اوقات میں ترمیم کریں ۔مثلا جمعے کے دن اگر امتحانات ہوں تو یا ۹بجے سے شروع ہوں اور بارہ بجے تک ختم ہوجائیں یا دو بجے سے شروع ہوں اور پانچ بجے ختم ہوجائیں ۔اس طرح مسلم طلبا اور اساتذہ جمعے کی نماز ،جو ان کا مذہبی فریضہ ہے، ادا کرسکیں ۔در اصل جمعے کی نماز جماعت سے ہی ادا کی جاسکتی ہے ۔جب کہ دیگر نمازوں کے کے لئے گنجائش موجود ہے ۔اس لئے خاص طور موجودہ حکومت میں شامل مسلم رہنماؤں کو اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ آئندہ کے شیڈیول میں وہ بورڈ یا حکومت کو اس کی طرف متوجہ کریں ۔ابھی مارچ میں ہائر سکنڈری کے امتحانات بھی ہونے والے ہیں ۔اس لئے بر وقت توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ورنہ مغربی بنگال میں مسلمانوں کو اس کا شدید نقصان اٹھا نا پڑے گا ۔
طیب فرقانی 
کانکی ،گوالپوکھر ،اتر دیناج پور ، مغربی بنگال

روزنامہ آبشار کولکاتا اور بصیرت آن لائن پہ شائع شدہ۔۔۔۔ذیل میں لنک دی جا رہی ہے

Wednesday, 26 February 2014

عبدل بھائی سے ایک مکالمہ۔۔انشائیہ

عبدل بھائی کا خاندانی نام عبدالمبین ہے ،لیکن وہ عبدل بھائی کے نام سے ہی مشہور ہیں۔تخفیف نام کے پس پشت بڑی لمبی داستان ہے ۔اجی کہیے کہ داستان امیر حمزہ بھی ہیچ ہے۔جتنے منہ اتنی باتیں۔کچھ تجزیہ کاروں کو اس کے پیچھے عالمی خفیہ ایجنسیوں موساد،ایف۔بی۔آئی،آئی ایس آئی وغیرہ کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ظاہر ہے جس کے پیچھے ایسی جھوٹی سچی اورقانونی غیر قانونی ایجنسیوں کا ہاتھ ہو ،اس کا نام کیا ،اس کا وجود ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا ۔کچھ تبصرہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہو نہ ہو یہ انہی لوگوں کا کام ہے جنہوں نے آئے دن ہندوستانی نوجوانوں کی بے جا گرفتاریا ں کرکے جیل بھرنے اور تمغہ حاصل کرنے کا شعار اپنا لیا ہے ۔کچھ لوگ اس کے پیچھے \"ماقبل جدیدیت \" جیسی ادبی وجہ مانتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں لوگ ناموں کو بکری کی طرح چباکر بولنے کے عادی ہیں ۔کچھ مغرّبین یعنی مشرقی انگریز پرستوں کا خیا ل ہے کہ یہ Shortsپہننے والوں کی تقلید میں Short Formا پنانے کا نتیجہ ہے ۔بہر حال وجہ جو بھی ہو یہاں ان کا پورا نام نقل کرنا ضروری ہے تاکہ آنے والی نسل کے لئے مشعل راہ ہو۔(چاہے موجودہ نسل کے لئے ہو،نہ ہو)چوں کہ یہ قدیم واہی تباہی شاہی خاندان کے چشم و چراغ(آنکھ اور لالٹین )ہیں ،اور ان کو ملکی ،غیر ملکی،سیاسی ،سماجی اور ادبی تمغوں طغروں سے نوازاگیا ہے ،اس لئے ان کے نام کے سابقے لاحقے فیلانہ اور فرسانہ ہیں ۔۔۔۔نواب تنگ وجنگ بہادر ،لاغر ولاچار عبدالمبین عرف عبدل بھائی سالار،ہفت ہزاری ،پہاڑی ،نقادی وافسانوی وغیرہ۔۔۔
