Monday, 24 March 2014

تعلیم بھی سیاسی آلودگی کا شکار

(طیب فرقانی ،بیورو چیف بصیرت آن لائن حلقہ شمالی دیناج پور )
انتخابی موسم نے جہاں دوسرے شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا ہے وہیں تعلیم پر بہت برا اثر ڈالتے رہے ہیں ۔مغربی بنگال میں ٹیچر اہلیتی امتحانات کو اسی زاویے سے دیکھا جا رہا ہے ۔واضح ہو کہ مغربی بنگال میں موجودہ حکومت نے پرائمری ، اور ثانوی اسکولوں میں اساتذہ کی بحالی کے لئے بالتر تیب ۸؍فروری ۲۰۱۴ اور ۲۹؍جنوری ۲۰۱۴ کو نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا ۔جس کے مطابق پرائمری سطح کے لئے ۳۰؍مارچ ۲۰۱۴ اور ثانوی سطح کے لئے ۹؍مارچ ۲۰۱۴ کو اہلیتی امتحانات ہونے تھے ۔ان خبروں کے آنے کے بعدمعلمیکے امیدوار امتحانات کی تیاری میں جٹ گئے ۔ہزاروں لڑکوں اور لڑکیوں نے اپنے گھر سے دور کرایے کا مکان لے کر تیاری شروع کر دی ۔لیکن بد قسمتی سے ثانوی سطح کے اہلیتی امتحانات سے ٹھیک چار روز قبل تاریخ میں یہ کہہ کے ترمیم کر دی گئی کہ حالات ناساز گار تھے ۔اور اب اگلی تاریخ ۲۹؍ مارچ ۲۰۱۴ کی ہوگی ۔یہاں تک تو سب ٹھیک ٹھاک تھا ۔لیکن اسے حکومت کی لاپرواہ کہیں یا سوچی سمجھی حرکت کہ اب اس تاریخ میں بھی لوگ اہلیتی امتحانات نہیں دے سکیں گے ۔اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ دے بھی پائیں گے یا نہیں ۔چوں کہ قومی کونسل برائے تربیت اساتذہ (این سی ٹی ) کی ہدایات کے مطابق ۳۱؍ مارچ ۲۰۱۴ کے بعد غیر تربیت یافتہ اساتذہ کی تقرری نہیں ہوسکے گی ۔اور چوں کہ اس بار منعقد ہورہے امتحانات میں غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے لئے بھی اسامیاں نکالی گئی ہیں ۔اب سوال یہ تھا کہ کیا ۲۹؍ مارچ کو منعقد ہورہے اہلیتی امتحانات این سی ٹی کی ہدایات کو مد نظر رکھ کر لیے جا رہے ہیں یا نہیں اسی کو لیکر کولکاتا ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر کے اسے غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔جس پر ۱۹ مارچ کو حکم امتناعی جاری کر دیا گیا ۔اور حکومت سے کہا گیا کہ وہ ۲۵ ؍اپریل تک جائزہ لے کر اپنا جواب داخل کرے ۔اس خبر نے امیدواروں میں اضطراب پیدا کر دیا ۔کیوں کہ اپریل میں ہی عام انتخابات ہونا ہیں ۔ایسے میں امیدواروں میں کافی مایوسی پائی جارہی ہے اور وہ اپنی تیاری چھوڑ کر دوسرے کاموں میں لگ گئے ہیں ۔جب کہ اپوزیشن نے اسے حکومت کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ قرار دیا ہے ۔فارورڈ بلاک کے ایم ایل اے علی عمران نے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ حکومت سیاسی چال چل رہی اور ریوینو حاصل کرنے کی غرض سے اس نے اسامیاں نکالی تھیں اور اب خود حکومت کے کارندے نے اس پر اسٹے آرڈر لے لیا تاکہ عوام کو یہ باور کرایا جا سکے کہ وہ ان کی خیر خوا ہ ہے لیکن قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے امتحانات میں تاخیر ہورہی ہے ۔اس سلسلے میں الزامات درست ہوں یا نہ ہوں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کرنے سے قبل ان قانونی پیچیدگیوں کا جائزہ نہیں لیا تھا ۔اگر لیا تھا توآخری وقت سے قبل ہی کیوں نہیں امتحانات منعقد کئے گئے اور اگر نہیں لیا تھا تو کیا حکومت کو اتنی فرصت نہیں ہے کہ وہ عوام کے حق میں فیصلہ کرتے وقت قانونی پیچیدگیوں کا جائزہ لے سکے ۔واضح ہو کہ مغربی بنگال میں ائمہ اور موذنین کی امدادی تنخواہ کے سلسلے میں ممتا حکومت کا یہی لاپرواہی والا رویہ رہا ہے ۔ایسے میں عوام کی خیر خواہ کہی جانے والی حکومتیں تعلیم کو بھی سیاست کے میدان میں لاکر اپنا الو سیدھا کرنے میں لگی ہوئی ہیں ۔جو ایک افسوسناک رویہ ہے ۔
لنک ملاحظہ کریں

