Sunday, 1 December 2013

تبصرہ:جدید اردو مثنوی فن اور فکری ابعاد

جدید اردو مثنوی فن اور فکری ابعاد
مصنف :ظفرانصاری ظفر
صفحات:۵۰۷،قیمت:۲۰۵روپے،سنہ اشاعت:۲۰۱۳
ناشر:کتابی دنیا،دہلی
مبصر:طیب فرقانی،ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی
ظفرانصاری ظفر کی حالیہ منظر عام پرآئی کتاب ’جدید اردو مثنوی ۔فن اور فکری ابعاد‘قومی کونسل کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔مصنف نے اس کتاب میں ۱۸۷۴ء سے ۲۰۰۲ ء تک کے عرصے میں لکھی گئی مثنویوں کا فنی اور فکری جائزہ لیا ہے ۔
۵۰۷ صفحات کی اس ضخیم کتاب کے نام میں ہی صرف جدید کا لفظ نہیں ہے بلکہ کتاب بھی جدید ہے اور موضوع بھی جدید ہے۔کل پانچ ابواب پر مشتمل کتاب کے آخری دو ابواب میں مصنف نے ،جیسا کہ کتاب کے نام سے واضح ہوتا ہے ،جدید اردو مثنوی کے فنی اور فکری ابعاد کا خوب صورت اسلوب و انداز میں ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔
جدید مثنوی سے مراد ایسی مثنویاں ہیں جو ۱۸۵۷ کے انقلاب کے بعد کے زمانے میں لکھی گئیں ۔اس سلسلے میں جن مثنوی نگاروں کا ذکر آیا ہے وہ ہیں حالی ،آزاد ،شبلی،اسمٰعیل میرٹھی،نظم طباطبائی،شادعظیم آبادی،علامہ اقبال،حفیظ جالندھری،جمیل مظہری،سردار جعفری،کیفی اعظمی،جاں نثار اختر،اختر انصاری ،عبدالمجید شمس،علامہ سریر کابری اور اسلم بدر۔ ان کے علاوہ ذکی احمد ،قمر واحدی،ابرار کرت پوری،جوش ملیح آبادی،شیخ احمد علی اور مرزا ہادی رسوا کاذکر بھی آیا ہے۔ مصنف نے عامر عثمانی کی مثنوی ’شاہنامہ اسلام جدید ‘ کا بھی ذکر کیا ہے جو ان کو دستیاب نہ ہوسکی ۔ان میں وہ مثنوی نگار بھی ہیں جن کو ہم مثنوی نگار کی حیثیت سے کم ہی جانتے ہیں جیسے مرزا ہادی رسوا۔لیکن پورے مطالعے میں حالی ،آزاد اور شبلی کو محوری حیثیت حاصل ہے۔
کتاب کا پہلا باب ’مثنوی :بحیثیت فن ‘ اس لحاظ سے اہم ہے کہ مصنف نے اس میں مثنوی کی تعریف تو کی ہے ساتھ ہی مثنوی عمومًاجن سات بحروں میں لکھی گئی ہے ان کی تقطیع مع مثال پیش کی ہے اور یہ مانا ہے کہ مثنوی کے لئے صرف سات یا نو بحریں ہی خاص نہیں ہیں بلکہ اس میں اجتہاد و انحراف کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔مصنف نے اس پہلے باب میں مثنوی کی صنفی حیثیت کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے اور شمیم احمد کے اس خیال سے اختلاف کیا ہے کہ’’جدید شاعری کے فروغ کے بعد جو مثنویاں مثلًا حالی،شبلی،آزاد،اقبال،سردار جعفری،جاں نثار اختر وغیرہ نے لکھی ہے،صحیح معنوں میں ان کی صنف مثنوی نہیں ہے بلکہ مثنوی کی ہیئت میں وہ مختلف موضوعات پر مبنی نظمیں ہیں ۔‘‘ مصنف نے کتاب کے آخری باب میں لکھا ہے کہ حالی اور شبلی بنیادی طور سے نقاد ہیں اور جب خود انھوں نے اپنی مثنویوں کو مثنوی کہا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں نظم کہنے والے؟
کتاب کا دوسرا باب ’اردو میں مثنوی کی روایت‘اور تیسرا باب ’اردو ادب کا دور جدید ‘ہے۔ یہ دونوں ابواب طوالت ،بساطت اور تفصیل کے اوصاف سے پیراستہ ہیں اور مصنف کے وسیع مطالعے اور عرق ریزی کا پتہ دیتے ہیں لیکن یہ دونوں ابواب غیر متوازن ہیں ۔مثال کے طور پر مثنوی کا سنہ تصنیف اور مثنوی نگاروں کا سنہ ولادت و وفات دینے میں کسی خاص قاعدے کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔سید اشرف جیسا مثنوی نگار جس کا ذکر شمالی ہند اور دکن کے بیشتر تذکروں میں ملتا ہے،کی ولادت ووفات کی تاریخ مصنف نے نہیں لکھی ہے اور یہ بھی نہیں بتایا کہ تاریخ پردۂ خفا میں ہے۔ جب کی اس کی مثنوی کا سنہ تصنیف درج ہے۔
اسی طرح تیسرے باب میں پرارتھنا سماج جیسی کم معروف اصلاحی تحریک کا ذکر تو آیا ہے لیکن جماعت اسلامی تحریک کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو وہابی تحریک کا بانی بتایا گیا ہے جس سے اختلاف کی گنجائش ہے۔ کمپوزنگ کی غلطیاں بھی انھیں دو ابوا ب میں زیادہ ہیں ۔تصدق حسین شوق لکھنوی کی عرفیت نواب مرزا کے بجائے نواز مرزا کمپوز ہوگیا ہے۔اسی طرح ان کی مثنوی بہار عشق کا سنہ تصنیف ۱۲۶۶ھ مطابق ۱۸۴۹ ء اور مثنوی زہرشوق کاسنہ تصنیف۱۲۶۹ھ مطابق۱۸۷۲ء درج ہے۔ان میں یا تو ۱۸۷۲ ء غلط ہے یا ۱۸۴۹ء۔بتنگڑ بتنگر اور بارات برات کمپوز ہوا ہے۔

(ماہنامہ اردو دنیا ،دہلی دسمبر ۲۰۱۳ میں شائع شدہ )