Monday, 12 November 2018

حاکم
افسانچہ
طیب فرقانی
متوسط روشنی کے برقی چراغ اپنا منہ اس طرح بنائے ہوئے تھے گویا کسی نے اسے تھپڑ ماردیا ہو. اکتوبر مہینے کی آخری تاریخ. مظفرپور کے ایک گاؤں میں شامیانے
کے نیچے سرخ رنگ کی کرسیاں سجی ہوئی ہیں جن پہ گاؤں کے بوڑھے بزرگ ایسے بیٹھے ہیں جیسے کوئی بہت بڑی بات سننے کے بعد فکر میں ڈوبے ہوں.
سامنے چوکی جوڑ کر اسٹیج بنایا گیا ہے. پلاسٹک کے بنے پھولوں کے گل دستے رکھے ہیں. چوکی پہ رنگ برنگی چادر بچھی ہوئی ہے اور دو تکیے بھی رکھے ہیں. اگر بتی کی خوش بو ہوا میں رچی بسی ہے بیچ میں ایک کرسی پر ادھیڑ عمر کے حضرت جی جن کے چہرے پہ کالی سفید داڑھی ہے اور گلے میں نیتاؤں جیسا گمچھا پڑا ہوا ہے، تقریر فرمارہے ہیں.ان کے ٹھیک سامنے گاؤں کے وارڈ ممبر سفید کرتا پاجامہ پہنے جلوہ افروز ہیں. ان کے گھر پہ میلاد ہے. ماحول کچھ سوگوار ہے کیوں کہ ممبر صاحب کی بوڑھی ماں کا چالیسواں ہے. لیکن ممبر صاحب اچھل اچھل کرحضرت جی کی تقریر پر داد دے رہے ہیں. اور سبحان اللہ اللہ اکبر کے نعرے بلند کر رہے ہیں. ایسا لگتا ہے ممبر صاحب پورے جوش و خروش میں ہیں.
حضرت جی فرمارہے ہیں "مرد مون کبھی مرتا نہیں. زبیدہ نے بہلول سے جنت خریدی. میرے پیر و مرشد ایسے اعلا درجے کے صاحب کرامت بزرگ تھے کہ جب ان کا انتقال ہوا تو لنگی کو اپنے ہاتھوں سے گھٹنوں پہ اس طرح دبائے ہوئے تھے جیسے کوئی زندہ آدمی پکڑے ہوتا ہے کیوں کہ وہ وفات پاکر بھی اپنی تقوی شعاری کا خیال رکھتے ہیں اور گھٹنوں سے اوپر لنگی اٹھ نہ جائے اس لئے اسے زور سے پکڑے ہوئے ہیں. سچ ہے کہ مومن مرتا نہیں."
ممبر صاحب پھر سے اچھل کود مچانے لگتے ہیں. میلاد کا پروگرام ختم ہوتا ہے شکر پارے بانٹے جاتے ہیں لوگ اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوتے ہیں. ایک نوجوان سا لڑکا جو پیچھے بیٹھا بڑا بیزار سا لگ رہا تھا اور بار بار اٹھ کر ادھر ادھر گھوم کر آتا تھا. ممبر صاحب کے پاس آکر کہتا ہے کہ چالیس واں کی محفل میں حضرت جی کرامت بیان کر رہے تھے اور آپ جوشیلے ہورہے تھے آپ دونوں میں کوئی خاص مناسبت ہے کیا؟
ممبر صاحب نے زیر لب مسکراہٹ بکھیری اور فرمایا حضرت جی اِن کم پڑھے لکھے لوگوں کے روحانی حاکم ہیں اور میں جسمانی حاکم ہوں.

No comments:

Post a Comment

اچھے تبصرے کے لئے ہمیشہ شکر گزار