Showing posts with label مراسلے. Show all posts
Showing posts with label مراسلے. Show all posts

Monday, 3 March 2014

سیکڑوں مسلم طلبا و اساتذہ جمعہ کی نماز سے محروم

مکرمی!
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ۔یہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی کا پورا حق حاصل ہے ۔اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جہاں کہیں فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ یا خلل پڑے اسے دور کیا جائے ۔اب آئیے اس تحریر کے مقصد کی طرف۔مغربی بنگال میں آج کل سکنڈری بورڈ کے تحت دسویں (مدھیامک ) کے امتحانات جاری ہیں ۔اس کا آغاز ۲۴؍فروری سے ہوا۔۲۷؍فروری کو ہندو مذہبی تہوار ’’شبھ راتری‘‘ کی وجہ سے امتحانات معطل رہے یا یوں کہیں کہ چھٹی رہی ۔جب کہ ۲۸ ؍فروری کو جمعے کے دن امتحانات جاری رہے ۔چوں کہ امتحانات کا وقت دن کے ۱۲؍بجے سے شروع ہوکر تین بجے تک جاری رہتا ہے ۔اسی دوران جمعے کی نماز کا وقت بھی ہوتا ہے ۔ایسے میں وہ مسلم طلبا جو اس بار دسویں (مدھیامک) کے امتحانات میں شامل ہوئے ہیں وہ نماز جمعہ ادا کرنے سے قاصر رہے کیوں کہ جمعے کی نماز کے وقت وہ امتحانات میں مصروف رہے ۔یہ ان کا مذہبی حق تھا جو امتحانات کی نذر ہوگیا ۔اس سے نہ صرف طلبا متاثر ہوئے بلکہ سینکڑوں وہ مسلم اساتذہ بھی متاثر ہوئے جو ممتحن کی حیثیت سے مقرر ہوئے ہیں ۔ایسی صورت میں اس کی ذمہ داری کون لے گا؟کیا اس کا ذمہ دار بورڈ کو ٹھہرایا جانا چاہئے ،حکومت کو یا پھر ان مسلم ارباب اقتدار کو جو وزیر اعلی کی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملاتے پھرتے ہیں اور انھیں مسلم عوام کی کوئی فکر نہیں ہے ۔تعجب ہے کہ موجودہ حکومت کے مسلم حامیوں میں مولانا برکتی جیسے اونچی پہنچ والے علما بھی شامل ہیں اور کسی کی بھی توجہ اس بات کی طرف نہیں گئی کہ وہ حکومت یا بورڈ کو توجہ دلاتے کہ جمعے کے دن کا یا تو شیڈیول ہی نہ رکھیں یا پھر اوقات میں ترمیم کریں ۔مثلا جمعے کے دن اگر امتحانات ہوں تو یا ۹بجے سے شروع ہوں اور بارہ بجے تک ختم ہوجائیں یا دو بجے سے شروع ہوں اور پانچ بجے ختم ہوجائیں ۔اس طرح مسلم طلبا اور اساتذہ جمعے کی نماز ،جو ان کا مذہبی فریضہ ہے، ادا کرسکیں ۔در اصل جمعے کی نماز جماعت سے ہی ادا کی جاسکتی ہے ۔جب کہ دیگر نمازوں کے کے لئے گنجائش موجود ہے ۔اس لئے خاص طور موجودہ حکومت میں شامل مسلم رہنماؤں کو اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ آئندہ کے شیڈیول میں وہ بورڈ یا حکومت کو اس کی طرف متوجہ کریں ۔ابھی مارچ میں ہائر سکنڈری کے امتحانات بھی ہونے والے ہیں ۔اس لئے بر وقت توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ورنہ مغربی بنگال میں مسلمانوں کو اس کا شدید نقصان اٹھا نا پڑے گا ۔
طیب فرقانی 
کانکی ،گوالپوکھر ،اتر دیناج پور ، مغربی بنگال

