مکرمی !
جموڑیہ میں ہوئے حالیہ جنسی درندگی کی خبر آپ نے اپنے اخبار ’اخبار مشرق ‘میں پہلے صفحے پر شائع کی ہے ۔یہ صحافت کے میدان میں قابل ستائش عمل ہے ۔معاملہ یہ ہے کہ سیاست دانوں کے الٹے سیدھے بیان ہم پہلے صفحے پر پاتے ہیں اور خواتین کے ساتھ ہورہے ظلم و زیادتی کو اندرونی صفحے میں چھوٹی موٹی سرخی کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے ۔حالاں کہ خواتین کے ساتھ بڑھتی زیادتی کی خبریں نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع کی جانی چاہئیں ۔یہ ہمارے لئے لمحہء فکریہ ہے کہ خواتین کے ساتھ منظم زیادتیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں ۔ابھی حال ہی میں بیر بھوم ضلع کا بھیانک واقعہ انسانیت کے ماتھے پر ایک ایسا بد نما داغ بن چکا ہے ۔جسے افسوس کی کوئی مقدار دھو کر صاف نہیں کرسکتی ۔ایک خاتون وزیر اعلی کی حکومت میں ایک قبائیلی لڑکی کو جس طرح غیر مہذب اور بد ترین کھاپ پنچایت نے ذلیل و رسوا کیا ہے اس نے ہم ہندوستانیوں کا سر شرم سے جھکا دیا ہے ۔یہ کھاپ پنچایتوں کی غنڈہ گردی کی انتہا ہے ۔دہلی گینگ ریپ تو چند سرپھرے اور جنونی افراد کی بد ترین کارستانی تھی لیکن بیر بھوم کا واقعہ ایک مکمل سوچا سمجھا اور ہوش وحواس میں رچا گیا ایسا گھناؤنا عمل ہے جس کی ذمے دار نہ صرف نام نہاد کھاپ پنچایتیں ہیں بلکہ حکومت وقت بھی ہے ۔مغربی بنگال کی موجودہ حکومت کسی بھی طرح اس واقعے سے اپنا دامن نہیں بچا سکتی ۔ووٹ کے لالچ میں مسلح افراد کو کھلے عام اپنی مرضی سے فیصلے کرنے اور ایک متوازی عدالت قائم کرنے کا اختیار دینا حکومت کی دوغلی پالیسی ہے ۔کوئی بھی عدالت سخت سے سخت سزا جو دے سکتی ہے وہ موت ہے ۔لیکن بیر بھوم کی پنچایت نے اس قبائیلی لڑکی کے ساتھ زنا بالجبر اور وہ بھی کھلے عام مکمل تیاری کے ساتھ کرنے کا فیصلہ سناکر نہ صرف بد بختانہ حرکت کی ہے بلکہ اس لڑکی کو ہزار موت سے بدترین موت کی سزا سنائی ہے ۔اس کے لئے نہ صرف ان بد بختوں کو سزا ملنی چاہئے بلکہ حکومت کے زیر اثر ان تمام افراد کو اپنا احتساب کرنا چاہئے جو طاقت کے نشے میں چور ایک کمزور اور بے بس خاندان کی تباہی کا خاکہ بناتے ہیں ۔پولیس ان بد بختوں سے اس لئے ڈرتی ہے کہ انھیں حکومت کی سرپرستی حاصل ہے ۔یہ تو کھلی ہوئی ڈکٹیٹر شپ ہے نہ کہ جمہوریت ۔جمہوریت میں امن وقانون اور عدل و انصاف ہی اولین شرائط ہیں ۔کوئی حکومت اگر ان سے خالی ہے تو وہ یا تو کمزور ہے یا ڈکٹیٹر ہے ۔معاوضے کے چند حقیر سکے یا افسوس کے چند بے وزن بول اس قبائیلی لڑکی اور اس جیسی لڑکیوں کے درد کا کبھی مداوا نہیں ہوسکتے ۔لہذا حکومت نہ صرف ان بد بختوں کو قرار واقعی سزا دلوائے بلکہ اپنا حکومتی رویہ بھی بدلے ۔تاکہ مظلوموں کو انصاف مانگنے سے قبل ہی تحفظ حاصل ہو۔اصل معاملہ مظلوم کو انصاف ملنا تو ہے ہی اس سے زیادہ ضروری ہے کسی کو مظلوم نہ بننے دینا ۔
طیب فرقانی
کانکی ،گوالپوکھر، اتر دیناج پور
اخبارمشرق رانچی ۹فروری ۲۰۱۴ کے شمارے میں شائع شدہ
جموڑیہ میں ہوئے حالیہ جنسی درندگی کی خبر آپ نے اپنے اخبار ’اخبار مشرق ‘میں پہلے صفحے پر شائع کی ہے ۔یہ صحافت کے میدان میں قابل ستائش عمل ہے ۔معاملہ یہ ہے کہ سیاست دانوں کے الٹے سیدھے بیان ہم پہلے صفحے پر پاتے ہیں اور خواتین کے ساتھ ہورہے ظلم و زیادتی کو اندرونی صفحے میں چھوٹی موٹی سرخی کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے ۔حالاں کہ خواتین کے ساتھ بڑھتی زیادتی کی خبریں نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع کی جانی چاہئیں ۔یہ ہمارے لئے لمحہء فکریہ ہے کہ خواتین کے ساتھ منظم زیادتیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں ۔ابھی حال ہی میں بیر بھوم ضلع کا بھیانک واقعہ انسانیت کے ماتھے پر ایک ایسا بد نما داغ بن چکا ہے ۔جسے افسوس کی کوئی مقدار دھو کر صاف نہیں کرسکتی ۔ایک خاتون وزیر اعلی کی حکومت میں ایک قبائیلی لڑکی کو جس طرح غیر مہذب اور بد ترین کھاپ پنچایت نے ذلیل و رسوا کیا ہے اس نے ہم ہندوستانیوں کا سر شرم سے جھکا دیا ہے ۔یہ کھاپ پنچایتوں کی غنڈہ گردی کی انتہا ہے ۔دہلی گینگ ریپ تو چند سرپھرے اور جنونی افراد کی بد ترین کارستانی تھی لیکن بیر بھوم کا واقعہ ایک مکمل سوچا سمجھا اور ہوش وحواس میں رچا گیا ایسا گھناؤنا عمل ہے جس کی ذمے دار نہ صرف نام نہاد کھاپ پنچایتیں ہیں بلکہ حکومت وقت بھی ہے ۔مغربی بنگال کی موجودہ حکومت کسی بھی طرح اس واقعے سے اپنا دامن نہیں بچا سکتی ۔ووٹ کے لالچ میں مسلح افراد کو کھلے عام اپنی مرضی سے فیصلے کرنے اور ایک متوازی عدالت قائم کرنے کا اختیار دینا حکومت کی دوغلی پالیسی ہے ۔کوئی بھی عدالت سخت سے سخت سزا جو دے سکتی ہے وہ موت ہے ۔لیکن بیر بھوم کی پنچایت نے اس قبائیلی لڑکی کے ساتھ زنا بالجبر اور وہ بھی کھلے عام مکمل تیاری کے ساتھ کرنے کا فیصلہ سناکر نہ صرف بد بختانہ حرکت کی ہے بلکہ اس لڑکی کو ہزار موت سے بدترین موت کی سزا سنائی ہے ۔اس کے لئے نہ صرف ان بد بختوں کو سزا ملنی چاہئے بلکہ حکومت کے زیر اثر ان تمام افراد کو اپنا احتساب کرنا چاہئے جو طاقت کے نشے میں چور ایک کمزور اور بے بس خاندان کی تباہی کا خاکہ بناتے ہیں ۔پولیس ان بد بختوں سے اس لئے ڈرتی ہے کہ انھیں حکومت کی سرپرستی حاصل ہے ۔یہ تو کھلی ہوئی ڈکٹیٹر شپ ہے نہ کہ جمہوریت ۔جمہوریت میں امن وقانون اور عدل و انصاف ہی اولین شرائط ہیں ۔کوئی حکومت اگر ان سے خالی ہے تو وہ یا تو کمزور ہے یا ڈکٹیٹر ہے ۔معاوضے کے چند حقیر سکے یا افسوس کے چند بے وزن بول اس قبائیلی لڑکی اور اس جیسی لڑکیوں کے درد کا کبھی مداوا نہیں ہوسکتے ۔لہذا حکومت نہ صرف ان بد بختوں کو قرار واقعی سزا دلوائے بلکہ اپنا حکومتی رویہ بھی بدلے ۔تاکہ مظلوموں کو انصاف مانگنے سے قبل ہی تحفظ حاصل ہو۔اصل معاملہ مظلوم کو انصاف ملنا تو ہے ہی اس سے زیادہ ضروری ہے کسی کو مظلوم نہ بننے دینا ۔
طیب فرقانی
کانکی ،گوالپوکھر، اتر دیناج پور
اخبارمشرق رانچی ۹فروری ۲۰۱۴ کے شمارے میں شائع شدہ
اخبار کا تراشا