مکرمی!
دہلی ،دلی اور دلہی کے عنوان سے جناب شکیل احمد صاحب کا مضمون (شا ئع شدہ ۲۷؍جنوری ۲۰۱۳)دہلی کی تہذیب وروایت پر روشنی ڈالنے والا مختصر مضمون ہے۔شکیل شمسی صاحب کی جادو بیانی سے ہر وہ شخص واقف ہے جو ان کے مستقل کالم’’موضوع گفتگو‘‘ کا مطالعہ کرتا ہے۔لیکن اس مضمون کے مطالعے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ مضمون بڑی جلد بازی میں قلم بند کیا گیا ہے۔ورنہ یہ ناممکن ہے کہ شکیل صاحب جیسے صحافی سے یہ بات پوشیدہ رہ جاتی کہ دہلی اور بہاری ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم کی طرح ہیں ۔شکیل صاحب نے اپنے مضمون میں جن چار تہذیبوں او ر اس کے اثرات کا ذکر کیا ہے ان میں بہار اور بہاریوں کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے ۔کہاجاتا ہے کہ دہلی کی دو چیزیں بہت مشہور ہیں ۔اور ان دونوں میں ایک نقطے کا فرق ہے۔وہ دو مشہور چیزیں ہیں ’’بہاری اور نہاری ‘‘۔پرانی دلی اور ذاکر نگر کی نہاری سے تو ہم جیسے نا رسا لوگ بھی واقف ہیں ۔اور بہار تو دہلی میں ہر جگہ نظر آتا ہے۔دہلی میں چھٹ پوجا بہار سے ہی آیا ہے۔یہاں تو کئی علاقوں میں بہاری محلے آباد ہیں اور ان کو بہاری محلہ ہی کہا جاتا ہے۔ایک رکشے والے سے چیف جسٹس آفتاب عالم تک عظیم آباد اور بہار سے آئے ہوئے لوگ پوری دہلی میں پھیلے ہوئے ہیں ۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی بہت سے لوگ ’’بہاری‘‘کو بہ نظر تحقیر ہی دیکھتے ہیں ۔یہاں میرا مقصود کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں ہے بلکہ شکیل صاحب کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرانا مقصود ہے کہ ایسے اہم موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جلد بازی سے کام نہ لیں ۔کیوں کہ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردوجامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۲۵
اخبار کا تراشہ
دہلی ،دلی اور دلہی کے عنوان سے جناب شکیل احمد صاحب کا مضمون (شا ئع شدہ ۲۷؍جنوری ۲۰۱۳)دہلی کی تہذیب وروایت پر روشنی ڈالنے والا مختصر مضمون ہے۔شکیل شمسی صاحب کی جادو بیانی سے ہر وہ شخص واقف ہے جو ان کے مستقل کالم’’موضوع گفتگو‘‘ کا مطالعہ کرتا ہے۔لیکن اس مضمون کے مطالعے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ مضمون بڑی جلد بازی میں قلم بند کیا گیا ہے۔ورنہ یہ ناممکن ہے کہ شکیل صاحب جیسے صحافی سے یہ بات پوشیدہ رہ جاتی کہ دہلی اور بہاری ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم کی طرح ہیں ۔شکیل صاحب نے اپنے مضمون میں جن چار تہذیبوں او ر اس کے اثرات کا ذکر کیا ہے ان میں بہار اور بہاریوں کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے ۔کہاجاتا ہے کہ دہلی کی دو چیزیں بہت مشہور ہیں ۔اور ان دونوں میں ایک نقطے کا فرق ہے۔وہ دو مشہور چیزیں ہیں ’’بہاری اور نہاری ‘‘۔پرانی دلی اور ذاکر نگر کی نہاری سے تو ہم جیسے نا رسا لوگ بھی واقف ہیں ۔اور بہار تو دہلی میں ہر جگہ نظر آتا ہے۔دہلی میں چھٹ پوجا بہار سے ہی آیا ہے۔یہاں تو کئی علاقوں میں بہاری محلے آباد ہیں اور ان کو بہاری محلہ ہی کہا جاتا ہے۔ایک رکشے والے سے چیف جسٹس آفتاب عالم تک عظیم آباد اور بہار سے آئے ہوئے لوگ پوری دہلی میں پھیلے ہوئے ہیں ۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی بہت سے لوگ ’’بہاری‘‘کو بہ نظر تحقیر ہی دیکھتے ہیں ۔یہاں میرا مقصود کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں ہے بلکہ شکیل صاحب کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرانا مقصود ہے کہ ایسے اہم موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جلد بازی سے کام نہ لیں ۔کیوں کہ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردوجامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۲۵
اخبار کا تراشہ
No comments:
Post a Comment
اچھے تبصرے کے لئے ہمیشہ شکر گزار