Showing posts with label مضامین. Show all posts
Showing posts with label مضامین. Show all posts

Monday, 12 November 2018

پریم چند اور منٹو کے افسانوں کی فلم بندی اور صدا بندی: تقابلی مطالعہ 
از طیب فرقانی 
( (26/8/2018 This article was published in Pindar Daily News Paper ,Patna,
courtesy: Kamran Ghani 

آج جب ہم اردو کے فروغ میں فلم اور میڈیا کا کردار پہ غور و فکر کررہے ہیں ایک سوال پوچھا جانا چاہئے کہ الیکٹرانک عہد میں یا سائبر عہد میں فکشن یاقصے کہانیوں کی تحریری شکل کی کیا اہمیت ہے ؟ آج کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ آپ کی پانچ سو صفحے کا ناول یا چار صفحے کا افسانہ پڑھے ؟ فیس بک ، یو ٹیوب ،ٹوئیٹر اور واٹس ایپ کے زمانے میں ان تحریری کہانیوں کی اہمیت کم ہوئی ہے یا نہیں ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ کتابیں پڑھنے کا رجحان کم ہوا ہے ۔ اور جو لوگ کتابیں پڑھتے ہیں ان کے لئے اسی آئی ٹی عہد میں مزید راستے ہم وار کردیے ہیں ۔ اب ہارڈ کاپی کی کتابیں پڑھنے کا رواج کم ہوا ہے لیکن سافٹ کاپی پڑھنے کا رواج بڑھا پے ۔ کیوں کہ سافٹ کا پی آپ کو سوشل میڈیا کے گلیاروں میں بھی دستیاب ہے ۔ بس انگلی کے پوروے کی ایک جنبش ہی کافی ہے ۔ پروفیسر خالد سعید نے اس سلسلے میں ایک اہم بات کہی ہے کہ شعر وکہانی کا رشتہ کسی عہد سے نہیں بلکہ انسانی کی ات سے جڑا ہے ۔ جب تک انسان ہے شعرو کہانیاں لکھی اور کہی جاتی رہیں گی ۔ اسی آئی ٹی عہد میں ہیری پوٹر کی کہانیوں کے لئے لمبی قطار دیکھی گئی ہے ۔ 
منشی پریم چند (پ:۱۸۸۵ ،ف:۱۹۳۶) اور سعادت حسن منٹو (پ:۱۹۱۲،ف:۱۹۵۵) اردو افسانوی ادب کے بے تاج بادشاہ ہیں ۔ ان کی تخلیق کردہ مختصر کہانیاں شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں اور ان کی آج بھی وہی معنویت ہے جو ان کے زمانے میں تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو آج بھی اسی ذوق سے پڑھا جاتا ہے ۔ اور ہر طبقے کے کے لوگوں نے ان کو پڑھا ہے ۔ یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں کہ آج جب ہم ان کے افسانوں کی فلم بندی یا صدا بندی کی بات کررہے ہیں کبھی یہ دونوں خود فلمی دنیا سے منسلک رہے ۔ منٹو نے تو غالب جیسی شاہکار فلم بنائی ۔ پریم چند کے زمانے تک فلم نے اتنی ترقی نہیں کی تھی اس وقت خاموش فلمیں ہی بناکرتی تھیں ۔ پہلی بولتی فلم عالم آرا ۳۱ ۱۹ میں بنی اورپریم چند ۱۹۳۶ میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے ۔ 
