Sunday, 1 December 2013

تبصرہ:جدید اردو مثنوی فن اور فکری ابعاد

جدید اردو مثنوی فن اور فکری ابعاد
مصنف :ظفرانصاری ظفر
صفحات:۵۰۷،قیمت:۲۰۵روپے،سنہ اشاعت:۲۰۱۳
ناشر:کتابی دنیا،دہلی
مبصر:طیب فرقانی،ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی
ظفرانصاری ظفر کی حالیہ منظر عام پرآئی کتاب ’جدید اردو مثنوی ۔فن اور فکری ابعاد‘قومی کونسل کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔مصنف نے اس کتاب میں ۱۸۷۴ء سے ۲۰۰۲ ء تک کے عرصے میں لکھی گئی مثنویوں کا فنی اور فکری جائزہ لیا ہے ۔
۵۰۷ صفحات کی اس ضخیم کتاب کے نام میں ہی صرف جدید کا لفظ نہیں ہے بلکہ کتاب بھی جدید ہے اور موضوع بھی جدید ہے۔کل پانچ ابواب پر مشتمل کتاب کے آخری دو ابواب میں مصنف نے ،جیسا کہ کتاب کے نام سے واضح ہوتا ہے ،جدید اردو مثنوی کے فنی اور فکری ابعاد کا خوب صورت اسلوب و انداز میں ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔
جدید مثنوی سے مراد ایسی مثنویاں ہیں جو ۱۸۵۷ کے انقلاب کے بعد کے زمانے میں لکھی گئیں ۔اس سلسلے میں جن مثنوی نگاروں کا ذکر آیا ہے وہ ہیں حالی ،آزاد ،شبلی،اسمٰعیل میرٹھی،نظم طباطبائی،شادعظیم آبادی،علامہ اقبال،حفیظ جالندھری،جمیل مظہری،سردار جعفری،کیفی اعظمی،جاں نثار اختر،اختر انصاری ،عبدالمجید شمس،علامہ سریر کابری اور اسلم بدر۔ ان کے علاوہ ذکی احمد ،قمر واحدی،ابرار کرت پوری،جوش ملیح آبادی،شیخ احمد علی اور مرزا ہادی رسوا کاذکر بھی آیا ہے۔ مصنف نے عامر عثمانی کی مثنوی ’شاہنامہ اسلام جدید ‘ کا بھی ذکر کیا ہے جو ان کو دستیاب نہ ہوسکی ۔ان میں وہ مثنوی نگار بھی ہیں جن کو ہم مثنوی نگار کی حیثیت سے کم ہی جانتے ہیں جیسے مرزا ہادی رسوا۔لیکن پورے مطالعے میں حالی ،آزاد اور شبلی کو محوری حیثیت حاصل ہے۔
کتاب کا پہلا باب ’مثنوی :بحیثیت فن ‘ اس لحاظ سے اہم ہے کہ مصنف نے اس میں مثنوی کی تعریف تو کی ہے ساتھ ہی مثنوی عمومًاجن سات بحروں میں لکھی گئی ہے ان کی تقطیع مع مثال پیش کی ہے اور یہ مانا ہے کہ مثنوی کے لئے صرف سات یا نو بحریں ہی خاص نہیں ہیں بلکہ اس میں اجتہاد و انحراف کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔مصنف نے اس پہلے باب میں مثنوی کی صنفی حیثیت کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے اور شمیم احمد کے اس خیال سے اختلاف کیا ہے کہ’’جدید شاعری کے فروغ کے بعد جو مثنویاں مثلًا حالی،شبلی،آزاد،اقبال،سردار جعفری،جاں نثار اختر وغیرہ نے لکھی ہے،صحیح معنوں میں ان کی صنف مثنوی نہیں ہے بلکہ مثنوی کی ہیئت میں وہ مختلف موضوعات پر مبنی نظمیں ہیں ۔‘‘ مصنف نے کتاب کے آخری باب میں لکھا ہے کہ حالی اور شبلی بنیادی طور سے نقاد ہیں اور جب خود انھوں نے اپنی مثنویوں کو مثنوی کہا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں نظم کہنے والے؟
کتاب کا دوسرا باب ’اردو میں مثنوی کی روایت‘اور تیسرا باب ’اردو ادب کا دور جدید ‘ہے۔ یہ دونوں ابواب طوالت ،بساطت اور تفصیل کے اوصاف سے پیراستہ ہیں اور مصنف کے وسیع مطالعے اور عرق ریزی کا پتہ دیتے ہیں لیکن یہ دونوں ابواب غیر متوازن ہیں ۔مثال کے طور پر مثنوی کا سنہ تصنیف اور مثنوی نگاروں کا سنہ ولادت و وفات دینے میں کسی خاص قاعدے کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔سید اشرف جیسا مثنوی نگار جس کا ذکر شمالی ہند اور دکن کے بیشتر تذکروں میں ملتا ہے،کی ولادت ووفات کی تاریخ مصنف نے نہیں لکھی ہے اور یہ بھی نہیں بتایا کہ تاریخ پردۂ خفا میں ہے۔ جب کی اس کی مثنوی کا سنہ تصنیف درج ہے۔
اسی طرح تیسرے باب میں پرارتھنا سماج جیسی کم معروف اصلاحی تحریک کا ذکر تو آیا ہے لیکن جماعت اسلامی تحریک کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو وہابی تحریک کا بانی بتایا گیا ہے جس سے اختلاف کی گنجائش ہے۔ کمپوزنگ کی غلطیاں بھی انھیں دو ابوا ب میں زیادہ ہیں ۔تصدق حسین شوق لکھنوی کی عرفیت نواب مرزا کے بجائے نواز مرزا کمپوز ہوگیا ہے۔اسی طرح ان کی مثنوی بہار عشق کا سنہ تصنیف ۱۲۶۶ھ مطابق ۱۸۴۹ ء اور مثنوی زہرشوق کاسنہ تصنیف۱۲۶۹ھ مطابق۱۸۷۲ء درج ہے۔ان میں یا تو ۱۸۷۲ ء غلط ہے یا ۱۸۴۹ء۔بتنگڑ بتنگر اور بارات برات کمپوز ہوا ہے۔

