Friday, 29 March 2019

عبدل بھائی کی ہوٹل بازیاں (انشائیہ)


طیب فرقانی*

اردو کی کلاسیکی شاعری میں آسمان کو ظالم وجابر اور بے داد کہا گیا ہے لیکن شاید ہی کسی نے سورج سے آنکھیں ملاکر اس کو ظالم کہا ہو ۔ سورج کا ڈوبنا ابھرنا امید و ناامیدی کی علامت ہونی چاہئے ۔سلسلہ ء روزو شب اس کی کروٹوں سے دراز ہوتا جاتا ہے ۔یہ وقت کی زنجیر اپنی کمر سے باندھے بھاگا چلا جاتا ہے اور کوئی اس مجرم کو ٹھہرنے کا حکم دیتے ہوئے انگریز جنرل کے لہجے میں یہ نہیں کہہ سکتا ’’ اسٹاپ ‘‘ نہ کوئی اسے لکھنوی ادا سے کہہ سکتا ہے کہ جناب والا اپنی حرکتوں سے باز آجائیں ورنہ ایک دن آپ کائنات کا ہی بیڑا غرق کر دیں گے ۔ کوئی بھوجپوریا بھی استدعا نہیں کر سکتا کہ ’’ بھیا کہاں بھاگے جات ہو تنی ٹھہرا ،ہمراکے نیند پورا کرلے وے دا ‘‘ نہ کوئی رائٹر اس پر فل اسٹاپ لگا سکتا ہے ۔نہ ہی وہ کسی کا محبوب ہے کہ کہا جاسکے ؂


اداس ، شام تنہائی ،کسک ،یادوں کی بے چینی 
مجھے سب سونپ کر سورج اتر جاتا ہے پانی میں 