خاموش فلموں کے زمانے میں گل بکاؤلی ، ۱۹۲۴ ، اردو کے شیکسپئر آغا حشر کاشمیری کے ڈرامے ’’صید ہوس‘‘ خان بہادر پر اردشیر ایرانی (پ:۱۸۸۶،ف: ۱۹۶۹) نے ۱۹۲۶ میں فلم بنائی تھی ۔ مرزا ہادی رسوا (پ:۱۸۵۷،ف:۱۹۳۱) کے لکھنوی تہذیب کی بہترین عکاسی پیش کرنے والے شاہ کار ناول امراؤ جان اد پر تین فلممیں بنیں ۔ مہندی (۱۹۵۸ ) ، امراؤ جان (۱۹۸۱)ریکھا اور نصیرالدین شاہ کی اداکاری سے سجی اس فلم کے ہدایت کار مظفر علی اور نغمہ نگار گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ شاعر شہریار تھے ۔ فلم کا ایک نغمہ یوں ہے 
دل چیز کیا ہے آپ مری جان لیجئے 
بس ایک بار میرا کہا مان لیجئے 
تیسری فلم اسی امراؤ جان کی ریمیک تھی ۔ جو سنجے لیلا بھنسالی نے ایشوریہ رائے ، شبانہ اعظمی ، ابھییشک بچن اور سنیل شیٹی کی اداکاری میں بنائی تھی ۔ فلم ناقدین کا کہنا ہے کہ بھنسالی اس فلم میں اتنے کامیاب نہ ہوسکے ۔ بھنسالی کو تہذیبی اور نیم تاریخی فلم بنانے کے لئے جانا جاتا ہے ۔ ان کی فلم بلیک ، دیوداس ، رام لیلا ، باجی راؤ مستانی اور پدماوت سبھی نیم تاریخی اور تہذٰیبی فلمیں ہیں ۔ بیسویں صدی کے اہم ترین ہندوستانی فلم ساز ستیہ جیت رے (پ:۱۹۲۱ ، ف:۱۹۹۲ ) نے پریم چند کے افسانہ شطرنج کی بازی پر فلم بنائی تھی ۔ جب کہ چھوٹے پر دے پر سمپورن سنگھ کالرا یعنی گلزار نے پریم چند کی تحریر کے نام سے ان کے افسانوں کی اسکرین پلے اور مکالمے لکھے ۔جنھیں دوردرشن پر نشر کیا گیا ۔ یو ٹیوب میں دور درشن آرکائیوز میں انھیں دیکھا جاسکتا ہے ۔ آل انڈیا ایف ایم ریڈیو سے اپنا کریرشروع کرنے والی مشہور ریڈیو جاکی جو ان دنوں ریڈیو مرچی میں کام کرتی ہیں ، نے منٹو کے افسانوں کو ایک پرانی کہانی کے نام سے صدابند کرنے کی بہترین اور کامیاب کوشش کی ہے ۔ فلم بندی اور صدا بندی میں کیافرق ہے اسے ہم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کیا کسی تخلیق کی فلم بندی ہوبہو سکتی ہے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔افلاطون نے شاعری اور ڈرامہ کو نقل کی نقل کہا تھا ۔ اس اعتبار سے افسانہ نقل کی نقل ہے پھر اس کی فلم بندی نقل کی نقل کی نقل ہے ؟ یا نہیں ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عمل تخلیقی حقائق کی باز تخلیق ہے انگریزی میں کہیں تو Recreation of recreated realities ہیں ۔ جب کسی ایسی تخلیق کی فلم بندی ہوتی ہے جو فلم کے لئے نہیں لکھی گئی ہے تو اس میں لا محالہ کچھ نہ کچھ تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں ۔ کیوں کہ فلم سے محظوظ ہونے کے لئے خواندگی لازم نہیں ۔ لیکن فکشن کے لئے خواندگی ضروری ہے ۔ تحریری فکشن میں سب کچھ الفاظ ہی ہوتے ہیں ۔ اور تخلیق کار ان الفاظ میں جادو بھرتا ہے ۔ جب کہ فلم میں الفاظ صرف مکالمے کے طور پہ استعمال ہوتے ہیں اور فلم ساز کو کہانی آگے بڑھانے کے لئے مناظر فلمانے پرتے ہیں ۔ اس طرح الفاظ کا وہ رس جو تحریری کہانیوں میں ہوتا اکثر فلموں سے ناپید ہوجاتا ہے ۔ دو تین مثالوں سے سمجھیں ۔ 

