میڈیا ایک ذریعہ ہے رابطے کا۔آج کے جمہوری سماج میں اس کی اہمیت جمہوریت کے چوتھے ستون کے طور پر مسلم ہے۔میڈیا کسی خاص ادارے یا حکومت کے تحت ہوتی ہے جس کا کام غیر جانبداری کے ساتھ کسی خبر کو عوام و خواص تک پہنچاناہے ۔لیکن جب سے اس نے خود کو ایک بزنس کے طور پر متعارف کروایاہے تب سے کوئی بھی دولت مند شخص یا طبقہ اپنے نظریے کے تحت میڈیا کا غلط استعمال کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے۔یہیں سے ’’پیڈ نیوز‘‘ کی اصطلاح نے جنم لیاہے۔اور میڈیا نے خبر رسانی سے آگے بڑھ کر تجزیہ اورتبصرہ کرتے ہوئے ذہن سازی کی ڈگر اپنالی۔اور خبروں کو چھپانے اور بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا رجحان عام ہوا۔ہماری قومی الیکٹرانک میڈیا نے تو بہت سے معاملوں میں ٹرایل کورٹ کا رول بھی نبھایا ہے،جس پہ تنقیدیں ہوتی رہی ہیں ۔اس کے باوصف آج بھی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی اہمیت برقرار ہے ۔آج بھی اس سے استفادہ کیا جارہاہے اور کیاجاتا رہے گا جب تک کہ دنیا بھر میں اس کے خلاف کوئی بڑا انقلاب رونما نہ ہو۔
اس انقلاب کی پہلی سیڑھی کے طور پر سوشل میڈیا نے اپنا وجود منوایا ۔سوشل میڈیا میں ٹوئیٹر اور فیس بک کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔مارک زکر برگ نے فروری ۴۰۰۲ میں ہارورڈ یونیورسٹی میں اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ جب فیس بک کی بنیاد رکھی تھی تو اسے بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ آگے چل کر یہ کس قدر تہلکہ مچاسکتا ہے۔مارک نے یہ ویب سائٹ صرف ہارورڈ یونیورسٹی کے طلبا میں ربط وتعلق بنائے رکھنے کے لئے بنائی تھی ۔لیکن نو سال کی اس مختصر مدت میں فیس بک نے میڈیا کے ہر فارمیٹ کو متاثر کیاہے۔’’اباؤٹ ڈاٹ کام‘‘ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق ستمبر ۲۰۱۱ تک فیس بک کے فعال یوزرس کی تعداد ۷۵۰ملین تھی۔دنیا بھر میں ہر مذہب اور ہر طبقے کے لوگ نہ صرف اس کے شیدائی ہیں بلکہ بہت سے لوگ اسے نشے کی طرح استعمال کرتے ہیں ۔
ٹیکنالوجی نے انسان کو جتنے فوائد سے مالامال کیاہے اس سے انکار کی گنجائش نہیں ۔لیکن اس کے جانبی مضرات(سایڈ افیکٹ)سے بھی انکار نہیں کیا سکتا۔ہماری اس گفتگو میں فیس بک کو محوری حیثیت حاصل ہے۔فیس بک نے ہمیں ایک دوسرے کو جاننے اور ایک دوسرے سے بہ سرعت معلومات کے تبادلے میں بے حد آسانی فراہم کی ہے۔ہندوستان میں فیس بک یوزرس کی موجودہ صحیح تعداد ہمیں نہیں معلوم ،لیکن شہر وں سے دیہاتوں تک شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جس نے فیس بک کانام نہ سنا ہو۔نوجوانوں کے لئے اس میں خاص کشش ہے ۔ایسے میں فیس بک نے ادب اور اہل ادب کو بھی متاثر کیا ہے۔اردو ،ہندی اور ہندوستان کی دوسری زبانوں کے ادبا اور شعراکی بڑی جماعت فیس بک کا بہتر استعمال کررہی ہے۔بیرون ملک اردو ہندی کے ادبا اور شعرا سے ہم فیس بک کے ذریعے ہی متعارف ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ فیس بک ادبی تحقیق کے ایک نئے وسیلے کے طور پر ابھراہے۔لیکن کیا فیس بک پر پوسٹ کیاجانے والا ادب اپنے اندر وہی لطف،چاشنی اور صحت رکھتا ہے جو مطبوعہ کتب ورسائل اور اخبارات میں ملتی ہے ؟ اس سوال کا جوا ب تھوڑا مشکل ہے۔فیس بک کے ادب میں بہ نسبت مطبوعہ تخلیقات کے غلطیوں کا امکان زیادہ رہتاہے۔اس لئے کہ یہاں بسا اوقت بے احتیاطی راہ پاجاتی ہے۔یہاں کوئی ایڈیٹر نہیں ہوتاہے۔پھر یہ کہ فیس بک پر نہ مکمل کتاب پوسٹ کی جاسکتی ہے اور نہ ہی پڑھی جاسکتی ہے۔بعض دفعہ تو تمام پوسٹ کو دیکھ پانا بھی مشکل ہوتاہے۔اس کے باوجود ادب کے فروغ میں اس نے بڑا اہم رول اداکیا ہے۔
سوشل میڈیا ،خاص طور سے فیس بک کی بڑھتی اہمیت نے اہل سیاست کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔۲۰۱۴ میں ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات کے پیش نظر تو اس میں مزید تیزی آگئی ہے ۔اگلا وزیر اعظم کون ہوگا :مودی یا راہل؟اس طرح کے سینکڑوں پوسٹ ہماری نظر سے گذرتے ہیں ۔پھر اس پہ کمنٹ کا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔کوئی حمایت کرتا ہے اور کوئی مخالفت ۔لیکن جس بات کی طرف سے اہل دانش کو تشویش ہے وہ ہے کمنٹ کی زبان۔راہل یا مودی ،کانگریس یا بی جے پی کی حمایت و مخالفت میں جس طرح کی زبان استعمال کی جارہی ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھی یونیورسٹی ایسی کیوں نہیں ہے جو دنیا کی دو سو یونیورسٹیوں کی صف میں شامل کی جاسکے ۔خاص طور سے نیوز چینلوں کی خبری پوسٹ یا سوال پر جس طرح کی کمنٹ کی جارہی ہے اس کو پڑھنے کے بعد ایک مہذب آدمی شرم سے پانی پانی ہوجا تا ہے ۔اس قدر بے ہودہ مغلظات بکے جاتے ہیں کہ خداکی پناہ!مودی جی کے حمایتیوں نے تو گویا بے ہودہ زبان استعمال کرنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔پھر جواب اور جواب الجواب کا سلسلہ چلتا ہے ۔پھر ہندو مسلم مذاہب کی توہین کی جاتی ہے ۔جواب در جواب میں جس معقولیت اور معروضیت کا تقاضا کیا جاتا ہے فیس بک پر وہ ندارد ہے ۔دوستوں کی فہرست سے کسی بدتمیز کو تو ہٹایا جاسکتا ہے لیکن نیوز چینلوں کی پوسٹ سے کسی کمنٹ کو حذف کرنا عام آدمی کے بس میں نہیں ہے ۔اور نیوز چینل والے بے ہودہ زبان استعمال کی گئی کمنٹ کو اس وقت تک حذف نہیں کرتے جب تک اسکی شکایت نہ کی جائے۔شکایت کے بعد بھی اس کی ضمانت نہیں ہے کہ اسے حذف بھی کر دیا جائے گا ۔بے شمار فرضی ناموں سے بنائے گئے فیس بکی صفحوں کا بے دریغ غلط استعمال ہورہا ہے ۔جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے بھڑکاؤ پوسٹ کیے جارہے ہیں ۔انقلاب کے ایڈیٹر نارتھ جناب شکیل شمسی نے اس بات کی طرف پہلے بھی توجہ دلائی ہے۔ایسے میں نوجوانوں کو خاص طور سے ہشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔جذبات میں نہ آکر اور کسی بھی طرح کی بدتمیزی سے گریز کرتے ہوئے بھر پور معقولیت اور معروضیت سے ایسے ملک دشمن عناصر کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ورنہ فرقہ پرستی کی زہریلی سیا ست کرنے والوں نے ملک کو تباہ کرنے کا جو ایجنڈا بنا رکھا ہے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے ۔اس سلسلے میں فیس بک پر ’’مسلم برادر ہوڈ‘‘ نام کی کمیونٹی اگلے ماہ کی ۲۶ تاریخ کو فیس بک پرگندی زبان استعمال کرنے والوں کے خلاف ملک بھر میں پر امن مظاہرہ کرنے کا اہتمام کر رہی ہے ۔ایسے میں ہندوستانی نوجوانوں کو ملک میں امن و امان قائم رکھنے اور گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت کرتے ہوئے ہر زہریلی سیاست کا منہ توڑ جواب دینا ہوگا اور خود کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ نانک وچشتی کے عظیم ملک ہندوستان کے تعلیم یافتہ اور مہذب افراد ہیں ۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر ،شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی
اس انقلاب کی پہلی سیڑھی کے طور پر سوشل میڈیا نے اپنا وجود منوایا ۔سوشل میڈیا میں ٹوئیٹر اور فیس بک کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔مارک زکر برگ نے فروری ۴۰۰۲ میں ہارورڈ یونیورسٹی میں اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ جب فیس بک کی بنیاد رکھی تھی تو اسے بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ آگے چل کر یہ کس قدر تہلکہ مچاسکتا ہے۔مارک نے یہ ویب سائٹ صرف ہارورڈ یونیورسٹی کے طلبا میں ربط وتعلق بنائے رکھنے کے لئے بنائی تھی ۔لیکن نو سال کی اس مختصر مدت میں فیس بک نے میڈیا کے ہر فارمیٹ کو متاثر کیاہے۔’’اباؤٹ ڈاٹ کام‘‘ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق ستمبر ۲۰۱۱ تک فیس بک کے فعال یوزرس کی تعداد ۷۵۰ملین تھی۔دنیا بھر میں ہر مذہب اور ہر طبقے کے لوگ نہ صرف اس کے شیدائی ہیں بلکہ بہت سے لوگ اسے نشے کی طرح استعمال کرتے ہیں ۔
ٹیکنالوجی نے انسان کو جتنے فوائد سے مالامال کیاہے اس سے انکار کی گنجائش نہیں ۔لیکن اس کے جانبی مضرات(سایڈ افیکٹ)سے بھی انکار نہیں کیا سکتا۔ہماری اس گفتگو میں فیس بک کو محوری حیثیت حاصل ہے۔فیس بک نے ہمیں ایک دوسرے کو جاننے اور ایک دوسرے سے بہ سرعت معلومات کے تبادلے میں بے حد آسانی فراہم کی ہے۔ہندوستان میں فیس بک یوزرس کی موجودہ صحیح تعداد ہمیں نہیں معلوم ،لیکن شہر وں سے دیہاتوں تک شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جس نے فیس بک کانام نہ سنا ہو۔نوجوانوں کے لئے اس میں خاص کشش ہے ۔ایسے میں فیس بک نے ادب اور اہل ادب کو بھی متاثر کیا ہے۔اردو ،ہندی اور ہندوستان کی دوسری زبانوں کے ادبا اور شعراکی بڑی جماعت فیس بک کا بہتر استعمال کررہی ہے۔بیرون ملک اردو ہندی کے ادبا اور شعرا سے ہم فیس بک کے ذریعے ہی متعارف ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ فیس بک ادبی تحقیق کے ایک نئے وسیلے کے طور پر ابھراہے۔لیکن کیا فیس بک پر پوسٹ کیاجانے والا ادب اپنے اندر وہی لطف،چاشنی اور صحت رکھتا ہے جو مطبوعہ کتب ورسائل اور اخبارات میں ملتی ہے ؟ اس سوال کا جوا ب تھوڑا مشکل ہے۔فیس بک کے ادب میں بہ نسبت مطبوعہ تخلیقات کے غلطیوں کا امکان زیادہ رہتاہے۔اس لئے کہ یہاں بسا اوقت بے احتیاطی راہ پاجاتی ہے۔یہاں کوئی ایڈیٹر نہیں ہوتاہے۔پھر یہ کہ فیس بک پر نہ مکمل کتاب پوسٹ کی جاسکتی ہے اور نہ ہی پڑھی جاسکتی ہے۔بعض دفعہ تو تمام پوسٹ کو دیکھ پانا بھی مشکل ہوتاہے۔اس کے باوجود ادب کے فروغ میں اس نے بڑا اہم رول اداکیا ہے۔
سوشل میڈیا ،خاص طور سے فیس بک کی بڑھتی اہمیت نے اہل سیاست کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔۲۰۱۴ میں ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات کے پیش نظر تو اس میں مزید تیزی آگئی ہے ۔اگلا وزیر اعظم کون ہوگا :مودی یا راہل؟اس طرح کے سینکڑوں پوسٹ ہماری نظر سے گذرتے ہیں ۔پھر اس پہ کمنٹ کا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔کوئی حمایت کرتا ہے اور کوئی مخالفت ۔لیکن جس بات کی طرف سے اہل دانش کو تشویش ہے وہ ہے کمنٹ کی زبان۔راہل یا مودی ،کانگریس یا بی جے پی کی حمایت و مخالفت میں جس طرح کی زبان استعمال کی جارہی ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھی یونیورسٹی ایسی کیوں نہیں ہے جو دنیا کی دو سو یونیورسٹیوں کی صف میں شامل کی جاسکے ۔خاص طور سے نیوز چینلوں کی خبری پوسٹ یا سوال پر جس طرح کی کمنٹ کی جارہی ہے اس کو پڑھنے کے بعد ایک مہذب آدمی شرم سے پانی پانی ہوجا تا ہے ۔اس قدر بے ہودہ مغلظات بکے جاتے ہیں کہ خداکی پناہ!مودی جی کے حمایتیوں نے تو گویا بے ہودہ زبان استعمال کرنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔پھر جواب اور جواب الجواب کا سلسلہ چلتا ہے ۔پھر ہندو مسلم مذاہب کی توہین کی جاتی ہے ۔جواب در جواب میں جس معقولیت اور معروضیت کا تقاضا کیا جاتا ہے فیس بک پر وہ ندارد ہے ۔دوستوں کی فہرست سے کسی بدتمیز کو تو ہٹایا جاسکتا ہے لیکن نیوز چینلوں کی پوسٹ سے کسی کمنٹ کو حذف کرنا عام آدمی کے بس میں نہیں ہے ۔اور نیوز چینل والے بے ہودہ زبان استعمال کی گئی کمنٹ کو اس وقت تک حذف نہیں کرتے جب تک اسکی شکایت نہ کی جائے۔شکایت کے بعد بھی اس کی ضمانت نہیں ہے کہ اسے حذف بھی کر دیا جائے گا ۔بے شمار فرضی ناموں سے بنائے گئے فیس بکی صفحوں کا بے دریغ غلط استعمال ہورہا ہے ۔جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے بھڑکاؤ پوسٹ کیے جارہے ہیں ۔انقلاب کے ایڈیٹر نارتھ جناب شکیل شمسی نے اس بات کی طرف پہلے بھی توجہ دلائی ہے۔ایسے میں نوجوانوں کو خاص طور سے ہشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔جذبات میں نہ آکر اور کسی بھی طرح کی بدتمیزی سے گریز کرتے ہوئے بھر پور معقولیت اور معروضیت سے ایسے ملک دشمن عناصر کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ورنہ فرقہ پرستی کی زہریلی سیا ست کرنے والوں نے ملک کو تباہ کرنے کا جو ایجنڈا بنا رکھا ہے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے ۔اس سلسلے میں فیس بک پر ’’مسلم برادر ہوڈ‘‘ نام کی کمیونٹی اگلے ماہ کی ۲۶ تاریخ کو فیس بک پرگندی زبان استعمال کرنے والوں کے خلاف ملک بھر میں پر امن مظاہرہ کرنے کا اہتمام کر رہی ہے ۔ایسے میں ہندوستانی نوجوانوں کو ملک میں امن و امان قائم رکھنے اور گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت کرتے ہوئے ہر زہریلی سیاست کا منہ توڑ جواب دینا ہوگا اور خود کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ نانک وچشتی کے عظیم ملک ہندوستان کے تعلیم یافتہ اور مہذب افراد ہیں ۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر ،شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی
No comments:
Post a Comment
اچھے تبصرے کے لئے ہمیشہ شکر گزار