Monday, 10 June 2019

 فوزیہ رباب کے شعری مجموعے”آنکھوں کے اس پار“ پر ایک مختصر سا تبصرہ 

 مبصر:طیب فرقانی
عصر حاضر میں مشاعروں کی دنیامیں متعدد شاعرات نے توجہ حاصل کی ہے،لیکن سنجیدہ ادبی افق پر شاعرات خاص طور سے ہندوستان میں اب بھی کم یاب ہیں۔ حالاں کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب عورت کا شاعری کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔اب عورت شاعری کرتی ہے اور اسے عورت ہونے پر کوئی شرمندگی کا احساس نہیں ہے۔ فوزیہ رباب کا شمار ایسی ہی شاعرات میں ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ”آنکھوں کے اس پار“ پچھلے بر س (۲۰۱۷) میں منظر عام پر آیا۔ فوزیہ کی غزلوں میں نظموں سے زیادہ بانکپن اور تاثیر ہے۔ اس لئے ابھی تک ان کو غزلوں کی شاعرہ ہی سمجھا جانا چاہئے۔ ان کی غزلوں کی تین جہتیں ہیں جنھیں تین منازل سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ یہ تین منازل نوعمری، شادی کے بعد کا زمانہ اور اولاد کے حصول کے زمانے پر مشتمل ہے۔ ان تینوں منازل میں عشق ہی ان کی شاعری کا محور و مرکز ہے۔کیفتیں علاحدہ علاحدہ ہیں۔ یوں بھی نو عمری کی شاعری میں رومانیت اور محبت کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن عمر بڑھنے (گھٹنے بھی کہہ سکتے ہیں)کے ساتھ ساتھ مشاہدات کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ اور محبت کا استعارہ پورے معاشرے،ملک بلکہ پوری دنیا کو اپنی معنوی تہوں میں سمیٹ لیتا ہے۔
”آنکھوں کے اس پار“ میں شہزادے کا خواب بُننے، اظہار عشق کرنے، وصل کی لذت سے سرشار ہونے کی آرزو اور ہجر کا کرب؛ان سبھی لمحات کے نقوش دیکھے جاسکتے ہیں۔ اور ہر نقش دامن دل می کشید کہ جاں ایں جا است۔ فوزیہ کے شعری مجموعے کی رسم اجر ا کے موقعے پر جسٹس اعجاز سہیل صدیقی نے فوزیہ کو ہندوستان کی پروین شاکر کہا تھا۔ لیکن ا س بات کا فیصلہ تو وقت کرے گاکہ فوزیہ ہندوستان کی پروین شاکر ہیں یا نہیں۔کیوں کہ یہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔یہ بات ضرور ہے کہ نسائی جذبات کے اظہار میں یعنی غزلوں کے موضوعات کے لحاظ سے فوزیہ کو پروین شاکر کے قریب کہا جاسکتا ہے۔لیکن فوزیہ کے تجربات،لفظیات،اسلوب اور مسائل الگ ہیں جو فوزیہ کی شناخت قائم کرتے ہیں۔ نسائی جذبات کے اظہار میں یعنی غزلوں کے موضوعات کے لحاظ سے فوزیہ کو پروین شاکر کے قریب کہا جاسکتا ہے۔ یہ ضروری بھی نہیں کہ کوئی شاعر یا شاعرہ اپنے ماقبل شاعریا شاعرہ کی طرح ہو تبھی اس کی عظمت قائم ہوگی۔ یہ ضرور ہے کہ بعد کا شاعر ماقبل کے شاعر سے متاثر ہوتا ہے۔ ان سے اخذ و ماخوذ اور استفادہ کرتا ہے۔ اور پھر اپنی راہ خود نکالنے کی سعی کرتا ہے۔
فوزیہ رباب پروین شاکر سے متاثر نظر آتی ہیں۔ اس بات کا اعتراف انھوں نے اپنی نظم ”لہو انسانیت کا ہے“ میں کیا ہے۔
”فقط جو زندگی کے آٹھویں ہی سال میں ہر دن
بڑے ہی شوق سے ابن صفی، پروین شاکر
کی کتابیں پڑھتی رہتی تھی۔“ (لہو انسانیت کا ہے)
