بس ایسا لفظ ہے جو کئی معنوں میں مستعمل ہے ۔ایک طاقت و قوت کے معنی میں ،جسے ہندی میں’’ وش‘‘ کہا جاتا ہے۔جیسے طلبا اکثر کہتے ہیں ’’میرا بس چلے تومیں ایسے سارے ٹیچروں کو نکال باہر کروں جو پابندی سے کلا س نہیں لیتے اور طلبا کے مستقبل سے کھلواڑ کرتے ہیں اور جو موضوع پر کلاسوں میں گفتگو نہیں کرتے ۔اسی طرح لفظ بس کی تکرار سے خاموش ہوجانے یا کسی کام سے روکنے کا معنی پیدا ہوتا ہے جیسے کوئی چڑچڑی بیوی اپنے شوہر سے اکثرکہا کرتی ہے ’’بس بس بہت ہوگیا ۔اب اگر آپ نے کچھ کہا تو مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا لوں گی ہاں!‘‘۔ایک بس وہ ہوتی ہے جس سے ہم سفر کرتے ہیں ۔کبھی سیٹ پر بیٹھ کر ،سیٹ نہ ملے تو کھڑے ہوکراور کھڑے ہونے کی جگہ نہ ملے تو لٹک کر ۔گاؤں دیہات میں تو بس کی چھت پر بیٹھنے کا اپنا ایک الگ ہی مزا ہے۔
اس بس کی تکرار کے بجائے اگر ٹکرار ہوجائے یعنی دو بسیں پہلوانوں کی طرح آمنے سامنے آجائیں تو سب سے زیادہ نقصان حکومت وقت کا ہوتا ہے ۔اس کے خزانے سے کم سے کم دوچار لاکھ کی رقم تو کم ہوہی جاتی ہے ۔حادثے میں جو بالکل مر جائیں ان کو پچاس پچاس ہزار اور جو تھوڑا بہت مریں ان کو پچیس پچیس ہزار روپے دینے کا اعلان۔اور یہ رقم بھی کم جان لیوا نہیں ہوتی ہے ۔زندہ لوگوں تک پہنچتے پہنچتے نہ جانے کتنے ضمیروں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے ۔
آج کل دہلی کی بسیں اپنے شباب پر ہیں ،سرخ روشن پیشانی اور سبز و سرخ لبادہ اوڑھے یہ بسیں کبھی کبھی تو جوانی کی حقیقی آگ میں واقعی جھلس جاتی ہیں ۔(دہلی میں سفر کرتے وقت استاد محترم پروفیسر خالد محمود کی یہ بات ہمیشہ یا د رکھتا ہوں کہ کسی کو تم نہ ٹکر مار دو اور کوئی تمہیں نہ ٹکر مار دے)
ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اس کی پہچان ہے ۔اور میرے خیال میں اس کا سب سے بڑا مظاہرہ دہلی کی بسوں میں ہوتا ہے ۔بیک وقت کم سے کم چار صوبوں بہار،یوپی ،ہریانہ اور دہلی کے لوگ اپنی اپنی بھاشا اور تہذیب کے ساتھ ضرور سفر کرتے ہیں ۔ان بسوں میں مختلف قسم کی ’’بھاشا مشرن‘‘ دیکھ کر افضل کی بکٹ کہانی کی زبان یاد آجاتی ہے ۔ایک دن میں پنجابی باغ سے مہارانی باغ کے لئے بس میں سوار ہوا۔دروازے کی پاس والی سیٹ پر ایک موٹی سی عورت براجمان تھی اور بھیڑ کی وجہ سے دروازہ بالکل جام ہوگیا تھا۔عورت نے اپنے سامنے کھڑے ہوئے لڑکے سے کہا’’ارے ہٹ جا مجھے اترنا ہے‘‘۔لڑکا بولا ’’مجھے بھی اترنی ہے‘‘۔موٹی عورت پر ایک پرانا لطیفہ یاد آیا :ایک تھے نتھو رام جی ۔بیڑی بڑی کثرت سے پیتے تھے اور وقت و مقام کا انھیں خیال نہیں رہتا تھا کہ وہ کب اور کہا ں بیڑی دھونک رہے ہیں ۔ایک دفعہ بس میں بھی شروع ہوگئے ۔پاس ہی ایک عورت اپنے چھ سات ننھے منے بچوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔نتھو رام جی کی بیڑی کا دھواں اسے ناگوار گزرا اور اس نے ٹن ٹنا کر اعتراض کردیا ۔’’