Showing posts with label انشائیے. Show all posts
Showing posts with label انشائیے. Show all posts

Friday, 29 March 2019

عبدل بھائی کی ہوٹل بازیاں (انشائیہ)


طیب فرقانی*

اردو کی کلاسیکی شاعری میں آسمان کو ظالم وجابر اور بے داد کہا گیا ہے لیکن شاید ہی کسی نے سورج سے آنکھیں ملاکر اس کو ظالم کہا ہو ۔ سورج کا ڈوبنا ابھرنا امید و ناامیدی کی علامت ہونی چاہئے ۔سلسلہ ء روزو شب اس کی کروٹوں سے دراز ہوتا جاتا ہے ۔یہ وقت کی زنجیر اپنی کمر سے باندھے بھاگا چلا جاتا ہے اور کوئی اس مجرم کو ٹھہرنے کا حکم دیتے ہوئے انگریز جنرل کے لہجے میں یہ نہیں کہہ سکتا ’’ اسٹاپ ‘‘ نہ کوئی اسے لکھنوی ادا سے کہہ سکتا ہے کہ جناب والا اپنی حرکتوں سے باز آجائیں ورنہ ایک دن آپ کائنات کا ہی بیڑا غرق کر دیں گے ۔ کوئی بھوجپوریا بھی استدعا نہیں کر سکتا کہ ’’ بھیا کہاں بھاگے جات ہو تنی ٹھہرا ،ہمراکے نیند پورا کرلے وے دا ‘‘ نہ کوئی رائٹر اس پر فل اسٹاپ لگا سکتا ہے ۔نہ ہی وہ کسی کا محبوب ہے کہ کہا جاسکے ؂


اداس ، شام تنہائی ،کسک ،یادوں کی بے چینی 
مجھے سب سونپ کر سورج اتر جاتا ہے پانی میں 


یا یہ کہ ؂


ڈھلی جو شام تو مجھ میں سمٹ گیا جیسے 
قرار پانے سمندر میں آفتاب اترے 


یہ تو بس وقت کی زنجیر میں کڑیا ں جوڑتا جاتا ہے ۔ ان کڑیوں کو پکڑ کے لٹک جائیں اور ذرا ماضی کے جھروکوں سے تاکیں تو عجیب و غریب دنیا کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں ۔ اور مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے ، ذہن کی سطح پر ہتھوڑے برساتا ہے ۔
عبدل بھائی اپنے ساڑھے پانچ ستارہ ہوٹل میں ۹۰ کے زاویے پر بیٹھے یہی سب سوچ رہے تھے کہ آج جن عالی شان ہوٹل میں وہ بیٹھے ہیں ، قدیم زمانے کے مسافروں کو یہ کہاں نصیب تھا ۔بادشاہوں نوابوں کے زمانے میں مسافروں کے ٹھہرنے کے لئے سڑکوں کے کنارے سرائے بنادیے جاتے تھے ۔پھر مذہبی اور سماجی اداروں نے دھرم شالائیں اور مسافر خانے بنوادیے ۔لیکن جیسے جیسے انسانوں کا جنگل گھنا ہوتا گیا اور سورج نے وقت کی زنجیر میں صدیوں کی کڑیا ں جوڑ دیں تو آج اسے ہوٹل اور موٹیل میسر آگئے ۔جن نے سوئزر لینڈ بینک کی تجوریا ں بھرنے کے لئے گویا روپوں کی مشین لگادی ۔ ایسے میں عبدل بھائی نے بھی بہتی گنگامیں ڈبکی لگانے کی بھرپور کوشش کی ۔اور ساڑھے پانچ ستارہ ہوٹل ’’ پوری طرح ‘‘ کھول لیا ۔ 
ان کے ساڑھے پانچ ستارہ ہوٹل کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ جب وہ وزیر خوراک و رسد تھے تو خوراک کو بہتر طور سے ہضم کرنے اور میلے کچیلے سیاہ دھن کو دھو دھا کر اجلا سفید بنانے کے لئے اپنی بیگم ( جو ان کی سیاہ و سپید کی مالکن تھیں ) کے نام سے ایک عالی شان ہوٹل بنوادئے ۔
ان کے ہوٹل کے ساڑھے پانچ ستارہ ہونے پر کسی نے تعجب سے پوچھا تھا کہ پانچ ستارہ تو ہوتا ہے یہ ساڑھے کا لاحقہ کیوں ؟ تو انھوں نے میڈیا کی بدعنوانی پر برستے ہوئے بتایا تھا کہ’’ اس مقابلہ جاتی عہد میں میں نے اپنے ہوٹل کو چمکانے کے لیے میڈیا کو کچھ روپے دیے تھے اور کہا تھا کہ میرے ہوٹل کو چھ ستارہ ہونے کا پروپیگنڈہ کرے ۔مگر بر ا ہو اس کم بخت نمائندے کا جس نے آفس تک پورا پیسہ نہیں پہنچایا اور تھوڑی سی بالائی اپنی جیب کی تھیلی میں ڈال لی ۔ (چور چور موسیرے بھائی ) آفس والوں نے پیسہ کم دیکھ کر آدھا ستارہ گھٹا دیا ۔وہ تو شکر ہوا کہ انھوں نے آدھا ستارہ ہی گھٹا یا ورنہ میڈیا والے تو اچھے اچھوں کا سورج تک ڈوبا دیتے ہیں ۔‘‘ اور پھر وہ کچھ سوچنے لگے ۔اچانک سر اٹھا یا اور ایک شعر ٹھوک ڈالا ۔ ؂
میڈیا کی آزادی گل نئے کھلاتی ہے 
اس پہ مت بھروسا کر آج کے زمانے میں 
دنیا جانتی ہے کہ ہمار ے عبدل بھائی کو اردو سے بڑی محبت ہے ۔وہ تو پارلیمنٹ میں بھی برملا فیض ،غالب اور فراق کے اشعار پڑھ کر ان کی روح کو ثواب پہنچاتے ہیں ۔ انھوں نے اردو کی تندوری ،رومالی اور چپاتی نما بڑی ،چھوٹی ،کچی پکی اور سینکی ہوئی تمام طرح کی روٹیاں کھائی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب انھوں نے اپنے ساڑھے پانچ ستارہ ہوٹل کے لیے ڈگری یا فتہ خانساماں کا اشتہار دیا تو صراحت کردی کہ امیدوار چاہے ہر چیز سے نابلد ہو مگر اردو سے بلد ہونا چاہئے ۔نہ معلوم ’’ بلد ‘‘ کا یہاں کیا مطلب تھا ۔ وہ چوں کہ ماہر لسانیا ت بھی تھے اور ظفر اقبال کی غزلوں سے انھیں خاص شغف تھا ، اس لیے ہوسکتا ہے ان کے نزدیک ’’ بلد ‘‘ کا مطلب جان کا ر ہو ۔یہ بھی بعید ازقیاس نہیں کہ انھوں نے قافیہ باز شاعروں کو چڑانے کے لئے ایسے کیا ہو ۔ بہر حال انھوں نے صراحت کردی کہ انٹر ویو اردو میں ہی دیا جاسکے گا ۔
امیدوار مقررہ تاریخ پر انٹر ویو کے لیے حاضر ہوئے ۔ انٹر ویو لینے والے پینل میں پہلے اور آخری فرد عبدل بھائی ہی تھے۔ انٹر ویو شروع ہوا ۔ایک امیدوار چیمبر کا دروازہ ادھ کھلا کر کے بولا ’’May I come in sir‘‘’’No‘‘آپ بالکل نہیں آسکتے۔آپ نے اشتہا رمیں نہیں دیکھا تھا کہ انٹر ویو صرف اور صرف اردو میں ہی ہونا ہے ۔ گیٹ آؤٹ ! ۔وہ بے چارہ ڈرا سہما منہ ہی منہ کچھ بدبدتا ہو الٹے پاؤں واپس ہوا۔ پتا نہیں عبدل بھائی کی شان میں گستاخی کررہا تھا یا اپنی قسمت کو کوس رہا تھا ۔عبدل بھائی نے اس امیدوار کو پھر بلا بھیجا اور اسے نصیحت کی کہ دیکھو ہر چیز میں غیروں کی تقلید اچھی نہیں ہوتی ۔ہمارا حال یہ ہے کہ ہم غیروں کی تقلید میں اس قدر صم بکم ہوگئے ہیں کہ چے خف جو نرا سیانا تھا ، کی اس بات کو بھی سچ مان لیتے ہیں کہ ’’ تنقید نگار اس مکھی کی طرح ہے جو کھوڑے کو ہل چلانے سے روکتی ہے ۔ارے ہل تو بیل چلاتے ہیں ۔یہ گھوڑے کہاں سے آگئے ۔‘‘ تھوڑا اور پر جوش ہو کر بولے ’’ حد تو یہ کہ میں نے جب ایک ادبی محفل میں اس تشویش کا اظہار کیا تو لوگ میری ہی اصلاح کرنے لگے کہ روس میں گھوڑے ہی ہل چلاتے ہیں ۔اور میں نے اپنا منہ پیٹ لیا۔ ‘‘ پھر انھوں نے پروفیسرانہ انداز میں نکتہ بیانی کی ’’ میں ایسے موقعوں پر سر نہیں پیٹتا ۔ کیوں کہ شاید تمہیں معلوم ہو کہ حضرت ابراہیم کے پاس بڑھاپے میں اولاد کی خوش خبری سنانے جب فرشتہ آیا تو ان کی بیوی نے سر نہیں پیٹا تھا ۔جانتے ہوکیا پیٹا تھا ؟‘‘ امیدوار ، جو بڑی دیر سے ہونقوں کی طرح بیٹھا تھا ، چونکا اور نفی میں منڈی ہلادی ۔ ’’ انھوں نے اپنا منہ پیٹا تھا ۔اس لیے میں اپنا منہ پیٹتا ہوں ۔‘‘ اس وقت عبد ل بھائی کے چہرے پر عجیب طرح کی مسکراہٹ تھی اور چہرے کا تاثر ایسا ہی تھا جیسے وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہوں اور امریکہ کے صدر کو چائے پلارہے ہوں ۔ اور اسی دوران معاہدوں اور منصوبوں پر تبادلہء خیالات کر رہے ہوں ۔ ’ ’ اور پھر یہ کہ ضرب الامثال اور محاوروں کو زمانے کے ساتھ بدلتے رہنا چاہئے ۔مثال کے طور پر آج پاجامے کا دور ختم ہورہا ہے اس کی جگہ’’ لووَر ‘‘نے لے لی ہے ۔ اس لیے ’ آدمی ہو یا پاجامہ ‘ کو میں بولتا ہوں ’ آدمی ہو یا لووَر‘ اور کچھ بعید نہیں کہ آئندہ زمانے میں ’آدمی ہو یا لووَ ر ‘ کی جگہ ’آدمی ہو چی پَر ‘ استعمال کروں ۔خیر آپ تو تشریف لے جائیں اور دوسر ے امیدوار کو موقع دیں ۔ دوسرے امیدواروں نے جب یہ ماجرا سنا تو انگریزی کا ایک لفظ بھی استعمال نہ کرنے اور بہتر اردو بولنے کی تیاری شروع کر دی ۔ چنانچہ اگلے امیدوار نے دروازہ کھول کر بڑے ہی شائستہ انداز میں پوچھا ’’ کیامیں آپ کی دیدان کبیران و مبارکان کے پیش نششتہ کرسی پر اپنی مقعد حقیرہ و رزیلہ رکھنے کی جسارت و گستاخی کر سکتا ہوں ؟‘‘ عبدل بھائی کا سر چکراگیا ۔ تھوڑی دیر تو وہ کھجانے کے بہانے اپنا سر سہلاتے رہے پھر مری مری آواز میں بولے ۔’’ آپ اندر آسکتے ہیں ‘‘ ۔
اب باضابطہ انٹر ویو شروع ہوا ۔عبدل بھائی نے سوالات پہلے سے ترتیب دے رکھے تھے ۔اور ہرایک سے وہی سوالات پوچھے گئے ۔اس سلسلے کا ایک سوال حالی کے درج ذیل شعر کی تشریح پر مشتمل تھا ۔ 
کوئی دن میں وہ دور آئے گا بے ہنر بھیک تک نہ پائے گا 
جواب میں کوئی تو ہکا بکا رہ جاتا ۔کوئی معذرت کرلیتا کہ تشریح اس کے بس کی بات نہیں اس کے اساتذہ نے صرف حالی کے مقدمے کے بارے میں ہی پڑھا یا ہے ۔ان کے اشعار پر کبھی روشنی نہیں ڈالی ۔ ایک نے تو جھنجلا کریہ تک کہہ دیا کہ ’’ ہم جیسے لوگ اگر شعر و شاعری کے چکر میں پڑ گئے تو متشاعر حضرات کیا پروڈکٹ بیچیں گے ؟(عبدل بھائی نے دل ہی دل میں کہا تھا کہ اور وہ کرتے بھی کیا ہیں ) لیکن ایک امیدوار جس نے پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کا کورس کر رکھا تھا ،بڑے اعتماد سے شعر کی تشریح کچھ اس طرح کی :
’’ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں حالی کی شاعری مقصدی اور افادی شاعری تھی ۔اس شعر میں حالی نے قوم کی اصلاح کرتے ہوئے ہنر کی اہمیت بتائی ہے اور کہا ہے کہ اگر بھیک مانگنے سے بچنا چاہتے ہو تو کھانا پکانے کا خوب اچھا ہنر سیکھو ۔اور پانچ ستارہ ہوٹل میں صدر خانسا ماں بنو ۔ہوٹلوں میں جو بخشش ملے اسے بھیک مت سمجھو کیوں کہ ایک دن آئے گا جب جمہوریت آئے گی اور حکومتیں بڑی کمپنیوں سے بڑا چندہ لینے کے لئے ملک میں مہنگائی کو بے قابو کردیں گی ، تب آدھے پیٹ آٹا اور ایک داڑھ شکر بھی مشکل سے ملے گی ۔اس کی زد میں امیر غریب سب آئیں گے اور کوئی بھیک تک دینے والا نہ ہوگا ۔ایسے برے وقت میں بخشش میں ملے پیسے اور دفتروں میں میز کے زیریں سے ملی بالائی ہی کام آئے گی ۔‘‘ 
اس سلسلے کا ایک دوسرا سوال یہ تھا کہ تخلیق کا ر کی موت تو ہوگئی ،نقاد کی موت کب ہوگی ؟ رجائیت پسند امیدار تو موت کانام سن کر ہی گھبرا جاتے تھے ،جواب کیا دیتے ۔لیکن اسی امیدوار نے جوشاید پہلے سے ہی غصے میں بھر اہو تھا بڑا بھیانک جواب دیا تھا ۔ اس نے کہا کہ جب ہم جیسے خانساماں کو سیمیناروں میں جدید انداز کے کھانے پکانے کے لئے بلایا جائے گا اور ہم بر گر اور پیتزاجیسے خوش نما کھاناکھلا کر ان کی توندیں اتنی بھر دیں گے کہ وہ پھٹ جائیں ۔اس پر عبدل بھائی نے ناصحانہ انداز میں کہا تھا کہ نہیں نہیں ایسی زبان آپ جیسے شائستہ اور ذہین شخص کے لیے زیبا نہیں ۔
پیشہء خانسامانی سے متعلق بھی ایک سوال کچھ یوں تھا کہ خانساماں کسے کہتے ہیں ۔زیادہ تر امیدواروں نے تکنیکی اور رٹی ہوئی تعریف کی تھی ۔لیکن مذکورہ ذہین امیدوار انٹر ویو کے داؤ پیچ سے واقف تھا ۔ اسے پتا تھا کہ ہر جواب ذرا تفصیلی اور دل چسپ ہونا چاہئے تاکہ سامنے والے پر آپ کی شخصیت پوری طری واضح ہوجائے ،سو اس نے قدرے تفصیلی جواب دیا ۔ ’’ خانساماں ایک آؤٹ دیٹیڈ قدیم لفظ ہے ، آج اسی کو شیف کہا جاتا ہے ۔کچھ عرصے پہلے تک باورچی کہا جاتا تھا ۔ اس کی اپنی تہذیبی تاریخ ہے ۔اس سلسلے میں متعصب تاریخ نگاروں کا بڑا رول رہا ہے جنھوں نے ان خانساماں کو نظر انداز کیا ۔ خانساماں قیمہ ڈال کرطاہری پکایا کرتا تھا ، باورچی قورمے اور بریانی پکایا کرتا تھا ۔اور شیف بر گر ،پیتز ااور گرم کتا یعنی ہاٹ ڈوگ پکاتا ہے ۔خانسامان اور معجونی حکیم میں ایک خاص قسم کا تعلق ہے ۔دونوں پکاؤ ہوتے ہیں ۔پہلے حکیم دوائیں پکاتے تھے اب اشتہاروں سے پکاتے ہیں ۔دیواروں اور اخباروں میں ایسے ایسے اشتہار دیتے ہیں کہ کان کے ساتھ آنکھیں بھی پک جاتی ہیں ۔اخباروں کے اشتہاروں سے آپ آنکھیں سینک بھی سکتے ہیں ۔پہلے حکیم ایسا جوشاندہ دیتے تھے کہ دماغ سے نزلہ پک کر بہہ جاتا تھا اب ایسے اشتہار دیتے ہیں کہ نزلہ ریڑھ کی ہڈی سے پک کر ٹپک پڑے ۔‘‘ 
اس سلسلے کا آخری سوال فلسفیانہ تھا اور اس لیے بڑا دل چسپ تھا کہ اس کا جواب تقریباً ہر امیدوار نے اپنے اپنے نظریے ،صلاحیت اور سمجھ کے مطابق دیا تھا ۔ لیکن لاجواب کرنے والا جواب اسی مذکورہ امیدوار کا تھا ۔ سوال تھا ’’ زندگی کیا ہے ؟‘‘چند جوابات اس طرح تھے : 
زندگی جھنڈو بام ہے ،زندگی زندہ دلی کا نام ہے ،زندگی فالودہ ہے ،کباڑہ ہے ، زندگی دولت کی ہوس اور پیاس ہے ،زندگی خوب صورت احساس ہے ، زندگی بھگوان کی کرپاہے خدا کی ہزار نعمت ہے ، زندگی دیوانے کا خواب ہے ،زندگی محبت ہے ،زندگی گرل فرینڈ ہے ، زندگی عورت ہے ، زندگی کھانے پینے سونے جاگنے کا نام ہے ،دنیا دھوکا ہے اور زندگی تماشا ۔ یہ سب سوشل میڈیا والے جوابات تھے ۔ انھیں پسند و ناپسند کرنے کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کسی پوسٹ کو لائک و شیئر کرنے نہ کرنے کا معاملہ ۔ لیکن آخری جواب ان سب کو جامع تھا جسے آپ ضرور شیئر کرنا چاہیں گے ۔ وہ کچھ اس طرح تھا : 
’’ زندگی کے تین روپ ہیں ۔تن ،من اور دھن ۔ غریب کے پاس صرف تن ہی تن ہوتا ہے ۔نہ من نہ دھن ۔ اس کی زندگی جھنڈو بام ہوتی ہے لوگ اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے مرض کا علاج کرتے ہیں ۔ اورپھر بام کی خالی ڈبیہ کی طرح پھینک دیتے ہیں ۔ متوسط طبقے کے پاس تن کے ساتھ من بھی ہوتا ہے ۔ اس کی زندگی کبھی خوشی کبھی غم اور دھوپ چھاؤں کی طرح ہوتی ہے ۔یعنی گھن چکر ہوتی ہے ۔ وہ صرف تن پر ٹک نہیں سکتا کیوں کہ من کا ’ایک من ‘ بوجھ لے کر ڈھوتا رہتا ہے ۔ہوتا ہے تو خوب شکم سیر ہوکر کھاتا ہے اور نہیں ہوتا ہے تو من مسوس کر رہ جاتا ہے ۔ اعلا طبقے کے پاس یہ تینوں چیزیں وافر مقدار میں ہوتی ہیں ۔تن کو چربی بے قابوبناتی ہے ، من کبھی مانتا نہیں اور دھن کا پتا نہیں کہ اس کے پاس کتنا ہے ۔مذہبی لوگ نرک اور جہنم سے سب سے زیادہ اسی طبقے کو ڈراتے ہیں اور ان کے چندے کے بغیر بھلا بھی نہیں ہوتا ۔تو نتیجہ یہ نکلاکہ زندگی الجھی ہوئی ہے ،اوبڑ کھابڑ تاریک زمینی سیارے کی طرح ۔اس میں امید کا سورج ہر روز نکلتا ہے اور ہر روز چھپ جاتا ہے۔ جب تک خدا اس سورج پہ فل اسٹا پ نہیں لگا دیتا یہ کسی کو تیز روشنی دے گا ،کسی کو ہلکی اور کسی کو بالکل نہیں ۔ اور ندا فاضلی کہتے پھریں گے ؂


کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا 
کہیں زمیں کہیں آسماں نہیں ملتا 


* بپریت چوک ،اتردیناج پور ،مغربی بنگال 
نام میں کیا رکھا ہے (انشائیہ)


طیب فرقانی *


سیب کو دیکھ کر یا اس کا نام سن کر کچھ لوگوں کے منہ میں پانی آتا ہے تو کچھ لوگوں کے ذہن میں اسحاق نیوٹن کا نام آتا ہے ۔ اور نام کاذکر سن کر شیکسپئر کی یاد ہی آسکتی ہے کیوں کہ منہ میں پانی آنا ممکن نہیں ۔ شیکسپئر جتنا مشہور و مقبول ہوا شاید اس سے زیادہ اس کا یہ مقولہ مشہور ہوا کہ نام میں کیا رکھا ہے ۔یہ کہنا بڑا آسان ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے لیکن اسے ہضم کرنا اتنا ہی مشکل معلوم ہوتا ہے جتنا پتھر چبانا مشکل ہے ۔ کیوں کہ اکثر ہم اپنی پوری زندگی نام و نمود ہی کے لئے تو جیتے رہتے ہیں ۔ جیون میں اگر نام نہ ہو تو جیون میں کیا رکھا ہے ؟ نیم اور فیم کے لئے دنیا میں لوگ نہ جانے کیا کیا کرتے ہیں ۔’’نیم‘‘ کے لئے صرف نِیم ہی نہیں بلکہ نِیم چڑھا کریلا بھی بن جانے میں قباحت محسوس نہیں کرتے۔ کبھی سر کے بل کھڑے ہوتے ہیں تو کبھی دھڑ کے بل کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ کبھی ہاتھ کی کھاتے ہیں تو کبھی منہ کی کھاتے ہیں ۔کبھی جوتی میں دال بانٹتے ہیں تو کبھی جوتی ہی کھالیتے ہیں ۔ مصطفی خاں شیفتہ تو سر عام یہ اقرار کرتے ہیں :
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کامٍ ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍبدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا 
اکبر الہ آبادی تو بدنامی کوالہ آبادی امرود کا جیلی بنا کر کھانے کو تیار بیٹھے تھے : 


لوگ کہتے ہیں کہ بدنامی سے بچنا چاہئے 
کہہ دو، بے اس کے جوانی کا مزا ملتا نہیں 


دوسری طرف شیخ ابراہیم ذوق کو محبت کا ذائقہ اتنا تیکھا لگتا ہے کہ محبت کانام لینے سے بھی کان پکڑ کر توبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ 


معلوم جو ہوتا ہمیں انجام محبت 
لیتے نہ کبھی بھول کے ہم نام محبت 


شیخ ابراہیم ذوق کا زمانہ شیخوخیت کو پہنچا یہاں ذرا صاحب شباب شاعروں کو دیکھئے کہ شہرت و بدنامی نے ان کو کس حال کو پہنچا دیا ۔ 


اب تو اپنے دروازے سے نام کی تختی اتار 
لفظ ننگے ہوگئے شہرت بھی گالی ہوگئی        اقبال ساجد 


خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن 
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو      احمد مشتاق 


آگے بڑھنے سے قبل درد کا یہ درناک شعر بھی ملاحظہ فرمائیں ۔ 
ہر چند تجھے صبر نہیں درد ولیکن 
اتنا بھی نہ ملیو کہ وہ بدنام بہت ہو (خواجہ میر درد) 


نام کا اثر اگر آپ کی شخصیت پر گہرا پڑتا ہے تو آپ کے نام کا اثر دوسروں پر بھی گہرا ہی پڑتا ہے ۔ ہمارے دیش میں کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ نام پوچھ کر نوکری دی گئی اور نام پوچھ کر کرایے پر مکان دیا جاتا ہے ۔بعض لوگ تو ڈرائیور اور کسٹمر کئیر کا نام بھی پوچھ لیتے ہیں ۔اور نام اگر ان کے حساب سے معقول نہ ہوتو اپنی تمام نا معقولیت کا اظہار بڑی ڈھٹائی سے کرتے ہیں ۔ ہم تو وہ مہان لوگ ہیں جو بے جان اشیا ؛جیسے سڑکوں ، مکانوں، اور یادگاروں کے نام پر بھی اعتراض جتانے میں نیکی اور پونیہ کا پہلو نکال لیتے ہیں ۔ خواہ وہ سیاست کی نیکی ہو یا مفاد پرستی کی ۔ امریکن ہوائی اڈوں پر اکثر مخصوص نام والے حضرات کی خصوصی آؤ بھگت ہوتی ہے ۔ ناموں کا ہماری زندگی میں اتنا گہرا اثر ہے کہ ہم دوسروں کے نام چرانے(اور چَرنے میں بھی) میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ لیکن ناموں کی اس چوری میں دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ نامور لوگوں کے نام ہی اکثر چرائے جاتے ہیں ۔ جیسے غریب کے گھر ڈاکہ نہیں ڈلتا ویسے ہی بے نام کے’ نام‘ بھی سیندھ ماری سے محفوظ رہتے ہیں ۔ شاہ رخ خاں نے جب ہندی فلمی صنعت میں اپنا نام بنایا تو ہند و پاک میں شاہ رخ نام جھاڑ جھنکار کی طرح اگا ۔پاکستانی شاعر احمد فراز کو اس بات پر فخر تھا کہ ماؤں نے ان کے نام پر بچوں کے نام رکھ دئیے :


اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں تجھے 
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا 


پچھلے دنوں جھاڑ کھنڈ سے یہ خبر آئی کہ ایک ۲۵ ؍ سال کے نوجوان انجینئر نے عدالت میں درخوات پیش کی کہ سی بی ایس کو حکم دیا جائے کہ اس کے تعلیمی اسناد میں اس کانام تبدیل کردے کیوں کہ اس نے اپنا نام بدل لیا ہے لیکن بورڈ تعلیمی اسناد میں نام بدلنے پر تیار نہیں ہے ۔ نام بدلنے کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی ۔ پتا چلا کہ اس انجینئر کو بین الاقوامی کمپنیوں میں اس کے نام کی وجہ سے نوکری نہیں مل رہی ہے تھی ۔ اس کا نام تھا ۔صدام حسین ۔ آہ ! مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے ۔نام بڑے اور درشن چھوٹے کہاوت تو ضرور سنی ہوگی ۔ نام معنوی اعتبار سے بھی بڑے ہوتے ہیں اور حجم کے اعتبار سے بھی ۔بہ اعتبار حجم اگر نام بڑے ہوں تو سمجھ لیجئے نام میں القاب و آداب کو ٹھونس دیا گیا ہے ۔مذہب ہمیں سادگی سکھاتا ہے لیکن اکثر و بیشتر مذہبی لوگوں کے ناموں کے ساتھ القاب و آداب ٹھونس کر کاغذکی سادگی کو سیاہی سے نہلایا جاتا ہے ۔ نام کا اثر ہماری زندگی پر گہرا نہ ہوتا تو ہم ہندوستانی ’’نام کرن ‘‘ کی اصطلاح ہی کیوں استعمال کرتے ۔ مجھے تو لگتا ہے کہ جلد ہی ہمارے بچوں کے نام یوں ہوں گے :مسٹر ہیش ٹیگ فلاں ، حضرت فیس بکیا لکھنوی ، شری واٹس ایپ حید ر آبادی ، کانپوریا یوٹیوبر ۔اور پھر اس قسم کے گیت مقبول ہوں گے ۔نام تیرا مستانہ کام تیرا گھبرانہ ۔ایسی پیشن گوئی کی ضرورت یوں آن پڑی کہ لوگ اپنے بچوں کے نام یونیک رکھنا چاہتے ہیں ۔ اب جمن، جمعراتی ، شبراتی اور رمضانی جیسے نام رکھنے کے دن لد گئے ۔ بھلا ہو بی جے پی سرکار کا جس نے زعفرانی نام کا جھنڈا ابھی بھی بڑی مضبوطی سے تھا م رکھا ہے ۔ یہ بوڑھے لوگ بھی سماج میں ناموں کے بدلتے رجحان پر کتنا کڑھتے ہوں گے ۔ ہائے وہ کیا زمانہ تھا جب لوگ پیدائش کے دن ، مہینے اور رات کے حساب سے نام رکھتے تھے ۔ 
سنا ہے کہ کوپن ہیگن یونیورسٹی میں ناموں کی تفتیش کا شعبہ ہے ۔ تعجب اس بات پر ہوا کہ اتنا آزاد خیال اور روشن دماغ لوگوں کا ملک نام رکھنے میں اتنی تنگ دلی کا مظاہرہ ہو کہ پہلے سے طے شدہ سات ہزار ناموں میں سے ہی کوئی نام رکھا جاسکتا ہے ۔ اگر کوئی نام ماں باپ کو نہ جچے تو اس کا حل یہ کہ یونیورسٹی کے مذکورہ شعبے سے رابطہ کرکے اپنے بچوں کا کوئی بہتر نام رکھ سکتے ہیں ۔ ہائے ظالم ترقی کا یہ راز ہم مشرقی لوگوں پہ کیوں نہ کھلا ۔ہمارے یہاں ناموں کے بدلنے کا رواج بھی ہے ۔موجودہ زمانے میں نام بدلناہندوستان کے سیاسی منظرنامے کا ایک اہم کھیل ہے۔ معلوم نہیں گرنتھوں میں اس یگ کو کیا کہا گیا ہے جس میں نام بدلنے پر ووٹ ملیں گے ۔نوٹ پر ووٹ تو سنا ہی ہوگا لیکن نام بدل کر ووٹ ؟ زمانہ ہی بدل گیا ۔حالی کہتے تھے جب زمانہ بدلے تم بھی بدل جاؤ ۔ پتہ نہیں انھوں نے کیا بدلنے کو کہا ؟ نام بھی بدل لیں ؟ نام نہ بدلیں تو کیا بدلیں ؟ کیا نام بدلنا لنگی بدلنے یا ٹوپی بدلنے جتنا آسان ہے ؟ لوگ تو مسجدوں مندروں کے سامنے سے جوتے چپل تک بدل لیتے ہیں ۔ انسان گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے ۔لیکن گرگٹ کمبخت گرگٹ ہی رہ گیا اس احمق نے اپنا نام نہیں بدلا ۔ میں سفارش کرتا ہوں کہ آئندہ زمانے میں نام بدلنے کی وزارت قائم کی جائے ۔اور وزارت کا نام رکھا جائے ’’نام بدلُو وزارت ‘‘ جیسے پارٹی بدلنے والے کو دل بدلو کہا جاتا ہے ۔ اچھا ،دل بدلنے اور دِل بدلنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا ۔لیکن انسان موسم کی طرح بدل جاتا ہے ۔ آلودگی نے موسم بدل دیا ہے اور ہم نے آلودگی کا مفہوم بدل دیا ہے ۔یو ں تو دل خون سے آلودہ ہوتا ہے لیکن اگر کدورت ، نفاق اور مفاد پرستی کی قلعی سے دل آلودہ ہو جائے تو انسان کھڑے کھڑے بدل جاتا ہے اور ہوا بھی نہیں لگتی ۔لوگ نام کا فائدہ بھی اٹھا تے ہیں ۔ عشاق محبوب کے نام سر کٹانے کو تیار رہتے ہیں ۔ شاعر کے نام پر مجمع زیادہ بڑا ہوجاتا ہے ۔اور خود شاعروں نے بھی نام پر مشق سخن کی ہے ۔ راحت اندوری کو جانتے ہی ہوں گے آپ ؟ یہ دیکھئے کیسا عشق فرمایا ہے انھوں نے :


