مرزا محمد ہادی رسوا کے ناول امراؤ جان ادا کے بارے میں وقت کے لحیم شحیم نقّادوں نے کہا ہے کہ اس ناول میں طوائف کے کوٹھے کو مرکز بنا کر اس وقت کے لکھؤوکی سیر کرائی گئی ہے اور لکھنوی تہذیب کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔ میں گرمی کی ایک شام چھت پر بیٹھا تنقید کے بخار میں مبتلا تھا تبھی مجھے خیال آیا کہ ہند وستان کے بعض علاقوں میں چھت کو بھی کوٹھا کہا جا تا ہے ۔ پرانے زمانے میں جب کہ گاؤں دیہات میں صرف مٹی یا پھونس کے مکانات ہو اکرتے تھے، اگر کوئی پختہ مکان بنوا لیتا تھا تولوگ اسی کو کوٹھا کا نام دے دیتے تھے۔اور کوٹھی کی چھت کو کوٹھا کہنے لگتے تھے۔
تعجب ہے کہ امریکہ کے خلائی مشن سینٹر\"ناسا\"نے \"گاڈپار ٹیکل \" ڈھونڈ لینے کا جھانسا دیا اور مریخ پر زندگی کی تلاش کا دلاسا دیا مگر چھت اور اس کی قیمتی سر گرمیوں کو یکسر بھلا دیا ۔ چھت بڑی غیر معمولی جگہ ہے۔ چھت پر اگر آپ تنہا بیٹھ کر مومن کا یہ شعر گنگنائیں !
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسر ا نہیں ہوتا
تو ساری کائنات آپ کو اپنی آغوش میں سمٹتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
چھتیں مختلف قسم کی ہوتی ہیں ۔ شہروں میں تو زیادہ تر پختہ چھتیں ہوتی ہیں لیکن ان چھتوں کے نیچے رہنے والے لوگ پختہ ہوتے ہیں یا نہیں اس امر کا سراغ پا لینا بڑا مشکل ہے۔ بشیر بدر نے اپنے من میں ڈوب کرایسے پختہ لوگوں کا سراغ پا لینے کی کوشش کی تھی اور اس نتیجے پر پہنچے تھے ۔
گھروں پہ نام تھے ،ناموں کے ساتھ عہدے تھے
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا
میر تقی میر کا اجڑا دیار \"دلّی \"آج بہت ترقی کر گئی ہے ۔لیکن آج بھی یہاں آسمان کا بوسہ لیتی ہوئی چھتوں کے نیچے پلاسٹک کی چھتوں والی جھگّی جھونپڑیاں موجود ہیں ۔جو انسا نی مساوات اور ترقی کے ڈھونگ کومنہ چڑھاتی رہتی ہیں۔ اور چونکہ ان جھگیوں میں رہنے والے لو گ بے زبان ہوتے ہیں۔ اس لئے بلڈوزروں کی بے رحمی سیاسی آنکھیں بھی انہی جھگیوں کو تاکتی رہتی ہیں۔
جھگی جھونپڑیوں کے لئے ہندوستان کا ممبئی شہر بہت مشہور جہاں کل ممبئی کی تقریباََ ساٹھ فیصد آبادی ممبئی کی چھ فیصد زمین پر بنے مکانات کی چھت کے نیچے گزارا کرتی ہے۔ ایسے شہر کو جب لوگ عروس البلاد کہتے ہیں تو میرے ذہن میں ایسی دلہن کا تصور آتا ہے جس کاآنچل ہی میلا ہو ۔ایسی بستی کا شاعر جب اپنے معشوق کو چھت پر دیکھتا ہے تو اس کے قلم سے کچھ اس طرح کے اشعار نکلتے ہیں ۔
مایوسئی دل ،درد محبت ،ستم دوست
آلام زمانے میں مرے نام بہت ہیں
کچھ فرصت نظارہ ملے آنکھ کو تب نہ
جلوے تیرے مانا کہ لب بام بہت ہیں
آپ سے امید کی جاتی ہے کہ \"لب بام\"کو آپ \" منی کا جھنڈو بام\"نہیں سمجھیں گے۔
