(طیب فرقانی بیوروچیف بصیرت آن لائن حلقہ شمالی دیناج پور)
شمالی دیناج پور میں جہاں اس وقت عام انتخابات کی وجہ سے جلسے ،جلوسوں اور میٹینگوں کا سلسلہ جاری ہے وہیں گیارہوں اور بارہوں جماعتوں کے امتحانات آج شام اختتام پذیر ہوگئے ۔اس حلقے میں کل ہی کانگریس اور ترنمول کانگریس کے امیدوار دیپا داس منشی اور ستیہ رنجن داس منشی نے بڑے اجتماعات کو خطاب کرکے عوام کو علاقے کی ترقی کا خواب پھر سے سجانے کو کہا وہیں نہ جانے کتنے طلبا کے مستقبل داؤ پر بھی لگے ۔۱۲مارچ سے شروع ہوئے امتحانات آج پوری طرح سے ختم ہوگئے ۔بارہویں جماعت کے امتحانات جمعرات کو ہی اختتام پذیر ہوگئے تھے ۔لیکن اصل معاملہ امتحانات سے جڑی بدعنوانیوں کا ہے ۔جو جوں کا توں ہے اور نہ جانے کب تک اس کا خاتمہ ممکن ہو۔بارہویں جماعت کے امتحانات تو خیر کسی حد تک شفافیت بھرے رہے لیکن گیارہوں جماعت کے امتحانات خاص طور سے اردو میڈیم اسکولوں میں پور ی طرح سے ایک بار پھر غیر شفاف رہے ۔نقلوں کا سلسلہ جاری رہا اور طلبا کے مستقبل سے کھلواڑ کی ایک اور تاریخ رقم کی گئی ۔جس کی وجہ سے اردو میڈیم اسکولوں کا معیار بد سے بد تر ہوتا جا رہا ہے ۔گیارہویں جماعت کے امتحانات چوں کہ ہوم سینٹر میں ہوتے ہیں اس لئے اسکولوں کے اساتذہ نے نقل کرانے کو اپنی مجبوری بنا لی ہے ۔اساتذہ سال بھر کلاس نہیں لیتے اور امتحانات کے وقت انہیں طلبا کو نقل سے باز رکھنے کی جرات نہیں ہوتی ۔ان کے پاس نقل کرانے کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں رہ جاتا ہے ۔چاہے طلبا اور اردو کا کتنا ہی خسارہ ہوجائے ۔دوسری بات یہ کہ گیارہوں بارہوں جماعتوں کے امتحانات کے سوالنامے صرف انگریزی اور اور بنگلہ میں ہی دئے جاتے ہیں باوجود اس کے کہ امتحانات اردو میں دئے جاسکتے ہیں ۔اس فلسفے کے پس پشت کون سا نظریہ قائم ہے یہ تو ذمہ داران بورڈ اور اردو اکادمی ہی بتا سکتی ہے لیکن طلبا کو ایسے میں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پرتا ہے ۔کیوں کہ نہ وہ بنگلہ ٹھیک سے جانتے ہیں اور نہ انگریزی ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو سمجھ میں آیا وہ لکھ دیا اور جو سمجھ میں نہیں آیا اس کا خدا ہی حافظ ۔اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ رہی کہ گیارہویں جماعت کے ہر مضمون کے لئے ۲۰ نمبرات کا پروجیکٹ دیا گیا ہے بشمول تمام زبانوں کے سوائے اردو کے ۔صرف اردو ہی ایک ایسی زبان یا مضمون رہا جو پروجیکٹ سے محروم رکھا گیا ہے ۔طلبا یہ سوال کرتے دکھے کہ آخر اردو کو ہی پروجیکٹ سے محروم رکھنے کی وجہ کیا ہے ۔انہوں نے اپنا احتجاج درج کرایا اور ذمہ داران اردو اور بورڈ سے مطالبہ کیا کہ اردو میں بھی ۲۰ نمبرات کا پروجیکٹ دیا جائے ۔اس طرح انتخابی موسم میں جہاں ہر پارٹی کے امیدوار نئے پرانے وعدوں کی جھری لگا رہے ہیں کیا وہ ان مسائل پر بھی توجہ دیں گے یہ دیکھنے والی بات ہوگی ۔
http://baseeratonline.com/2014/03/29/%d8%b3%db%8c%d8%a7%d8%b3%db%8c-%db%81%d9%84%da%86%d9%84-%da%a9%db%92-%d8%af%d8%b1%d9%85%db%8c%d8%a7%d9%86-%d9%85%d8%ba%d8%b1%d8%a8%db%8c-%d8%a8%d9%86%da%af%d8%a7%d9%84-%d9%85%db%8c%da%ba-%da%af%db%8c/