’’ دونو عیش کے بندے تھے مگر بے غیرت نہ تھے ۔قومی دلیری ان میں عنقا تھی مگر اتی دلیری ان میں کوٹ کوٹ کے بھری تھی ۔ ۔۔۔تلواریں چمکیں ۔چھپاچھپ آواز آئی اور دنوں زخم کھاکر گر پڑے ۔دونوں دونوں نے وہیں تڑپ تڑپ کر جان دی ۔ ۔اپنے بادشاہ کے لئے جن کی آنکھوں سے ایک بوند آنسو نہ گری ۔ انھیں دو آدمیوں نے شطرنج کے وزیر کے لئے اپنی گردنیں کٹادیں ۔ ‘‘ (شطرنج کی بازی )
’’ادھر حضور سنگھ کی آنکھوں میں موتیا بند اتر آیا اور وہ ہمیشہ چارپائی پر بیٹھا کانوں سے دیکھنے کی کوشش کرتا ۔ ‘‘ (ایک چادر میلی سی ) 
ستیہ جیت رے نے اس انجام کو ہی بدل دیا ۔ ان کی فلم شطرنج کی بازی میں تلواروں کی جگہ طمنچہ دکھایا گیا ہے ۔ پریم چند کے میر و میرزا دونوں مر جاتے ہیں جب کہ ستیہ جیت رے نے دونوں کو زندہ رکھا ہے ۔ میں نے جب دوردرشن کی وہ سیریز دیکھی جس کا اسکرین پلے گلزار نے لکھا ہے تو شروع میں مجھے دھچکا لگا اور میں نے سوچا کہ شاید وہ کہانی میں بھول گیا ہوں ۔ میں نے پریم چند کی ان کہانیوں کو نکال کر دوبار ہ پڑھا تب مجھے سمجھ میں آیا کہ دراصل کہانیوں کی فلم بندی کی وجہ سے ان میں تبدیلیاں کی گئی ہیں ۔ 
اب آئیے آر جے صائمہ کی صدا بندی کی طرف ۔آر جے صائمہ نے منٹو کی کہانیوں کی صدا بندی کی ہے ۔ریڈیو پر تو اسے آپ صرف آواز کے ذریعے ہی سن سکتے ہیں ۔ ہاں آواز میں تخلیقیت پیدا کرنے بھر پور کوشش کی گئی ہے ۔ بیچ بیچ میں دوسری آوازیں بھی شامل کی گئی ہیں ۔ ریڈیو تو آواز وں کا ہی مخزن ہے ۔ لیکن یوٹیوب پر ریڈیو مرچی کے آرکائیوز میں جو کہانیاں آپ سنیں گے ان میں سمعی اثرات کے ساتھ بصری اثرات ڈالنے کی بھی کوشش کی گئی ہے ۔ فرق یہ ہے کہ کہانی آوازوں کے ذریعے آگے بڑھتی رہتی ہے اور ساتھ ہی اسکرین پر کارٹونی تصاویر چمکتی رہتی ہیں ۔ اس سے کہانی کے مناظر کی بھی تخلیق ہوتی ہے ۔ اور وہ الفاظ جو منٹو نے لکھے ہیں آپ انھیں ہو بہو سن سکتے ہیں ۔ میر ے نزدیک یہ کہانیوں کی پیش کش کا یہ طریقہ زیادہ معنی خیز ہے ۔ اسے پوری طرح سمجھنا ہو تو دوسردرشن کی وہ فلمیں بھی دیکھیں جو منٹو کی کہانیوں پر فلمائی گئیں ہیں ۔ چاہے وہ کالی شلوار ہو یا دوسری فلمیں ۔ 

Thursday, 25 December 2014

پاکستانی مصنف راشد اشرف کی دو مزید کتابیں منظر عام پر

(طیب فرقانی ،بیورو چیف بصیرت آن لائن )
میرے ای میل ان باکس میں ہر ہفتے گوگل کی جانب سے ایک برقی خط موصول ہوتا ہے جس میں کچھ یوں لکھا ہوتا ہے ’’ طیب یہ ہے وہ سب کچھ جو چھوٹ گیا راشد اشرف کی جانب سے ‘‘ ۔گوگل ٹوٹی پھوٹی اردو میں ترجمہ کرکے ہمیں یہ بتاتا ہے کہ راشد اشرف نے گوگل پر کسی نئی دستاویز کااشتراک کیا ہے اورآپ نے ابھی تک اسے پڑھا نہیں ہے ۔راشد اشرف ہر ہفتے پاکستان کے پرانی کتابوں کے اتوار بازا رجاتے ہیں اور وہاں سے قدیم و جدید قیمتی کتابیں ڈھونڈ کر لاتے ہیں ۔قیمتی سے میری مراد اہم اور معیاری ہے ۔اگرچہ راشد اشرف قیمت بھی کچھ نہ کچھ چکاتے ہی ہوں گے ۔