آج دنیا بھر میں بڑھتے تشدد کے پس پشت بھی چھتوں کا بڑا کردار ہے۔ کچھ سالوں قبل تک چھتیں سیمنٹ کی نہ ہو کر چھپروں کی ہو ا کرتی تھیں۔ یہ چھتیں ٹھنڈی ہو اکرتی تھیں ۔تو لوگوں کے دماغ بھی ٹھنڈے رہتے تھے۔مزید یہ کہ ان چھتوں میں گوریّا اپنے گھو نسلے بنا کر انسان کو ہر وقت امن و شانتی کا پاٹھ پڑھایا کرتی تھیں۔ جب سے چھتیں سیمنٹ کی ہوئی ہیں ، گوریّا نے بوریا بستر باندھ لیا، گرمی میں اضافہ ہوا،اوپر سے بلڈ پریشر کی مار الگ، لوگوں کے دماغ اس قدر گرم رہنے لگے کہ ٹھنڈا ہونے کا نا م ہی نہیں لیتے ۔ اجی ! نمرود تو بڑا کمزور تھا کہ ایک معمولی مچھر سے مارا گیا ، آج کے نمرودں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سنامی کی ہوا بھی کم پڑ جاتی ہے۔
گرمی بڑھی تو اس نے سوچا کہ اب ہوا محل تعمیر کئے جائیں چنانچہ اس نے اپنی بلندی و برتری کی پیاس بجھانے کے لئے چھت پر چھت اس قدر تعمیر کی کہ \"ورلڈ ٹریڈ سینٹر\" اور \"برج الخلیفہ\" وجود میں آگیا۔ اب تو اس کے پاؤں زمین پر پڑتے ہی نہیں ہیں ۔ وہ ہوا میں معلق ہو کر ہوا ہوائی ہو گیا ہے۔
در اصل جب سے انسان میں ہو ا سے باتیں کرنے ، ہوائی چھوڑنے ، اور ہوّا کھڑا کرنے کی ہو ا سمائی ہے،اسے ہوا سے لڑنے اور ہوا پر گرہ لگانے کی ہوا و ہوس ہوگئی ہے۔ اور اس نے ہوا خور ی چھوڑ کر ہوا دینے کی عادت ڈال لی ہے۔
ہماری زندگی میں چھتوں کی بڑی اہمیت ہے ۔جانور بلوں ، بھٹوں اور غاروں میں رہتے ہیں ۔اور انسان کو روٹی اور کپڑا کے ساتھ چھت کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔حد تو یہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد بھی قبروں ، مقبروں اور مزاروں کی چھت کے نیچے رہتا ہے۔لیکن یہ بات ان لوگوں کے سمجھ میں بھی آنی چاہئے جو یو پی کے پرتاپ گڑھ میں مکانات کو چتاؤں کی طرح پھونک دیتے ہیں اور احمد آباد میں اس ولی دکنی کے مزار کوڈھا دیتے ہیں جن کو کاشی عین کوچۂ یار لگتا تھا ۔ اور جن کے محبوب کے رخ کا تل ہری دوار میں بسنے والا ہندو نظر آتا تھا ۔
کوچۂ یارعین کاسی ہے جوگئی دل وہا ں کا باسی ہے
اے صنم ! تجھ جبیں اُپر یہ خال ہندوے ہر دوار باسی ہے
لیکن یہ تو سب جانتے ہیں کہ جس کے پاس کوئی چھت نہ ہوآسمان اس کی چھت ہے ۔ ہندوستان کے پڑوس میں واقع تبّت کو \"Roof of the World\"دنیا کی چھت کہا جاتا ہے ۔ لیکن یہاں کے رہنما بے چارے دلائی لاما، میانمار میں بے چھت کئے جارہے مسلمانوں کو اپنے ہم مذہبوں سے نہیں بچا سکے کیوں کہ خود انہیں \"دو گز زمیں نہ ملی کوئے یار میں \"
ہم اپنے بہت سارے کا م چھتوں کے اُوپر انجام دیتے ہیں ۔ جیسے سردیوں میں دھوپ لینا ،اناج اور کپڑے سکھا نا ،دیوالی اور شب برات کے موقع سے دیئے اور موم بتیاں جلا کر چراغاں کرنا ۔ لیکن چھتوں کا تعلق ایسے کاموں سے بہت ہے جن کے نام میں لاحقے کے طور پر\" بازی \"آتا ہے ۔ جیسے پتنگ بازی کرنا اور بسا اوقات پتنگ بازی کرتے کرتے قلا بازی کھا جانا اور دن بھر پتنگ بازی کرتے رہنے کی وجہ سے ابّا جی کی طرف سے تھپڑ بازی ہو جانا۔
لیکن ان سب بازیوں میں عشق بازی کا اپنا الگ مقام ہے۔ عشق بازی کے لئے چھت ہمیشہ سے مناسب مقام رہا ہے۔ ۔چچا غالب اپنے معشوق کو چھت پر دیکھ کر پھولے نہیں سماتے تھے اور انہیں بار بار دیکھنے کی ہوس ہوتی تھی ۔
مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس
زلف سیاہ رُخ پہ پریشاں کئے ہوئے