(ماہنامہ اردو دنیا ،دہلی دسمبر ۲۰۱۳ میں شائع شدہ )

Friday, 8 November 2013

Interpretation to a Triveni of Gulzar

Gulzar's Triveni has so many features that it requires a huge volume of registers  ,but his following Triveni's last line has so many layers of meaning. This is the Triveni.    



کون کھائےگا ؟ کس کاحصہ ہے 
دانے دانے پر نام لکھا ہے

سیٹھ سود چند ،مول چند ،جیٹھا



 In plain and simple words, describing the meaning of hoarding and not letting grain and money reach people especially poor people,is his own share and has no match to others. In last line has only three Indian and classical names, by which he put a beautiful meaning in the Triveni. These names have double meanings. The meaning of Sood is clear . It means interests.But Mool means root or capital (of money) .In this way, Gulzar has made an ironical comment on capitalism and the system of interests which makes poor people suffered poor living and poor nutrition. The last word, Jetha , sounds completing the meaning of first two words. But the important thing that I want to draw your attention to is Chand. It can be presumed/considered that the word chand may have driven from chandra (sanskrit) which means moon. This does not make the difference on the meaning. But if you consider the word, chand , driven from Persian, it will make difference. Now the word has the meaning of increasing and being many times like chand baar.It creates layers of meaning and increases beauty of meaning and essence of Triveni. Now Sood chand is a person who takes not only interests but compound interests and keeps increasing. Same is Mool chand, who is not only a capitalist but that is such a greedy who always want his money increased and hoard grain from people to make a lot of profits.