یا یہ کہ ؂


ڈھلی جو شام تو مجھ میں سمٹ گیا جیسے 
قرار پانے سمندر میں آفتاب اترے 


یہ تو بس وقت کی زنجیر میں کڑیا ں جوڑتا جاتا ہے ۔ ان کڑیوں کو پکڑ کے لٹک جائیں اور ذرا ماضی کے جھروکوں سے تاکیں تو عجیب و غریب دنیا کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں ۔ اور مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے ، ذہن کی سطح پر ہتھوڑے برساتا ہے ۔
عبدل بھائی اپنے ساڑھے پانچ ستارہ ہوٹل میں ۹۰ کے زاویے پر بیٹھے یہی سب سوچ رہے تھے کہ آج جن عالی شان ہوٹل میں وہ بیٹھے ہیں ، قدیم زمانے کے مسافروں کو یہ کہاں نصیب تھا ۔بادشاہوں نوابوں کے زمانے میں مسافروں کے ٹھہرنے کے لئے سڑکوں کے کنارے سرائے بنادیے جاتے تھے ۔پھر مذہبی اور سماجی اداروں نے دھرم شالائیں اور مسافر خانے بنوادیے ۔لیکن جیسے جیسے انسانوں کا جنگل گھنا ہوتا گیا اور سورج نے وقت کی زنجیر میں صدیوں کی کڑیا ں جوڑ دیں تو آج اسے ہوٹل اور موٹیل میسر آگئے ۔جن نے سوئزر لینڈ بینک کی تجوریا ں بھرنے کے لئے گویا روپوں کی مشین لگادی ۔ ایسے میں عبدل بھائی نے بھی بہتی گنگامیں ڈبکی لگانے کی بھرپور کوشش کی ۔اور ساڑھے پانچ ستارہ ہوٹل ’’ پوری طرح ‘‘ کھول لیا ۔ 
ان کے ساڑھے پانچ ستارہ ہوٹل کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ جب وہ وزیر خوراک و رسد تھے تو خوراک کو بہتر طور سے ہضم کرنے اور میلے کچیلے سیاہ دھن کو دھو دھا کر اجلا سفید بنانے کے لئے اپنی بیگم ( جو ان کی سیاہ و سپید کی مالکن تھیں ) کے نام سے ایک عالی شان ہوٹل بنوادئے ۔
ان کے ہوٹل کے ساڑھے پانچ ستارہ ہونے پر کسی نے تعجب سے پوچھا تھا کہ پانچ ستارہ تو ہوتا ہے یہ ساڑھے کا لاحقہ کیوں ؟ تو انھوں نے میڈیا کی بدعنوانی پر برستے ہوئے بتایا تھا کہ’’ اس مقابلہ جاتی عہد میں میں نے اپنے ہوٹل کو چمکانے کے لیے میڈیا کو کچھ روپے دیے تھے اور کہا تھا کہ میرے ہوٹل کو چھ ستارہ ہونے کا پروپیگنڈہ کرے ۔مگر بر ا ہو اس کم بخت نمائندے کا جس نے آفس تک پورا پیسہ نہیں پہنچایا اور تھوڑی سی بالائی اپنی جیب کی تھیلی میں ڈال لی ۔ (چور چور موسیرے بھائی ) آفس والوں نے پیسہ کم دیکھ کر آدھا ستارہ گھٹا دیا ۔وہ تو شکر ہوا کہ انھوں نے آدھا ستارہ ہی گھٹا یا ورنہ میڈیا والے تو اچھے اچھوں کا سورج تک ڈوبا دیتے ہیں ۔‘‘ اور پھر وہ کچھ سوچنے لگے ۔اچانک سر اٹھا یا اور ایک شعر ٹھوک ڈالا ۔ ؂
میڈیا کی آزادی گل نئے کھلاتی ہے 
اس پہ مت بھروسا کر آج کے زمانے میں 
دنیا جانتی ہے کہ ہمار ے عبدل بھائی کو اردو سے بڑی محبت ہے ۔وہ تو پارلیمنٹ میں بھی برملا فیض ،غالب اور فراق کے اشعار پڑھ کر ان کی روح کو ثواب پہنچاتے ہیں ۔ انھوں نے اردو کی تندوری ،رومالی اور چپاتی نما بڑی ،چھوٹی ،کچی پکی اور سینکی ہوئی تمام طرح کی روٹیاں کھائی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب انھوں نے اپنے ساڑھے پانچ ستارہ ہوٹل کے لیے ڈگری یا فتہ خانساماں کا اشتہار دیا تو صراحت کردی کہ امیدوار چاہے ہر چیز سے نابلد ہو مگر اردو سے بلد ہونا چاہئے ۔نہ معلوم ’’ بلد ‘‘ کا یہاں کیا مطلب تھا ۔ وہ چوں کہ ماہر لسانیا ت بھی تھے اور ظفر اقبال کی غزلوں سے انھیں خاص شغف تھا ، اس لیے ہوسکتا ہے ان کے نزدیک ’’ بلد ‘‘ کا مطلب جان کا ر ہو ۔یہ بھی بعید ازقیاس نہیں کہ انھوں نے قافیہ باز شاعروں کو چڑانے کے لئے ایسے کیا ہو ۔ بہر حال انھوں نے صراحت کردی کہ انٹر ویو اردو میں ہی دیا جاسکے گا ۔
