پاپا کے نام
آپ کے بغیر یہ پہلی عید آدھی ادھوری رہی پاپا!
پچھلی عید پہ جب یہ تصویر لی تھی تو نہیں سوچا تھا کہ پھر کبھی آپ کی تصویر نہ لے سکوں گا۔ تصویر تو عکس ہے۔ اصل زندگی تو وہ تھی جو آپ نے جی اور ہم دوبھائیوں اور دو بہنوں کے درمیان بانٹ دی۔ آپ کے پاس بانٹنے کے لئے کوئی خزانہ نہیں تھا۔ امی اکثر آپ کی زندگی کاماحصل جاننے کی کوشش کرتیں اور کہتیں کہ زندگی میں آپ نے کیا کیا؟ اور میرا جواب بہت سادہ سا تھا کہ ہم چار بھائی بہنوں کی مکمل پرورش ہی آپ کی زندگی کا ماحصل تھا۔ یہ کارنامہ ایک عام انسان کے لئے کم نہیں ہوتا۔ عام انسان تاریخ کا حصہ نہیں ہوتا۔ ہم بھائی بہنوں میں سے کوئی بڑا آدمی نہ بن سکا۔ ہم نے کوئی کارنامہ بھی انجام نہیں دیا کہ ہمارے کارناموں کی وجہ سے آپ جانے جاتے۔ میں کوئی قلم کار ہوتا تو آپ کی سوانح عمری میں کوئی نہ کوئی کرامت ضرور ڈھونڈ لیتا تاکہ تاریخ کے کسی گوشے میں آپ کو جگہ مل جاتی۔ شاعر ہوتا تو ایک لازوال نظم لکھ کر آپ کو امر کردیتا لیکن میرے لیے اس سے بڑی آپ کی کوئی کرامت نہیں ہے کہ آپ ہم میں زندہ ہیں۔ آپ میری خوبیوں میں زندہ ہیں۔ میری پسند ناپسند، میرے عمل اور رد عمل میں زندہ ہیں۔ میری شکل و صورت میں زندہ ہیں۔ میرے احساسات و جذبات میں زندہ ہیں۔ میں بکازار سے بکرے کا گوشت لینے جاتا ہوں تو پشت یا گردن کا گوشت لیتا ہوں یا پایہ سری لیتا ہوں کیوں کہ یہ آپ کو بھی پسند تھے اور مجھے بھی۔مچھلی میں جھینگا مچھلی اور گینچا مچھلی مجھے بھی پسند ہیں اور،کھانے میں سلاد مجھے میں بھی پسند ہیں۔ سائل کو کچھ نہ کچھ دے کر ہی لوٹنے کے عمل کو میں نے بھی اپنانے کی کوشش کی ہے۔مالدہ (لنگڑا) آم مجھے بھی بہت پسند ہے۔اس رمضان بنگال میں ہیم ساگر پہ نظر پڑتی تو آپ مجھ میں زندہ ہوجاتے کیوں کہ ہیم ساگر آپ کو بہت پسند تھا۔ایک میں نے اور ایک بار باجی نے کولکاتا سے یہ آم آپ کو لاکر دیا تھاتو آپ دل ہی دل میں بہت خوش ہوئے تھے کیوں کہ آپ اپنی خوشی کا اظہار بہت کھل کر کبھی نہیں کرتے تھے۔ایک عام انسان کے لیے اس سے بڑی اور کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ وہ بے داغ زندگی گزار کر صاف ستھری صور ت و سیرت لے کر قبر میں جا سورہے۔ موت اس کی کرے جس کا زمانہ افسوس: یہ محاورہ مجھے اس وقت سب سے بُرا محاورہ لگ رہا ہے۔ اصل میں موت اس کی جس نے عام حالات میں صاف ستھری زندگی گزاری ہواور لب پہ کوئی شکوہ نہ ہو۔ آپ کو زندگی سے کبھی شکایت نہ رہی۔ آپ نے کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا۔ نہ کوئی ادارہ بنایا، نہ کسی مسجد و مدرسے کی بنیاد ڈالی، نہ کسی عہدے یا منصف پر فائز ہوئے لیکن زمانہ اس بات کی گواہی دے گا کہ آپ کے اوپر کسی قسم کی بدعنوانی،کرپشن، جھگڑے لڑائی یا بدتمیزی کی کوئی چھینٹ نہ پڑی۔ آپ نے قرآن کو سمجھ کر تو نہیں پڑھا لیکن اتنا پڑھا کہ قرآن کے کئی سپارے آپ کو زبانی یاد تھے اور محلے کی مسجد میں جب امام صاحب نہیں ہوتے تھے تو آپ کو ہی امامت کے لئے آگے بڑھا یا جاتا۔ آخری عمر کی وہ نماز مجھے یاد ہے جب آپ کو دھوپ کی معمولی شدت بھی برداشت نہیں تھی اور میں آپ کے ساتھ چھتری لے کر مسجد جایا کرتا تھا۔ گاؤں کے معزز ترین لوگ بھی آپ کی نیک نامی کی قسمیں کھاتے تھے۔ آپ کے پاس کبھی کوئی گاڑی نہیں رہی لیکن چار پہیہ والے حضرات آپ کی عیادت کے لئے گاڑی لے کر آپ کے دروازے تک آتے اور میں اس کا گواہ ہوں۔ ان گاڑیوں کو جب میں دیکھتا ہوں تو آپ کی تصویر نظروں کے سامنے پھرجاتی ہے۔ برسر روزگار ہونے کے بعد میری دو خواہشیں تھیں جو میں نے کبھی آپ کو نہیں بتائی۔ آپ بھی اپنی خواہش کبھی کسی سے مشترک نہیں کرتے تھے۔ شاید آپ کی یہ خصلت مجھ میں آگئی ہے۔ میری خواہش تھی کہ آپ کو حج کراؤں اور ایک چار پہیہ والی گاڑی آپ کے دروازے پہ رکے اور آپ اس میں یہ سوچ کر بیٹھیں کہ یہ میرے بیٹے کی گاڑی ہے تو میر ا سینہ فخر سے اونچا ہوجائے۔ لیکن بہت سی ایسی ہی خواہشوں کی طرح ان خواہشوں نے دم توڑ دیا جب آپ نے دم توڑ دیا۔ آخری دنوں میں کئی بار آپ شدید بیمار ہوئے، کبھی میں اور کبھی بھیا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آپ کے پاس دوڑے چلے آتے۔ ایسا کئی بار ہوا کہ آپ کی روح نکل جانے کا گمان ہوا لیکن آپ واپس آجاتے۔جیسے خدا کہتا ہو کہ اپنی اولاد سے تھوڑی اور خدمت لے کر آؤ۔ بھیا خوش قسمت تھے کہ آخری لمحے میں آپ کے پاس رہے۔ میں وہ رات نہیں بھولتا جب میں گھر سے ڈیوٹی جوائن کرنے نکلا اور اگلی صبح آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ بھیا کو یقین نہیں ہوا کہ آپ چلے گئے اس لیے ڈاکٹر کو بلا کر تصدیق چاہی۔ تب مجھے اطلاع دی۔ اس سے قبل تک آپ نے گھر کے تمام افراد کو بہ حالت غشی یاد کیا۔ اور تقریبا سبھی لوگوں نے آپ کو آخری لمحے میں دیکھا۔ اس سے بڑی بات ایک عام آدمی کے لیے اور کیا ہوسکتی ہے۔
آپ چلے گئے ادھر ہندوستان بھی سیاسی اور سماجی اعتبار سے بہت بدل گیا ہے۔ بہار میں سماجی انصاف کی لڑائی لڑنے والا آپ کا پسندیدہ نیتا تو آپ کے سامنے ہی جیل چلا گیا اور مئی ۲۰۱۹ں ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں بھگوا کو زبردست کامیابی ملی۔ اچھا ہی ہوا کہ آپ چلے گیے۔ رہتے بھی توکون سا تیر مار لیتے کیوں کہ آپ جیسے لوگوں کے ووٹ کی اب کوئی قیمت ہی نہیں بچی۔ اب آپ کو اس بات کا ڈر تو نہیں ہوگا کہ کسی دن ٹرین میں چلتے ہوئے یا مسجد سے نکلتے ہوئے کوئی شخص آکر زبردستی جے شری رام بولنے کے لیے کہے گا یا آپ کی ٹوپی اتارنے کو کہے گا۔ اور سیکولر پارٹیاں ایک مذمت نامہ بھی پیش نہیں کرسکیں گی۔ یہ بھی کیا کم بات تھی کہ آپ کا ہر ووٹ صرف سیکولر لوگوں کو ہی پڑا؟
آج عید کے دن صبح امی فون پہ رور ہی تھیں۔ آپ کو یاد کرکے۔ میں نہیں رویا۔ میں آپ کی رحلت پہ بھی نہیں رویا تھا۔ایسا نہیں تھا کہ میں رونا نہیں چاہتا تھا۔یا میں روتا نہیں ہوں۔ رونے والے بندے کو اللہ بہت پسند فرماتا ہے۔ لیکن مجھے آپ نے سکھایا تھا کہ بین کرنا گناہ ہے۔اور تین دن سے زیادہ سوگ منانا بھی اسلامی قاعدے کے مطابق گناہ ہے۔ آپ کو میں نے دعاؤں کے سوا کبھی روتے نہیں دیکھا۔ آپ اس وقت بھی نہیں روئے جب پندرہ سولہ سال کا ہونہار بیٹا آپ کے ہاتھوں سے اس طرح غائب ہوگیا جیسے وہ کبھی آپ کا بیٹا تھا ہی نہیں۔ نہ جانے کس جگہ جاکر وہ وہ چھپ گیا۔ آج تک صحیح خبر کسی نے نہیں دی۔ امی اس بیٹے کے لیے برسوں روتی رہیں۔ مگر میں نے آپ کو صرف یہ کہتے سنا کہ صبر کرو اللہ صبر کا پھل دے گا۔ آپ کمال کے تھے۔ زندگی کی اتنی بڑی ٹریجڈی میں آپ جس ثابت قدمی سے اپنے خدا پر یقین بنائے رہے وہ تاریخ کے کسی ورق میں درج نہ ہو لیکن آپ کا یہ عمل مجھ میں زندہ ہے۔ صبر کا پہاڑ تھے۔ زندگی کے کسی موڑ پر آپ کو میں نے اس بیٹے کے کھوجانے کا افسوس کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جس طرح آپ اچھے مسلمان بن کر اس دنیا سے گئے مجھ میں اس کی کچھ خو بو تو ہے۔ اس لیے آپ مجھ میں زندہ ہیں۔ لیکن امی ایک خاتون ہیں۔ ان کا دل ویسے بھی بہت نرم تھا۔ وہ روتی ہیں جب آپ کو یاد کرتی ہیں۔ ویسے بھی وہ ان دنوں بالکل اکیلی ہیں۔ بھیا اپنے کام کی وجہ سے باہر رہتے ہیں۔ بھابھی بچوں کی پڑھائی کی وجہ سے مظفرپور میں رہتی ہیں۔ میرے ساتھ آپنے چھوٹی بہو کو بھی زبردستی بھیج دیا تاکہ آپ کو پوتے /پوتی کاسکھ مل سکے اور مجھ سے آپ کی نسل آگے بڑھ سکے۔ لیکن خدا کا کرنا دیکھئے ادھر آپ کی آنکھیں بند ہوئیں ادھر آپ کو میری نسل سے پوتے /پوتی کا سکھ ملنے کی امید جاگی ہے۔ جس لمحے کا آپ نے پانچ برسوں تک انتظار کیا وہ لمحہ بھی اس وقت آیا جب آپ اس دنیا میں نہیں ہیں۔ آج میں آپ کو لکھ رہا ہوں کہ آپ کی چھوٹی بہو کی کوکھ میں تین ماہ کا بچہ ہے۔ اگر سب ٹھیک ٹھاک رہا اور پچھلی بار کی طرح خدا کی نامنظوری نہیں ہوئی تو اس برس کے اخیر تک میرے ذریعے آپ کی نسل آگے بڑھ جائے گی۔ آپ ہوتے تو کتنی دعائیں دیتے۔ آپ کو بچوں سے بہت پیار تھا۔ بچوں کے ساتھ گھل مل جانا،ان سے چھیڑ چھاڑ کرنا آپ کو کتنا پسند تھا یہ آپ کے قریب رہنے والے ہی جانتے ہیں۔ میں تصور کرتا ہوں کہ میرے بچے سے آپ بہت پیار کرتے۔ آپ علیین میں ہوں گے۔ اگر میرے جذبات آپ تک پہنچ رہے ہوں تو یقین جانئے آپ اپنے پوتے /پوتی میں بھی زندہ رہیں گے۔ میں ان کو آپ کی دو خصلتیں ضرور سکھاؤں گا۔ ہر مشکل میں صبر کرنا اور خدا پہ مکمل یقین رکھنا۔آج سے دس برس قبل جب پرانے گھر میں رہتے تھے اور ساجھی جگہ کی دشواریوں سے تنگ آکر امی گھر اور باتھ روم میں توسیع کی بات کرتیں اور آپ کہتے کہ صبر کرو خدا ضرور دے گا تو مجھے آپ کی باتیں اتنی اچھی نہیں لگتی تھیں۔ میں سوچتا تھا کہ خدا پہ آپ کے یقین کی ایسی کون سی وجہ ہے۔ لیکن پچھلے پانچ برسوں میں ہم نے گھر کی توسیع بھی کی۔ اپنا ٹوائلٹ باتھ روم اور دوسری سہولیات زندگی بھی میسر آگئی تو میری آنکھیں کھل گئیں۔ وقت سب بدل دیتا ہے۔ ایک وقت تھا جب آپ ہر عید پہ میرے لیے کپڑے بنواتے،پچھلی عیدوں پہ میں آپ کے لیے کپڑے لے جاتا تو آپ بطور قناعت کہتے کہ آپ کو نئے کپڑوں کی ضرورت نہیں۔ لیکن جب وہ کپڑے آپ پہن لیتے اور سرما، عطر لگا کر عید گاہ کی طرف جاتے تو میرا دل مسرت آمیز ہوجاتا تھا۔ اس عید یہ مسرت مجھے حاصل نہ ہوسکی۔ اہل خانہ کی خوشیوں کو ترجیح دینا اور خود کی ضرورتوں کو بھول جانے کی آپ کی روش نے ہی آپ کو تپ دق میں مبتلا کیا اور اسی مرض میں آپ دار فانی کو کوچ کرگئے۔خدا یقینا آپ پہ مہربان ہوگا۔
آپ کے جانے کے بعد بھیا سنبھل نہیں سکے ہیں۔ انھیں روزگار کی فکر ہے۔ بھیا کی بیٹیا ں:زینب علی، عابدہ علی اور بیٹا احمد علی جو آپ کے ساتھ اس تصویر میں ہے۔ اچھے ہیں۔ نئے اسکول میں داخلہ لیا ہے۔ امی کی حالت میں نے بتا ہی دی آپ کو۔ میں آپ کی چھوٹی بہو کے ساتھ آپ کے پوتا /پوتی کا منتظر ہوں۔ اور کوشش کررہا ہوں کہ آپ کے نقش قدم پہ چلتا رہوں۔ آپ رجعت پسند نہیں تھے۔ ترقی پسند تھے۔ نئی چیزوں کو قبول کرنے کے لیے آپ نے کبھی نہیں روکا۔ میں بھی رجعت پسند نہیں ہوں۔ آپ مجھ میں زندہ ہیں۔ بار بار ندا فاضلی کی نظم یاد آجاتی ہے۔ ”میں تمھاری قبر پہ فاتحہ پڑھنے نہیں آیا“۔لیکن نہ تو میں شاعر ہوں اور نہ ایسا ہوا کہ فاتحہ پڑھنے نہ جاؤں۔ میں آپ کی قبر پہ فاتحہ پڑھنے گیا تھا اور آئندہ بھی جاتا رہوں گا۔لیکن تب بھی آپ مجھ میں زند ہ ہیں ایک مشہور شاعر کےباپ کی حیثیت سے نہیں ایک عام آدمی کے باپ کی حیثیت سے۔ آپ نے اپنے پیچھے جوتھوڑے بہت قرضے چھوڑے تھے اپنے علم کی حد تک ہم نے سب چکتا کردیے ہیں۔ میری ناہنجاریوں کو درگزر فرمانا۔ آپ صابر اور معاف کرنے والے تھے۔
No comments:
Post a Comment
اچھے تبصرے کے لئے ہمیشہ شکر گزار