Friday, 25 October 2013

کتابی سلسلہ:الاحسان (شمارہ نمبر۱) پر تبصرہ

کتابی سلسلہ:الاحسان (شمارہ نمبر۱)
مدیر : حسن سعید چشتی
ترتیب : مجیب الرحمن علیمی،ذیشان احمد مصباحی،ضیاء الرحمن علیمی،رفعت رضا نوری
سال اشاعت: اپریل ۲۰۱۰
قیمت:۱۰۰ روپے
مبصر : طیب فرقانی،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی

’تصوف ‘ اور’ تشدد‘ موجودہ دور میں ایک دوسرے کے مقابلے میں ابھر رہے ہیں ۔اہل تصوف کی کوشش ہے کہ دنیا بھر میں اسلام کو رسوائی سے بچانے اور دشمنان اسلام کو اسلام سے قریب لانے کے لئے پھر سے احیائے تصوف کیا جائے۔اس کے لئے تصوف کو آلائشوں سے پاک کیا جائے اور اس کی خوبیوں کو اپنایا جائے ۔کتابی سلسلہ ’الاحسان‘ اسی کوشش کا نام ہے ۔شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ چشتی کی سر پرستی اور ملک و بیرون ملک کے سر بر آوردہ علماء ومشائخ کی مشاورت و معاونت میں یہ مجلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے ۔
مجلے کے مشمولات کو درج ذیل ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے :(۱) بادہ وساغر (۲) احوال (۳)بادۂ کہنہ ( ۴) تذکیر (۵) تحقیق و تنقید (۶) بحث و نظر (۷) شناسائی (۸) صوفی ادب ( ۹)زاویہ (۱۰) پیمانہ (۱۱) مکتوبات۔ ’بادہ و ساغر‘ کے کالم میں امام غزالی کا وہ قصیدہ بھی شامل ہے جو ان کی وفات کے بعد ان کے سرہانے ملا تھا ۔ اس کا ترجمہ ضیاء الرحمن علیمی نے کیا ہے جو ’زاویہ ‘ کے کالم میں شامل ہے ۔
’احوال ‘ کے تحت مدیر مجلہ حسن سعید چشتی کا ابتدائیہ اور ذیشان مصباحی احوال سے واقف کراتے ہیں ۔
’بادۂ کہنہ‘کے تحت پہلی تحریر شیخ شرف الدین احمد یحی منیری علیہ الرحمہ کی ہے ، جس کا ترجمہ شاہ نجم الدین احمد فردوسی نے کیا ہے ۔ یہ مکتوبات صدی کا مکتوب اول ہے جس میں توحید کے چار درجے اور ان کا فرق مثالوں سے سمجھایا گیا ہے ۔ ایک مثال اخروٹ کی ہے کہ ’’ اخروٹ میں دوقسم کے پوست اور ایک قسم کا مغز ہوتا ہے ،پھر مغز میں روغن ‘‘ ۔ منافقانہ توحید پہلی قسم کے پوست کی مانند ہے ۔عامیانہ اور متکلمانہ توحید دوسری قسم کے پوست کی طرح ہے عارفانہ توحید مغز کے درجے میں ہے اور موحدانہ توحید روغن کے درجے میں ۔ حلول اور تجلی کا فرق بھی سمجھایا گیا ہے جو ان ذہنوں کے لئے شفا ہے جو حلول و تجلی میں فرق نہیں کرتے اور تصوف کو ویدانت سے جوڑتے ہیں ۔
دوسری اور آخری تحریر شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمہ کی ہے ۔ عنوان ہے’ تصوف کی حقیقت و ماہیت ‘ یہ تحریر عوارف العوارف سے ماخوذ ہے اور اس کے ترجمہ و تلخیص نگار ذکی اللہ مصباحی ہیں ۔ متعدد صاحبان طریقت کے اقوال کی روشنی میں تصوف کی ماہیت بیان کی گئی ہے ۔ تصوف و فقر پر خاصی لمبی بحث ہے ۔ متعدد مقام پر تصوف و فقر کے درمیان فرق کو واضح کیا گیا ہے ۔