ان کے اتوار بازا جانے کی ایک طویل داستان ہے جسے وہ بسا اوقات اردو نیٹ جاپان اور ہماری ویب کے ذریعے ہم تک پہنچاتے رہتے ہیں ۔لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہے جتنی آسانی سے میں آپ کو بتا رہا ہوں ۔اتوار بازا جانا ،کتابوں کے ڈھیر میں اہم کتاب تلاش کرنااور پھر قیمتی کتابوں کو اسکین کرکے اسکرائب پر اپ لوڈ کرنا صبرآزما اور مشقت بھرا کام ہے جو وہ کسی صلے کی تمنا کیے بغیر کرتے جا رہے ہیں ۔ایک انداز ے کے مطابق اب تک انھوں تقریباً ڈیڑھ لاکھ صفحات اسکین کرکے اسکرائب پر اپ لوڈ کر دیا ہے ۔ہندوستان میں ریختہ ڈاٹ کام نے قدیم و جدید کتابوں کو اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کا بے حد اہم کارنامہ انجام دیا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے لیکن راشد اشرف کی اپ لوڈ کی ہوئی کتابیں آپ پی ڈی ایف فائل میں ڈاؤن لوڈ بھی کرسکتے ہیں اور اپنے پاس محفوظ بھی رکھ سکتے ہیں ۔جب کہ ریختہ آپ کو ڈاؤن لوڈ کرنے کی سہولت فراہم نہیں کرتی ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ راشد اشرف ایسی کوئی کتاب اپ لوٖڈ نہیں کرسکتے جس سے کاپی رائٹ کا مسئلہ پیدا ہو۔ان کی اپ لوڈ کی ہوئی کتابیں آج سے تقریبا پچاس ساٹھ سال پرانی ہیں جن کے مصنفین اب بقید حیات نہیں ہیں ۔
اس طویل تمہید کے بعد آئیے اب رخ کرتے ہیں راشد اشرف کی طرف ۔راشدا شرف پیشے سے انجینئر ہیں اور کراچی پاکستان میں رہتے ہیں ۔وہیں ان کی پیدائش ہوئی ۔عمرکا ابتدائی حصہ حیدر آباد سندھ میں گزرا۔اور پھر وہ کراچی ہی آگئے ۔اپنی پیشہ ورانہ زندگی سے فرصت نکا ل کر وہ اردو زبان و ادب کو انٹر نیٹ سے جوڑنے میں اپنا رول بخوبی نبھارہے ہیں ۔ان کا خاص میدان نثر ہے ۔انھوں نے ابن صفی کو پڑھا بھی ،ان پر کتابیں بھی لکھی اور مرتب کی ہیں اور اپنی تحریروں میں ابن صفی کی پیروی بھی کرتے نظر آتے ہیں ۔تحریروں میں طنز و مزاح اور انوکھے اسلوب پیدا کرنا شاید انھوں نے ابن صفی سے ہی سیکھا ہے ۔انھوں نے اب تک دو کتابیں ابن صفی کے فن اور شخصیت پر لکھی اور مرتب کی ہیں ۔’’ ابن صفی کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا ‘‘ اور ابن صفی ۔شخصیت اور فن ‘‘ نے ہندو پاک میں ابن صفی کے چاہنے والوں کا دل موہ لیا ہے ۔اس کے بعد ان کی ایک اور کتاب مولاناعبد السلام نیازی پر آئی ۔اورا ب دوکتابیں ’’ چراغ حسن حسرت ‘‘ اور طرز بیاں اور ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی ہیں ۔یہ کتابیں اٹلانٹس پبلیکشنز نے شائع کی ہے ۔جن کا اجرا کراچی بین الاقومی کتابی میلے کے موقعے پر پاکستان کے صاحبان علم و فن کے ہاتھوں عمل میں آیا ۔اس موقع پرجناب امین ترمذی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’راشد اشرف نے کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو دوسال میں پانچ کتابیں لکھ ڈالیں ۔