ترنمول کانگریس فرقہ پرستوں کا دامن تھام لے گی۔محمد سلیم

(طیب فرقانی،بیورو چیف بصیرت آن لائن حلقہ شمالی دیناج پور)
کانگریس سرمایہ داروں کی پارٹی ہے اور بی جے پی فرقہ پرست جب کہ ترنمول کانگریس کا ایجنڈہ فرقہ پرستوں کو مضبوط کرنا ہے ۔ان خیالات کا اظہار آج سی پی آئی ایم کے لیڈر محمد سلیم نے کیا ۔وہ اتر دیناج پو ر کے لوک سبھا حلقہ انتخاب رائے گنج کے گوال پوکھر بلاک میں سی پی آئی ایم کے کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے ۔انہوں نے کانگریس کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقے میں کانگریس کی امیدوار دیپا داس منشی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ کانگریس کی حالت پورے ملک میں خستہ ہے اور اس بار اسے کوئی بھی طاقت بار آور ہونے میں معاون نہیں ہوسکتی ۔کانگریس نے ٹو جی اسپیکٹرم ،کامن ویلتھ گیم اور کوئلہ بلاک جیسے تباہ کن گھپلوں گھوٹالوں کی ایک تاریخ رقم کی ہے ۔جس سے نہ صرف ملک کی معاشی حالت خراب ہوئی ہے بلکہ غریب اور زیادہ غریب ہوتے چلے گئے ہیں ۔اس لئے اس بار سی پی آئی ایم نہ صرف کانگریس کو کراری شکست دے گی بلکہ ملک کے غریب عوام کے حقوق کو ایوان بالا تک پہنچائے گی ۔انہوں نے مودی اور بی جے پی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ بی جے پی ایک فرقہ پرست اور سرمایہ دار پارٹی ہے ۔جس کے پی ایم امیدوار کے لئے ٹی وی پراسی طرح اشتہارات دئے جارہے ہیں جس طرح صابن اور شیمپو کے اشیا کا اشتہار دیا جاتا ہے ۔محمد سلیم نے کارکنوں میں جوش بھرتے ہوئے کہا کہ آپ سب خود کو سلیم سمجھ کر انتخابی مہم میں پوری طرح جٹ جائیں ۔واضح ہو کہ رائے گنج کا حلقہء انتخاب مغربی بنگال میں کانگریس کی قابل اعتماد اور مضبوط سیٹ رہی ہے۔یہاں سے پریہ داس رنجن منشی لگاتار دوبار ایم پی رہے ہیں اور ان کی شدید علالت کی وجہ سے تیسری بار ان کی اہلیہ دیپا داس منشی موجودہ ایم پی ہیں ۔لیکن علاقے سے ان کی بے تعلقی کی وجہ سے یہ علاقہ پس ماندہ ترین علاقوں میں شمار ہونے لگا ہے ۔جس کی وجہ سے عوام میں کافی ناراضگی پائی جاتی ہے ۔اسی کے مد نظر سی پی آئی ایم نے اس بار بنگال کے اپنے قد آور لیڈر محمد سلیم کو میدان میں اتارا ہے ۔اس علاقے میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ہونے کی وجہ سے مانا جاتا ہے کہ محمد سلیم کو مسلم چہرہ ہونے کا فائدہ مل سکتا ہے ۔جیت ہار کا فیصلہ تو یہاں کے ووٹر ہی کریں گے لیکن جس طرح سے ہر پارٹی کے امیدوار ووٹروں سے نئے نئے وعدے کر کے ان کو استعمال کر تے رہیں ہیں اس نے ووٹروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا ہے ۔