Saturday, 14 March 2015

بہار میں اردو اساتذہ کی نششتیں پر کرنے میں ایس سی ایس ٹی کی محفوظ سیٹیں رکاوٹ

(طیب فرقانی بیورو چیف بصیرت آن لائن )
بہارمیں نئے سرے سے اساتذہ کی تقرری کے عمل کا آغا ز ہوچکا ہے ۔حالاں کہ اس میں کئی طرح کی خامیاں ہیں ۔لیکن شاید حکومت بڑی جلدی میں ہے اور وہ ان خامیوں کو دور کیے بغیر ہی تقرری کا عمل مکمل کر لینا چاہتی ہے ۔واضح ہو کہ یہ آخری موقع ہے جب کہ غیر تربیت یافتہ اساتذہ کی بحالی ممکن ہوسکے گی ۔مارچ کے بعد غیر تربیت یافتہ اساتذہ کی بحالی ممکن نہیں ہے ۔اس سلسلے میں خالی نششتوں کا ٹھیک سے جائزہ لیے بغیر ہی تقرری کی جارہی ہے ۔خبروں کے مطابق صرف پٹنہ ضلع میں ہی ۱۲۰۰ سو سے زائد اردو اساتذہ کی نششتیں خالی پڑی ہیں لیکن حکومت ان سب کو پر کرنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ انتظامیہ کی لاپرواہی کا یہ حال ہے کہ تقرری کے عمل کا شروع ہوجانے کے باوجود ایک درجن کے قریب ضلعوں میں روسٹر تیار نہ ہوسکا ہے ۔دوسری طرف اردو اور بنگلہ ٹی ای ٹی پاس امیدواروں نے ریاست میں دھرنا مظاہرہ شروع کردیا ہے ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اردو اساتذہ کی نصف کے قریب نششتیں ایسی ذاتوں کے لئے مختص ہیں کہ ان کا پر ہونا ممکن معلوم نہیں ہوتا ۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ اردو پڑھنے والوں میں اب ۹۹ یا سو فیصد مسلمان ہی ہیں ۔اور مسلمانوں میں ایس سی ایس ٹی کوئی ذات نہیں ہوتی ۔سوائے جموں کشمیر کے ۔ ایسے میں نصف کے قریب اردو کی نششتیں ایس سی ایس ٹی کے لئے مختص کرنا کیا معنی رکھتا ہے ۔اگر قانونی طور سے مختص کرنا ہی ہے تو اردو کے ساتھ کچھ خصوصی رعایت دی جاسکتی ہے ۔مثلاً نششتیں مشروط طریقے سے محفوظ کی جائیں ۔جیسے یہ کہ کوئی سیٹ ایس سی ایس ٹی کے لئے مخصوص ہے لیکن اگر اس سیٹ پر کوئی دعوے دار نہ ہوتو عام کوٹے سے اس پر بحالی کی جائے ۔ میرے سامنے ریاست کے چند ضلعوں کے روسٹر ہیں جن کے اعداد شماری پیش کیے جاتے ہیں ۔ضلع مظفرپور میں ابتدائی سطح کے اسکولوں میں مجموعی طور سے اردو کے لئے اکیس (۲۱) نششتیں ایس سی کے لئے جب کہ دو نششتیں ایس ٹی کے لئے محفوظ ہیں ۔مظفر پور نگر نگم میں تو اردو کی ایک ہی سیٹ ہے وہ بھی ایس سی کے لئے محفوظ ہے ۔ اردو میں ایس ٹی کے لئے نششتیں محفوظ کرنا تو نہایت مضحکہ خیز ہے ۔ اسی طرح سمستی پور ضلع میں ثانوی سطح کے اسکولوں میں مجموعی طور سے اردو کی نو (۹) سیٹیں ایس سی کے لئے جب کہ ایک سیٹ ایس ٹی کے لئے محفوظ ہے ۔اور اعلا ثانوی سطح کے اسکولوں میں دو سیٹیں ایس سی کے لئے محفوظ ہیں ۔ باقی اضلاع کا بھی یہی حال ہے ۔ نہیں معلوم نششتوں کے محفوظ کرنے کا ان کے پاس کیا پیمانہ ہے لیکن جو بھی پیمانہ ہے یہ ضرور ہے کہ وہ کھوٹا ہے ۔ اتنی بڑی تعداد میں اردو کی سیٹیں اگر محفوظ کی جائیں گی تو اردو اساتذہ کی تقرری میں رکاوٹ یقینی ہے ۔ حکومت اتنی جلدی میں ہے کہ وہ روسٹر پر اگر نظر ثانی کا حکم دے بھی دے تو نتیجہ جلد آنے والا نہیں لگتا ۔ تو کیا حکومت کی منشا پر سوالیہ نشان لگایاجائے ؟