تمھارے نام پر میں نے ہر آفت سر پہ رکھی تھی 
نظر شعلوں پہ رکھی تھی زباں پتھر پہ رکھی تھی 


نام کے ساتھ اگر ’’پر ‘‘ لگ جائے تو باغوں ں میں بہار آجائے۔ لوگ خدا کے نام پر بھیک مانگتے ہیں ۔ خدا کے نام پر بھیک دیتے ہیں ۔ خدا کے نام پر دنیا کی خطرناک جنگیں ہوئی ہیں ۔ اسی لئے دواکر راہی جھنجھلا کر سوال پوچھتے ہیں:


سوال یہ ہے کہ اس پر فریب دنیامیں 
خدا کے نام پہ کس کس کا احترام کریں 


منتری صاحب کے نام پر کام کو بھی پر لگ جاتے ہیں ۔ عشق کے نام پر تتلیاں ’’ یلایلیاں ‘‘ کرتی ہیں ۔ سیاست کے نام پر کردار کشیاں اور نوٹ بندیاں ہوتی ہیں ۔سیمینار کے نام پر نوٹ سازیاں ہوتی ہیں ۔ اور مجبوری کا نام مہاتما گاندھی ہوجاوے ہے ۔ اب خود پر جبر کرکے یہ اشعار پڑھنے کی زحمت گوارا کریں ۔ 
ساتھ رکھئے کام آئے گا بہت نام خدا 


خوف گر جاگا تو پھر کس کو صدا دی جائے گی (احترام اسلام )
اہل دنیا سے مجھے کوئی اندیشہ نہ تھا 
نام تیرا کس لئے مرے لبوں پہ جم گیا (احترام اسلام ) 
کوئی تہمت ہو مرے نام چلی آتی ہے 
جیسے بازار میں ہر گھر سے گلی آتی ہے (انجم خیالی )
وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے 
گلی گلی مری رسوائیوں کا ساتھی ہو افتخار عارف 

Uttar Dinajpur
West Bengal

Thursday, 1 May 2014

عبدل بھائی کی معلمی،انشائیہ،از طیب فرقانی

بلاگنگ کرنا ایک اچھا مشغلہ بھی ہے اور اشتراک معلومات کا بہترین ذریعہ بھی ۔ایک سال قبل   ۱۷؍اپریل ۲۰۱۳ کو میں نے اپنا پہلا بلاگ لکھا تھا  جسے  اب تک صرف ۳۵ لوگوں نے ہی پڑ ھا ہے ۔چوں کہ یہ ایک انٹر ویو پر مشتمل تھا اس لئے اور اس لئے بھی کہ میں ایک کم معروف بلاگر ہوں ۔میرا کوئی بلاگ اب  تک ۶۰ بار سے زیادہ نہیں پڑھا گیا ۔یہ کوئی شکایت نہیں ہے بلکہ ایک تجربہ ہے ۔ہاں میرے بلاگ کو وزٹ کرنے والوں کی تعداد ایک ہزار کے عدد کو پار کرچکی ہے ۔جس میں دنیا کے مختلف ممالک جیسے امریکہ ،مصر ،سعودی عرب،پاکستان اور ہندوستان کے مختلف شہروں کے وزیٹر شامل ہیں ۔جہاں تک تبصروں کا تعلق ہے تو اب تک مختلف اشاعتوں پر کل بارہ تبصرے ہی آپ کو ملیں گے جن میں آدھے خود میرے ہیں ۔میرے بلاگ سے بلا واسطہ صرف چار افراد جڑے ہوئے ہیں جب کہ گوگل فالوور کے تحت آپ کو نو حضرات نظر آئیں گے ۔ان کے علاوہ کچھ احباب بذریعہ ای میل بھی جڑے ہوئے ہیں ۔پھر بھی  بلاگنگ کا ایک سالہ تجربہ اچھا رہا ۔ابتدا میں بلاگنگ کرنے یا یوں کہیں کہ بلاگ بنانے کا عمل کافی دشوار گزار رہا ۔اس وقت گوگل بہت یاد آتا ہے جب میں سوچتا ہوں کہ بلاگ بنانے میں، خاص طور سے اردو بلاگ بنانے میں گوگل نے میری بڑی مدد کی ۔کسی سے سیکھے بغیر جب کہ آپ خود بھی تیکنالوجی سے خوب اچھی طرح واقف نہ ہوں بلاگ بنانا اور وہ بھی اردو میں بلاگ بنانا کافی مشکل کام تھا جسے خدا کے فضل سے ہی مکمل کیا گیا ۔پھر آہستہ آہستہ بلاگنگ ایک آسان کام ہوگیا،یوں کہیں کہ حلوہ ہوگیا ۔بلاگنگ کے ایک سال مکمل ہونے پر میں نے ارادہ کر رکھا تھا کہ قارئین کی خدمت میں کوئی تازہ انشائیہ پیش کروں گا ۔آج وہ وقت آگیا ۔آپ کی خدمت میں تازہ انشائیہ پیش کرتے ہوئے خوشی محسوس کر رہا ہوں ۔ذیل میں انشائیہ ملاحظہ کریں ۔۔۔۔۔طیب فرقانی 


عبدل بھائی کی معلمی


عبدل بھائی نے تعلیم سے فراغت کے بعد جب معلمی کا پیشہ اختیار کیا تو ان کے شاگردوں میں بھی کئی ایک ’’عبدل بھائی ‘‘ تھے ۔ذہین ،تیز طراراور بال کی کھال نکالنے والے ۔بال کی کھال نکالنا ان طلبا کے لئے ویسے بھی آسان تھا کیوں کہ وہ جس زمانے اور ماحول میں تھے وہاں گرل فرینڈ آسانی سے دستیاب ہوجاتی ہیں ۔جو اکثر اپنے بالوں سے نوازتی رہتی ہیں ۔پہلے بال کی کھال نکالنا اس لئے بھی دشوار تھا کہ گرل فرینڈ تو تھیں نہیں ،بیویاں ہوتی تھیں وہ بھی ایک عدد۔اور کسی نے اگر دو عدد بیویاں رکھ بھی لیں تو اسے اپنی ہی کھال بچانے کی فکر لگی رہتی تھی ۔اب تو گرل فرینڈ کا معاملہ یہ ہے کہ بسا اوقات وہ خود ہی چھوڑ کر دوسرے سے چپک جاتی ہے ۔اور رنڈوا کہلانا کسے پسند ہے ۔اس لئے بوائے فرینڈ بھی دوسرے سے چپک جاتا ہے ۔خیر قصہ کوتاہ ۔بات چل رہی تھی عبدل بھائی کی معلمی اور ان کے شاگردوں کی ۔اب وہ زمانہ تو رہا نہیں جب استاد ۵۶ گروں میں سے ایک بچا کر رکھتا تھا ،اورضرورت پڑنے پر اسی ترپ کے پتے کو استعمال کرکے رستم و سہراب کہلاتا تھا ۔اب تو بچے گرو کی کوہی گر سکھا دیتے ہیں اور ایسے موقعے پر گرو جی کا جی چاہتا ہے کہ وہ گڑ کی پوری بھیلی ہی نگل لیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ اب گڑبھی صرف سردیوں میں ہی کوئی کسان شہر کو لاکر دوچار پیسے کما لیتا ہے ۔ رہی مصری کی ڈلی تو وہ بھی بٹلہ ہاؤس کے منگل بازار میں ہی ملتی ہے ۔اس لئے اب گڑ کھاکے گل گلے سے پرہیز کا زمانہ لد گیا ۔اب سگریٹ پی کے سسکاری مارنے کازمانہ ہے ۔چنانچہ ایک دن ایک طالب علم اپنے استادعبدل بھائی کے سامنے ہی سگریٹ پینے لگا ۔عبدل بھائی کو ایسا لگا جیسے اس نے مشرقی تہذیب پر کالک نہ پوت کر اسے سگریٹ کے دھوئیں سے اجلا اور سفید کر دیا ہو ۔بالکل سفید ۔کورا۔عبدل بھائی اسے دیکھ کر خون کا گھونٹ بھی نہ پی سکے کیوں کہ ان کے جسم میں موٹاپے کی وجہ سے اتنی چربی تھی کہ ڈر تھا کہ کہیں چربی پگھل نہ جائے اور خون کی ندیاں بہنے کے بجائے چربی کی ندی بہہ نکلے ۔عبدل بھائی کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو خون نہیں ایسی حالت میں انھیں صرف ایک شعر یاد آیا 
کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالب 
شرم تم کو مگر نہیں آتی 
یہی شعر انہوں نے پڑھ دیا ۔پھر تو گویا علمی و ادبی محفل ہی گرم ہوگئی ۔شرم کا لفظ سن کے حاضرین محفل کا خون ہی تو گرم ہوگیا ۔تو شروع ہوگئی فلسفیانہ گفتگو ۔ایک بولا جناب شرم کسے کہتے ہیں ؟عبدل بھائی کے جسم میں اتنا پانی تو تھا کہ وہ شرم سے پانی پانی ہوجاتے یا ضرورت پڑنے پر ایک چلو پانی میں ڈوب مرتے ۔اس لئے انھوں نے ایک طویل فلسفیانہ تقریر کی ۔’’شرم ایک فطری جذبہ ہے جو انسان کو برائی سے روکتا ہے ۔جب تمھیں احساس ہوکہ تمہارے اندر شرم نہیں رہی تو سمجھ لینا کہ اب تم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہو۔شرم کا لفظ تین حروف سے بنا ہے ۔شین سے مراد ہے شرافت ۔رے سے مراد ہے ردا یعنی چادر اور میم ۔۔۔میم ۔۔۔۔‘‘ عبدل بھائی وفور جذبات میں میم کی مراد بھول گئے ۔اس بھول پر انھیں بڑی شرم آئی اور پھر وہ جھنجھلاگئے ۔تبھی ایک طالب علم نے لقمہ دیا ’’جناب میم سے محبت ۔‘‘اس پر عبدل بھائی کو اور غصہ آیا ۔’’محبت !
ہونٹ کی شیرینیاں کالج میں جب بٹنے لگیں 
چار دن کے چھوکرے کرنے لگے فرہادیاں 
محبت کا مطلب تم لوگ کیا جانو۔ارے محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے ۔یہ ماں سے بھی ہوتی ہے ،بہن سے بھی ہوتی اور بیوی سے بھی ہوتی ہے ۔‘‘پھر کسی طالب علم نے ٹوکا ’’اور جناب گرل فرینڈ سے ؟‘‘’’تمہاری اطلاع کے لئے عرض کردوں کہ گرل فرینڈ انگریزی لفظ ہے ۔انگریزوں کی یہ ناپاک سازش رہی ہے کہ گرل فرینڈ کو اس طرح پیش کرو کہ ساری دنیا سے محبت کا اصل مطلب ہی اٹھ جائے ۔یہی وجہ ہے کہ جناب محترم حالی مرحوم کو غزل سے سنڈاس کی بو آتی تھی ۔‘‘’’جناب یہ سنڈاس کیا ہوتی ہے ؟‘‘ ’’ہوتی ہے نہیں ہوتا ہے ۔یہ وہی ہوتا ہے جسے آج شہری زندگی میں واش روم اور ٹوائلٹ کہا جاتا ہے جب کہ دیہات اور شرفا کے یہاں پاخانہ اور بیت الخلا کہاجاتا ہے ۔لیکن ٹوائلٹ کلینر پرفیوم استعمال کر کے اپنی گندگی چھپانے والے کیا جانیں کہ ہمارے بزرگوں نے سنڈاس کی کیسی بھیانک بدبو برداشت کر کے ہمیں ترقی کی اس منزل تک پہنچایا ہے جہاں ہم نے شرم و حیا کی چادر کو تار تار کر دیا ہے ۔‘‘ اب پھر عبدل بھائی شرم کے موضوع پر لوٹ آئے ۔’’شرم انسان اور حیوان میں خط امتیاز ہے ۔یہ ایک انمول نعمت ہے جسے مل جائے وہ سنبھال کے رکھے ۔‘‘ پھر ایک طالب علم بولا ۔نہیں جناب اگر وہ ہمیں کیمپس میں کہیں ملے گی تو ہم اس سے کہہ دیں گے کہ آپ نے اسے یاد کیا ہے ۔‘‘ ’’ارے یہ نعمت کسی لڑکی کا نام نہیں ہے ۔نعمت مطلب خدائی انعام ۔‘‘ اب کے ایک فلسفی نما طالب علم بولا ’’ جناب ! انعام اللہ ان لوگوں پر فرماتا ہے جو سیدھے راستے پر چلیں ۔‘‘ ’’بالکل صحیح ۔ شاباش! ‘‘ یہ جواب سن کر عبدل بھائی کے اندارکا انقباض کچھ کم ہوا اور ماحول کے دھندلا پن میں روشنی کی ایک لکیر پھوٹی تو عبدل بھائی کو میم کی مراد یا د آگئی اور انھوں نے کرخدار آواز میں کہا’’شین سے شرافت ،رے سے ردا اور میم سے موت ۔یعنی جو ردائے شرافت اتار دے اس پر موت واقع ہوجاتی ہے ۔اور جو شرم و حیا کی چادرمیں لپٹا ہو موت کا ہاتھ اس کے گریبان تک کبھی نہیں پہنچتاہے ۔یہ مت سمجھنا کہ مرنا تو سبھی کو ہے ۔ہر گز نہیں ۔مرتا وہی ہے جو شرم وحیا سے عاری ہوجائے ۔صاحب شرم مر کے بھی زندہ رہتا ہے ۔غالب نے اپنے شعر
موت کا ایک دن معین ہے 
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی 
میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جو لوگ بے شرم ہوجاتے ہیں انھیں راتوں کو نیند نہیں آتی ۔وہ ڈرتے رہتے ہیں کہ انھیں حقیقی موت نہ آجائے ۔او ر۔۔۔۔آہا ہا۔۔۔ذوق نے بھی کیا خوب کہا ہے ۔
مزے جو موت کے عاشق بیاں کبھو کرتے 
مسیح و خضر بھی مرنے کی آرزو کرتے ‘‘
موت کے ذکر نے فضا کو سوگوار کر دیا ۔تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی ۔تبھی ایک ٹپکا ۔’’جناب! یہ جو کہتے ہیں کہ موت کے منہ سے نکل آیا تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟‘‘ ’’یہ دراصل موت نہیں ایک احساس ہے ۔ جب انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھا ۔اس کا بھی تعلق زیادہ تر بے شرمی سے ہی ہے ۔جب لوگ بے شرم ہوجاتے ہیں تو ٹیکس چوری کرتے ہیں ۔جمع خوری کرتے ہیں ۔اور پھر جب سی بی آئی کا شکنجہ کستا ہے تو جوڑ توڑ میں لگ جاتے ہیں ۔اگر یہ لوگ معمولی حیثیت کے ہوں تو سی بی آئی کا شکنجہ خونی قاتل بن جاتا ہے اور ان کا انت بے عزتی اور جیل کی شکل میں ہوتا ہے جو ایک شریف آدمی کے لئے موت سے کم نہیں ۔لیکن اگر یہ لوگ بڑی کمپنیوں کے ہوں ،اونچی دوکان والے ہوں (چاہے پکوان پھیکا ہی کیوں نہ ہو) تو وہ اپنے اثرو رسوخ اور سیاسی پارٹیوں کو دئے گئے چندوں اور حمایتوں کے عوض موت کے منہ سے نکل آتے ہیں ۔یاد رکھو شرم نیکی اور برائی کو پرکھنے کا ایک بہترین آلہ ہے ۔جس کام میں تمھیں شرم محسوس ہو سمجھو وہ کام برا ہے۔‘‘ پھر ایک ٹپکا ۔’’جناب !یہاں میں آپ سے اختلاف کروں گا ۔وہ یہ ہے کہ برائی کی تعریف سب کے نزدیک الگ الگ ہے ۔ایک چیز کو کوئی برا سمجھتا ہے تو اسی کو کوئی اور فیشن سمجھتا ہے ۔مثال کے طور پر ایک عورت گھر سے نکلنے کو بھی برا سمجھتی ہے وہیں دوسری عورت کینیڈا میں خوب پورن فلمیں بناتی ہے اور جب انڈیا آتی ہے تو لوگ اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور میڈیا اس کے گن گاتی ہے ۔لوگ اس کے قصے سنتے سناتے ہیں ۔یا اسی سگریٹ والے مسئلے کو لے لیں یہ اپنے والد کے سامنے پیتا ہے تو اس کے والد کچھ نہیں کہتے جب کہ آپ برا مان گئے حالاں کہ آپ ایک اعتبار سے اس کے باپ کے بھی باپ یعنی دادا ہیں ۔‘‘ عبدل بھائی کو اس ذکر پر پھر غصہ آگیا ۔اور وہ وہاں سے یہ کہہ کر چل دئے کہ 
جب بھی والد کی جفا یاد آئی 
اپنے دادا کی خطا یاد آئی 
پھر رکے ایک شعر اور پڑھا 
علم میں جھینگر سے بڑھ کر کامراں کوئی نہیں 
چاٹ جاتا ہے کتابیں امتحاں کوئی نہیں 
پھر چل دئے ۔۔۔۔۔۔
طیب فرقانی 
اسسٹنٹ ٹیچر گوالپوگھر لودھن ہائی اسکول 
شمالی دیناج پور مغربی بنگال (ہند)
ذیل کی لنک سے آپ اس انشائیے کو بصیرت آن لائن پر بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔
http://baseeratonline.com/2014/05/01/%d8%b9%d8%a8%d8%af%d9%84-%d8%a8%da%be%d8%a7%d8%a6%db%8c-%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%b9%d9%84%d9%85%db%8c%d8%a7%d9%86%d8%b4%d8%a7%d8%a6%db%8c%db%81/
اردو نیٹ جاپان کی لنک بھی ملاحظہ کریں
http://urdunetjpn.com/ur/2014/05/03/tayyab-furqani-4/
اسے اس لنک پہ بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=46343

