مکرمی!
ہم آئے دن الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں یہ خبریں پڑھتے سنتے رہتے ہیں کہ فلاں ملک نے فلاں میزائل کا تجربہ کیا اور فلاں نے فلاں کا۔۔۔۔میزائلوں اور بموں کے علاوہ دوسرے ہتھیار بھی ایک ملک دوسرے ملک سے خریدتے بیچتے رہتے ہیں۔اس کے سیاسی اور اقتصادی فوائد زیادہ اور عوامی فوائد کم سے کم ہیں۔عالمی سطح پر اگر ہم دیکھیں تو جی ایف پی( گلوبل فائر پاور) کی لسٹ میں امریکا،روس،چین،ہندوستان اور برطانیہ بالترتیب سر فہرست ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے استثنا کے ساتھ دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار ہیں۔
عالمی دفاعی خرچ کو دیکھیں تو کل ملا کر 1.7 ٹریلین ڈالر سالانہ خرچ ہوتا ہے یہ رپورٹ 2011 کی ہے، جب کہ 2010 میں یہ خرچ1.63 ٹریلین ڈالر تھا ۔اس کامطلب یہ ہے کہ ایک سال میں1.3 فی صد خرچ کا اضافہ ہوا ۔اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہتھیاڑوں کی دوڑ کس قدر تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
اس کا تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر یہ رقم دنیا کی 7 ارب آبادی پر برابر سے تقسیم کر دی جائے تو تقریبا 236 ڈالر فی کس کے حصے میں آئے گا ۔ہندوستانی روپیوں کے حساب سے یہ 13000 ہزار بنتے ہیں ۔ اب دنیا میں غربت کی سطح دیکھیں تو پوری دنیا میںیومیہ تقریبا25 ہزار افراد صرف بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔حیرت کی بات ہے کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کو یہ بات کیوں نہیں سوجھتی ۔جس طرح غذا ہر انسان کا بنیادی حق ہے اسی طرح تعلیم ایک بنیادی حق ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق ہرسال ہتھیاروں پر جتنی رقم خرچ کی جاتی ہے اگر اس کا ایک فیصد سے بھی کم دنیا کے تمام بچوں کی تعلیم پر خرچ کیا جائے تو سارے بچے اسکولوں میں ہوں گے ۔اور یقیناًیہ عمل انسانیت کے حق میں اور امن و سکون کے فروغ میں معاون ہوگا۔
نفسیاتی طور سے جائزہ لیں تو ہم پاتے ہیں کہ ہتھیا ر فی نفسہ جنگ پر ابھارتے ہیں ۔اگر آپ کے سامنے ہتھیاررکھا ہو توآپ اسے چھوئیں گے اور اسے چلانے کی لوشش کریں گے ۔یہ ایک نفسیاتی مرحلہ ہے ۔ملکوں کے پاس جب ہتھیار ہوتے ہیں تو وہ یا تو خود کسی ملک پر جنگ مسلط کر دیتے ہیں جیسا امریکا کرتا آرہا ہے یا پھر وہ دوسرے ممالک کو ہتھیار بیچ دیتے ہیں یا کمزورممالک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرکے ان کو ہتھیار خریدنے پر مجبور کر تے ہیں۔پچھلی کئی دہائیوں سے یہی ہو رہا ہے اور سرمایہ دار ممالک لوگوں کے خون سے اپنی جیبیں بھر رہے ہیں ۔اس تجزیے کو سامنے رکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ہتھیاروں کا فروغ اگر کسی کے حق میں مفید ہے وہ سرمایہ دار ہیں ۔عام آدمی کو ہتھیار نہیں تعلیم وروزگار چاہیے۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ
ہم آئے دن الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں یہ خبریں پڑھتے سنتے رہتے ہیں کہ فلاں ملک نے فلاں میزائل کا تجربہ کیا اور فلاں نے فلاں کا۔۔۔۔میزائلوں اور بموں کے علاوہ دوسرے ہتھیار بھی ایک ملک دوسرے ملک سے خریدتے بیچتے رہتے ہیں۔اس کے سیاسی اور اقتصادی فوائد زیادہ اور عوامی فوائد کم سے کم ہیں۔عالمی سطح پر اگر ہم دیکھیں تو جی ایف پی( گلوبل فائر پاور) کی لسٹ میں امریکا،روس،چین،ہندوستان اور برطانیہ بالترتیب سر فہرست ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے استثنا کے ساتھ دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار ہیں۔
عالمی دفاعی خرچ کو دیکھیں تو کل ملا کر 1.7 ٹریلین ڈالر سالانہ خرچ ہوتا ہے یہ رپورٹ 2011 کی ہے، جب کہ 2010 میں یہ خرچ1.63 ٹریلین ڈالر تھا ۔اس کامطلب یہ ہے کہ ایک سال میں1.3 فی صد خرچ کا اضافہ ہوا ۔اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہتھیاڑوں کی دوڑ کس قدر تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
اس کا تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر یہ رقم دنیا کی 7 ارب آبادی پر برابر سے تقسیم کر دی جائے تو تقریبا 236 ڈالر فی کس کے حصے میں آئے گا ۔ہندوستانی روپیوں کے حساب سے یہ 13000 ہزار بنتے ہیں ۔ اب دنیا میں غربت کی سطح دیکھیں تو پوری دنیا میںیومیہ تقریبا25 ہزار افراد صرف بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔حیرت کی بات ہے کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کو یہ بات کیوں نہیں سوجھتی ۔جس طرح غذا ہر انسان کا بنیادی حق ہے اسی طرح تعلیم ایک بنیادی حق ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق ہرسال ہتھیاروں پر جتنی رقم خرچ کی جاتی ہے اگر اس کا ایک فیصد سے بھی کم دنیا کے تمام بچوں کی تعلیم پر خرچ کیا جائے تو سارے بچے اسکولوں میں ہوں گے ۔اور یقیناًیہ عمل انسانیت کے حق میں اور امن و سکون کے فروغ میں معاون ہوگا۔
نفسیاتی طور سے جائزہ لیں تو ہم پاتے ہیں کہ ہتھیا ر فی نفسہ جنگ پر ابھارتے ہیں ۔اگر آپ کے سامنے ہتھیاررکھا ہو توآپ اسے چھوئیں گے اور اسے چلانے کی لوشش کریں گے ۔یہ ایک نفسیاتی مرحلہ ہے ۔ملکوں کے پاس جب ہتھیار ہوتے ہیں تو وہ یا تو خود کسی ملک پر جنگ مسلط کر دیتے ہیں جیسا امریکا کرتا آرہا ہے یا پھر وہ دوسرے ممالک کو ہتھیار بیچ دیتے ہیں یا کمزورممالک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرکے ان کو ہتھیار خریدنے پر مجبور کر تے ہیں۔پچھلی کئی دہائیوں سے یہی ہو رہا ہے اور سرمایہ دار ممالک لوگوں کے خون سے اپنی جیبیں بھر رہے ہیں ۔اس تجزیے کو سامنے رکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ہتھیاروں کا فروغ اگر کسی کے حق میں مفید ہے وہ سرمایہ دار ہیں ۔عام آدمی کو ہتھیار نہیں تعلیم وروزگار چاہیے۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ
No comments:
Post a Comment
اچھے تبصرے کے لئے ہمیشہ شکر گزار