مولانا آزاد کالج کولکاتا میں طلبا کے ادبی سیمینار کاکامیاب انعقاد

(طیب فرقانی ؍بیورو چیف بصیرت آن لائن )
طلبا ؍ طالبات کی ادبی تربیت اور ان میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت کو پروان چڑھانے کی غرض سے مولانا آزاد کالج کولکاتا میں ایک سیمینا ر کا انعقاد کیا گیا جس کا عنوان ’’ طلبا کا ادبی سیمینار ‘‘ تھا ۔ اس سیمینا ر کے تحت مولانا آزاد کالج کے شعبہ اردو کے پوسٹ گریجوئٹ طلبا طالبات کو مقالات پڑھنے کا موقع فراہم کیا گیا ۔ مغربی بنگال کے کسی کالج کے شعبہ اردو کا یہ واحد سیمنار ہے جو طلبا ؍طالبات کی ادبی تربیت کے لئے ان کے اساتذہ اور صدر شعبہ ڈاکٹر دبیر احمدکی سرپرستی میں منعقد کیا گیا ۔ سیمینار کا آغاز اپنی روایت کے مطابق محمد قیصر آزاد (ایم اے فورتھ سیمسٹر ) کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔مقالے پڑھنے والے طلبا ؍طالبات میں شیخ محمد ظہور عالم (تنقید کیا ہے اور اس کا مفہوم ) ،شیخ محمد افروز عالم ( مولانا محمد علی جوہر کی حیات و خدمات ) عرفانہ تبسم (محمد حسین آزاد کی تنقید نگاری ) محمد مدثر حسین (شبلی نعمانی کی حیات و خدمات ) شام تھے ۔ان کے علاوہ طالب علم تسلیم رضا نے’ اردو اد ب میں پریم چند کا مقام،‘نیلوفر شاداب نے ’کلیم الدین احمد : بحیثیت تنقید نگار ‘ محمد قیصر آزاد نے ’مشرقی تنقید کا آغاز و ارتقا ‘ کے عنوانات سے اپنے مقالے پڑھے ۔ مقالات کے اختتام پر شعبے کے اساتذہ نے مقالوں پر اپنے تاثرات پیش کیے اور طلبا کی خوبیوں ،خامیوں کی نشاندہی کی ۔ خاص طور سے شیخ محمد ظہور عالم کا مقالہ اپنے مواد اور اسلوب قرات کی وجہ سے سراہا گیا ۔ سیمینار کی صدارت پروفیسر شہنواز شبلی نے کی اور نظامت کے فرائض شعبے کے استاد ڈاکٹر محمد منظر حسین نے ادا کیے ۔
دوسری طرف شہر کولکاتا میں ہی مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے مولانا آزاد آڈیٹوریم میں گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ شاعر شہر یار کی شاعری پر ایک سیمنار کا انعقاد بعنوان ’شہر یا ر عہد و شاعری ‘ کے عنوان سے ہوا ۔ فتح پور ولیج روڈ ایور گرین ویلفیئر سوسائٹی کے زیر اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے اشتراک سے یہ یک روزہ قومی سیمینار منعقد ہوا ۔ پروفیسر شمیم انور اور ڈاکٹر خواجہ نسیم اختر کی سربراہی میں دوسیشن میں منعقد ہوئے اس سیمینا میں مہمان خصوصی کے طور پر مغربی بنگال حکومت میں شہری ترقیات کے وزیر جناب فرہاد حکیم مدعو تھے ۔ ڈاکٹر عبد الوارث نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا ۔ مقالہ نگاروں میں محمد منہاج الدین ،پٹنہ ( شہر یار بحیثیت نظم گو ) ،شاہد اقبال، کولاکاتا (شہر یار کے فلمی نغموں میں ادبیت )،اصغر شمیم ،کولکاتا (شہر یا ر کی غزلوں میں لفظیات کے در و بست )، ڈاکٹر محمد زاہد ،کولکاتا ( شہر یا ر : عہد اور شاعری )،ڈاکٹر محمد کاظم ،نئی دہلی (کلاسیکی روایت اور جدید فکر کا شاعر :شہر یار )، ڈاکٹر درخشان زریں ،کولکاتا (شہر یار کی شاعری میں خواب اور حقیقت کا تصادم )، ڈاکٹر مجیب شہزار ،علی گڑھ ( جدید لب و لہجے کے عہد آشنا شاعر شہر یا ر ) ،ڈاکٹر افتخار احمد ،کولکاتا (شہر یا رکا شعری اسلوب )،اور ڈاکٹر دبیر احمد ،کولکاتا ( شہر یا ر کی شاعری : اسم اعظم کی روشنی میں ) مدعو تھے ۔ سیمینار شام تقریباً سات بجے تک کامیابی سے ہمکنار رہا ۔ اور مغربی بنگال کی ادبی روایت مستحکم ہوتی رہی ۔

اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے زیر اہتمام لودھن ہائی اسکول میں کوئز مقابلے کا انعقاد

شمالی دیناج پور(طیب فرقانی بیورو چیف بصیرت آن لائن )
تعلیمی میدان میں طلبا اور اور طالبات کی حوصلہ افزائی کے لئے ہندوستان کے مایہ ناز بینک اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے لودھن برانچ (شمالی دیناج پور ،مغربی بنگال )نے آج یہاں ایک کوئز مقابلے کا انعقاد کیا ۔یہ کوئز مقابلہ گوالپوکھر لودھن کے ہائی اسکول کے میدان میں منعقد ہوا ۔جس میں اسکول کی دسویں جماعت کی طالبات نے پورے جوش و خرو ش کے ساتھ حصہ لیا ۔اس موقع پر بینک کے مینیجر کشور کمار گھوش کے ساتھ اسکول کے صدر مدرس ماسٹر شبیر احسن بہ نفس نفیس موجود رہے ۔پروگرام کے آغازکے بعدبینک مینیجرکشور کمار گھوش نے اپنے مختصر بیان میں اس طرح کے مقابلے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے پروگرام سے نہ صرف طلبا طالبات کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ زندگی میں آگے بڑھنے میں بڑی مدد ملتی ہے ۔مقابلے میں پانچ ٹیمیں شامل ہوئی تھیں ۔ہر ٹیم میں پانچ امیدوا ر شریک تھے ۔ یہ مقابلہ تین مرحلوں میں ہوا ۔پہلے مرحلے میں معلومات عامہ سے متعلق سوالات پوچھے گئے ۔دوسرے اور تیسرے مرحلے میں اردو کی نصابی کتاب سے الفاظ و معانی اور اشعار پر مبنی سوالات پوچھے گئے ۔شریک طالبات کے مظاہرے نے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا ۔جس خوب صورتی سے طالبات نے اشعار پڑھے اور جوابات دئے وہ مسرت انگیز لمحات تھے ۔اسی سے متاثر ہوکر بعد کو مینیجر موصوف نے کہا کہ جس طرح کا مقابہ یہاں دیکھنے کو ملا اس کے سامنے ان کی طرف سے دیے گئے انعامات ہیچ ہیں ۔