روزنامہ آبشار کولکاتا اور بصیرت آن لائن پہ شائع شدہ۔۔۔۔ذیل میں لنک دی جا رہی ہے

Tuesday, 25 February 2014

پارلیمنٹ اور اسمبلی کی بےحرمتی میں روز بروز اضافہ

مکرمی!
پارلیمنٹ و اسمبلی کو مندر مسجد کی طرح مقدس کہا جاتا ہے ۔لیکن ان مقامات کی جس طرح بے حرمتی روز بروز بڑھتی جارہی ہے اس سے یہ تشویش لاحق ہوگئی ہے کہ کہیں ان کو ایک دن مسمار نہ کردیا جائے ۔جس طرح ہمارے ملک ہندوستان میں مساجد ،منادر اور دیگر مقدس سمجھے جانے والے مقامات کو سیاست کی آنچ پر ماضی میں چڑھایا جاتا رہا ہے ۔پارلیمنٹ و اسمبلی کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے ۔یہ بات تو طے ہے کہ مذہبی مقامات کی تقدیس کو ہر حال میں اولیت حاصل ہے اور اسی طرح پارلیمنٹ و اسمبلی کی تقدیس و حرمت کو برقرار رکھنا ہندوستانی جمہوریت کا مقدس فریضہ ہے ۔ان کی بے حرمتی پورے ہندوستان کی بے حرمتی ہے ۔ان مقامات میں بھیجے گئے عوای نمائندے عوام کی سوچ اور خیالات کی بھی نمائندگی کرتے ہیں اور اگر وہ ان مقامات کی توہین کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پورا ہندوستان اس میں ملوث ہے ۔اپنی بات منوانے کے لئے جمہوریت میں پر امن اور شائستہ طریقے سے بہت سے راستے ہیں لیکن ہٹ دھرمی اور دوسروں کی توجہ جلد مبذول کروانے کے لئے کسی ممبر اسمبلی یا پارلیمنٹ کو ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ بھرے مجمعے میں نیم برہنہ ہوجائے یا کسی کو تھپڑ ماردے یا مرچ کا سفوف اڑائے ۔سابق امریکی صدر جارج بش کو عراقی صحافی کے ذرئے جوتے مارے جانے کو بعد ہمارے ملک میں بھی اس طرح کے حربے اپنائے گئے ۔جس میں توجہ مبذول کرانے کا جذبہ بھی کہیں نہ کہیں کار فرماہوتا ہے ۔یہ بھی لائق تحسین عمل نہیں ہے ۔ملک کے نمائندے کو تھپڑ یا جوتا مارنا ایک قبیح عمل ہے اسی طرح پارلیمنٹ یا اسمبلی میں اخلاقی قدروں کی پاسداری ان سیاسی لیڈروں کے فرائض میں شامل ہے ۔اس کے لئے خصوسی توجہ کی ضرورت ہے ۔اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایسا عمل پھر نہ دہرایا جائے اس کے لئے خاص ضابطہ بنایا جانا چاہئے ورنہ ہمارے ملک میں اخلاقیات پر ’’لیکچر‘‘ دینا بے معنی ہوکر رہ جائے گا ۔اس سلسلے میں متعدد صحافیوں نے اپنی آرا کا اظہار کیا ہے اور ان اعمال کی مذمت کی ہے لیکن معاملہ ہے کہ روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے ۔اس کو ایک بھر پور آواز ایشو کے طور پر اٹھا نے کا وقت آچکا ہے ۔ہم عوام اپنے لیڈروں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسمبلی اور پارلیمنٹ کی اخلاقیات کی پاسداری کریں اور کسی بھی حال میں اس کی توقیر کی پامالی نہ ہونے دیں ۔
طیب فرقانی 
کانکی ،گوالپوکھر ،اتر دیناجپور ،مغربی بنگال
اخبار مشرق کولکاتا میں شائع شدہ (۲۵ فروری ۲۰۱۴)
                                                                                                  اخبار کا تراشا