’تذکیر‘ کے کالم میں تین تحریریں ہیں۔اول شیخ ابوسعید چشتی کے افادات پر مشتمل ہے جس کوذیشان مصباحی نے ترتیب دیا ہے ۔دوسری مولانا عبد المبین نعمانی کی تحریر ’آفات لسان اور ان سے بچنے کی تدبیریں ‘آیات واحادیث سے مزین کافی وسیع و وقیع ہے ۔ اس کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تصوف اس کے سوا کچھ نہیں کہ قران و حدیث پر پوری طرح عمل کیا جائے ۔ ایک پیراگراف نقل کرنا فائدے سے خالی نہ ہوگا :’’آدمی اگر بظاہر مسلمان ہے تو اصل اس کا مسلمان ہونا ہے جب تک کہ صریح کفر سرزد نہ ہو،اس کو کافر نہیں کہہ سکتے ،یا کفر تو صریح ہو لیکن قائل کی طرف اس کا انتساب قطعی نہ ہو تو اس صورت میں بھی کافر کہنا صحیح نہیں ‘‘۔(ص۵۰)
تیسری تحریر جناب نیاز حسن کی ہے جو کبھی ہری نارائن سنگھ ہوا کرتے تھے ۔یہ ان کے قبول اسلام کی مختصر آپ بیتی ہے 
’تحقیق وتنقید ‘ کے کالم میں پہلا مقالہ پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی کا ہے ۔’حقیقت تصوف: ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘ کے عنوان سے یہ مقالہ اسم با مسمیٰ ہے ۔ بشمول حواشی ۳۳ صفحات پر پھیلا ہوا یہ مقالہ تحقیق و تنقید کے باب میں نئی نسل کے لٗے مشعل راہ بھی ہے ۔مقالے کی ابتدا سلو موشن میں ہوتی ہے اور آہستہ وآہستہ عروج کے منازل طے کرتا ہے۔زبان وبیان اور انداز تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقالہ کئی بار میں تحریر ہوا ہے ۔مترادفات کی کثرت اور طویل جملوں کے استعمال سے کہیں کہیں ترسیل دشوار ہوجاتی ہے ۔ایک مثال دیکھئے:’’اس شخصی اعتدال کے ساتھ دین و شریعت ،معاشرہ میں بھی توازن وتوافق اور عدل انصاف اور اعتدال و میانہ روی پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘صاحب مقالہ کا خیا ل ہے کہ ’’حضرت شاہ ولی اللہ تو حکیم شریعت اور ماہر دینی کے ساتھ ساتھ تصوف وطریقت کے امام عالی مقام بھی تھے ۔لیکن امام ابن تیمیہ (م ۱۷۲۸ھ/۱۳۲۸ء)صرف شیخ الاسلام اور دین وشریعت کے امام تھے اور تصوف کے بعض امور کے ناقد بھی تھے ۔بایں ہمہ وہ تصوف کے منکر اور اس کی افادیت کے انکاری نہ تھے ۔وہ اکابر صوفیہ کو تسلیم کرتے تھے اور تصوف کے بہت سے نظریات ،افکاراور اعمال واشغال کے بھی قائل تھے ۔‘‘ مقالہ دلائل وحوالہ جات سے مزین ہے ۔ان کا ماننا ہے کہ طریقت ،شریعت کا ایک حصہ ہے اور صوفیہ کی تعلیمات ہدایت کے چراغ ہیں لیکن ان سے اسلامی نظام برپا نہیں کیا جاسکتا۔
دوسرا مضمون مولانا سید محمد اشتیاق عالم شہبازی کا ہے ۔آپ نے ’صوفیہ کرام کے احوال ومقامات ‘ جیسے صبر، زہد،فقر،توکل اور رضا وغیرہ پر صوفیا اور علما کے افادات وارشادات کی روشنی میں ایک قابل مطالعہ مضمون سپرد قلم کیا ہے ۔پروفیسر مسعود انور علوی کا مضمون ’عصر حاضر میں تصوف اور خانقاہ کی ضرورت‘ایک عجلت میں لکھا گیا مضمون ہے ۔حوالوں سے عاری۔پروفیسر موصوف بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو غار حرا کو پہلی خانقاہ مانتے ہیں اور قران و حدیث کے ہر واقعے کو تصوف ثابت کرنے پر مصر ہیں۔آج کل یہ ٹرینڈ ہوگیا ہے کہ روحانیت پر گفتگو کرتے ہوئے سائنس و ٹیکنالوجی پر سارا نزلہ گرادیا جاتا ہے اور پوری دنیا کو امن وامان سے خالی ،بد عمل اور کفرستان ثابت کیا جاتا ہے ۔پروفیسر موصوف بھی اس سے باز نہیں رہ سکے اور طریق نبوت اور طریق ولایت کو گڈ مڈ کرتے ہوئے نظر آئے ۔وفی انفسکم افلا تبصرون کا نیا ترجمہ (وہ تمہارے نفوس میں ہے کیا تم دیکھتے نہیں ) دیکھنے کو ملا۔