امیدوار مقررہ تاریخ پر انٹر ویو کے لیے حاضر ہوئے ۔ انٹر ویو لینے والے پینل میں پہلے اور آخری فرد عبدل بھائی ہی تھے۔ انٹر ویو شروع ہوا ۔ایک امیدوار چیمبر کا دروازہ ادھ کھلا کر کے بولا ’’May I come in sir‘‘’’No‘‘آپ بالکل نہیں آسکتے۔آپ نے اشتہا رمیں نہیں دیکھا تھا کہ انٹر ویو صرف اور صرف اردو میں ہی ہونا ہے ۔ گیٹ آؤٹ ! ۔وہ بے چارہ ڈرا سہما منہ ہی منہ کچھ بدبدتا ہو الٹے پاؤں واپس ہوا۔ پتا نہیں عبدل بھائی کی شان میں گستاخی کررہا تھا یا اپنی قسمت کو کوس رہا تھا ۔عبدل بھائی نے اس امیدوار کو پھر بلا بھیجا اور اسے نصیحت کی کہ دیکھو ہر چیز میں غیروں کی تقلید اچھی نہیں ہوتی ۔ہمارا حال یہ ہے کہ ہم غیروں کی تقلید میں اس قدر صم بکم ہوگئے ہیں کہ چے خف جو نرا سیانا تھا ، کی اس بات کو بھی سچ مان لیتے ہیں کہ ’’ تنقید نگار اس مکھی کی طرح ہے جو کھوڑے کو ہل چلانے سے روکتی ہے ۔ارے ہل تو بیل چلاتے ہیں ۔یہ گھوڑے کہاں سے آگئے ۔‘‘ تھوڑا اور پر جوش ہو کر بولے ’’ حد تو یہ کہ میں نے جب ایک ادبی محفل میں اس تشویش کا اظہار کیا تو لوگ میری ہی اصلاح کرنے لگے کہ روس میں گھوڑے ہی ہل چلاتے ہیں ۔اور میں نے اپنا منہ پیٹ لیا۔ ‘‘ پھر انھوں نے پروفیسرانہ انداز میں نکتہ بیانی کی ’’ میں ایسے موقعوں پر سر نہیں پیٹتا ۔ کیوں کہ شاید تمہیں معلوم ہو کہ حضرت ابراہیم کے پاس بڑھاپے میں اولاد کی خوش خبری سنانے جب فرشتہ آیا تو ان کی بیوی نے سر نہیں پیٹا تھا ۔جانتے ہوکیا پیٹا تھا ؟‘‘ امیدوار ، جو بڑی دیر سے ہونقوں کی طرح بیٹھا تھا ، چونکا اور نفی میں منڈی ہلادی ۔ ’’ انھوں نے اپنا منہ پیٹا تھا ۔اس لیے میں اپنا منہ پیٹتا ہوں ۔‘‘ اس وقت عبد ل بھائی کے چہرے پر عجیب طرح کی مسکراہٹ تھی اور چہرے کا تاثر ایسا ہی تھا جیسے وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہوں اور امریکہ کے صدر کو چائے پلارہے ہوں ۔ اور اسی دوران معاہدوں اور منصوبوں پر تبادلہء خیالات کر رہے ہوں ۔ ’ ’ اور پھر یہ کہ ضرب الامثال اور محاوروں کو زمانے کے ساتھ بدلتے رہنا چاہئے ۔مثال کے طور پر آج پاجامے کا دور ختم ہورہا ہے اس کی جگہ’’ لووَر ‘‘نے لے لی ہے ۔ اس لیے ’ آدمی ہو یا پاجامہ ‘ کو میں بولتا ہوں ’ آدمی ہو یا لووَر‘ اور کچھ بعید نہیں کہ آئندہ زمانے میں ’آدمی ہو یا لووَ ر ‘ کی جگہ ’آدمی ہو چی پَر ‘ استعمال کروں ۔خیر آپ تو تشریف لے جائیں اور دوسر ے امیدوار کو موقع دیں ۔ دوسرے امیدواروں نے جب یہ ماجرا سنا تو انگریزی کا ایک لفظ بھی استعمال نہ کرنے اور بہتر اردو بولنے کی تیاری شروع کر دی ۔ چنانچہ اگلے امیدوار نے دروازہ کھول کر بڑے ہی شائستہ انداز میں پوچھا ’’ کیامیں آپ کی دیدان کبیران و مبارکان کے پیش نششتہ کرسی پر اپنی مقعد حقیرہ و رزیلہ رکھنے کی جسارت و گستاخی کر سکتا ہوں ؟‘‘ عبدل بھائی کا سر چکراگیا ۔ تھوڑی دیر تو وہ کھجانے کے بہانے اپنا سر سہلاتے رہے پھر مری مری آواز میں بولے ۔’’ آپ اندر آسکتے ہیں ‘‘ ۔
