Showing posts with label تبصرے. Show all posts
Showing posts with label تبصرے. Show all posts

Monday, 29 July 2019



’شب انتظار گزری ہے‘ : دیہی زندگی کے مسائل بیان کرتا ایک ناول


طیب فرقانی 




’شب انتظار گزری ہے‘ : دیہی زندگی کے مسائل بیان کرتا ایک ناول


ڈاکٹر انوار الحق ہندوستان میں نئی نسل کے ادبی حلقوں کی معروف شخصیت ہیں ۔بہار کے ضلع مظفرپور سے تعلق رکھتے ہیں۔ فی الحال ڈائنامک انگلش ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں انگریزی معلم کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔غریب اور نادار بچوں کی مفت تعلیم و تربیت کے لیے فلاحی ادارے” دی ونگس فاؤنڈیشن“ کے بانی ہیں ۔ان کاانگریزی ناول” دی لانگ ویٹ ©“کا اڑیازبان میں ترجمہ پہلے ہی ہوچکا ہے۔
۸۱۰۲ میں اس ناول کا کامیاب اردو ترجمہ بھی منظر عام پر آیا ۔ترجمہ وسیم احمد علیمی نے کیاجو شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اس وقت ایم اے کے طالب علم ہیں ۔زمانہ طالب علمی سے ہی ان کو ترجمہ نگاری سے نہایت شغف ہے اور اس ناول کے ترجمہ کے علاوہ انہوں نے بوکر ٹی واشنگٹن کی خود نوشت(Up from slavery to the White House) ”اپ فرام سلیوری ٹو دی وائٹ ہاو ¿س “کے تیسرے باب ”دی اسٹرگل فا ر این ایجوکیشن “ کا ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ کئی انگریزی افسانوں کا ترجمہ بھی کیا ہے ۔ترجمہ نگار وسیم احمد علیمی سے بڑی امیدیں ہیں ۔وہ کم عمری میں بڑے کام کرنے کی طرف گامزن ہیں ۔ انھوں نے محنت سے یہ کام کیا ہے ۔ مختلف ثقافتی ، ادبی اور علمی سرگرمیوں میںپیش پیش رہتے ہیں ۔ بی اے کے دوران ہی کسی ناول کا ترجمہ ان کے بہتر مستقبل کا اشاریہ ہے۔ اور اس کام کے لئے انھیں یقینا سراہا جانا چاہئے ۔ ان کے استاد ڈاکٹر سید تنویر حسین نے ان کے اس کام کو سراہا بھی ہے۔ ترجمہ اچھا ہے ۔ رواں دواں ہے ۔ دیہاتی لہجے کو ابھارنے کے لئے کئی مقام پر ترجمہ نگار نے تلفظ کو بگاڑ کر دیہاتی تلفظ دکھانے کی کوشش کی ہے ۔ جیسے فکر کو پھکر ،آفت کو آپھت اور خوب صور ت کو کھبسورت وغیرہ ۔ ناول کا حجم اتنا ہے کہ آپ اسے ایک نششت میں پڑھ سکتے ہیں ۔ طباعت اچھی ہے ۔ اچھے کاغذ پہ شائع کیا گیا ہے ۔ کمپوزنگ کی غلطیاں نہ کے برابر ہیں ۔ پروف ریڈنگ اچھے سے کی گئی ہے ۔ ناول قابل مطالعہ ہے ۔ اور مصنف و ترجمہ نگار دونوں ہی مبارک باد کے مستحق ہیں۔
یہ ناول ہندوستان کے دیہی نچلے متوسط طبقے کے ایسے مسلمان گھرانوں کی کہانی پر مشتمل ہے جن کوآزادیءہند کے وقت اعلا خاندان تسلیم کیا جاتا تھا ۔بنگلہ دیش بننے سے بہاری مسلمانوں کو جن اذیتوں سے گزرنا پڑا ناول اس کی جھلکیاں پیش کرتا ہوا نظرا ٓتا ہے۔ ناول نگار کو قرة العین حیدر کی تحریروں سے خاصا شغف رہا ہے اور انھوں نے قرة العین حیدر کی غیر افسانوی نثر پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ اس لیے مان کر چلنا چاہیے کہ انھوں نے ’وقت ‘کے تصور کو گہرائی سے سمجھا ہوگا ۔ اور اس کا اچھا خاصا اثر ان کے ناول پر دکھائی دیتا ہے ۔ وقت انسانی کرداروںکو کس طرح بدل کر رکھ دیتا ہے اور ان کے جذبات و احساسات پر کس طرح حاوی ہوجاتا ہے اس کی ایک مثال اس ناول میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ وقت بڑے بڑے زخموں پہ مرحم بھی رکھ دیتا ہے اور نہ جانے کتنے زخموں کو پیدا کرتا ہے اور نہ جانے کتنے زخموں کو یوں ہی ہراچھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے ۔ اس ناول کے کرداروں کی زندگی میں وقت بے رحم دریا کی طرح بہتا رہتا ہے ۔ کبھی اپنی نرمی اور ملائمت کی چادر ان کرداروں کی زندگی پر ڈال دیتا ہے تو کبھی نرم اور ملائم چادروں کو بہا کر لے جاتا ہے ۔ ناول کی ابتدا میں ترجمہ نگار نے خلیل جبران کے ناول ’ شکستہ پر‘ کا ایک اقتباس پیش کیا ہے جو وقت کی تبدیلی کو بیان کرتاہے ۔ یہ اقتباس بامعنی ہے ۔ اور درست مقام پہ پیش کیا گیا ہے ۔

