(طیب فرقانی ،بیورو چیف بصیرت آن لائن حلقہ شمالی دیناج پور )
انتخابی موسم نے جہاں دوسرے شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا ہے وہیں تعلیم پر بہت برا اثر ڈالتے رہے ہیں ۔مغربی بنگال میں ٹیچر اہلیتی امتحانات کو اسی زاویے سے دیکھا جا رہا ہے ۔واضح ہو کہ مغربی بنگال میں موجودہ حکومت نے پرائمری ، اور ثانوی اسکولوں میں اساتذہ کی بحالی کے لئے بالتر تیب ۸؍فروری ۲۰۱۴ اور ۲۹؍جنوری ۲۰۱۴ کو نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا ۔جس کے مطابق پرائمری سطح کے لئے ۳۰؍مارچ ۲۰۱۴ اور ثانوی سطح کے لئے ۹؍مارچ ۲۰۱۴ کو اہلیتی امتحانات ہونے تھے ۔ان خبروں کے آنے کے بعدمعلمیکے امیدوار امتحانات کی تیاری میں جٹ گئے ۔ہزاروں لڑکوں اور لڑکیوں نے اپنے گھر سے دور کرایے کا مکان لے کر تیاری شروع کر دی ۔لیکن بد قسمتی سے ثانوی سطح کے اہلیتی امتحانات سے ٹھیک چار روز قبل تاریخ میں یہ کہہ کے ترمیم کر دی گئی کہ حالات ناساز گار تھے ۔اور اب اگلی تاریخ ۲۹؍ مارچ ۲۰۱۴ کی ہوگی ۔یہاں تک تو سب ٹھیک ٹھاک تھا ۔لیکن اسے حکومت کی لاپرواہ کہیں یا سوچی سمجھی حرکت کہ اب اس تاریخ میں بھی لوگ اہلیتی امتحانات نہیں دے سکیں گے ۔اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ دے بھی پائیں گے یا نہیں ۔چوں کہ قومی کونسل برائے تربیت اساتذہ (این سی ٹی ) کی ہدایات کے مطابق ۳۱؍ مارچ ۲۰۱۴ کے بعد غیر تربیت یافتہ اساتذہ کی تقرری نہیں ہوسکے گی ۔اور چوں کہ اس بار منعقد ہورہے امتحانات میں غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے لئے بھی اسامیاں نکالی گئی ہیں ۔اب سوال یہ تھا کہ کیا ۲۹؍ مارچ کو منعقد ہورہے اہلیتی امتحانات این سی ٹی کی ہدایات کو مد نظر رکھ کر لیے جا رہے ہیں یا نہیں اسی کو لیکر کولکاتا ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر کے اسے غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔جس پر ۱۹ مارچ کو حکم امتناعی جاری کر دیا گیا ۔اور حکومت سے کہا گیا کہ وہ ۲۵ ؍اپریل تک جائزہ لے کر اپنا جواب داخل کرے ۔اس خبر نے امیدواروں میں اضطراب پیدا کر دیا ۔کیوں کہ اپریل میں ہی عام انتخابات ہونا ہیں ۔ایسے میں امیدواروں میں کافی مایوسی پائی جارہی ہے اور وہ اپنی تیاری چھوڑ کر دوسرے کاموں میں لگ گئے ہیں ۔جب کہ اپوزیشن نے اسے حکومت کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ قرار دیا ہے ۔فارورڈ بلاک کے ایم ایل اے علی عمران نے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ حکومت سیاسی چال چل رہی اور ریوینو حاصل کرنے کی غرض سے اس نے اسامیاں نکالی تھیں اور اب خود حکومت کے کارندے نے اس پر اسٹے آرڈر لے لیا تاکہ عوام کو یہ باور کرایا جا سکے کہ وہ ان کی خیر خوا ہ ہے لیکن قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے امتحانات میں تاخیر ہورہی ہے ۔اس سلسلے میں الزامات درست ہوں یا نہ ہوں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کرنے سے قبل ان قانونی پیچیدگیوں کا جائزہ نہیں لیا تھا ۔اگر لیا تھا توآخری وقت سے قبل ہی کیوں نہیں امتحانات منعقد کئے گئے اور اگر نہیں لیا تھا تو کیا حکومت کو اتنی فرصت نہیں ہے کہ وہ عوام کے حق میں فیصلہ کرتے وقت قانونی پیچیدگیوں کا جائزہ لے سکے ۔واضح ہو کہ مغربی بنگال میں ائمہ اور موذنین کی امدادی تنخواہ کے سلسلے میں ممتا حکومت کا یہی لاپرواہی والا رویہ رہا ہے ۔ایسے میں عوام کی خیر خواہ کہی جانے والی حکومتیں تعلیم کو بھی سیاست کے میدان میں لاکر اپنا الو سیدھا کرنے میں لگی ہوئی ہیں ۔جو ایک افسوسناک رویہ ہے ۔