Sunday, 9 February 2014

زنا بالجبر انسانیت کے ماتھے پر بد نما داغ

مکرمی !
جموڑیہ میں ہوئے حالیہ جنسی درندگی کی خبر آپ نے اپنے اخبار ’اخبار مشرق ‘میں پہلے صفحے پر شائع کی ہے ۔یہ صحافت کے میدان میں قابل ستائش عمل ہے ۔معاملہ یہ ہے کہ سیاست دانوں کے الٹے سیدھے بیان ہم پہلے صفحے پر پاتے ہیں اور خواتین کے ساتھ ہورہے ظلم و زیادتی کو اندرونی صفحے میں چھوٹی موٹی سرخی کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے ۔حالاں کہ خواتین کے ساتھ بڑھتی زیادتی کی خبریں نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع کی جانی چاہئیں ۔یہ ہمارے لئے لمحہء فکریہ ہے کہ خواتین کے ساتھ منظم زیادتیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں ۔ابھی حال ہی میں بیر بھوم ضلع کا بھیانک واقعہ انسانیت کے ماتھے پر ایک ایسا بد نما داغ بن چکا ہے ۔جسے افسوس کی کوئی مقدار دھو کر صاف نہیں کرسکتی ۔ایک خاتون وزیر اعلی کی حکومت میں ایک قبائیلی لڑکی کو جس طرح غیر مہذب اور بد ترین کھاپ پنچایت نے ذلیل و رسوا کیا ہے اس نے ہم ہندوستانیوں کا سر شرم سے جھکا دیا ہے ۔یہ کھاپ پنچایتوں کی غنڈہ گردی کی انتہا ہے ۔دہلی گینگ ریپ تو چند سرپھرے اور جنونی افراد کی بد ترین کارستانی تھی لیکن بیر بھوم کا واقعہ ایک مکمل سوچا سمجھا اور ہوش وحواس میں رچا گیا ایسا گھناؤنا عمل ہے جس کی ذمے دار نہ صرف نام نہاد کھاپ پنچایتیں ہیں بلکہ حکومت وقت بھی ہے ۔مغربی بنگال کی موجودہ حکومت کسی بھی طرح اس واقعے سے اپنا دامن نہیں بچا سکتی ۔ووٹ کے لالچ میں مسلح افراد کو کھلے عام اپنی مرضی سے فیصلے کرنے اور ایک متوازی عدالت قائم کرنے کا اختیار دینا حکومت کی دوغلی پالیسی ہے ۔کوئی بھی عدالت سخت سے سخت سزا جو دے سکتی ہے وہ موت ہے ۔لیکن بیر بھوم کی پنچایت نے اس قبائیلی لڑکی کے ساتھ زنا بالجبر اور وہ بھی کھلے عام مکمل تیاری کے ساتھ کرنے کا فیصلہ سناکر نہ صرف بد بختانہ حرکت کی ہے بلکہ اس لڑکی کو ہزار موت سے بدترین موت کی سزا سنائی ہے ۔اس کے لئے نہ صرف ان بد بختوں کو سزا ملنی چاہئے بلکہ حکومت کے زیر اثر ان تمام افراد کو اپنا احتساب کرنا چاہئے جو طاقت کے نشے میں چور ایک کمزور اور بے بس خاندان کی تباہی کا خاکہ بناتے ہیں ۔پولیس ان بد بختوں سے اس لئے ڈرتی ہے کہ انھیں حکومت کی سرپرستی حاصل ہے ۔یہ تو کھلی ہوئی ڈکٹیٹر شپ ہے نہ کہ جمہوریت ۔جمہوریت میں امن وقانون اور عدل و انصاف ہی اولین شرائط ہیں ۔کوئی حکومت اگر ان سے خالی ہے تو وہ یا تو کمزور ہے یا ڈکٹیٹر ہے ۔معاوضے کے چند حقیر سکے یا افسوس کے چند بے وزن بول اس قبائیلی لڑکی اور اس جیسی لڑکیوں کے درد کا کبھی مداوا نہیں ہوسکتے ۔لہذا حکومت نہ صرف ان بد بختوں کو قرار واقعی سزا دلوائے بلکہ اپنا حکومتی رویہ بھی بدلے ۔تاکہ مظلوموں کو انصاف مانگنے سے قبل ہی تحفظ حاصل ہو۔اصل معاملہ مظلوم کو انصاف ملنا تو ہے ہی اس سے زیادہ ضروری ہے کسی کو مظلوم نہ بننے دینا ۔
طیب فرقانی 
کانکی ،گوالپوکھر، اتر دیناج پور 

اخبارمشرق رانچی ۹فروری ۲۰۱۴ کے شمارے میں شائع شدہ


                                                                                                   اخبار کا تراشا

Sunday, 15 September 2013

ہندوستانی عدلیہ


مکرمی!