کہانی ایک دیہاتی معذور مسلم لڑکی کے آس پاس گردش کرتی ہے جس کا نام رانی ہے ۔ ہندوستانی صوبہ بہار کے ضلع مظفرپور اور اس کے اطراف کی اس کہانی کا مرکزی کردار رانی ہے جو اپنے نام کے معنی کے برخلاف ایک پولیو زدہ معذور لڑکی ہے ۔ جس نے زندگی میں غربت کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ۔ لیکن اس نے اپنی غربت زدہ زندگی سے نکلنے کی کوئی بھرپور کوشش کبھی نہیں کی ۔ بس وقت نے کبھی اس کا ساتھ دیا کبھی اس سے منہ موڑ کر آگے نکل گیا ۔ اس نے اپنی زندگی کی آرزوﺅں میں گزاری ۔ کبھی یہ آرزو کہ کوئی نیک سیرت شخص آئے اوراس کی معذوری کی پرواہ کیے بغیر اس کو بیا ہ کر لے جائے ۔ کبھی یہ آرزو کہ اس کی جیٹھانی اس کے برے وقت میں کام آئے اور کبھی یہ آرزو کہ اس کا بیٹا پروفیسر بن جائے ۔ پہلی آرزو پوری ہوتی ہے جب کہ دوسری اور تیسری آرزو پوری ہونے سے قبل وہ تپ دق کا لقمہ بن جاتی ہے ۔ کہانی کا آغاز رانی کے بچپن سے ہوتا ہے ۔ وہ نہر کے کنارے اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی ہوتی ہے ۔ اور اس کی چپل نہر میں گرجاتی ہے ۔ وہ ہزار کوششوں کے باوجود نہر سے اپنی گلابی رنگ کی نئی چپل خود سے نہیں نکال پاتی ۔تب اسے کوئی سہیلی چپل نکا ل کر دیتی ہے ۔ ناول میںیہ اس کی پہلی ناکام کوشش تھی ۔اقتباس ملاحظہ کریں:
”ناتواں قدموں سے اپنی چپل پر قابو پانے کی کوشش میں اس نے اپنا توازن کھو دیا۔اس کی چپل پیروں سے آزاد ہوکر نہر میں جا گری جہاں اس کی نگاہیں اس ہچکولے کھاتے چپل کو دیکھ سکتی تھیں ، وہ ایک بے نیاز سی لڑکی تھی ، اس نے اپنی سہیلیوں کی مدد کے بغیر ہی چپل باہر نکالنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔۔۔جب ایک لڑکی نے اس کو نہر کی جانب لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا تو دوسری لڑکیوں کے ہمراہ شور مچاتی ہوئی اس کی طرف لپکی ،ایک نے اس کو کھینچ کر باندھ پر لا کھڑ اکیا ،دوسری وہیں پڑی ایک لکڑی کی مدد سے اس کی گلابی چپل کو باہر لے آئی “۔
(شب انتظار گزری ہے ،ص۵۲،۶۲)
دوسری کوشش وہ تب کرتی ہے جب اسے سسرال میں اپنے سسر کی نصیحتوں پہ عمل کرتے ہوئے خاندان کی شیرازہ بندی کرنی ہوتی ہے اور اس کوشش میں وہ کامیاب ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ زندگی سے لڑکر زندگی کو اپنے موافق بنانے کی کوشش کرتے ہوئے اسے کسی مقام پر نہیں دکھایا گیا ہے ۔اس کی پوری زندگی میں وقت اور حالات یا تو اس کے مخالف رہتے ہیں یا اس کے موافق ۔ ناول میں تعلیم نسواں کا موضوع بھی ڈھونڈا جاسکتا ہے ۔رانی کا باپ اپنی بیٹی کو تعلیم دلوانے کے بجائے اس کی شادی کی فکر زیادہ کرتا ہے ۔
ناول کی کہانی کا زمانہ بیسویں صدی کی ساتویں دہائی سے شروع ہوتا ہے اور تقریبا تین نسلوں کی کہانی بیان کرتا ہے ۔ بین السطور سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف اسے کس زمانے میں لکھ رہا ہے ۔ کیوں کہ ناول نگار واقعات بیان کرتے ہوئے زمانے کی وضاحت بھی کرتا جاتا ہے ۔ مثلا وہ کہتا ہے کہ اُس زمانے میں فون کی سہولت نہیں تھی یا اُس زمانے میں سفر مشکل ہوا کرتا تھا وغیرہ ۔ یہ ناول روشن خیال اور ترقی پسند مصنف کی تخلیق ہے ۔وہ رانی کو مرکزمیں رکھ کر مختلف سماجی ، سیاسی ، تہذیبی ، مذہبی ، معاشی او ر اخلاقی مسائل کو کریدنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس کوشش میں کہانی اکثر اپنے ڈگر سے بھٹک جاتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ خاص واقعات کو اپنے اظہار خیال کے لئے مصنف نے تختہ مشق بنایا ہے ۔ حالاں کہ ان موضوعات و مسائل کی سنجیدگی اور سنگینی سے انکار ممکن نہیں ہے۔ لیکن ان مسائل کو ٹھیک طرح سے ناول میں گوتھا نہیں گیا ہے ۔ یا پھر انھیں ادھورا چھوڑ دیا گیا ہے ۔ اسی وجہ سے ناول کے اختتام تک یہ اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کہانی کہاں پر جاکر ختم ہوگی ۔ رانی کے کھیل سے کہانی شروع ہوتی ہے ۔ پھر اس کے باپ کے جیل چلے جانے کی بات شروع ہوتی ہے ۔ پھر اس کے بھائی کے مدرسے چلے جانے کی بات شروع ہوجاتی ہے ۔ یہاں مصنف نے مدرسہ میں مولوی حضرات کی جنسی بے راہ روی کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ مدرسوں میں اغلام بازی کی قبیح کرتوتوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور بچوں کی ذہنی و فکری اور نفسیاتی پیش کش اس حصے کو ناول کا بہترین حصہ بناتا ہے ۔ اور ایسا لگتا ہے کہ ناول نگار رانی کے بھائی کو مرکزی کردار میں ڈھالنا چاہتا ہے ۔ تبھی کہانی کا رخ رانی کی شادی کی طرف پھیر دیاجاتاہے ۔ یہ صرف ایک مثال ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ناول نگار واقعات کو بننے کی کوشش تو کرتا ہے لیکن وہ کڑیوں کو کبھی بڑھادیتا ہے یا کبھی گھٹا دیتا ہے ۔
مدرسوں میں اغلام بازی کی قباحت پہ بات کرنے والی کوئی تحریر اس سے پہلے میری نظر سے نہیں گزری ۔ یہ ایک سنجیدہ موضوع اور مسئلہ ہے ۔ مصنف اپنی تمام تر روشن خیالی کے ساتھ اس باب میں بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے قلم کے شہوار کو رفتار دیتا ہے ۔ رانی کا بھائی آخر کار اسی قبیح عمل کا شکار ہوکر مدرسے کی تعلیم سے متنفر ہوجاتا ہے ۔ اور پھر کبھی تعلیم گاہ کی صورت تک دیکھنا گوارا نہیں کرتا ۔ اس کی جہالت کا ذمہ دار وہ طبقہ اشرافیہ ہے جسے مسلم سماج کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری دی گئی ہے ۔
اس کے علاوہ ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزام میں پھنسائے جانے کے بے شمار واقعات نے پچھلی کچھ دہائیوں میں مسلمانوں کو سماجی اور معاشی سطح پر ایسا ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جس کاکرب ناک بیان ایک الگ موضوع کا تقاضا کرتا ہے ۔ مصنف ناول کے اختتام پہ ایسے ہی ایک کردارسے متعارف کراتا ہے ۔اور دکھا تا ہے کہ کس طرح ایسے ایک نوجوان کی زندگی برباد ہوجاتی ہے جس کی ماں کو بھیک مانگنا پڑتا ہے ۔ناانصافی کے اس منظر پہ رک کرمصنف نے اپنے کردار کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ ذہن کو جھنجھوڑ نے کے لئے کافی ہے۔ لیکن یہ واقعہ کہانی میں اچانک نمودار ہوتا ہے ۔ اسے ناول کے علت و معلول سے عمدہ مناسبت نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ ناول بہار کے متوسط طبقے کے خاندانی اور خانگی جھگڑوں کو بھی پیش کرتا ہے ۔ رانی کے مائکے اور سسرال دونوں ہی خاندان کو آپسی رنجش اور سازشوں میں ملوث دکھایا گیا ہے ۔اور پھر تھک ہار کر ایک ہوتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے ۔ یہ وقت کے دریا کے زیر اثر وقوع پذیر ہونے والے ان سچے واقعات میں سے ہیںجن کا سامنا ہندوستانی مسلمان کرتے رہتے ہیں :
”حامد کے پاس خاصی زمین تھی جس سے غلے اگا کر وہ اپنے بال بچوں کی پر ورش کر سکتا تھا،جب تینوں بھائیوں میں جائیداد کا بٹوارہ ہوا تو حامدکے بڑے بھائی راشد نے اپنے حق سے زیادہ زمین پر قبضہ جمانے کی کوشش کی ۔ نتیجتاََ دوسرے بھائیوں نے اس کی لالچ کی مخالفت شروع کر دی ۔ یہیں سے ان کے درمیاں قانونی جنگ کی بنیاد پڑی ۔بہت جلد اس معاملے کو عزت و دستار کا رنگ دے دیا گیا اور دن بہ دن تینوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے در پے ہو گئے ۔رفتہ رفتہ ان کی توجہ معاشی زندگی اور بچوں کی تعلیم و تربیت سے ہٹ کر اسی قانونی جنگ پر مرکوز ہو گئی ۔ اس طرح کی جنگ عموماََ ان متوسط طبقوں کے خاندانوں میں نسلاََ بعد نسل چلی آرہی تھی “۔
(شب انتظار گزری ہے ۔ص۴۳)
اس طرح ناول کئی ٹکڑوں میں بٹاہوا نظر آتا ہے ۔ مسائل و موضوعات اگرچہ بہت سنجیدہ اور سنگین ہیں لیکن ناول نگار ان کو سجانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوا ہے ۔ ان برے لوگوں میں ایک اچھا آدمی اور مثالی آدمی بھی ہوتا ہے ۔ جیسے پریم چند کے ناولوں میں ہوتا ہے ۔ وہ ہے رانی کا سسر ۔ رانی کا سسر ہر اعتبار سے ایک مکمل اور مثالی کردار ہے ۔ وہ اپنے بیٹے کے لئے ایک معذور لڑکی کو پسند کرتا ہے ۔ اور اس عمل کو اپنے عمل خیر میں شامل کرتا ہے ۔ اس کی موت پہ ایک پنڈت اس کی لاش کو گھر پہنچانے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور ناول نگار یہاں گنگا جمنی تہذیب کو ابھارنے کی کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ کسی حد تک رانی کا شوہر بھی ایک مثالی کردار ہے لیکن ناول کے اختتام سے ٹھیک قبل وہ اپنی تمام مثالیت کو طاق پہ رکھ کر انسان بن جاتا ہے ۔ رانی کے کردار کو بھی مثالی بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس میں کسی طرح کی کوئی برائی نہیں ہے ۔ وہ ایک وفا شعار بیٹی ، بیوی ، بہو اور مشفق ماں کی زندگی گزار کر اس دنیا سے چلی جاتی ہے ۔قاری کی امیدکے مطابق ناول کو اس کی موت پہ ختم ہوجانا چاہئے تھا لیکن ناول رانی کی موت کے بعد بھی اپنی کہانی میں کچھ نئے واقعات شامل کرلیتا ہے ۔ اس طرح ناول نگار نے مثالیت اور عینیت دونوں سے کام لیا ہے ۔ناول میں تمام کردار ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور کہانی کی بنت بھی فکشن کے تقاضوں کو پورا کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ترجمہ میں اردو فکشن کی زبان کا خیال رکھا گیا ہے اور زبان کو افسانوی انداز میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔ اقتباس ملاحظہ کریں :
”مشترکہ فیملی کے ساتھ رانی کی دس سالہ زندگی ہو یا فیملی سے علحدہ ہو کر سالوں سال کی زندگی ،رانی کو اپنی زندگی میں ہمیشہ پر خار وادیوں سے گزرنا پڑا۔ خوشی ہو یا غم ،وقت کا قافلہ تو ہمیشہ گزر ہی جاتاہے ۔ اس سے کیا فرق پڑتاہے کہ جب آپ ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھیں تو آپ کو یادوں کا ایک ہرا بھرا گلشن نظر آئے یا خوف و ہراس کا ایک عالم ؟ ماضی تو ماضی ہی ہوتاہے “۔
(شب انتظار گزری ہے ،ص۲۴۱)
(Living in a joint family for ten years and living
separately for many years was full of thorns for
Rani. The time passed as it always passes; it doesn’t
matter whether it leaves good memories for you or it
horrifies you when you look back.)
[long Wait, Chapter Fifteen, pg 109]
کہانی کے کچھ کردار اور مقام کو ڈی کوڈ کرنا آسان ہے ۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ ناول نگار نے اپنے آس پاس کے کچھ کرداروں کے ناموں کو بدل کر اور کچھ واقعات کو جوڑ توڑ کر ان میں رنگ بھرنے کی کوشش کی ہے ۔ رانی کا بیٹا انس جس یونیورسٹی میں پڑھتا ہے وہ مظفر پور یونیورسٹی اور پروفیسر قادری ناز قادر ی ہوسکتے ہیں ۔ اسی طرح قاضی نگر قاضی چک بھی ہوسکتا ہے ۔ رانی کے بیٹے انس کی کہانی خود مصنف کی زندگی سے ملتی جلتی ہے ۔ مصنف نے مظفرپور یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ۔ اردو ادب کی تعلیم حاصل کی ۔ ادب میں انھیں قرة العین حیدر کافی پسند رہی ہیں انھوں نے قرة العین حید ر پر کام بھی کیا ہے ۔ رانی کابیٹاانس بھی قرة العین حیدر کو پسند کرتا ہے ۔اور دہلی جاکر پروفیسر بننے کا خواب دیکھتا ہے لیکن زندگی گزارنے کے لئے کال سینٹر وغیرہ میں کام کرنا پڑتا ہے ۔ مصنف بھی دہلی جاکر پی ایچ ڈی مکمل کرنے سے قبل کئی اداروں میں نوکری کرتے رہے ۔انھیں بھی پروفیسر بننے کا شوق رہا ہے ۔یعنی ابھی بھی ان کو پروفیسر بننے کا موقع نہیں ملا ہے ۔ انھیں اردو ادب کی تعلیم لینے والوں کی معاشی زندگی کا خاصا تجربہ ہے ۔ اس لئے کہانی کے اس حصے کو وہ بہترین انداز میں پیش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔اردو ادب کے طلبا کو ہندوستان میں جن معاشی مسائل کا سامنا ہے مصنف نے ان پہ بھر پورروشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ ناول نگار پوری کہانی میں خود مختار راوی کی حیثیت سے کہانی سناتا جاتا ہے ۔مکالموں سے کم کام لیا گیا ہے ۔ ناول میں کہانی بیان کرنے کی کسی جدید تکنیک کا استعمال نہیں ہوا ہے ۔ ایک خط مستقیم پر کہانی آگے بڑھتی ہے اور ختم ہوجاتی ہے ۔