انہوں نے وعدہ کیا کہ دوبارہ اگر اس طرح کا کوئی پروگرام ہوتا ہے تو وہ اس سے بہتر انعامات پیش کریں گے ۔ واضح ہو کہ اول ،دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والی ٹیم کو بینک کی جانب سے ٹرافیاں پیش کی گئیں ۔یہ انعامات مرزا غالب ٹیم ،ملالہ ٹیم اور پروین شاکر ٹیم کو بالترتیب اول ،دوم اور سوم انعام کے طور پر پیش کیے گئے ۔اس موقع پر صدر مدرس ماسٹر شبیر احسن نے کہا کہ انعامات حاصل کرنا بڑی بات ہے لیکن جن کو انعامات نہیں ملے وہ بھی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے حوصلہ کیا اور اپنے لیے آئندہ کی راہ ہموار کی ۔مذکورہ انعامات کے علاوہ اسکول کی طرف سے انفرادی حوصلہ افزاانعامات بھی دیے گئے ۔یہ انعام حاصل کرنے والی طالبات میں صبیحہ ،شمیمہ ،فرحت ،مہناز اور خوشنما تھیں ۔ جنہوں نے اپنی ٹیم میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔اس مقابلے کی دو خاص باتیں رہیں ۔ایک تو یہ کہ یہ پورا مقابلہ اردو میں ہوا۔اورزیادہ تر سوالات اردو ہی کے نصاب پر مشتمل رہے ۔جس سے اردو کی ایک خاص فضا قائم ہوئی ۔دوسری خاص بات یہ رہی کہ طلباطالبات میں کافی جوش و خروش دیکھا گیا ۔جو مقابلے کی کامیابی کی دلیل تھی ۔آخر میں ناظم مقابلہ نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا ۔اور تمام حاضرین نے طعام بھی تناول کیا ۔اسکول کے اساتذہ بھی اس موقع پر مستعد رہے ۔

مولانا آزاد کالج کولکاتا میں طرحی مشاعرے کا کامیاب انعقاد

(طیب فرقانی بیورو چیف بصیرت آن لائن )
اردو کے مشہور شاعر اور سر زمین بنگال سے خصوصی تعلق رکھنے والے رضا علی وحشت کے مصرعے ’’ہنگامہء بہار کی رخصت ہے کیا کروں ‘‘ اور ’’ صد شکر مزاج اپنا امیرانہ نہیں ہے ‘‘پر یہاں کولکاتا میں واقع مولانا آزاد پی جی کالج کے شعبہ اردو میں متذکرہ شاعر سے منسوب ہال ،رضا علی وحشت ہال میں ایک شاندار طرحی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا ۔اسی خاص موقعے پر شعبے سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے والے طلبا طالبات کو اسناد اور ٹاپرز کو گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا ۔واضح ہو کہ شعبے میں ایم اے (اردو ) سظح کی تعلیم کا آغاز سنہ ۲۰۰۹ میں ہوا تھا اور سنہ ۲۰۱۱ سے اب تک کے فارغین کو اسی خاص موقعے پر اسناد اور گولڈ میڈل سے نواز کر پروگرام کو یادگار بنا دیا گیا ۔طرحی مشاعرے کا آغاز شعبے کے استاد محمد منظر حسین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔افتتاحی تقریر کالج کی پرنسپل محترمہ ممتا رے نے کی ۔مشاعرے کی صدارت کولکاتا کے مشہور شاعر اور دانشور شمیم قیصر نے کی جب کہ نظامت کے فرائض شعبے کے استاد عاصم شہنواز شبلی نے اپنے مخصوص انداز میں انجام دئے ۔