Friday, 28 March 2014

چھت کی سیر..............انشائیہ از طیب فرقانی ؔ

مرزا محمد ہادی رسوا کے ناول امراؤ جان ادا کے بارے میں وقت کے لحیم شحیم نقّادوں نے کہا ہے کہ اس ناول میں طوائف کے کوٹھے کو مرکز بنا کر اس وقت کے لکھؤوکی سیر کرائی گئی ہے اور لکھنوی تہذیب کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔ میں گرمی کی ایک شام چھت پر بیٹھا تنقید کے بخار میں مبتلا تھا تبھی مجھے خیال آیا کہ ہند وستان کے بعض علاقوں میں چھت کو بھی کوٹھا کہا جا تا ہے ۔ پرانے زمانے میں جب کہ گاؤں دیہات میں صرف مٹی یا پھونس کے مکانات ہو اکرتے تھے، اگر کوئی پختہ مکان بنوا لیتا تھا تولوگ اسی کو کوٹھا کا نام دے دیتے تھے۔اور کوٹھی کی چھت کو کوٹھا کہنے لگتے تھے۔
تعجب ہے کہ امریکہ کے خلائی مشن سینٹر\"ناسا\"نے \"گاڈپار ٹیکل \" ڈھونڈ لینے کا جھانسا دیا اور مریخ پر زندگی کی تلاش کا دلاسا دیا مگر چھت اور اس کی قیمتی سر گرمیوں کو یکسر بھلا دیا ۔ چھت بڑی غیر معمولی جگہ ہے۔ چھت پر اگر آپ تنہا بیٹھ کر مومن کا یہ شعر گنگنائیں !
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا 
جب کوئی دوسر ا نہیں ہوتا
تو ساری کائنات آپ کو اپنی آغوش میں سمٹتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
چھتیں مختلف قسم کی ہوتی ہیں ۔ شہروں میں تو زیادہ تر پختہ چھتیں ہوتی ہیں لیکن ان چھتوں کے نیچے رہنے والے لوگ پختہ ہوتے ہیں یا نہیں اس امر کا سراغ پا لینا بڑا مشکل ہے۔ بشیر بدر نے اپنے من میں ڈوب کرایسے پختہ لوگوں کا سراغ پا لینے کی کوشش کی تھی اور اس نتیجے پر پہنچے تھے ۔
گھروں پہ نام تھے ،ناموں کے ساتھ عہدے تھے 
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا
میر تقی میر کا اجڑا دیار \"دلّی \"آج بہت ترقی کر گئی ہے ۔لیکن آج بھی یہاں آسمان کا بوسہ لیتی ہوئی چھتوں کے نیچے پلاسٹک کی چھتوں والی جھگّی جھونپڑیاں موجود ہیں ۔جو انسا نی مساوات اور ترقی کے ڈھونگ کومنہ چڑھاتی رہتی ہیں۔ اور چونکہ ان جھگیوں میں رہنے والے لو گ بے زبان ہوتے ہیں۔ اس لئے بلڈوزروں کی بے رحمی سیاسی آنکھیں بھی انہی جھگیوں کو تاکتی رہتی ہیں۔
جھگی جھونپڑیوں کے لئے ہندوستان کا ممبئی شہر بہت مشہور جہاں کل ممبئی کی تقریباََ ساٹھ فیصد آبادی ممبئی کی چھ فیصد زمین پر بنے مکانات کی چھت کے نیچے گزارا کرتی ہے۔ ایسے شہر کو جب لوگ عروس البلاد کہتے ہیں تو میرے ذہن میں ایسی دلہن کا تصور آتا ہے جس کاآنچل ہی میلا ہو ۔ایسی بستی کا شاعر جب اپنے معشوق کو چھت پر دیکھتا ہے تو اس کے قلم سے کچھ اس طرح کے اشعار نکلتے ہیں ۔
مایوسئی دل ،درد محبت ،ستم دوست
آلام زمانے میں مرے نام بہت ہیں
کچھ فرصت نظارہ ملے آنکھ کو تب نہ
جلوے تیرے مانا کہ لب بام بہت ہیں 
آپ سے امید کی جاتی ہے کہ \"لب بام\"کو آپ \" منی کا جھنڈو بام\"نہیں سمجھیں گے۔
آج دنیا بھر میں بڑھتے تشدد کے پس پشت بھی چھتوں کا بڑا کردار ہے۔ کچھ سالوں قبل تک چھتیں سیمنٹ کی نہ ہو کر چھپروں کی ہو ا کرتی تھیں۔ یہ چھتیں ٹھنڈی ہو اکرتی تھیں ۔تو لوگوں کے دماغ بھی ٹھنڈے رہتے تھے۔مزید یہ کہ ان چھتوں میں گوریّا اپنے گھو نسلے بنا کر انسان کو ہر وقت امن و شانتی کا پاٹھ پڑھایا کرتی تھیں۔ جب سے چھتیں سیمنٹ کی ہوئی ہیں ، گوریّا نے بوریا بستر باندھ لیا، گرمی میں اضافہ ہوا،اوپر سے بلڈ پریشر کی مار الگ، لوگوں کے دماغ اس قدر گرم رہنے لگے کہ ٹھنڈا ہونے کا نا م ہی نہیں لیتے ۔ اجی ! نمرود تو بڑا کمزور تھا کہ ایک معمولی مچھر سے مارا گیا ، آج کے نمرودں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سنامی کی ہوا بھی کم پڑ جاتی ہے۔
گرمی بڑھی تو اس نے سوچا کہ اب ہوا محل تعمیر کئے جائیں چنانچہ اس نے اپنی بلندی و برتری کی پیاس بجھانے کے لئے چھت پر چھت اس قدر تعمیر کی کہ \"ورلڈ ٹریڈ سینٹر\" اور \"برج الخلیفہ\" وجود میں آگیا۔ اب تو اس کے پاؤں زمین پر پڑتے ہی نہیں ہیں ۔ وہ ہوا میں معلق ہو کر ہوا ہوائی ہو گیا ہے۔
در اصل جب سے انسان میں ہو ا سے باتیں کرنے ، ہوائی چھوڑنے ، اور ہوّا کھڑا کرنے کی ہو ا سمائی ہے،اسے ہوا سے لڑنے اور ہوا پر گرہ لگانے کی ہوا و ہوس ہوگئی ہے۔ اور اس نے ہوا خور ی چھوڑ کر ہوا دینے کی عادت ڈال لی ہے۔
ہماری زندگی میں چھتوں کی بڑی اہمیت ہے ۔جانور بلوں ، بھٹوں اور غاروں میں رہتے ہیں ۔اور انسان کو روٹی اور کپڑا کے ساتھ چھت کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔حد تو یہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد بھی قبروں ، مقبروں اور مزاروں کی چھت کے نیچے رہتا ہے۔لیکن یہ بات ان لوگوں کے سمجھ میں بھی آنی چاہئے جو یو پی کے پرتاپ گڑھ میں مکانات کو چتاؤں کی طرح پھونک دیتے ہیں اور احمد آباد میں اس ولی دکنی کے مزار کوڈھا دیتے ہیں جن کو کاشی عین کوچۂ یار لگتا تھا ۔ اور جن کے محبوب کے رخ کا تل ہری دوار میں بسنے والا ہندو نظر آتا تھا ۔
کوچۂ یارعین کاسی ہے جوگئی دل وہا ں کا باسی ہے
اے صنم ! تجھ جبیں اُپر یہ خال ہندوے ہر دوار باسی ہے
لیکن یہ تو سب جانتے ہیں کہ جس کے پاس کوئی چھت نہ ہوآسمان اس کی چھت ہے ۔ ہندوستان کے پڑوس میں واقع تبّت کو \"Roof of the World\"دنیا کی چھت کہا جاتا ہے ۔ لیکن یہاں کے رہنما بے چارے دلائی لاما، میانمار میں بے چھت کئے جارہے مسلمانوں کو اپنے ہم مذہبوں سے نہیں بچا سکے کیوں کہ خود انہیں \"دو گز زمیں نہ ملی کوئے یار میں \"
ہم اپنے بہت سارے کا م چھتوں کے اُوپر انجام دیتے ہیں ۔ جیسے سردیوں میں دھوپ لینا ،اناج اور کپڑے سکھا نا ،دیوالی اور شب برات کے موقع سے دیئے اور موم بتیاں جلا کر چراغاں کرنا ۔ لیکن چھتوں کا تعلق ایسے کاموں سے بہت ہے جن کے نام میں لاحقے کے طور پر\" بازی \"آتا ہے ۔ جیسے پتنگ بازی کرنا اور بسا اوقات پتنگ بازی کرتے کرتے قلا بازی کھا جانا اور دن بھر پتنگ بازی کرتے رہنے کی وجہ سے ابّا جی کی طرف سے تھپڑ بازی ہو جانا۔
لیکن ان سب بازیوں میں عشق بازی کا اپنا الگ مقام ہے۔ عشق بازی کے لئے چھت ہمیشہ سے مناسب مقام رہا ہے۔ ۔چچا غالب اپنے معشوق کو چھت پر دیکھ کر پھولے نہیں سماتے تھے اور انہیں بار بار دیکھنے کی ہوس ہوتی تھی ۔
مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس 
زلف سیاہ رُخ پہ پریشاں کئے ہوئے
حسرت موہانی کا معشوق تو خود ہی چھت پر آجاتا تھا وہ بھی دو پہر کی دھوپ میں ننگے پاؤں۔
دو پہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے 
وہ تیر ا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
لیکن آج کا عاشق دو پہر کو نہیں آتا بلکہ رات کو موبائل لے کر چھت پر ہی صبح کر دیتا ہے۔چوروں کے ایک گروہ نے صرف اسی لئے چوری سے توبہ کر لی کہ رات کو چوری کے سارے مواقع پر ان موبائل والے عاشقوں نے پہرے بیٹھا دئے ہیں ۔ جو رات کو چوری چھپے اپنے معشوق سے عشق بازی فرماتے ہیں اور صبح دیر تک خواب بازی فرماتے ہیں ۔ اماں جگا جگا کر جب جھنجھلا جاتی ہیں تو یہ کہہ کر ابا جی کا فائدہ کر وا دیتی ہیں \"رات بھر پتا نہیں کس اماّں کے ساتھ لگا رہتا ہے اور دن میں پڑا سوتا رہتا ہے\"۔
چھت پر خوب صورت چاند دیکھنے کا خوبصورت رواج بھی ہے ۔ یہ سن کر آپ کے من میں لڈّو پھوٹے گا کہ ایک چاند تو مشبہ ہے اور ایک چاند مشبہ بہ ہے اور دونو ں کو دیکھنے سے دل کو سکون ملتا ہے۔ایک عاشق نے تو ڈر کے مارے اپنے ماہ جبیں سے کہہ دیا تھا ؂ 
ماہ نو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہر گز
شہر میں عید کی تاریخ بدل جائیگی