اب باضابطہ انٹر ویو شروع ہوا ۔عبدل بھائی نے سوالات پہلے سے ترتیب دے رکھے تھے ۔اور ہرایک سے وہی سوالات پوچھے گئے ۔اس سلسلے کا ایک سوال حالی کے درج ذیل شعر کی تشریح پر مشتمل تھا ۔ 
کوئی دن میں وہ دور آئے گا بے ہنر بھیک تک نہ پائے گا 
جواب میں کوئی تو ہکا بکا رہ جاتا ۔کوئی معذرت کرلیتا کہ تشریح اس کے بس کی بات نہیں اس کے اساتذہ نے صرف حالی کے مقدمے کے بارے میں ہی پڑھا یا ہے ۔ان کے اشعار پر کبھی روشنی نہیں ڈالی ۔ ایک نے تو جھنجلا کریہ تک کہہ دیا کہ ’’ ہم جیسے لوگ اگر شعر و شاعری کے چکر میں پڑ گئے تو متشاعر حضرات کیا پروڈکٹ بیچیں گے ؟(عبدل بھائی نے دل ہی دل میں کہا تھا کہ اور وہ کرتے بھی کیا ہیں ) لیکن ایک امیدوار جس نے پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کا کورس کر رکھا تھا ،بڑے اعتماد سے شعر کی تشریح کچھ اس طرح کی :
’’ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں حالی کی شاعری مقصدی اور افادی شاعری تھی ۔اس شعر میں حالی نے قوم کی اصلاح کرتے ہوئے ہنر کی اہمیت بتائی ہے اور کہا ہے کہ اگر بھیک مانگنے سے بچنا چاہتے ہو تو کھانا پکانے کا خوب اچھا ہنر سیکھو ۔اور پانچ ستارہ ہوٹل میں صدر خانسا ماں بنو ۔ہوٹلوں میں جو بخشش ملے اسے بھیک مت سمجھو کیوں کہ ایک دن آئے گا جب جمہوریت آئے گی اور حکومتیں بڑی کمپنیوں سے بڑا چندہ لینے کے لئے ملک میں مہنگائی کو بے قابو کردیں گی ، تب آدھے پیٹ آٹا اور ایک داڑھ شکر بھی مشکل سے ملے گی ۔اس کی زد میں امیر غریب سب آئیں گے اور کوئی بھیک تک دینے والا نہ ہوگا ۔ایسے برے وقت میں بخشش میں ملے پیسے اور دفتروں میں میز کے زیریں سے ملی بالائی ہی کام آئے گی ۔‘‘ 
اس سلسلے کا ایک دوسرا سوال یہ تھا کہ تخلیق کا ر کی موت تو ہوگئی ،نقاد کی موت کب ہوگی ؟ رجائیت پسند امیدار تو موت کانام سن کر ہی گھبرا جاتے تھے ،جواب کیا دیتے ۔لیکن اسی امیدوار نے جوشاید پہلے سے ہی غصے میں بھر اہو تھا بڑا بھیانک جواب دیا تھا ۔ اس نے کہا کہ جب ہم جیسے خانساماں کو سیمیناروں میں جدید انداز کے کھانے پکانے کے لئے بلایا جائے گا اور ہم بر گر اور پیتزاجیسے خوش نما کھاناکھلا کر ان کی توندیں اتنی بھر دیں گے کہ وہ پھٹ جائیں ۔اس پر عبدل بھائی نے ناصحانہ انداز میں کہا تھا کہ نہیں نہیں ایسی زبان آپ جیسے شائستہ اور ذہین شخص کے لیے زیبا نہیں ۔
پیشہء خانسامانی سے متعلق بھی ایک سوال کچھ یوں تھا کہ خانساماں کسے کہتے ہیں ۔زیادہ تر امیدواروں نے تکنیکی اور رٹی ہوئی تعریف کی تھی ۔لیکن مذکورہ ذہین امیدوار انٹر ویو کے داؤ پیچ سے واقف تھا ۔ اسے پتا تھا کہ ہر جواب ذرا تفصیلی اور دل چسپ ہونا چاہئے تاکہ سامنے والے پر آپ کی شخصیت پوری طری واضح ہوجائے ،سو اس نے قدرے تفصیلی جواب دیا ۔ ’’ خانساماں ایک آؤٹ دیٹیڈ قدیم لفظ ہے ، آج اسی کو شیف کہا جاتا ہے ۔کچھ عرصے پہلے تک باورچی کہا جاتا تھا ۔ اس کی اپنی تہذیبی تاریخ ہے ۔اس سلسلے میں متعصب تاریخ نگاروں کا بڑا رول رہا ہے جنھوں نے ان خانساماں کو نظر انداز کیا ۔ خانساماں قیمہ ڈال کرطاہری پکایا کرتا تھا ، باورچی قورمے اور بریانی پکایا کرتا تھا ۔اور شیف بر گر ،پیتز ااور گرم کتا یعنی ہاٹ ڈوگ پکاتا ہے ۔خانسامان اور معجونی حکیم میں ایک خاص قسم کا تعلق ہے ۔دونوں پکاؤ ہوتے ہیں ۔پہلے حکیم دوائیں پکاتے تھے اب اشتہاروں سے پکاتے ہیں ۔دیواروں اور اخباروں میں ایسے ایسے اشتہار دیتے ہیں کہ کان کے ساتھ آنکھیں بھی پک جاتی ہیں ۔اخباروں کے اشتہاروں سے آپ آنکھیں سینک بھی سکتے ہیں ۔پہلے حکیم ایسا جوشاندہ دیتے تھے کہ دماغ سے نزلہ پک کر بہہ جاتا تھا اب ایسے اشتہار دیتے ہیں کہ نزلہ ریڑھ کی ہڈی سے پک کر ٹپک پڑے ۔‘‘ 
اس سلسلے کا آخری سوال فلسفیانہ تھا اور اس لیے بڑا دل چسپ تھا کہ اس کا جواب تقریباً ہر امیدوار نے اپنے اپنے نظریے ،صلاحیت اور سمجھ کے مطابق دیا تھا ۔ لیکن لاجواب کرنے والا جواب اسی مذکورہ امیدوار کا تھا ۔ سوال تھا ’’ زندگی کیا ہے ؟‘‘چند جوابات اس طرح تھے : 
زندگی جھنڈو بام ہے ،زندگی زندہ دلی کا نام ہے ،زندگی فالودہ ہے ،کباڑہ ہے ، زندگی دولت کی ہوس اور پیاس ہے ،زندگی خوب صورت احساس ہے ، زندگی بھگوان کی کرپاہے خدا کی ہزار نعمت ہے ، زندگی دیوانے کا خواب ہے ،زندگی محبت ہے ،زندگی گرل فرینڈ ہے ، زندگی عورت ہے ، زندگی کھانے پینے سونے جاگنے کا نام ہے ،دنیا دھوکا ہے اور زندگی تماشا ۔ یہ سب سوشل میڈیا والے جوابات تھے ۔ انھیں پسند و ناپسند کرنے کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کسی پوسٹ کو لائک و شیئر کرنے نہ کرنے کا معاملہ ۔ لیکن آخری جواب ان سب کو جامع تھا جسے آپ ضرور شیئر کرنا چاہیں گے ۔ وہ کچھ اس طرح تھا : 
’’ زندگی کے تین روپ ہیں ۔تن ،من اور دھن ۔ غریب کے پاس صرف تن ہی تن ہوتا ہے ۔نہ من نہ دھن ۔ اس کی زندگی جھنڈو بام ہوتی ہے لوگ اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے مرض کا علاج کرتے ہیں ۔ اورپھر بام کی خالی ڈبیہ کی طرح پھینک دیتے ہیں ۔ متوسط طبقے کے پاس تن کے ساتھ من بھی ہوتا ہے ۔ اس کی زندگی کبھی خوشی کبھی غم اور دھوپ چھاؤں کی طرح ہوتی ہے ۔یعنی گھن چکر ہوتی ہے ۔ وہ صرف تن پر ٹک نہیں سکتا کیوں کہ من کا ’ایک من ‘ بوجھ لے کر ڈھوتا رہتا ہے ۔ہوتا ہے تو خوب شکم سیر ہوکر کھاتا ہے اور نہیں ہوتا ہے تو من مسوس کر رہ جاتا ہے ۔ اعلا طبقے کے پاس یہ تینوں چیزیں وافر مقدار میں ہوتی ہیں ۔تن کو چربی بے قابوبناتی ہے ، من کبھی مانتا نہیں اور دھن کا پتا نہیں کہ اس کے پاس کتنا ہے ۔مذہبی لوگ نرک اور جہنم سے سب سے زیادہ اسی طبقے کو ڈراتے ہیں اور ان کے چندے کے بغیر بھلا بھی نہیں ہوتا ۔تو نتیجہ یہ نکلاکہ زندگی الجھی ہوئی ہے ،اوبڑ کھابڑ تاریک زمینی سیارے کی طرح ۔اس میں امید کا سورج ہر روز نکلتا ہے اور ہر روز چھپ جاتا ہے۔ جب تک خدا اس سورج پہ فل اسٹا پ نہیں لگا دیتا یہ کسی کو تیز روشنی دے گا ،کسی کو ہلکی اور کسی کو بالکل نہیں ۔ اور ندا فاضلی کہتے پھریں گے ؂


کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا 
کہیں زمیں کہیں آسماں نہیں ملتا 


* بپریت چوک ،اتردیناج پور ،مغربی بنگال 

No comments:

Post a Comment

اچھے تبصرے کے لئے ہمیشہ شکر گزار