حسرت موہانی کا معشوق تو خود ہی چھت پر آجاتا تھا وہ بھی دو پہر کی دھوپ میں ننگے پاؤں۔
دو پہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ تیر ا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
لیکن آج کا عاشق دو پہر کو نہیں آتا بلکہ رات کو موبائل لے کر چھت پر ہی صبح کر دیتا ہے۔چوروں کے ایک گروہ نے صرف اسی لئے چوری سے توبہ کر لی کہ رات کو چوری کے سارے مواقع پر ان موبائل والے عاشقوں نے پہرے بیٹھا دئے ہیں ۔ جو رات کو چوری چھپے اپنے معشوق سے عشق بازی فرماتے ہیں اور صبح دیر تک خواب بازی فرماتے ہیں ۔ اماں جگا جگا کر جب جھنجھلا جاتی ہیں تو یہ کہہ کر ابا جی کا فائدہ کر وا دیتی ہیں \"رات بھر پتا نہیں کس اماّں کے ساتھ لگا رہتا ہے اور دن میں پڑا سوتا رہتا ہے\"۔
چھت پر خوب صورت چاند دیکھنے کا خوبصورت رواج بھی ہے ۔ یہ سن کر آپ کے من میں لڈّو پھوٹے گا کہ ایک چاند تو مشبہ ہے اور ایک چاند مشبہ بہ ہے اور دونو ں کو دیکھنے سے دل کو سکون ملتا ہے۔ایک عاشق نے تو ڈر کے مارے اپنے ماہ جبیں سے کہہ دیا تھا
ماہ نو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہر گز
شہر میں عید کی تاریخ بدل جائیگی
لیکن چھت پر چاند دیکھتے وقت اس بات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ کہیں چاند کے ابّا نہ ٹپک پڑیں، ورنہ چاند کے بجائے تارے نظر آجائیں گے۔ ہمارے ایک بزرگ شاعراظہر شاہ خاں نے ایسے ہی ایک تجربے کا ذکر فرمایا ہے کہ
چاند رات آئے تو سب دیکھیں ہلال عید کو
ایک ہمارا ہی نصیبہ ہڈیاں تڑوا گیا
چھت پہ ہم تھے چاند کے نظارے میں کھوئے ہوئے
بس اچانک چاند کا ابّا وہاں پر آ گیا
ریسرچ اسکالر: شعبۂ اردو،
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۲۵
تعجب ہے کہ امریکہ کے خلائی مشن سینٹر\"ناسا\"نے \"گاڈپار ٹیکل \" ڈھونڈ لینے کا جھانسا دیا اور مریخ پر زندگی کی تلاش کا دلاسا دیا مگر چھت اور اس کی قیمتی سر گرمیوں کو یکسر بھلا دیا ۔ چھت بڑی غیر معمولی جگہ ہے۔ چھت پر اگر آپ تنہا بیٹھ کر مومن کا یہ شعر گنگنائیں !
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسر ا نہیں ہوتا
تو ساری کائنات آپ کو اپنی آغوش میں سمٹتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
چھتیں مختلف قسم کی ہوتی ہیں ۔ شہروں میں تو زیادہ تر پختہ چھتیں ہوتی ہیں لیکن ان چھتوں کے نیچے رہنے والے لوگ پختہ ہوتے ہیں یا نہیں اس امر کا سراغ پا لینا بڑا مشکل ہے۔ بشیر بدر نے اپنے من میں ڈوب کرایسے پختہ لوگوں کا سراغ پا لینے کی کوشش کی تھی اور اس نتیجے پر پہنچے تھے ۔
گھروں پہ نام تھے ،ناموں کے ساتھ عہدے تھے
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا
میر تقی میر کا اجڑا دیار \"دلّی \"آج بہت ترقی کر گئی ہے ۔لیکن آج بھی یہاں آسمان کا بوسہ لیتی ہوئی چھتوں کے نیچے پلاسٹک کی چھتوں والی جھگّی جھونپڑیاں موجود ہیں ۔جو انسا نی مساوات اور ترقی کے ڈھونگ کومنہ چڑھاتی رہتی ہیں۔ اور چونکہ ان جھگیوں میں رہنے والے لو گ بے زبان ہوتے ہیں۔ اس لئے بلڈوزروں کی بے رحمی سیاسی آنکھیں بھی انہی جھگیوں کو تاکتی رہتی ہیں۔