حالاں کہ وہ کسی تعارف کے محتاج و حقدار نہیں مگر چوں کہ وہ آئندہ نسل کی آبیاری کریں گے اور ان کے لئے راستے کا روڑا نہ بن کر نشان راہ بنیں گے ،اس لئے مکمل تعارف ضروری ہے تاکہ سند رہے ،اور ان کے جسمانی حجم کی طرح موٹے حروف میں ان کا نام لکھا جائے ۔
اس سرسری تعارف کے بعد اب ان کی خدمات عظیمہ وجلیلہ (بر وزن قلیلہ و رذیلہ)دیکھیں ۔یقین ہے ایک ہی جھلک میں آنکھیں خیرہ ہوجائیں گی۔(خدا نہ کرے)۔۔۔ان کی خدمات کا اعتراف بڑے بڑے سیاست دانوں ،شاعروں ،ادیبوں نے ہوٹلوں ،قہوہ خانوں ،سیلونوں اور چوراہوں پر بیٹھ کر ،کھڑے ہوکر کیا ہے ۔ادبی اور اقتباسی زبان میں کہیں تو ایسی ہی شخصیات کی تعریف میں رشید حسن خاں نے فرمایا ہے :
’’یہ حضرات علم اور دریافت سے زیادہ ہاتھ کی صفائی پر ایمان رکھتے ہیں ۔
تھوڑا سا سماجی پس منظر دکھایا ،کچھ لسانیاتی انداز کی گفتگو کرلی،کسی طالب علم 
سے ا صل متن نقل کرالیا اور باقی کام تو کاتب کرہی لیا کرتا ہے ‘‘۔ 
ان کی سیاسی سماجی خدمات کی جھلکیاں بھی جھانکیوں کی شکل میں ٹی و ی چینلوں پر نظر آتی رہتی ہیں ،جن کے عوض متعدد بار ٹی وی اینکروں اور نیوز ایڈیٹروں کو ’’رشوتانہ انعام ‘‘لیے اور دیے گئے ہیں ۔ایسی عجیب و غریب شخصیت سے ہمارے ہفت روزہ اخبار نوائے بے ادب کے (سب ایڈیٹر نہیں )ایک ایڈیٹر شاہد جھنجھٹ نے انٹر ویو لیا ہے ۔پیش ہیں انٹر ویو کے خاص اقتباسات۔
شاہد جھنجھٹ:جناب آپ ملک کی نامور (بر وزن جانور)ہستی بننے والے ہیں ۔کشمیر سے کنیا کماری تک آپ کی شہرت کا طبلہ پیٹا جاتاہے ۔آپ کے دیوانے آپ کی دل چسپیوں ،مشغلوں سے واقف ہونا چاہتے ہیں کیا آپ قارئین کو بتا ئیں گے کہ آپ کو کن چیزوں کا شوق ہے ؟
عبدل بھائی:دیکھئے میرے شوق وقت و حالات کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں ۔آج کل مجھے فلموں کا بڑا شوق ہے ۔انگریزی میں ایک فقرہ ہے Have a sweet tooth یعنی میٹھے کا شوقین ہونا ۔میں نے ایک فقرہ تخلیق کیا ہے Have a cinema eye اور آپ کے سامنے ایک راز سر بستہ سے پردہ ہٹانا چاہوں گا کہ مجھے صرف فلمیں دیکھنے کاہی شوق نہیں بلکہ ادا کاری ،ہدایت کاری اور وہ۔۔۔۔کیا کہتے ہیں مکابازی ۔۔۔نہیں مکالمہ بازی کا بھی بے حد شوق ہے ۔فلموں کا شوق تو میں اسکرین پر پورا کرتا ہوں باقی سب خواب میں ۔