مولانا امام الدین سعیدی کا مضمون ’مشائخ کے شطحیات و ہفوات :ایک علمی و تحقیقی جائزہ‘ نہایت وقیع ہے ۔شطحیات و ہفوات کیا ہیں ؟ خود مضمون نگار کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں :’’(صوفیائے کرام سے ) غلبۂ حال میں جو اقوال بظاہر مخالف شرع صادر ہوں انہیں شطحیات کہتے ہیں اور جو افعال و حرکات مخالف شرع صادر ہوں انہیں ہفوات کہتے ہیں ۔کلمات شطحیات کی مثال حضرت منصور حلاج کا ’انا الحق‘ کہنا ،ہفوات کی مثال شیخ شبلی قدس سرہ کا بیٹے کی وفات پر داڑھی حلق کرلینا اور درہم و دینار کو دریا میں ڈال دینا وغیرہ ۔‘‘(ص۱۲۰)
مولانا مظہر حسین علیمی نے ’ضرورت شیخ اور اس کے حقوق و آداب ‘ پر روشنی ڈالی ہے جو تحریر سے زیادہ تقریر کے قریب ہے ۔اسی کالم میں ضیاء الرحمن علیمی کا مضمون ’علامہ ابن جوزی :ناقد تصوف یا محدث صوفی ؟‘دعوت غور فکر اوروعوت مطالہ دیتا ہے ۔پوری تحریر دلائل وامثال سے مزین ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو لوگ نقد تصوف میں ابن جوزی کے مقلد محض ہیں وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔ابن جوزی تصوف کو بالکلیہ رد نہیں کرتے بلکہ وہ تصوف کو آلائش سے پاک کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ مخالف تصوف نہیں بلکہ خود ایک بڑے صوفی ہیں ۔علیمی صاحب کا یہ مضمون رواں دواں اور ادبی اسلوب لئے ہوئے ہے ۔(چند مقامات ، جہاں عربی اسلوب در آیا ہے ، مستثنیٰ ہیں )بعض پیراگراف کافی طویل ہوگئے ہیں ۔
’حضرت شفیق بلخی :حیات وافکار ‘بھی عمدہ مقالہ ہے ۔ڈاکٹر مشتاق احمد تجاروی نے حضرت شفیق بلخی علیہ الرحمہ کی حیات پر واقعات کے توسط سے روشنی ڈالی ہے ۔اس طرح ان کے افکار و توکل ،زہدوطریقہء زہد،عبادت اور معرفت و غیرہ کو بخوبی پیش کیا ہے ۔موصوف نے ذکر کیا ہے کہ حضرت شفیق بلخی کے زمانے میں لفظ تصوف کو ’زہد ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا ۔انداز نگارش عمدہ ہے ۔
تحقیق و تنقید کے کالم میں آخری تحریر پروفیسر علی احسان ایتک کی ہے ، جس کا ترجمہ ضیاء الرحمن علیمی نے کیا ہے ۔یہ مقالہ علیمی صاحب تک کیسے پہنچا اس کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔اس مقالے کے سلسلے میں حسن سعید چشتی کی اس رائے سے ہمیں اتفاق ہے :’’پروفیسر علی احسان ایتک کی تحریر معاصر ترکی صوفیانہ تحریکات کے حوالے سے بیش قیمت معلومات کی حامل ہے ۔‘‘(ص۲۰) آخر میں یہ ماننا پڑتا ہے کہ ’تحقیق و تنقید ‘کا حصہ شمارہ کا سب سے زیادہ گرانقدر ،با وقا ر اور توجہ طلب ہے ۔‘‘(ص۲۰) 
’بحث و نظر کے کالم میں تین تحریریں ہیں ۔علامہ یسین اختر مصباحی ،پروفیسر اختر الواسع اور مولانا فیضان المصطفی قادری کی ۔ یہ تینوں برانڈ نام ہیں ۔ان کا نام ہی ان کی تحریروں کو با وزن بناتا ہے۔ہم یہاں ان کی تحریروں سے ایک ایک اقتباس نقل کر کے آگے بڑھ جائیں گے ۔بحث و نظر کے کالم کا سوال ہے :’’کیا تصوف اور صوفیہ کا دور ختم ہوگیا ؟‘‘ اس کے تحت علامہ مصباحی کا یہ اقتباس دیکھئے :
