پھوڑا
افسانچہ
از طیب فرقانی
میں ایک چھوٹا پھوڑا ہوں. بالکل اس طرح سجا ہوا ہوں جیسے شوکیش میں مختلف قسم کے سامان سجے ہوتے ہیں یا ایسے جیسے فریج کے نچلے خانے میں مختلف قسم کی سبزیاں رکھی ہوتی ہیں. سب ایک ساتھ لیکن سب ایک دوسرے سے جدا. کچھ پھوڑے مجھ سے بھی چھوٹے ہیں اور کچھ مجھ سے بھی بڑے. بہت بڑے اور بہت چھوٹے بھی. ہم سے ہر ایک امتداد زمانہ کے ساتھ بڑا چھوٹا بھی ہوتا جاتا ہے. لوگوں نے ہمیں مختلف نام دیے ہیں. حالاں کہ میں چھوٹا ہوں لیکن مجھے ایک بڑا نام دیا گیا ہے. شاید میں اپنی کہانی آپ کو اسی لئے سنا پارہا ہوں کیوں کہ مجھ میں لوگوں کی بڑی دل چسپی ہے. میرا نام لوگوں نے زوال کا پھوڑا رکھا ہے. میری کہانی نہ صرف یہ کہ ہر کوئی سننا چاہتا ہے بلکہ ہر کوئی اپنی مرضی سے اپنی طرز ادا میں بیان بھی کرتا جاتا ہے. میں خود کنفیوز ہوجاتا ہوں کہ واقعی میں ایسا ہی ہوں یا لوگ میری کہانی میں مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں. میری اتنی کہانیاں ہیں کہ میری شناخت ہی کھوتی جارہی ہے. کسی کو تو میرے وجود پہ ہی شک ہے.
ہر دن لوگ میری کہانی ملک میں ہونے والے کسی واقعے یا حادثے سے جوڑ کر بیان کرتے ہیں. بالکل اسی طرح جیسے کوئی چھوٹی داڑھی والاادھیڑ عمر کا ٹی وی اینکر ڈرا ڈرا کر اور سنسنی پھیلا کر اپنی ٹی آر پی بڑھانےیا اسے برقرار رکھنے کے لئے کسی خاص تصویر کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ غور سے دیکھیے اسے یہی ہے وہ فلاں. ایسی صورت حال میں مجھے خود ہی اپنے آپ سے گھن آنے لگتی ہے. کیسی عجیب و غریب بات ہے کہ پھوڑے سے سبھی گھن کھاتے ہیں. اگر پھوڑا خود سے ہی گھن کھانے لگے تو اسے ڈوب مرنا چاہئے. لیکن میں انسانوں کی طرح بزدل نہیں ہوں کہ خود کشی کرلوں. میرے لئے رام بان نسخہ ایک ہی ہے. نشتر. یہ بات سچ ہے کہ نشتر جو لگاتا ہے وہ دشمن نہیں ہوتا. لیکن نادان دوست کا کیا؟ وہ تو نشتر لگانا ہی نہیں جانتا. اس کے سارے نشتر کند ہوگئے ہیں. اتنی بات تو ایک بے وقوف بھی جانتا ہے کہ پھوڑے کا علاج کدال سے کرنے کا انجام مزید پھوڑوں کو دعوت تخلیق دینا ہے. میں نے بڑی مشکل سے اپنی کہانی سنانے کا آغاز کیا. لیکن اسے کسی نے بڑی صفائی سے چوری کرلی. آپ دیکھو گے کہ مری کہانی کا مصنف کوئی اور ہے. میں دل برداشتہ ہوں. پھر کبھی....
ہر دن لوگ میری کہانی ملک میں ہونے والے کسی واقعے یا حادثے سے جوڑ کر بیان کرتے ہیں. بالکل اسی طرح جیسے کوئی چھوٹی داڑھی والاادھیڑ عمر کا ٹی وی اینکر ڈرا ڈرا کر اور سنسنی پھیلا کر اپنی ٹی آر پی بڑھانےیا اسے برقرار رکھنے کے لئے کسی خاص تصویر کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ غور سے دیکھیے اسے یہی ہے وہ فلاں. ایسی صورت حال میں مجھے خود ہی اپنے آپ سے گھن آنے لگتی ہے. کیسی عجیب و غریب بات ہے کہ پھوڑے سے سبھی گھن کھاتے ہیں. اگر پھوڑا خود سے ہی گھن کھانے لگے تو اسے ڈوب مرنا چاہئے. لیکن میں انسانوں کی طرح بزدل نہیں ہوں کہ خود کشی کرلوں. میرے لئے رام بان نسخہ ایک ہی ہے. نشتر. یہ بات سچ ہے کہ نشتر جو لگاتا ہے وہ دشمن نہیں ہوتا. لیکن نادان دوست کا کیا؟ وہ تو نشتر لگانا ہی نہیں جانتا. اس کے سارے نشتر کند ہوگئے ہیں. اتنی بات تو ایک بے وقوف بھی جانتا ہے کہ پھوڑے کا علاج کدال سے کرنے کا انجام مزید پھوڑوں کو دعوت تخلیق دینا ہے. میں نے بڑی مشکل سے اپنی کہانی سنانے کا آغاز کیا. لیکن اسے کسی نے بڑی صفائی سے چوری کرلی. آپ دیکھو گے کہ مری کہانی کا مصنف کوئی اور ہے. میں دل برداشتہ ہوں. پھر کبھی....
No comments:
Post a Comment
اچھے تبصرے کے لئے ہمیشہ شکر گزار