فوزیہ کی شاعری میں ابن صفی کی صاف ستھری زبان اور پروین شاکر جیسے جذبات موجود ہیں۔لیکن ان کی غزلوں اور نظموں کو بہت ٹھہر کر، غور کرکے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ بھاری،بوجھل اور ثقالت سے پاک ابن صفی کی نکھری زبان کی جھلک ان کی شاعری میں بخوبی دیکھی جاسکتی ہے۔ ان کی شاعری میں کوئی پردہ نہیں۔ فوراسمجھ میں آجانے والی شاعری۔ شاعری کی سطح پر شاعری کے لئے یہ کوئی عیب نہیں لیکن اس میں معنوی تہہ داری شاعر ی کے حسن کو دوبالا کرکے اعلا بناتی ہے۔ متذکرہ بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فوزیہ کو شاعری سے بچپن سے لگاؤ ہے۔ وہ ایک فطری شاعرہ ہیں۔ان کی شاعری کسبی نہیں وہبی ہے۔
فوزیہ کی غزلوں کا کردار عشق کی تما م سرحدوں سے گزرجانا چاہتا ہے۔ اس کے نزدیک عشق کا جذبہ تمام جذبوں پر حاوی ہے۔ اس میں نہ وہ گناہ ہ دیکھتا ہے اور نہ ثواب۔ نہ صبح نہ شام،ہر وقت جام عشق پی کر حالت سرور میں رقص کرتا نظر آتا ہے۔ وہ عشق کی منزل تک پہنچنے کے لئے تما م سرحدوں کو توڑ ڈالنا چاہتا ہے۔
کیا مری ذات کا قصور حضور
عشق میں گنہ ثواب رباب
اس کی خاطر کوئی سویر نہ شام
جو پئے عشق کی شراب
ہم نے تو بس پیار کیا تھا پاپ نہیں
لوگوں نے بات بڑھادی شہزادے
ہنستے ہنستے روتی ہوں پھر ہنستی ہوں
عشق نے کیسی مجھ کو سزا دی شہزادے
پھیل گئی ہر گام رباب محبت یوں
می رقصم می رقصم رقصم می رقصم
متذکرہ بالا اشعار میں فوزیہ کے نظریہ عشق کی جھلک صاٖ ف محسوس کی جاسکتی ہے۔ ہنستے ہنستے رونا اور پھر ہنسنا یا محبت میں مسلسل رقص کرتے رہنا عشق کی اس منزل میں ہوتا ہے جب عشق دیوانگی کی حد کو چھولے۔یہ اشعار رواں دواں ہیں اور ان میں کوئی تہہ داری نہیں ہے۔ استعاروں کا ایسا کوئی نظام نہیں ہے جس سے اشعار کے کئی معنی نکالے جاسکیں انھیں کریدنا پڑے۔ یا ٹھہر کر پڑھنے کی ضرورت پڑے۔ فوزیہ کے عشق میں خود سپردگی اور وارفتگی کمال عروج پر نظر آتی ہے۔وہ محبوب پر اپنا سب کچھ نثار کردیتی ہیں۔ اپنا وقت، اپنی زندگی اور اپنی ہستی سب محبوب پر وار دینے کا جذبہ ان کی شاعری میں طرح طرح سے بیان ہوا ہے۔
یوں نہیں ہے کہ فقط نین ہوئے ہیں میرے
دیکھ کر تجھ کوہوئی ساری کی ساری پاگل
میں رباب اس سے زیادہ تجھے اب کیا دیتی
زندگی میں نے تیرے نام پہ واری پاگل
اس نے پوچھا کہ مری ہوناں؟ تو پھر میں نے کہا
ہاں تمھاری، میں تمھاری، میں تمھاری پاگل
لکھوں تیر ا نام پڑھوں تو سانول تیرا نام
تیرا ہی بس نام لکھا ہے آنکھوں کے اس پار
رفتہ رفتہ ہوگئے آخر تیرے نام
میرا جیون میرے موسم شہزادے
میری ہستی میں بھی تیری ہستی ہے
میرا مجھ میں کچھ بھی نہ چھوڑا شہزادے
عشق صرف ان کی آنکھوں میں نہیں بلکہ رگ و پے میں سرایت کرجاتا ہے۔اور پھر وہ اپنی زندگی اپنے محبوب کے نام کرکے بار بار یہ تاکید کرتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ ہاں میں تمھاری، میں تمھاری، میں تمھاری پاگل۔اس تکرار میں ان کے جذبے کی شدت محسوس کی جاسکتی ہے۔ یہ سبھی جذبات ان کی شاعری کی پہلی منزل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔سرور عشق میں رقص کرتے ہوئے اپنا سب کچھ محبوب کے نام کردینا۔ دوسری منزل میں ان کی غزل کا کردار اپنی شخصیت منوانے، خودشناسی کے عمل سے گزرنے اور خود کو اہمیت دینے لگتا ہے۔ وہ اپنے حسن کی تعریف خود ہی کرتا ہے۔ محبوب سے اپنی بات منوانے کی للک اس میں دکھائی دیتی ہے خود کو شہزادی اور راج کماری کے خطاب سے نواز تا ہے اور ایک وقت محبوب کو بھول جانے کی دھمکی بھی دے بیٹھتا ہے۔