جھگی جھونپڑیوں کے لئے ہندوستان کا ممبئی شہر بہت مشہور جہاں کل ممبئی کی تقریباََ ساٹھ فیصد آبادی ممبئی کی چھ فیصد زمین پر بنے مکانات کی چھت کے نیچے گزارا کرتی ہے۔ ایسے شہر کو جب لوگ عروس البلاد کہتے ہیں تو میرے ذہن میں ایسی دلہن کا تصور آتا ہے جس کاآنچل ہی میلا ہو ۔ایسی بستی کا شاعر جب اپنے معشوق کو چھت پر دیکھتا ہے تو اس کے قلم سے کچھ اس طرح کے اشعار نکلتے ہیں ۔
مایوسئی دل ،درد محبت ،ستم دوست
آلام زمانے میں مرے نام بہت ہیں
کچھ فرصت نظارہ ملے آنکھ کو تب نہ
جلوے تیرے مانا کہ لب بام بہت ہیں
آپ سے امید کی جاتی ہے کہ \"لب بام\"کو آپ \" منی کا جھنڈو بام\"نہیں سمجھیں گے۔
آج دنیا بھر میں بڑھتے تشدد کے پس پشت بھی چھتوں کا بڑا کردار ہے۔ کچھ سالوں قبل تک چھتیں سیمنٹ کی نہ ہو کر چھپروں کی ہو ا کرتی تھیں۔ یہ چھتیں ٹھنڈی ہو اکرتی تھیں ۔تو لوگوں کے دماغ بھی ٹھنڈے رہتے تھے۔مزید یہ کہ ان چھتوں میں گوریّا اپنے گھو نسلے بنا کر انسان کو ہر وقت امن و شانتی کا پاٹھ پڑھایا کرتی تھیں۔ جب سے چھتیں سیمنٹ کی ہوئی ہیں ، گوریّا نے بوریا بستر باندھ لیا، گرمی میں اضافہ ہوا،اوپر سے بلڈ پریشر کی مار الگ، لوگوں کے دماغ اس قدر گرم رہنے لگے کہ ٹھنڈا ہونے کا نا م ہی نہیں لیتے ۔ اجی ! نمرود تو بڑا کمزور تھا کہ ایک معمولی مچھر سے مارا گیا ، آج کے نمرودں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سنامی کی ہوا بھی کم پڑ جاتی ہے۔
گرمی بڑھی تو اس نے سوچا کہ اب ہوا محل تعمیر کئے جائیں چنانچہ اس نے اپنی بلندی و برتری کی پیاس بجھانے کے لئے چھت پر چھت اس قدر تعمیر کی کہ \"ورلڈ ٹریڈ سینٹر\" اور \"برج الخلیفہ\" وجود میں آگیا۔ اب تو اس کے پاؤں زمین پر پڑتے ہی نہیں ہیں ۔ وہ ہوا میں معلق ہو کر ہوا ہوائی ہو گیا ہے۔
در اصل جب سے انسان میں ہو ا سے باتیں کرنے ، ہوائی چھوڑنے ، اور ہوّا کھڑا کرنے کی ہو ا سمائی ہے،اسے ہوا سے لڑنے اور ہوا پر گرہ لگانے کی ہوا و ہوس ہوگئی ہے۔ اور اس نے ہوا خور ی چھوڑ کر ہوا دینے کی عادت ڈال لی ہے۔
ہماری زندگی میں چھتوں کی بڑی اہمیت ہے ۔جانور بلوں ، بھٹوں اور غاروں میں رہتے ہیں ۔اور انسان کو روٹی اور کپڑا کے ساتھ چھت کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔حد تو یہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد بھی قبروں ، مقبروں اور مزاروں کی چھت کے نیچے رہتا ہے۔لیکن یہ بات ان لوگوں کے سمجھ میں بھی آنی چاہئے جو یو پی کے پرتاپ گڑھ میں مکانات کو چتاؤں کی طرح پھونک دیتے ہیں اور احمد آباد میں اس ولی دکنی کے مزار کوڈھا دیتے ہیں جن کو کاشی عین کوچۂ یار لگتا تھا ۔ اور جن کے محبوب کے رخ کا تل ہری دوار میں بسنے والا ہندو نظر آتا تھا ۔
کوچۂ یارعین کاسی ہے جوگئی دل وہا ں کا باسی ہے
اے صنم ! تجھ جبیں اُپر یہ خال ہندوے ہر دوار باسی ہے
