آہ مولانا عبدل! بے چارے تسکین شوق کی خاطر مارے گئے!
شوق بہر حال شوق ہے جس کی تکمیل میں ہر شخص ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے چاہے سر پر چوٹی ہو یا چٹیا۔ پھر مولانا عبدل کیسے پیچھے رہ جاتے۔ لیکن انھیں کیا پتا تھا کہ وہ اس طرح پھنسیں گے کہ نکل ہی نہیں پائیں گے۔
نام تو ان کا عبد المبین تھا لیکن کثرت استعمال کی وجہ سے گھستے گھستے عبدل رہ گیا تھا۔ خنجر تخلص فرماتے تھے۔ اگرچہ کبھی انھیں ایک شعر کہنے کا بھی اتفاق نہیں ہوا تھا مگر شعر و شاعری سے بڑا ’’عجیب قسم‘‘ کا لگاؤ تھا۔ بڑے بڑے شاعروں کے شعر یاد تھے۔ لیکن ایمانداری کی بات یہ تھی کہ کبھی سرقۂ شعر نہیں کرتے تھے۔ جس شاعر کا شعر ہوتا بڑے خلوص سے اس کا نام بھی بتا دیتے۔ ایسے ہی ایک دفعہ کسی مجلس میں شعر و شاعری کی ٹھن گئی۔ اس گلستان شاعری کے سبھی بلبلوں نے اپنے اپنے رنگ میں شاعری کی کاشت شروع کر دی۔ ایک نے گلکاری کی۔
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے وہ پھر لہو کیا ہے
جو ساس ہی کو نہ پیٹے وہ پھر بہو کیا ہے
دوسرے نے پیوند کاری کی۔
بروز حشر میں سیدھا چلا جاؤں گا جنت میں
وہیں سے آدم آئے تھے وہ میرے باپ کا گھر ہے
تیسرے نے کچھ یوں پھلجھڑیاں چھوڑیں۔
اف یہ تیرا تیر نظر، زخمی جگر، جاؤں کدھر
ہے آج سنڈے جس کے سبب چھٹی پر ہیں سب ڈاکٹر
ادھر مولانا عبدل دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہے تھے اور جب ان سے برداشت نہیں ہوا تو ڈپٹ کر بولے۔
درد سر ہوتا ہے بے رنگ نہ فریاد کریں
بلبلیں مجھ سے گلستاں کا سبق یاد کریں
ان کی اس تعلّی کو دیکھ کر مجھ سے بھی نہ رہا گیا اور تڑ سے میں نے کہا ’’ارے آپ کیا کرسکتے ہیں جب کہ خود دوسروں کے اشعار سنایا کرتے ہیں۔‘‘ یہ سن کر مولانا جوش میں آگئے۔ کہنے لگے اس کے جواب میں میر انیس کی ’’غزل‘‘ کے دو شعر سنو!
ایک قطرے کو جو دوں بسط تو قلزم کردوں
بحر مواج فصاحت کا تلاطم کر دوں
ماہ کو مہر کروں ذروں کو انجم کر دوں
گنگ کو ماہر انداز تکلم کردوں
محفل سے واہ واہ کی صدا اٹھی۔ مگر میں نے دھیرے سے مولانا عبدل کے کان میں کہا کہ جناب یہ میر انیس کی غزل کے اشعار نہیں ہیں یہ تو ان کے مرثیہ کے اشعار ہیں۔ ’’تو کیا میر انیس نے اپنا مرثیہ خود لکھا تھا؟‘‘ انھوں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ میں نے کہا ’’میرا مطلب ہے کہ میر انیس مرثیہ نگاری کے لیے مشہور ہیں اور آپ کے سنائے ہوئے یہ دونوں شعر دراصل ان کے لکھے ہوئے ایک مرثیہ کے ہیں۔‘‘ لیکن اب کیا ہوتا تیر تو کمان سے نکل چکا تھا۔ جس کی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے مولانا نے اس کی بڑی پیاری توجیہ کی۔ کہنے لگے ’’ارے تمھیں کیا پتا؟ میر انیس اپنے مراثی کی ابتدا غزل کے اشعار سے کرتے تھے۔ مولانا عبدل کی یہ توجیہ سن کر انگشت بدندان ہونے کی بجائے میں انگشت بہ اذان ہوگیا۔ میں یہ سوچ کر رہ گیا کہ مولانا نے شاعری کا بڑا ’’گہرا‘‘ مطالعہ کیا ہوگا۔
خیر! مولانا عبدل شعر و شاعری کے شوقین تو تھے ہی ساتھ ہی انھیں اپنی تصویر کھینچوا کر اخباروں میں چھپوانے کا شوق بھی کچھ کم نہ تھا۔ ہر وقت اسی کوشش میں رہتے کہ کسی طرح ان کی تصویریں بڑے بڑے اخبارات میں شائع ہو جائیں۔ ایک بار میر باقر نے ان سے کہا: بھئی عبدل! یہ تم نے کیا خبط پال لیا ہے کہ تمھیں بس ایک ہی جنون رہتا ہے کہ کب تمھاری تصویر اخبار میں چھپے؟ مولانا پوری سنجیدگی سے گویا ہوئے: باقر صاحب ایسی بات نہیں کہتے۔ اگر یہ خبط ہے تو پھر آج کے ان شاعروں کے بارے میں کیا کہیے گا جنھیں نذرانوں سے زیادہ مشاعروں کی تصویریں عزیز ہوتی ہیں۔
