Showing posts with label افسانے. Show all posts
Showing posts with label افسانے. Show all posts

Monday, 12 November 2018

پھوڑا
افسانچہ
از طیب فرقانی
میں ایک چھوٹا پھوڑا ہوں. بالکل اس طرح سجا ہوا ہوں جیسے شوکیش میں مختلف قسم کے سامان سجے ہوتے ہیں یا ایسے جیسے فریج کے نچلے خانے میں مختلف قسم کی سبزیاں رکھی ہوتی ہیں. سب ایک ساتھ لیکن سب ایک دوسرے سے جدا. کچھ پھوڑے مجھ سے بھی چھوٹے ہیں اور کچھ مجھ سے بھی بڑے. بہت بڑے اور بہت چھوٹے بھی. ہم سے ہر ایک امتداد زمانہ کے ساتھ بڑا چھوٹا بھی ہوتا جاتا ہے. لوگوں نے ہمیں مختلف نام دیے ہیں. حالاں کہ میں چھوٹا ہوں لیکن مجھے ایک بڑا نام دیا گیا ہے. شاید میں اپنی کہانی آپ کو اسی لئے سنا پارہا ہوں کیوں کہ مجھ میں لوگوں کی بڑی دل چسپی ہے. میرا نام لوگوں نے زوال کا پھوڑا رکھا ہے. میری کہانی نہ صرف یہ کہ ہر کوئی سننا چاہتا ہے بلکہ ہر کوئی اپنی مرضی سے اپنی طرز ادا میں بیان بھی کرتا جاتا ہے. میں خود کنفیوز ہوجاتا ہوں کہ واقعی میں ایسا ہی ہوں یا لوگ میری کہانی میں مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں. میری اتنی کہانیاں ہیں کہ میری شناخت ہی کھوتی جارہی ہے. کسی کو تو میرے وجود پہ ہی شک ہے.
ہر دن لوگ میری کہانی ملک میں ہونے والے کسی واقعے یا حادثے سے جوڑ کر بیان کرتے ہیں. بالکل اسی طرح جیسے کوئی چھوٹی داڑھی والاادھیڑ عمر کا ٹی وی اینکر ڈرا ڈرا کر اور سنسنی پھیلا کر اپنی ٹی آر پی بڑھانےیا اسے برقرار رکھنے کے لئے کسی خاص تصویر کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ غور سے دیکھیے اسے یہی ہے وہ فلاں. ایسی صورت حال میں مجھے خود ہی اپنے آپ سے گھن آنے لگتی ہے. کیسی عجیب و غریب بات ہے کہ پھوڑے سے سبھی گھن کھاتے ہیں. اگر پھوڑا خود سے ہی گھن کھانے لگے تو اسے ڈوب مرنا چاہئے. لیکن میں انسانوں کی طرح بزدل نہیں ہوں کہ خود کشی کرلوں. میرے لئے رام بان نسخہ ایک ہی ہے. نشتر. یہ بات سچ ہے کہ نشتر جو لگاتا ہے وہ دشمن نہیں ہوتا. لیکن نادان دوست کا کیا؟ وہ تو نشتر لگانا ہی نہیں جانتا. اس کے سارے نشتر کند ہوگئے ہیں. اتنی بات تو ایک بے وقوف بھی جانتا ہے کہ پھوڑے کا علاج کدال سے کرنے کا انجام مزید پھوڑوں کو دعوت تخلیق دینا ہے. میں نے بڑی مشکل سے اپنی کہانی سنانے کا آغاز کیا. لیکن اسے کسی نے بڑی صفائی سے چوری کرلی. آپ دیکھو گے کہ مری کہانی کا مصنف کوئی اور ہے. میں دل برداشتہ ہوں. پھر کبھی....
حاکم
افسانچہ
طیب فرقانی
متوسط روشنی کے برقی چراغ اپنا منہ اس طرح بنائے ہوئے تھے گویا کسی نے اسے تھپڑ ماردیا ہو. اکتوبر مہینے کی آخری تاریخ. مظفرپور کے ایک گاؤں میں شامیانے
کے نیچے سرخ رنگ کی کرسیاں سجی ہوئی ہیں جن پہ گاؤں کے بوڑھے بزرگ ایسے بیٹھے ہیں جیسے کوئی بہت بڑی بات سننے کے بعد فکر میں ڈوبے ہوں.
سامنے چوکی جوڑ کر اسٹیج بنایا گیا ہے. پلاسٹک کے بنے پھولوں کے گل دستے رکھے ہیں. چوکی پہ رنگ برنگی چادر بچھی ہوئی ہے اور دو تکیے بھی رکھے ہیں. اگر بتی کی خوش بو ہوا میں رچی بسی ہے بیچ میں ایک کرسی پر ادھیڑ عمر کے حضرت جی جن کے چہرے پہ کالی سفید داڑھی ہے اور گلے میں نیتاؤں جیسا گمچھا پڑا ہوا ہے، تقریر فرمارہے ہیں.ان کے ٹھیک سامنے گاؤں کے وارڈ ممبر سفید کرتا پاجامہ پہنے جلوہ افروز ہیں. ان کے گھر پہ میلاد ہے. ماحول کچھ سوگوار ہے کیوں کہ ممبر صاحب کی بوڑھی ماں کا چالیسواں ہے. لیکن ممبر صاحب اچھل اچھل کرحضرت جی کی تقریر پر داد دے رہے ہیں. اور سبحان اللہ اللہ اکبر کے نعرے بلند کر رہے ہیں. ایسا لگتا ہے ممبر صاحب پورے جوش و خروش میں ہیں.
حضرت جی فرمارہے ہیں "مرد مون کبھی مرتا نہیں. زبیدہ نے بہلول سے جنت خریدی. میرے پیر و مرشد ایسے اعلا درجے کے صاحب کرامت بزرگ تھے کہ جب ان کا انتقال ہوا تو لنگی کو اپنے ہاتھوں سے گھٹنوں پہ اس طرح دبائے ہوئے تھے جیسے کوئی زندہ آدمی پکڑے ہوتا ہے کیوں کہ وہ وفات پاکر بھی اپنی تقوی شعاری کا خیال رکھتے ہیں اور گھٹنوں سے اوپر لنگی اٹھ نہ جائے اس لئے اسے زور سے پکڑے ہوئے ہیں. سچ ہے کہ مومن مرتا نہیں."
ممبر صاحب پھر سے اچھل کود مچانے لگتے ہیں. میلاد کا پروگرام ختم ہوتا ہے شکر پارے بانٹے جاتے ہیں لوگ اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوتے ہیں. ایک نوجوان سا لڑکا جو پیچھے بیٹھا بڑا بیزار سا لگ رہا تھا اور بار بار اٹھ کر ادھر ادھر گھوم کر آتا تھا. ممبر صاحب کے پاس آکر کہتا ہے کہ چالیس واں کی محفل میں حضرت جی کرامت بیان کر رہے تھے اور آپ جوشیلے ہورہے تھے آپ دونوں میں کوئی خاص مناسبت ہے کیا؟
ممبر صاحب نے زیر لب مسکراہٹ بکھیری اور فرمایا حضرت جی اِن کم پڑھے لکھے لوگوں کے روحانی حاکم ہیں اور میں جسمانی حاکم ہوں.