ایک بار پھر تین مسلم نوجوانوں کو دہلی کے تیس ہزاری کورٹ نے دہشت گردی کے الزام سے بری کر دیاہے۔اس واقعے نے بے قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرنے کے معاملے پر ایک اور سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے عدلیہ ہی آخری پناہ گاہ ہے۔مسلمانوں کا ہندوستانی عدلیہ پر اعتماد اور بھی مضبوط ہوا ہے۔دوسری طرف ہندوستانی پولیس کے رویے پر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ وہ کس قدر متعصب ہو گئی ہے۔ پولیس کے اس طرز عمل سے جہاں عوام کا بھروسہ متزلزل ہوا ہے وہیں یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ پولیس میں ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی کو مزید فعال اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ورنہ ہندوستانی سماج میں انتشار مزید بڑھ جائے گا۔ہمارے ملک کی کامل ترقی اس بات میں مضمر ہے کہ یہاں کا ہر باشندہ انتظامیہ اور عدلیہ کی طرف سے مطمئن ہواورکسی خاص طبقے یا فرقے کو جان بوجھ کر ہدف نہ بنایا جائے۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۲۵
(روزنامہ راشٹریہ سہارا میں شائع شدہ)

Tuesday, 10 September 2013

جامعہ میں بیچلر سطح پر دو سال اردو

مکرمی!
آپ کا با وقار روزنامہ "انقلاب " بڑی خوش اسلوبی سے صحافت اور اردو کی خدمت انجام دے رہا ہے۔ آپ کے اخبار سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہندوستان کی عظیم یونی ور سٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر نجیب جنگ صاحب نے جامعہ میں بیچلر سطح پر دو سال اردو مضمون کو لازم قرار دیا ہے۔یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ صرف مضمون کو لازم نہیں کیا گیا ہے بل کہ اس کے نمبرات ڈویژن میں شمار کئے جاءں گے۔ یہ بات تمام اہل اردو کے لیے باعث مسرت و شادمانی ہے۔اس لئے کہ اردو جب تک لازمی مضمون کے طور پہ نہ پڑھائی جائے، بھارت میں اردو کے فروغ کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔یو پی میں بھی تمام اسکولوں میں اردو کو لازمی مضمون بنانے کی کوششیں چل رہی ہیں ،خدا کرے بار آور ہو۔ہم تمام اہل اردو کی طرف سے جامعہ کے وائس چانسلر نجیب جنگ صاحب ،اکیڈمک کونسل اور شعبہء اردوشکریہ کے مستحق ہیں۔ہم انہیں مبارک باد پیش کرتے ہیں۔

طیب فرقانی
   c azeem dairy,batla house,jamia nagar,okhla new delhi 25 /327

دہلی ،دلی اور دلہی

مکرمی!
دہلی ،دلی اور دلہی کے عنوان سے جناب شکیل احمد صاحب کا مضمون (شا ئع شدہ ۲۷؍جنوری ۲۰۱۳)دہلی کی تہذیب وروایت پر روشنی ڈالنے والا مختصر مضمون ہے۔شکیل شمسی صاحب کی جادو بیانی سے ہر وہ شخص واقف ہے جو ان کے مستقل کالم’’موضوع گفتگو‘‘ کا مطالعہ کرتا ہے۔لیکن اس مضمون کے مطالعے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ مضمون بڑی جلد بازی میں قلم بند کیا گیا ہے۔ورنہ یہ ناممکن ہے کہ شکیل صاحب جیسے صحافی سے یہ بات پوشیدہ رہ جاتی کہ دہلی اور بہاری ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم کی طرح ہیں ۔شکیل صاحب نے اپنے مضمون میں جن چار تہذیبوں او ر اس کے اثرات کا ذکر کیا ہے ان میں بہار اور بہاریوں کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے ۔کہاجاتا ہے کہ دہلی کی دو چیزیں بہت مشہور ہیں ۔اور ان دونوں میں ایک نقطے کا فرق ہے۔وہ دو مشہور چیزیں ہیں ’’بہاری اور نہاری ‘‘۔پرانی دلی اور ذاکر نگر کی نہاری سے تو ہم جیسے نا رسا لوگ بھی واقف ہیں ۔اور بہار تو دہلی میں ہر جگہ نظر آتا ہے۔دہلی میں چھٹ پوجا بہار سے ہی آیا ہے۔یہاں تو کئی علاقوں میں بہاری محلے آباد ہیں اور ان کو بہاری محلہ ہی کہا جاتا ہے۔ایک رکشے والے سے چیف جسٹس آفتاب عالم تک عظیم آباد اور بہار سے آئے ہوئے لوگ پوری دہلی میں پھیلے ہوئے ہیں ۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی بہت سے لوگ ’’بہاری‘‘کو بہ نظر تحقیر ہی دیکھتے ہیں ۔یہاں میرا مقصود کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں ہے بلکہ شکیل صاحب کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرانا مقصود ہے کہ ایسے اہم موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جلد بازی سے کام نہ لیں ۔کیوں کہ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردوجامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۲۵       
                                                                      اخبار کا تراشہ