لیکن چھت پر چاند دیکھتے وقت اس بات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ کہیں چاند کے ابّا نہ ٹپک پڑیں، ورنہ چاند کے بجائے تارے نظر آجائیں گے۔ ہمارے ایک بزرگ شاعراظہر شاہ خاں نے ایسے ہی ایک تجربے کا ذکر فرمایا ہے کہ ؂
چاند رات آئے تو سب دیکھیں ہلال عید کو
ایک ہمارا ہی نصیبہ ہڈیاں تڑوا گیا
چھت پہ ہم تھے چاند کے نظارے میں کھوئے ہوئے
بس اچانک چاند کا ابّا وہاں پر آ گیا
ریسرچ اسکالر: شعبۂ اردو، 
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۲۵

Wednesday, 26 February 2014

عبدل بھائی سے ایک مکالمہ۔۔انشائیہ

عبدل بھائی کا خاندانی نام عبدالمبین ہے ،لیکن وہ عبدل بھائی کے نام سے ہی مشہور ہیں۔تخفیف نام کے پس پشت بڑی لمبی داستان ہے ۔اجی کہیے کہ داستان امیر حمزہ بھی ہیچ ہے۔جتنے منہ اتنی باتیں۔کچھ تجزیہ کاروں کو اس کے پیچھے عالمی خفیہ ایجنسیوں موساد،ایف۔بی۔آئی،آئی ایس آئی وغیرہ کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ظاہر ہے جس کے پیچھے ایسی جھوٹی سچی اورقانونی غیر قانونی ایجنسیوں کا ہاتھ ہو ،اس کا نام کیا ،اس کا وجود ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا ۔کچھ تبصرہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہو نہ ہو یہ انہی لوگوں کا کام ہے جنہوں نے آئے دن ہندوستانی نوجوانوں کی بے جا گرفتاریا ں کرکے جیل بھرنے اور تمغہ حاصل کرنے کا شعار اپنا لیا ہے ۔کچھ لوگ اس کے پیچھے \"ماقبل جدیدیت \" جیسی ادبی وجہ مانتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں لوگ ناموں کو بکری کی طرح چباکر بولنے کے عادی ہیں ۔کچھ مغرّبین یعنی مشرقی انگریز پرستوں کا خیا ل ہے کہ یہ Shortsپہننے والوں کی تقلید میں Short Formا پنانے کا نتیجہ ہے ۔بہر حال وجہ جو بھی ہو یہاں ان کا پورا نام نقل کرنا ضروری ہے تاکہ آنے والی نسل کے لئے مشعل راہ ہو۔(چاہے موجودہ نسل کے لئے ہو،نہ ہو)چوں کہ یہ قدیم واہی تباہی شاہی خاندان کے چشم و چراغ(آنکھ اور لالٹین )ہیں ،اور ان کو ملکی ،غیر ملکی،سیاسی ،سماجی اور ادبی تمغوں طغروں سے نوازاگیا ہے ،اس لئے ان کے نام کے سابقے لاحقے فیلانہ اور فرسانہ ہیں ۔۔۔۔نواب تنگ وجنگ بہادر ،لاغر ولاچار عبدالمبین عرف عبدل بھائی سالار،ہفت ہزاری ،پہاڑی ،نقادی وافسانوی وغیرہ۔۔۔
حالاں کہ وہ کسی تعارف کے محتاج و حقدار نہیں مگر چوں کہ وہ آئندہ نسل کی آبیاری کریں گے اور ان کے لئے راستے کا روڑا نہ بن کر نشان راہ بنیں گے ،اس لئے مکمل تعارف ضروری ہے تاکہ سند رہے ،اور ان کے جسمانی حجم کی طرح موٹے حروف میں ان کا نام لکھا جائے ۔
اس سرسری تعارف کے بعد اب ان کی خدمات عظیمہ وجلیلہ (بر وزن قلیلہ و رذیلہ)دیکھیں ۔یقین ہے ایک ہی جھلک میں آنکھیں خیرہ ہوجائیں گی۔(خدا نہ کرے)۔۔۔ان کی خدمات کا اعتراف بڑے بڑے سیاست دانوں ،شاعروں ،ادیبوں نے ہوٹلوں ،قہوہ خانوں ،سیلونوں اور چوراہوں پر بیٹھ کر ،کھڑے ہوکر کیا ہے ۔ادبی اور اقتباسی زبان میں کہیں تو ایسی ہی شخصیات کی تعریف میں رشید حسن خاں نے فرمایا ہے :
’’یہ حضرات علم اور دریافت سے زیادہ ہاتھ کی صفائی پر ایمان رکھتے ہیں ۔
تھوڑا سا سماجی پس منظر دکھایا ،کچھ لسانیاتی انداز کی گفتگو کرلی،کسی طالب علم 
سے ا صل متن نقل کرالیا اور باقی کام تو کاتب کرہی لیا کرتا ہے ‘‘۔ 
ان کی سیاسی سماجی خدمات کی جھلکیاں بھی جھانکیوں کی شکل میں ٹی و ی چینلوں پر نظر آتی رہتی ہیں ،جن کے عوض متعدد بار ٹی وی اینکروں اور نیوز ایڈیٹروں کو ’’رشوتانہ انعام ‘‘لیے اور دیے گئے ہیں ۔ایسی عجیب و غریب شخصیت سے ہمارے ہفت روزہ اخبار نوائے بے ادب کے (سب ایڈیٹر نہیں )ایک ایڈیٹر شاہد جھنجھٹ نے انٹر ویو لیا ہے ۔پیش ہیں انٹر ویو کے خاص اقتباسات۔
شاہد جھنجھٹ:جناب آپ ملک کی نامور (بر وزن جانور)ہستی بننے والے ہیں ۔کشمیر سے کنیا کماری تک آپ کی شہرت کا طبلہ پیٹا جاتاہے ۔آپ کے دیوانے آپ کی دل چسپیوں ،مشغلوں سے واقف ہونا چاہتے ہیں کیا آپ قارئین کو بتا ئیں گے کہ آپ کو کن چیزوں کا شوق ہے ؟
عبدل بھائی:دیکھئے میرے شوق وقت و حالات کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں ۔آج کل مجھے فلموں کا بڑا شوق ہے ۔انگریزی میں ایک فقرہ ہے Have a sweet tooth یعنی میٹھے کا شوقین ہونا ۔میں نے ایک فقرہ تخلیق کیا ہے Have a cinema eye اور آپ کے سامنے ایک راز سر بستہ سے پردہ ہٹانا چاہوں گا کہ مجھے صرف فلمیں دیکھنے کاہی شوق نہیں بلکہ ادا کاری ،ہدایت کاری اور وہ۔۔۔۔کیا کہتے ہیں مکابازی ۔۔۔نہیں مکالمہ بازی کا بھی بے حد شوق ہے ۔فلموں کا شوق تو میں اسکرین پر پورا کرتا ہوں باقی سب خواب میں ۔
شاہد جھنجھٹ:جناب آپ کالج کے دنوں میں طلبا یونین کے لیڈر ہوا کرتے تھے ۔کیا آپ کو لگتا ہے کہ کالجوں یونیورسٹیوں میں طلبا کا انتخاب ہونا چاہئے؟
عبدل بھائی :انتخاب کا معاملہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے اکثر منتخب نمائندے بدعنوان ہیں ۔بدعنوانی کا لفظ عربی فارسی سے مرکب ہے ۔کسی شاعر نے کہا ہے ؂
عربی چھڑائے چربی فارسی نکالے تیل
اردو ہے کچھ کچھ ہندی ہے کھیل 
اس وقت دنیا میں مشہور کھیل کرکٹ ہے ۔کرکٹ کا ہم وزن لفظ گرگٹ ہے ۔گرگٹ رنگ بدلتا ہے ۔
جھنجھٹ:(بیچ میں ٹوکتے ہوئے)آپ کی اس برق زبانی سے یاد آیا کہ ادب میں شعور کی رو بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟
عبدل بھائی :دیکھو! شعور کی رو گرگٹ کے رنگ بدلنے کی طرح ہے ۔مثال کے طور پر رنگ سے آپ کا ذہن رنگ داری کی طرف جاسکتا ہے۔رنگ داری وصولنے والے کو رنگ دار کیوں کہتے ہیں۔طرح دار کیوں نہیں کہتے؟ اردو میں طرحی مشاعرہ ہوتا ہے ۔پطرس بخاری کے زمانے میں کتوں کا مشاعرہ ہوتا تھا۔ہمارے زمانے میں پارلیمنٹ میں مشاعرہ ہوتا ہے۔غالب کے تتبع میں ایسے ایسے مشکل اشعار پڑھے جاتے ہیں کہ ایک ایک شعر کو سمجھنے کے لئے صدر مشاعرہ پورا پورا سیشن ملتوی کر دیتے ہیں ۔پھر جب مشاعرے کا آغاز ہوتا ہے تو لوگ ایک دوسرے پر گرجتے برستے ہیں ،بھونکتے کاٹتے ہیں ۔اب کاٹنے کا تعلق دیکھئے! بسوں ٹرینوں میں جیب کترے جیب کاٹ لیتے ہیں ۔گھر میں بیوی جیب کاٹ لیتی ہے ۔آفس میں باس پگاڑ کاٹ لیتا ہے ۔حکومت سبسیڈی کاٹ لیتی ہے ۔حکومت اب بوڑھی ہوگئی ہے ۔افسوس کہ انا ہزارے بھی بوڑھے ہوگئے اور وزیر اعظم بننے کی خواہش میں اڈوانی جی جیسے کئی ایک نیتا بوڑھے ہوگئے ۔ 
شاہد جھنجھٹ:آپ کا سیاسی نظریہ کیا ہے ؟
عبدل بھائی :شروع شروع میں ہر سیاسی نظریہ اچھا لگتا ہے ۔کارل مارکس کا نظریہ تو اقبال کو بھی اچھا لگ گیا تھا ۔جبھی تو انہوں نے ’’ہر خوشہء گندم کو جلادو‘‘ والا شعر کہہ دیا ۔گویا گندم کو جلا دو اور گندم نما جو کو رہنے دو۔واہ ! یہ کوئی بات ہوئی۔
شاہد جھنجھٹ :موجودہ عالمی سیاسی منظرنامے پر آپ کچھ کہنا چاہیں گے ؟
عبدل بھائی :میں بس دنیا کے تمام حکمرانوں سے گزارش کروں گا کہ تھوڑا کم کھائیں ۔کھا کھا کر چمڑی موٹی نہ کریں ۔کم کھائیں گے تو کم بولیں گے ۔کم بولیں گے تو صوتی آلودگی بھی کم ہوگی اور بد امنی بھی کم پھیلے گی ۔دیکھئے ایک فی البدیہہ شعر ہوگیا ۔
ان کے بولے سے جو مچ جاتی ہے دنیا میں ہلچل 
لوگ سمجھتے ہیں کہ نیتا کی زبان اچھی ہے 
شاہد جھنجھٹ:سنا ہے کہ آپ محاوروں اور ضرب الامثال کو جدیدیانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔؟
عبدل بھائی:(بھڑکتے ہوئے)آپ جدیدیانے کی بات کر رہے ہیں ،ارے میں انہیں سائنٹفک بنانا رہا ہوں ۔مثال کے طور پر ’’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے ‘‘۔یہ تو گزرے زمانے کی بات ہے ،جب لوگ نیم وحشی ہوا کرتے تھے ۔اب پھونک کر کھانے پینے کو ڈاکٹر منع کرتے ہیں ۔اس سے بیکٹریا ان اشیا میں شامل ہوجاتا ہے ۔اس لئے یہ ضرب المثل نیم وحشی ہے ۔یہ نہ سمجھا جائے کہ ’’نیم وحشی ‘‘ کی ترکیب میں نے کلیم الدین احمد سے لی ہے ۔ایک اور مثال دیتا ہوں ۔نالائق بیٹے کو عاق کرنا۔اب اس عمل کے خلاف بیٹوں نے باپ کو اولڈ ایج ہوم میں عاق کرنا شروع کردیا ہے ۔اس لئے ان کو سائنٹفک بنانا ضروری ہے ۔
شاہد جھنجھٹ:کہا جاتا ہے کہ آپ قدح خوار شاعر ہیں ۔اس سلسلے میں روشنی ڈالیں۔
عبدل بھائی :ارے جناب یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی ۔مسئلہ یہ ہے کہ تحقیق کے مخالف تاثراتی نقادوں نے کسی شعر کو دیکھ کر فیصلہ کر دیا ہوگا ۔ویسے قدح خواری تو ہماری روشن روایت رہی ہے ۔آپ کو بتا ؤ ں کہ ہمارے ریختے کا ایک شاعر تھا بہرام بخاری ،جس کا تخلص ہی سقا تھا ۔کیا غزل کہی ہے ۔ایک شعر سنا تا ہوں ۔
رہ بسوئے دیر بردم بول پری 
درد درد بادہ خوردم بول پری
(قارئین سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ ’’بول پری ‘‘ کو بھل(بھول ) پڑے پڑھیں ۔ایڈیٹر)
غالب اور فراق قدح خوار نہ ہوتے تو کوئے یار میں خوار ہوتے پھرتے ۔مشاعروں میں بھی اسی شاعر کے ہاتھ پاؤں چلتے ہیں جس کو قدح خواری کا فن آتا ہو۔غرض کہ ہر فن کار کو پھن کاڑھنے کے لئے قدح خوار ہونا ضروری ہے ۔اقبال اگرچہ حقہ پیتے تھے اور فیض کو سگریٹ کے بغیر ترقی پسندی کا نشہ نہیں چڑھتا تھا ۔لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ ہم ان کی پگڑیاں اچھالتے پھریں ۔اب یہی دیکھئے کہ ریاض خیرآبادی جیسے شریف لوگوں کو ہم خمریات کا شاعر کہتے ہیں ۔
شاہد جھنجھٹ:آپ کی کوئی زیر طبع کتاب؟
عبدل بھائی :جی ہاں ! میری ایک نئی کتاب زیر طبع ہے ’’جوانی جو برسوں چلے‘‘۔
جھنجھٹ:جناب یہ تو کوئی جسمانی ٹانک کا نام معلوم ہوتا ہے ۔
عبدل بھائی :آپ ٹھیک سمجھے ۔آج کے نوجوانوں کی نادانیاں اور جوانیاں ہم معنی ہوکر رہ گئی ہیں ۔انہیں ملک و ملت کا مستقبل بنانے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں ٹانک دیا جائے ۔
کوئی شعر جو آپ کو بہت پسند ہو؟
عبدل بھائی :
کام کی بات میں نے کی ہی نہیں 
یہ میرا طور زندگی ہی نہیں

طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی 
اردو نیٹ جاپان پر شائع شدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذیل میں لنک بھی دی جارہی ہے 
http://urdunetjpn.com/ur/2014/02/23/tayyab-furqani-2/

Saturday, 14 September 2013

عبدالمبین عرف عبدل


آہ مولانا عبدل! بے چارے تسکین شوق کی خاطر مارے گئے!
شوق بہر حال شوق ہے جس کی تکمیل میں ہر شخص ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے چاہے سر پر چوٹی ہو یا چٹیا۔ پھر مولانا عبدل کیسے پیچھے رہ جاتے۔ لیکن انھیں کیا پتا تھا کہ وہ اس طرح پھنسیں گے کہ نکل ہی نہیں پائیں گے۔
نام تو ان کا عبد المبین تھا لیکن کثرت استعمال کی وجہ سے گھستے گھستے عبدل رہ گیا تھا۔ خنجر تخلص فرماتے تھے۔ اگرچہ کبھی انھیں ایک شعر کہنے کا بھی اتفاق نہیں ہوا تھا مگر شعر و شاعری سے بڑا ’’عجیب قسم‘‘ کا لگاؤ تھا۔ بڑے بڑے شاعروں کے شعر یاد تھے۔ لیکن ایمانداری کی بات یہ تھی کہ کبھی سرقۂ شعر نہیں کرتے تھے۔ جس شاعر کا شعر ہوتا بڑے خلوص سے اس کا نام بھی بتا دیتے۔ ایسے ہی ایک دفعہ کسی مجلس میں شعر و شاعری کی ٹھن گئی۔ اس گلستان شاعری کے سبھی بلبلوں نے اپنے اپنے رنگ میں شاعری کی کاشت شروع کر دی۔ ایک نے گلکاری کی۔
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے وہ پھر لہو کیا ہے
جو ساس ہی کو نہ پیٹے وہ پھر بہو کیا ہے
دوسرے نے پیوند کاری کی۔
بروز حشر میں سیدھا چلا جاؤں گا جنت میں
وہیں سے آدم آئے تھے وہ میرے باپ کا گھر ہے
تیسرے نے کچھ یوں پھلجھڑیاں چھوڑیں۔
اف یہ تیرا تیر نظر، زخمی جگر، جاؤں کدھر
ہے آج سنڈے جس کے سبب چھٹی پر ہیں سب ڈاکٹر
ادھر مولانا عبدل دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہے تھے اور جب ان سے برداشت نہیں ہوا تو ڈپٹ کر بولے۔
درد سر ہوتا ہے بے رنگ نہ فریاد کریں
بلبلیں مجھ سے گلستاں کا سبق یاد کریں
ان کی اس تعلّی کو دیکھ کر مجھ سے بھی نہ رہا گیا اور تڑ سے میں نے کہا ’’ارے آپ کیا کرسکتے ہیں جب کہ خود دوسروں کے اشعار سنایا کرتے ہیں۔‘‘ یہ سن کر مولانا جوش میں آگئے۔ کہنے لگے اس کے جواب میں میر انیس کی ’’غزل‘‘ کے دو شعر سنو!
ایک قطرے کو جو دوں بسط تو قلزم کردوں
بحر مواج فصاحت کا تلاطم کر دوں
ماہ کو مہر کروں ذروں کو انجم کر دوں
گنگ کو ماہر انداز تکلم کردوں
محفل سے واہ واہ کی صدا اٹھی۔ مگر میں نے دھیرے سے مولانا عبدل کے کان میں کہا کہ جناب یہ میر انیس کی غزل کے اشعار نہیں ہیں یہ تو ان کے مرثیہ کے اشعار ہیں۔ ’’تو کیا میر انیس نے اپنا مرثیہ خود لکھا تھا؟‘‘ انھوں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ میں نے کہا ’’میرا مطلب ہے کہ میر انیس مرثیہ نگاری کے لیے مشہور ہیں اور آپ کے سنائے ہوئے یہ دونوں شعر دراصل ان کے لکھے ہوئے ایک مرثیہ کے ہیں۔‘‘ لیکن اب کیا ہوتا تیر تو کمان سے نکل چکا تھا۔ جس کی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے مولانا نے اس کی بڑی پیاری توجیہ کی۔ کہنے لگے ’’ارے تمھیں کیا پتا؟ میر انیس اپنے مراثی کی ابتدا غزل کے اشعار سے کرتے تھے۔ مولانا عبدل کی یہ توجیہ سن کر انگشت بدندان ہونے کی بجائے میں انگشت بہ اذان ہوگیا۔ میں یہ سوچ کر رہ گیا کہ مولانا نے شاعری کا بڑا ’’گہرا‘‘ مطالعہ کیا ہوگا۔
خیر! مولانا عبدل شعر و شاعری کے شوقین تو تھے ہی ساتھ ہی انھیں اپنی تصویر کھینچوا کر اخباروں میں چھپوانے کا شوق بھی کچھ کم نہ تھا۔ ہر وقت اسی کوشش میں رہتے کہ کسی طرح ان کی تصویریں بڑے بڑے اخبارات میں شائع ہو جائیں۔ ایک بار میر باقر نے ان سے کہا: بھئی عبدل! یہ تم نے کیا خبط پال لیا ہے کہ تمھیں بس ایک ہی جنون رہتا ہے کہ کب تمھاری تصویر اخبار میں چھپے؟ مولانا پوری سنجیدگی سے گویا ہوئے: باقر صاحب ایسی بات نہیں کہتے۔ اگر یہ خبط ہے تو پھر آج کے ان شاعروں کے بارے میں کیا کہیے گا جنھیں نذرانوں سے زیادہ مشاعروں کی تصویریں عزیز ہوتی ہیں۔
گورداس پور میں پیدا ہوئے مولانا عبدل جب ملک کی ایک مشہور و معروف درس گاہ سے فارغ التحصیل ہو کر آئے تھے تو بڑے کرو فر سے چلتے۔ انھیں بڑا ’’گمان‘‘ رہتا تھا کہ وہ ایک عظیم الشان درس گاہ سے سند یافتہ ہیں۔ یہاں یہ بحث بے کار ہے کہ ان کی بھی کوئی سند تھی یا نہیں؟ بڑی بے چین طبیعت پائی تھی انھوں نے۔ کسی ایک نقطے پر ٹھہرتے ہی نہیں تھے۔ شروع شروع میں بڑے زور و شور سے اپنے مسلک حق کا پرچار کیا۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب کبھی کسی خانقاہ یا زیارت گاہ کے قریب سے ان کی سائیکل یا رکشہ کا گزر ہوتا تو دل ہی دل میں فوراً توبہ اور تجدید ایمان کرتے اور ناک بھوں اس طرح سکوڑتے جیسے کوئی بدبو سی آ رہی ہو۔
لیکن اس شہر میں ان کے مسلک حق کی دال گلنا تو دور ہانڈی بھی نہیں رکھی جاسکتی تھی۔ اس لیے آہستہ آہستہ وہ سیکولر ہوتے گئے۔ اور پھر ان کے پیٹ میں اس ’’سیکولرازم‘‘ کا درد اس شدت سے اٹھا کہ انھوں نے ’’اتحاد ملت‘‘ کا بڑا زور دار نعرہ مارا۔ مگر ہائے ناکامی! ان کی ایک بھی نہ چلی اور اس میں بھی وہ فیل ہوگئے۔
اخبارات کا مطالعہ کثرت سے کرتے تھے۔ کوئی کام تو تھا نہیں اس لیے اردو اخبارات کے ساتھ ساتھ ہندی اخبارات کی بھی چندی چھڑا کر چاٹ جاتے تھے۔ رہی انگلش! تو انگلش سے انھیں اللہ واسطے کی دشمنی تھی۔ انھیں انگریزوں سے زیادہ انگریزی سے نفرت تھی۔ پتا نہیں اس کے پیچھے کیا اسباب تھے۔ بہرحال ان اخبارات میں بڑے بڑے مذہبی رہنماؤں اور دھارمک پنڈتوں کی تصویریں شائع ہوتی تھیں۔ انھیں کو دیکھ کر ان کے دل میں بھی اخبارات میں تصویریں شائع کرانے کا شوق پیدا ہوا جو آگے چل کر ’’عشق‘‘ کی شکل اختیار کر گیا۔ اور پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایک مہینے کے اندر اندر شہر میں ان کا ’’ڈنکا‘‘ بجنے لگا۔ روز ان کا بیان مع تصویر ضرور چھپتا تھا۔ مگر اس کے لیے انھیں کافی پاپر پیلنے پڑے۔ انھوں نے ایک خانقاہ کے متولی کو پٹایا اور آہستہ آہستہ خانقاہ پر قابض ہوگئے۔ اب اگر ان کی خانقاہ میں آیت کریمہ کا ختم بھی ہوتاتھا تو اخبارات میں اس کی سرخیاں ضرور مل جاتی تھیں وہ بھی مع تصویر۔
پھر تو انھیں چرس جیسا نشہ لگ گیا۔ کوئی موقع ہو یا نہ ہو ایک تصویر ضرور چھپنی چاہیے۔ اگر کبھی کسی مقام پر دیکھتے کہ ان کی تصویر نہیں لی جا رہی ہے تو غول میں جبراً گھسنے کی کوشش کرتے۔ اور تصویر کھنچاتے وقت کیمرے سے اتنے قریب ہوجاتے کہ لگتا جیسے کیمرے میں گھس ہی تو جائیں گے۔
ایک دن میں نے ایک مقامی اخبار میں ان کی تصویر دیکھی ایسا لگ رہا تھا کہ کھجور کا ایک تنا اب گرا کہ تب گرا۔ ان کے تصویر کھنچوانے کے اس جنون نے ان کو بڑا بدنام کیا۔ لیکن ان پر اس کا ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوا بلکہ اس میں اور شدت آگئی۔ کسی نے ان سے ان کی اس بدنامی کا ذکر کیا تو طیش میں آکر کہنے لگے، ’’اسی کا نام تو شہرت اور نیک نامی ہے جسے میرے حاسدین بدنامی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔‘‘ اور پھر انھوں نے مقامی اخبارات سے ترقی کرکے قومی اور بین الاقوامی اخبارات میں پہنچنے کے زینے تلاش کرنے شروع کر دیے۔ اور اس بھنور میں ایسا پھنسے کہ پھنسے ہی رہ گئے۔
دسری طرف ان کی شہرت حدود شہر کو توڑ کر دور دراز علاقوں تک پھیلنے لگی تھی یہاں تک کہ صوبائی اور قومی دارالحکومت تک پہنچ چکی تھی۔ ان کے سلسلے میں لوگوں کے دو طرح کے خیالات تھے۔ کچھ لوگ کہتے کہ یہ مولانا بڑا ہی ناہنجار ہے۔ سستی شہرت بٹورنے کے لیے جھوٹی سچی خبریں اپنی تصویر کے ساتھ خواہ مخواہ شائع کراتا ہے۔ اس گروہ میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ اخبارات کے نامہ نگار اور مدیران بھی تھے۔ جنھوں نے مولانا کو بڑے قریب سے ’’کیمرے‘‘ میں دیکھا تھا۔ خاص طور سے ایڈیٹر حضرات کے پاس جب ان کی کوئی رپورٹ پہنچتی تو وہ زیر لب بڑ بڑاتے کہ"Love Letter" آگیا۔
دوسرے گروہ میں علمائے کرام تھے جو عصر حاضر میں میڈیا کی ضرورتوں کے تحت مولانا کے اس عمل کو اگرچہ لائق تحسین نہیں سمجھتے تھے مگر خاموش حمایت ضرور کرتے تھے۔ مولانا عبدل کو اس کا بڑا فائدہ ہوا۔ اب وہ ملک کی کئی بڑی جمعیتوں اور تنظیموں کے سکریٹری اور جنرل سکریٹری بنا دیے گئے۔ اب انھوں نے تین طرح کے لیٹر پیڈ چھپوائے جن پر رپورٹ لکھ کر بھیجتے تھے۔ ایک لیٹر پیڈ خانقاہ کے متولی کی حیثیت سے (واضح رہے کہ وہ متولی اپنی محنتوں سے بنے تھے) دوسرا متعدد جمعیتوں اور تنظیموں کے سکریٹری اور جنرل سکریٹری کی حیثیت سے۔ اور تیسرا اپنے مادر علمی کے اولڈ بوائز کے صدر اعلیٰ کی حیثیت سے۔ چونکہ اولڈ بوائز والی تنظیم کی تشکیل انھوں نے خود کی تھی اس لیے صدر اعلیٰ سے نیچے رہنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اگرچہ دوسرے عہدوں کا پر ہونا ہنوز باقی تھا۔
اسکااثر ان کی معاشی حالت پر بھی پڑا اور سائیکل چلا چلاکر جوتیاں گھسنے والا آدمی سزوکی اور ٹویرا جیسی مہنگی گاڑیوں میں گھومنے لگا۔ معاشی حالت سدھری تو تن و توش میں بھی سدھار آیا۔ اتنا! کہ اگلی سیٹ پر ان کے اور ڈرائیور کے علاوہ کسی تیسرے کے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔
ابھی ان کی فراغت کے چار ہی سال ہوئے تھے کہ ملک کی سب سے بڑی عید، ’’عام انتخابات‘‘ کا اعلان ہوگیا۔کون نہیں جانتا کہ اس عید کے لیے لیے روزے نہیں رکھے جاتے بلکہ مولانا عبدل کی طرح ایمان دار اور مخلص قسم کے لوگ رمضان کا حصہ اسی مہینے میں کھا پی کر رمضان کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ سیاسی پارٹیاں اپنے انتخابی اشتہار میں جٹ گئیں۔ ’’ایک پارٹی‘‘ کے علاوہ ساری پارٹیاں مسلمانوں سے ہمدردی کا جذبہ جو ان کی ’’ناف‘‘ میں چھپا رہتا ہے ظاہر کرنے لگیں۔ ظاہر ہے اس کے لیے ان کو مسلم قیادت کے چھوٹے تالاب کی بڑی مچھلیوں کو بے خلوص نمستے بھی کہنا پڑا اور مدارس کی بوسیدہ نظر آنے والی دہلیز بھی پھلانگنی پڑی۔ جس کی بڑی بڑی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں۔ جنھیں دیکھ کر مولانا عبدل مچل مچل جاتے اور ان کے پیٹ کا چوہا اور شدت سے اچھل کود مچانے لگتا۔
ایک دن موقع ہاتھ آہی گیا۔ مجھ سے بولے ’’یار تم جبار کو تو جانتے ہی ہوگے۔‘‘ میں نے کہا ہاں کیوں نہیں وہی تو جو گورداس پور میں بھینس چگایا کرتے تھے اور شہر میں مفتی صاحب کہلاتے تھے۔‘‘ پہلے تو ان کے چہرے پر جھلاہٹ کے آثار دکھے پھر پتا نہیں کیا ہوا بڑی مقفی اردو میں بولے ’’اخبار کمر لچکدار کے نامہ نگار اور تصویر کار ذیشان جبار کی بات کر رہا ہوں اے نابکار‘‘ مجھے ان کی ایسی اردو پر بڑا رشک ہوا اور میں نے بڑی عاجزی سے کہا ’’مگر جناب! مجھ نابکار کو ’’تصویر کار‘‘ کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔ انھوں نے فخر سے سینہ تان کر کہا ’’فوٹو گرافر کا اردو ترجمہ تصویر کار ہے۔‘‘ اچھا تو پھر؟ میں نے کہا۔ کہنے لگے ’’اس نے مجھے بتایا ہے کہ آج شام گاندھی اسٹیڈیم میں ایک بہت بڑا سیاسی جلسہ ہونے جا رہا ہے۔ بڑے بڑے نیتا آ رہے ہیں۔ سنا ہے کہ وہ فلمی اداکار بھی آ رہا ہے.... ارے وہی.... کیا نام ہے اس کا.... جو ’’جادو کی جھپی‘‘ دیتا ہے؟ میں نے بڑی لجاجت سے کہا ’’ارے سرکار مجھ خاکسار کو فلمی اداکار سے کیا سرورکار‘‘ اور مسکرا پڑا۔ میری مسکراہٹ پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے مولانا عبدل بولے ’’زیادہ قافیہ پیمائی نہ کرو۔ میں تمھیں بس یہ بتا رہا ہوں کہ اس جلسہ میں مجھے قومی سطح کے اخبارات میں شائع ہونے کا موقع ملنے والا ہے۔‘‘ میں نے بطور تجسس پوچھ لیا ’’وہ کیسے؟‘‘ مگر وہ گول کر گئے اور کچھ بتائے بغیر اٹھ کر چل دیے۔
مولانا عبدل کی یہ بات شام تک میرے ذہن پر سانپ کی طرح پھن کاڑھے چھائی رہی جس کا اثر یہ ہوا کہ شام ہوتے ہی میرے قدم اسٹیڈیم کی طرف اٹھ گئے اور میں ٹھیک وقت پر وہاں پہنچ گیا۔ چونکہ ایک فلمی اداکار بھی تشریف لا رہے تھے اس لیے پنڈال بڑا شاندار لگایا گیاتھا اور سامنے شمال کی جانب بڑے لوگوں کے لیے شاندار اسٹیج۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر پہلے سے ہی ’’جادو کی جھپی‘‘ والے اداکار کو دیکھنے اور سننے کے لیے اپنی اپنی جگہوں پر لہرا رہا تھا۔ جنھیں دیکھ کر میرے ذہن میں ایک بیہودہ خیال آیا کہ اگر مولانا عبدل کی آیت کریمہ میں اتنے ہی لوگ جمع ہو جائیں تو ان کی تو چاندی ہوجائے گی۔
خیر! جلسہ خلاف دستور وقت سے ہی شروع ہوگیا۔ روایتی انداز میں آغاز کے بعد سیاسی ’’چھٹ بھیوں‘‘ کی بڑی لچھے دار اور گرجدار تقریریں ہوئیں۔ جلسہ جب اپنی جوانی کو پہنچا تو ’’جادو کی جھپی‘‘ والے فلمی اداکار کو ڈائس پربلایا گیا۔ پورا مجمع تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ فلم اداکار ہاتھ ہلاتا ہوا ڈائس پر آیا اور ابھی تقریر شروع ہی کی تھی کہ میں نے اسٹیج کے قریب ایک گاڑی رکتی ہوئی دیکھی، جوکچھ کچھ جانی پہچانی سی لگی اور پھر میرے خیال کی تصدیق ہوگئی۔ یہ مولانا عبدل کی گاڑی تھی۔ کیونکہ گاڑی سے اترنے والا کوئی اور نہیں مولانا عبدل ہی تھے۔ گاڑی سے اترکر مولانا بڑی شان سے اسٹیج کی طرف بڑھے اور جیسے ہی انھوں نے اسٹیج پر قدم رکھا ایک زلزلہ سا آگیا۔ پتا نہیں کیا ہوا پورا اسٹیج کھاس پھوس کی طرح ڈھ گیا، جس میں اسٹیج کی زینت بنے حضرات غائب ہوگئے۔ ادھر مجمع سے بھاگو بھاگو کا شور نشور بلند ہوا۔ پھر جو افرا تفری مچی ہے تو جس کے جدھر سینگ سمائے بھاگ نکلا۔ ایسے میں وہاں میں کیوں ٹکا رہتا؟
اگلی صبح مجھے پتا چلا کہ مولانا کی تصویریں قومی و بین الاقوامی اخبارات میں شائع ہوئی ہیں، لیکن خود مولانا عبدل اسپتال میں ہیں۔ میں جب اسپتال میں ان سے ملا تو بڑے ہشاش بشاش نظر آئے اور قریب ہی پڑے ہوئے اخبار کی طرف اشارہ کیا اور میں نے سر تسلیم خم کر دیا۔

طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ

ماہنامہ ایوان اردو دہلی اور اردو نیٹ جاپان پر شائع شدہ  جس کی لنک درج ذیل ہے 

Sunday, 1 September 2013

ٹرین میں چوہا

نائن الیون کی تاریخ تھی جب میں نے ٹرین میں چوہا دیکھا۔ذہن کوزور کا جھٹکا زوروں سے لگا۔وہ تو خیر ہوا کہ میں ہندوستانی ٹرین میں تھا۔امریکہ کی کسی ٹرین میں ہوتا تو میرا کیا حشر ہوتا ،خدا ہی جانے۔چوہا ٹھیک میرے سامنے والی نچلی برتھ کے نیچے تھا ۔ایک لمحے کو دہشت ہوئی۔پھر دہشت گرد یاد آئے۔پھر امریکہ یاد آیا ۔ورلڈ ٹریڈ سینٹر یاد آیا ،جہاں ہزاروں بے قصور لوگ موت کے گھاٹ اتار دئے گئے۔پھر افغانستان یاد آیا ،جہاں آج بھی عام لوگ چوہوں کی طرح چھپے رہتے ہیں ۔پھر لیڈران جہان بانیاں یاد آگئے ۔ پھر اپنے ملک کے نیتا یاد آگئے۔ پھر عبدل بھائی کیسے نہ یادآتے ۔
عبدل بھائی آج کل مرکزی کابینہ میں خوراکی کے وزیر ہیں ۔کالج کے زمانے میں طلبا یونین کے انتخاب میں ہم سے ہاتھ جوڑ کر ووٹ مانگا کرتے تھے ۔سنا ہے اب وہ ہاتھ جوڑ کر ووٹ نہیں مانگتے بلکہ دونوں ہاتھوں سے ’’خوراک‘‘ سمیٹ رہے ہیں ۔
پھر چوہے کی طرف متوجہ ہوا تو عبدل بھائی کی تین خصوصیات اس میں دکھیں ۔غرور ،دور بینی اور حساسیت۔چوہے کی بڑی بڑی مونچھیں ،اس کے غرور وتکبر کا پتا دے رہی تھیں ۔یہ عام عبدل بھائی کی خاص خصوصیت ہے ۔ آنکھیں گلیلیو کی دور بین کی طرح لگیں۔مانو گلیلیو پہلی دفعہ دور بین لگا کر سب کو چندھیائی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو ۔ہمارے عبدل بھائی بھی کم دور بین نہیں ہیں ۔کب کس پارٹی میں شامل ہونا ہے ،کس عہدے میں زیادہ کمائی ہوگی ،ان سب کا اندازہ انہیں شاید سیاست کی دنیا میں آنے سے قبل ہی ہوگیا تھا ۔چوہے کی حساسیت کا پتا اس کی مسلسل ہلتی ہوئی گردن اور تھرکتے ہوئے بدن سے چلتا ہے ۔ذرا سا آپ ہلے نہیں کہ اس نے یو ٹرن لیا ۔یو ٹرن لینا بھی ہمارے عبدل بھائی کی خصوصیت ہے ۔کبھی کہیں گے ’’ہندوستان صرف اکثریت کا ہے ۔‘‘میڈیا گھیرے گی تو یو ٹرن لیتے ہوئے کہیں گے ’’یہ تو میرا سوال تھا جسے میڈیا نے توڑمروڑ کر پیش کیا ۔‘‘ زیادہ گھیرا جائے تو یہ کہہ کر دامن بچا لیں گے کہ ’’چوہے کے خراٹے لینے سے شیر کی نیند میں خلل نہیں پڑتا ۔‘‘
میں اسی سوچ میں گم تھا کہ ذہن کے پردۂ سیمیں پر ایک دوشیزۂ سوال نے انگڑائی لی ۔اور اس کی دو شیزگی اس طرح نکھری کہ اس وقت ٹرین میں چوہے کا کیا کام ؟پھر ان مونگ پھلی کے چھلکوں پر نظر پڑی جسے لوگ ٹائم پاس کر نے کے لئے چوہوں کی طرح کتر کتر کے فرش پر ڈال دیتے ہیں ۔اور آدمی اور چوہے کا فرق مٹنے میں ذرا سا فاصلہ رہ جا تا ہے ۔
میں نے سوچا چوہوں کا آبائی وطن کھیت کھلیان ہی تو ہوتا ہے ،یا پھر وہ اسٹو رروم میں پائے جاتے ہیں ۔یہ اپنا دیس چھوڑ کر ولا یت میں کیا کر رہا ہے ؟ولا یت کے نام پر ولا یتی لوگ یاد آگئے۔پھر انگریزوں کا دور حکومت یا د آیا اور میں الجھنے لگا اور پھر بے اختیا ر میری زبان سے نکلا :’’ہشت‘‘اور چوہا دہشت زدہ ہوکر بھاگ نکلا ۔جتنی تیزی سے وہ بھاگ رہا تھا اتنی تیزی سے میرے خیالات کی رو بہک رہی تھی ۔
چوہے کو سنسکرت میں کیا کہتے ہیں ۔۔۔موسک
فارسی میں کیا کہتے ہیں ۔۔۔موش
انگریزی میں کیا کہتے ہیں ۔۔۔Mouse
تینوں زبانوں میں چوہے کے نام میں کسی قدر صوتی مماثلت ہے ۔اور اسی مماثلت نے مجھے بہار پہنچا دیا ۔
بہار کے کچھ علاقوں کے گاؤں دیہات میں ’’پتھروں کے عہد‘‘کی ایک ہندو ذات بستی ہے ۔ادبی زبان میں اسے آپ ’’خرمن غیر کی خوشہ چیں قوم ‘‘کہہ سکتے ہیں ،جو زندگی کا سفر جا ری رکھنے کے لئے مرغی پالن کرتی ہے اور کھیت کھلیانوں میں گرے پڑے اور چوہوں کے بلوں میں جمع شدہ دھان گیہوں چن چن کر جمع کرتی ہے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے بے تحاشہ پیدا کردہ بچوں کے پیٹ پالتی ہے۔ساتھ ہی چوہوں کی جڑیں کھود ڈالتی ہے۔بلوں سے اس طرح کھود کر نکالتی ہے گویا ان سے ’’نکسلی ‘‘دشمنی ہو۔مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی زبان میں چوہے کو ’’مُوسا‘‘کے نام سے جانا جا تا ہے اور اسی مناسبت سے اس ذات کو ’’مُسہر‘‘اور ان کی بستی کو’’ مُسہر ٹولی ‘‘ کہا جاتا ہے۔مجھے جملہ معترضہ کے طور پر خیال آیا کہ ادھر ہی کچھ علاقوں میں خالو کو’’ مَوسا‘‘کہا جاتاہے ۔اردو میں مُوسااور مَوسا اگر ایک ہی رسم خط میں لکھا جائے اور یقیناًلکھا جائے گا تو عبدل بھائی جیسے وزیر تو کچھ بھی پڑھ لیں گے ۔خالو کو چوہا اور چوہے کو خالو بنا دیں گے ۔کیوں کہ وہ کالج کے زمانے میں پڑھتے کم تھے اور لیڈری زیا دہ کرتے تھے۔
بہر حال میں سوچنے لگا کہ ڈارون کو اگر ان مُسہروں کے اس تابناک روکی زیارت کا شرف حاصل ہوتا تو وہ یہی کہتا کہ یہ لوگ کسی زمانے میں چوہا رہے ہوں گے اور صدیوں ارتقا کے منازل طے کر کے آدھے انسان تو بن ہی گئے کیوں کہ چہرے مہرے ،گھر بار اور اوڑھنا بچھونا کے اعتبار سے ٹی وی پر پروسے جانے والے گلیمر کے مقابلے میں یہ لوگ آدھے ہی انسان لگتے ہیں ۔پوری بستی کے عورت مرد،بوڑھے بچے اور جوانوں کے سارے لباس اکٹھا کر لئے جائیں تو بھی منسٹر عبدل بھائی کے پچھلے ایک مہینے میں تبدیل کئے ہوئے ڈریسوں سے کم پڑجائیں ۔اور پوری بستی کے مکانات کی’’ اینٹ شماری ‘‘کی جائے تو ریلائنس کے کسی بند پڑے پٹرول پمپ کی اینٹوں سے بھی کم پڑجائیں ۔ان کے یہاں فراوانی صرف دو چیزوں میں ہے ۔آدمی کے بچوں میں اور مرغی کے بچوں میں ۔مردم شماری والے بھی ان علا قوں کا رخ کرتے ہوئے گھبرا تے ہیں اور جو تھوڑے بہت ’’ذمہ دار ناگرک‘‘ ہوتے ہیں وہ پہلے سے ہی ایک بوری کاغذاور ایک تھیلا قلم کا انتظام کر لیتے ہیں تاکہ بچوں کو شمار کرتے وقت ان کی ’’روشنائی ‘‘خشک نہ ہوجائے۔
یہ لوگ آدھے انسان اس لئے بھی ہیں کیوں کہ یہ انتہائی حقیر جانور ،چوہے مارتے ہیں اور وہ بھی لاٹھی ڈنڈے سے ۔جس دن یہ بندوق سے آدمی مارنا شروع کر دیں گے پورے انسان ہوجائیں گے ،کیوں کہ آج کل پورا انسان چوہا مارتا ہی کہاں ہے ۔وہ تو قید کرتا ہے اور کسی پڑوسی کے گھر کے سامنے چھوڑ آتا ہے ۔مارتا تو وہ انسان کو ہے ۔کبھی بندوق سے کبھی بم سے اور دل نہ بھرے تو ایٹم بم سے ۔اتنے میں میں نے دیکھا کہ وہ چوہا پھر سے اپنی جگہ واپس آگیا ہے۔میں نے دل میں کہا ’’بے غیرت‘‘۔پتا نہیں ۔شاید وہ سمجھ گیا اور مجھے گھورنے لگا ۔کبھی پھدکنے لگتا اور کبھی میری طرف دیکھ کر سر ہلاتے ہوئے ہونٹوں کو تیزی سے جنبش دیتا ۔گویا بدبدا کر کہہ رہا ہو ’’بے غیرت ہم نہیں تم لوگ ہو ۔مونگ پھلیا ں ،چنا جور گرم بسکٹ اور چپس کھاکر پوری ٹرین گندی کر دیتے ہو ۔میں توصاف کرنے آیا ہوں ۔‘‘پھر وہ آسمان کی طرف دیکھ کر وہی حرکت کرنے لگا ۔گویا خدا سے گڑگڑا کر کہہ رہا ہو :
’’الہی ان کا من و سلوی روک لے ۔یہ آدھا کھاتے ہیں اور اور آداھا گوداموں میں بھر کر مہنگائی بڑھاتے ہیں اور ہم غریبوں پر ظلم ڈھاتے ہیں ۔ان کے بجا ئے ہمیں اور ہماری ’چوہا قوم‘ کو خوب دے تاکہ ہم موٹے تازے ہو جائیں تو کم سے کم ’مسہر ‘لوگوں کے پیٹ توبھریں ۔
اتنے میں ٹرین کینٹین کا کارندہ کھانے کا آرڈر لینے آگیا ۔میں نے یہ سوچ کر انکار کر نے عقل مندی دکھائی کہ آدمی ہی تو ہے ۔پورا آدمی ۔کیا پتا کھانے میں نشہ آور دواملا دے ۔سامان لوٹ لے ۔میرے انکار کر نے پروہ آگے بڑھ گیا ۔میں نے دیکھا کہ چوہے نے یو ٹرن لیا اور تیزی سے کینٹین کی طرف بھاگا ۔تب میری سمجھ میں آیا کہ وہ ولایت میں کیا کر رہا ہے ۔
ولایت جانے کی چار وجہیں میری سمجھ میں آتی ہیں ۔تلاش معاش،تلاش مال ،حفظان جان و صحت اور جلا وطنی۔پچھلی دو دہائیوں میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والوں میں دو لوگ بہت مشہور ہوئے ہیں ایک ’’آفتاب ‘‘ اور دوسرے ’’ماہ تاب‘‘۔ حسن اتفاق سے دونوں مشرق میں ہی اُگے اور مغرب میں ڈوبنے والے ہیں ۔چوہے کو ہم کتنی ہی حقارت سے کیوں نہ دیکھیں وہ کائنات کے نجات دہندہ کی شان میں گستاخی نہیں کر سکتا۔حفظان جان وصحت کے لئے ولا یت دو طرح کے لوگ جاتے ہیں ۔ایک وہ جنہیں خدا نہ خواستہ بھیانک مرض لاحق ہو،دوسرے وہ جنہیں ملک وقوم سے غداری کا تمغہ ملا ہو اور حفظان جان کی خاطر ولایت میں کوئی خاطر خواہ مقام تلا ش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہوں ۔یہ دونوں باتیں چوہوں میں نہیں پائی جاتیں ۔وہ چوہا تو نہایت ہی تندرست اور تن وتوش والا بیوپاری لگ رہا تھا ۔
رہا ملک وقوم سے غداری کا سوال تو ان کے یہاں ملکی سرحدیں ہی نہیں ہوتیں اور قوم سے غداری کا شرف تو حضرت میر جعفر جیسے لوگوں کا شیوہ ہے ۔بے چارے چوہے تو آخر چوہے ٹھرے ۔قوم سے غداری کا مطلب کیا جانیں ۔رہاتلاش مال اورتلاش معاش ،تو پہلے ان دونوں کا فرق سمجھ لیں تاکہ آگے کی بکواس سمجھنے میں آسانی ہو ۔تلاش مال اور تلا ش معاش میں وہی فرق ہوتا ہے جو قوت لایموت اور حرص لایموت میں ہے اور خوردن برائے زیستن اور زیستن برائے خوردن میں ہے ۔اور جو فرق پیٹ اور توند میں ہے یعنی تلاش معاش تو یہ ہے کہ انسان اتنی روزی کمائے کہ خودکواور اپنے متعلقین کو چین سے قبر تک پہنچادے اور تلاش مال یہ ہے کہ ؂
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
اتنا گہرا تجزیہ کرنے کے بعد میری سمجھ میں آیا کہ چوہا تلاش معاش میں ولایت میں بھٹک رہا ہے کیوں کہ سارا مال تو ولایتی بینکوں میں ہی جمع ہے ***
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۲۵