گورداس پور میں پیدا ہوئے مولانا عبدل جب ملک کی ایک مشہور و معروف درس گاہ سے فارغ التحصیل ہو کر آئے تھے تو بڑے کرو فر سے چلتے۔ انھیں بڑا ’’گمان‘‘ رہتا تھا کہ وہ ایک عظیم الشان درس گاہ سے سند یافتہ ہیں۔ یہاں یہ بحث بے کار ہے کہ ان کی بھی کوئی سند تھی یا نہیں؟ بڑی بے چین طبیعت پائی تھی انھوں نے۔ کسی ایک نقطے پر ٹھہرتے ہی نہیں تھے۔ شروع شروع میں بڑے زور و شور سے اپنے مسلک حق کا پرچار کیا۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب کبھی کسی خانقاہ یا زیارت گاہ کے قریب سے ان کی سائیکل یا رکشہ کا گزر ہوتا تو دل ہی دل میں فوراً توبہ اور تجدید ایمان کرتے اور ناک بھوں اس طرح سکوڑتے جیسے کوئی بدبو سی آ رہی ہو۔
لیکن اس شہر میں ان کے مسلک حق کی دال گلنا تو دور ہانڈی بھی نہیں رکھی جاسکتی تھی۔ اس لیے آہستہ آہستہ وہ سیکولر ہوتے گئے۔ اور پھر ان کے پیٹ میں اس ’’سیکولرازم‘‘ کا درد اس شدت سے اٹھا کہ انھوں نے ’’اتحاد ملت‘‘ کا بڑا زور دار نعرہ مارا۔ مگر ہائے ناکامی! ان کی ایک بھی نہ چلی اور اس میں بھی وہ فیل ہوگئے۔
اخبارات کا مطالعہ کثرت سے کرتے تھے۔ کوئی کام تو تھا نہیں اس لیے اردو اخبارات کے ساتھ ساتھ ہندی اخبارات کی بھی چندی چھڑا کر چاٹ جاتے تھے۔ رہی انگلش! تو انگلش سے انھیں اللہ واسطے کی دشمنی تھی۔ انھیں انگریزوں سے زیادہ انگریزی سے نفرت تھی۔ پتا نہیں اس کے پیچھے کیا اسباب تھے۔ بہرحال ان اخبارات میں بڑے بڑے مذہبی رہنماؤں اور دھارمک پنڈتوں کی تصویریں شائع ہوتی تھیں۔ انھیں کو دیکھ کر ان کے دل میں بھی اخبارات میں تصویریں شائع کرانے کا شوق پیدا ہوا جو آگے چل کر ’’عشق‘‘ کی شکل اختیار کر گیا۔ اور پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایک مہینے کے اندر اندر شہر میں ان کا ’’ڈنکا‘‘ بجنے لگا۔ روز ان کا بیان مع تصویر ضرور چھپتا تھا۔ مگر اس کے لیے انھیں کافی پاپر پیلنے پڑے۔ انھوں نے ایک خانقاہ کے متولی کو پٹایا اور آہستہ آہستہ خانقاہ پر قابض ہوگئے۔ اب اگر ان کی خانقاہ میں آیت کریمہ کا ختم بھی ہوتاتھا تو اخبارات میں اس کی سرخیاں ضرور مل جاتی تھیں وہ بھی مع تصویر۔
پھر تو انھیں چرس جیسا نشہ لگ گیا۔ کوئی موقع ہو یا نہ ہو ایک تصویر ضرور چھپنی چاہیے۔ اگر کبھی کسی مقام پر دیکھتے کہ ان کی تصویر نہیں لی جا رہی ہے تو غول میں جبراً گھسنے کی کوشش کرتے۔ اور تصویر کھنچاتے وقت کیمرے سے اتنے قریب ہوجاتے کہ لگتا جیسے کیمرے میں گھس ہی تو جائیں گے۔
ایک دن میں نے ایک مقامی اخبار میں ان کی تصویر دیکھی ایسا لگ رہا تھا کہ کھجور کا ایک تنا اب گرا کہ تب گرا۔ ان کے تصویر کھنچوانے کے اس جنون نے ان کو بڑا بدنام کیا۔ لیکن ان پر اس کا ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوا بلکہ اس میں اور شدت آگئی۔ کسی نے ان سے ان کی اس بدنامی کا ذکر کیا تو طیش میں آکر کہنے لگے، ’’اسی کا نام تو شہرت اور نیک نامی ہے جسے میرے حاسدین بدنامی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔‘‘ اور پھر انھوں نے مقامی اخبارات سے ترقی کرکے قومی اور بین الاقوامی اخبارات میں پہنچنے کے زینے تلاش کرنے شروع کر دیے۔ اور اس بھنور میں ایسا پھنسے کہ پھنسے ہی رہ گئے۔