عام آدمی کو ہتھیار نہیں تعلیم وروزگار چاہیے۔

مکرمی!
ہم آئے دن الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں یہ خبریں پڑھتے سنتے رہتے ہیں کہ فلاں ملک نے فلاں میزائل کا تجربہ کیا اور فلاں نے فلاں کا۔۔۔۔میزائلوں اور بموں کے علاوہ دوسرے ہتھیار بھی ایک ملک دوسرے ملک سے خریدتے بیچتے رہتے ہیں۔اس کے سیاسی اور اقتصادی فوائد زیادہ اور عوامی فوائد کم سے کم ہیں۔عالمی سطح پر اگر ہم دیکھیں تو جی ایف پی( گلوبل فائر پاور) کی لسٹ میں امریکا،روس،چین،ہندوستان اور برطانیہ بالترتیب سر فہرست ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے استثنا کے ساتھ دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار ہیں۔
عالمی دفاعی خرچ کو دیکھیں تو کل ملا کر 1.7 ٹریلین ڈالر سالانہ خرچ ہوتا ہے یہ رپورٹ 2011 کی ہے، جب کہ 2010 میں یہ خرچ1.63 ٹریلین ڈالر تھا ۔اس کامطلب یہ ہے کہ ایک سال میں1.3 فی صد خرچ کا اضافہ ہوا ۔اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہتھیاڑوں کی دوڑ کس قدر تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
اس کا تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر یہ رقم دنیا کی 7 ارب آبادی پر برابر سے تقسیم کر دی جائے تو تقریبا 236 ڈالر فی کس کے حصے میں آئے گا ۔ہندوستانی روپیوں کے حساب سے یہ 13000 ہزار بنتے ہیں ۔ اب دنیا میں غربت کی سطح دیکھیں تو پوری دنیا میںیومیہ تقریبا25 ہزار افراد صرف بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔حیرت کی بات ہے کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کو یہ بات کیوں نہیں سوجھتی ۔جس طرح غذا ہر انسان کا بنیادی حق ہے اسی طرح تعلیم ایک بنیادی حق ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق ہرسال ہتھیاروں پر جتنی رقم خرچ کی جاتی ہے اگر اس کا ایک فیصد سے بھی کم دنیا کے تمام بچوں کی تعلیم پر خرچ کیا جائے تو سارے بچے اسکولوں میں ہوں گے ۔اور یقیناًیہ عمل انسانیت کے حق میں اور امن و سکون کے فروغ میں معاون ہوگا۔
نفسیاتی طور سے جائزہ لیں تو ہم پاتے ہیں کہ ہتھیا ر فی نفسہ جنگ پر ابھارتے ہیں ۔اگر آپ کے سامنے ہتھیاررکھا ہو توآپ اسے چھوئیں گے اور اسے چلانے کی لوشش کریں گے ۔یہ ایک نفسیاتی مرحلہ ہے ۔ملکوں کے پاس جب ہتھیار ہوتے ہیں تو وہ یا تو خود کسی ملک پر جنگ مسلط کر دیتے ہیں جیسا امریکا کرتا آرہا ہے یا پھر وہ دوسرے ممالک کو ہتھیار بیچ دیتے ہیں یا کمزورممالک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرکے ان کو ہتھیار خریدنے پر مجبور کر تے ہیں۔پچھلی کئی دہائیوں سے یہی ہو رہا ہے اور سرمایہ دار ممالک لوگوں کے خون سے اپنی جیبیں بھر رہے ہیں ۔اس تجزیے کو سامنے رکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ہتھیاروں کا فروغ اگر کسی کے حق میں مفید ہے وہ سرمایہ دار ہیں ۔عام آدمی کو ہتھیار نہیں تعلیم وروزگار چاہیے۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ 