Wednesday, 16 May 2018

آتنک وادی چارجر
افسانچہ
از طیب فرقانی

میں نے موبائل چارجر میں لگا کر اپنی کمر کے پاس بستر پر رکھ دیا. چارجر کا پلگ کمر سے ڈیڑھ فٹ اوپر دیوار میں نصب تھا. ایک اور پلگ دوسری دیوار میں تھا. لیکن وہ میرے بستر سے دور تھا. رات میں سونے سے قبل موبائل میں خبریں پڑھنا، یوٹیوب پر ویڈیو دیکھنا، فیس بک اور واٹ ایپ کا استعمال کرنا میرا روز کا معمول تھا. صبح سویرے اٹھ کر کلاس چلے جانے کی وجہ سے موبائل چارج کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا اس لئے رات کو ہی اسے چارجنگ میں لگا کر چھوڑ دیتا تھا. لیٹ کر میں نے سونے کی غرض سے آنکھیں بند کرلیں. اور ذہن کا کھوڑا سرپٹ دوڑنے لگا اچانک موبائل پھٹ گیا. میری کمر کے پڑخچے اڑگئے میرا دھڑ دو حصوں میں بٹ گیا. کچھ سوچ کر میں نے آنکھیں کھولیں. بستر سے اٹھا اور چارجر نکال کر دوسرے پلگ میں موبائل چارج کرنے لئے چھوڑ دوبارہ سونے چلا گیا.

Tuesday, 6 August 2013

کہانی

آٹھ رکعتیں جیسے ہی مکمل ہوئیں وہ اگلی صف سے اٹھا اور تیزی سے پیچھے آنے کی کوشش کی ۔لوگوں نے اسے گھور کر دیکھا۔اور تسبیح پڑھتے ہوئے ایک بولا "تھک گیا کیا؟"
دوسرا"گرمی بہت ہورہی ہے پیاس لگ رہی ہوگی"
تیسرا"آج کل نوجوانوں کا حال بہت برا ہے ۔تھوڑی پڑھیں گے پھر اٹھ کے بھاگ لیں گے "
چوتھا "ارے بڈھا ہوگیا کیا ۔جوان بن جوان "
پانچواں "اہل حدیث ہوگا۔یہ لوگ بھی نا۔بیچ بیچ میں سے اٹھ کے بھاگنے کی نئی نکالی ہے"
غرض کہ بہت سی باتیں لوگ سوچ رہے تھے ۔وہ آج کھانا کھا کر تراویح کی نماز پڑھنے آیا تھا۔اس نے کسی کی پرواہ نہیں کی ۔ضرورت بھی نہیں تھی ۔لوگ اس کے کان میں تھوڑی کہہ رہے تھے ۔ویسے بھی اسے جلدی تھی وہ تیزی سے نکلا چلا گیا اور وضو خانے میں گھس گیا۔بیس رکعتِیں تراویح اور وتر وغیرہ پڑھ کر لوگ نکلے تو اسے بھی مسجد سے نکلتے دیکھا  ۔سوچنے لگے 'یہ تو بیچ تراویح سے ہی اٹھ کر بھاگ گیا تھا پھر سوچا ارے چھوڑو یار بھاگا ہوگا ہمیں کیا؟