Friday, 19 April 2013

مشاعرہ جشن بہار{۱۲ اپریل ۲۰۱۳ }



مشاعرہ جشن بہار{۱۲ اپریل ۲۰۱۳ } 






یہ مشاعرہ دہلی کی گنگا جمنی تہذیب کا نمائندہ مشاعرہ ہے جو پچھلے پندرہ سالوں سے بلا ناغہ منعقد کیا جاتا ہے ۔متھرا روڈ پر واقع دہلی پبلک اسکول جو کہ ایک انگلش میڈیم اسکول ہے ،کے وسیع و خوب صورت لان میں اس کا انعقاد ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہوتا ہے ۔کامنا پرساد اس کی کنوینر ہیں اور وہ شاعروں اور شاعرات کا خوب صورت انتخاب کرتی ہیں ۔خود کئی ایک کتابوں کی مصنفہ ہیں اور ہندوستان کی قدیم گنگا جمنی تہذیب کی دلدادہ ہیں ۔اس سال میں بھی اس مشاعرے میں شریک ہوا۔اس سلسلے میں صرف اتنا کہنا کافی سمجھتا ہوں کہ اس سے بہتر مشاعرہ میں نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا نہ سنا ۔یہ بین الاقوامی مشاعرہ تھا ۔وہ لوگ جو بھارت یا پاکستان کے ہیں اور یورپی ممالک میں رہتے ہیں انہیں ہم اپنے یہاں مشاعروں اور دوسرے پروگراموں میں مدعو کرتے ہیں اور اسے بڑے فخر کی بات سمجھتے ہیں کہ ہم نے بین الاقوامی پروگرام کرایا ۔لیکن اس مشاعرے میں کم سے کم تین ایسے شاعر تھے جو بیرونی ممالک سے آئے تھے اور وہ ہندوستانی یا پاکستانی نہیں تھے۔اس میں امریکا سے آئے میکس بروس نادر{نادر تخلص}، سب سے زیادہ اہم تھے ،جنہوں نے اس طرح اپنی شاعری سنائی کہ یقین نہیں آتا تھا کہ ایک غیر ملکی خاص طور سے انگریزی بولنے والا شخص اس طرح اور اس لہجے میں شاعری کرے اور سنائے کہ ہندوستانی سن کر عش عش کرے ۔ایک اردو ادیب، پروفیسر ہیروجی کوٹاوکا، جاپان سے تھے انہوں نے شاعری تو نہں سنائی لیکن اپنی اردو میں لکھی ایک تحریر پڑھ کر سنائی۔ یہ صدارتی خطبہ تھا۔ان کو لہجے پر قدرت حاصل نہیں تھِی لیکن خیال بہت اچھا تھا کہ جاپانیوں کو یورپ کے بجائے ایشیا خاص طور سے اردو ادب سے استفادہ کرنا چاہئیے۔تیسری شخصیت تھی عمر سالم السدوس کی ۔یہ سعودی عرب سے تھے۔خالص عربی ۔انہوں نے اردو پر ایک خوبصرت نظم کہی۔اسی وجہ سے کپل سبل نے کہا ''ہندوستان سے جو اردو کی روشنی پھیلی ہے اس نے پوری دنیا میں اپنا جلوہ دکھایا ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو کسی مذہب کی زبان کا نام نہیں ، بلکہ تہذب کا نام ہے " انہون نے یہ بھی کہا کہ اردو زبان کی مٹھاس سے انکار نہیں کیا جاسکتا،لیکن اردو کے لئے صرف اتنا کہنا کافی نہیں ہے اردو کی ترقی تبھی ممکن ہے جب اس کو ٹکنالوجی اور روزگار سے وابستہ کیا جائے۔انہوں نے سہ لسانی فارمولے کے موقف کااعادہ کیا ۔اس موقع پر جسٹس کاٹجو بھی نہ صرف موجود رہے بلکہ انہوں نے اپنا دیرینہ مطالبہ دہرایا کہ غالب کو پس از مرگ بھارت رتن دیا جائے۔جسٹس کاٹجو ایک اردو داں شخصیت کا نام ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ادرو شاعری دنیا کی کسی بھی شاعری سے بہتر ہے اور وہ اپنے اس موقف کا اظہار برملا کرتے ہیں ۔وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ آج بھی اردو شاعری کو فیض اور مجاز جیسی شاعری کو آگے بڑھانا چاہئیے۔مشاعرے کی بانی کامنا پرساد نے کہا کہ اردو زبان کو پانچویں جماعت تک لازمی قرار دیا جائے۔اس مشاعرے کی ایک خاس بات یہ بھی تھی کہ اسٹیج کو جدید طرز سے تیار کیا گیا تھا اور لان کے چاروں طرف اردو اور ہندی رسم خط میں اردو کے معروف اشعارکپڑے کے بینروں پر لکھ کرلگائے گئے تھے۔مشاعرے کے اہتمام میں کافی رقم اور ذہن کا ستعمال ہوا تھا ۔منتخب سامعین تھے۔ اس سے میری مراد ہے سنجیدہ سامعین۔ سامعین کافی تعداد میں تھے۔اور تمام شاعرون کو بہتر انداز میں سنا گیا۔قریب بارہ بجے مشاعرہ ختم ہوگیا تھا ۔یہ جمعے کا دن تھا اور مشاعرہ شام سات بجے شروع ہوا تھا ۔مشاعرے کی ابتدا میں ایک ناخوشگوار واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک شخص بھگوا رنگ کا رومال گلے میں ڈالے اسٹیج پر آیا اور "پاکستانی شاعر واپس جاو" کے نعرے لگانے لگا ۔پاکستان سے مشہور شاعرات فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید آئی تھیں۔ فہمیدہ ریاض نے متاثر کیا ۔اس کے علاوہ پاکستانی نژاد امریکی شاعر فرحت شہزاد نے بھی اچھی شاعری پیش کی۔یہان ساری شخصیتوں کے نام نہیں گنوا سکتا صرف اتنا کہنا کافی ہوگا کہ دہلی کے تقریبا تمام چنندہ محبان اردو موجود تھے۔مشعرے کی نظامت منظور عثمانی نے اپنے مخصوص انداز میں کی۔ ایک اور قابل ذکر شاعر تھے مشہور فلمی گیت کار جاوید اختر۔انہوں نے شطرنج اور وقت کے موضوع پر اپنی مشہور نظمیں سنائیں۔طنز و مزاح کے صرف ایک شاعر کو دعوت دی گئی تھی اور وہ تھے پاپولر میرٹھی۔ پاپولر میرٹھی صاحب کی مزاحیہ نظم "چلو دل دار چلو چاند کے پار چلو" بڑی فرمائشوں سے سنی جاتی ہے۔ منتخب اشعار اور تصاویر ذیل میں ملاحظہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نئے آسماں کی تلاش میں یہ بچھڑ گئے ہیں زمین پر
یہ ہمارے بچوں کا درد ہے انہیں ہجرتوں نے تھکا دیا
{ڈاکٹر نصرت مہدی}