اردو نیٹ جاپان کی لنک جہاں یہ انشائیہ شائع ہوا تھا
http://urdunetjpn.com/ur/2013/02/19/inshaiya-tayyab-furqani/

Sunday, 4 August 2013

دہلی میں بس کا ایک سفر


بس ایسا لفظ ہے جو کئی معنوں میں مستعمل ہے ۔ایک طاقت و قوت کے معنی میں ،جسے ہندی میں’’ وش‘‘ کہا جاتا ہے۔جیسے طلبا اکثر کہتے ہیں ’’میرا بس چلے تومیں ایسے سارے ٹیچروں کو نکال باہر کروں جو پابندی سے کلا س نہیں لیتے اور طلبا کے مستقبل سے کھلواڑ کرتے ہیں اور جو موضوع پر کلاسوں میں گفتگو نہیں کرتے ۔اسی طرح لفظ بس کی تکرار سے خاموش ہوجانے یا کسی کام سے روکنے کا معنی پیدا ہوتا ہے جیسے کوئی چڑچڑی بیوی اپنے شوہر سے اکثرکہا کرتی ہے ’’بس بس بہت ہوگیا ۔اب اگر آپ نے کچھ کہا تو مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا لوں گی ہاں!‘‘۔ایک بس وہ ہوتی ہے جس سے ہم سفر کرتے ہیں ۔کبھی سیٹ پر بیٹھ کر ،سیٹ نہ ملے تو کھڑے ہوکراور کھڑے ہونے کی جگہ نہ ملے تو لٹک کر ۔گاؤں دیہات میں تو بس کی چھت پر بیٹھنے کا اپنا ایک الگ ہی مزا ہے۔
اس بس کی تکرار کے بجائے اگر ٹکرار ہوجائے یعنی دو بسیں پہلوانوں کی طرح آمنے سامنے آجائیں تو سب سے زیادہ نقصان حکومت وقت کا ہوتا ہے ۔اس کے خزانے سے کم سے کم دوچار لاکھ کی رقم تو کم ہوہی جاتی ہے ۔حادثے میں جو بالکل مر جائیں ان کو پچاس پچاس ہزار اور جو تھوڑا بہت مریں ان کو پچیس پچیس ہزار روپے دینے کا اعلان۔اور یہ رقم بھی کم جان لیوا نہیں ہوتی ہے ۔زندہ لوگوں تک پہنچتے پہنچتے نہ جانے کتنے ضمیروں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے ۔
آج کل دہلی کی بسیں اپنے شباب پر ہیں ،سرخ روشن پیشانی اور سبز و سرخ لبادہ اوڑھے یہ بسیں کبھی کبھی تو جوانی کی حقیقی آگ میں واقعی جھلس جاتی ہیں ۔(دہلی میں سفر کرتے وقت استاد محترم پروفیسر خالد محمود کی یہ بات ہمیشہ یا د رکھتا ہوں کہ کسی کو تم نہ ٹکر مار دو اور کوئی تمہیں نہ ٹکر مار دے)
ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اس کی پہچان ہے ۔اور میرے خیال میں اس کا سب سے بڑا مظاہرہ دہلی کی بسوں میں ہوتا ہے ۔بیک وقت کم سے کم چار صوبوں بہار،یوپی ،ہریانہ اور دہلی کے لوگ اپنی اپنی بھاشا اور تہذیب کے ساتھ ضرور سفر کرتے ہیں ۔ان بسوں میں مختلف قسم کی ’’بھاشا مشرن‘‘ دیکھ کر افضل کی بکٹ کہانی کی زبان یاد آجاتی ہے ۔ایک دن میں پنجابی باغ سے مہارانی باغ کے لئے بس میں سوار ہوا۔دروازے کی پاس والی سیٹ پر ایک موٹی سی عورت براجمان تھی اور بھیڑ کی وجہ سے دروازہ بالکل جام ہوگیا تھا۔عورت نے اپنے سامنے کھڑے ہوئے لڑکے سے کہا’’ارے ہٹ جا مجھے اترنا ہے‘‘۔لڑکا بولا ’’مجھے بھی اترنی ہے‘‘۔موٹی عورت پر ایک پرانا لطیفہ یاد آیا :ایک تھے نتھو رام جی ۔بیڑی بڑی کثرت سے پیتے تھے اور وقت و مقام کا انھیں خیال نہیں رہتا تھا کہ وہ کب اور کہا ں بیڑی دھونک رہے ہیں ۔ایک دفعہ بس میں بھی شروع ہوگئے ۔پاس ہی ایک عورت اپنے چھ سات ننھے منے بچوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔نتھو رام جی کی بیڑی کا دھواں اسے ناگوار گزرا اور اس نے ٹن ٹنا کر اعتراض کردیا ۔’’شرم نہیں آتی سامنے لکھا ہوا ہے No Smoking اور تم بیٹھے بیڑی دھونکے جارہے ہو۔پھینکو اسے بس کے باہر‘‘۔لیکن نتھو رام جی اطمینان سے بیڑی پیتے رہے اور آہستہ سے سر گھماکر بولے ’’میڈم آپ نے یہ تو پڑھ لیا No Smoking مگر آپ کو یہ نہیں دکھتا ہے ’’بچے دو ہی اچھے ،چھوٹا پریوار سکھی پریوار‘‘۔آپ اپنے زائد بچوں کو اٹھا کر بس کے باہر پھینک دیجئے میں بیڑی پھینکے دیتا ہوں ‘‘۔
دہلی کی بسوں میں روز کوئی نہ کوئی نیا مسافر ضرور سفر کرتا ہے ۔اس کے نئے ہونے کا پتہ تب چلتا ہے جب وہ بار بار آپ سے پوچھتا ہے ’’فلاں اسٹاپ کتنی دور ہے ۔کتنے نمبر کی بس وہاں جاتی ہے ؟‘‘لیکن میرے ساتھ اس دن بڑے عجیب حادثے ہوئے ۔میری بغل والی سیٹ پر ایک ایسا آدمی بیٹھا ہوا تھا جس نے پنجابی باغ سے مہارانی باغ تک کوئی اسٹاپ ایسا نہ چھوڑا ہوگا جب اس نے مجھ سے ’’سمے‘‘ نہ پوچھا ہو۔’کتنا سمے ہوا بھائی ؟‘ میں بتا بتا کر تھک گیا وہ پوچھتے پوچھتے نہیں تھکا ۔ایک وقت خیال آیا کہ گھڑی اتار کر اس کو تھما دوں لیکن چوں کہ نقصان اپنا ہی تھا اس لئے خاموش رہا ۔دہلی کی بسوں میں لیڈیز سیٹیں ریزرو ہوتی ہیں ۔(اب ۲۵ فیصد سے بڑھ کر ۳۵ فیصد ہوگئیں ہیں )ایسے میں خواتین کو یہ اختیا ر ہوتا ہے کہ اگر کوئی مرد ان کی سیٹ پر بیٹھا ہو تو اسے ’’اکھاڑ ‘‘ پھنکیں ۔اس دن میں نے مردوں کی سیٹ پر ایک خاتون کو بیٹھے ہوئے دیکھا اور اس کشمکش میں پڑگیا کہ انھیں اٹھا ؤں یا نہ اٹھاؤں ۔اٹھاؤں نہ اٹھاؤں ۔پھر یہ سوچ کر دل کو مطمئن کرلیا کہ ’’ناری سمان‘‘ہمارا اخلاقی فریضہ ہے ۔لیکن دوسرے دن لیڈیز سیٹ خالی پا کر اس پس وپیش میں پڑگیا کہ بیٹھوں یا کھڑا رہوں ۔بیٹھتا ہوں اور کوئی خاتون بعد میں اٹھادے تو توہین اور سیٹ خالی ہوتے ہوئے بھی کھڑا رہوں تو حماقت۔اسی ادھیڑبن میں تھا کہ جیسے پیچھے سے کسی نے کہا ’’آج سنڈے ہے ،آج کے دن لیڈیز کم سفر کرتی ہیں ۔بیٹھ جاؤ‘‘ ۔اور میں دھم سے ایسے بیٹھ گیا جیسے سیٹ بھاگی جا رہی ہو۔اور اپنی آنکھیں بند کرلیں اور سونے کا ناٹک کرنے لگا کہ اگر کوئی خاتون آبھی جائے تو سوتا ہوا سمجھ کر نہ اٹھائے ۔لیکن اس وقت مجھے بڑا افسوس ہوا جب ایک نوجوان نے اپنی سیٹ ایک پری رو کے لئے قربان کردی ۔میں افسوس سے ہاتھ مل رہا تھا کہ باہر سے ایک کارڈ میرے ہاتھوں میں آکر گرا ۔یہ کوئی بنگالی بابا کا وزیٹنگ کاردڈتھا جس پر کچھ دعوے تحریر تھے ۔ان میں سے ایک یہ تھا کہ کسی کو بس میں کرنے کے لئے ہم سے رابطہ کریں ۔اور میں یہ نہیں سمجھ پایا کہ یہ ’’بس‘‘ کس معنی میں مستعمل ہوا ہے ۔اتنے میں بس اسٹاپ آگیا اور میں اتر گیا۔

طیب فرقانی 
ریسرچ اسکالر ،شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی





روزنامہ قومی سلامتی دہلی میں شائع شدہ انشائیہ کی تصویر اور لنک یہاں دی جا رہی ہے اس کے علاوہ اردو نیٹ جاپان کی لنک نیچے موجود ہے



سرخی شامل کریں