دسری طرف ان کی شہرت حدود شہر کو توڑ کر دور دراز علاقوں تک پھیلنے لگی تھی یہاں تک کہ صوبائی اور قومی دارالحکومت تک پہنچ چکی تھی۔ ان کے سلسلے میں لوگوں کے دو طرح کے خیالات تھے۔ کچھ لوگ کہتے کہ یہ مولانا بڑا ہی ناہنجار ہے۔ سستی شہرت بٹورنے کے لیے جھوٹی سچی خبریں اپنی تصویر کے ساتھ خواہ مخواہ شائع کراتا ہے۔ اس گروہ میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ اخبارات کے نامہ نگار اور مدیران بھی تھے۔ جنھوں نے مولانا کو بڑے قریب سے ’’کیمرے‘‘ میں دیکھا تھا۔ خاص طور سے ایڈیٹر حضرات کے پاس جب ان کی کوئی رپورٹ پہنچتی تو وہ زیر لب بڑ بڑاتے کہ"Love Letter" آگیا۔
دوسرے گروہ میں علمائے کرام تھے جو عصر حاضر میں میڈیا کی ضرورتوں کے تحت مولانا کے اس عمل کو اگرچہ لائق تحسین نہیں سمجھتے تھے مگر خاموش حمایت ضرور کرتے تھے۔ مولانا عبدل کو اس کا بڑا فائدہ ہوا۔ اب وہ ملک کی کئی بڑی جمعیتوں اور تنظیموں کے سکریٹری اور جنرل سکریٹری بنا دیے گئے۔ اب انھوں نے تین طرح کے لیٹر پیڈ چھپوائے جن پر رپورٹ لکھ کر بھیجتے تھے۔ ایک لیٹر پیڈ خانقاہ کے متولی کی حیثیت سے (واضح رہے کہ وہ متولی اپنی محنتوں سے بنے تھے) دوسرا متعدد جمعیتوں اور تنظیموں کے سکریٹری اور جنرل سکریٹری کی حیثیت سے۔ اور تیسرا اپنے مادر علمی کے اولڈ بوائز کے صدر اعلیٰ کی حیثیت سے۔ چونکہ اولڈ بوائز والی تنظیم کی تشکیل انھوں نے خود کی تھی اس لیے صدر اعلیٰ سے نیچے رہنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اگرچہ دوسرے عہدوں کا پر ہونا ہنوز باقی تھا۔
اسکااثر ان کی معاشی حالت پر بھی پڑا اور سائیکل چلا چلاکر جوتیاں گھسنے والا آدمی سزوکی اور ٹویرا جیسی مہنگی گاڑیوں میں گھومنے لگا۔ معاشی حالت سدھری تو تن و توش میں بھی سدھار آیا۔ اتنا! کہ اگلی سیٹ پر ان کے اور ڈرائیور کے علاوہ کسی تیسرے کے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔
ابھی ان کی فراغت کے چار ہی سال ہوئے تھے کہ ملک کی سب سے بڑی عید، ’’عام انتخابات‘‘ کا اعلان ہوگیا۔کون نہیں جانتا کہ اس عید کے لیے لیے روزے نہیں رکھے جاتے بلکہ مولانا عبدل کی طرح ایمان دار اور مخلص قسم کے لوگ رمضان کا حصہ اسی مہینے میں کھا پی کر رمضان کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ سیاسی پارٹیاں اپنے انتخابی اشتہار میں جٹ گئیں۔ ’’ایک پارٹی‘‘ کے علاوہ ساری پارٹیاں مسلمانوں سے ہمدردی کا جذبہ جو ان کی ’’ناف‘‘ میں چھپا رہتا ہے ظاہر کرنے لگیں۔ ظاہر ہے اس کے لیے ان کو مسلم قیادت کے چھوٹے تالاب کی بڑی مچھلیوں کو بے خلوص نمستے بھی کہنا پڑا اور مدارس کی بوسیدہ نظر آنے والی دہلیز بھی پھلانگنی پڑی۔ جس کی بڑی بڑی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں۔ جنھیں دیکھ کر مولانا عبدل مچل مچل جاتے اور ان کے پیٹ کا چوہا اور شدت سے اچھل کود مچانے لگتا۔
