کتابی سلسلہ:الاحسان (شمارہ نمبر۱)
مدیر : حسن سعید چشتی
ترتیب : مجیب الرحمن علیمی،ذیشان احمد مصباحی،ضیاء الرحمن علیمی،رفعت رضا نوری
سال اشاعت: اپریل ۲۰۱۰
قیمت:۱۰۰ روپے
مبصر : طیب فرقانی،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی
’تصوف ‘ اور’ تشدد‘ موجودہ دور میں ایک دوسرے کے مقابلے میں ابھر رہے ہیں ۔اہل تصوف کی کوشش ہے کہ دنیا بھر میں اسلام کو رسوائی سے بچانے اور دشمنان اسلام کو اسلام سے قریب لانے کے لئے پھر سے احیائے تصوف کیا جائے۔اس کے لئے تصوف کو آلائشوں سے پاک کیا جائے اور اس کی خوبیوں کو اپنایا جائے ۔کتابی سلسلہ ’الاحسان‘ اسی کوشش کا نام ہے ۔شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ چشتی کی سر پرستی اور ملک و بیرون ملک کے سر بر آوردہ علماء ومشائخ کی مشاورت و معاونت میں یہ مجلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے ۔
مجلے کے مشمولات کو درج ذیل ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے :(۱) بادہ وساغر (۲) احوال (۳)بادۂ کہنہ ( ۴) تذکیر (۵) تحقیق و تنقید (۶) بحث و نظر (۷) شناسائی (۸) صوفی ادب ( ۹)زاویہ (۱۰) پیمانہ (۱۱) مکتوبات۔ ’بادہ و ساغر‘ کے کالم میں امام غزالی کا وہ قصیدہ بھی شامل ہے جو ان کی وفات کے بعد ان کے سرہانے ملا تھا ۔ اس کا ترجمہ ضیاء الرحمن علیمی نے کیا ہے جو ’زاویہ ‘ کے کالم میں شامل ہے ۔
’احوال ‘ کے تحت مدیر مجلہ حسن سعید چشتی کا ابتدائیہ اور ذیشان مصباحی احوال سے واقف کراتے ہیں ۔
’بادۂ کہنہ‘کے تحت پہلی تحریر شیخ شرف الدین احمد یحی منیری علیہ الرحمہ کی ہے ، جس کا ترجمہ شاہ نجم الدین احمد فردوسی نے کیا ہے ۔ یہ مکتوبات صدی کا مکتوب اول ہے جس میں توحید کے چار درجے اور ان کا فرق مثالوں سے سمجھایا گیا ہے ۔ ایک مثال اخروٹ کی ہے کہ ’’ اخروٹ میں دوقسم کے پوست اور ایک قسم کا مغز ہوتا ہے ،پھر مغز میں روغن ‘‘ ۔ منافقانہ توحید پہلی قسم کے پوست کی مانند ہے ۔عامیانہ اور متکلمانہ توحید دوسری قسم کے پوست کی طرح ہے عارفانہ توحید مغز کے درجے میں ہے اور موحدانہ توحید روغن کے درجے میں ۔ حلول اور تجلی کا فرق بھی سمجھایا گیا ہے جو ان ذہنوں کے لئے شفا ہے جو حلول و تجلی میں فرق نہیں کرتے اور تصوف کو ویدانت سے جوڑتے ہیں ۔
دوسری اور آخری تحریر شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمہ کی ہے ۔ عنوان ہے’ تصوف کی حقیقت و ماہیت ‘ یہ تحریر عوارف العوارف سے ماخوذ ہے اور اس کے ترجمہ و تلخیص نگار ذکی اللہ مصباحی ہیں ۔ متعدد صاحبان طریقت کے اقوال کی روشنی میں تصوف کی ماہیت بیان کی گئی ہے ۔ تصوف و فقر پر خاصی لمبی بحث ہے ۔ متعدد مقام پر تصوف و فقر کے درمیان فرق کو واضح کیا گیا ہے ۔
’تذکیر‘ کے کالم میں تین تحریریں ہیں۔اول شیخ ابوسعید چشتی کے افادات پر مشتمل ہے جس کوذیشان مصباحی نے ترتیب دیا ہے ۔دوسری مولانا عبد المبین نعمانی کی تحریر ’آفات لسان اور ان سے بچنے کی تدبیریں ‘آیات واحادیث سے مزین کافی وسیع و وقیع ہے ۔ اس کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تصوف اس کے سوا کچھ نہیں کہ قران و حدیث پر پوری طرح عمل کیا جائے ۔ ایک پیراگراف نقل کرنا فائدے سے خالی نہ ہوگا :’’آدمی اگر بظاہر مسلمان ہے تو اصل اس کا مسلمان ہونا ہے جب تک کہ صریح کفر سرزد نہ ہو،اس کو کافر نہیں کہہ سکتے ،یا کفر تو صریح ہو لیکن قائل کی طرف اس کا انتساب قطعی نہ ہو تو اس صورت میں بھی کافر کہنا صحیح نہیں ‘‘۔(ص۵۰)
تیسری تحریر جناب نیاز حسن کی ہے جو کبھی ہری نارائن سنگھ ہوا کرتے تھے ۔یہ ان کے قبول اسلام کی مختصر آپ بیتی ہے
’تحقیق وتنقید ‘ کے کالم میں پہلا مقالہ پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی کا ہے ۔’حقیقت تصوف: ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘ کے عنوان سے یہ مقالہ اسم با مسمیٰ ہے ۔ بشمول حواشی ۳۳ صفحات پر پھیلا ہوا یہ مقالہ تحقیق و تنقید کے باب میں نئی نسل کے لٗے مشعل راہ بھی ہے ۔مقالے کی ابتدا سلو موشن میں ہوتی ہے اور آہستہ وآہستہ عروج کے منازل طے کرتا ہے۔زبان وبیان اور انداز تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقالہ کئی بار میں تحریر ہوا ہے ۔مترادفات کی کثرت اور طویل جملوں کے استعمال سے کہیں کہیں ترسیل دشوار ہوجاتی ہے ۔ایک مثال دیکھئے:’’اس شخصی اعتدال کے ساتھ دین و شریعت ،معاشرہ میں بھی توازن وتوافق اور عدل انصاف اور اعتدال و میانہ روی پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘صاحب مقالہ کا خیا ل ہے کہ ’’حضرت شاہ ولی اللہ تو حکیم شریعت اور ماہر دینی کے ساتھ ساتھ تصوف وطریقت کے امام عالی مقام بھی تھے ۔لیکن امام ابن تیمیہ (م ۱۷۲۸ھ/۱۳۲۸ء)صرف شیخ الاسلام اور دین وشریعت کے امام تھے اور تصوف کے بعض امور کے ناقد بھی تھے ۔بایں ہمہ وہ تصوف کے منکر اور اس کی افادیت کے انکاری نہ تھے ۔وہ اکابر صوفیہ کو تسلیم کرتے تھے اور تصوف کے بہت سے نظریات ،افکاراور اعمال واشغال کے بھی قائل تھے ۔‘‘ مقالہ دلائل وحوالہ جات سے مزین ہے ۔ان کا ماننا ہے کہ طریقت ،شریعت کا ایک حصہ ہے اور صوفیہ کی تعلیمات ہدایت کے چراغ ہیں لیکن ان سے اسلامی نظام برپا نہیں کیا جاسکتا۔
دوسرا مضمون مولانا سید محمد اشتیاق عالم شہبازی کا ہے ۔آپ نے ’صوفیہ کرام کے احوال ومقامات ‘ جیسے صبر، زہد،فقر،توکل اور رضا وغیرہ پر صوفیا اور علما کے افادات وارشادات کی روشنی میں ایک قابل مطالعہ مضمون سپرد قلم کیا ہے ۔پروفیسر مسعود انور علوی کا مضمون ’عصر حاضر میں تصوف اور خانقاہ کی ضرورت‘ایک عجلت میں لکھا گیا مضمون ہے ۔حوالوں سے عاری۔پروفیسر موصوف بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو غار حرا کو پہلی خانقاہ مانتے ہیں اور قران و حدیث کے ہر واقعے کو تصوف ثابت کرنے پر مصر ہیں۔آج کل یہ ٹرینڈ ہوگیا ہے کہ روحانیت پر گفتگو کرتے ہوئے سائنس و ٹیکنالوجی پر سارا نزلہ گرادیا جاتا ہے اور پوری دنیا کو امن وامان سے خالی ،بد عمل اور کفرستان ثابت کیا جاتا ہے ۔پروفیسر موصوف بھی اس سے باز نہیں رہ سکے اور طریق نبوت اور طریق ولایت کو گڈ مڈ کرتے ہوئے نظر آئے ۔وفی انفسکم افلا تبصرون کا نیا ترجمہ (وہ تمہارے نفوس میں ہے کیا تم دیکھتے نہیں ) دیکھنے کو ملا۔
مولانا امام الدین سعیدی کا مضمون ’مشائخ کے شطحیات و ہفوات :ایک علمی و تحقیقی جائزہ‘ نہایت وقیع ہے ۔شطحیات و ہفوات کیا ہیں ؟ خود مضمون نگار کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں :’’(صوفیائے کرام سے ) غلبۂ حال میں جو اقوال بظاہر مخالف شرع صادر ہوں انہیں شطحیات کہتے ہیں اور جو افعال و حرکات مخالف شرع صادر ہوں انہیں ہفوات کہتے ہیں ۔کلمات شطحیات کی مثال حضرت منصور حلاج کا ’انا الحق‘ کہنا ،ہفوات کی مثال شیخ شبلی قدس سرہ کا بیٹے کی وفات پر داڑھی حلق کرلینا اور درہم و دینار کو دریا میں ڈال دینا وغیرہ ۔‘‘(ص۱۲۰)
مولانا مظہر حسین علیمی نے ’ضرورت شیخ اور اس کے حقوق و آداب ‘ پر روشنی ڈالی ہے جو تحریر سے زیادہ تقریر کے قریب ہے ۔اسی کالم میں ضیاء الرحمن علیمی کا مضمون ’علامہ ابن جوزی :ناقد تصوف یا محدث صوفی ؟‘دعوت غور فکر اوروعوت مطالہ دیتا ہے ۔پوری تحریر دلائل وامثال سے مزین ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو لوگ نقد تصوف میں ابن جوزی کے مقلد محض ہیں وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔ابن جوزی تصوف کو بالکلیہ رد نہیں کرتے بلکہ وہ تصوف کو آلائش سے پاک کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ مخالف تصوف نہیں بلکہ خود ایک بڑے صوفی ہیں ۔علیمی صاحب کا یہ مضمون رواں دواں اور ادبی اسلوب لئے ہوئے ہے ۔(چند مقامات ، جہاں عربی اسلوب در آیا ہے ، مستثنیٰ ہیں )بعض پیراگراف کافی طویل ہوگئے ہیں ۔
’حضرت شفیق بلخی :حیات وافکار ‘بھی عمدہ مقالہ ہے ۔ڈاکٹر مشتاق احمد تجاروی نے حضرت شفیق بلخی علیہ الرحمہ کی حیات پر واقعات کے توسط سے روشنی ڈالی ہے ۔اس طرح ان کے افکار و توکل ،زہدوطریقہء زہد،عبادت اور معرفت و غیرہ کو بخوبی پیش کیا ہے ۔موصوف نے ذکر کیا ہے کہ حضرت شفیق بلخی کے زمانے میں لفظ تصوف کو ’زہد ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا ۔انداز نگارش عمدہ ہے ۔
تحقیق و تنقید کے کالم میں آخری تحریر پروفیسر علی احسان ایتک کی ہے ، جس کا ترجمہ ضیاء الرحمن علیمی نے کیا ہے ۔یہ مقالہ علیمی صاحب تک کیسے پہنچا اس کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔اس مقالے کے سلسلے میں حسن سعید چشتی کی اس رائے سے ہمیں اتفاق ہے :’’پروفیسر علی احسان ایتک کی تحریر معاصر ترکی صوفیانہ تحریکات کے حوالے سے بیش قیمت معلومات کی حامل ہے ۔‘‘(ص۲۰) آخر میں یہ ماننا پڑتا ہے کہ ’تحقیق و تنقید ‘کا حصہ شمارہ کا سب سے زیادہ گرانقدر ،با وقا ر اور توجہ طلب ہے ۔‘‘(ص۲۰)
’بحث و نظر کے کالم میں تین تحریریں ہیں ۔علامہ یسین اختر مصباحی ،پروفیسر اختر الواسع اور مولانا فیضان المصطفی قادری کی ۔ یہ تینوں برانڈ نام ہیں ۔ان کا نام ہی ان کی تحریروں کو با وزن بناتا ہے۔ہم یہاں ان کی تحریروں سے ایک ایک اقتباس نقل کر کے آگے بڑھ جائیں گے ۔بحث و نظر کے کالم کا سوال ہے :’’کیا تصوف اور صوفیہ کا دور ختم ہوگیا ؟‘‘ اس کے تحت علامہ مصباحی کا یہ اقتباس دیکھئے :
’’تصوف اور اس کی صحیح تعلیمات پر عمل پیرا صوفیہ کا مستقبل یقیناًروشن ہے اور غلط تصوف اور دنیا دار صوفیہ کا مستقبل تاریک ہونے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے لیکن ایسے تصوف اور صوفیہ سے ہمیں کیا لینا دینا ،ہم تو اس تصوف کی با ت کر رہے ہیں جس کی جڑیں اسلام کے ساتھ وابستہ ہیں ۔‘‘
’’پروفیسر اخترالواسع لکھتے ہیں :’’ایک سوال جو عام طور پر کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو آج صوفی نظر کیوں نہیں آتے ؟ لوگ بھول جاتے ہیں کہ صوفی اشتہار بازی میں یقین نہیں رکھتا ۔وہ شہرت کا نہیں گمنامی کا طلب گا ر ہوتا ہے ۔‘‘
مولانا قادری لکھتے ہیں :’’ان حالات میں لگتا ہے کہ تصوف اور صوفیہ کا دور ختم ہوگیا لیکن ہمیں ایسا قول کرنے میں عجلت نہیں کرنی چاہئے ،کیوں کہ تصوف ہمارے آقا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کا نقطۂ آغاز بھی ہے اور منتہائے کار بھی ۔‘‘ اس کے علاوہ مولانا قادری کو یہ اعتراف بھی ہے کہ :’’بہر کیف ،کیا ہوا ؟اور تصوف کی قدریں کہاں چلی گئیں ؟ ہمیں افسوس ہے کہ اس کا جواب ہمارے پاس نہیں ۔‘‘مولانا موصوف کا یہ جملہ بہت دلچسپ ہے :گویا ہر عمل میں کرامت کاکوئی نہ کوئی پہلو اس طرح نکال لیا جاتا ہے جیسے سعودیہ عربیہ میں چاند۔‘‘
’شناسائی ‘ کا کالم خاکستر میں چنگاری کی تلاش ہے ۔اتر پردیش کے ضلع اناؤ کا قدیم ترین قصبہ صفی پور کی خانقاہ صوفیہ کے سجادہ اعزاز محمد فاروقی عرف شمو میاں سے خصوصی گفتگو اور اسی خانقاہ کی تاریخ و کارناموں کو پیش کرتا ہوا مجیب الرحمن علیمی کا مضمون تفصیلی اور معلوماتی ہے ۔مجلہ ’الاحسان ‘نکالنے والے قابل مبارکباد ہیں جنہوں نے سنجیدگی و خلوص کا اس قدر مظاہرہ کیا ہے اور ’خذ ما صفا و دع ما کدر‘کو اپنا کر اپنے اسلاف کو یاد رکھنے اور صوفی اسلام کے احیا کے لئے کوشاں ہیں ۔علیمی صاحب کا مضمون بشمول تعلیقات و کتابیات تقریبا ۳۲ صٖفحات پر پھیلا ہوا ہے۔قلم سنجیدہ اور متوازن ہے ۔