Monday, 10 June 2019

 فوزیہ رباب کے شعری مجموعے”آنکھوں کے اس پار“ پر ایک مختصر سا تبصرہ 

 مبصر:طیب فرقانی
عصر حاضر میں مشاعروں کی دنیامیں متعدد شاعرات نے توجہ حاصل کی ہے،لیکن سنجیدہ ادبی افق پر شاعرات خاص طور سے ہندوستان میں اب بھی کم یاب ہیں۔ حالاں کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب عورت کا شاعری کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔اب عورت شاعری کرتی ہے اور اسے عورت ہونے پر کوئی شرمندگی کا احساس نہیں ہے۔ فوزیہ رباب کا شمار ایسی ہی شاعرات میں ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ”آنکھوں کے اس پار“ پچھلے بر س (۲۰۱۷) میں منظر عام پر آیا۔ فوزیہ کی غزلوں میں نظموں سے زیادہ بانکپن اور تاثیر ہے۔ اس لئے ابھی تک ان کو غزلوں کی شاعرہ ہی سمجھا جانا چاہئے۔ ان کی غزلوں کی تین جہتیں ہیں جنھیں تین منازل سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ یہ تین منازل نوعمری، شادی کے بعد کا زمانہ اور اولاد کے حصول کے زمانے پر مشتمل ہے۔ ان تینوں منازل میں عشق ہی ان کی شاعری کا محور و مرکز ہے۔کیفتیں علاحدہ علاحدہ ہیں۔ یوں بھی نو عمری کی شاعری میں رومانیت اور محبت کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن عمر بڑھنے (گھٹنے بھی کہہ سکتے ہیں)کے ساتھ ساتھ مشاہدات کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ اور محبت کا استعارہ پورے معاشرے،ملک بلکہ پوری دنیا کو اپنی معنوی تہوں میں سمیٹ لیتا ہے۔
”آنکھوں کے اس پار“ میں شہزادے کا خواب بُننے، اظہار عشق کرنے، وصل کی لذت سے سرشار ہونے کی آرزو اور ہجر کا کرب؛ان سبھی لمحات کے نقوش دیکھے جاسکتے ہیں۔ اور ہر نقش دامن دل می کشید کہ جاں ایں جا است۔ فوزیہ کے شعری مجموعے کی رسم اجر ا کے موقعے پر جسٹس اعجاز سہیل صدیقی نے فوزیہ کو ہندوستان کی پروین شاکر کہا تھا۔ لیکن ا س بات کا فیصلہ تو وقت کرے گاکہ فوزیہ ہندوستان کی پروین شاکر ہیں یا نہیں۔کیوں کہ یہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔یہ بات ضرور ہے کہ نسائی جذبات کے اظہار میں یعنی غزلوں کے موضوعات کے لحاظ سے فوزیہ کو پروین شاکر کے قریب کہا جاسکتا ہے۔لیکن فوزیہ کے تجربات،لفظیات،اسلوب اور مسائل الگ ہیں جو فوزیہ کی شناخت قائم کرتے ہیں۔ نسائی جذبات کے اظہار میں یعنی غزلوں کے موضوعات کے لحاظ سے فوزیہ کو پروین شاکر کے قریب کہا جاسکتا ہے۔ یہ ضروری بھی نہیں کہ کوئی شاعر یا شاعرہ اپنے ماقبل شاعریا شاعرہ کی طرح ہو تبھی اس کی عظمت قائم ہوگی۔ یہ ضرور ہے کہ بعد کا شاعر ماقبل کے شاعر سے متاثر ہوتا ہے۔ ان سے اخذ و ماخوذ اور استفادہ کرتا ہے۔ اور پھر اپنی راہ خود نکالنے کی سعی کرتا ہے۔
فوزیہ رباب پروین شاکر سے متاثر نظر آتی ہیں۔ اس بات کا اعتراف انھوں نے اپنی نظم ”لہو انسانیت کا ہے“ میں کیا ہے۔
”فقط جو زندگی کے آٹھویں ہی سال میں ہر دن
بڑے ہی شوق سے ابن صفی، پروین شاکر
کی کتابیں پڑھتی رہتی تھی۔“ (لہو انسانیت کا ہے)
فوزیہ کی شاعری میں ابن صفی کی صاف ستھری زبان اور پروین شاکر جیسے جذبات موجود ہیں۔لیکن ان کی غزلوں اور نظموں کو بہت ٹھہر کر، غور کرکے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ بھاری،بوجھل اور ثقالت سے پاک ابن صفی کی نکھری زبان کی جھلک ان کی شاعری میں بخوبی دیکھی جاسکتی ہے۔ ان کی شاعری میں کوئی پردہ نہیں۔ فوراسمجھ میں آجانے والی شاعری۔ شاعری کی سطح پر شاعری کے لئے یہ کوئی عیب نہیں لیکن اس میں معنوی تہہ داری شاعر ی کے حسن کو دوبالا کرکے اعلا بناتی ہے۔ متذکرہ بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فوزیہ کو شاعری سے بچپن سے لگاؤ ہے۔ وہ ایک فطری شاعرہ ہیں۔ان کی شاعری کسبی نہیں وہبی ہے۔
فوزیہ کی غزلوں کا کردار عشق کی تما م سرحدوں سے گزرجانا چاہتا ہے۔ اس کے نزدیک عشق کا جذبہ تمام جذبوں پر حاوی ہے۔ اس میں نہ وہ گناہ ہ دیکھتا ہے اور نہ ثواب۔ نہ صبح نہ شام،ہر وقت جام عشق پی کر حالت سرور میں رقص کرتا نظر آتا ہے۔ وہ عشق کی منزل تک پہنچنے کے لئے تما م سرحدوں کو توڑ ڈالنا چاہتا ہے۔
کیا مری ذات کا قصور حضور
عشق میں گنہ ثواب رباب
اس کی خاطر کوئی سویر نہ شام
جو پئے عشق کی شراب
ہم نے تو بس پیار کیا تھا پاپ نہیں
لوگوں نے بات بڑھادی شہزادے
ہنستے ہنستے روتی ہوں پھر ہنستی ہوں
عشق نے کیسی مجھ کو سزا دی شہزادے
پھیل گئی ہر گام رباب محبت یوں
می رقصم می رقصم رقصم می رقصم
متذکرہ بالا اشعار میں فوزیہ کے نظریہ عشق کی جھلک صاٖ ف محسوس کی جاسکتی ہے۔ ہنستے ہنستے رونا اور پھر ہنسنا یا محبت میں مسلسل رقص کرتے رہنا عشق کی اس منزل میں ہوتا ہے جب عشق دیوانگی کی حد کو چھولے۔یہ اشعار رواں دواں ہیں اور ان میں کوئی تہہ داری نہیں ہے۔ استعاروں کا ایسا کوئی نظام نہیں ہے جس سے اشعار کے کئی معنی نکالے جاسکیں انھیں کریدنا پڑے۔ یا ٹھہر کر پڑھنے کی ضرورت پڑے۔ فوزیہ کے عشق میں خود سپردگی اور وارفتگی کمال عروج پر نظر آتی ہے۔وہ محبوب پر اپنا سب کچھ نثار کردیتی ہیں۔ اپنا وقت، اپنی زندگی اور اپنی ہستی سب محبوب پر وار دینے کا جذبہ ان کی شاعری میں طرح طرح سے بیان ہوا ہے۔
یوں نہیں ہے کہ فقط نین ہوئے ہیں میرے
دیکھ کر تجھ کوہوئی ساری کی ساری پاگل
میں رباب اس سے زیادہ تجھے اب کیا دیتی
زندگی میں نے تیرے نام پہ واری پاگل
اس نے پوچھا کہ مری ہوناں؟ تو پھر میں نے کہا
ہاں تمھاری، میں تمھاری، میں تمھاری پاگل
لکھوں تیر ا نام پڑھوں تو سانول تیرا نام
تیرا ہی بس نام لکھا ہے آنکھوں کے اس پار
رفتہ رفتہ ہوگئے آخر تیرے نام
میرا جیون میرے موسم شہزادے
میری ہستی میں بھی تیری ہستی ہے
میرا مجھ میں کچھ بھی نہ چھوڑا شہزادے
عشق صرف ان کی آنکھوں میں نہیں بلکہ رگ و پے میں سرایت کرجاتا ہے۔اور پھر وہ اپنی زندگی اپنے محبوب کے نام کرکے بار بار یہ تاکید کرتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ ہاں میں تمھاری، میں تمھاری، میں تمھاری پاگل۔اس تکرار میں ان کے جذبے کی شدت محسوس کی جاسکتی ہے۔ یہ سبھی جذبات ان کی شاعری کی پہلی منزل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔سرور عشق میں رقص کرتے ہوئے اپنا سب کچھ محبوب کے نام کردینا۔ دوسری منزل میں ان کی غزل کا کردار اپنی شخصیت منوانے، خودشناسی کے عمل سے گزرنے اور خود کو اہمیت دینے لگتا ہے۔ وہ اپنے حسن کی تعریف خود ہی کرتا ہے۔ محبوب سے اپنی بات منوانے کی للک اس میں دکھائی دیتی ہے خود کو شہزادی اور راج کماری کے خطاب سے نواز تا ہے اور ایک وقت محبوب کو بھول جانے کی دھمکی بھی دے بیٹھتا ہے۔
میں نے پوچھا کہ کوئی مجھ سے زیادہ ہے حسیں
آئینہ ہنس کے یہ بولا اری جاری پاگل
شہزادے یہ دنیا فکر میں غلطاں ہے
جب سے میں ہوں تم پر مائل شہزادے
تم تو کہتے تھے رباب اب میں تیری مانوں گا
پھر بھی تم دیر سے گھر آتے ہوحد کرتے ہو
ہم جسے دیکھ لیں فقط اک بار
سب کے سب اس کو دیکھنے لگ جائیں
تجھ کو شاید یقیں نہ آئے مگر
میں تجھے بھول بھال سکتی ہوں
وہ مجھ کو دیکھ کے دوڑا ہوا چلا آئے
میں اپنے آپ کو کچھ اس طرح سراب کروں
پہلی منزل اور دوسری منزل کا فرق ملاحظہ کریں۔آئینہ سے اپنے حسین ترین ہونے کی داد طلب کرنااور آئینے کے جواب کو مبہم رکھ دینا،شہزادے کو بھول بھال جانے کی دھمکی دینا اور خود کو سراب بنالینے کی آرزو اپنی شخصیت کو منوانے کے عمل کا اشاریہ ہے۔ فوزیہ کی شاعری کی تیسری منزل وہ ہے جب وہ ماں بن جاتی ہیں۔ تب ان کی شاعری میں عشق کا استعارہ وسیع ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کے اندر سارے جہاں کا غم جھانکنے لگتا ہے۔ حالاں کہ ا س منزل کے نقوش بہت واضح نہیں ہیں۔لیکن ان منزل میں ان کی خود اعتمادی قابل دید ہے۔
عجیب حوصلہ رب نے دیا ہے ماؤں کو
کہ بن کے آل کی خاطر جو مرد رہنا ہے
ماں ہوں اتنی دعا میں طاقت ہے
سب بلاؤں کو ٹال سکتی ہوں
اب محبت کی اور کیا حد ہو
میری بیٹی میں تو جھلکتا ہے
فوزیہ کی شاعری کا کردار اپنے محبوب کو مختلف ناموں سے پکارتا ہے۔ یہ نام ان کی شاعری کی پہچان بن سکتے ہیں۔ کوزہ گر، سائیں، شہزادہ، سوہنا، مٹھرا، بالم، سائیاں۔ ا ن الفاظ کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر ہندی سے ماخوذ ہیں۔دوسری یہ کہ یہ تمام الفاظ مختلف حالات میں مختلف کیفیات سے روشناس کراتے ہیں۔ صرف یہی نہیں ان کی غزلوں میں عام طور سے ہندی الفاظ وافعال استعما ل ہوئے ہیں۔
سیج، سوہنا، نین، ساون،سندر، دَھن، آس، برہن، دیپ، جیون، بندھن، سمانا، گھائل، پاپ، باس، نگر، راج کماری، وارنا، گہنا، پیا، سجن۔اس طرح کے الفاظ اردو کی ابتدائی شاعری میں ملتے ہیں۔ولی دکنی اور ان جیسے شاعروں کے یہاں ہندی الفاظ کا کثرت سے استعمال ملتا ہے۔ بعد میں غزلوں میں یہ زبان عام طور سے دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن فوزیہ کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ہندی کے ان الفاظ کو بڑی خوب صورتی سے برتا ہے۔ جیسے عام بول کی چال کی زبان ہو۔ فوزیہ صرف ہندی الفاظ پر ہی نہیں رکتیں بلکہ وہ ہندی تہذیب سے اپنی شاعری میں استفادہ کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کا یہ شعر دیکھیں:
کروں دعائیں دیپ بہا کر پانی میں
میرے سنگ کٹے جیون شہزادے کا
پانی میں دیپ بہانے کا عمل ہندوستانی خواتین کروا چوتھ کے موقعے پر کرتی ہیں۔ اس موقعے پر وہ اپنے شوہروں کی لمبی عمر کی دعامانگتی ہیں اور نیک تمنائیں پیش کرتی ہیں۔ فوزیہ اپنے محبوب کے لئے اسی عمل سے گزرنے کی خواہش کا اظہار کرتی ہیں۔ اور دعا کرتی ہیں کہ ان کا محبوب ان کے ساتھ ہمیشہ رہے۔
فوزیہ گجرات میں پلی بڑھیں۔وہیں سے ایم اے بی ایڈ کیا۔ متعدد ادبی تنظیموں اور رسائل و جرائد سے وابستہ ہیں۔ ناری سمان ایوارڈ یافتہ ہیں اور ان کے اعزاز میں پاکستان میں ایک مشاعرہ بھی منعقد ہوچکا ہے۔ بجنور کے تعلیم یافتہ گھرانے سے ان کا تعلق ہے۔ بجنوری لہجے میں ایک غزل لطف دیتی ہے۔
آپ سے ہے مجھے کوئی گلہ شکوہ ناجی بالکل نہیں
جی نہیں یہ ہے میری وفا کا صلہ ناجی بالکل نہیں
فوزیہ کی زیادہ تر غزلیں غزل مسلسل کے درجے میں ہیں۔ اگر ان غزلوں کو عنوان دے دیں تو نظم کے قریب ہوجائیں گی۔ایک مکالماتی غزل بھی خوب ہے۔ردیف و قوافی میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ غزل کے فنی اسرار و رموز سے خوب واقف ہیں۔ چھوٹی اور بڑی ہر دو طرح کی بحر میں ان کی غزلیں بڑی شاعری کا پیش خیمہ ہیں۔ در اصل فوزیہ اپنے جذبات کے اظہار میں بے باک ہیں۔ اور ایک ہی جذبے کو مسلسل مختلف انداز میں بیان کرنے پر قدرت رکھتی ہیں۔ ان کے جذبات میں شدت ہے۔ ذیل کے اشعار میں ہجر کے کرب کا بیان کس شدت سے ہواہے ملاحظہ کریں:
کب تک اک اک لمحہ یوں ہی کاٹیں گے
دیواروں کو درد سنا کر شہزادے
قبر پہ روتے رہنے سے سکھ پاؤگے
تم نے کتنی دیر لگادی شہزادے
فوزیہ کا غالب و حاوی لہجہ طربیہ ہے لیکن جیسا کہ مذکور ہوا وقت کے ساتھ ان کی محبت کا استعارہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ دردو الم میں ڈوبے اشعار متعدد مقام پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ دردصرف ایک ذات کا نہیں بلکہ کائنات کا درد ہے۔ نظموں میں کبھی وہ برمی مہاجر مسلمانوں کی حالت زار اور عالم اسلا م کی بے حسی پر سراپا احتجاج نظر آتی ہیں تو کبھی شاعروں ادیبوں کو درد میں ڈوبے اور اداس لوگوں کے لئے قلم اٹھانے کے لئے برانگیختہ کرتی ہیں۔ غزل کے یہ اشعار دیکھیں:
ان کے دکھ درد کا تجھ سے بھی مداوا نہ ہوا
اپنی حالت پہ جو ہنستے رہے فنکار ترے
زعم ہے تجھ کواگر اپنے قبیلے پہ تو سن
میرے قدموں پہ گرے تھے سردار ترے
آج بازا ر میں لائی گئی جب تیری شبیہ
بھاگتے دوڑتے آپہنچے خریدار تیرے
جانے کیا رنگ رباب اب انھیں دے گی دنیا
کس قدر درد سے لبریز ہیں اشعار تیرے
فوزیہ کے مجموعہ ء کلام کے فلیپ پر منتخب اشعار ہیں۔ میں نے ان کے علاوہ اشعار کا انتخاب کیا ہے تاکہ ان کی شاعری کی دوسری جہتیں روشن ہوسکیں۔ یہاں صرف دو اشعار پیش خدمت ہیں ذرا ان کی پیکر تراشی کے نمونے دیکھیں:
رکھ دیتا ہے ہاتھ آنکھوں پر غیر کو جب بھی دیکھوں
جانے ایسا کون چھپا ہے آنکھوں کے اس پار
بینائی تیرے رستوں کو تھام کر بیٹھی ہے
تیرے گھر کا در بھی وا ہے آنکھوں کے اس پار