ایک دن موقع ہاتھ آہی گیا۔ مجھ سے بولے ’’یار تم جبار کو تو جانتے ہی ہوگے۔‘‘ میں نے کہا ہاں کیوں نہیں وہی تو جو گورداس پور میں بھینس چگایا کرتے تھے اور شہر میں مفتی صاحب کہلاتے تھے۔‘‘ پہلے تو ان کے چہرے پر جھلاہٹ کے آثار دکھے پھر پتا نہیں کیا ہوا بڑی مقفی اردو میں بولے ’’اخبار کمر لچکدار کے نامہ نگار اور تصویر کار ذیشان جبار کی بات کر رہا ہوں اے نابکار‘‘ مجھے ان کی ایسی اردو پر بڑا رشک ہوا اور میں نے بڑی عاجزی سے کہا ’’مگر جناب! مجھ نابکار کو ’’تصویر کار‘‘ کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔ انھوں نے فخر سے سینہ تان کر کہا ’’فوٹو گرافر کا اردو ترجمہ تصویر کار ہے۔‘‘ اچھا تو پھر؟ میں نے کہا۔ کہنے لگے ’’اس نے مجھے بتایا ہے کہ آج شام گاندھی اسٹیڈیم میں ایک بہت بڑا سیاسی جلسہ ہونے جا رہا ہے۔ بڑے بڑے نیتا آ رہے ہیں۔ سنا ہے کہ وہ فلمی اداکار بھی آ رہا ہے.... ارے وہی.... کیا نام ہے اس کا.... جو ’’جادو کی جھپی‘‘ دیتا ہے؟ میں نے بڑی لجاجت سے کہا ’’ارے سرکار مجھ خاکسار کو فلمی اداکار سے کیا سرورکار‘‘ اور مسکرا پڑا۔ میری مسکراہٹ پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے مولانا عبدل بولے ’’زیادہ قافیہ پیمائی نہ کرو۔ میں تمھیں بس یہ بتا رہا ہوں کہ اس جلسہ میں مجھے قومی سطح کے اخبارات میں شائع ہونے کا موقع ملنے والا ہے۔‘‘ میں نے بطور تجسس پوچھ لیا ’’وہ کیسے؟‘‘ مگر وہ گول کر گئے اور کچھ بتائے بغیر اٹھ کر چل دیے۔
مولانا عبدل کی یہ بات شام تک میرے ذہن پر سانپ کی طرح پھن کاڑھے چھائی رہی جس کا اثر یہ ہوا کہ شام ہوتے ہی میرے قدم اسٹیڈیم کی طرف اٹھ گئے اور میں ٹھیک وقت پر وہاں پہنچ گیا۔ چونکہ ایک فلمی اداکار بھی تشریف لا رہے تھے اس لیے پنڈال بڑا شاندار لگایا گیاتھا اور سامنے شمال کی جانب بڑے لوگوں کے لیے شاندار اسٹیج۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر پہلے سے ہی ’’جادو کی جھپی‘‘ والے اداکار کو دیکھنے اور سننے کے لیے اپنی اپنی جگہوں پر لہرا رہا تھا۔ جنھیں دیکھ کر میرے ذہن میں ایک بیہودہ خیال آیا کہ اگر مولانا عبدل کی آیت کریمہ میں اتنے ہی لوگ جمع ہو جائیں تو ان کی تو چاندی ہوجائے گی۔
خیر! جلسہ خلاف دستور وقت سے ہی شروع ہوگیا۔ روایتی انداز میں آغاز کے بعد سیاسی ’’چھٹ بھیوں‘‘ کی بڑی لچھے دار اور گرجدار تقریریں ہوئیں۔ جلسہ جب اپنی جوانی کو پہنچا تو ’’جادو کی جھپی‘‘ والے فلمی اداکار کو ڈائس پربلایا گیا۔ پورا مجمع تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ فلم اداکار ہاتھ ہلاتا ہوا ڈائس پر آیا اور ابھی تقریر شروع ہی کی تھی کہ میں نے اسٹیج کے قریب ایک گاڑی رکتی ہوئی دیکھی، جوکچھ کچھ جانی پہچانی سی لگی اور پھر میرے خیال کی تصدیق ہوگئی۔ یہ مولانا عبدل کی گاڑی تھی۔ کیونکہ گاڑی سے اترنے والا کوئی اور نہیں مولانا عبدل ہی تھے۔ گاڑی سے اترکر مولانا بڑی شان سے اسٹیج کی طرف بڑھے اور جیسے ہی انھوں نے اسٹیج پر قدم رکھا ایک زلزلہ سا آگیا۔ پتا نہیں کیا ہوا پورا اسٹیج کھاس پھوس کی طرح ڈھ گیا، جس میں اسٹیج کی زینت بنے حضرات غائب ہوگئے۔ ادھر مجمع سے بھاگو بھاگو کا شور نشور بلند ہوا۔ پھر جو افرا تفری مچی ہے تو جس کے جدھر سینگ سمائے بھاگ نکلا۔ ایسے میں وہاں میں کیوں ٹکا رہتا؟
اگلی صبح مجھے پتا چلا کہ مولانا کی تصویریں قومی و بین الاقوامی اخبارات میں شائع ہوئی ہیں، لیکن خود مولانا عبدل اسپتال میں ہیں۔ میں جب اسپتال میں ان سے ملا تو بڑے ہشاش بشاش نظر آئے اور قریب ہی پڑے ہوئے اخبار کی طرف اشارہ کیا اور میں نے سر تسلیم خم کر دیا۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ
ماہنامہ ایوان اردو دہلی اور اردو نیٹ جاپان پر شائع شدہ جس کی لنک درج ذیل ہے