۔گوتم بدھ کو مار دیا

مکرمی!
میانمار کے بودھسٹوں نے ایک بار پھر انسانیت کا لباس اتار پھینکا ہے۔اس سے پہلے بھی وہ ننگ انسانیت بن چکے ہیں ،مگر پیاس ہے کہ بجھتی نہیں۔انہیں خون کی پیاس ہے یا اس علاقے میں موجود تیل کی پیاس ہے؟تیل بیچ کر وہ انسانیت کا لباس خرید سکیں گے؟جب ایک بے گناہ انسان مرتا ہے تو ساری انسانیت مرجاتی ہے ۔گوتم بدھ کو یہ معلوم تھا،مگر ان کے ماننے والے برمی لوگوں کو یہ نہیں معلوم ہے۔یا شاید معلوم ہو ،مگر ان کی عقل پر پردہ پڑگیا ہو! آہ! انہوں نے اقلیت کا یہ حال کیا ہے ؟زندہ لوگوں کوجلادیا گیا ہے ۔لاشیں بے گوروکفن پڑی ہیں جنہیں خاک بھی میسر نہیں ۔ان کے مکانوں سے کوئی آواز بھی نہیں آتی ۔اب کبھی نہیں آئے گی۔ان کا قصور زندہ رہنا تھا۔انسان ہونا تھا۔یا پھر مسلمان ہونا ۔کوئی اپنے جانور کو بھی زندہ نہیں جلاتا۔انسان کو مارنے سے مذہب مرتا ہے یا انسان؟گوتم بدھ اس کا جواب نہیں دے سکتے ،وہ یہ سن بھی نہیں سکتے ،لیکن انہوں نے کہا ضرور تھا ۔۔۔اہنسا کی راہ چلنا۔۔۔ان کے ماننے والوں نے بھلا دیا ۔جاہلیت کا زمانہ ہے ،جہاں ہر چیز تعصب ،نفرت اور لالچ کے بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔اہنسا کے الف پران جاہلوں نے اپنی انا کی کالک پوت دی ۔میانمار میں لوگوں نے مسلمانوں کو مارا ؟انسان کو مارا؟۔نہیں نہیں انہوں نے اپنے ضمیر کو مار دیا ۔اپنے مذہب کو مار دیا ۔گوتم بدھ کو مار دیا ۔اپنے خدا کو مار دیا ۔

Wednesday, 7 August 2013

دہلی پولیس کمشنر نیرج کمار کے نام کھلا خط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراسلہ [روزنامہ انقلاب میں شائع شدہ]