میں نے پوچھا کہ کوئی مجھ سے زیادہ ہے حسیں
آئینہ ہنس کے یہ بولا اری جاری پاگل
شہزادے یہ دنیا فکر میں غلطاں ہے
جب سے میں ہوں تم پر مائل شہزادے
تم تو کہتے تھے رباب اب میں تیری مانوں گا
پھر بھی تم دیر سے گھر آتے ہوحد کرتے ہو
ہم جسے دیکھ لیں فقط اک بار
سب کے سب اس کو دیکھنے لگ جائیں
تجھ کو شاید یقیں نہ آئے مگر
میں تجھے بھول بھال سکتی ہوں
وہ مجھ کو دیکھ کے دوڑا ہوا چلا آئے
میں اپنے آپ کو کچھ اس طرح سراب کروں
پہلی منزل اور دوسری منزل کا فرق ملاحظہ کریں۔آئینہ سے اپنے حسین ترین ہونے کی داد طلب کرنااور آئینے کے جواب کو مبہم رکھ دینا،شہزادے کو بھول بھال جانے کی دھمکی دینا اور خود کو سراب بنالینے کی آرزو اپنی شخصیت کو منوانے کے عمل کا اشاریہ ہے۔ فوزیہ کی شاعری کی تیسری منزل وہ ہے جب وہ ماں بن جاتی ہیں۔ تب ان کی شاعری میں عشق کا استعارہ وسیع ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کے اندر سارے جہاں کا غم جھانکنے لگتا ہے۔ حالاں کہ ا س منزل کے نقوش بہت واضح نہیں ہیں۔لیکن ان منزل میں ان کی خود اعتمادی قابل دید ہے۔
عجیب حوصلہ رب نے دیا ہے ماؤں کو
کہ بن کے آل کی خاطر جو مرد رہنا ہے
ماں ہوں اتنی دعا میں طاقت ہے
سب بلاؤں کو ٹال سکتی ہوں
اب محبت کی اور کیا حد ہو
میری بیٹی میں تو جھلکتا ہے
فوزیہ کی شاعری کا کردار اپنے محبوب کو مختلف ناموں سے پکارتا ہے۔ یہ نام ان کی شاعری کی پہچان بن سکتے ہیں۔ کوزہ گر، سائیں، شہزادہ، سوہنا، مٹھرا، بالم، سائیاں۔ ا ن الفاظ کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر ہندی سے ماخوذ ہیں۔دوسری یہ کہ یہ تمام الفاظ مختلف حالات میں مختلف کیفیات سے روشناس کراتے ہیں۔ صرف یہی نہیں ان کی غزلوں میں عام طور سے ہندی الفاظ وافعال استعما ل ہوئے ہیں۔
سیج، سوہنا، نین، ساون،سندر، دَھن، آس، برہن، دیپ، جیون، بندھن، سمانا، گھائل، پاپ، باس، نگر، راج کماری، وارنا، گہنا، پیا، سجن۔اس طرح کے الفاظ اردو کی ابتدائی شاعری میں ملتے ہیں۔ولی دکنی اور ان جیسے شاعروں کے یہاں ہندی الفاظ کا کثرت سے استعمال ملتا ہے۔ بعد میں غزلوں میں یہ زبان عام طور سے دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن فوزیہ کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ہندی کے ان الفاظ کو بڑی خوب صورتی سے برتا ہے۔ جیسے عام بول کی چال کی زبان ہو۔ فوزیہ صرف ہندی الفاظ پر ہی نہیں رکتیں بلکہ وہ ہندی تہذیب سے اپنی شاعری میں استفادہ کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کا یہ شعر دیکھیں:
کروں دعائیں دیپ بہا کر پانی میں
