Tuesday, 6 August 2013

مراسلہ [روزنامہ انقلاب میں شائع شدہ]

مکرمی!
بے گناہ مسلم نوجوانوں کی رہائی اور انصاف کے معاملے کو لے کر ہندوستان کی مسلم و غیر مسلم لیڈر شپ کی جد و جہد میں تیزی آرہی ہے ۔یہ خوش آئند بات ہے۔لوک جن شکتی پارٹی کے کارکن امانت اللہ خاں بٹلہ ہاؤس میں غیر معینہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں ۔اور لوگ ان سے جڑتے جا رہے ہیں۔یہ مسئلہ ہی ایسا کہ اسے سنجیدگی سے لیا جاناچاہیے۔یہ ہندوستان کے شہریوں کا مسئلہ ہے۔سیکولر ملک کے قانون کا مسئلہ ہے ۔ظالم اور مظلوم کا مسئلہ ہے ۔
اس سلسلے میں ہر انصاف پسند کا یہی مطالبہ ہے کہ دہشت گردی کے الزام میں بند نوجوانوں کے مقدموں کی سماعت کے لئے فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم ہوں اور مقدموں کو جلد از جلد نپٹایا جائے ۔جو بے گناہ مسلم نوجوان اب تک رہا ہو چکے ہیں اور جو آئندہ ہوں گے ان کی باز آباد کاری کا اہتمام کیا جائے۔اس سلسلے کی سب سے اہم کڑی ہے،غلط طریقے سے بے گناہوں کو جیل بھیجنے والے پولیس افسروں اور ایجنسیوں کے خلاف کاروائی ۔بلکہ حکومت اس کے لئے قانونی شق بھی تیار کرے کہ جو پولیس افسر آئندہ بھی اس قسم کی غیر قانونی سر گر می میں ملوث ہوں گے ان کے خلاف دہشت گردی کے تحت ہی مقدمہ چلایا جائے گا۔ہم ہندوستانی شہری حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے آئین کی پاسداری کرے اور مظلوم کے لئے انصاف کو سہل حصول بنائے۔
طیب فرقانی
رسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی۲۵ 

مراسلہ [روزنامہ انقلاب میں شائع شدہ]

مکرمی!
مذہبی جذبات اتنے حساس بنا دئیے گئے ہیں کہ ہر کوئی اس کی آڑ میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے ۔سرحد پار پاکستانی مفاد پرست سیاست دانوں اور سر حد کے اس پار بی جے پی ،دونوں نے اپنے سیاسی مفاد کی خاطر ہندو مسلمان کے جذبات کو کھلونا بنا کر رکھ دیا ہے ۔اب افضل گرو کا معاملہ ہی لے لیجئے۔پاکستان خود مسلکی اور مذہبی جنونیت کا شکا رہے ۔آئے دن بم دھماکے،خونریزیاں اور تشدد نے پاکستان کی جڑیں ہلاکر رکھ دی ہے۔اس کے باوجود عوام کے جذبات کا غلط فائدہ اٹھاکر ووٹ بٹورنے اور اپنی ناکامیاں چھپانے کی خاطر پاکستانی پارلیمنٹ نے افضل گرو کے معاملے میں قرار داد پاس کر ڈالا۔پاکستانی عوام کو پاکستانی پارلیمنٹ سے سوال کرنا چاہیے کہ پاکستان اس قرارداد سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے ۔سوائے نقصان کے پاکستان کو کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔دونوں ملکوں کے آپسی تعلقات خراب ہوں گے،پاکستان کی بدنامی ہوگی،جنونیت اور تشدد کو بڑھاوا ملے گا ،جو خود پاکستانیوں کو ہی نہیں جھیلنا ہوگا بلکہ اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔شکیل شمشی صاحب کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ پاکستان افضل گرو کی بات تو کہہ رہا ہے لیکن اس نے آج تک ان پانچ پاکستانی دہشت گردوں کی لاش کے بارے میں کوئی سوال نہیں اٹھایا جو ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے کے دوران مارے گئے تھے۔افضل گرو تو ہندوستانی تھا۔
ایسی ہی اندھی ،غیر معقول اور جذباتی سیاست ہندوستان میں بی جے پی کرتی آئی ہے اور کر رہی ہے۔جان سب کی برابر ہے ۔ہندو ہو یا مسلمان۔بے قصور مارا جائے گا توتمام عالم انسانیت کا نقصان ہے۔اور ہر انصاف پسند انسان اس کے غم میں برابر کا شریک ہے ۔ہمارے ملک کی حفاظت پر مامور بہادر جوان ملک کے کسی بھی کونے میں کسی بھی طرح سے مارے جائیں ،چاہے پاکستانیوں کے ہاتھوں یا نکسلیوں کے ہاتھوں،ان کا خون برابر ہے۔ان پر سیاست نہیں ان کو انصاف دلانے کی بات کی جانی چاہئے۔مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بات کی جانی چاہئے ۔موت پر سیاست کرنا انسانیت کا بحران ہے۔ایسی مفاد پرست سیاست کو عوام مسترد کر ے گی۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۲۵

کہانی

آٹھ رکعتیں جیسے ہی مکمل ہوئیں وہ اگلی صف سے اٹھا اور تیزی سے پیچھے آنے کی کوشش کی ۔لوگوں نے اسے گھور کر دیکھا۔اور تسبیح پڑھتے ہوئے ایک بولا "تھک گیا کیا؟"
دوسرا"گرمی بہت ہورہی ہے پیاس لگ رہی ہوگی"
تیسرا"آج کل نوجوانوں کا حال بہت برا ہے ۔تھوڑی پڑھیں گے پھر اٹھ کے بھاگ لیں گے "
چوتھا "ارے بڈھا ہوگیا کیا ۔جوان بن جوان "
پانچواں "اہل حدیث ہوگا۔یہ لوگ بھی نا۔بیچ بیچ میں سے اٹھ کے بھاگنے کی نئی نکالی ہے"
غرض کہ بہت سی باتیں لوگ سوچ رہے تھے ۔وہ آج کھانا کھا کر تراویح کی نماز پڑھنے آیا تھا۔اس نے کسی کی پرواہ نہیں کی ۔ضرورت بھی نہیں تھی ۔لوگ اس کے کان میں تھوڑی کہہ رہے تھے ۔ویسے بھی اسے جلدی تھی وہ تیزی سے نکلا چلا گیا اور وضو خانے میں گھس گیا۔بیس رکعتِیں تراویح اور وتر وغیرہ پڑھ کر لوگ نکلے تو اسے بھی مسجد سے نکلتے دیکھا  ۔سوچنے لگے 'یہ تو بیچ تراویح سے ہی اٹھ کر بھاگ گیا تھا پھر سوچا ارے چھوڑو یار بھاگا ہوگا ہمیں کیا؟