شمالی دیناج پور (طیب فرقانی بصیرت آن لائن )
مغربی بنگال کے ضلع شمالی دیناج پور میں پچھلے کئی مہینوں سے یہ بات گردش کر رہی ہے کہ یہاں جلد ہی ایک اردو کالج کا قیام ممکن ہے ۔اہل اردو اس خبر سے جہاں بے حد خوش ہیں وہیں ان کے ذہنوں میں سیاسی وعدوں کے پورا نہ ہونے کا شبہ بھی ہے ۔در اصل ممتا بنرجی نے جس طرح اردو کے تعلق سے اعلانات کیے ہیں اور کچھ اقدامات بھی کئے ہیں اس کی وجہ سے مغربی بنگال میں اہل اردو پوری طرح سے ان کے ساتھ ہیں اور انھیں امید ہے کہ ممتا بنرجی کی قیادت میں اردو کے ساتھ وہ رویہ نہیں دہرایا جائے گا جو پچھلی حکومت نے روا رکھا تھا ۔شمالی دیناج پور مغربی بنگال کا ایک ایسا ضلع ہے جو اطراف کے ضلعوں میں تنہا اردو کا علاقہ ہے ۔اس کی کئی وجہیں ہیں ۔مغربی بنگال اپنے محل وقوع کے اعتبار سے شمال اور جنوب دو حصوں میں بنٹا ہوا ہے ۔شمال کے علاقے میں سات ضلعے ہیں جس میں شمالی دیناج پور تنہا اردو کا علاقہ ہے ۔ شمال و جنوب کو یہی علاقہ جوڑتا ہے ۔ورنہ بنگلہ دیش بننے کی وجہ سے بنگال کے یہ دونوں علاقے آپس میں مربوط نہیں تھے ۔شمالی دیناج پور کا کچھ حصہ بہار سے کاٹ کر بنگال میں شامل کیا گیا ہے ۔اس طرح اس علاقے میں نہ صرف یہ کہ اردو والوں کی تعداد کثیر ہے بلکہ یہ مسلم اکثریتی علاقہ بھی ہے ۔یہاں اردو میڈیم اسکولوں کی بڑی تعداد ہے ۔لیکن ثانوی درجات تک اردو میڈیم سے پڑھائی کرنے کے بعد طلبا کے سامنے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اعلا تعلیم کے لئے کہاں جائیں ۔زیادہ تر طلبا بہار کے کالجوں کا رخ کرتے ہیں ۔جہاں انھیں ہندی میڈیم سے سابقہ پڑتا ہے ۔اگر وہ کولکاتا جائیں تو معاشی پس ماندگی کی وجہ سے رہائش وتعلیم کا خرچ وہ برداشت نہیں کرسکتے ۔ایسے میں بڑی الجھنیں اور مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔جس کی وجہ سے بہت سے طلبا یا تو شروع سے ہی بنگلہ میڈیم لے لیتے ہیں یا پھر بیچ میں ہی اپنی تعلیم روک دیتے ہیں ۔اس لئے یہاں ایک اردو کالج کی بڑی شدت سے ضرورت محسوس کی جاتی ہے جو ان طلبا کے مسائل کا حل کرے ۔پچھلے دنوں کانگریس چھوڑ کر ترنمول میں شامل ہوئے گوال پوکھربلاک کے ایم ایل اے غلام ربانی صاحب نے یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی ممتا بنرجی سے بات ہوئی ہے اور وہ اس بات پر راضی ہیں کہ گوال پوکھر بلاک میں ایک اردو کالج کا قیام کیا جائے گا ۔یہ خبر سن کر لوگوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ پڑی تھی ۔واضح ہو کہ اسی ضلع سے متصل ضلع دارجلنگ میں ہندی کالج موجود ہے ۔ایسے میں لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر ان کے علاقے میں اردو کالج قائم ہوجاتا ہے تو ان کے بچوں کو در در بھٹکنا نہیں پڑے گا ۔لیکن سیاسی وعدے کتنی آسانی سے بھلا دیے جاتے ہیں اس سے ہم سب واقف ہیں ۔خاص طور سے مسلمانوں سے کیے ہوئے وعدے کتنے پورے ہوئے ہیں وہ سارا ہندوستان جانتا ہے ۔ایسے میں اردو کالج کے قیام میں تاخیر سے لوگوں میں بے چینی پھیل رہی ہے ۔پہلے کہا جارہا تھا کہ کالج کے لئے زمین کا انتظام کیا جارہا ہے اور جلد ہی کالج قائم ہوجائے گا لیکن ابھی کئی روز پہلے جناب ایم ایل اے غلام ربانی صاحب نے اساتذہ کی ایک میٹینگ میں یہ بیان دیا کہ اس سلسلے میں ممتا بنرجی نے کہا ہے کہ ابھی کالج کے قیام کے لیے پیسوں کی کمی ہے ۔اس طرح دیکھیں تو لگتا نہیں ہے کہ یہاں اردو کالج کا قیام حقیقت کا روپ اتنی آسانی سے لے لے گا۔یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست سے اٹھ کر اردو کے تحفظ و بقا کے لئے ایک آواز ہوکر شمالی دیناج پور میں اردو کالج کے قیام کے لئے تخریک چلائی جائے ۔لیکن سوال یہی ہے کہ ایسا کرے گا کون ؟ بایا ں محاذ اردو دشمنی کے لئے مشہور ہے ۔اور بی جے پی سے یہ امید کی ہی نہیں جا سکتی ۔اب رہی ترنمول کانگریس تو غالب یہ شعر یا د رکھنا چاہئے کہ
ترے وعدے پہ جئیں ہم تو یہ جان چھوٹ جانا
کہ خوشی سے مرنہ جاتے جو اعتبار ہوتا