میرے سنگ کٹے جیون شہزادے کا
پانی میں دیپ بہانے کا عمل ہندوستانی خواتین کروا چوتھ کے موقعے پر کرتی ہیں۔ اس موقعے پر وہ اپنے شوہروں کی لمبی عمر کی دعامانگتی ہیں اور نیک تمنائیں پیش کرتی ہیں۔ فوزیہ اپنے محبوب کے لئے اسی عمل سے گزرنے کی خواہش کا اظہار کرتی ہیں۔ اور دعا کرتی ہیں کہ ان کا محبوب ان کے ساتھ ہمیشہ رہے۔
فوزیہ گجرات میں پلی بڑھیں۔وہیں سے ایم اے بی ایڈ کیا۔ متعدد ادبی تنظیموں اور رسائل و جرائد سے وابستہ ہیں۔ ناری سمان ایوارڈ یافتہ ہیں اور ان کے اعزاز میں پاکستان میں ایک مشاعرہ بھی منعقد ہوچکا ہے۔ بجنور کے تعلیم یافتہ گھرانے سے ان کا تعلق ہے۔ بجنوری لہجے میں ایک غزل لطف دیتی ہے۔
آپ سے ہے مجھے کوئی گلہ شکوہ ناجی بالکل نہیں
جی نہیں یہ ہے میری وفا کا صلہ ناجی بالکل نہیں
فوزیہ کی زیادہ تر غزلیں غزل مسلسل کے درجے میں ہیں۔ اگر ان غزلوں کو عنوان دے دیں تو نظم کے قریب ہوجائیں گی۔ایک مکالماتی غزل بھی خوب ہے۔ردیف و قوافی میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ غزل کے فنی اسرار و رموز سے خوب واقف ہیں۔ چھوٹی اور بڑی ہر دو طرح کی بحر میں ان کی غزلیں بڑی شاعری کا پیش خیمہ ہیں۔ در اصل فوزیہ اپنے جذبات کے اظہار میں بے باک ہیں۔ اور ایک ہی جذبے کو مسلسل مختلف انداز میں بیان کرنے پر قدرت رکھتی ہیں۔ ان کے جذبات میں شدت ہے۔ ذیل کے اشعار میں ہجر کے کرب کا بیان کس شدت سے ہواہے ملاحظہ کریں:
کب تک اک اک لمحہ یوں ہی کاٹیں گے
دیواروں کو درد سنا کر شہزادے
قبر پہ روتے رہنے سے سکھ پاؤگے
تم نے کتنی دیر لگادی شہزادے
فوزیہ کا غالب و حاوی لہجہ طربیہ ہے لیکن جیسا کہ مذکور ہوا وقت کے ساتھ ان کی محبت کا استعارہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ دردو الم میں ڈوبے اشعار متعدد مقام پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ دردصرف ایک ذات کا نہیں بلکہ کائنات کا درد ہے۔ نظموں میں کبھی وہ برمی مہاجر مسلمانوں کی حالت زار اور عالم اسلا م کی بے حسی پر سراپا احتجاج نظر آتی ہیں تو کبھی شاعروں ادیبوں کو درد میں ڈوبے اور اداس لوگوں کے لئے قلم اٹھانے کے لئے برانگیختہ کرتی ہیں۔ غزل کے یہ اشعار دیکھیں:
ان کے دکھ درد کا تجھ سے بھی مداوا نہ ہوا
اپنی حالت پہ جو ہنستے رہے فنکار ترے
زعم ہے تجھ کواگر اپنے قبیلے پہ تو سن
میرے قدموں پہ گرے تھے سردار ترے
آج بازا ر میں لائی گئی جب تیری شبیہ
بھاگتے دوڑتے آپہنچے خریدار تیرے
جانے کیا رنگ رباب اب انھیں دے گی دنیا
کس قدر درد سے لبریز ہیں اشعار تیرے
فوزیہ کے مجموعہ ء کلام کے فلیپ پر منتخب اشعار ہیں۔ میں نے ان کے علاوہ اشعار کا انتخاب کیا ہے تاکہ ان کی شاعری کی دوسری جہتیں روشن ہوسکیں۔ یہاں صرف دو اشعار پیش خدمت ہیں ذرا ان کی پیکر تراشی کے نمونے دیکھیں:
رکھ دیتا ہے ہاتھ آنکھوں پر غیر کو جب بھی دیکھوں
جانے ایسا کون چھپا ہے آنکھوں کے اس پار
بینائی تیرے رستوں کو تھام کر بیٹھی ہے
تیرے گھر کا در بھی وا ہے آنکھوں کے اس پار


پاپا کے نام
آپ کے بغیر یہ پہلی عید آدھی ادھوری رہی پاپا!