شاہد جھنجھٹ:جناب آپ کالج کے دنوں میں طلبا یونین کے لیڈر ہوا کرتے تھے ۔کیا آپ کو لگتا ہے کہ کالجوں یونیورسٹیوں میں طلبا کا انتخاب ہونا چاہئے؟
عبدل بھائی :انتخاب کا معاملہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے اکثر منتخب نمائندے بدعنوان ہیں ۔بدعنوانی کا لفظ عربی فارسی سے مرکب ہے ۔کسی شاعر نے کہا ہے ؂
عربی چھڑائے چربی فارسی نکالے تیل
اردو ہے کچھ کچھ ہندی ہے کھیل 
اس وقت دنیا میں مشہور کھیل کرکٹ ہے ۔کرکٹ کا ہم وزن لفظ گرگٹ ہے ۔گرگٹ رنگ بدلتا ہے ۔
جھنجھٹ:(بیچ میں ٹوکتے ہوئے)آپ کی اس برق زبانی سے یاد آیا کہ ادب میں شعور کی رو بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟
عبدل بھائی :دیکھو! شعور کی رو گرگٹ کے رنگ بدلنے کی طرح ہے ۔مثال کے طور پر رنگ سے آپ کا ذہن رنگ داری کی طرف جاسکتا ہے۔رنگ داری وصولنے والے کو رنگ دار کیوں کہتے ہیں۔طرح دار کیوں نہیں کہتے؟ اردو میں طرحی مشاعرہ ہوتا ہے ۔پطرس بخاری کے زمانے میں کتوں کا مشاعرہ ہوتا تھا۔ہمارے زمانے میں پارلیمنٹ میں مشاعرہ ہوتا ہے۔غالب کے تتبع میں ایسے ایسے مشکل اشعار پڑھے جاتے ہیں کہ ایک ایک شعر کو سمجھنے کے لئے صدر مشاعرہ پورا پورا سیشن ملتوی کر دیتے ہیں ۔پھر جب مشاعرے کا آغاز ہوتا ہے تو لوگ ایک دوسرے پر گرجتے برستے ہیں ،بھونکتے کاٹتے ہیں ۔اب کاٹنے کا تعلق دیکھئے! بسوں ٹرینوں میں جیب کترے جیب کاٹ لیتے ہیں ۔گھر میں بیوی جیب کاٹ لیتی ہے ۔آفس میں باس پگاڑ کاٹ لیتا ہے ۔حکومت سبسیڈی کاٹ لیتی ہے ۔حکومت اب بوڑھی ہوگئی ہے ۔افسوس کہ انا ہزارے بھی بوڑھے ہوگئے اور وزیر اعظم بننے کی خواہش میں اڈوانی جی جیسے کئی ایک نیتا بوڑھے ہوگئے ۔ 
شاہد جھنجھٹ:آپ کا سیاسی نظریہ کیا ہے ؟
عبدل بھائی :شروع شروع میں ہر سیاسی نظریہ اچھا لگتا ہے ۔کارل مارکس کا نظریہ تو اقبال کو بھی اچھا لگ گیا تھا ۔جبھی تو انہوں نے ’’ہر خوشہء گندم کو جلادو‘‘ والا شعر کہہ دیا ۔گویا گندم کو جلا دو اور گندم نما جو کو رہنے دو۔واہ ! یہ کوئی بات ہوئی۔
شاہد جھنجھٹ :موجودہ عالمی سیاسی منظرنامے پر آپ کچھ کہنا چاہیں گے ؟
عبدل بھائی :میں بس دنیا کے تمام حکمرانوں سے گزارش کروں گا کہ تھوڑا کم کھائیں ۔کھا کھا کر چمڑی موٹی نہ کریں ۔کم کھائیں گے تو کم بولیں گے ۔کم بولیں گے تو صوتی آلودگی بھی کم ہوگی اور بد امنی بھی کم پھیلے گی ۔دیکھئے ایک فی البدیہہ شعر ہوگیا ۔
ان کے بولے سے جو مچ جاتی ہے دنیا میں ہلچل 
لوگ سمجھتے ہیں کہ نیتا کی زبان اچھی ہے 
شاہد جھنجھٹ:سنا ہے کہ آپ محاوروں اور ضرب الامثال کو جدیدیانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔؟
عبدل بھائی:(بھڑکتے ہوئے)آپ جدیدیانے کی بات کر رہے ہیں ،ارے میں انہیں سائنٹفک بنانا رہا ہوں ۔مثال کے طور پر ’’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے ‘‘۔یہ تو گزرے زمانے کی بات ہے ،جب لوگ نیم وحشی ہوا کرتے تھے ۔اب پھونک کر کھانے پینے کو ڈاکٹر منع کرتے ہیں ۔اس سے بیکٹریا ان اشیا میں شامل ہوجاتا ہے ۔اس لئے یہ ضرب المثل نیم وحشی ہے ۔یہ نہ سمجھا جائے کہ ’’نیم وحشی ‘‘ کی ترکیب میں نے کلیم الدین احمد سے لی ہے ۔ایک اور مثال دیتا ہوں ۔نالائق بیٹے کو عاق کرنا۔اب اس عمل کے خلاف بیٹوں نے باپ کو اولڈ ایج ہوم میں عاق کرنا شروع کردیا ہے ۔اس لئے ان کو سائنٹفک بنانا ضروری ہے ۔
شاہد جھنجھٹ:کہا جاتا ہے کہ آپ قدح خوار شاعر ہیں ۔اس سلسلے میں روشنی ڈالیں۔
عبدل بھائی :ارے جناب یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی ۔مسئلہ یہ ہے کہ تحقیق کے مخالف تاثراتی نقادوں نے کسی شعر کو دیکھ کر فیصلہ کر دیا ہوگا ۔ویسے قدح خواری تو ہماری روشن روایت رہی ہے ۔آپ کو بتا ؤ ں کہ ہمارے ریختے کا ایک شاعر تھا بہرام بخاری ،جس کا تخلص ہی سقا تھا ۔کیا غزل کہی ہے ۔ایک شعر سنا تا ہوں ۔
رہ بسوئے دیر بردم بول پری 
درد درد بادہ خوردم بول پری
(قارئین سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ ’’بول پری ‘‘ کو بھل(بھول ) پڑے پڑھیں ۔ایڈیٹر)
غالب اور فراق قدح خوار نہ ہوتے تو کوئے یار میں خوار ہوتے پھرتے ۔مشاعروں میں بھی اسی شاعر کے ہاتھ پاؤں چلتے ہیں جس کو قدح خواری کا فن آتا ہو۔غرض کہ ہر فن کار کو پھن کاڑھنے کے لئے قدح خوار ہونا ضروری ہے ۔اقبال اگرچہ حقہ پیتے تھے اور فیض کو سگریٹ کے بغیر ترقی پسندی کا نشہ نہیں چڑھتا تھا ۔لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ ہم ان کی پگڑیاں اچھالتے پھریں ۔اب یہی دیکھئے کہ ریاض خیرآبادی جیسے شریف لوگوں کو ہم خمریات کا شاعر کہتے ہیں ۔
شاہد جھنجھٹ:آپ کی کوئی زیر طبع کتاب؟
عبدل بھائی :جی ہاں ! میری ایک نئی کتاب زیر طبع ہے ’’جوانی جو برسوں چلے‘‘۔
جھنجھٹ:جناب یہ تو کوئی جسمانی ٹانک کا نام معلوم ہوتا ہے ۔
عبدل بھائی :آپ ٹھیک سمجھے ۔آج کے نوجوانوں کی نادانیاں اور جوانیاں ہم معنی ہوکر رہ گئی ہیں ۔انہیں ملک و ملت کا مستقبل بنانے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں ٹانک دیا جائے ۔
کوئی شعر جو آپ کو بہت پسند ہو؟
عبدل بھائی :
کام کی بات میں نے کی ہی نہیں 
یہ میرا طور زندگی ہی نہیں

طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی 
اردو نیٹ جاپان پر شائع شدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذیل میں لنک بھی دی جارہی ہے 
http://urdunetjpn.com/ur/2014/02/23/tayyab-furqani-2/

Tuesday, 25 February 2014

پارلیمنٹ اور اسمبلی کی بےحرمتی میں روز بروز اضافہ

مکرمی!
پارلیمنٹ و اسمبلی کو مندر مسجد کی طرح مقدس کہا جاتا ہے ۔لیکن ان مقامات کی جس طرح بے حرمتی روز بروز بڑھتی جارہی ہے اس سے یہ تشویش لاحق ہوگئی ہے کہ کہیں ان کو ایک دن مسمار نہ کردیا جائے ۔جس طرح ہمارے ملک ہندوستان میں مساجد ،منادر اور دیگر مقدس سمجھے جانے والے مقامات کو سیاست کی آنچ پر ماضی میں چڑھایا جاتا رہا ہے ۔پارلیمنٹ و اسمبلی کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے ۔یہ بات تو طے ہے کہ مذہبی مقامات کی تقدیس کو ہر حال میں اولیت حاصل ہے اور اسی طرح پارلیمنٹ و اسمبلی کی تقدیس و حرمت کو برقرار رکھنا ہندوستانی جمہوریت کا مقدس فریضہ ہے ۔ان کی بے حرمتی پورے ہندوستان کی بے حرمتی ہے ۔ان مقامات میں بھیجے گئے عوای نمائندے عوام کی سوچ اور خیالات کی بھی نمائندگی کرتے ہیں اور اگر وہ ان مقامات کی توہین کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پورا ہندوستان اس میں ملوث ہے ۔اپنی بات منوانے کے لئے جمہوریت میں پر امن اور شائستہ طریقے سے بہت سے راستے ہیں لیکن ہٹ دھرمی اور دوسروں کی توجہ جلد مبذول کروانے کے لئے کسی ممبر اسمبلی یا پارلیمنٹ کو ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ بھرے مجمعے میں نیم برہنہ ہوجائے یا کسی کو تھپڑ ماردے یا مرچ کا سفوف اڑائے ۔سابق امریکی صدر جارج بش کو عراقی صحافی کے ذرئے جوتے مارے جانے کو بعد ہمارے ملک میں بھی اس طرح کے حربے اپنائے گئے ۔جس میں توجہ مبذول کرانے کا جذبہ بھی کہیں نہ کہیں کار فرماہوتا ہے ۔یہ بھی لائق تحسین عمل نہیں ہے ۔ملک کے نمائندے کو تھپڑ یا جوتا مارنا ایک قبیح عمل ہے اسی طرح پارلیمنٹ یا اسمبلی میں اخلاقی قدروں کی پاسداری ان سیاسی لیڈروں کے فرائض میں شامل ہے ۔اس کے لئے خصوسی توجہ کی ضرورت ہے ۔اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایسا عمل پھر نہ دہرایا جائے اس کے لئے خاص ضابطہ بنایا جانا چاہئے ورنہ ہمارے ملک میں اخلاقیات پر ’’لیکچر‘‘ دینا بے معنی ہوکر رہ جائے گا ۔اس سلسلے میں متعدد صحافیوں نے اپنی آرا کا اظہار کیا ہے اور ان اعمال کی مذمت کی ہے لیکن معاملہ ہے کہ روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے ۔اس کو ایک بھر پور آواز ایشو کے طور پر اٹھا نے کا وقت آچکا ہے ۔ہم عوام اپنے لیڈروں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسمبلی اور پارلیمنٹ کی اخلاقیات کی پاسداری کریں اور کسی بھی حال میں اس کی توقیر کی پامالی نہ ہونے دیں ۔
طیب فرقانی 
کانکی ،گوالپوکھر ،اتر دیناجپور ،مغربی بنگال
اخبار مشرق کولکاتا میں شائع شدہ (۲۵ فروری ۲۰۱۴)
                                                                                                  اخبار کا تراشا