’’تصوف اور اس کی صحیح تعلیمات پر عمل پیرا صوفیہ کا مستقبل یقیناًروشن ہے اور غلط تصوف اور دنیا دار صوفیہ کا مستقبل تاریک ہونے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے لیکن ایسے تصوف اور صوفیہ سے ہمیں کیا لینا دینا ،ہم تو اس تصوف کی با ت کر رہے ہیں جس کی جڑیں اسلام کے ساتھ وابستہ ہیں ۔‘‘
’’پروفیسر اخترالواسع لکھتے ہیں :’’ایک سوال جو عام طور پر کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو آج صوفی نظر کیوں نہیں آتے ؟ لوگ بھول جاتے ہیں کہ صوفی اشتہار بازی میں یقین نہیں رکھتا ۔وہ شہرت کا نہیں گمنامی کا طلب گا ر ہوتا ہے ۔‘‘
مولانا قادری لکھتے ہیں :’’ان حالات میں لگتا ہے کہ تصوف اور صوفیہ کا دور ختم ہوگیا لیکن ہمیں ایسا قول کرنے میں عجلت نہیں کرنی چاہئے ،کیوں کہ تصوف ہمارے آقا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کا نقطۂ آغاز بھی ہے اور منتہائے کار بھی ۔‘‘ اس کے علاوہ مولانا قادری کو یہ اعتراف بھی ہے کہ :’’بہر کیف ،کیا ہوا ؟اور تصوف کی قدریں کہاں چلی گئیں ؟ ہمیں افسوس ہے کہ اس کا جواب ہمارے پاس نہیں ۔‘‘مولانا موصوف کا یہ جملہ بہت دلچسپ ہے :گویا ہر عمل میں کرامت کاکوئی نہ کوئی پہلو اس طرح نکال لیا جاتا ہے جیسے سعودیہ عربیہ میں چاند۔‘‘
’شناسائی ‘ کا کالم خاکستر میں چنگاری کی تلاش ہے ۔اتر پردیش کے ضلع اناؤ کا قدیم ترین قصبہ صفی پور کی خانقاہ صوفیہ کے سجادہ اعزاز محمد فاروقی عرف شمو میاں سے خصوصی گفتگو اور اسی خانقاہ کی تاریخ و کارناموں کو پیش کرتا ہوا مجیب الرحمن علیمی کا مضمون تفصیلی اور معلوماتی ہے ۔مجلہ ’الاحسان ‘نکالنے والے قابل مبارکباد ہیں جنہوں نے سنجیدگی و خلوص کا اس قدر مظاہرہ کیا ہے اور ’خذ ما صفا و دع ما کدر‘کو اپنا کر اپنے اسلاف کو یاد رکھنے اور صوفی اسلام کے احیا کے لئے کوشاں ہیں ۔علیمی صاحب کا مضمون بشمول تعلیقات و کتابیات تقریبا ۳۲ صٖفحات پر پھیلا ہوا ہے۔قلم سنجیدہ اور متوازن ہے ۔
مضمون کے حوالے سے تین باتوں کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں ۔اول یہ کہ خانقاہ صوفیہ وہ چشمہ ہے جس کا پانی بریلی ،بدایوں اور مارہرہ تک پہنچتا ہے ۔دوم یہ کہ تصنیف وتالیف کا عمل انسان کو تاریخ میں بلند مقام عطا کرتا ہے ۔’منبع سنابل شریف ‘کے مصنف میر سید عبدالواحد بلگرامی حضرت مخدوم شاہ صفی پوری قدس سرہ کے مرید ہیں اور علمی خدمات کی وجہ سے اپنے پیر سے زیادہ مشہور ہیں ۔سوم یہ کہ مخدوم شاہ صفی پوری قدس سرہ کی تعلیم وتربیت اور اجازت وخلافت کے ضمن میں جن بزرگوں کا نام آتا ہے ان میں شیخ سعد بن بڈھن ،شاہ مینا ،مخدوم شیخ سارنگ ،مخدوم یوسف ایرچی ہیں ۔ہندوستان میں صوفیا ء نے رنگ و نسل کا امتیاز مٹاکر جس گنگا جمنی تہذیب کی بنیا د ڈالی تھی اس کا اثر ان کے ناموں پر بھی دکھائی دیتا ہے ۔
’صوفی ادب ‘ کے کالم میں صرف ایک ہی تحریر ہے ۔ ڈاکٹر حسنین اختر کی ’عربی کی صوفیانہ شاعری ‘۔اس کالم میں اردو کے شاعروں اور فکشن نگاروں کی تحریریں بھی پیش کی جاتیں تو تشنگی کا احساس نہیں ہوتا ۔
’زاویہ ‘کے کالم میں ذیشان مصباحی کا مضمون ’امام غزالی کا فکری نظام المنتقد من الضلال کی روشنی‘ دعوت غور و فکرہی نہیں دیتا دعوت عمل بھی دیتا ہے ۔المنتقد من الضلال ایک قسم کی خود نوشت ہے ،جس میں’’ امام غزالی نے اپنی سپاٹ سر گزشت کے ساتھ بیچ بیچ میں اپنی پختہ فکر اور زاویہء نگاہ کا تذکرہ بھی کردیا ہے اور کہیں کہیں ایک ایک جملے میں سچ مچ سمندر کو کوزے میں بھر دیا ہے ‘‘ مضمون میں ’المنتقد من الضلال سے انہی بکھرے موتیوں کو چننے اور ان سے غزالی کے نظام فکر کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔مضمون کے مطالعے کے بعد یقینا’’قارئین محسوس کریں گے کہ غزالی کے ان خیالات کی معنویت موجودہ حالات میں کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔‘‘
دوسرا مضمون مولانا منظرالاسلام ازہری کا ہے ’امام غزالی اور اصول فقہ‘جس میں مولانا ازہری نے امام غزالی کی ’اصولی حیثیت ‘ اور اصول فقہ میں ان کی اجتہادی شان کی جھلکیاں پیش کی ہیں ۔مضمون چونکہ علمی ہے اس لئے زبان بھی عالمانہ ہے ۔ڈاکٹر حمید نسیم رفیع آبادی کا مضمون ’امام غزالی اور شاہ رفیع اللہ دہلوی :تناظر و تقابل ‘اس کالم کا تیسرا مضمون ہے ۔مضمون کا عنوان جتنا عمدہ ہے ،دوران مطالعہ اس کا احساس نہیں ہوتا ۔یہ ایک طویل مضمون ہے اور یہ طے کرنامشکل ہوجاتا ہے کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے ۔مثلا سر سید احمد کا ذکر دو جگہ آیا ہے لیکن اس کا مقصد کیا ہے میر ا ذہن وہاں تک نہیں پہنچ سکا ۔حالاں کہ مجلے کے مدیر حسن چشتی کی رائے یہ ہے:’’خصوصا ڈاکٹر حمید نسیم رفیع آبادی کی تحریر جو امام غزالی اور شاہ ولی اللہ میں تقابل و تناظر کے حوالے سے ہے ،بہت ہی فکر انگیز ہے ۔‘‘ 
اس کالم کا آخری مضمون ’امام غزالی کی طرف غلط منسوب شدہ کتب رسائل ‘ہے،جس کے مولف ڈاکٹر مشہد العلاف اور مترجم مولانا اظہار احمد مصباحی ہیں ۔۹ کتب و رسائل کی تعداد پیش کی گئی ہے جو غزالی کی طرف غلط منسوب ہیں اور اس کے اسباب پر مفصل گفتگو کی گئی ہے ۔تحریر و ترجمہ دونوں عمدہ ہے ۔’پیمانہ کے کالم میں تین کتابوں پر تبصرہ ہے ۔پروفیسر اختر الواسع کی’ روشنی کا سفر‘جے اسپنسر کی ’الفرق الصوفیہ فی الاسلام ‘ اور مارٹن لنگس کی 'What is Sufism' ۔مکتوبات کے کالم میں پندرہ خطوط ہیں ۔
اس طرح کل ۴۰۸ صفحات پر پھیلا ہوا یہ مجلہ مجموعی اعتبار سے ’’تصوف پر علمی ،تحقیقی و دعوتی مجلہ‘‘ ہے ۔ مرتبین مجلہ نے قلمی تعاون بھی پیش کیا ہے ۔مجلے کا انتساب امام غزالی کی طرف ہے ۔لفظ ’متصوفین ‘دو مضامین میں دو الگ الگ معنوں میں مستعمل ہوا ہے ۔مولانا فیضان المصطفی قادری نے منفی معنی میں جب کہ ڈاکٹر حسنین اختر نے مثبت معنی میں استعمال کیا ہے ۔’صوفیہ ء کرام ‘کے رسم الخط پر نظر ٹھہر جاتی ہے ۔کہیں کہیں بلا ہمزہ ہی کمپوز ہوگیا ہے ۔’احسان ‘ کے حوالے سے متعدد قلم کاروں نے گفتگو کی ہے تو ایسا کیوں نہ ہو کہ تصوف کو تصوف کی بجائے ’احسان‘ ہی کہا جائے ؟۔