اور اس میں اس بات کا خاص خیال رکھا کہ محمود غزنوی کی طرح صرف حملوں کی گنتی میں اضافہ نہ ہوتا رہے بلکہ فتوحات پر بھی نظر رکھی جائے ۔‘‘پروفیسر رئیس فاطمہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے راشد اشرف کی کتابوں کا تعارف پیش کیا اور راشد اشرف کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا ’’ایسے عالم میں راشد اشرف کا دم غنیمت جانئے جو قحط الرجال کے اس عہد میں برابر اپنے اکابر اور باکمالوں کو یاد رکھے ہوئے ہیں اور دوسروں تک ان کا فیض جاریہ بھی پہنچاتے رہتے ہیں ۔راشد اشرف خوش رہو اور یہی کام کرتے رہو۔‘‘ اس موقعے پر جنا ب عقیل عباس جعفری ،جناب معین الدین عقیل اور معراج جامی بھی شریک ہوئے اور اظہار خیال کیا ۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ چراغ حسن ایک ادبی اور صحافتی شخصیت تھے جن پر یہ پہلی کتاب ہے ۔راشد اشرف نے اس کتاب میں ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والے مضامین کو مرتب و مولف کیا ہے ۔جب کہ ’’ طرز بیا ں اور ‘‘ میں خود نوشتوں پر تبصرے ،تحقیقی مقالہ جات اوراتوار بازا ر سے ملنے والی کتابوں کے احوال شامل ہیں ۔راشد اشرف کو خود نوشتوں ،خاکوں ،اور سفر ناموں سے خاص لگاؤ ہے اور یہ ان کا خاص میدان ہے ۔غیر افسانوی ادب کی تحقیق میں یہ بڑا کارنامہ ہے ۔ہماری دعا ہے کہ وہ اپنا کام یوں ہی جاری رکھیں ۔کام کرنے والوں کو وقت ان کا صلہ دیر سے ہی سہی دیتا ضرور ہے ۔
 

Saturday, 17 August 2013

سوشل میڈیا:ادب،سیاست اور سماج

میڈیا ایک ذریعہ ہے رابطے کا۔آج کے جمہوری سماج میں اس کی اہمیت جمہوریت کے چوتھے ستون کے طور پر مسلم ہے۔میڈیا کسی خاص ادارے یا حکومت کے تحت ہوتی ہے جس کا کام غیر جانبداری کے ساتھ کسی خبر کو عوام و خواص تک پہنچاناہے ۔لیکن جب سے اس نے خود کو ایک بزنس کے طور پر متعارف کروایاہے تب سے کوئی بھی دولت مند شخص یا طبقہ اپنے نظریے کے تحت میڈیا کا غلط استعمال کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے۔یہیں سے ’’پیڈ نیوز‘‘ کی اصطلاح نے جنم لیاہے۔اور میڈیا نے خبر رسانی سے آگے بڑھ کر تجزیہ اورتبصرہ کرتے ہوئے ذہن سازی کی ڈگر اپنالی۔اور خبروں کو چھپانے اور بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا رجحان عام ہوا۔ہماری قومی الیکٹرانک میڈیا نے تو بہت سے معاملوں میں ٹرایل کورٹ کا رول بھی نبھایا ہے،جس پہ تنقیدیں ہوتی رہی ہیں ۔اس کے باوصف آج بھی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی اہمیت برقرار ہے ۔آج بھی اس سے استفادہ کیا جارہاہے اور کیاجاتا رہے گا جب تک کہ دنیا بھر میں اس کے خلاف کوئی بڑا انقلاب رونما نہ ہو۔
اس انقلاب کی پہلی سیڑھی کے طور پر سوشل میڈیا نے اپنا وجود منوایا ۔سوشل میڈیا میں ٹوئیٹر اور فیس بک کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔مارک زکر برگ نے فروری ۴۰۰۲ میں ہارورڈ یونیورسٹی میں اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ جب فیس بک کی بنیاد رکھی تھی تو اسے بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ آگے چل کر یہ کس قدر تہلکہ مچاسکتا ہے۔مارک نے یہ ویب سائٹ صرف ہارورڈ یونیورسٹی کے طلبا میں ربط وتعلق بنائے رکھنے کے لئے بنائی تھی ۔لیکن نو سال کی اس مختصر مدت میں فیس بک نے میڈیا کے ہر فارمیٹ کو متاثر کیاہے۔’’اباؤٹ ڈاٹ کام‘‘ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق ستمبر ۲۰۱۱ تک فیس بک کے فعال یوزرس کی تعداد ۷۵۰ملین تھی۔دنیا بھر میں ہر مذہب اور ہر طبقے کے لوگ نہ صرف اس کے شیدائی ہیں بلکہ بہت سے لوگ اسے نشے کی طرح استعمال کرتے ہیں ۔
ٹیکنالوجی نے انسان کو جتنے فوائد سے مالامال کیاہے اس سے انکار کی گنجائش نہیں ۔لیکن اس کے جانبی مضرات(سایڈ افیکٹ)سے بھی انکار نہیں کیا سکتا۔ہماری اس گفتگو میں فیس بک کو محوری حیثیت حاصل ہے۔فیس بک نے ہمیں ایک دوسرے کو جاننے اور ایک دوسرے سے بہ سرعت معلومات کے تبادلے میں بے حد آسانی فراہم کی ہے۔ہندوستان میں فیس بک یوزرس کی موجودہ صحیح تعداد ہمیں نہیں معلوم ،لیکن شہر وں سے دیہاتوں تک شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جس نے فیس بک کانام نہ سنا ہو۔نوجوانوں کے لئے اس میں خاص کشش ہے ۔ایسے میں فیس بک نے ادب اور اہل ادب کو بھی متاثر کیا ہے۔اردو ،ہندی اور ہندوستان کی دوسری زبانوں کے ادبا اور شعراکی بڑی جماعت فیس بک کا بہتر استعمال کررہی ہے۔بیرون ملک اردو ہندی کے ادبا اور شعرا سے ہم فیس بک کے ذریعے ہی متعارف ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ فیس بک ادبی تحقیق کے ایک نئے وسیلے کے طور پر ابھراہے۔لیکن کیا فیس بک پر پوسٹ کیاجانے والا ادب اپنے اندر وہی لطف،چاشنی اور صحت رکھتا ہے جو مطبوعہ کتب ورسائل اور اخبارات میں ملتی ہے ؟ اس سوال کا جوا ب تھوڑا مشکل ہے۔فیس بک کے ادب میں بہ نسبت مطبوعہ تخلیقات کے غلطیوں کا امکان زیادہ رہتاہے۔اس لئے کہ یہاں بسا اوقت بے احتیاطی راہ پاجاتی ہے۔یہاں کوئی ایڈیٹر نہیں ہوتاہے۔پھر یہ کہ فیس بک پر نہ مکمل کتاب پوسٹ کی جاسکتی ہے اور نہ ہی پڑھی جاسکتی ہے۔بعض دفعہ تو تمام پوسٹ کو دیکھ پانا بھی مشکل ہوتاہے۔اس کے باوجود ادب کے فروغ میں اس نے بڑا اہم رول اداکیا ہے۔