اس موقعے پر ترنمول کانگریس پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ جناب ادریس علی ایڈوکیٹ نے بھی شرکت کی ۔چوں کہ موصوف کی مادری زبان بنگلہ ہے لیکن اردو کی شیرینی ان کو متاثر کرتی ہے ۔اسی لئے اس طرحی مشاعرے سے متاثر ہوکر انھوں نے اعلان کیا کہ وہ جنوری میں اسی طرح کا ایک مشاعرہ منعقد کریں گے ۔جسے لوگوں نے سراہا ۔مشاعرے کے انتظام و انصرام اور اسے کامیاب بنانے میں کالج کے طلبا یونین کا بھی بھرپور تعاون رہا ۔اس موقع پر ارم انصاری اور نسیم فائق کی طنزیہ و مذاحیہ غزلوں کو خاص طور پر پسند کیا گیا ۔تصاویر میں شعرا اور شاعرات کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ آخر میں محمد منظر حسین نے اظہا رتشکر پیش کیا ۔

شمالی دیناج پور میں اردو کالج کا قیام ! حقیقت یا فسانہ ؟

شمالی دیناج پور (طیب فرقانی بصیرت آن لائن )
مغربی بنگال کے ضلع شمالی دیناج پور میں پچھلے کئی مہینوں سے یہ بات گردش کر رہی ہے کہ یہاں جلد ہی ایک اردو کالج کا قیام ممکن ہے ۔اہل اردو اس خبر سے جہاں بے حد خوش ہیں وہیں ان کے ذہنوں میں سیاسی وعدوں کے پورا نہ ہونے کا شبہ بھی ہے ۔در اصل ممتا بنرجی نے جس طرح اردو کے تعلق سے اعلانات کیے ہیں اور کچھ اقدامات بھی کئے ہیں اس کی وجہ سے مغربی بنگال میں اہل اردو پوری طرح سے ان کے ساتھ ہیں اور انھیں امید ہے کہ ممتا بنرجی کی قیادت میں اردو کے ساتھ وہ رویہ نہیں دہرایا جائے گا جو پچھلی حکومت نے روا رکھا تھا ۔شمالی دیناج پور مغربی بنگال کا ایک ایسا ضلع ہے جو اطراف کے ضلعوں میں تنہا اردو کا علاقہ ہے ۔اس کی کئی وجہیں ہیں ۔مغربی بنگال اپنے محل وقوع کے اعتبار سے شمال اور جنوب دو حصوں میں بنٹا ہوا ہے ۔شمال کے علاقے میں سات ضلعے ہیں جس میں شمالی دیناج پور تنہا اردو کا علاقہ ہے ۔ شمال و جنوب کو یہی علاقہ جوڑتا ہے ۔ورنہ بنگلہ دیش بننے کی وجہ سے بنگال کے یہ دونوں علاقے آپس میں مربوط نہیں تھے ۔شمالی دیناج پور کا کچھ حصہ بہار سے کاٹ کر بنگال میں شامل کیا گیا ہے ۔اس طرح اس علاقے میں نہ صرف یہ کہ اردو والوں کی تعداد کثیر ہے بلکہ یہ مسلم اکثریتی علاقہ بھی ہے ۔یہاں اردو میڈیم اسکولوں کی بڑی تعداد ہے ۔لیکن ثانوی درجات تک اردو میڈیم سے پڑھائی کرنے کے بعد طلبا کے سامنے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اعلا تعلیم کے لئے کہاں جائیں ۔زیادہ تر طلبا بہار کے کالجوں کا رخ کرتے ہیں ۔جہاں انھیں ہندی میڈیم سے سابقہ پڑتا ہے ۔اگر وہ کولکاتا جائیں تو معاشی پس ماندگی کی وجہ سے رہائش وتعلیم کا خرچ وہ برداشت نہیں کرسکتے ۔