لیکن یہ تو سب جانتے ہیں کہ جس کے پاس کوئی چھت نہ ہوآسمان اس کی چھت ہے ۔ ہندوستان کے پڑوس میں واقع تبّت کو \"Roof of the World\"دنیا کی چھت کہا جاتا ہے ۔ لیکن یہاں کے رہنما بے چارے دلائی لاما، میانمار میں بے چھت کئے جارہے مسلمانوں کو اپنے ہم مذہبوں سے نہیں بچا سکے کیوں کہ خود انہیں \"دو گز زمیں نہ ملی کوئے یار میں \"
ہم اپنے بہت سارے کا م چھتوں کے اُوپر انجام دیتے ہیں ۔ جیسے سردیوں میں دھوپ لینا ،اناج اور کپڑے سکھا نا ،دیوالی اور شب برات کے موقع سے دیئے اور موم بتیاں جلا کر چراغاں کرنا ۔ لیکن چھتوں کا تعلق ایسے کاموں سے بہت ہے جن کے نام میں لاحقے کے طور پر\" بازی \"آتا ہے ۔ جیسے پتنگ بازی کرنا اور بسا اوقات پتنگ بازی کرتے کرتے قلا بازی کھا جانا اور دن بھر پتنگ بازی کرتے رہنے کی وجہ سے ابّا جی کی طرف سے تھپڑ بازی ہو جانا۔
لیکن ان سب بازیوں میں عشق بازی کا اپنا الگ مقام ہے۔ عشق بازی کے لئے چھت ہمیشہ سے مناسب مقام رہا ہے۔ ۔چچا غالب اپنے معشوق کو چھت پر دیکھ کر پھولے نہیں سماتے تھے اور انہیں بار بار دیکھنے کی ہوس ہوتی تھی ۔
مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس
زلف سیاہ رُخ پہ پریشاں کئے ہوئے
حسرت موہانی کا معشوق تو خود ہی چھت پر آجاتا تھا وہ بھی دو پہر کی دھوپ میں ننگے پاؤں۔
دو پہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ تیر ا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
لیکن آج کا عاشق دو پہر کو نہیں آتا بلکہ رات کو موبائل لے کر چھت پر ہی صبح کر دیتا ہے۔چوروں کے ایک گروہ نے صرف اسی لئے چوری سے توبہ کر لی کہ رات کو چوری کے سارے مواقع پر ان موبائل والے عاشقوں نے پہرے بیٹھا دئے ہیں ۔ جو رات کو چوری چھپے اپنے معشوق سے عشق بازی فرماتے ہیں اور صبح دیر تک خواب بازی فرماتے ہیں ۔ اماں جگا جگا کر جب جھنجھلا جاتی ہیں تو یہ کہہ کر ابا جی کا فائدہ کر وا دیتی ہیں \"رات بھر پتا نہیں کس اماّں کے ساتھ لگا رہتا ہے اور دن میں پڑا سوتا رہتا ہے\"۔
چھت پر خوب صورت چاند دیکھنے کا خوبصورت رواج بھی ہے ۔ یہ سن کر آپ کے من میں لڈّو پھوٹے گا کہ ایک چاند تو مشبہ ہے اور ایک چاند مشبہ بہ ہے اور دونو ں کو دیکھنے سے دل کو سکون ملتا ہے۔ایک عاشق نے تو ڈر کے مارے اپنے ماہ جبیں سے کہہ دیا تھا
ماہ نو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہر گز
شہر میں عید کی تاریخ بدل جائیگی
لیکن چھت پر چاند دیکھتے وقت اس بات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ کہیں چاند کے ابّا نہ ٹپک پڑیں، ورنہ چاند کے بجائے تارے نظر آجائیں گے۔ ہمارے ایک بزرگ شاعراظہر شاہ خاں نے ایسے ہی ایک تجربے کا ذکر فرمایا ہے کہ
چاند رات آئے تو سب دیکھیں ہلال عید کو
ایک ہمارا ہی نصیبہ ہڈیاں تڑوا گیا
چھت پہ ہم تھے چاند کے نظارے میں کھوئے ہوئے
بس اچانک چاند کا ابّا وہاں پر آ گیا
ریسرچ اسکالر: شعبۂ اردو،
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۲۵
Kya baat hai bhai jaan bahut khub ab shayad koi dar se na jage ise padhne k baad
ReplyDeleteبھائی اگر اسے پڑھ کے کوئی جاگنا چھوڑنے دے تو میں اس انشائیے کو پھر کبھی شائع نہیں کروں گا
ReplyDelete