ابھی حال ہی میں بصیرت آن لائن اردو پورٹل نیوز پیپر کے لئے رضا کارانہ طور پر بطور بیورو چیف حلقہ شمالی دیناج پور سے خبریں دینے کا عمل شروع کیا ہو اسی تعلق سے اس کالم ان خبروں کا سلسلہ اپنے بلاگ کے قارئین کے لئے شروع کر رہا ہوں تاکہ طیب فرقانی کی باتیں آسانی سے ان تک پہنچ جائیں ۔۔۔۔۔پہلی خبر مندرجہ ذیل سرخی کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں
اتر دیناج پور میں تعلیم پر اثر انداز ہوتیں سیاسی سرگرمیاں
مغربی بنگال کے ضلع اتر دیناج پور کے رائے گنج حلقے میں ملک کی دیگر ریاستوں اور علاقوں کی طرح انتخابات کے پیش نظر سیاسی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں ۔یہاں سے ملک کی چھوٹی بڑی متعدد پارٹیوں نے اپنے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے ۔خاص بات یہ ہے کہ علاقے میں مسلم ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ۔جس کی وجہ سے آسام میں اپنی حیثیت منوا لینے والی مسلم مسائل پر ارتکاز کرنے والی نسبتا جدید پارٹی یوڈی ایف ،جو مولانا بد ر الدین اجمل کی پارٹی کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، نے بھی اس بار لوک سبھا کے الیکشن میں اس علاقے سے اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے ۔یو ڈی ایف کے امیدوار سید ضمیر الحسن نے اس علاقے میں اپنی میٹینگیں کرنی شروع کردی ہیں ۔دوسری طرف کانگریس کی مضبوط سمجھی جانی والی امید وار دیپا داس منشی اور سی پی آئی ایم سے محمد سلیم اپنی اپنی دعوے داری کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں جٹے ہوئے ہیں ۔جیت کا تمغہ کسے ملے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ اس علاقے میں انتخابی موسم تعلیم کے لئے موسم خزاں بن کر آتا ہے ۔سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا مسئلہ ویسے ہی کمزور رہتا ہے لیکن انتخابی موسم میں اس پر خزاں کا موسم اور گہرا ہوجاتا ہے۔جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں اساتذہ پوری آب و تاب سے نہ صرف سیاست میں دل چسپی لیتے ہیں بلکہ اس میں عملی حصہ لے کر کسی امیدوار کو جیت دلانے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں ۔اساتذہ کا سیاست سے لگاؤ بچوں کی تعلیم پر برا اثر ڈالتا ہے ۔کیوں کہ اساتذہ اپنی سیاسی سرگرمیاں انجام دینے کے سلسلے میں میٹینگوں اور جلسوں میں شریک ہوتے ہیں اور اسکولوں سے غائب رہتے ہیں ۔سیاسی شخصیت ہونے کی وجہ سے اپنے اثر رسوخ کا استعمال کر کے وہ اسکول انتظامیہ اور صدر مدرس کو قابو میں رکھتے ہیں ۔ان کا اپنا تو بھلا ہوجاتا ہے لیکن قوم کے نو نہالوں کا جو ہوتا ہے وہ تو علاقے کی تعلیمی صورت حال ہی بتا تی ہے ۔کہتے ہیں کہ یہاں دو ہی پیشے کامیاب ہیں ،معلمی اور سیاست ۔جس میں نہ کوئی رسک ہے اور نہ کھونے کا کوئی غم ۔کل وقتی گارنٹی ۔یہی وجہ ہے کہ آج کل اسکولوں میں اساتذہ کی غیر حاضری کی شرح بڑھی ہوئی ہے ۔ایسے میں مسلمان یہ امید کرتے ہیں کہ کسی طرح کوئی چمتکار ہوجائے اور ان کی پس ماندگی دور ہو ۔لیکن وہ چمتکار کرے گا کون یہ دیکھنے والی بات ہوگی ۔
ذیل میں لنک بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے
No comments:
Post a Comment
اچھے تبصرے کے لئے ہمیشہ شکر گزار