پچھلی عید پہ جب یہ تصویر لی تھی تو نہیں سوچا تھا کہ پھر کبھی آپ کی تصویر نہ لے سکوں گا۔ تصویر تو عکس ہے۔ اصل زندگی تو وہ تھی جو آپ نے جی اور ہم دوبھائیوں اور دو بہنوں کے درمیان بانٹ دی۔ آپ کے پاس بانٹنے کے لئے کوئی خزانہ نہیں تھا۔ امی اکثر آپ کی زندگی کاماحصل جاننے کی کوشش کرتیں اور کہتیں کہ زندگی میں آپ نے کیا کیا؟ اور میرا جواب بہت سادہ سا تھا کہ ہم چار بھائی بہنوں کی مکمل پرورش ہی آپ کی زندگی کا ماحصل تھا۔ یہ کارنامہ ایک عام انسان کے لئے کم نہیں ہوتا۔ عام انسان تاریخ کا حصہ نہیں ہوتا۔ ہم بھائی بہنوں میں سے کوئی بڑا آدمی نہ بن سکا۔ ہم نے کوئی کارنامہ بھی انجام نہیں دیا کہ ہمارے کارناموں کی وجہ سے آپ جانے جاتے۔ میں کوئی قلم کار ہوتا تو آپ کی سوانح عمری میں کوئی نہ کوئی کرامت ضرور ڈھونڈ لیتا تاکہ تاریخ کے کسی گوشے میں آپ کو جگہ مل جاتی۔ شاعر ہوتا تو ایک لازوال نظم لکھ کر آپ کو امر کردیتا لیکن میرے لیے اس سے بڑی آپ کی کوئی کرامت نہیں ہے کہ آپ ہم میں زندہ ہیں۔ آپ میری خوبیوں میں زندہ ہیں۔ میری پسند ناپسند، میرے عمل اور رد عمل میں زندہ ہیں۔ میری شکل و صورت میں زندہ ہیں۔ میرے احساسات و جذبات میں زندہ ہیں۔ میں بکازار سے بکرے کا گوشت لینے جاتا ہوں تو پشت یا گردن کا گوشت لیتا ہوں یا پایہ سری لیتا ہوں کیوں کہ یہ آپ کو بھی پسند تھے اور مجھے بھی۔مچھلی میں جھینگا مچھلی اور گینچا مچھلی مجھے بھی پسند ہیں اور،کھانے میں سلاد مجھے میں بھی پسند ہیں۔ سائل کو کچھ نہ کچھ دے کر ہی لوٹنے کے عمل کو میں نے بھی اپنانے کی کوشش کی ہے۔مالدہ (لنگڑا) آم مجھے بھی بہت پسند ہے۔اس رمضان بنگال میں ہیم ساگر پہ نظر پڑتی تو آپ مجھ میں زندہ ہوجاتے کیوں کہ ہیم ساگر آپ کو بہت پسند تھا۔ایک میں نے اور ایک بار باجی نے کولکاتا سے یہ آم آپ کو لاکر دیا تھاتو آپ دل ہی دل میں بہت خوش ہوئے تھے کیوں کہ آپ اپنی خوشی کا اظہار بہت کھل کر کبھی نہیں کرتے تھے۔ایک عام انسان کے لیے اس سے بڑی اور کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ وہ بے داغ زندگی گزار کر صاف ستھری صور ت و سیرت لے کر قبر میں جا سورہے۔ موت اس کی کرے جس کا زمانہ افسوس: یہ محاورہ مجھے اس وقت سب سے بُرا محاورہ لگ رہا ہے۔ اصل میں موت اس کی جس نے عام حالات میں صاف ستھری زندگی گزاری ہواور لب پہ کوئی شکوہ نہ ہو۔ آپ کو زندگی سے کبھی شکایت نہ رہی۔ آپ نے کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا۔ نہ کوئی ادارہ بنایا، نہ کسی مسجد و مدرسے کی بنیاد ڈالی، نہ کسی عہدے یا منصف پر فائز ہوئے لیکن زمانہ اس بات کی گواہی دے گا کہ آپ کے اوپر کسی قسم کی بدعنوانی،کرپشن، جھگڑے لڑائی یا بدتمیزی کی کوئی چھینٹ نہ پڑی۔ آپ نے قرآن کو سمجھ کر تو نہیں پڑھا لیکن اتنا پڑھا کہ قرآن کے کئی سپارے آپ کو زبانی یاد تھے اور محلے کی مسجد میں جب امام صاحب نہیں ہوتے تھے تو آپ کو ہی امامت کے لئے آگے بڑھا یا جاتا۔ آخری عمر کی وہ نماز مجھے یاد ہے جب آپ کو دھوپ کی معمولی شدت بھی برداشت نہیں تھی اور میں آپ کے ساتھ چھتری لے کر مسجد جایا کرتا تھا۔ گاؤں کے معزز ترین لوگ بھی آپ کی نیک نامی کی قسمیں کھاتے تھے۔ آپ کے پاس کبھی کوئی گاڑی نہیں رہی لیکن چار پہیہ والے حضرات آپ کی عیادت کے لئے گاڑی لے کر آپ کے دروازے تک آتے اور میں اس کا گواہ ہوں۔ ان گاڑیوں کو جب میں دیکھتا ہوں تو آپ کی تصویر نظروں کے سامنے پھرجاتی ہے۔ برسر روزگار ہونے کے بعد میری دو خواہشیں تھیں جو میں نے کبھی آپ کو نہیں بتائی۔ آپ بھی اپنی خواہش کبھی کسی سے مشترک نہیں کرتے تھے۔ شاید آپ کی یہ خصلت مجھ میں آگئی ہے۔ میری خواہش تھی کہ آپ کو حج کراؤں اور ایک چار پہیہ والی گاڑی آپ کے دروازے پہ رکے اور آپ اس میں یہ سوچ کر بیٹھیں کہ یہ میرے بیٹے کی گاڑی ہے تو میر ا سینہ فخر سے اونچا ہوجائے۔ لیکن بہت سی ایسی ہی خواہشوں کی طرح ان خواہشوں نے دم توڑ دیا جب آپ نے دم توڑ دیا۔ آخری دنوں میں کئی بار آپ شدید بیمار ہوئے، کبھی میں اور کبھی بھیا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آپ کے پاس دوڑے چلے آتے۔ ایسا کئی بار ہوا کہ آپ کی روح نکل جانے کا گمان ہوا لیکن آپ واپس آجاتے۔جیسے خدا کہتا ہو کہ اپنی اولاد سے تھوڑی اور خدمت لے کر آؤ۔ بھیا خوش قسمت تھے کہ آخری لمحے میں آپ کے پاس رہے۔ میں وہ رات نہیں بھولتا جب میں گھر سے ڈیوٹی جوائن کرنے نکلا اور اگلی صبح آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ بھیا کو یقین نہیں ہوا کہ آپ چلے گئے اس لیے ڈاکٹر کو بلا کر تصدیق چاہی۔ تب مجھے اطلاع دی۔ اس سے قبل تک آپ نے گھر کے تمام افراد کو بہ حالت غشی یاد کیا۔ اور تقریبا سبھی لوگوں نے آپ کو آخری لمحے میں دیکھا۔ اس سے بڑی بات ایک عام آدمی کے لیے اور کیا ہوسکتی ہے۔
آپ چلے گئے ادھر ہندوستان بھی سیاسی اور سماجی اعتبار سے بہت بدل گیا ہے۔ بہار میں سماجی انصاف کی لڑائی لڑنے والا آپ کا پسندیدہ نیتا تو آپ کے سامنے ہی جیل چلا گیا اور مئی ۲۰۱۹ں ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں بھگوا کو زبردست کامیابی ملی۔ اچھا ہی ہوا کہ آپ چلے گیے۔ رہتے بھی توکون سا تیر مار لیتے کیوں کہ آپ جیسے لوگوں کے ووٹ کی اب کوئی قیمت ہی نہیں بچی۔ اب آپ کو اس بات کا ڈر تو نہیں ہوگا کہ کسی دن ٹرین میں چلتے ہوئے یا مسجد سے نکلتے ہوئے کوئی شخص آکر زبردستی جے شری رام بولنے کے لیے کہے گا یا آپ کی ٹوپی اتارنے کو کہے گا۔ اور سیکولر پارٹیاں ایک مذمت نامہ بھی پیش نہیں کرسکیں گی۔ یہ بھی کیا کم بات تھی کہ آپ کا ہر ووٹ صرف سیکولر لوگوں کو ہی پڑا؟
