Saturday, 14 March 2015

سوالناموں پر سوال

شمالی دیناج پور ( طیب فرقانی ؍ بیورو چیف بصیرت آن لائن )
ہر سال کی طرح اس سال بھی ریاست مغربی بنگال میں سالانہ امتحان اور ٹسٹ کا آغاز ہوچکا ہے ۔اسکولوں میں معمول سے زیادہ بھیڑ بھاڑ دیکھی جارہی ہے ۔کیوں کہ ان دنوں اسکولوں میں امتحان کی وجہ سے طلبا طالبات کی صد فی صد حاضری درج کی جاتی ہے ۔جب کہ سال بھر اسکولوں سے غائب رہنے والے طلبا طالبات بھی امتحانات و ٹسٹ میں حصہ لینے کے لئے اسکولوں کی زیارت کر رہے ہوتے ہیں ۔تعلیمی معیار کے ساتھ جو کھلواڑ سال بھر روا رکھا جاتا ہے وہ تو اپنی جگہ قابل غور اور قابل افسوس ہے ہی ،امتحانوں کے دوران طلبا طالبات کو دئے جارہے سوال ناموں پر بھی سیاست اور حکومت کی بے توجہی کے اثرات صاف دیکھے جاسکتے ہیں ۔یہاں کا رنگ ہی جدا ہے ۔یہاں سوال نامے تعلیمی بورڈ کے بجائے اساتذہ کی تنظیمیں بناتی ہیں ۔پچھلی حکومت تک تو صرف سی پی ایم پارٹی سے جڑے اسا تذہ کی تنظیم (آل بنگال ٹیچر ایسوسی ایشن ) یا کانگریس پارٹی سے متعلق ٹیچرس ایسوسی ایشن ہی سوالنامے بناتی تھی ۔لیکن اس بار سے ترنمول کانگریس کی ٹیچرس ایسوسی ایشن نے بھی اس میدان میں قدم رکھ دیا ہے ۔یہ تنظیمیں اپنے اپنے حساب سے سوالنامے بناکر اسکولوں کو بھیجتی ہیں ۔جس اسکول کا صدر مدرس جس پارٹی کا ہوتا ہے اس اسکول میں اسی پارٹی کی اساتذہ تنظیم کا بنایا ہوا سوا ل نامہ دیا جاتا ہے ۔ایسے میں سوال ناموں میں غلطیاں تو ہوتی ہیں، ان کو من مانے ڈھنگ سے بنایا جاتا ہے ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ ابھی تک اردو میڈیم اسکولوں کے طلبا کو آٹھویں جماعت کے بعد انگلش میں سوال نامہ دیا جاتا ہے ۔جب کہ وہ سال بھر اردو میڈیم میں پڑھائی کرتے ہیں ۔یہ عجیب و غریب منطق سمجھ سے باہر ہے کہ دوسرے میڈیم کے طلبا اپنی زبان میں سوالنامے حل کرتے ہیں لیکن اردو والوں کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے ۔نویں اور گیارہویں جماعت کے طلبا کو اسکول کے سالانہ امتحان میں اردو زبان میں سوال نامہ نہیں ملتا ۔جب کہ اسی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے بنگلہ میڈیم کے طلبا کو بنگلہ میں سوال نامہ دیا جاتا ہے ۔ہندی کا تو اس سے بھی بر احال رہا ہے ۔اس بار کئی اسکولوں میں ہندی میڈیم کے سوالنامے سرے سے آئے ہی نہیں ۔ایسے بچوں نے بس اپنی جوابی کاپی پر ہندی میں کچھ بھی لکھ دیا اور کام بن گیا ۔اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ریاست میں تعلیم کے تعلق سے کتنی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ۔شمالی دیناج پورمیں زیادہ تر اسکول تینوں میڈیم میں تعلیم دیتے ہیں ۔ایسے میں ہر میڈیم کے طلبا کے لئے الگ الگ قانون بنانا یا اپنی طرف سے نافذکرنا کہاں کا انصاف ہوگا ؟ یہ سوال بہت اہم ہے ۔صرف بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اردو میں آٹھویں جماعت تک کے سوالنامے اس قدر بھدے انداز میں تیار کیے گئے ہیں کہ ان کو پڑھ پانا بھی مشکل ہورہا ہے ۔یہاں ساتویں جماعت کے ایک سوالنامے کا عکس منسلک کیا جاتا ہے ۔جس میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ سوالنامہ ہاتھ سے لکھ کر اور عکس بنوا کر تیار کیا گیا ہے جس کا فونٹ اس قدر چھوٹا ہے کہ ٹھیک سے پڑھ پانا مشکل ہے ۔اس پر طرہ یہ کہ املے کی فاش غلطیاں بھی اس میں روا رکھی گئی ہیں اور سوالنامے کو فریش بھی نہیں کیا گیا ہے ۔ش کو س اور آسمان کو اسمان لکھا گیا ہے ۔چھوٹے بچے کس طرح انھیں حل کریں گے یہ بھی ایک سوال ہے ۔اور اس سوال کا جواب کون دے گا یہ بھی ایک سوال ہے ۔کیوں کہ تعلیمی بورڈ یہ سوال نامے بناتا ہی نہیں ۔ہونا تو یہ چاہئے کہ بورڈ ہی اپنی نگرانی میں سوالنامے تیار کرائے اور اور انھیں تمام اسکولوں میں بھیجے ۔اس طرح سنجیدگی سے سوالنامے تیار بھی ہوں گے اور وقت پر انصاف کے ساتھ سب کو دست یا ب بھی ہوں گے ۔یہاں ایک اہم سوال اردو طلبا نے اور بھی اٹھایا ہے کہ سال بھر جب ان کی ا ردو کی کتاب بھیجی ہی نہیں گئی تو وہ کس کتاب کا امتحان دیں ؟ مسئلہ یہ ہے کہ پورا سال ختم ہوگیا اور اردو کی کتابیں اب بھی اسکولوں میں دست یاب نہ ہوسکیں ہیں ۔اب تو اگلا سیشن شروع ہو جائے گا ۔ ایسے میں ریاست مغربی بنگال میں تعلیمی صورت حال کا اللہ ہی مالک ہے ۔

No comments:

Post a Comment

اچھے تبصرے کے لئے ہمیشہ شکر گزار