شمالی دیناج پور میں جہاں اس وقت عام انتخابات کی وجہ سے جلسے ،جلوسوں اور میٹینگوں کا سلسلہ جاری ہے وہیں گیارہوں اور بارہوں جماعتوں کے امتحانات آج شام اختتام پذیر ہوگئے ۔اس حلقے میں کل ہی کانگریس اور ترنمول کانگریس کے امیدوار دیپا داس منشی اور ستیہ رنجن داس منشی نے بڑے اجتماعات کو خطاب کرکے عوام کو علاقے کی ترقی کا خواب پھر سے سجانے کو کہا وہیں نہ جانے کتنے طلبا کے مستقبل داؤ پر بھی لگے ۔۱۲مارچ سے شروع ہوئے امتحانات آج پوری طرح سے ختم ہوگئے ۔بارہویں جماعت کے امتحانات جمعرات کو ہی اختتام پذیر ہوگئے تھے ۔لیکن اصل معاملہ امتحانات سے جڑی بدعنوانیوں کا ہے ۔جو جوں کا توں ہے اور نہ جانے کب تک اس کا خاتمہ ممکن ہو۔بارہویں جماعت کے امتحانات تو خیر کسی حد تک شفافیت بھرے رہے لیکن گیارہوں جماعت کے امتحانات خاص طور سے اردو میڈیم اسکولوں میں پور ی طرح سے ایک بار پھر غیر شفاف رہے ۔نقلوں کا سلسلہ جاری رہا اور طلبا کے مستقبل سے کھلواڑ کی ایک اور تاریخ رقم کی گئی ۔جس کی وجہ سے اردو میڈیم اسکولوں کا معیار بد سے بد تر ہوتا جا رہا ہے ۔گیارہویں جماعت کے امتحانات چوں کہ ہوم سینٹر میں ہوتے ہیں اس لئے اسکولوں کے اساتذہ نے نقل کرانے کو اپنی مجبوری بنا لی ہے ۔اساتذہ سال بھر کلاس نہیں لیتے اور امتحانات کے وقت انہیں طلبا کو نقل سے باز رکھنے کی جرات نہیں ہوتی ۔ان کے پاس نقل کرانے کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں رہ جاتا ہے ۔چاہے طلبا اور اردو کا کتنا ہی خسارہ ہوجائے ۔دوسری بات یہ کہ گیارہوں بارہوں جماعتوں کے امتحانات کے سوالنامے صرف انگریزی اور اور بنگلہ میں ہی دئے جاتے ہیں باوجود اس کے کہ امتحانات اردو میں دئے جاسکتے ہیں ۔اس فلسفے کے پس پشت کون سا نظریہ قائم ہے یہ تو ذمہ داران بورڈ اور اردو اکادمی ہی بتا سکتی ہے لیکن طلبا کو ایسے میں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پرتا ہے ۔کیوں کہ نہ وہ بنگلہ ٹھیک سے جانتے ہیں اور نہ انگریزی ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو سمجھ میں آیا وہ لکھ دیا اور جو سمجھ میں نہیں آیا اس کا خدا ہی حافظ ۔اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ رہی کہ گیارہویں جماعت کے ہر مضمون کے لئے ۲۰ نمبرات کا پروجیکٹ دیا گیا ہے بشمول تمام زبانوں کے سوائے اردو کے ۔صرف اردو ہی ایک ایسی زبان یا مضمون رہا جو پروجیکٹ سے محروم رکھا گیا ہے ۔طلبا یہ سوال کرتے دکھے کہ آخر اردو کو ہی پروجیکٹ سے محروم رکھنے کی وجہ کیا ہے ۔انہوں نے اپنا احتجاج درج کرایا اور ذمہ داران اردو اور بورڈ سے مطالبہ کیا کہ اردو میں بھی ۲۰ نمبرات کا پروجیکٹ دیا جائے ۔اس طرح انتخابی موسم میں جہاں ہر پارٹی کے امیدوار نئے پرانے وعدوں کی جھری لگا رہے ہیں کیا وہ ان مسائل پر بھی توجہ دیں گے یہ دیکھنے والی بات ہوگی ۔
http://baseeratonline.com/2014/03/29/%d8%b3%db%8c%d8%a7%d8%b3%db%8c-%db%81%d9%84%da%86%d9%84-%da%a9%db%92-%d8%af%d8%b1%d9%85%db%8c%d8%a7%d9%86-%d9%85%d8%ba%d8%b1%d8%a8%db%8c-%d8%a8%d9%86%da%af%d8%a7%d9%84-%d9%85%db%8c%da%ba-%da%af%db%8c/