آج عید کے دن صبح امی فون پہ رور ہی تھیں۔ آپ کو یاد کرکے۔ میں نہیں رویا۔ میں آپ کی رحلت پہ بھی نہیں رویا تھا۔ایسا نہیں تھا کہ میں رونا نہیں چاہتا تھا۔یا میں روتا نہیں ہوں۔ رونے والے بندے کو اللہ بہت پسند فرماتا ہے۔ لیکن  مجھے آپ نے سکھایا تھا کہ بین کرنا گناہ ہے۔اور تین دن سے زیادہ سوگ منانا بھی اسلامی قاعدے کے مطابق گناہ ہے۔ آپ کو میں نے دعاؤں کے سوا کبھی روتے نہیں دیکھا۔ آپ اس وقت بھی نہیں روئے جب پندرہ سولہ سال کا ہونہار بیٹا آپ کے ہاتھوں سے اس طرح غائب ہوگیا جیسے وہ کبھی آپ کا بیٹا تھا ہی نہیں۔ نہ جانے کس جگہ جاکر وہ وہ چھپ گیا۔ آج تک صحیح خبر کسی نے نہیں دی۔ امی اس بیٹے کے لیے برسوں روتی رہیں۔ مگر میں نے آپ کو صرف یہ کہتے سنا کہ صبر کرو اللہ صبر کا پھل دے گا۔ آپ کمال کے تھے۔ زندگی کی اتنی بڑی ٹریجڈی میں آپ جس ثابت قدمی سے اپنے خدا پر یقین بنائے رہے وہ تاریخ کے کسی ورق میں درج نہ ہو لیکن آپ کا یہ عمل مجھ میں زندہ ہے۔ صبر کا پہاڑ تھے۔ زندگی کے کسی موڑ پر آپ کو میں نے اس بیٹے کے کھوجانے کا افسوس کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جس طرح آپ اچھے مسلمان بن کر اس دنیا سے گئے مجھ میں اس کی کچھ خو بو تو ہے۔ اس لیے آپ مجھ میں زندہ ہیں۔ لیکن امی ایک خاتون ہیں۔ ان کا دل ویسے بھی بہت نرم تھا۔ وہ روتی ہیں جب آپ کو یاد کرتی ہیں۔ ویسے بھی وہ ان دنوں بالکل اکیلی ہیں۔ بھیا اپنے کام کی وجہ سے باہر رہتے ہیں۔ بھابھی بچوں کی پڑھائی کی وجہ سے مظفرپور میں رہتی ہیں۔ میرے ساتھ آپنے چھوٹی بہو کو بھی زبردستی بھیج دیا تاکہ آپ کو پوتے /پوتی کاسکھ مل سکے اور مجھ سے آپ کی نسل آگے بڑھ سکے۔ لیکن خدا کا کرنا دیکھئے ادھر آپ کی آنکھیں بند ہوئیں ادھر آپ کو میری نسل سے پوتے /پوتی کا سکھ ملنے کی امید جاگی ہے۔ جس لمحے کا آپ نے پانچ برسوں تک انتظار کیا وہ لمحہ بھی اس وقت آیا جب آپ اس دنیا میں نہیں ہیں۔ آج میں آپ کو لکھ رہا ہوں کہ آپ کی چھوٹی بہو کی کوکھ میں تین ماہ کا بچہ ہے۔ اگر سب ٹھیک ٹھاک رہا اور پچھلی بار کی طرح خدا کی نامنظوری نہیں ہوئی تو اس برس کے اخیر تک میرے ذریعے آپ کی نسل آگے بڑھ جائے گی۔ آپ ہوتے تو کتنی دعائیں دیتے۔ آپ کو بچوں سے بہت پیار تھا۔ بچوں کے ساتھ گھل مل جانا،ان سے چھیڑ چھاڑ کرنا آپ کو کتنا پسند تھا یہ آپ کے قریب رہنے والے ہی جانتے ہیں۔ میں تصور کرتا ہوں کہ میرے بچے سے آپ بہت پیار کرتے۔  آپ علیین میں ہوں گے۔ اگر میرے جذبات آپ تک پہنچ رہے ہوں تو یقین جانئے آپ اپنے پوتے /پوتی میں بھی زندہ رہیں گے۔ میں ان کو آپ کی دو خصلتیں ضرور سکھاؤں گا۔ ہر مشکل میں صبر کرنا اور خدا پہ مکمل یقین رکھنا۔آج سے دس برس قبل جب پرانے گھر میں رہتے تھے اور ساجھی جگہ کی دشواریوں سے تنگ آکر امی گھر اور باتھ روم میں توسیع کی بات کرتیں اور آپ کہتے کہ صبر کرو خدا ضرور دے گا تو مجھے آپ کی باتیں اتنی اچھی نہیں لگتی تھیں۔ میں سوچتا تھا کہ خدا پہ آپ کے یقین کی ایسی کون سی وجہ ہے۔ لیکن پچھلے پانچ برسوں میں ہم نے گھر کی توسیع بھی کی۔ اپنا ٹوائلٹ باتھ روم اور دوسری سہولیات زندگی بھی میسر آگئی تو میری آنکھیں کھل گئیں۔ وقت سب بدل دیتا ہے۔ ایک وقت تھا جب آپ ہر عید پہ میرے لیے کپڑے بنواتے،پچھلی عیدوں پہ میں آپ کے لیے کپڑے لے جاتا تو آپ بطور قناعت کہتے کہ آپ کو نئے کپڑوں کی ضرورت نہیں۔ لیکن جب وہ کپڑے آپ پہن لیتے اور سرما، عطر لگا کر عید گاہ کی طرف جاتے تو میرا دل مسرت آمیز ہوجاتا تھا۔ اس عید یہ مسرت مجھے حاصل نہ ہوسکی۔  اہل خانہ کی خوشیوں کو ترجیح دینا اور خود کی ضرورتوں کو بھول جانے کی آپ کی روش نے ہی آپ کو تپ دق میں مبتلا کیا اور اسی مرض میں آپ دار فانی کو کوچ کرگئے۔خدا یقینا آپ پہ مہربان ہوگا۔
آپ کے جانے کے بعد بھیا سنبھل نہیں سکے ہیں۔ انھیں روزگار کی فکر ہے۔ بھیا کی بیٹیا ں:زینب علی، عابدہ علی اور بیٹا احمد علی جو آپ کے ساتھ اس تصویر میں ہے۔ اچھے ہیں۔ نئے اسکول میں داخلہ لیا ہے۔ امی کی حالت میں نے بتا ہی دی آپ کو۔ میں آپ کی چھوٹی بہو کے ساتھ آپ کے پوتا /پوتی کا منتظر ہوں۔ اور کوشش کررہا ہوں کہ آپ کے نقش قدم پہ چلتا رہوں۔ آپ رجعت پسند نہیں تھے۔ ترقی پسند تھے۔ نئی چیزوں کو قبول کرنے کے لیے آپ نے کبھی نہیں روکا۔ میں بھی رجعت پسند نہیں ہوں۔ آپ مجھ میں زندہ ہیں۔ بار بار ندا فاضلی کی نظم یاد آجاتی ہے۔ ”میں تمھاری قبر پہ فاتحہ پڑھنے نہیں آیا“۔لیکن نہ تو میں شاعر ہوں اور نہ ایسا ہوا کہ فاتحہ پڑھنے نہ جاؤں۔ میں آپ کی قبر پہ فاتحہ پڑھنے گیا تھا اور آئندہ بھی جاتا رہوں گا۔لیکن تب بھی آپ مجھ میں زند ہ ہیں ایک مشہور  شاعر کےباپ کی حیثیت سے نہیں ایک عام آدمی کے باپ کی حیثیت سے۔ آپ نے اپنے پیچھے جوتھوڑے بہت قرضے چھوڑے تھے اپنے علم کی حد تک ہم نے سب چکتا کردیے ہیں۔ میری ناہنجاریوں کو درگزر فرمانا۔ آپ صابر اور معاف کرنے والے تھے۔