ایسے میں بڑی الجھنیں اور مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔جس کی وجہ سے بہت سے طلبا یا تو شروع سے ہی بنگلہ میڈیم لے لیتے ہیں یا پھر بیچ میں ہی اپنی تعلیم روک دیتے ہیں ۔اس لئے یہاں ایک اردو کالج کی بڑی شدت سے ضرورت محسوس کی جاتی ہے جو ان طلبا کے مسائل کا حل کرے ۔پچھلے دنوں کانگریس چھوڑ کر ترنمول میں شامل ہوئے گوال پوکھربلاک کے ایم ایل اے غلام ربانی صاحب نے یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی ممتا بنرجی سے بات ہوئی ہے اور وہ اس بات پر راضی ہیں کہ گوال پوکھر بلاک میں ایک اردو کالج کا قیام کیا جائے گا ۔یہ خبر سن کر لوگوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ پڑی تھی ۔واضح ہو کہ اسی ضلع سے متصل ضلع دارجلنگ میں ہندی کالج موجود ہے ۔ایسے میں لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر ان کے علاقے میں اردو کالج قائم ہوجاتا ہے تو ان کے بچوں کو در در بھٹکنا نہیں پڑے گا ۔لیکن سیاسی وعدے کتنی آسانی سے بھلا دیے جاتے ہیں اس سے ہم سب واقف ہیں ۔خاص طور سے مسلمانوں سے کیے ہوئے وعدے کتنے پورے ہوئے ہیں وہ سارا ہندوستان جانتا ہے ۔ایسے میں اردو کالج کے قیام میں تاخیر سے لوگوں میں بے چینی پھیل رہی ہے ۔پہلے کہا جارہا تھا کہ کالج کے لئے زمین کا انتظام کیا جارہا ہے اور جلد ہی کالج قائم ہوجائے گا لیکن ابھی کئی روز پہلے جناب ایم ایل اے غلام ربانی صاحب نے اساتذہ کی ایک میٹینگ میں یہ بیان دیا کہ اس سلسلے میں ممتا بنرجی نے کہا ہے کہ ابھی کالج کے قیام کے لیے پیسوں کی کمی ہے ۔اس طرح دیکھیں تو لگتا نہیں ہے کہ یہاں اردو کالج کا قیام حقیقت کا روپ اتنی آسانی سے لے لے گا۔یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست سے اٹھ کر اردو کے تحفظ و بقا کے لئے ایک آواز ہوکر شمالی دیناج پور میں اردو کالج کے قیام کے لئے تخریک چلائی جائے ۔لیکن سوال یہی ہے کہ ایسا کرے گا کون ؟ بایا ں محاذ اردو دشمنی کے لئے مشہور ہے ۔اور بی جے پی سے یہ امید کی ہی نہیں جا سکتی ۔اب رہی ترنمول کانگریس تو غالب یہ شعر یا د رکھنا چاہئے کہ
ترے وعدے پہ جئیں ہم تو یہ جان چھوٹ جانا
کہ خوشی سے مرنہ جاتے جو اعتبار ہوتا

مڈڈے میل کے سوداگروں نے اسکول کی زمین کا بھی سودا کر ڈالا

شمالی دیناج پور ( طیب فرقانی بیورو چیف بصیرت آن لائن )
بنگلہ دیش کی سرحد سے قریب شمالی دیناج پور ضلع کے کیچک ٹولہ ہائی اسکول کی زمین کا خود اسکول کے صدر مدرس اور اسکول انتظامیہ کے طمع پسند عناصر کے ذریعے سوداکیے جانے کا ایک سنسنی خیز معاملہ سامنے آیا ہے ۔اب تک مڈ ڈے میل کے پیسوں کے لئے اسکول کے صدر مدرس اور اسکول انتظامیہ کمیٹی کے عہدیداروں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا رہا ہے لیکن طمع پسندی کی انتہا نے اسکول کی زمین کو غیر قانونی طور سے بیچ دینے سے بھی باز نہیں رکھا ۔ تفصیل کے مطابق کیچک ٹولہ ہائی اسکول کے صدر مدر س سبھاش چندر بسواس اور انتظامیہ کمیٹی کے سیکریٹری محمد علیم الدین اور دوسرے ممبران کی ملی بھگت سے اسکول کی خالی پڑی اتقریباً چھے کٹھے کی راضی کو ایک غیر قانی ریزولیوشن کے ذریعے فرخت کردیا گیا ۔اور یہ کام بڑی خاموشی سے کیا گیا ۔اس میں خاندان نوازی بھی کی گئی ۔معاملہ سرخیوں میں تب آیا جب کہ خریدار نے زمین پر قبضہ کرنا چاہا ۔اسکول انتظامیہ کمیٹی کے سابق ممبر عبدالسبحان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس کے خلاف آواز اٹھائی تو لوگوں کو اصلیت کا علم ہوسکا ۔اور لوگ بھڑک گئے ۔بھڑکے ہوئے لوگوں نے صدر مدرس کی جم کر پٹائی کی ۔جس کی وجہ سے معامہ طول پکڑگیا ہے اور ابھی تک کوئی حل سامنے نہیں آیا ہے ۔جب کہ مار کھانے کے بع صدر مدرس نے اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اسکول کی زمین لوٹا دے گا اور اپنی غلطی کے ازالے کے لئے جرمانہ بھی ادا کرے گا ۔دوسری طرف اس معاملے کو لے کرسیاسی جوڑ توڑ اور قانونی چارہ جوئی کا دروازہ بھی کھل گیا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔

سوالناموں پر سوال

شمالی دیناج پور ( طیب فرقانی ؍ بیورو چیف بصیرت آن لائن )
ہر سال کی طرح اس سال بھی ریاست مغربی بنگال میں سالانہ امتحان اور ٹسٹ کا آغاز ہوچکا ہے ۔اسکولوں میں معمول سے زیادہ بھیڑ بھاڑ دیکھی جارہی ہے ۔کیوں کہ ان دنوں اسکولوں میں امتحان کی وجہ سے طلبا طالبات کی صد فی صد حاضری درج کی جاتی ہے ۔جب کہ سال بھر اسکولوں سے غائب رہنے والے طلبا طالبات بھی امتحانات و ٹسٹ میں حصہ لینے کے لئے اسکولوں کی زیارت کر رہے ہوتے ہیں ۔تعلیمی معیار کے ساتھ جو کھلواڑ سال بھر روا رکھا جاتا ہے وہ تو اپنی جگہ قابل غور اور قابل افسوس ہے ہی ،امتحانوں کے دوران طلبا طالبات کو دئے جارہے سوال ناموں پر بھی سیاست اور حکومت کی بے توجہی کے اثرات صاف دیکھے جاسکتے ہیں ۔یہاں کا رنگ ہی جدا ہے ۔یہاں سوال نامے تعلیمی بورڈ کے بجائے اساتذہ کی تنظیمیں بناتی ہیں ۔پچھلی حکومت تک تو صرف سی پی ایم پارٹی سے جڑے اسا تذہ کی تنظیم (آل بنگال ٹیچر ایسوسی ایشن ) یا کانگریس پارٹی سے متعلق ٹیچرس ایسوسی ایشن ہی سوالنامے بناتی تھی ۔لیکن اس بار سے ترنمول کانگریس کی ٹیچرس ایسوسی ایشن نے بھی اس میدان میں قدم رکھ دیا ہے ۔یہ تنظیمیں اپنے اپنے حساب سے سوالنامے بناکر اسکولوں کو بھیجتی ہیں ۔جس اسکول کا صدر مدرس جس پارٹی کا ہوتا ہے اس اسکول میں اسی پارٹی کی اساتذہ تنظیم کا بنایا ہوا سوا ل نامہ دیا جاتا ہے ۔ایسے میں سوال ناموں میں غلطیاں تو ہوتی ہیں، ان کو من مانے ڈھنگ سے بنایا جاتا ہے ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ ابھی تک اردو میڈیم اسکولوں کے طلبا کو آٹھویں جماعت کے بعد انگلش میں سوال نامہ دیا جاتا ہے ۔جب کہ وہ سال بھر اردو میڈیم میں پڑھائی کرتے ہیں ۔یہ عجیب و غریب منطق سمجھ سے باہر ہے کہ دوسرے میڈیم کے طلبا اپنی زبان میں سوالنامے حل کرتے ہیں لیکن اردو والوں کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے ۔نویں اور گیارہویں جماعت کے طلبا کو اسکول کے سالانہ امتحان میں اردو زبان میں سوال نامہ نہیں ملتا ۔جب کہ اسی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے بنگلہ میڈیم کے طلبا کو بنگلہ میں سوال نامہ دیا جاتا ہے ۔ہندی کا تو اس سے بھی بر احال رہا ہے ۔اس بار کئی اسکولوں میں ہندی میڈیم کے سوالنامے سرے سے آئے ہی نہیں ۔ایسے بچوں نے بس اپنی جوابی کاپی پر ہندی میں کچھ بھی لکھ دیا اور کام بن گیا ۔اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ریاست میں تعلیم کے تعلق سے کتنی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ۔شمالی دیناج پورمیں زیادہ تر اسکول تینوں میڈیم میں تعلیم دیتے ہیں ۔ایسے میں ہر میڈیم کے طلبا کے لئے الگ الگ قانون بنانا یا اپنی طرف سے نافذکرنا کہاں کا انصاف ہوگا ؟ یہ سوال بہت اہم ہے ۔صرف بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اردو میں آٹھویں جماعت تک کے سوالنامے اس قدر بھدے انداز میں تیار کیے گئے ہیں کہ ان کو پڑھ پانا بھی مشکل ہورہا ہے ۔یہاں ساتویں جماعت کے ایک سوالنامے کا عکس منسلک کیا جاتا ہے ۔جس میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ سوالنامہ ہاتھ سے لکھ کر اور عکس بنوا کر تیار کیا گیا ہے جس کا فونٹ اس قدر چھوٹا ہے کہ ٹھیک سے پڑھ پانا مشکل ہے ۔اس پر طرہ یہ کہ املے کی فاش غلطیاں بھی اس میں روا رکھی گئی ہیں اور سوالنامے کو فریش بھی نہیں کیا گیا ہے ۔ش کو س اور آسمان کو اسمان لکھا گیا ہے ۔چھوٹے بچے کس طرح انھیں حل کریں گے یہ بھی ایک سوال ہے ۔اور اس سوال کا جواب کون دے گا یہ بھی ایک سوال ہے ۔کیوں کہ تعلیمی بورڈ یہ سوال نامے بناتا ہی نہیں ۔ہونا تو یہ چاہئے کہ بورڈ ہی اپنی نگرانی میں سوالنامے تیار کرائے اور اور انھیں تمام اسکولوں میں بھیجے ۔اس طرح سنجیدگی سے سوالنامے تیار بھی ہوں گے اور وقت پر انصاف کے ساتھ سب کو دست یا ب بھی ہوں گے ۔یہاں ایک اہم سوال اردو طلبا نے اور بھی اٹھایا ہے کہ سال بھر جب ان کی ا ردو کی کتاب بھیجی ہی نہیں گئی تو وہ کس کتاب کا امتحان دیں ؟ مسئلہ یہ ہے کہ پورا سال ختم ہوگیا اور اردو کی کتابیں اب بھی اسکولوں میں دست یاب نہ ہوسکیں ہیں ۔اب تو اگلا سیشن شروع ہو جائے گا ۔ ایسے میں ریاست مغربی بنگال میں تعلیمی صورت حال کا اللہ ہی مالک ہے ۔