شوق بہر حال شوق ہے جس کی تکمیل میں ہر شخص ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے چاہے سر پر چوٹی ہو یا چٹیا۔ پھر مولانا عبدل کیسے پیچھے رہ جاتے۔ لیکن انھیں کیا پتا تھا کہ وہ اس طرح پھنسیں گے کہ نکل ہی نہیں پائیں گے۔
نام تو ان کا عبد المبین تھا لیکن کثرت استعمال کی وجہ سے گھستے گھستے عبدل رہ گیا تھا۔ خنجر تخلص فرماتے تھے۔ اگرچہ کبھی انھیں ایک شعر کہنے کا بھی اتفاق نہیں ہوا تھا مگر شعر و شاعری سے بڑا ’’عجیب قسم‘‘ کا لگاؤ تھا۔ بڑے بڑے شاعروں کے شعر یاد تھے۔ لیکن ایمانداری کی بات یہ تھی کہ کبھی سرقۂ شعر نہیں کرتے تھے۔ جس شاعر کا شعر ہوتا بڑے خلوص سے اس کا نام بھی بتا دیتے۔ ایسے ہی ایک دفعہ کسی مجلس میں شعر و شاعری کی ٹھن گئی۔ اس گلستان شاعری کے سبھی بلبلوں نے اپنے اپنے رنگ میں شاعری کی کاشت شروع کر دی۔ ایک نے گلکاری کی۔
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے وہ پھر لہو کیا ہے
جو ساس ہی کو نہ پیٹے وہ پھر بہو کیا ہے
دوسرے نے پیوند کاری کی۔
بروز حشر میں سیدھا چلا جاؤں گا جنت میں
وہیں سے آدم آئے تھے وہ میرے باپ کا گھر ہے
تیسرے نے کچھ یوں پھلجھڑیاں چھوڑیں۔
اف یہ تیرا تیر نظر، زخمی جگر، جاؤں کدھر
ہے آج سنڈے جس کے سبب چھٹی پر ہیں سب ڈاکٹر
ادھر مولانا عبدل دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہے تھے اور جب ان سے برداشت نہیں ہوا تو ڈپٹ کر بولے۔
درد سر ہوتا ہے بے رنگ نہ فریاد کریں
بلبلیں مجھ سے گلستاں کا سبق یاد کریں
ان کی اس تعلّی کو دیکھ کر مجھ سے بھی نہ رہا گیا اور تڑ سے میں نے کہا ’’ارے آپ کیا کرسکتے ہیں جب کہ خود دوسروں کے اشعار سنایا کرتے ہیں۔‘‘ یہ سن کر مولانا جوش میں آگئے۔ کہنے لگے اس کے جواب میں میر انیس کی ’’غزل‘‘ کے دو شعر سنو!
ایک قطرے کو جو دوں بسط تو قلزم کردوں
بحر مواج فصاحت کا تلاطم کر دوں
ماہ کو مہر کروں ذروں کو انجم کر دوں
گنگ کو ماہر انداز تکلم کردوں
محفل سے واہ واہ کی صدا اٹھی۔ مگر میں نے دھیرے سے مولانا عبدل کے کان میں کہا کہ جناب یہ میر انیس کی غزل کے اشعار نہیں ہیں یہ تو ان کے مرثیہ کے اشعار ہیں۔ ’’تو کیا میر انیس نے اپنا مرثیہ خود لکھا تھا؟‘‘ انھوں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ میں نے کہا ’’میرا مطلب ہے کہ میر انیس مرثیہ نگاری کے لیے مشہور ہیں اور آپ کے سنائے ہوئے یہ دونوں شعر دراصل ان کے لکھے ہوئے ایک مرثیہ کے ہیں۔‘‘ لیکن اب کیا ہوتا تیر تو کمان سے نکل چکا تھا۔ جس کی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے مولانا نے اس کی بڑی پیاری توجیہ کی۔ کہنے لگے ’’ارے تمھیں کیا پتا؟ میر انیس اپنے مراثی کی ابتدا غزل کے اشعار سے کرتے تھے۔ مولانا عبدل کی یہ توجیہ سن کر انگشت بدندان ہونے کی بجائے میں انگشت بہ اذان ہوگیا۔ میں یہ سوچ کر رہ گیا کہ مولانا نے شاعری کا بڑا ’’گہرا‘‘ مطالعہ کیا ہوگا۔
خیر! مولانا عبدل شعر و شاعری کے شوقین تو تھے ہی ساتھ ہی انھیں اپنی تصویر کھینچوا کر اخباروں میں چھپوانے کا شوق بھی کچھ کم نہ تھا۔ ہر وقت اسی کوشش میں رہتے کہ کسی طرح ان کی تصویریں بڑے بڑے اخبارات میں شائع ہو جائیں۔ ایک بار میر باقر نے ان سے کہا: بھئی عبدل! یہ تم نے کیا خبط پال لیا ہے کہ تمھیں بس ایک ہی جنون رہتا ہے کہ کب تمھاری تصویر اخبار میں چھپے؟ مولانا پوری سنجیدگی سے گویا ہوئے: باقر صاحب ایسی بات نہیں کہتے۔ اگر یہ خبط ہے تو پھر آج کے ان شاعروں کے بارے میں کیا کہیے گا جنھیں نذرانوں سے زیادہ مشاعروں کی تصویریں عزیز ہوتی ہیں۔