شرم نہیں آتی سامنے لکھا ہوا ہے No Smoking اور تم بیٹھے بیڑی دھونکے جارہے ہو۔پھینکو اسے بس کے باہر‘‘۔لیکن نتھو رام جی اطمینان سے بیڑی پیتے رہے اور آہستہ سے سر گھماکر بولے ’’میڈم آپ نے یہ تو پڑھ لیا No Smoking مگر آپ کو یہ نہیں دکھتا ہے ’’بچے دو ہی اچھے ،چھوٹا پریوار سکھی پریوار‘‘۔آپ اپنے زائد بچوں کو اٹھا کر بس کے باہر پھینک دیجئے میں بیڑی پھینکے دیتا ہوں ‘‘۔
دہلی کی بسوں میں روز کوئی نہ کوئی نیا مسافر ضرور سفر کرتا ہے ۔اس کے نئے ہونے کا پتہ تب چلتا ہے جب وہ بار بار آپ سے پوچھتا ہے ’’فلاں اسٹاپ کتنی دور ہے ۔کتنے نمبر کی بس وہاں جاتی ہے ؟‘‘لیکن میرے ساتھ اس دن بڑے عجیب حادثے ہوئے ۔میری بغل والی سیٹ پر ایک ایسا آدمی بیٹھا ہوا تھا جس نے پنجابی باغ سے مہارانی باغ تک کوئی اسٹاپ ایسا نہ چھوڑا ہوگا جب اس نے مجھ سے ’’سمے‘‘ نہ پوچھا ہو۔’کتنا سمے ہوا بھائی ؟‘ میں بتا بتا کر تھک گیا وہ پوچھتے پوچھتے نہیں تھکا ۔ایک وقت خیال آیا کہ گھڑی اتار کر اس کو تھما دوں لیکن چوں کہ نقصان اپنا ہی تھا اس لئے خاموش رہا ۔دہلی کی بسوں میں لیڈیز سیٹیں ریزرو ہوتی ہیں ۔(اب ۲۵ فیصد سے بڑھ کر ۳۵ فیصد ہوگئیں ہیں )ایسے میں خواتین کو یہ اختیا ر ہوتا ہے کہ اگر کوئی مرد ان کی سیٹ پر بیٹھا ہو تو اسے ’’اکھاڑ ‘‘ پھنکیں ۔اس دن میں نے مردوں کی سیٹ پر ایک خاتون کو بیٹھے ہوئے دیکھا اور اس کشمکش میں پڑگیا کہ انھیں اٹھا ؤں یا نہ اٹھاؤں ۔اٹھاؤں نہ اٹھاؤں ۔پھر یہ سوچ کر دل کو مطمئن کرلیا کہ ’’ناری سمان‘‘ہمارا اخلاقی فریضہ ہے ۔لیکن دوسرے دن لیڈیز سیٹ خالی پا کر اس پس وپیش میں پڑگیا کہ بیٹھوں یا کھڑا رہوں ۔بیٹھتا ہوں اور کوئی خاتون بعد میں اٹھادے تو توہین اور سیٹ خالی ہوتے ہوئے بھی کھڑا رہوں تو حماقت۔اسی ادھیڑبن میں تھا کہ جیسے پیچھے سے کسی نے کہا ’’آج سنڈے ہے ،آج کے دن لیڈیز کم سفر کرتی ہیں ۔بیٹھ جاؤ‘‘ ۔اور میں دھم سے ایسے بیٹھ گیا جیسے سیٹ بھاگی جا رہی ہو۔اور اپنی آنکھیں بند کرلیں اور سونے کا ناٹک کرنے لگا کہ اگر کوئی خاتون آبھی جائے تو سوتا ہوا سمجھ کر نہ اٹھائے ۔لیکن اس وقت مجھے بڑا افسوس ہوا جب ایک نوجوان نے اپنی سیٹ ایک پری رو کے لئے قربان کردی ۔میں افسوس سے ہاتھ مل رہا تھا کہ باہر سے ایک کارڈ میرے ہاتھوں میں آکر گرا ۔یہ کوئی بنگالی بابا کا وزیٹنگ کاردڈتھا جس پر کچھ دعوے تحریر تھے ۔ان میں سے ایک یہ تھا کہ کسی کو بس میں کرنے کے لئے ہم سے رابطہ کریں ۔اور میں یہ نہیں سمجھ پایا کہ یہ ’’بس‘‘ کس معنی میں مستعمل ہوا ہے ۔اتنے میں بس اسٹاپ آگیا اور میں اتر گیا۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر ،شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی
روزنامہ قومی سلامتی دہلی میں شائع شدہ انشائیہ کی تصویر اور لنک یہاں دی جا رہی ہے اس کے علاوہ اردو نیٹ جاپان کی لنک نیچے موجود ہے
سرخی شامل کریں |