انتخابی مہم کے آخری دنوں میں پیسے بانٹنے کا شیطانی کھیل بھی کھیلا جاتا ہے جس سے چند پیسوں کے لالچ میں غریب عوام دھوکہ کھا جاتے ہیں اور علاقے کی پس ماندگی جوں کی توں بنی رہتی ہے ۔محمد سلیم نے بھی اس ’’انتخابی رشوتانہ کھیل ‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ چند پیسوں کے لالچ میں نہ آئیں اور ایسے لوگوں کو اس الیکشن میں ہراکر کرپشن کو مٹانے میں سی پی آئی ایم کا ساتھ دیں ۔انہوں نے فرقہ پرستی کا خاص طور سے ذکر کیا اور کہا کہ سی پی آئی ایم نے اپنے دور اقتدار میں ایسے لوگوں کو پنپنے نہیں دیا ،اس کے بر خلاف موجودہ حکومت نے کولکاتا کے بریگیڈ میدان میں مودی کی ریلی ہونے دی ۔در اصل موجودہ حکمران پارٹی کی سربراہ ممتا بنرجی پی جے پی اور آر ایس ایس کا دوسرا چہرہ ہیں ۔جو الیکشن کے بعد بی جے پی کا دامن تھامنے میں دیر نہیں کریں گی ۔انہوں نے نریندر مودی کے اس بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے بنگالی عوام سے اپیل کی تھی کہ انھیں دہلی میں اور ممتا جی کو بنگال میں مضبوط بنائیں ۔چوں کی رائے گنج حلقہ انتخاب سے اس بار سماجوادی پارٹی بھی میدان میں ہے اس لئے محمد سلیم نے مظفر نگر فساد کا حوالہ دیتے ہوئے ملائم سنگھ اور ان کی پارٹی کو بھی فرقہ فرست کہا ۔اس بار کا لوک سبھا الیکشن اس حلقے میں اس لئے بھی دل چسپ مانا جارہا ہے کہ کانگریس کی امیدوار دیپا داس منشی کے دیور ستیہ داس رنجن منشی ا ن کے خلاف ترنمول کانگریس سے امیدوار ہیں جس پر چٹکی لیتے ہوئے محمد سلیم نے کہا کہ عوام دیور بھابھی کے اس کھیل کو اس بار پوری طرح ناکام بنا دے گی ۔محمد سلیم نے اردو طبقے کا خیال کرتے ہوئے اردو اور بنگلہ دونوں زبان میں تقریر کی ۔واضح ہو کہ مغربی بنگال میں اردوداں طبقہ سی پی آئی ایم کی اردو سے بے اعتنائی سے نالاں رہاہے یہی وجہ ہے کہ محمد سلیم کا انتخابی اشتہار جگہ جگہ اردو میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے ۔انہوں نے اپنی پارٹی کی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے عوام سے ایک موقع مانگا ۔اب عوام ان کو یہ موقع دے گی یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہاں موجود کارکنوں میں جوش بھر نے کے لئے محمد سلیم کافی محنت کرتے ہوئے دکھائی دئے ۔اس موقع پر سی پی آئی ایم سے منسلک فارورڈ بلاک کے ایم ایل اے محمدعمران اور بلاک اور ضلع سطح کے کارکنان کے ساتھ کامریڈ ماسٹر شبیر احسن بھی موجود رہے ۔
لنک ملاحظہ کریں