دہلی پولیس کمشنر نیرج کمار کے نام کھلا خط
کمشنر صاحب آپ ہمارے ملک کی راجدھانی دہلی کے پولیس کمشنر ہیں ۔چوں کہ آپ بلاواسطہ مرکزی حکومت کے ماتحت ہیں اس لئے آپ کا عہدہ بہت بڑا ہے اور آپ کی ذمہ داری بھی بڑی ہے ۔اوور یہ بھی سچ ہے کہ آپ اور آپ جیسے سارے افسران کو جو تنخواہیں ملتی ہیں وہ ہم ہندوستانیوں کے ٹیکس کی جمع پونجی ہوتی ہیں ۔اس لئے بھی آپ پر اورآپ جیسے افسران پر عظیم ذمہ داریا ں عائد ہوتی ہیں ۔پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ مسلم علاقے جامعہ نگر سے ایک مدرسے کا طالب علم(مثال کے طور پر عبدالملک چودھری) اٹھا لیا جاتا ہے ،اس سے پاکستان ،طالبان اور دہشت گردوں سے رابطے کے بارے میں سوال کیا جاتاہے ،دھمکیاں دی جاتی ہیں اور دن بھر بندی بنائے رکھا جاتا ہے اور آپ کی پولیس کہتی ہے کہ اسے کچھ نہیں معلوم؟جب کہ آپ کی ’’اپنی انٹیلی جنس‘‘پاکستان سے بازآباد کاری کے لئے آرہے لیاقت علی کا پتا لگا لیتی ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ دہلی میں بلکہ پورے ملک میں وہ ہورہا ہے جو آپ کی ذمہ داریوں کے سراسر خلاف ہے۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ آپ کی انٹیلی جنس کو یہ پتا ہوتا ہے کہ لیاقت علی بڑی واردات انجام دینے پاکستان سے چل چکا ہے لیکن یہ پتا نہیں ہوتا کہ دہلی کے ایک گیسٹ ہاؤس میں اے۔کے ۵۶ اور ہتھ گولے رکھے جاچکے ہیں ،اور لیاقت علی کے بیان پر ہی آپ کو پتا چلتاہے کہ ایساہوچکا ہے۔یہ بھی عجیب بات نہیں ہے کہ لیاقت علی کے سلسلے میں کشمیر پولیس آپ کے مطابق جھوٹ بول رہی ہے اور آپ کی ’’اپنی انٹیلی جنس‘‘ کی خبریں بڑی پکی ہیں ؟جس پر آپ مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں ۔اور اس پر کیا کہا جائے کہ پاکستان سے ایک ’’خطرناک دہشت گرد‘‘ آتاہے اور اپنے ساتھ جوکچھ لاتا ہے وہ ہتھیار نہیں بیوی اور بچے ہیں ،اور اپنے آنے سے قبل جو چند ہتھیار ایک مقام پر رکھوا دیتا ہے اس سے آپ اور آپ کی انٹیلی جنس بے خبر رہتی ہے؟۔وہ ہتھیار کہاں سے آئے کون لایا اور رکھ کر کہاں غائب ہوگیا اس سے بھی آپ بے خبر ہیں ۔ہتھیار کی خبر آپ کو لیاقت علی کے بتانے پر ہی کیوں ملتی ہے ؟آپ کی انٹیلی جنس کی کچھ تو ذمہ داریاں ہیں ؟۔کیا یہ اہل وطن سے ناانصافی نہیں ہے کہ مسلسل ایک خاص طبقے کو نشانہ بنا کر جھوٹی گرفتاریوں کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے؟۔اگر میں یہ سوال پوچھنے کی جرء ات کروں کہ ہندوستانی نوجوانوں کے ساتھ ناانصافی کا یہ سلسلہ کب تک چلے گا تو کہیں مجھے بھی تو گرفتار نہیں کرلیا جا ئیگا ؟ ۔آپ سے گزارش ہے کہ قصور واروں کو ضرور سزادیں مگر بے قصوروں پھنسانا ،انہیں پریشان کرنا اور اپنے عہدے کا غلط استعمال کرنا بند کریں ۔کیوں کہ خنجر کی زبان کو آپ خاموش رکھیں گے تو آستیں کا لہو ضرور پکارے گا۔

طیب فرقانی
ریسرچ اسکالرشعبہ اردو ،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی۲۵

Tuesday, 6 August 2013

مراسلہ [روزنامہ انقلاب میں شائع شدہ]

