Tuesday, 10 September 2013

جامعہ میں بیچلر سطح پر دو سال اردو

مکرمی!
آپ کا با وقار روزنامہ "انقلاب " بڑی خوش اسلوبی سے صحافت اور اردو کی خدمت انجام دے رہا ہے۔ آپ کے اخبار سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہندوستان کی عظیم یونی ور سٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر نجیب جنگ صاحب نے جامعہ میں بیچلر سطح پر دو سال اردو مضمون کو لازم قرار دیا ہے۔یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ صرف مضمون کو لازم نہیں کیا گیا ہے بل کہ اس کے نمبرات ڈویژن میں شمار کئے جاءں گے۔ یہ بات تمام اہل اردو کے لیے باعث مسرت و شادمانی ہے۔اس لئے کہ اردو جب تک لازمی مضمون کے طور پہ نہ پڑھائی جائے، بھارت میں اردو کے فروغ کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔یو پی میں بھی تمام اسکولوں میں اردو کو لازمی مضمون بنانے کی کوششیں چل رہی ہیں ،خدا کرے بار آور ہو۔ہم تمام اہل اردو کی طرف سے جامعہ کے وائس چانسلر نجیب جنگ صاحب ،اکیڈمک کونسل اور شعبہء اردوشکریہ کے مستحق ہیں۔ہم انہیں مبارک باد پیش کرتے ہیں۔

طیب فرقانی
   c azeem dairy,batla house,jamia nagar,okhla new delhi 25 /327

دہلی ،دلی اور دلہی

مکرمی!
دہلی ،دلی اور دلہی کے عنوان سے جناب شکیل احمد صاحب کا مضمون (شا ئع شدہ ۲۷؍جنوری ۲۰۱۳)دہلی کی تہذیب وروایت پر روشنی ڈالنے والا مختصر مضمون ہے۔شکیل شمسی صاحب کی جادو بیانی سے ہر وہ شخص واقف ہے جو ان کے مستقل کالم’’موضوع گفتگو‘‘ کا مطالعہ کرتا ہے۔لیکن اس مضمون کے مطالعے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ مضمون بڑی جلد بازی میں قلم بند کیا گیا ہے۔ورنہ یہ ناممکن ہے کہ شکیل صاحب جیسے صحافی سے یہ بات پوشیدہ رہ جاتی کہ دہلی اور بہاری ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم کی طرح ہیں ۔شکیل صاحب نے اپنے مضمون میں جن چار تہذیبوں او ر اس کے اثرات کا ذکر کیا ہے ان میں بہار اور بہاریوں کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے ۔کہاجاتا ہے کہ دہلی کی دو چیزیں بہت مشہور ہیں ۔اور ان دونوں میں ایک نقطے کا فرق ہے۔وہ دو مشہور چیزیں ہیں ’’بہاری اور نہاری ‘‘۔پرانی دلی اور ذاکر نگر کی نہاری سے تو ہم جیسے نا رسا لوگ بھی واقف ہیں ۔اور بہار تو دہلی میں ہر جگہ نظر آتا ہے۔دہلی میں چھٹ پوجا بہار سے ہی آیا ہے۔یہاں تو کئی علاقوں میں بہاری محلے آباد ہیں اور ان کو بہاری محلہ ہی کہا جاتا ہے۔ایک رکشے والے سے چیف جسٹس آفتاب عالم تک عظیم آباد اور بہار سے آئے ہوئے لوگ پوری دہلی میں پھیلے ہوئے ہیں ۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی بہت سے لوگ ’’بہاری‘‘کو بہ نظر تحقیر ہی دیکھتے ہیں ۔یہاں میرا مقصود کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں ہے بلکہ شکیل صاحب کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرانا مقصود ہے کہ ایسے اہم موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جلد بازی سے کام نہ لیں ۔کیوں کہ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردوجامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۲۵       
                                                                      اخبار کا تراشہ

عام آدمی کو ہتھیار نہیں تعلیم وروزگار چاہیے۔

مکرمی!
ہم آئے دن الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں یہ خبریں پڑھتے سنتے رہتے ہیں کہ فلاں ملک نے فلاں میزائل کا تجربہ کیا اور فلاں نے فلاں کا۔۔۔۔میزائلوں اور بموں کے علاوہ دوسرے ہتھیار بھی ایک ملک دوسرے ملک سے خریدتے بیچتے رہتے ہیں۔اس کے سیاسی اور اقتصادی فوائد زیادہ اور عوامی فوائد کم سے کم ہیں۔عالمی سطح پر اگر ہم دیکھیں تو جی ایف پی( گلوبل فائر پاور) کی لسٹ میں امریکا،روس،چین،ہندوستان اور برطانیہ بالترتیب سر فہرست ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے استثنا کے ساتھ دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار ہیں۔
عالمی دفاعی خرچ کو دیکھیں تو کل ملا کر 1.7 ٹریلین ڈالر سالانہ خرچ ہوتا ہے یہ رپورٹ 2011 کی ہے، جب کہ 2010 میں یہ خرچ1.63 ٹریلین ڈالر تھا ۔اس کامطلب یہ ہے کہ ایک سال میں1.3 فی صد خرچ کا اضافہ ہوا ۔اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہتھیاڑوں کی دوڑ کس قدر تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
اس کا تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر یہ رقم دنیا کی 7 ارب آبادی پر برابر سے تقسیم کر دی جائے تو تقریبا 236 ڈالر فی کس کے حصے میں آئے گا ۔ہندوستانی روپیوں کے حساب سے یہ 13000 ہزار بنتے ہیں ۔ اب دنیا میں غربت کی سطح دیکھیں تو پوری دنیا میںیومیہ تقریبا25 ہزار افراد صرف بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔حیرت کی بات ہے کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کو یہ بات کیوں نہیں سوجھتی ۔جس طرح غذا ہر انسان کا بنیادی حق ہے اسی طرح تعلیم ایک بنیادی حق ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق ہرسال ہتھیاروں پر جتنی رقم خرچ کی جاتی ہے اگر اس کا ایک فیصد سے بھی کم دنیا کے تمام بچوں کی تعلیم پر خرچ کیا جائے تو سارے بچے اسکولوں میں ہوں گے ۔اور یقیناًیہ عمل انسانیت کے حق میں اور امن و سکون کے فروغ میں معاون ہوگا۔
نفسیاتی طور سے جائزہ لیں تو ہم پاتے ہیں کہ ہتھیا ر فی نفسہ جنگ پر ابھارتے ہیں ۔اگر آپ کے سامنے ہتھیاررکھا ہو توآپ اسے چھوئیں گے اور اسے چلانے کی لوشش کریں گے ۔یہ ایک نفسیاتی مرحلہ ہے ۔ملکوں کے پاس جب ہتھیار ہوتے ہیں تو وہ یا تو خود کسی ملک پر جنگ مسلط کر دیتے ہیں جیسا امریکا کرتا آرہا ہے یا پھر وہ دوسرے ممالک کو ہتھیار بیچ دیتے ہیں یا کمزورممالک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرکے ان کو ہتھیار خریدنے پر مجبور کر تے ہیں۔پچھلی کئی دہائیوں سے یہی ہو رہا ہے اور سرمایہ دار ممالک لوگوں کے خون سے اپنی جیبیں بھر رہے ہیں ۔اس تجزیے کو سامنے رکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ہتھیاروں کا فروغ اگر کسی کے حق میں مفید ہے وہ سرمایہ دار ہیں ۔عام آدمی کو ہتھیار نہیں تعلیم وروزگار چاہیے۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ 

۔گوتم بدھ کو مار دیا

مکرمی!
میانمار کے بودھسٹوں نے ایک بار پھر انسانیت کا لباس اتار پھینکا ہے۔اس سے پہلے بھی وہ ننگ انسانیت بن چکے ہیں ،مگر پیاس ہے کہ بجھتی نہیں۔انہیں خون کی پیاس ہے یا اس علاقے میں موجود تیل کی پیاس ہے؟تیل بیچ کر وہ انسانیت کا لباس خرید سکیں گے؟جب ایک بے گناہ انسان مرتا ہے تو ساری انسانیت مرجاتی ہے ۔گوتم بدھ کو یہ معلوم تھا،مگر ان کے ماننے والے برمی لوگوں کو یہ نہیں معلوم ہے۔یا شاید معلوم ہو ،مگر ان کی عقل پر پردہ پڑگیا ہو! آہ! انہوں نے اقلیت کا یہ حال کیا ہے ؟زندہ لوگوں کوجلادیا گیا ہے ۔لاشیں بے گوروکفن پڑی ہیں جنہیں خاک بھی میسر نہیں ۔ان کے مکانوں سے کوئی آواز بھی نہیں آتی ۔اب کبھی نہیں آئے گی۔ان کا قصور زندہ رہنا تھا۔انسان ہونا تھا۔یا پھر مسلمان ہونا ۔کوئی اپنے جانور کو بھی زندہ نہیں جلاتا۔انسان کو مارنے سے مذہب مرتا ہے یا انسان؟گوتم بدھ اس کا جواب نہیں دے سکتے ،وہ یہ سن بھی نہیں سکتے ،لیکن انہوں نے کہا ضرور تھا ۔۔۔اہنسا کی راہ چلنا۔۔۔ان کے ماننے والوں نے بھلا دیا ۔جاہلیت کا زمانہ ہے ،جہاں ہر چیز تعصب ،نفرت اور لالچ کے بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔اہنسا کے الف پران جاہلوں نے اپنی انا کی کالک پوت دی ۔میانمار میں لوگوں نے مسلمانوں کو مارا ؟انسان کو مارا؟۔نہیں نہیں انہوں نے اپنے ضمیر کو مار دیا ۔اپنے مذہب کو مار دیا ۔گوتم بدھ کو مار دیا ۔اپنے خدا کو مار دیا ۔