Monday, 1 April 2019

’پیام صبا‘ کا معنیاتی جہاں (تبصرہ) 


طیب فرقانی 

یہ دوپہر کا وقت کا تھا جب پیام صبا موصول ہوا ۔ علاقے میں سیلاب کی تباہی نے ہوا اور صبا دونوں کی آمد کو متاثر کیا تھا ۔ پیام صبا کامران غنی صبا کا شعری مجموعہ ہے (نام تو سنا ہی ہوگا ) ۔ میں یہاں کامران غنی سے اپنے تعلق کا اظہار نہیں کروں گا ۔ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ وہ میرے بے حد عزیز دوست ہیں ۔ اور ہم دونوں نے ایک ساتھ بہت سا را وقت گزارا ۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہوں نہ ہوں خوشیوں میں ضرور شامل رہے ۔ میں ان کے اہل خانہ اور حسب و نسب پر بھی روشنی نہیں ڈالوں گا ۔ میں یہ بھی نہیں لکھنا چاہتا کہ وہ نانیہال اور دادیہال دونوں طرف سے اعلا، باظرف ، مذہبی اور تعلیم یافتہ خاندان کے چشم و چراغ ہیں ۔ میں یہاں پیام صبا پر اپنے تاثرات پیش کرنا چاہتاہوں ۔ آپ اسے تاثراتی تنقید کہہ کر پڑھیں یہ آپ کی صواب دید پر منحصر ہے ۔ 
پیام صبا میں سب سے پہلے انتساب متاثر کرتا ہے ۔اللہ کے نام منسوب کرنے کا چلن عام نہیں ہے ۔ ہم اکثر والدین ، کسی دوست یا کسی مخصوص ہستی کی طرف اپنی تخلیقات و تصنیفات کو منسوب کرتے ہیں لیکن کامران کو پہلے اللہ یاد آتا ہے ۔ وہ اپنے مجموعے کے مطالعے سے قبل ہمیں بھی اللہ کی یاد دلاتا ہے ۔ اور شاید یہ کہنا چاہتا ہے کہ دیکھو بھائی مجموعے کا مطالعہ اللہ کو حاضر ناظر رکھ کر کرنا ۔ کیوں کہ اللہ کی توفیق کے بغیر نہ تخلیق آب دار ہوتی ہے اور نہ مطالعہ ۔ پیام صبا مختصر مجموعہ کلام ہے اور کامران کا اولین مجموعہ کلام ہے۔ اس کی ابتدا میں دس مضامین شامل ہیں ۔ یہ سارے مضامین کامران کی ایک نظم ’’مجھے آزاد ہونا ہے ‘‘ کے تجزیے اور تنقید پر مبنی ہیں ۔ یہ مضامین شامل کتاب نہ ہوں تو مجموعے کا حجم آدھا رہ جائے گا۔ مضامین کی ترتیب منطقی ہے ۔ یہ سوال کہ صرف ایک ہی نظم پر اتنے مضامین کیوں لکھے گئے ؟ کامران کی دوسری نظمیں قابل توجہ کیوں نہ ہوئیں ۔ پوچھا جانا چاہئے ۔ میں نے خود سے اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن میں کسی خاص نتیجے پر نہیں پہنچ سکا ۔ شاید دوسری نظموں تک اہل علم کی رسائی نہ ہوئی ۔ یا یہ کہ اس نظم کے مرکزی خیال ، پیش کش اور ڈکشن میں ایسی بات ہے کہ وہ جلدی اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے ۔ زیادہ تر لکھنے والوں نے نظم میں موت کے عناصر یا موت کو یاد کرنے اور زندگی اور موت کے حوالے سے بات کی ہے ۔ موت کو یاد کرنا اور موت کی آرزو کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں ۔ موت کو یاد کرنا ،اس کی حقیت پر غور کرنا اچھی بات ہے لیکن موت کی آرزو کرنا ؟ 
شاعر کہتا ہے :
مراجی چاہتا ہے تیاگ کر سب کچھ 
کسی گمنام بستی میں چلاجاؤں 
یہ گمنام بستی کون سی ہے ؟ کیا موت کے بعد جہاں ہم بستے ہیں اسے گمنام بستی کہا جاسکتا ہے ؟ اگر یہ اسی بستی کو کہا جاتا ہے تو یہ موت کی آرزو ہے ۔ موت کی یاد نہیں ۔ اور اس بستی میں ہم سبھی کو جانا ہے ۔ آج نہیں تو کل ۔ لیکن شاعر اس بستی میں بھی کسی کی شرکت نہیں چاہتا۔ یہ بستی اگر قبرستان ہے تو دوسروں کی شرکت یقینی ہے ۔ قبر کو بستی کہا نہیں جاسکتا ۔ قبر کو بستی سے تشبیہہ دینا غیر متعلق ہے ۔ شاعر ایک ایسی بستی میں بسنے کی آرزو کرتا ہے جس کی خصوصیت گمنامی کے علاوہ یہ بھی ہے کہ وہاں اس کے کسی جاننے پہچاننے والے کے پہنچنے کا کوئی امکان نہ ہو ۔ شاعر صرف جاننے پہچاننے والے سے بھاگنا چاہتا ہے یا سبھی سے ؟ پھر وہ اسی بستی کو گوشہ عزلت بھی کہتا ہے ۔ اور پاتا ل بھی ۔ پاتال میں کون سی بستی ہے ؟ بستی میں گوشہ عزلت کیسے ممکن ہے ؟ ان سب سوالوں پہ میں غور کرتا ہوں تو الجھ جاتا ہوں ۔ اور میں مجبور ہوجاتا ہوں کہ کہوں کہ شاعر موت کی آرزو نہیں کررہا ہے بلکہ وہ موت کو یاد کر رہا ہے ۔ وہ جب جب زندگی کو سمجھنا چاہتا ہے موت اس کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے ۔ وہ دنیا کی عزت و شہرت کی طرف لپکتا ہے تو موت اس کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہے ۔ وہ مال و دولت کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے تو اسے موت کی یاد آتی ہے ۔ یہی حال زندگی کے سارے شعبوں کا ہے ۔ وہ زندگی کے ہر اس شعبے کا جائزہ لیتا ہے جو انسان کو عزت و شہرت کی بلندی پر لے جاتے ہیں ، جس میں نام و نمود کی آمیزش ہوتی ہے ۔ شہرت ، چرچا ، نا م و نشان ، غلغلہ ، سورج کا دیا یہ الفاظ اس نظم کے خاص الفاظ ہیں ۔ یہ الفاظ مجھ سے کہتے ہیں کہ تمہارا دوست کامران موت کی آرزو نہیں کر رہا ہے وہ خلوص کی آرزو کررہا ہے ۔ خلوص ایک گمنام بستی ہے ۔ اس بستی تک کسی کی رسائی ممکن نہیں ۔ یہاں تک کہ ایک ہاتھ کو دسرے کی خبر نہیں ۔ یہ بستی کہاں ہے کوئی نہیں جانتا ۔ شاید پاتا ل میں ہو۔حتی کہ شاعر کو خود نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہے ۔ لیکن جہاں بھی ہے شاعر کی تمنا بھی یہی ہے ۔ اور اس بستی تک پہنچنے سے اسے زندگی کے وہ تمام شعبے روکتے ہیں جن سے وہ متعلق ہے ۔ وہ انھیں شعبوں کا ذکر تا ہے جن سے وہ براہ راست یا بالواسطہ متعلق ہے ۔ اخبار ، جلسہ ، محفل ، تحقیق ، سیاست ، صحافت ، ادب ، صوت و رنگ و چنگ اور دولت وہ خاص شعبے ہیں جن سے شاعر متعلق ہے ۔ انھیں شعبوں کا وہ خاص طور سے کیوں ذکر کرتا ہے ؟ زندگی کے اور بھی دوسرے شعبے ہیں جہاں شاعر کا لاشعور جھانکنے کی کوشش نہیں کرتا ۔ شاعر کے لا شعور میں ان شعبوں کا ذکر اس لئے ہے کہ ان میں اکثر و بیشتر نام و نمود کی آمیزش ہوتی ہے اور شاعر کو نام و نمود سے آلودہ شعبے میں زندگی کو آگے بڑھانا کار عبث معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن ان شعبوں سے چھٹکارا اتنا آسان ہے کیا ؟ ان شعبوں نے اسے جکڑ رکھا ہے ۔ قیدی بنا رکھا ہے ؟ وہ ان شعبوں سے زیادہ ان کی نمائش سے ان کی رعنائی سے اور ان کی بے مقصد خواہش سے آزادی چاہتا ہے ۔ 
مجھے آزاد ہونا ہے 
زمانے بھر کی ہر خواہش سے 
ہررعنائی سے ،جھوٹی نمائش سے 
مجھے آزاد ہونا ہے 
یہ نظم ایک سوچتے ذہن اور پرخلوص دل کا استعارہ ہے ۔ 
پیام صبا میں ایک حمد ، چار نعتیں اور ایک منقبت شامل ہے ۔ حمد آزاد نظم کی ہیئت میں اپنے گناہوں کی معافی اور خدا کی رحمتوں سے امید پر مبنی ہے ۔ 
نعتوں میں ایک خواہش بار بار سر اٹھاتی ہے ۔ شاعر مدینے سے دور ہجر کے کرب میں مبتلا ہے اور در مصطفی پر حاضری کے لئے تڑپ رہا ہے ۔ وہ بار بار خود کو مدینے بلائے جانے کی آرزو کرتا ہے ۔ یہ آرزو اتنی شدید ہے کہ کم سے کم خواب میں درمصطفی تو ضرور دیکھنا چاہتا ہے ۔ 
ہجر میں دل پریشان ہے یا خدا 
خواب میں روضہء مصطفی چاہئے 
میں اٹھاؤں کیسے یہ بار غم ترا ہجر مجھ پہ عذاب ہے 
کبھی بخت میرا بھی جاگ اٹھے ،کبھی در پہ ہو مری حاضری 
اب اور بار ہجر اٹھانا محال ہے 
خوابوں میں ہی دکھادے مجھے روئے مصطفی 
اب اور کتنا ہجر کا صدمہ اٹھاؤں میں 
اک بار اپنے پاس بلالو مرے نبی 
یہ چاروں نعتیں غزل کے فارم میں ہیں ۔ منقبت امام حسین کی شان میں ہے ۔ جس میں شاعر حسنین علیہماالسلام کو روز محشر کا وسیلہ بناتا ہے ۔ 
پیام صبا میں غزلیں زیادہ ہیں اور نظمیں کم ۔ مگر غزلوں کو بعد میں رکھا گیا ہے اور نظموں کو پہلے ۔ اس ترتیب کی وجہ کامران بھائی تم ہی بتاسکتے ہو۔ لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ تمہاری نظمیں تمہاری غزلوں سے زیادہ پراثر ہیں تم بھی شاید ایسا ہی سوچتے ہو۔ میں نے اس سوال پہ غور کیا تو میں بھی اسی نتیجے پر پہنچا ۔ دراصل تم ہر اچھے تخلیق کار کی طرح حساس او ر درد مند انسان ہو ۔ تمھارے احساسات تمھارے درون میں ایک ہلچل پیدا کرتے ہیں اور پھر اس ہلچل پر مسلسل غور کرتے ہو ۔ کبھی تمھیں کوئی راستہ مل جاتا ہے اور کبھی تم کشمکش کے درمیان جھولتے رہتے ہو۔ 
’’یہی سب کچھ میں اکثر سوچتا ہوں 
اور جب بھی سوچتا ہوں 
تب مجھے یہ سب فقط کار عبث معلوم ہوتا ہے ‘‘
(مجھے آزاد ہونا ہے ) 