Sunday, 9 February 2014

زنا بالجبر انسانیت کے ماتھے پر بد نما داغ

مکرمی !
جموڑیہ میں ہوئے حالیہ جنسی درندگی کی خبر آپ نے اپنے اخبار ’اخبار مشرق ‘میں پہلے صفحے پر شائع کی ہے ۔یہ صحافت کے میدان میں قابل ستائش عمل ہے ۔معاملہ یہ ہے کہ سیاست دانوں کے الٹے سیدھے بیان ہم پہلے صفحے پر پاتے ہیں اور خواتین کے ساتھ ہورہے ظلم و زیادتی کو اندرونی صفحے میں چھوٹی موٹی سرخی کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے ۔حالاں کہ خواتین کے ساتھ بڑھتی زیادتی کی خبریں نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع کی جانی چاہئیں ۔یہ ہمارے لئے لمحہء فکریہ ہے کہ خواتین کے ساتھ منظم زیادتیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں ۔ابھی حال ہی میں بیر بھوم ضلع کا بھیانک واقعہ انسانیت کے ماتھے پر ایک ایسا بد نما داغ بن چکا ہے ۔جسے افسوس کی کوئی مقدار دھو کر صاف نہیں کرسکتی ۔ایک خاتون وزیر اعلی کی حکومت میں ایک قبائیلی لڑکی کو جس طرح غیر مہذب اور بد ترین کھاپ پنچایت نے ذلیل و رسوا کیا ہے اس نے ہم ہندوستانیوں کا سر شرم سے جھکا دیا ہے ۔یہ کھاپ پنچایتوں کی غنڈہ گردی کی انتہا ہے ۔دہلی گینگ ریپ تو چند سرپھرے اور جنونی افراد کی بد ترین کارستانی تھی لیکن بیر بھوم کا واقعہ ایک مکمل سوچا سمجھا اور ہوش وحواس میں رچا گیا ایسا گھناؤنا عمل ہے جس کی ذمے دار نہ صرف نام نہاد کھاپ پنچایتیں ہیں بلکہ حکومت وقت بھی ہے ۔مغربی بنگال کی موجودہ حکومت کسی بھی طرح اس واقعے سے اپنا دامن نہیں بچا سکتی ۔ووٹ کے لالچ میں مسلح افراد کو کھلے عام اپنی مرضی سے فیصلے کرنے اور ایک متوازی عدالت قائم کرنے کا اختیار دینا حکومت کی دوغلی پالیسی ہے ۔کوئی بھی عدالت سخت سے سخت سزا جو دے سکتی ہے وہ موت ہے ۔لیکن بیر بھوم کی پنچایت نے اس قبائیلی لڑکی کے ساتھ زنا بالجبر اور وہ بھی کھلے عام مکمل تیاری کے ساتھ کرنے کا فیصلہ سناکر نہ صرف بد بختانہ حرکت کی ہے بلکہ اس لڑکی کو ہزار موت سے بدترین موت کی سزا سنائی ہے ۔اس کے لئے نہ صرف ان بد بختوں کو سزا ملنی چاہئے بلکہ حکومت کے زیر اثر ان تمام افراد کو اپنا احتساب کرنا چاہئے جو طاقت کے نشے میں چور ایک کمزور اور بے بس خاندان کی تباہی کا خاکہ بناتے ہیں ۔پولیس ان بد بختوں سے اس لئے ڈرتی ہے کہ انھیں حکومت کی سرپرستی حاصل ہے ۔یہ تو کھلی ہوئی ڈکٹیٹر شپ ہے نہ کہ جمہوریت ۔جمہوریت میں امن وقانون اور عدل و انصاف ہی اولین شرائط ہیں ۔کوئی حکومت اگر ان سے خالی ہے تو وہ یا تو کمزور ہے یا ڈکٹیٹر ہے ۔معاوضے کے چند حقیر سکے یا افسوس کے چند بے وزن بول اس قبائیلی لڑکی اور اس جیسی لڑکیوں کے درد کا کبھی مداوا نہیں ہوسکتے ۔لہذا حکومت نہ صرف ان بد بختوں کو قرار واقعی سزا دلوائے بلکہ اپنا حکومتی رویہ بھی بدلے ۔تاکہ مظلوموں کو انصاف مانگنے سے قبل ہی تحفظ حاصل ہو۔اصل معاملہ مظلوم کو انصاف ملنا تو ہے ہی اس سے زیادہ ضروری ہے کسی کو مظلوم نہ بننے دینا ۔
طیب فرقانی 
کانکی ،گوالپوکھر، اتر دیناج پور 

اخبارمشرق رانچی ۹فروری ۲۰۱۴ کے شمارے میں شائع شدہ


                                                                                                   اخبار کا تراشا