سارا بدن عجیب سی خوشبو سے بھر گیا 
شاید ترا خیال حدوں سے گزر گیا
{آلوک شریواستو}

ملالہ روشنی ویسے ہی کم ہے 
چراغ زندگی بجھنے نہ پائے
لہو سے تم نے لکھا حرف تازہ
کسی صورت یہ اب مٹنے نہ پائے
{حارث خلیق}

بھری محفل میں تنہائی بہت ہے 
کسی کی یاد پھر آئی بہت ہے 
ترے حصے میں ہر قطرہ ہے دریا 
مرے حصے میں پیاس آئی بہت ہے
{میکس بروس نادر}

سوچتے سب ہیں ضروری ہے بغاوت لیکن 
چاہتے یہ ہیں کہ آغاز کوئی اورکرے 
{عقیل نعمانی}

اے کاش پھر سے جوانی مری پلٹ آئے
اسے دکھاوں بڑھاپے نے کیا کمال کیا
{عمر سالم السدوس}

خاموش تم تھے اور میرے ہونٹ بھی تھے بند
پھر اتنی دیر کون تھا جو بولتا رہا
{شین کاف نظام}

بھول جاوں میں ساری دنیا کو
اتنی شدت سے یاد آیا کر
کیا ضروری ہے کچھ بہانا ہو
ہم سے ویسے بھی روٹھ جایا کر
{منظور عثمانی}

آنکھوں میں رکھ رہا ہوں بڑی احتیاط سے
یہ بھول کر کہ پھر یہی منظر ستائیں گے
{پروفیسر وسیم بریلوی}



تصاویر


اسٹیج پر بیٹحے شعراء اور اپنا کلام سناتے آلوک شریواستو{غالبا}


مشاعرہ گاہ میں سامعین  کے ساتھ میں میرے دوست سعید اور ریحان سعید

سامعین کا ایک منظر

امریکی شاعر میکس بروس نادر

کپل سبل

شین کاف نظام

کپل سبل


عربی شاعر عمر سالم السدوس

مزاحیہ شاعر پاپولر میرٹھی



پاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض

گیت کار جاوید اختر

اسٹیج کا ایک منظر

پاکستانی شاعرہ کشور ناہید

پروفیسر وسیم بریلوی

پروفیسر وسیم بریلوی