سوشل میڈیا ،خاص طور سے فیس بک کی بڑھتی اہمیت نے اہل سیاست کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔۲۰۱۴ میں ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات کے پیش نظر تو اس میں مزید تیزی آگئی ہے ۔اگلا وزیر اعظم کون ہوگا :مودی یا راہل؟اس طرح کے سینکڑوں پوسٹ ہماری نظر سے گذرتے ہیں ۔پھر اس پہ کمنٹ کا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔کوئی حمایت کرتا ہے اور کوئی مخالفت ۔لیکن جس بات کی طرف سے اہل دانش کو تشویش ہے وہ ہے کمنٹ کی زبان۔راہل یا مودی ،کانگریس یا بی جے پی کی حمایت و مخالفت میں جس طرح کی زبان استعمال کی جارہی ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھی یونیورسٹی ایسی کیوں نہیں ہے جو دنیا کی دو سو یونیورسٹیوں کی صف میں شامل کی جاسکے ۔خاص طور سے نیوز چینلوں کی خبری پوسٹ یا سوال پر جس طرح کی کمنٹ کی جارہی ہے اس کو پڑھنے کے بعد ایک مہذب آدمی شرم سے پانی پانی ہوجا تا ہے ۔اس قدر بے ہودہ مغلظات بکے جاتے ہیں کہ خداکی پناہ!مودی جی کے حمایتیوں نے تو گویا بے ہودہ زبان استعمال کرنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔پھر جواب اور جواب الجواب کا سلسلہ چلتا ہے ۔پھر ہندو مسلم مذاہب کی توہین کی جاتی ہے ۔جواب در جواب میں جس معقولیت اور معروضیت کا تقاضا کیا جاتا ہے فیس بک پر وہ ندارد ہے ۔دوستوں کی فہرست سے کسی بدتمیز کو تو ہٹایا جاسکتا ہے لیکن نیوز چینلوں کی پوسٹ سے کسی کمنٹ کو حذف کرنا عام آدمی کے بس میں نہیں ہے ۔اور نیوز چینل والے بے ہودہ زبان استعمال کی گئی کمنٹ کو اس وقت تک حذف نہیں کرتے جب تک اسکی شکایت نہ کی جائے۔شکایت کے بعد بھی اس کی ضمانت نہیں ہے کہ اسے حذف بھی کر دیا جائے گا ۔بے شمار فرضی ناموں سے بنائے گئے فیس بکی صفحوں کا بے دریغ غلط استعمال ہورہا ہے ۔جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے بھڑکاؤ پوسٹ کیے جارہے ہیں ۔انقلاب کے ایڈیٹر نارتھ جناب شکیل شمسی نے اس بات کی طرف پہلے بھی توجہ دلائی ہے۔ایسے میں نوجوانوں کو خاص طور سے ہشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔جذبات میں نہ آکر اور کسی بھی طرح کی بدتمیزی سے گریز کرتے ہوئے بھر پور معقولیت اور معروضیت سے ایسے ملک دشمن عناصر کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ورنہ فرقہ پرستی کی زہریلی سیا ست کرنے والوں نے ملک کو تباہ کرنے کا جو ایجنڈا بنا رکھا ہے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے ۔اس سلسلے میں فیس بک پر ’’مسلم برادر ہوڈ‘‘ نام کی کمیونٹی اگلے ماہ کی ۲۶ تاریخ کو فیس بک پرگندی زبان استعمال کرنے والوں کے خلاف ملک بھر میں پر امن مظاہرہ کرنے کا اہتمام کر رہی ہے ۔ایسے میں ہندوستانی نوجوانوں کو ملک میں امن و امان قائم رکھنے اور گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت کرتے ہوئے ہر زہریلی سیاست کا منہ توڑ جواب دینا ہوگا اور خود کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ نانک وچشتی کے عظیم ملک ہندوستان کے تعلیم یافتہ اور مہذب افراد ہیں ۔

طیب فرقانی 
ریسرچ اسکالر ،شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی