Friday, 6 September 2013

گلزار کے چند ’’تریونی‘‘ (ہائیکو) کا ترجمہ


گلزار ہندوستانی سنیما کی بڑی شخصیت کانام ہے ۔وہ’’ ہندوستانی زبان‘‘ کے اچھے شاعر ہیں ۔ان کی تریوینی کا مجموعہ اسی نام سے شائع ہو چکا ہے ۔بنیادی طور سے یہ دیو ناگری میں ہے۔ٹرانسلیشن کی کلاس میں میم اس کا ترجمہ کرواتی ہیں ۔میں نے جو ترجمہ کیا ہے اسے آپ سے شئیر کر رہا ہوں ۔پہلے اردو رسم خط میں ’’تریوینی‘‘ ہے پھر انگریزی میں اس کا ترجمہ ۔دیکھیں کہ گلزار کی شاعری بھی کیا خوب ہے ۔(تریوینی میں تین سطریں ہوتی ہیں ۔دو سطروں کے بعد ایک سطر یوں ہی خالی چھوڑ کر چوتھی سطر لکھتے ہیں ۔اور پہلیدو سطروں میں جو بات کہی جاتی ہے وہ اکثر تیسری سطر میں بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور یہیں پر شاعر کے فن کا امتحان ہوتا ہے )

(۱) تریوینی:
کون کھائے گا ؟کس کا حصہ ہے
دانے دانے پہ نام لکھا ہے

سیٹھ سود چند ،مول چند،جیٹھا

ترجمہ:
Who will eat? whose share is it
Every grain has name on it

Saith sood chand,Mool chand,Jetha

(۲) تریوینی:
سب پہ آتی ہے ،سب کی باری سے
موت منصف ہے ،کم و بیش نہیں

زندگی سب پہ کیوں نہیں آتی ؟
ترجمہ:
It comes on all on their turn.
Death is judge,no less or more

Why does life not come on all

(۳) تریوینی:
کیا پتہ کب کہاں سے مارے گی ؟
بس کہ میں زندگی سے ڈرتا ہوں

موت کا کیا ہے ایک بار مارے گی
ترجمہ:
How to know when and where it will hit from
I am just afraid of life.

what about the death it will kills only once

(۴) تریوینی:
پرچیاں بٹ رہی ہیں گلیوں میں
اپنے قاتل کا انتخاب کرو

وقت یہ سخت ہے چناؤ کا
ترجمہ:
Pamphlets are being dished out in streets.
Select your killer

It harsh time to select

(۵) تریوینی:
بھیگا بھیگا سا کیوں ہے یہ اخبار
اپنے ہاکر کو کل سے چینج کرو

’’پانچ سو گاؤں بہہ گئے اس سال‘‘
ترجمہ:
Why this paper seems wet
Change your hawker from tomorrow

"Five hundred villages have been swept away"

(۶) تریوینی:
جنگل سے گزرتے تھے تو کبھی بستی بھی کہیں مل جاتی تھی
اب بستی میں کوئی پیڑ نظر آجائے تو جی بھر آتا ہے

دیوار پہ سبزہ دیکھ کے اب یاد آتا ہے ،پہلے جنگل تھا
ترجمہ:
Sometimes I countered settlement while passing by jungle.
Now I feel sad when I see any tree in village.

Seeing greenery on wall reminds me year was a jungle.
***.

تبصرہ نام کتاب: اقبال کی نظموں کا تجزیاتی مطالعہ

نام کتاب: اقبال کی نظموں کا تجزیاتی مطالعہ
مصنف:ڈ اکٹر فخرالاسلام اعظمی
ناشر: شبلی نیشنل کالج
صفحات: ۱۶۰
قیمت: ۵۰ روپے

اردو نظم نگاری میں اقبال کا مرتبہ کس قدر اعلی ہے ،یہ بتانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔اقبال اور ان کی شاعری پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔زیر تبصرہ کتاب،جو ڈاکٹر فخرالاسلام اعظمی کی تصنیف شدہ ہے ،بھی اقبال کی نظموں سے متعلق ہے۔ ڈاکٹر فخرالاسلام کا تعلق شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ سے ہے ۔انہوں نے طلبہ کی ضرورتوں کے تحت کتابیں تصنیف کی ہیں ۔’’شعور فن‘‘ کے نام سے ان کی ایک تصنیف طلبا میں کافی مشہور رہی ہے،جو نیٹ ۔جے،۔آر۔ ایف۔ کی تیاری کرنے والے طلبا کو مد نظر رکھ کر لکھی گئی تھی ۔اس کتاب کی تصنیف میں ڈاکٹر الیاس اعظمی بھی ان کے شریک کار رہے ہیں ۔مگر زیر نظر کتاب بلا شرکت غیرے ہے ۔دونوں کتابوں کا پیش لفظ بھی دوسطروں کے اضافے کے ساتھ ایک ہی ہے ۔اسی پیش لفظ سے کتاب کی تصنیف کے مقاصد پر روشنی بھی پڑتی ہے ۔ذیل میں ہم چند سطریں نقل کر ہے ہیں :
’’اس کتاب میں شامل تمام مضامین طلبا کی درسی ضروریات کے پیش نظر لکھے گئے ہیں ،ہو سکتا ہے کہ بعض مضامین میں تشنگی محسوس ہو،لیکن ایسے مضامین میں مضمون نگار کو اپنی مخصوص سطح کے ساتھ ساتھ طلبا کی ذہنی سطح کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے ‘‘
۱۶۰ صفحے کی اس کتاب میں اقبال کی تمام نظموں کا تجزیاتی مطالعہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان کی دس طویل و مختصر نظموں کا ہی تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے ۔جو اس طرح ہیں ۔خضر راہ،فرشتوں کا گیت ،فرمان خدا ،لینن خدا کے حضور میں ،جبریل وابلیس ،ذوق و شوق،ساقی نامہ،مسجد قرطبہ ،شعاع امید ،ابلیس کی مجلس شوری اور نیا شوالہ ۔ تجزیاتی مطالعے کے ساتھ ساتھ نظموں کی تشریح بھی دی گئی ہے اور مصنف کے بقول’’تشریح کے سلسلے میں پروفیسر سلیم چشتی کی شرح کلیات اقبال سے خاطر خواہ استفادہ کیا گیا ہے ۔‘‘
اس طرح کتاب کے تین حصے ہیں ۔ پہلے حصے میں صرف نظموں کے متون دیے گئے ہیں ۔دوسرے حصے میں تجزیاتی مطالعہ اور تیسرے حصے میں تشریح۔تشریح میں مشکل الفاظ کی تشریح بھی کی گئی ہے کتاب کی یہ ترتیب (اگر طلبا کی درسی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے رکھی گئی ہے تو) مناسب نہیں ہے ۔مناسب ترتیب یہ ہوتی کہ ایک نظم کا متن ،اس کے مشکل الفاظ کی تشریح اور پھر تشریح اور اس کے بعد تجزیاتی مطالعہ۔پھر ایک نظم کا متن اور اسی ترتیب سے تشریح و تجزیہ ۔ کتاب کا ٹائٹل پیج عمدہ ہے اور طباعت بھی مناسب ہے ۔
ڈاکٹر فخرالاسلام کا قلم الفاظ کو سجانے میں مہارت رکھتا ہے ۔تجزیاتی مطالعے میں خوب صورت جملوں اور فقروں کا استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ موصوف اچھے نثر نگار ہیں ۔ساتھ ہی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے کلیم الدین احمد اور نورالحسن نقوی جیسے نقادوں کے اقتباسات بھی درج کیے گیے ہیں ۔نظم کے فکری اور فنی ،دونوں پہلووں کا تجزیہ کیا گیا ہے ۔مگر فکری پہلو پر زیادہ زور ہے ۔مجموعی طور پہ کتاب طلبا کے لئے مفید ہے

طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۲۵