’’مجھے بھی اک تجسس تھا 
کہ دیکھوں تو !
کہ اس لمحے کے برزخ کے پرے کیا ہے 
گزشتہ شب نہ جانے کب 
یہی کچھ سوچتے میں نیند کی آغوش میں پہنچا ‘‘
(فنا آغوش) 
سوچتے سوچتے تم کسی لمحے میں نظم لکھنے بیٹھ جاتے ہو ۔ جب کہ غزل کے معاملے میں ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ہے شاید ۔ بسا اوقات تم ’’طرحی مصرعے ‘‘ پر غزل لکھنے بیٹھتے ہو ۔ اس وقت تمھارے پاس وقت کم ہوتا ہے ۔ اس لمحے میں تمھیں غور و فکر کے لئے وقت نہ مل پانے کی وجہ سے شاعر ی ہوجاتی ہے لیکن تمھارا جوہر پوری طرح نہیں کھل پاتا ۔ لیکن جب بھی وہ لمحہ آتا ہے کہ غزل تم سے خود لکھواتی ہے تب تم خوب لکھتے ہو ۔ 
میرے دوست وہ لمحہ جب تم گہرائی سے کسی فکر میں ڈوبے تھے تمھاری ایک نظم ’’وہ شمع اب خموش ہے ‘‘ میں قید ہوگیا ہے ۔ اس نظم کے ہر لفظ میں اس لمحے کا کرب قید ہوگیا ہے ۔ جو فکری گہرائی اور فنی حسن اس نظم میں ہے شاید دوسری نظم میں نہیں ۔ تمھاری یہ نظم مجھے تمھاری شاعری کا حاصل معلوم ہوتی ہے ۔ تمھاری نظم ’’ مراوجود‘‘ اور ’’منافق ‘‘ بھی ایسے ہی لمحے کو گرفت میں لئے ہوئے ہے جب تم انسانی وجود اور انسانی رویے پر گہرائی سے سوچنے میں منہک تھے ۔ ایک اور بات جو تمھاری نظموں میں مجھے نمایاں نظر آتی ہے وہ ہے کسی واقعے سے متاثر ہوکر کہی گئی نظم ۔ کسی واقعے سے متاثر ہوکر نظم کہنے کی روایت قدیم ہے ۔ تم جدید زمانے میں مسلمانوں سے متعلق پیش آنے والے واقعات پر اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہو ۔ ان واقعات کے مختلف پہلوؤں پر سوچنے لگتے ہو، اپنے درون میں کشمکش محسوس کرتے ہو اور پھر نظم کی صورت میں کوئی نئی راہ سجھانے کی کوشش کرتے ہو ۔ مگر اے میرے دوست مجھے لگتا ہے کہ تمھیں اپنی تخلیق کی بھٹی میں مزید کوئلے ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ کیوں کہ کسی واقعے سے متاثر ہوکر کہی گئی نظم وقتی ہوجاتی ہے جب کہ اعلا شاعری عمومیت کا تقاضا کرتی ہے۔ تم اپنی نظموں میں جدید ہیئت کا استعمال زیادہ کرتے ہو۔ لیکن نئے استعارے اور نئے فقرے کی تخلیق کا سفر ادھورا ہے ۔ 
تمھاری غزلیں محبت کا گیت گاتی ہیں ۔تم سرِ دار بھی پیار و محبت کے نغمے گانے کے قائل ہو ۔ تم بندگی کو عاشقی اور عاشقی کو بندگی کہتے ہو۔ اسی لئے نقش پا پہ جبیں رکھ کر چلتے ہو ۔ 
سنا تھا نقش کف پا پہ چلنا پڑتا ہے 
بجز جبیں کے رہ عشق میں نشاں نہ ملا 
یہ ایساعشق ہے کہ اس میں خلوص کے سوا اور کچھ نہیں ۔ تم بے وجہ عشق کرتے ہو ۔ کسی لالچ ، ہوس ، طمع کی کوئی گنجائش نہیں ۔ 
کیوں مجھ سے محبت کا سبب پوچھتے ہو 
بے وجہ بھی ہوتے ہیں کئی کام مری جاں 
اس عشق میں تم خالص ہو ۔ منافقت سے پاک تمھاراصوفیانہ عشقیہ جذبہ تمھیں تنہائی قبول کرنے اور تعلقات کو یکسر ختم کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔ 
منافقت نہیں آتی سو رنجشوں کے بعد 
تعلقات کا ہم اختتام کرتے ہیں 
محفل رنگ و بو ہو مبارک تمھیں 
میرا سارا جہاں میری تنہائیاں 
یہی وجہ ہے کہ تمھاری غزلیں ہجر ، اشک اور آئینہ کے ارد گرد گھومتی ہیں ۔ مجموعے میں اٹھائیس غزلیں شامل ہیں ۔ تقریبا ہر غزل میں تم ہجر اور ہجر کے نتیجے میں اشک بہانے کا ذکر کرتے ہو ۔ غم حیات پہ تو تم نے پوری ایک غزل لکھی ہے ۔ تم کلاسیکی عاشق ہو میرے دوست ۔ تمھاری غزلوں کا حاوی رنگ کلاسیکس سے متاثر ہے ۔ کہیں کہیں تم نے جد ت بھی پیدا کی ہے ۔ اسی لئے تم شاعرانہ تعلی بھی کرتے ہو۔ 
یہ شور کیسا ہے آج کی محفل میں کس کی آمد کی دھوم سی ہے 
کوئی نہیں وہ صبا ہی ہوگا جدا ہے رنگ اس کی شاعری کا 

شاعری سن کے صبا کی سبھی حیران سے ہیں 
اس کے فن میں کوئی جادو ہے ،نشہ ہے ، کیا ہے ؟

جدیداسلوب و آہنگ کی سب سے اچھی غزل وہ ہے جو تم نے ’’مانند ‘‘ کی ردیف میں کہی ہے ۔ پوری غزل تشبیہوں اور استعاروں کی نئی دنیا آباد کرتی ہے ۔ اس میں تمھارا فن عروج پہ نظر آتا ہے ۔ اب کچھ اشعار میری زبان سے سن لو ۔ 
اب اس کی محبت کو صبا بھول ہی جاؤ 
فرقت ہی محبت کا انجام مری جاں 
درد جس میں نہ ہو اس دل کی حقیقت کیسی 
ہجر کا غم ہی نہیں ہو تو محبت کیسی 
ہجر کی رات تنہائیوں میں صبا 
کون کرتا رہا تجھ سے سر گوشیاں 
غم الفت ، شب فرقت ، نگاہ یاس اور حسرت 
صبا تیری رفاقت میں بجز غم کیا ملا مجھ کو 
کیا خبر تھی شب فراق کے بعد 
زندگی خود سے روٹھ جائے گی 
تمھاری یاد کا سورج غروب ہونے تک 
نماز ہجر کا ہم اہتمام کرتے ہیں 
رستے میں اگر ہجر کا دریا نہیں آتا 
ہم ڈوبتے خشکی میں سفینہ نہیں آتا 
عشق اگر شدید تر ہو تو ہجر میں اشکوں کا بہنا فطری بھی ہے اور ضروری بھی ۔ تم تو رونے میں بھی اس قدر مخلص ہو کہ آنسوؤں کی آہستہ خرامی کو عیب سمجھتے ہو ۔رونا تمھارے لئے دعا اور آہیں عبادت ہیں ۔ 
ہم رونے پہ آجائیں تو طوفان اٹھادیں 
’’شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا ‘‘
کسی کی یاد کے جگنو ہماری آنکھوں میں 
بشکل اشک مسلسل قیام کرتے ہیں 
لکھنا شب فرقت کو آہوں کی عبادت تم 
روتی ہوئی آنکھوں کو مصروف دعا لکھنا 
ائے کہ نگاہ خندہ زن تیرے غرور کی قسم 
ایک عجب سرور ہے دیدۂ اشک بار میں 
میں اپنی آنکھوں کو رکھتا ہوں باوضو ہر دم 
کہ تیرا ذکر مقدس کتاب کی ماند 
قطرۂ اشک کو تسبیح کے دانے سمجھو 
دیکھو پلکوں سے ٹپکتی ہے عبادت کیسی 
میرے بھائی کامران ! مبارک ہو تمھیں کہ اخلاص ، کردار اور تصوف کی جو روایت تمھیں ورثے میں ملی ہے وہی تمھاری غزلیہ شاعری میں ڈھل گئی ہے ۔ کہیں کہیں تم ملکی حالات ، سماجی کرب اور موت کو بھی اپنا موضوع سخن بناتے ہو ۔تمھاری شاعری کی خاص بات یہ ہے کہ سطحیت سے پرے اظہار ذات کا ایک ایسا وسیلہ بن گئی ہے جس میں جام نو میں بادۂ کہنہ کی جھلک صاف نظر آتی ہے ۔ تمھاری شاعری میں کہیں ’’پہیلیاں ‘‘ بجھانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے ۔ تم سچ ہی کہتے ہو کہ تم نے بیچ کا راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن یہ راستہ ابھی دور تک پھیلا ہوا ہے اور منزل ابھی دھندلکے میں ہے ۔ چلتے رہو ۔ ۔۔۔۔

Sunday, 1 December 2013

تبصرہ:جدید اردو مثنوی فن اور فکری ابعاد

جدید اردو مثنوی فن اور فکری ابعاد
مصنف :ظفرانصاری ظفر
صفحات:۵۰۷،قیمت:۲۰۵روپے،سنہ اشاعت:۲۰۱۳
ناشر:کتابی دنیا،دہلی
مبصر:طیب فرقانی،ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی
ظفرانصاری ظفر کی حالیہ منظر عام پرآئی کتاب ’جدید اردو مثنوی ۔فن اور فکری ابعاد‘قومی کونسل کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔مصنف نے اس کتاب میں ۱۸۷۴ء سے ۲۰۰۲ ء تک کے عرصے میں لکھی گئی مثنویوں کا فنی اور فکری جائزہ لیا ہے ۔
۵۰۷ صفحات کی اس ضخیم کتاب کے نام میں ہی صرف جدید کا لفظ نہیں ہے بلکہ کتاب بھی جدید ہے اور موضوع بھی جدید ہے۔کل پانچ ابواب پر مشتمل کتاب کے آخری دو ابواب میں مصنف نے ،جیسا کہ کتاب کے نام سے واضح ہوتا ہے ،جدید اردو مثنوی کے فنی اور فکری ابعاد کا خوب صورت اسلوب و انداز میں ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔
جدید مثنوی سے مراد ایسی مثنویاں ہیں جو ۱۸۵۷ کے انقلاب کے بعد کے زمانے میں لکھی گئیں ۔اس سلسلے میں جن مثنوی نگاروں کا ذکر آیا ہے وہ ہیں حالی ،آزاد ،شبلی،اسمٰعیل میرٹھی،نظم طباطبائی،شادعظیم آبادی،علامہ اقبال،حفیظ جالندھری،جمیل مظہری،سردار جعفری،کیفی اعظمی،جاں نثار اختر،اختر انصاری ،عبدالمجید شمس،علامہ سریر کابری اور اسلم بدر۔ ان کے علاوہ ذکی احمد ،قمر واحدی،ابرار کرت پوری،جوش ملیح آبادی،شیخ احمد علی اور مرزا ہادی رسوا کاذکر بھی آیا ہے۔ مصنف نے عامر عثمانی کی مثنوی ’شاہنامہ اسلام جدید ‘ کا بھی ذکر کیا ہے جو ان کو دستیاب نہ ہوسکی ۔ان میں وہ مثنوی نگار بھی ہیں جن کو ہم مثنوی نگار کی حیثیت سے کم ہی جانتے ہیں جیسے مرزا ہادی رسوا۔لیکن پورے مطالعے میں حالی ،آزاد اور شبلی کو محوری حیثیت حاصل ہے۔
کتاب کا پہلا باب ’مثنوی :بحیثیت فن ‘ اس لحاظ سے اہم ہے کہ مصنف نے اس میں مثنوی کی تعریف تو کی ہے ساتھ ہی مثنوی عمومًاجن سات بحروں میں لکھی گئی ہے ان کی تقطیع مع مثال پیش کی ہے اور یہ مانا ہے کہ مثنوی کے لئے صرف سات یا نو بحریں ہی خاص نہیں ہیں بلکہ اس میں اجتہاد و انحراف کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔مصنف نے اس پہلے باب میں مثنوی کی صنفی حیثیت کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے اور شمیم احمد کے اس خیال سے اختلاف کیا ہے کہ’’جدید شاعری کے فروغ کے بعد جو مثنویاں مثلًا حالی،شبلی،آزاد،اقبال،سردار جعفری،جاں نثار اختر وغیرہ نے لکھی ہے،صحیح معنوں میں ان کی صنف مثنوی نہیں ہے بلکہ مثنوی کی ہیئت میں وہ مختلف موضوعات پر مبنی نظمیں ہیں ۔‘‘ مصنف نے کتاب کے آخری باب میں لکھا ہے کہ حالی اور شبلی بنیادی طور سے نقاد ہیں اور جب خود انھوں نے اپنی مثنویوں کو مثنوی کہا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں نظم کہنے والے؟
کتاب کا دوسرا باب ’اردو میں مثنوی کی روایت‘اور تیسرا باب ’اردو ادب کا دور جدید ‘ہے۔ یہ دونوں ابواب طوالت ،بساطت اور تفصیل کے اوصاف سے پیراستہ ہیں اور مصنف کے وسیع مطالعے اور عرق ریزی کا پتہ دیتے ہیں لیکن یہ دونوں ابواب غیر متوازن ہیں ۔مثال کے طور پر مثنوی کا سنہ تصنیف اور مثنوی نگاروں کا سنہ ولادت و وفات دینے میں کسی خاص قاعدے کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔سید اشرف جیسا مثنوی نگار جس کا ذکر شمالی ہند اور دکن کے بیشتر تذکروں میں ملتا ہے،کی ولادت ووفات کی تاریخ مصنف نے نہیں لکھی ہے اور یہ بھی نہیں بتایا کہ تاریخ پردۂ خفا میں ہے۔ جب کی اس کی مثنوی کا سنہ تصنیف درج ہے۔
اسی طرح تیسرے باب میں پرارتھنا سماج جیسی کم معروف اصلاحی تحریک کا ذکر تو آیا ہے لیکن جماعت اسلامی تحریک کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو وہابی تحریک کا بانی بتایا گیا ہے جس سے اختلاف کی گنجائش ہے۔ کمپوزنگ کی غلطیاں بھی انھیں دو ابوا ب میں زیادہ ہیں ۔تصدق حسین شوق لکھنوی کی عرفیت نواب مرزا کے بجائے نواز مرزا کمپوز ہوگیا ہے۔اسی طرح ان کی مثنوی بہار عشق کا سنہ تصنیف ۱۲۶۶ھ مطابق ۱۸۴۹ ء اور مثنوی زہرشوق کاسنہ تصنیف۱۲۶۹ھ مطابق۱۸۷۲ء درج ہے۔ان میں یا تو ۱۸۷۲ ء غلط ہے یا ۱۸۴۹ء۔بتنگڑ بتنگر اور بارات برات کمپوز ہوا ہے۔

(ماہنامہ اردو دنیا ،دہلی دسمبر ۲۰۱۳ میں شائع شدہ )

Friday, 25 October 2013

کتابی سلسلہ:الاحسان (شمارہ نمبر۱) پر تبصرہ

کتابی سلسلہ:الاحسان (شمارہ نمبر۱)
مدیر : حسن سعید چشتی
ترتیب : مجیب الرحمن علیمی،ذیشان احمد مصباحی،ضیاء الرحمن علیمی،رفعت رضا نوری
سال اشاعت: اپریل ۲۰۱۰
قیمت:۱۰۰ روپے
مبصر : طیب فرقانی،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی

’تصوف ‘ اور’ تشدد‘ موجودہ دور میں ایک دوسرے کے مقابلے میں ابھر رہے ہیں ۔اہل تصوف کی کوشش ہے کہ دنیا بھر میں اسلام کو رسوائی سے بچانے اور دشمنان اسلام کو اسلام سے قریب لانے کے لئے پھر سے احیائے تصوف کیا جائے۔اس کے لئے تصوف کو آلائشوں سے پاک کیا جائے اور اس کی خوبیوں کو اپنایا جائے ۔کتابی سلسلہ ’الاحسان‘ اسی کوشش کا نام ہے ۔شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ چشتی کی سر پرستی اور ملک و بیرون ملک کے سر بر آوردہ علماء ومشائخ کی مشاورت و معاونت میں یہ مجلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے ۔
مجلے کے مشمولات کو درج ذیل ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے :(۱) بادہ وساغر (۲) احوال (۳)بادۂ کہنہ ( ۴) تذکیر (۵) تحقیق و تنقید (۶) بحث و نظر (۷) شناسائی (۸) صوفی ادب ( ۹)زاویہ (۱۰) پیمانہ (۱۱) مکتوبات۔ ’بادہ و ساغر‘ کے کالم میں امام غزالی کا وہ قصیدہ بھی شامل ہے جو ان کی وفات کے بعد ان کے سرہانے ملا تھا ۔ اس کا ترجمہ ضیاء الرحمن علیمی نے کیا ہے جو ’زاویہ ‘ کے کالم میں شامل ہے ۔
’احوال ‘ کے تحت مدیر مجلہ حسن سعید چشتی کا ابتدائیہ اور ذیشان مصباحی احوال سے واقف کراتے ہیں ۔
’بادۂ کہنہ‘کے تحت پہلی تحریر شیخ شرف الدین احمد یحی منیری علیہ الرحمہ کی ہے ، جس کا ترجمہ شاہ نجم الدین احمد فردوسی نے کیا ہے ۔ یہ مکتوبات صدی کا مکتوب اول ہے جس میں توحید کے چار درجے اور ان کا فرق مثالوں سے سمجھایا گیا ہے ۔ ایک مثال اخروٹ کی ہے کہ ’’ اخروٹ میں دوقسم کے پوست اور ایک قسم کا مغز ہوتا ہے ،پھر مغز میں روغن ‘‘ ۔ منافقانہ توحید پہلی قسم کے پوست کی مانند ہے ۔عامیانہ اور متکلمانہ توحید دوسری قسم کے پوست کی طرح ہے عارفانہ توحید مغز کے درجے میں ہے اور موحدانہ توحید روغن کے درجے میں ۔ حلول اور تجلی کا فرق بھی سمجھایا گیا ہے جو ان ذہنوں کے لئے شفا ہے جو حلول و تجلی میں فرق نہیں کرتے اور تصوف کو ویدانت سے جوڑتے ہیں ۔
دوسری اور آخری تحریر شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمہ کی ہے ۔ عنوان ہے’ تصوف کی حقیقت و ماہیت ‘ یہ تحریر عوارف العوارف سے ماخوذ ہے اور اس کے ترجمہ و تلخیص نگار ذکی اللہ مصباحی ہیں ۔ متعدد صاحبان طریقت کے اقوال کی روشنی میں تصوف کی ماہیت بیان کی گئی ہے ۔ تصوف و فقر پر خاصی لمبی بحث ہے ۔ متعدد مقام پر تصوف و فقر کے درمیان فرق کو واضح کیا گیا ہے ۔
’تذکیر‘ کے کالم میں تین تحریریں ہیں۔اول شیخ ابوسعید چشتی کے افادات پر مشتمل ہے جس کوذیشان مصباحی نے ترتیب دیا ہے ۔دوسری مولانا عبد المبین نعمانی کی تحریر ’آفات لسان اور ان سے بچنے کی تدبیریں ‘آیات واحادیث سے مزین کافی وسیع و وقیع ہے ۔ اس کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تصوف اس کے سوا کچھ نہیں کہ قران و حدیث پر پوری طرح عمل کیا جائے ۔ ایک پیراگراف نقل کرنا فائدے سے خالی نہ ہوگا :’’آدمی اگر بظاہر مسلمان ہے تو اصل اس کا مسلمان ہونا ہے جب تک کہ صریح کفر سرزد نہ ہو،اس کو کافر نہیں کہہ سکتے ،یا کفر تو صریح ہو لیکن قائل کی طرف اس کا انتساب قطعی نہ ہو تو اس صورت میں بھی کافر کہنا صحیح نہیں ‘‘۔(ص۵۰)
تیسری تحریر جناب نیاز حسن کی ہے جو کبھی ہری نارائن سنگھ ہوا کرتے تھے ۔یہ ان کے قبول اسلام کی مختصر آپ بیتی ہے 
’تحقیق وتنقید ‘ کے کالم میں پہلا مقالہ پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی کا ہے ۔’حقیقت تصوف: ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘ کے عنوان سے یہ مقالہ اسم با مسمیٰ ہے ۔ بشمول حواشی ۳۳ صفحات پر پھیلا ہوا یہ مقالہ تحقیق و تنقید کے باب میں نئی نسل کے لٗے مشعل راہ بھی ہے ۔مقالے کی ابتدا سلو موشن میں ہوتی ہے اور آہستہ وآہستہ عروج کے منازل طے کرتا ہے۔زبان وبیان اور انداز تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقالہ کئی بار میں تحریر ہوا ہے ۔مترادفات کی کثرت اور طویل جملوں کے استعمال سے کہیں کہیں ترسیل دشوار ہوجاتی ہے ۔ایک مثال دیکھئے:’’اس شخصی اعتدال کے ساتھ دین و شریعت ،معاشرہ میں بھی توازن وتوافق اور عدل انصاف اور اعتدال و میانہ روی پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘صاحب مقالہ کا خیا ل ہے کہ ’’حضرت شاہ ولی اللہ تو حکیم شریعت اور ماہر دینی کے ساتھ ساتھ تصوف وطریقت کے امام عالی مقام بھی تھے ۔لیکن امام ابن تیمیہ (م ۱۷۲۸ھ/۱۳۲۸ء)صرف شیخ الاسلام اور دین وشریعت کے امام تھے اور تصوف کے بعض امور کے ناقد بھی تھے ۔بایں ہمہ وہ تصوف کے منکر اور اس کی افادیت کے انکاری نہ تھے ۔وہ اکابر صوفیہ کو تسلیم کرتے تھے اور تصوف کے بہت سے نظریات ،افکاراور اعمال واشغال کے بھی قائل تھے ۔‘‘ مقالہ دلائل وحوالہ جات سے مزین ہے ۔ان کا ماننا ہے کہ طریقت ،شریعت کا ایک حصہ ہے اور صوفیہ کی تعلیمات ہدایت کے چراغ ہیں لیکن ان سے اسلامی نظام برپا نہیں کیا جاسکتا۔
دوسرا مضمون مولانا سید محمد اشتیاق عالم شہبازی کا ہے ۔آپ نے ’صوفیہ کرام کے احوال ومقامات ‘ جیسے صبر، زہد،فقر،توکل اور رضا وغیرہ پر صوفیا اور علما کے افادات وارشادات کی روشنی میں ایک قابل مطالعہ مضمون سپرد قلم کیا ہے ۔پروفیسر مسعود انور علوی کا مضمون ’عصر حاضر میں تصوف اور خانقاہ کی ضرورت‘ایک عجلت میں لکھا گیا مضمون ہے ۔حوالوں سے عاری۔پروفیسر موصوف بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو غار حرا کو پہلی خانقاہ مانتے ہیں اور قران و حدیث کے ہر واقعے کو تصوف ثابت کرنے پر مصر ہیں۔آج کل یہ ٹرینڈ ہوگیا ہے کہ روحانیت پر گفتگو کرتے ہوئے سائنس و ٹیکنالوجی پر سارا نزلہ گرادیا جاتا ہے اور پوری دنیا کو امن وامان سے خالی ،بد عمل اور کفرستان ثابت کیا جاتا ہے ۔پروفیسر موصوف بھی اس سے باز نہیں رہ سکے اور طریق نبوت اور طریق ولایت کو گڈ مڈ کرتے ہوئے نظر آئے ۔وفی انفسکم افلا تبصرون کا نیا ترجمہ (وہ تمہارے نفوس میں ہے کیا تم دیکھتے نہیں ) دیکھنے کو ملا۔
مولانا امام الدین سعیدی کا مضمون ’مشائخ کے شطحیات و ہفوات :ایک علمی و تحقیقی جائزہ‘ نہایت وقیع ہے ۔شطحیات و ہفوات کیا ہیں ؟ خود مضمون نگار کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں :’’(صوفیائے کرام سے ) غلبۂ حال میں جو اقوال بظاہر مخالف شرع صادر ہوں انہیں شطحیات کہتے ہیں اور جو افعال و حرکات مخالف شرع صادر ہوں انہیں ہفوات کہتے ہیں ۔کلمات شطحیات کی مثال حضرت منصور حلاج کا ’انا الحق‘ کہنا ،ہفوات کی مثال شیخ شبلی قدس سرہ کا بیٹے کی وفات پر داڑھی حلق کرلینا اور درہم و دینار کو دریا میں ڈال دینا وغیرہ ۔‘‘(ص۱۲۰)
مولانا مظہر حسین علیمی نے ’ضرورت شیخ اور اس کے حقوق و آداب ‘ پر روشنی ڈالی ہے جو تحریر سے زیادہ تقریر کے قریب ہے ۔اسی کالم میں ضیاء الرحمن علیمی کا مضمون ’علامہ ابن جوزی :ناقد تصوف یا محدث صوفی ؟‘دعوت غور فکر اوروعوت مطالہ دیتا ہے ۔پوری تحریر دلائل وامثال سے مزین ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو لوگ نقد تصوف میں ابن جوزی کے مقلد محض ہیں وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔ابن جوزی تصوف کو بالکلیہ رد نہیں کرتے بلکہ وہ تصوف کو آلائش سے پاک کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ مخالف تصوف نہیں بلکہ خود ایک بڑے صوفی ہیں ۔علیمی صاحب کا یہ مضمون رواں دواں اور ادبی اسلوب لئے ہوئے ہے ۔(چند مقامات ، جہاں عربی اسلوب در آیا ہے ، مستثنیٰ ہیں )بعض پیراگراف کافی طویل ہوگئے ہیں ۔
’حضرت شفیق بلخی :حیات وافکار ‘بھی عمدہ مقالہ ہے ۔ڈاکٹر مشتاق احمد تجاروی نے حضرت شفیق بلخی علیہ الرحمہ کی حیات پر واقعات کے توسط سے روشنی ڈالی ہے ۔اس طرح ان کے افکار و توکل ،زہدوطریقہء زہد،عبادت اور معرفت و غیرہ کو بخوبی پیش کیا ہے ۔موصوف نے ذکر کیا ہے کہ حضرت شفیق بلخی کے زمانے میں لفظ تصوف کو ’زہد ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا ۔انداز نگارش عمدہ ہے ۔
تحقیق و تنقید کے کالم میں آخری تحریر پروفیسر علی احسان ایتک کی ہے ، جس کا ترجمہ ضیاء الرحمن علیمی نے کیا ہے ۔یہ مقالہ علیمی صاحب تک کیسے پہنچا اس کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔اس مقالے کے سلسلے میں حسن سعید چشتی کی اس رائے سے ہمیں اتفاق ہے :’’پروفیسر علی احسان ایتک کی تحریر معاصر ترکی صوفیانہ تحریکات کے حوالے سے بیش قیمت معلومات کی حامل ہے ۔‘‘(ص۲۰) آخر میں یہ ماننا پڑتا ہے کہ ’تحقیق و تنقید ‘کا حصہ شمارہ کا سب سے زیادہ گرانقدر ،با وقا ر اور توجہ طلب ہے ۔‘‘(ص۲۰) 
’بحث و نظر کے کالم میں تین تحریریں ہیں ۔علامہ یسین اختر مصباحی ،پروفیسر اختر الواسع اور مولانا فیضان المصطفی قادری کی ۔ یہ تینوں برانڈ نام ہیں ۔ان کا نام ہی ان کی تحریروں کو با وزن بناتا ہے۔ہم یہاں ان کی تحریروں سے ایک ایک اقتباس نقل کر کے آگے بڑھ جائیں گے ۔بحث و نظر کے کالم کا سوال ہے :’’کیا تصوف اور صوفیہ کا دور ختم ہوگیا ؟‘‘ اس کے تحت علامہ مصباحی کا یہ اقتباس دیکھئے :
’’تصوف اور اس کی صحیح تعلیمات پر عمل پیرا صوفیہ کا مستقبل یقیناًروشن ہے اور غلط تصوف اور دنیا دار صوفیہ کا مستقبل تاریک ہونے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے لیکن ایسے تصوف اور صوفیہ سے ہمیں کیا لینا دینا ،ہم تو اس تصوف کی با ت کر رہے ہیں جس کی جڑیں اسلام کے ساتھ وابستہ ہیں ۔‘‘
’’پروفیسر اخترالواسع لکھتے ہیں :’’ایک سوال جو عام طور پر کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو آج صوفی نظر کیوں نہیں آتے ؟ لوگ بھول جاتے ہیں کہ صوفی اشتہار بازی میں یقین نہیں رکھتا ۔وہ شہرت کا نہیں گمنامی کا طلب گا ر ہوتا ہے ۔‘‘
مولانا قادری لکھتے ہیں :’’ان حالات میں لگتا ہے کہ تصوف اور صوفیہ کا دور ختم ہوگیا لیکن ہمیں ایسا قول کرنے میں عجلت نہیں کرنی چاہئے ،کیوں کہ تصوف ہمارے آقا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کا نقطۂ آغاز بھی ہے اور منتہائے کار بھی ۔‘‘ اس کے علاوہ مولانا قادری کو یہ اعتراف بھی ہے کہ :’’بہر کیف ،کیا ہوا ؟اور تصوف کی قدریں کہاں چلی گئیں ؟ ہمیں افسوس ہے کہ اس کا جواب ہمارے پاس نہیں ۔‘‘مولانا موصوف کا یہ جملہ بہت دلچسپ ہے :گویا ہر عمل میں کرامت کاکوئی نہ کوئی پہلو اس طرح نکال لیا جاتا ہے جیسے سعودیہ عربیہ میں چاند۔‘‘
’شناسائی ‘ کا کالم خاکستر میں چنگاری کی تلاش ہے ۔اتر پردیش کے ضلع اناؤ کا قدیم ترین قصبہ صفی پور کی خانقاہ صوفیہ کے سجادہ اعزاز محمد فاروقی عرف شمو میاں سے خصوصی گفتگو اور اسی خانقاہ کی تاریخ و کارناموں کو پیش کرتا ہوا مجیب الرحمن علیمی کا مضمون تفصیلی اور معلوماتی ہے ۔مجلہ ’الاحسان ‘نکالنے والے قابل مبارکباد ہیں جنہوں نے سنجیدگی و خلوص کا اس قدر مظاہرہ کیا ہے اور ’خذ ما صفا و دع ما کدر‘کو اپنا کر اپنے اسلاف کو یاد رکھنے اور صوفی اسلام کے احیا کے لئے کوشاں ہیں ۔علیمی صاحب کا مضمون بشمول تعلیقات و کتابیات تقریبا ۳۲ صٖفحات پر پھیلا ہوا ہے۔قلم سنجیدہ اور متوازن ہے ۔
مضمون کے حوالے سے تین باتوں کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں ۔اول یہ کہ خانقاہ صوفیہ وہ چشمہ ہے جس کا پانی بریلی ،بدایوں اور مارہرہ تک پہنچتا ہے ۔دوم یہ کہ تصنیف وتالیف کا عمل انسان کو تاریخ میں بلند مقام عطا کرتا ہے ۔’منبع سنابل شریف ‘کے مصنف میر سید عبدالواحد بلگرامی حضرت مخدوم شاہ صفی پوری قدس سرہ کے مرید ہیں اور علمی خدمات کی وجہ سے اپنے پیر سے زیادہ مشہور ہیں ۔سوم یہ کہ مخدوم شاہ صفی پوری قدس سرہ کی تعلیم وتربیت اور اجازت وخلافت کے ضمن میں جن بزرگوں کا نام آتا ہے ان میں شیخ سعد بن بڈھن ،شاہ مینا ،مخدوم شیخ سارنگ ،مخدوم یوسف ایرچی ہیں ۔ہندوستان میں صوفیا ء نے رنگ و نسل کا امتیاز مٹاکر جس گنگا جمنی تہذیب کی بنیا د ڈالی تھی اس کا اثر ان کے ناموں پر بھی دکھائی دیتا ہے ۔
’صوفی ادب ‘ کے کالم میں صرف ایک ہی تحریر ہے ۔ ڈاکٹر حسنین اختر کی ’عربی کی صوفیانہ شاعری ‘۔اس کالم میں اردو کے شاعروں اور فکشن نگاروں کی تحریریں بھی پیش کی جاتیں تو تشنگی کا احساس نہیں ہوتا ۔
’زاویہ ‘کے کالم میں ذیشان مصباحی کا مضمون ’امام غزالی کا فکری نظام المنتقد من الضلال کی روشنی‘ دعوت غور و فکرہی نہیں دیتا دعوت عمل بھی دیتا ہے ۔المنتقد من الضلال ایک قسم کی خود نوشت ہے ،جس میں’’ امام غزالی نے اپنی سپاٹ سر گزشت کے ساتھ بیچ بیچ میں اپنی پختہ فکر اور زاویہء نگاہ کا تذکرہ بھی کردیا ہے اور کہیں کہیں ایک ایک جملے میں سچ مچ سمندر کو کوزے میں بھر دیا ہے ‘‘ مضمون میں ’المنتقد من الضلال سے انہی بکھرے موتیوں کو چننے اور ان سے غزالی کے نظام فکر کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔مضمون کے مطالعے کے بعد یقینا’’قارئین محسوس کریں گے کہ غزالی کے ان خیالات کی معنویت موجودہ حالات میں کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔‘‘
دوسرا مضمون مولانا منظرالاسلام ازہری کا ہے ’امام غزالی اور اصول فقہ‘جس میں مولانا ازہری نے امام غزالی کی ’اصولی حیثیت ‘ اور اصول فقہ میں ان کی اجتہادی شان کی جھلکیاں پیش کی ہیں ۔مضمون چونکہ علمی ہے اس لئے زبان بھی عالمانہ ہے ۔ڈاکٹر حمید نسیم رفیع آبادی کا مضمون ’امام غزالی اور شاہ رفیع اللہ دہلوی :تناظر و تقابل ‘اس کالم کا تیسرا مضمون ہے ۔مضمون کا عنوان جتنا عمدہ ہے ،دوران مطالعہ اس کا احساس نہیں ہوتا ۔یہ ایک طویل مضمون ہے اور یہ طے کرنامشکل ہوجاتا ہے کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے ۔مثلا سر سید احمد کا ذکر دو جگہ آیا ہے لیکن اس کا مقصد کیا ہے میر ا ذہن وہاں تک نہیں پہنچ سکا ۔حالاں کہ مجلے کے مدیر حسن چشتی کی رائے یہ ہے:’’خصوصا ڈاکٹر حمید نسیم رفیع آبادی کی تحریر جو امام غزالی اور شاہ ولی اللہ میں تقابل و تناظر کے حوالے سے ہے ،بہت ہی فکر انگیز ہے ۔‘‘ 
اس کالم کا آخری مضمون ’امام غزالی کی طرف غلط منسوب شدہ کتب رسائل ‘ہے،جس کے مولف ڈاکٹر مشہد العلاف اور مترجم مولانا اظہار احمد مصباحی ہیں ۔۹ کتب و رسائل کی تعداد پیش کی گئی ہے جو غزالی کی طرف غلط منسوب ہیں اور اس کے اسباب پر مفصل گفتگو کی گئی ہے ۔تحریر و ترجمہ دونوں عمدہ ہے ۔’پیمانہ کے کالم میں تین کتابوں پر تبصرہ ہے ۔پروفیسر اختر الواسع کی’ روشنی کا سفر‘جے اسپنسر کی ’الفرق الصوفیہ فی الاسلام ‘ اور مارٹن لنگس کی 'What is Sufism' ۔مکتوبات کے کالم میں پندرہ خطوط ہیں ۔
اس طرح کل ۴۰۸ صفحات پر پھیلا ہوا یہ مجلہ مجموعی اعتبار سے ’’تصوف پر علمی ،تحقیقی و دعوتی مجلہ‘‘ ہے ۔ مرتبین مجلہ نے قلمی تعاون بھی پیش کیا ہے ۔مجلے کا انتساب امام غزالی کی طرف ہے ۔لفظ ’متصوفین ‘دو مضامین میں دو الگ الگ معنوں میں مستعمل ہوا ہے ۔مولانا فیضان المصطفی قادری نے منفی معنی میں جب کہ ڈاکٹر حسنین اختر نے مثبت معنی میں استعمال کیا ہے ۔’صوفیہ ء کرام ‘کے رسم الخط پر نظر ٹھہر جاتی ہے ۔کہیں کہیں بلا ہمزہ ہی کمپوز ہوگیا ہے ۔’احسان ‘ کے حوالے سے متعدد قلم کاروں نے گفتگو کی ہے تو ایسا کیوں نہ ہو کہ تصوف کو تصوف کی بجائے ’احسان‘ ہی کہا جائے ؟۔


(ماہنامہ ماہ نور دہلی دسمبر ۲۰۱۰ میں شائع شدہ)

Friday, 6 September 2013

تبصرہ نام کتاب: اقبال کی نظموں کا تجزیاتی مطالعہ

نام کتاب: اقبال کی نظموں کا تجزیاتی مطالعہ
مصنف:ڈ اکٹر فخرالاسلام اعظمی
ناشر: شبلی نیشنل کالج
صفحات: ۱۶۰
قیمت: ۵۰ روپے

اردو نظم نگاری میں اقبال کا مرتبہ کس قدر اعلی ہے ،یہ بتانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔اقبال اور ان کی شاعری پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔زیر تبصرہ کتاب،جو ڈاکٹر فخرالاسلام اعظمی کی تصنیف شدہ ہے ،بھی اقبال کی نظموں سے متعلق ہے۔ ڈاکٹر فخرالاسلام کا تعلق شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ سے ہے ۔انہوں نے طلبہ کی ضرورتوں کے تحت کتابیں تصنیف کی ہیں ۔’’شعور فن‘‘ کے نام سے ان کی ایک تصنیف طلبا میں کافی مشہور رہی ہے،جو نیٹ ۔جے،۔آر۔ ایف۔ کی تیاری کرنے والے طلبا کو مد نظر رکھ کر لکھی گئی تھی ۔اس کتاب کی تصنیف میں ڈاکٹر الیاس اعظمی بھی ان کے شریک کار رہے ہیں ۔مگر زیر نظر کتاب بلا شرکت غیرے ہے ۔دونوں کتابوں کا پیش لفظ بھی دوسطروں کے اضافے کے ساتھ ایک ہی ہے ۔اسی پیش لفظ سے کتاب کی تصنیف کے مقاصد پر روشنی بھی پڑتی ہے ۔ذیل میں ہم چند سطریں نقل کر ہے ہیں :
’’اس کتاب میں شامل تمام مضامین طلبا کی درسی ضروریات کے پیش نظر لکھے گئے ہیں ،ہو سکتا ہے کہ بعض مضامین میں تشنگی محسوس ہو،لیکن ایسے مضامین میں مضمون نگار کو اپنی مخصوص سطح کے ساتھ ساتھ طلبا کی ذہنی سطح کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے ‘‘
۱۶۰ صفحے کی اس کتاب میں اقبال کی تمام نظموں کا تجزیاتی مطالعہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان کی دس طویل و مختصر نظموں کا ہی تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے ۔جو اس طرح ہیں ۔خضر راہ،فرشتوں کا گیت ،فرمان خدا ،لینن خدا کے حضور میں ،جبریل وابلیس ،ذوق و شوق،ساقی نامہ،مسجد قرطبہ ،شعاع امید ،ابلیس کی مجلس شوری اور نیا شوالہ ۔ تجزیاتی مطالعے کے ساتھ ساتھ نظموں کی تشریح بھی دی گئی ہے اور مصنف کے بقول’’تشریح کے سلسلے میں پروفیسر سلیم چشتی کی شرح کلیات اقبال سے خاطر خواہ استفادہ کیا گیا ہے ۔‘‘
اس طرح کتاب کے تین حصے ہیں ۔ پہلے حصے میں صرف نظموں کے متون دیے گئے ہیں ۔دوسرے حصے میں تجزیاتی مطالعہ اور تیسرے حصے میں تشریح۔تشریح میں مشکل الفاظ کی تشریح بھی کی گئی ہے کتاب کی یہ ترتیب (اگر طلبا کی درسی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے رکھی گئی ہے تو) مناسب نہیں ہے ۔مناسب ترتیب یہ ہوتی کہ ایک نظم کا متن ،اس کے مشکل الفاظ کی تشریح اور پھر تشریح اور اس کے بعد تجزیاتی مطالعہ۔پھر ایک نظم کا متن اور اسی ترتیب سے تشریح و تجزیہ ۔ کتاب کا ٹائٹل پیج عمدہ ہے اور طباعت بھی مناسب ہے ۔
ڈاکٹر فخرالاسلام کا قلم الفاظ کو سجانے میں مہارت رکھتا ہے ۔تجزیاتی مطالعے میں خوب صورت جملوں اور فقروں کا استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ موصوف اچھے نثر نگار ہیں ۔ساتھ ہی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے کلیم الدین احمد اور نورالحسن نقوی جیسے نقادوں کے اقتباسات بھی درج کیے گیے ہیں ۔نظم کے فکری اور فنی ،دونوں پہلووں کا تجزیہ کیا گیا ہے ۔مگر فکری پہلو پر زیادہ زور ہے ۔مجموعی طور پہ کتاب طلبا کے لئے مفید ہے

طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۲۵