مضمون کے حوالے سے تین باتوں کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں ۔اول یہ کہ خانقاہ صوفیہ وہ چشمہ ہے جس کا پانی بریلی ،بدایوں اور مارہرہ تک پہنچتا ہے ۔دوم یہ کہ تصنیف وتالیف کا عمل انسان کو تاریخ میں بلند مقام عطا کرتا ہے ۔’منبع سنابل شریف ‘کے مصنف میر سید عبدالواحد بلگرامی حضرت مخدوم شاہ صفی پوری قدس سرہ کے مرید ہیں اور علمی خدمات کی وجہ سے اپنے پیر سے زیادہ مشہور ہیں ۔سوم یہ کہ مخدوم شاہ صفی پوری قدس سرہ کی تعلیم وتربیت اور اجازت وخلافت کے ضمن میں جن بزرگوں کا نام آتا ہے ان میں شیخ سعد بن بڈھن ،شاہ مینا ،مخدوم شیخ سارنگ ،مخدوم یوسف ایرچی ہیں ۔ہندوستان میں صوفیا ء نے رنگ و نسل کا امتیاز مٹاکر جس گنگا جمنی تہذیب کی بنیا د ڈالی تھی اس کا اثر ان کے ناموں پر بھی دکھائی دیتا ہے ۔
’صوفی ادب ‘ کے کالم میں صرف ایک ہی تحریر ہے ۔ ڈاکٹر حسنین اختر کی ’عربی کی صوفیانہ شاعری ‘۔اس کالم میں اردو کے شاعروں اور فکشن نگاروں کی تحریریں بھی پیش کی جاتیں تو تشنگی کا احساس نہیں ہوتا ۔
’زاویہ ‘کے کالم میں ذیشان مصباحی کا مضمون ’امام غزالی کا فکری نظام المنتقد من الضلال کی روشنی‘ دعوت غور و فکرہی نہیں دیتا دعوت عمل بھی دیتا ہے ۔المنتقد من الضلال ایک قسم کی خود نوشت ہے ،جس میں’’ امام غزالی نے اپنی سپاٹ سر گزشت کے ساتھ بیچ بیچ میں اپنی پختہ فکر اور زاویہء نگاہ کا تذکرہ بھی کردیا ہے اور کہیں کہیں ایک ایک جملے میں سچ مچ سمندر کو کوزے میں بھر دیا ہے ‘‘ مضمون میں ’المنتقد من الضلال سے انہی بکھرے موتیوں کو چننے اور ان سے غزالی کے نظام فکر کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔مضمون کے مطالعے کے بعد یقینا’’قارئین محسوس کریں گے کہ غزالی کے ان خیالات کی معنویت موجودہ حالات میں کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔‘‘
دوسرا مضمون مولانا منظرالاسلام ازہری کا ہے ’امام غزالی اور اصول فقہ‘جس میں مولانا ازہری نے امام غزالی کی ’اصولی حیثیت ‘ اور اصول فقہ میں ان کی اجتہادی شان کی جھلکیاں پیش کی ہیں ۔مضمون چونکہ علمی ہے اس لئے زبان بھی عالمانہ ہے ۔ڈاکٹر حمید نسیم رفیع آبادی کا مضمون ’امام غزالی اور شاہ رفیع اللہ دہلوی :تناظر و تقابل ‘اس کالم کا تیسرا مضمون ہے ۔مضمون کا عنوان جتنا عمدہ ہے ،دوران مطالعہ اس کا احساس نہیں ہوتا ۔یہ ایک طویل مضمون ہے اور یہ طے کرنامشکل ہوجاتا ہے کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے ۔مثلا سر سید احمد کا ذکر دو جگہ آیا ہے لیکن اس کا مقصد کیا ہے میر ا ذہن وہاں تک نہیں پہنچ سکا ۔حالاں کہ مجلے کے مدیر حسن چشتی کی رائے یہ ہے:’’خصوصا ڈاکٹر حمید نسیم رفیع آبادی کی تحریر جو امام غزالی اور شاہ ولی اللہ میں تقابل و تناظر کے حوالے سے ہے ،بہت ہی فکر انگیز ہے ۔‘‘
اس کالم کا آخری مضمون ’امام غزالی کی طرف غلط منسوب شدہ کتب رسائل ‘ہے،جس کے مولف ڈاکٹر مشہد العلاف اور مترجم مولانا اظہار احمد مصباحی ہیں ۔۹ کتب و رسائل کی تعداد پیش کی گئی ہے جو غزالی کی طرف غلط منسوب ہیں اور اس کے اسباب پر مفصل گفتگو کی گئی ہے ۔تحریر و ترجمہ دونوں عمدہ ہے ۔’پیمانہ کے کالم میں تین کتابوں پر تبصرہ ہے ۔پروفیسر اختر الواسع کی’ روشنی کا سفر‘جے اسپنسر کی ’الفرق الصوفیہ فی الاسلام ‘ اور مارٹن لنگس کی 'What is Sufism' ۔مکتوبات کے کالم میں پندرہ خطوط ہیں ۔
اس طرح کل ۴۰۸ صفحات پر پھیلا ہوا یہ مجلہ مجموعی اعتبار سے ’’تصوف پر علمی ،تحقیقی و دعوتی مجلہ‘‘ ہے ۔ مرتبین مجلہ نے قلمی تعاون بھی پیش کیا ہے ۔مجلے کا انتساب امام غزالی کی طرف ہے ۔لفظ ’متصوفین ‘دو مضامین میں دو الگ الگ معنوں میں مستعمل ہوا ہے ۔مولانا فیضان المصطفی قادری نے منفی معنی میں جب کہ ڈاکٹر حسنین اختر نے مثبت معنی میں استعمال کیا ہے ۔’صوفیہ ء کرام ‘کے رسم الخط پر نظر ٹھہر جاتی ہے ۔کہیں کہیں بلا ہمزہ ہی کمپوز ہوگیا ہے ۔’احسان ‘ کے حوالے سے متعدد قلم کاروں نے گفتگو کی ہے تو ایسا کیوں نہ ہو کہ تصوف کو تصوف کی بجائے ’احسان‘ ہی کہا جائے ؟۔
(ماہنامہ ماہ نور دہلی دسمبر ۲۰۱۰ میں شائع شدہ)
مدیر : حسن سعید چشتی
ترتیب : مجیب الرحمن علیمی،ذیشان احمد مصباحی،ضیاء الرحمن علیمی،رفعت رضا نوری
سال اشاعت: اپریل ۲۰۱۰
قیمت:۱۰۰ روپے
مبصر : طیب فرقانی،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی
’تصوف ‘ اور’ تشدد‘ موجودہ دور میں ایک دوسرے کے مقابلے میں ابھر رہے ہیں ۔اہل تصوف کی کوشش ہے کہ دنیا بھر میں اسلام کو رسوائی سے بچانے اور دشمنان اسلام کو اسلام سے قریب لانے کے لئے پھر سے احیائے تصوف کیا جائے۔اس کے لئے تصوف کو آلائشوں سے پاک کیا جائے اور اس کی خوبیوں کو اپنایا جائے ۔کتابی سلسلہ ’الاحسان‘ اسی کوشش کا نام ہے ۔شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ چشتی کی سر پرستی اور ملک و بیرون ملک کے سر بر آوردہ علماء ومشائخ کی مشاورت و معاونت میں یہ مجلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے ۔
مجلے کے مشمولات کو درج ذیل ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے :(۱) بادہ وساغر (۲) احوال (۳)بادۂ کہنہ ( ۴) تذکیر (۵) تحقیق و تنقید (۶) بحث و نظر (۷) شناسائی (۸) صوفی ادب ( ۹)زاویہ (۱۰) پیمانہ (۱۱) مکتوبات۔ ’بادہ و ساغر‘ کے کالم میں امام غزالی کا وہ قصیدہ بھی شامل ہے جو ان کی وفات کے بعد ان کے سرہانے ملا تھا ۔ اس کا ترجمہ ضیاء الرحمن علیمی نے کیا ہے جو ’زاویہ ‘ کے کالم میں شامل ہے ۔
’احوال ‘ کے تحت مدیر مجلہ حسن سعید چشتی کا ابتدائیہ اور ذیشان مصباحی احوال سے واقف کراتے ہیں ۔
’بادۂ کہنہ‘کے تحت پہلی تحریر شیخ شرف الدین احمد یحی منیری علیہ الرحمہ کی ہے ، جس کا ترجمہ شاہ نجم الدین احمد فردوسی نے کیا ہے ۔ یہ مکتوبات صدی کا مکتوب اول ہے جس میں توحید کے چار درجے اور ان کا فرق مثالوں سے سمجھایا گیا ہے ۔ ایک مثال اخروٹ کی ہے کہ ’’ اخروٹ میں دوقسم کے پوست اور ایک قسم کا مغز ہوتا ہے ،پھر مغز میں روغن ‘‘ ۔ منافقانہ توحید پہلی قسم کے پوست کی مانند ہے ۔عامیانہ اور متکلمانہ توحید دوسری قسم کے پوست کی طرح ہے عارفانہ توحید مغز کے درجے میں ہے اور موحدانہ توحید روغن کے درجے میں ۔ حلول اور تجلی کا فرق بھی سمجھایا گیا ہے جو ان ذہنوں کے لئے شفا ہے جو حلول و تجلی میں فرق نہیں کرتے اور تصوف کو ویدانت سے جوڑتے ہیں ۔
دوسری اور آخری تحریر شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمہ کی ہے ۔ عنوان ہے’ تصوف کی حقیقت و ماہیت ‘ یہ تحریر عوارف العوارف سے ماخوذ ہے اور اس کے ترجمہ و تلخیص نگار ذکی اللہ مصباحی ہیں ۔ متعدد صاحبان طریقت کے اقوال کی روشنی میں تصوف کی ماہیت بیان کی گئی ہے ۔ تصوف و فقر پر خاصی لمبی بحث ہے ۔ متعدد مقام پر تصوف و فقر کے درمیان فرق کو واضح کیا گیا ہے ۔
’تذکیر‘ کے کالم میں تین تحریریں ہیں۔اول شیخ ابوسعید چشتی کے افادات پر مشتمل ہے جس کوذیشان مصباحی نے ترتیب دیا ہے ۔دوسری مولانا عبد المبین نعمانی کی تحریر ’آفات لسان اور ان سے بچنے کی تدبیریں ‘آیات واحادیث سے مزین کافی وسیع و وقیع ہے ۔ اس کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تصوف اس کے سوا کچھ نہیں کہ قران و حدیث پر پوری طرح عمل کیا جائے ۔ ایک پیراگراف نقل کرنا فائدے سے خالی نہ ہوگا :’’آدمی اگر بظاہر مسلمان ہے تو اصل اس کا مسلمان ہونا ہے جب تک کہ صریح کفر سرزد نہ ہو،اس کو کافر نہیں کہہ سکتے ،یا کفر تو صریح ہو لیکن قائل کی طرف اس کا انتساب قطعی نہ ہو تو اس صورت میں بھی کافر کہنا صحیح نہیں ‘‘۔(ص۵۰)
تیسری تحریر جناب نیاز حسن کی ہے جو کبھی ہری نارائن سنگھ ہوا کرتے تھے ۔یہ ان کے قبول اسلام کی مختصر آپ بیتی ہے
’تحقیق وتنقید ‘ کے کالم میں پہلا مقالہ پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی کا ہے ۔’حقیقت تصوف: ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘ کے عنوان سے یہ مقالہ اسم با مسمیٰ ہے ۔ بشمول حواشی ۳۳ صفحات پر پھیلا ہوا یہ مقالہ تحقیق و تنقید کے باب میں نئی نسل کے لٗے مشعل راہ بھی ہے ۔مقالے کی ابتدا سلو موشن میں ہوتی ہے اور آہستہ وآہستہ عروج کے منازل طے کرتا ہے۔زبان وبیان اور انداز تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقالہ کئی بار میں تحریر ہوا ہے ۔مترادفات کی کثرت اور طویل جملوں کے استعمال سے کہیں کہیں ترسیل دشوار ہوجاتی ہے ۔ایک مثال دیکھئے:’’اس شخصی اعتدال کے ساتھ دین و شریعت ،معاشرہ میں بھی توازن وتوافق اور عدل انصاف اور اعتدال و میانہ روی پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘صاحب مقالہ کا خیا ل ہے کہ ’’حضرت شاہ ولی اللہ تو حکیم شریعت اور ماہر دینی کے ساتھ ساتھ تصوف وطریقت کے امام عالی مقام بھی تھے ۔لیکن امام ابن تیمیہ (م ۱۷۲۸ھ/۱۳۲۸ء)صرف شیخ الاسلام اور دین وشریعت کے امام تھے اور تصوف کے بعض امور کے ناقد بھی تھے ۔بایں ہمہ وہ تصوف کے منکر اور اس کی افادیت کے انکاری نہ تھے ۔وہ اکابر صوفیہ کو تسلیم کرتے تھے اور تصوف کے بہت سے نظریات ،افکاراور اعمال واشغال کے بھی قائل تھے ۔‘‘ مقالہ دلائل وحوالہ جات سے مزین ہے ۔ان کا ماننا ہے کہ طریقت ،شریعت کا ایک حصہ ہے اور صوفیہ کی تعلیمات ہدایت کے چراغ ہیں لیکن ان سے اسلامی نظام برپا نہیں کیا جاسکتا۔
دوسرا مضمون مولانا سید محمد اشتیاق عالم شہبازی کا ہے ۔آپ نے ’صوفیہ کرام کے احوال ومقامات ‘ جیسے صبر، زہد،فقر،توکل اور رضا وغیرہ پر صوفیا اور علما کے افادات وارشادات کی روشنی میں ایک قابل مطالعہ مضمون سپرد قلم کیا ہے ۔پروفیسر مسعود انور علوی کا مضمون ’عصر حاضر میں تصوف اور خانقاہ کی ضرورت‘ایک عجلت میں لکھا گیا مضمون ہے ۔حوالوں سے عاری۔پروفیسر موصوف بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو غار حرا کو پہلی خانقاہ مانتے ہیں اور قران و حدیث کے ہر واقعے کو تصوف ثابت کرنے پر مصر ہیں۔آج کل یہ ٹرینڈ ہوگیا ہے کہ روحانیت پر گفتگو کرتے ہوئے سائنس و ٹیکنالوجی پر سارا نزلہ گرادیا جاتا ہے اور پوری دنیا کو امن وامان سے خالی ،بد عمل اور کفرستان ثابت کیا جاتا ہے ۔پروفیسر موصوف بھی اس سے باز نہیں رہ سکے اور طریق نبوت اور طریق ولایت کو گڈ مڈ کرتے ہوئے نظر آئے ۔وفی انفسکم افلا تبصرون کا نیا ترجمہ (وہ تمہارے نفوس میں ہے کیا تم دیکھتے نہیں ) دیکھنے کو ملا۔
مولانا امام الدین سعیدی کا مضمون ’مشائخ کے شطحیات و ہفوات :ایک علمی و تحقیقی جائزہ‘ نہایت وقیع ہے ۔شطحیات و ہفوات کیا ہیں ؟ خود مضمون نگار کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں :’’(صوفیائے کرام سے ) غلبۂ حال میں جو اقوال بظاہر مخالف شرع صادر ہوں انہیں شطحیات کہتے ہیں اور جو افعال و حرکات مخالف شرع صادر ہوں انہیں ہفوات کہتے ہیں ۔کلمات شطحیات کی مثال حضرت منصور حلاج کا ’انا الحق‘ کہنا ،ہفوات کی مثال شیخ شبلی قدس سرہ کا بیٹے کی وفات پر داڑھی حلق کرلینا اور درہم و دینار کو دریا میں ڈال دینا وغیرہ ۔‘‘(ص۱۲۰)
مولانا مظہر حسین علیمی نے ’ضرورت شیخ اور اس کے حقوق و آداب ‘ پر روشنی ڈالی ہے جو تحریر سے زیادہ تقریر کے قریب ہے ۔اسی کالم میں ضیاء الرحمن علیمی کا مضمون ’علامہ ابن جوزی :ناقد تصوف یا محدث صوفی ؟‘دعوت غور فکر اوروعوت مطالہ دیتا ہے ۔پوری تحریر دلائل وامثال سے مزین ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو لوگ نقد تصوف میں ابن جوزی کے مقلد محض ہیں وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔ابن جوزی تصوف کو بالکلیہ رد نہیں کرتے بلکہ وہ تصوف کو آلائش سے پاک کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ مخالف تصوف نہیں بلکہ خود ایک بڑے صوفی ہیں ۔علیمی صاحب کا یہ مضمون رواں دواں اور ادبی اسلوب لئے ہوئے ہے ۔(چند مقامات ، جہاں عربی اسلوب در آیا ہے ، مستثنیٰ ہیں )بعض پیراگراف کافی طویل ہوگئے ہیں ۔
’حضرت شفیق بلخی :حیات وافکار ‘بھی عمدہ مقالہ ہے ۔ڈاکٹر مشتاق احمد تجاروی نے حضرت شفیق بلخی علیہ الرحمہ کی حیات پر واقعات کے توسط سے روشنی ڈالی ہے ۔اس طرح ان کے افکار و توکل ،زہدوطریقہء زہد،عبادت اور معرفت و غیرہ کو بخوبی پیش کیا ہے ۔موصوف نے ذکر کیا ہے کہ حضرت شفیق بلخی کے زمانے میں لفظ تصوف کو ’زہد ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا ۔انداز نگارش عمدہ ہے ۔
تحقیق و تنقید کے کالم میں آخری تحریر پروفیسر علی احسان ایتک کی ہے ، جس کا ترجمہ ضیاء الرحمن علیمی نے کیا ہے ۔یہ مقالہ علیمی صاحب تک کیسے پہنچا اس کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔اس مقالے کے سلسلے میں حسن سعید چشتی کی اس رائے سے ہمیں اتفاق ہے :’’پروفیسر علی احسان ایتک کی تحریر معاصر ترکی صوفیانہ تحریکات کے حوالے سے بیش قیمت معلومات کی حامل ہے ۔‘‘(ص۲۰) آخر میں یہ ماننا پڑتا ہے کہ ’تحقیق و تنقید ‘کا حصہ شمارہ کا سب سے زیادہ گرانقدر ،با وقا ر اور توجہ طلب ہے ۔‘‘(ص۲۰)
’بحث و نظر کے کالم میں تین تحریریں ہیں ۔علامہ یسین اختر مصباحی ،پروفیسر اختر الواسع اور مولانا فیضان المصطفی قادری کی ۔ یہ تینوں برانڈ نام ہیں ۔ان کا نام ہی ان کی تحریروں کو با وزن بناتا ہے۔ہم یہاں ان کی تحریروں سے ایک ایک اقتباس نقل کر کے آگے بڑھ جائیں گے ۔بحث و نظر کے کالم کا سوال ہے :’’کیا تصوف اور صوفیہ کا دور ختم ہوگیا ؟‘‘ اس کے تحت علامہ مصباحی کا یہ اقتباس دیکھئے :
’’تصوف اور اس کی صحیح تعلیمات پر عمل پیرا صوفیہ کا مستقبل یقیناًروشن ہے اور غلط تصوف اور دنیا دار صوفیہ کا مستقبل تاریک ہونے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے لیکن ایسے تصوف اور صوفیہ سے ہمیں کیا لینا دینا ،ہم تو اس تصوف کی با ت کر رہے ہیں جس کی جڑیں اسلام کے ساتھ وابستہ ہیں ۔‘‘
’’پروفیسر اخترالواسع لکھتے ہیں :’’ایک سوال جو عام طور پر کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو آج صوفی نظر کیوں نہیں آتے ؟ لوگ بھول جاتے ہیں کہ صوفی اشتہار بازی میں یقین نہیں رکھتا ۔وہ شہرت کا نہیں گمنامی کا طلب گا ر ہوتا ہے ۔‘‘
مولانا قادری لکھتے ہیں :’’ان حالات میں لگتا ہے کہ تصوف اور صوفیہ کا دور ختم ہوگیا لیکن ہمیں ایسا قول کرنے میں عجلت نہیں کرنی چاہئے ،کیوں کہ تصوف ہمارے آقا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کا نقطۂ آغاز بھی ہے اور منتہائے کار بھی ۔‘‘ اس کے علاوہ مولانا قادری کو یہ اعتراف بھی ہے کہ :’’بہر کیف ،کیا ہوا ؟اور تصوف کی قدریں کہاں چلی گئیں ؟ ہمیں افسوس ہے کہ اس کا جواب ہمارے پاس نہیں ۔‘‘مولانا موصوف کا یہ جملہ بہت دلچسپ ہے :گویا ہر عمل میں کرامت کاکوئی نہ کوئی پہلو اس طرح نکال لیا جاتا ہے جیسے سعودیہ عربیہ میں چاند۔‘‘
’شناسائی ‘ کا کالم خاکستر میں چنگاری کی تلاش ہے ۔اتر پردیش کے ضلع اناؤ کا قدیم ترین قصبہ صفی پور کی خانقاہ صوفیہ کے سجادہ اعزاز محمد فاروقی عرف شمو میاں سے خصوصی گفتگو اور اسی خانقاہ کی تاریخ و کارناموں کو پیش کرتا ہوا مجیب الرحمن علیمی کا مضمون تفصیلی اور معلوماتی ہے ۔مجلہ ’الاحسان ‘نکالنے والے قابل مبارکباد ہیں جنہوں نے سنجیدگی و خلوص کا اس قدر مظاہرہ کیا ہے اور ’خذ ما صفا و دع ما کدر‘کو اپنا کر اپنے اسلاف کو یاد رکھنے اور صوفی اسلام کے احیا کے لئے کوشاں ہیں ۔علیمی صاحب کا مضمون بشمول تعلیقات و کتابیات تقریبا ۳۲ صٖفحات پر پھیلا ہوا ہے۔قلم سنجیدہ اور متوازن ہے ۔