گورداس پور میں پیدا ہوئے مولانا عبدل جب ملک کی ایک مشہور و معروف درس گاہ سے فارغ التحصیل ہو کر آئے تھے تو بڑے کرو فر سے چلتے۔ انھیں بڑا ’’گمان‘‘ رہتا تھا کہ وہ ایک عظیم الشان درس گاہ سے سند یافتہ ہیں۔ یہاں یہ بحث بے کار ہے کہ ان کی بھی کوئی سند تھی یا نہیں؟ بڑی بے چین طبیعت پائی تھی انھوں نے۔ کسی ایک نقطے پر ٹھہرتے ہی نہیں تھے۔ شروع شروع میں بڑے زور و شور سے اپنے مسلک حق کا پرچار کیا۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب کبھی کسی خانقاہ یا زیارت گاہ کے قریب سے ان کی سائیکل یا رکشہ کا گزر ہوتا تو دل ہی دل میں فوراً توبہ اور تجدید ایمان کرتے اور ناک بھوں اس طرح سکوڑتے جیسے کوئی بدبو سی آ رہی ہو۔
لیکن اس شہر میں ان کے مسلک حق کی دال گلنا تو دور ہانڈی بھی نہیں رکھی جاسکتی تھی۔ اس لیے آہستہ آہستہ وہ سیکولر ہوتے گئے۔ اور پھر ان کے پیٹ میں اس ’’سیکولرازم‘‘ کا درد اس شدت سے اٹھا کہ انھوں نے ’’اتحاد ملت‘‘ کا بڑا زور دار نعرہ مارا۔ مگر ہائے ناکامی! ان کی ایک بھی نہ چلی اور اس میں بھی وہ فیل ہوگئے۔
اخبارات کا مطالعہ کثرت سے کرتے تھے۔ کوئی کام تو تھا نہیں اس لیے اردو اخبارات کے ساتھ ساتھ ہندی اخبارات کی بھی چندی چھڑا کر چاٹ جاتے تھے۔ رہی انگلش! تو انگلش سے انھیں اللہ واسطے کی دشمنی تھی۔ انھیں انگریزوں سے زیادہ انگریزی سے نفرت تھی۔ پتا نہیں اس کے پیچھے کیا اسباب تھے۔ بہرحال ان اخبارات میں بڑے بڑے مذہبی رہنماؤں اور دھارمک پنڈتوں کی تصویریں شائع ہوتی تھیں۔ انھیں کو دیکھ کر ان کے دل میں بھی اخبارات میں تصویریں شائع کرانے کا شوق پیدا ہوا جو آگے چل کر ’’عشق‘‘ کی شکل اختیار کر گیا۔ اور پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایک مہینے کے اندر اندر شہر میں ان کا ’’ڈنکا‘‘ بجنے لگا۔ روز ان کا بیان مع تصویر ضرور چھپتا تھا۔ مگر اس کے لیے انھیں کافی پاپر پیلنے پڑے۔ انھوں نے ایک خانقاہ کے متولی کو پٹایا اور آہستہ آہستہ خانقاہ پر قابض ہوگئے۔ اب اگر ان کی خانقاہ میں آیت کریمہ کا ختم بھی ہوتاتھا تو اخبارات میں اس کی سرخیاں ضرور مل جاتی تھیں وہ بھی مع تصویر۔
پھر تو انھیں چرس جیسا نشہ لگ گیا۔ کوئی موقع ہو یا نہ ہو ایک تصویر ضرور چھپنی چاہیے۔ اگر کبھی کسی مقام پر دیکھتے کہ ان کی تصویر نہیں لی جا رہی ہے تو غول میں جبراً گھسنے کی کوشش کرتے۔ اور تصویر کھنچاتے وقت کیمرے سے اتنے قریب ہوجاتے کہ لگتا جیسے کیمرے میں گھس ہی تو جائیں گے۔
ایک دن میں نے ایک مقامی اخبار میں ان کی تصویر دیکھی ایسا لگ رہا تھا کہ کھجور کا ایک تنا اب گرا کہ تب گرا۔ ان کے تصویر کھنچوانے کے اس جنون نے ان کو بڑا بدنام کیا۔ لیکن ان پر اس کا ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوا بلکہ اس میں اور شدت آگئی۔ کسی نے ان سے ان کی اس بدنامی کا ذکر کیا تو طیش میں آکر کہنے لگے، ’’اسی کا نام تو شہرت اور نیک نامی ہے جسے میرے حاسدین بدنامی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔‘‘ اور پھر انھوں نے مقامی اخبارات سے ترقی کرکے قومی اور بین الاقوامی اخبارات میں پہنچنے کے زینے تلاش کرنے شروع کر دیے۔ اور اس بھنور میں ایسا پھنسے کہ پھنسے ہی رہ گئے۔
دسری طرف ان کی شہرت حدود شہر کو توڑ کر دور دراز علاقوں تک پھیلنے لگی تھی یہاں تک کہ صوبائی اور قومی دارالحکومت تک پہنچ چکی تھی۔ ان کے سلسلے میں لوگوں کے دو طرح کے خیالات تھے۔ کچھ لوگ کہتے کہ یہ مولانا بڑا ہی ناہنجار ہے۔ سستی شہرت بٹورنے کے لیے جھوٹی سچی خبریں اپنی تصویر کے ساتھ خواہ مخواہ شائع کراتا ہے۔ اس گروہ میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ اخبارات کے نامہ نگار اور مدیران بھی تھے۔ جنھوں نے مولانا کو بڑے قریب سے ’’کیمرے‘‘ میں دیکھا تھا۔ خاص طور سے ایڈیٹر حضرات کے پاس جب ان کی کوئی رپورٹ پہنچتی تو وہ زیر لب بڑ بڑاتے کہ"Love Letter" آگیا۔
دوسرے گروہ میں علمائے کرام تھے جو عصر حاضر میں میڈیا کی ضرورتوں کے تحت مولانا کے اس عمل کو اگرچہ لائق تحسین نہیں سمجھتے تھے مگر خاموش حمایت ضرور کرتے تھے۔ مولانا عبدل کو اس کا بڑا فائدہ ہوا۔ اب وہ ملک کی کئی بڑی جمعیتوں اور تنظیموں کے سکریٹری اور جنرل سکریٹری بنا دیے گئے۔ اب انھوں نے تین طرح کے لیٹر پیڈ چھپوائے جن پر رپورٹ لکھ کر بھیجتے تھے۔ ایک لیٹر پیڈ خانقاہ کے متولی کی حیثیت سے (واضح رہے کہ وہ متولی اپنی محنتوں سے بنے تھے) دوسرا متعدد جمعیتوں اور تنظیموں کے سکریٹری اور جنرل سکریٹری کی حیثیت سے۔ اور تیسرا اپنے مادر علمی کے اولڈ بوائز کے صدر اعلیٰ کی حیثیت سے۔ چونکہ اولڈ بوائز والی تنظیم کی تشکیل انھوں نے خود کی تھی اس لیے صدر اعلیٰ سے نیچے رہنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اگرچہ دوسرے عہدوں کا پر ہونا ہنوز باقی تھا۔
اسکااثر ان کی معاشی حالت پر بھی پڑا اور سائیکل چلا چلاکر جوتیاں گھسنے والا آدمی سزوکی اور ٹویرا جیسی مہنگی گاڑیوں میں گھومنے لگا۔ معاشی حالت سدھری تو تن و توش میں بھی سدھار آیا۔ اتنا! کہ اگلی سیٹ پر ان کے اور ڈرائیور کے علاوہ کسی تیسرے کے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔
ابھی ان کی فراغت کے چار ہی سال ہوئے تھے کہ ملک کی سب سے بڑی عید، ’’عام انتخابات‘‘ کا اعلان ہوگیا۔کون نہیں جانتا کہ اس عید کے لیے لیے روزے نہیں رکھے جاتے بلکہ مولانا عبدل کی طرح ایمان دار اور مخلص قسم کے لوگ رمضان کا حصہ اسی مہینے میں کھا پی کر رمضان کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ سیاسی پارٹیاں اپنے انتخابی اشتہار میں جٹ گئیں۔ ’’ایک پارٹی‘‘ کے علاوہ ساری پارٹیاں مسلمانوں سے ہمدردی کا جذبہ جو ان کی ’’ناف‘‘ میں چھپا رہتا ہے ظاہر کرنے لگیں۔ ظاہر ہے اس کے لیے ان کو مسلم قیادت کے چھوٹے تالاب کی بڑی مچھلیوں کو بے خلوص نمستے بھی کہنا پڑا اور مدارس کی بوسیدہ نظر آنے والی دہلیز بھی پھلانگنی پڑی۔ جس کی بڑی بڑی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں۔ جنھیں دیکھ کر مولانا عبدل مچل مچل جاتے اور ان کے پیٹ کا چوہا اور شدت سے اچھل کود مچانے لگتا۔
ایک دن موقع ہاتھ آہی گیا۔ مجھ سے بولے ’’یار تم جبار کو تو جانتے ہی ہوگے۔‘‘ میں نے کہا ہاں کیوں نہیں وہی تو جو گورداس پور میں بھینس چگایا کرتے تھے اور شہر میں مفتی صاحب کہلاتے تھے۔‘‘ پہلے تو ان کے چہرے پر جھلاہٹ کے آثار دکھے پھر پتا نہیں کیا ہوا بڑی مقفی اردو میں بولے ’’اخبار کمر لچکدار کے نامہ نگار اور تصویر کار ذیشان جبار کی بات کر رہا ہوں اے نابکار‘‘ مجھے ان کی ایسی اردو پر بڑا رشک ہوا اور میں نے بڑی عاجزی سے کہا ’’مگر جناب! مجھ نابکار کو ’’تصویر کار‘‘ کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔ انھوں نے فخر سے سینہ تان کر کہا ’’فوٹو گرافر کا اردو ترجمہ تصویر کار ہے۔‘‘ اچھا تو پھر؟ میں نے کہا۔ کہنے لگے ’’اس نے مجھے بتایا ہے کہ آج شام گاندھی اسٹیڈیم میں ایک بہت بڑا سیاسی جلسہ ہونے جا رہا ہے۔ بڑے بڑے نیتا آ رہے ہیں۔ سنا ہے کہ وہ فلمی اداکار بھی آ رہا ہے.... ارے وہی.... کیا نام ہے اس کا.... جو ’’جادو کی جھپی‘‘ دیتا ہے؟ میں نے بڑی لجاجت سے کہا ’’ارے سرکار مجھ خاکسار کو فلمی اداکار سے کیا سرورکار‘‘ اور مسکرا پڑا۔ میری مسکراہٹ پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے مولانا عبدل بولے ’’زیادہ قافیہ پیمائی نہ کرو۔ میں تمھیں بس یہ بتا رہا ہوں کہ اس جلسہ میں مجھے قومی سطح کے اخبارات میں شائع ہونے کا موقع ملنے والا ہے۔‘‘ میں نے بطور تجسس پوچھ لیا ’’وہ کیسے؟‘‘ مگر وہ گول کر گئے اور کچھ بتائے بغیر اٹھ کر چل دیے۔
مولانا عبدل کی یہ بات شام تک میرے ذہن پر سانپ کی طرح پھن کاڑھے چھائی رہی جس کا اثر یہ ہوا کہ شام ہوتے ہی میرے قدم اسٹیڈیم کی طرف اٹھ گئے اور میں ٹھیک وقت پر وہاں پہنچ گیا۔ چونکہ ایک فلمی اداکار بھی تشریف لا رہے تھے اس لیے پنڈال بڑا شاندار لگایا گیاتھا اور سامنے شمال کی جانب بڑے لوگوں کے لیے شاندار اسٹیج۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر پہلے سے ہی ’’جادو کی جھپی‘‘ والے اداکار کو دیکھنے اور سننے کے لیے اپنی اپنی جگہوں پر لہرا رہا تھا۔ جنھیں دیکھ کر میرے ذہن میں ایک بیہودہ خیال آیا کہ اگر مولانا عبدل کی آیت کریمہ میں اتنے ہی لوگ جمع ہو جائیں تو ان کی تو چاندی ہوجائے گی۔
خیر! جلسہ خلاف دستور وقت سے ہی شروع ہوگیا۔ روایتی انداز میں آغاز کے بعد سیاسی ’’چھٹ بھیوں‘‘ کی بڑی لچھے دار اور گرجدار تقریریں ہوئیں۔ جلسہ جب اپنی جوانی کو پہنچا تو ’’جادو کی جھپی‘‘ والے فلمی اداکار کو ڈائس پربلایا گیا۔ پورا مجمع تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ فلم اداکار ہاتھ ہلاتا ہوا ڈائس پر آیا اور ابھی تقریر شروع ہی کی تھی کہ میں نے اسٹیج کے قریب ایک گاڑی رکتی ہوئی دیکھی، جوکچھ کچھ جانی پہچانی سی لگی اور پھر میرے خیال کی تصدیق ہوگئی۔ یہ مولانا عبدل کی گاڑی تھی۔ کیونکہ گاڑی سے اترنے والا کوئی اور نہیں مولانا عبدل ہی تھے۔ گاڑی سے اترکر مولانا بڑی شان سے اسٹیج کی طرف بڑھے اور جیسے ہی انھوں نے اسٹیج پر قدم رکھا ایک زلزلہ سا آگیا۔ پتا نہیں کیا ہوا پورا اسٹیج کھاس پھوس کی طرح ڈھ گیا، جس میں اسٹیج کی زینت بنے حضرات غائب ہوگئے۔ ادھر مجمع سے بھاگو بھاگو کا شور نشور بلند ہوا۔ پھر جو افرا تفری مچی ہے تو جس کے جدھر سینگ سمائے بھاگ نکلا۔ ایسے میں وہاں میں کیوں ٹکا رہتا؟
اگلی صبح مجھے پتا چلا کہ مولانا کی تصویریں قومی و بین الاقوامی اخبارات میں شائع ہوئی ہیں، لیکن خود مولانا عبدل اسپتال میں ہیں۔ میں جب اسپتال میں ان سے ملا تو بڑے ہشاش بشاش نظر آئے اور قریب ہی پڑے ہوئے اخبار کی طرف اشارہ کیا اور میں نے سر تسلیم خم کر دیا۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ
ماہنامہ ایوان اردو دہلی اور اردو نیٹ جاپان پر شائع شدہ جس کی لنک درج ذیل ہے