انتخابی موسم نے جہاں دوسرے شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا ہے وہیں تعلیم پر بہت برا اثر ڈالتے رہے ہیں ۔مغربی بنگال میں ٹیچر اہلیتی امتحانات کو اسی زاویے سے دیکھا جا رہا ہے ۔واضح ہو کہ مغربی بنگال میں موجودہ حکومت نے پرائمری ، اور ثانوی اسکولوں میں اساتذہ کی بحالی کے لئے بالتر تیب ۸؍فروری ۲۰۱۴ اور ۲۹؍جنوری ۲۰۱۴ کو نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا ۔جس کے مطابق پرائمری سطح کے لئے ۳۰؍مارچ ۲۰۱۴ اور ثانوی سطح کے لئے ۹؍مارچ ۲۰۱۴ کو اہلیتی امتحانات ہونے تھے ۔ان خبروں کے آنے کے بعدمعلمیکے امیدوار امتحانات کی تیاری میں جٹ گئے ۔ہزاروں لڑکوں اور لڑکیوں نے اپنے گھر سے دور کرایے کا مکان لے کر تیاری شروع کر دی ۔لیکن بد قسمتی سے ثانوی سطح کے اہلیتی امتحانات سے ٹھیک چار روز قبل تاریخ میں یہ کہہ کے ترمیم کر دی گئی کہ حالات ناساز گار تھے ۔اور اب اگلی تاریخ ۲۹؍ مارچ ۲۰۱۴ کی ہوگی ۔یہاں تک تو سب ٹھیک ٹھاک تھا ۔لیکن اسے حکومت کی لاپرواہ کہیں یا سوچی سمجھی حرکت کہ اب اس تاریخ میں بھی لوگ اہلیتی امتحانات نہیں دے سکیں گے ۔اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ دے بھی پائیں گے یا نہیں ۔چوں کہ قومی کونسل برائے تربیت اساتذہ (این سی ٹی ) کی ہدایات کے مطابق ۳۱؍ مارچ ۲۰۱۴ کے بعد غیر تربیت یافتہ اساتذہ کی تقرری نہیں ہوسکے گی ۔اور چوں کہ اس بار منعقد ہورہے امتحانات میں غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے لئے بھی اسامیاں نکالی گئی ہیں ۔اب سوال یہ تھا کہ کیا ۲۹؍ مارچ کو منعقد ہورہے اہلیتی امتحانات این سی ٹی کی ہدایات کو مد نظر رکھ کر لیے جا رہے ہیں یا نہیں اسی کو لیکر کولکاتا ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر کے اسے غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔جس پر ۱۹ مارچ کو حکم امتناعی جاری کر دیا گیا ۔اور حکومت سے کہا گیا کہ وہ ۲۵ ؍اپریل تک جائزہ لے کر اپنا جواب داخل کرے ۔اس خبر نے امیدواروں میں اضطراب پیدا کر دیا ۔کیوں کہ اپریل میں ہی عام انتخابات ہونا ہیں ۔ایسے میں امیدواروں میں کافی مایوسی پائی جارہی ہے اور وہ اپنی تیاری چھوڑ کر دوسرے کاموں میں لگ گئے ہیں ۔جب کہ اپوزیشن نے اسے حکومت کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ قرار دیا ہے ۔فارورڈ بلاک کے ایم ایل اے علی عمران نے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ حکومت سیاسی چال چل رہی اور ریوینو حاصل کرنے کی غرض سے اس نے اسامیاں نکالی تھیں اور اب خود حکومت کے کارندے نے اس پر اسٹے آرڈر لے لیا تاکہ عوام کو یہ باور کرایا جا سکے کہ وہ ان کی خیر خوا ہ ہے لیکن قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے امتحانات میں تاخیر ہورہی ہے ۔اس سلسلے میں الزامات درست ہوں یا نہ ہوں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کرنے سے قبل ان قانونی پیچیدگیوں کا جائزہ نہیں لیا تھا ۔اگر لیا تھا توآخری وقت سے قبل ہی کیوں نہیں امتحانات منعقد کئے گئے اور اگر نہیں لیا تھا تو کیا حکومت کو اتنی فرصت نہیں ہے کہ وہ عوام کے حق میں فیصلہ کرتے وقت قانونی پیچیدگیوں کا جائزہ لے سکے ۔واضح ہو کہ مغربی بنگال میں ائمہ اور موذنین کی امدادی تنخواہ کے سلسلے میں ممتا حکومت کا یہی لاپرواہی والا رویہ رہا ہے ۔ایسے میں عوام کی خیر خواہ کہی جانے والی حکومتیں تعلیم کو بھی سیاست کے میدان میں لاکر اپنا الو سیدھا کرنے میں لگی ہوئی ہیں ۔جو ایک افسوسناک رویہ ہے ۔
لنک ملاحظہ کریں