اتر دیناج پور میں تعلیم پر اثر انداز ہوتیں سیاسی سرگرمیاں

ابھی حال ہی میں بصیرت آن لائن اردو پورٹل نیوز پیپر کے لئے رضا کارانہ طور پر بطور بیورو چیف حلقہ شمالی دیناج پور سے خبریں دینے  کا عمل شروع کیا ہو اسی تعلق سے اس کالم ان خبروں کا سلسلہ اپنے بلاگ کے قارئین کے لئے شروع کر رہا ہوں تاکہ طیب فرقانی کی باتیں آسانی سے ان تک پہنچ جائیں ۔۔۔۔۔پہلی خبر مندرجہ ذیل سرخی کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں 

                                                                اتر دیناج پور میں تعلیم پر اثر انداز ہوتیں سیاسی سرگرمیاں 

مغربی بنگال کے ضلع اتر دیناج پور کے رائے گنج حلقے میں ملک کی دیگر ریاستوں اور علاقوں کی طرح انتخابات کے پیش نظر سیاسی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں ۔یہاں سے ملک کی چھوٹی بڑی متعدد پارٹیوں نے اپنے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے ۔خاص بات یہ ہے کہ علاقے میں مسلم ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ۔جس کی وجہ سے آسام میں اپنی حیثیت منوا لینے والی مسلم مسائل پر ارتکاز کرنے والی نسبتا جدید پارٹی یوڈی ایف ،جو مولانا بد ر الدین اجمل کی پارٹی کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، نے بھی اس بار لوک سبھا کے الیکشن میں اس علاقے سے اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے ۔یو ڈی ایف کے امیدوار سید ضمیر الحسن نے اس علاقے میں اپنی میٹینگیں کرنی شروع کردی ہیں ۔دوسری طرف کانگریس کی مضبوط سمجھی جانی والی امید وار دیپا داس منشی اور سی پی آئی ایم سے محمد سلیم اپنی اپنی دعوے داری کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں جٹے ہوئے ہیں ۔جیت کا تمغہ کسے ملے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ اس علاقے میں انتخابی موسم تعلیم کے لئے موسم خزاں بن کر آتا ہے ۔سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا مسئلہ ویسے ہی کمزور رہتا ہے لیکن انتخابی موسم میں اس پر خزاں کا موسم اور گہرا ہوجاتا ہے۔جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں اساتذہ پوری آب و تاب سے نہ صرف سیاست میں دل چسپی لیتے ہیں بلکہ اس میں عملی حصہ لے کر کسی امیدوار کو جیت دلانے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں ۔اساتذہ کا سیاست سے لگاؤ بچوں کی تعلیم پر برا اثر ڈالتا ہے ۔کیوں کہ اساتذہ اپنی سیاسی سرگرمیاں انجام دینے کے سلسلے میں میٹینگوں اور جلسوں میں شریک ہوتے ہیں اور اسکولوں سے غائب رہتے ہیں ۔سیاسی شخصیت ہونے کی وجہ سے اپنے اثر رسوخ کا استعمال کر کے وہ اسکول انتظامیہ اور صدر مدرس کو قابو میں رکھتے ہیں ۔ان کا اپنا تو بھلا ہوجاتا ہے لیکن قوم کے نو نہالوں کا جو ہوتا ہے وہ تو علاقے کی تعلیمی صورت حال ہی بتا تی ہے ۔کہتے ہیں کہ یہاں دو ہی پیشے کامیاب ہیں ،معلمی اور سیاست ۔جس میں نہ کوئی رسک ہے اور نہ کھونے کا کوئی غم ۔کل وقتی گارنٹی ۔یہی وجہ ہے کہ آج کل اسکولوں میں اساتذہ کی غیر حاضری کی شرح بڑھی ہوئی ہے ۔ایسے میں مسلمان یہ امید کرتے ہیں کہ کسی طرح کوئی چمتکار ہوجائے اور ان کی پس ماندگی دور ہو ۔لیکن وہ چمتکار کرے گا کون یہ دیکھنے والی بات ہوگی ۔
ذیل میں لنک بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے