شمیم طارق{صحافی ، شاعر اور ادیب} آج کل جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ٹیگور ریسرچ اسکیم کے وزیٹنگ فیلو کے طور پر تشریف لائے ہوئے ہیں ۔اس موقع پرجب مجھے ان کی موجودگی کا علم ہوا تو میں نے اپنے کلاس ساتھیوں کے ساتھ ان سے ایک رسمی ملاقات کا پروگرام بنایا مگر ہمیں رسمی ملاقات کی اجازت تو نہیں ملی ہاں غیر رسمی ملاقات کی اجازت مل گئی۔۔۔۔۔ہم نے ۱۵ اپریل ۲۰۱۳ کو ان سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کے سیمینار ہال {دوسری منزل } میں ایک غیر رسمی ملاقات کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شمیم طارق صاحب ایک دردمند اورمعروضی صحافی ہیں ان سے ہماری غائبانہ ملاقات انقلاب اخبار کے توسط سے ہر جمعے کو ہوجاتی تھی لیکن یہ بالمشافہ ملاقات تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تقریبا ایک گھنٹے تک ہماری گفتگو ہوئی۔۔میں نے میرے ہم جماعت عبد الرحمان اور طاہر محمود ڈار نے ان سے مختلف موضوعات پر سوالات کئے۔طاہر محمود دار چون کہ کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے انہوں نے کشمیر کے تعلق سے سوال پوچھا جس کا جواب وہ دے ہی رہے تھے کہ وقت پورا ہوگیااور ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آگے بڑھنے سے قبل اس بات کا زکر ضروری سمجھتا ہوں کہ کشمیریوں کی یہ شکایت مجھے درست معلوم ہوتی ہے کہ کشمیر کے تعلق اے شمالی ہندوستان کے صحافیوں کا موقف خوب واضح نہیں ہے اور وہ کشمیر کے تعلق سے کھل کر کچھ کہنے سے احتراز کرتے ہیں ۔ بہر حال ہم نے جو سوالات کئے وہ سیاسی ،سماجی اور اردو زبان و ادب کے تعلق سے تھے۔اور ان سب کا جواب شمیم صاحب نے بہت واضح اور تفصیل سے دینے کی کوشش کی ۔وہ ہندوستان میں گنگا جمنی تہذہب کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں اس کے لئے وہ مسلمانوں سے بھی سمجھ بوجھ اور اور غیر جذباتی نقطہ نظر اپنانے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بھی کچھ عناصر اسے ہیں جن کی وجہ سے ہندوستان میں گنگا جمنی تہذیب کو خطرہ لاحق ہے وہ مانتے ہیں کہ ایشیا میں تشدد اور دہشت گردی کا ذمہ دار امریکہ اور اس کے حواری ہیں ۔انہوں نے مسلمانوں کو بہتر تعلیم حاصل کرنے اور خود کو منوانے پر زور دیا ۔ ان کا ایک شعر ہے ''تنقید ہی کوری ہے کہ تخلیق عجب ہے ،ہم عصر ادب جو بھی ہے تشریح طلب ہے '' اس تعلق سے موجودہ ادبی منطرنامے پر میرے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کی جدیدیت اور مابعد جدیدیت جیسی اصطلاح ادب میں تعقید کا سبب ہیں۔ انہوں نے ادب می عام انسانی دکھوں اور فطرت کو شامل کرنے پر زور دیا ۔اور اردو زبان کو روزگار سے جوڑنے اور ابتدائ مدارس{پرائمری اسکولوں } میں اردو کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھانے کی تجویز رکھی ۔ انہوں نے کہا کہ شمالی ہند کے مقابلے مہاراشٹر میں اردو کی حالت اس لئے بہتر ہے کیوں کہ ویا اس طرح کا نظم ہے ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ یوپی میں اعظم خان کو یونیورسٹی قائم کرتے وقت یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اس سے عام مسلمانوں کو اور اردو کو کیا فائدہ ہوگا ۔اس سے بہتر ہوتا کہ وہ پورے یوپی میں اردو میڈیم اسکول قائم کرتے ۔انہوں نے اردو اکیڈمیوں اور قومی کونسل لی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اردو کے کے لئے عوامی سطح پر اقدام کیا جان چاہئے۔انہوں نے گھروں میں خواتین کو اردو لکھنے ،پڑھنے اور بولنے کی صلاح دی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شمیم صاحب کے کالم کی خصوصیات یہ ہیں کہ وہ بہت چنندہ موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں اور عنوانات بہت مختصر رکھتے ہیں ،معروضی گفتگو کرتے ہیں اور زبان کے استعمال میں سادگی برتتے ہیں تاکہ مافی الضمیر کی ادائے گی بہتر انداز میں ہو اور ترسیل ہو سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذیل میں ان کی ایک غزل پیش ہے غزلتنقید ہی کوری ہے کہ تخلیق عجب ہے ہم عصر ادب جو بھی ہے تشریح طلب ہے لفظوں کا تقدس ہے نہ رشتوں کا ادب ہے شاید کہ نئ نسل ہی بے نام و نسب ہےکانٹوں میں گلابو کی طرح وقت جو گذراچہرے کی خراشوں میں بھی سلوب طرب ہے میرث میں کم ظرف کو ہاتھ آیا جو خرقہ کم بخت سمجھتا ہے کہ وہ عالی نسب ہے کیا جنبش لب پر بھی نہیں رہ گیا قابوکیوں جہد مسلسل میں بھی وہ مہر بلب ہےملحوظ رکھو فرق مراتب میاں طارق کہ فرق مراتب ہی سعادت کا سبب ہےشمیم طارق