مغربی بنگال کے ضلع شمالی دیناج پور میں پچھلے کئی مہینوں سے یہ بات گردش کر رہی ہے کہ یہاں جلد ہی ایک اردو کالج کا قیام ممکن ہے ۔اہل اردو اس خبر سے جہاں بے حد خوش ہیں وہیں ان کے ذہنوں میں سیاسی وعدوں کے پورا نہ ہونے کا شبہ بھی ہے ۔در اصل ممتا بنرجی نے جس طرح اردو کے تعلق سے اعلانات کیے ہیں اور کچھ اقدامات بھی کئے ہیں اس کی وجہ سے مغربی بنگال میں اہل اردو پوری طرح سے ان کے ساتھ ہیں اور انھیں امید ہے کہ ممتا بنرجی کی قیادت میں اردو کے ساتھ وہ رویہ نہیں دہرایا جائے گا جو پچھلی حکومت نے روا رکھا تھا ۔شمالی دیناج پور مغربی بنگال کا ایک ایسا ضلع ہے جو اطراف کے ضلعوں میں تنہا اردو کا علاقہ ہے ۔اس کی کئی وجہیں ہیں ۔مغربی بنگال اپنے محل وقوع کے اعتبار سے شمال اور جنوب دو حصوں میں بنٹا ہوا ہے ۔شمال کے علاقے میں سات ضلعے ہیں جس میں شمالی دیناج پور تنہا اردو کا علاقہ ہے ۔ شمال و جنوب کو یہی علاقہ جوڑتا ہے ۔ورنہ بنگلہ دیش بننے کی وجہ سے بنگال کے یہ دونوں علاقے آپس میں مربوط نہیں تھے ۔شمالی دیناج پور کا کچھ حصہ بہار سے کاٹ کر بنگال میں شامل کیا گیا ہے ۔اس طرح اس علاقے میں نہ صرف یہ کہ اردو والوں کی تعداد کثیر ہے بلکہ یہ مسلم اکثریتی علاقہ بھی ہے ۔یہاں اردو میڈیم اسکولوں کی بڑی تعداد ہے ۔لیکن ثانوی درجات تک اردو میڈیم سے پڑھائی کرنے کے بعد طلبا کے سامنے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اعلا تعلیم کے لئے کہاں جائیں ۔زیادہ تر طلبا بہار کے کالجوں کا رخ کرتے ہیں ۔جہاں انھیں ہندی میڈیم سے سابقہ پڑتا ہے ۔اگر وہ کولکاتا جائیں تو معاشی پس ماندگی کی وجہ سے رہائش وتعلیم کا خرچ وہ برداشت نہیں کرسکتے ۔ایسے میں بڑی الجھنیں اور مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔جس کی وجہ سے بہت سے طلبا یا تو شروع سے ہی بنگلہ میڈیم لے لیتے ہیں یا پھر بیچ میں ہی اپنی تعلیم روک دیتے ہیں ۔اس لئے یہاں ایک اردو کالج کی بڑی شدت سے ضرورت محسوس کی جاتی ہے جو ان طلبا کے مسائل کا حل کرے ۔پچھلے دنوں کانگریس چھوڑ کر ترنمول میں شامل ہوئے گوال پوکھربلاک کے ایم ایل اے غلام ربانی صاحب نے یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی ممتا بنرجی سے بات ہوئی ہے اور وہ اس بات پر راضی ہیں کہ گوال پوکھر بلاک میں ایک اردو کالج کا قیام کیا جائے گا ۔یہ خبر سن کر لوگوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ پڑی تھی ۔واضح ہو کہ اسی ضلع سے متصل ضلع دارجلنگ میں ہندی کالج موجود ہے ۔ایسے میں لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر ان کے علاقے میں اردو کالج قائم ہوجاتا ہے تو ان کے بچوں کو در در بھٹکنا نہیں پڑے گا ۔لیکن سیاسی وعدے کتنی آسانی سے بھلا دیے جاتے ہیں اس سے ہم سب واقف ہیں ۔خاص طور سے مسلمانوں سے کیے ہوئے وعدے کتنے پورے ہوئے ہیں وہ سارا ہندوستان جانتا ہے ۔ایسے میں اردو کالج کے قیام میں تاخیر سے لوگوں میں بے چینی پھیل رہی ہے ۔پہلے کہا جارہا تھا کہ کالج کے لئے زمین کا انتظام کیا جارہا ہے اور جلد ہی کالج قائم ہوجائے گا لیکن ابھی کئی روز پہلے جناب ایم ایل اے غلام ربانی صاحب نے اساتذہ کی ایک میٹینگ میں یہ بیان دیا کہ اس سلسلے میں ممتا بنرجی نے کہا ہے کہ ابھی کالج کے قیام کے لیے پیسوں کی کمی ہے ۔اس طرح دیکھیں تو لگتا نہیں ہے کہ یہاں اردو کالج کا قیام حقیقت کا روپ اتنی آسانی سے لے لے گا۔یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست سے اٹھ کر اردو کے تحفظ و بقا کے لئے ایک آواز ہوکر شمالی دیناج پور میں اردو کالج کے قیام کے لئے تخریک چلائی جائے ۔لیکن سوال یہی ہے کہ ایسا کرے گا کون ؟ بایا ں محاذ اردو دشمنی کے لئے مشہور ہے ۔اور بی جے پی سے یہ امید کی ہی نہیں جا سکتی ۔اب رہی ترنمول کانگریس تو غالب یہ شعر یا د رکھنا چاہئے کہ
ترے وعدے پہ جئیں ہم تو یہ جان چھوٹ جانا
کہ خوشی سے مرنہ جاتے جو اعتبار ہوتا
No comments:
Post a Comment
اچھے تبصرے کے لئے ہمیشہ شکر گزار