مضمون کے حوالے سے تین باتوں کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں ۔اول یہ کہ خانقاہ صوفیہ وہ چشمہ ہے جس کا پانی بریلی ،بدایوں اور مارہرہ تک پہنچتا ہے ۔دوم یہ کہ تصنیف وتالیف کا عمل انسان کو تاریخ میں بلند مقام عطا کرتا ہے ۔’منبع سنابل شریف ‘کے مصنف میر سید عبدالواحد بلگرامی حضرت مخدوم شاہ صفی پوری قدس سرہ کے مرید ہیں اور علمی خدمات کی وجہ سے اپنے پیر سے زیادہ مشہور ہیں ۔سوم یہ کہ مخدوم شاہ صفی پوری قدس سرہ کی تعلیم وتربیت اور اجازت وخلافت کے ضمن میں جن بزرگوں کا نام آتا ہے ان میں شیخ سعد بن بڈھن ،شاہ مینا ،مخدوم شیخ سارنگ ،مخدوم یوسف ایرچی ہیں ۔ہندوستان میں صوفیا ء نے رنگ و نسل کا امتیاز مٹاکر جس گنگا جمنی تہذیب کی بنیا د ڈالی تھی اس کا اثر ان کے ناموں پر بھی دکھائی دیتا ہے ۔
’صوفی ادب ‘ کے کالم میں صرف ایک ہی تحریر ہے ۔ ڈاکٹر حسنین اختر کی ’عربی کی صوفیانہ شاعری ‘۔اس کالم میں اردو کے شاعروں اور فکشن نگاروں کی تحریریں بھی پیش کی جاتیں تو تشنگی کا احساس نہیں ہوتا ۔
’زاویہ ‘کے کالم میں ذیشان مصباحی کا مضمون ’امام غزالی کا فکری نظام المنتقد من الضلال کی روشنی‘ دعوت غور و فکرہی نہیں دیتا دعوت عمل بھی دیتا ہے ۔المنتقد من الضلال ایک قسم کی خود نوشت ہے ،جس میں’’ امام غزالی نے اپنی سپاٹ سر گزشت کے ساتھ بیچ بیچ میں اپنی پختہ فکر اور زاویہء نگاہ کا تذکرہ بھی کردیا ہے اور کہیں کہیں ایک ایک جملے میں سچ مچ سمندر کو کوزے میں بھر دیا ہے ‘‘ مضمون میں ’المنتقد من الضلال سے انہی بکھرے موتیوں کو چننے اور ان سے غزالی کے نظام فکر کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔مضمون کے مطالعے کے بعد یقینا’’قارئین محسوس کریں گے کہ غزالی کے ان خیالات کی معنویت موجودہ حالات میں کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔‘‘
دوسرا مضمون مولانا منظرالاسلام ازہری کا ہے ’امام غزالی اور اصول فقہ‘جس میں مولانا ازہری نے امام غزالی کی ’اصولی حیثیت ‘ اور اصول فقہ میں ان کی اجتہادی شان کی جھلکیاں پیش کی ہیں ۔مضمون چونکہ علمی ہے اس لئے زبان بھی عالمانہ ہے ۔ڈاکٹر حمید نسیم رفیع آبادی کا مضمون ’امام غزالی اور شاہ رفیع اللہ دہلوی :تناظر و تقابل ‘اس کالم کا تیسرا مضمون ہے ۔مضمون کا عنوان جتنا عمدہ ہے ،دوران مطالعہ اس کا احساس نہیں ہوتا ۔یہ ایک طویل مضمون ہے اور یہ طے کرنامشکل ہوجاتا ہے کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے ۔مثلا سر سید احمد کا ذکر دو جگہ آیا ہے لیکن اس کا مقصد کیا ہے میر ا ذہن وہاں تک نہیں پہنچ سکا ۔حالاں کہ مجلے کے مدیر حسن چشتی کی رائے یہ ہے:’’خصوصا ڈاکٹر حمید نسیم رفیع آبادی کی تحریر جو امام غزالی اور شاہ ولی اللہ میں تقابل و تناظر کے حوالے سے ہے ،بہت ہی فکر انگیز ہے ۔‘‘
اس کالم کا آخری مضمون ’امام غزالی کی طرف غلط منسوب شدہ کتب رسائل ‘ہے،جس کے مولف ڈاکٹر مشہد العلاف اور مترجم مولانا اظہار احمد مصباحی ہیں ۔۹ کتب و رسائل کی تعداد پیش کی گئی ہے جو غزالی کی طرف غلط منسوب ہیں اور اس کے اسباب پر مفصل گفتگو کی گئی ہے ۔تحریر و ترجمہ دونوں عمدہ ہے ۔’پیمانہ کے کالم میں تین کتابوں پر تبصرہ ہے ۔پروفیسر اختر الواسع کی’ روشنی کا سفر‘جے اسپنسر کی ’الفرق الصوفیہ فی الاسلام ‘ اور مارٹن لنگس کی 'What is Sufism' ۔مکتوبات کے کالم میں پندرہ خطوط ہیں ۔
اس طرح کل ۴۰۸ صفحات پر پھیلا ہوا یہ مجلہ مجموعی اعتبار سے ’’تصوف پر علمی ،تحقیقی و دعوتی مجلہ‘‘ ہے ۔ مرتبین مجلہ نے قلمی تعاون بھی پیش کیا ہے ۔مجلے کا انتساب امام غزالی کی طرف ہے ۔لفظ ’متصوفین ‘دو مضامین میں دو الگ الگ معنوں میں مستعمل ہوا ہے ۔مولانا فیضان المصطفی قادری نے منفی معنی میں جب کہ ڈاکٹر حسنین اختر نے مثبت معنی میں استعمال کیا ہے ۔’صوفیہ ء کرام ‘کے رسم الخط پر نظر ٹھہر جاتی ہے ۔کہیں کہیں بلا ہمزہ ہی کمپوز ہوگیا ہے ۔’احسان ‘ کے حوالے سے متعدد قلم کاروں نے گفتگو کی ہے تو ایسا کیوں نہ ہو کہ تصوف کو تصوف کی بجائے ’احسان‘ ہی کہا جائے ؟۔
(ماہنامہ ماہ نور دہلی دسمبر ۲۰۱۰ میں شائع شدہ)
ماشاء اللہ بہت خوب خانقاہ عارفیہ اور جامعہ عارفیہ کی تصوف پربہترین پیش کش
ReplyDelete