مکرمی!
بے گناہ مسلم نوجوانوں کی رہائی اور انصاف کے معاملے کو لے کر ہندوستان کی مسلم و غیر مسلم لیڈر شپ کی جد و جہد میں تیزی آرہی ہے ۔یہ خوش آئند بات ہے۔لوک جن شکتی پارٹی کے کارکن امانت اللہ خاں بٹلہ ہاؤس میں غیر معینہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں ۔اور لوگ ان سے جڑتے جا رہے ہیں۔یہ مسئلہ ہی ایسا کہ اسے سنجیدگی سے لیا جاناچاہیے۔یہ ہندوستان کے شہریوں کا مسئلہ ہے۔سیکولر ملک کے قانون کا مسئلہ ہے ۔ظالم اور مظلوم کا مسئلہ ہے ۔
اس سلسلے میں ہر انصاف پسند کا یہی مطالبہ ہے کہ دہشت گردی کے الزام میں بند نوجوانوں کے مقدموں کی سماعت کے لئے فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم ہوں اور مقدموں کو جلد از جلد نپٹایا جائے ۔جو بے گناہ مسلم نوجوان اب تک رہا ہو چکے ہیں اور جو آئندہ ہوں گے ان کی باز آباد کاری کا اہتمام کیا جائے۔اس سلسلے کی سب سے اہم کڑی ہے،غلط طریقے سے بے گناہوں کو جیل بھیجنے والے پولیس افسروں اور ایجنسیوں کے خلاف کاروائی ۔بلکہ حکومت اس کے لئے قانونی شق بھی تیار کرے کہ جو پولیس افسر آئندہ بھی اس قسم کی غیر قانونی سر گر می میں ملوث ہوں گے ان کے خلاف دہشت گردی کے تحت ہی مقدمہ چلایا جائے گا۔ہم ہندوستانی شہری حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے آئین کی پاسداری کرے اور مظلوم کے لئے انصاف کو سہل حصول بنائے۔
طیب فرقانی
رسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی۲۵ 

مراسلہ [روزنامہ انقلاب میں شائع شدہ]

مکرمی!
مذہبی جذبات اتنے حساس بنا دئیے گئے ہیں کہ ہر کوئی اس کی آڑ میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے ۔سرحد پار پاکستانی مفاد پرست سیاست دانوں اور سر حد کے اس پار بی جے پی ،دونوں نے اپنے سیاسی مفاد کی خاطر ہندو مسلمان کے جذبات کو کھلونا بنا کر رکھ دیا ہے ۔اب افضل گرو کا معاملہ ہی لے لیجئے۔پاکستان خود مسلکی اور مذہبی جنونیت کا شکا رہے ۔آئے دن بم دھماکے،خونریزیاں اور تشدد نے پاکستان کی جڑیں ہلاکر رکھ دی ہے۔اس کے باوجود عوام کے جذبات کا غلط فائدہ اٹھاکر ووٹ بٹورنے اور اپنی ناکامیاں چھپانے کی خاطر پاکستانی پارلیمنٹ نے افضل گرو کے معاملے میں قرار داد پاس کر ڈالا۔پاکستانی عوام کو پاکستانی پارلیمنٹ سے سوال کرنا چاہیے کہ پاکستان اس قرارداد سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے ۔سوائے نقصان کے پاکستان کو کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔دونوں ملکوں کے آپسی تعلقات خراب ہوں گے،پاکستان کی بدنامی ہوگی،جنونیت اور تشدد کو بڑھاوا ملے گا ،جو خود پاکستانیوں کو ہی نہیں جھیلنا ہوگا بلکہ اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔شکیل شمشی صاحب کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ پاکستان افضل گرو کی بات تو کہہ رہا ہے لیکن اس نے آج تک ان پانچ پاکستانی دہشت گردوں کی لاش کے بارے میں کوئی سوال نہیں اٹھایا جو ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے کے دوران مارے گئے تھے۔افضل گرو تو ہندوستانی تھا۔
ایسی ہی اندھی ،غیر معقول اور جذباتی سیاست ہندوستان میں بی جے پی کرتی آئی ہے اور کر رہی ہے۔جان سب کی برابر ہے ۔ہندو ہو یا مسلمان۔بے قصور مارا جائے گا توتمام عالم انسانیت کا نقصان ہے۔اور ہر انصاف پسند انسان اس کے غم میں برابر کا شریک ہے ۔ہمارے ملک کی حفاظت پر مامور بہادر جوان ملک کے کسی بھی کونے میں کسی بھی طرح سے مارے جائیں ،چاہے پاکستانیوں کے ہاتھوں یا نکسلیوں کے ہاتھوں،ان کا خون برابر ہے۔ان پر سیاست نہیں ان کو انصاف دلانے کی بات کی جانی چاہئے۔مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بات کی جانی چاہئے ۔موت پر سیاست کرنا انسانیت کا بحران ہے۔ایسی مفاد پرست سیاست کو عوام مسترد کر ے گی۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۲۵