(ماہنامہ ماہ نور دہلی دسمبر ۲۰۱۰ میں شائع شدہ)

Thursday, 19 September 2013

ہتھیاروں کی دوڑ کس کے حق میں مفید ہے

پچھلے برس ۲۰۱۲ میں سحر اردو ٹی وی نے یوتھ ڈبیٹ کا انعقاد کیا تھا غالبا یہ ہر سال منعقد ہوتا ہے ۔مگر ایک بار میں بھی شریک ہوا تھا ۔اس موقع پر مجھے دو ڈبیٹ میں حصہ لینا تھا ۔ٹی وی والوں نے حوصلہ افزائ کے لئے انعامات بھی رکھے تھے ۔اتفاق سے دونوں مقابلوں میں مجھے اول انعام سے نوازا گیاتھا ۔بعد میں اس کی ویڈیوز یو ٹیوب پر اپلوڈ کر دی گئیں۔ میں نے وہاں سے ڈاون لوڈ کر کے اس کو ایڈٹ کیا تھا تاکی (تھمبنائل) ویڈیو کی ابتدائی صورت میں میں نظر آوں۔اور پھر سے اسے اپلوڈ کر دیا ۔اب جب کہ آج کل بلاگنگ کرر ہا ہوں تو سوچا اس کو بھی بلاگ پر ڈال دوں ۔ایک نظر ڈال کر دیکھیں کیسا تھا پروگرام؟ٹوپک وہی تھا جو اس کا عنوان ہے۔


پچھلے برس ۲۰۱۲ میں سحر اردو ٹی وی نے یوتھ ڈبیٹ کا انعقاد کیا تھا غالبا یہ ہر سال منعقد ہوتا ہے ۔مگر ایک بار میں بھی شریک ہوا تھا ۔اس موقع پر مجھے دو ڈبیٹ میں حصہ لینا تھا ۔ٹی وی والوں نے حوصلہ افزائ کے لئے انعامات بھی رکھے تھے ۔اتفاق سے دونوں مقابلوں میں مجھے اول انعام سے نوازا گیاتھا ۔بعد میں اس کی ویڈیوز یو ٹیوب پر اپلوڈ کر دی گئیں۔اب جب کہ آج کل بلاگنگ کرر ہا ہوں تو سوچا اس کو بھی بلاگ پر ڈال دوں ۔ یہ ایک دوسرا ویڈیو ہے جسے میں نے مکمل (بغیر ایڈٹ کیے ہوئے)یو ٹیوب سے ڈائرکٹ اپلوڈ کیا ہے۔ایک نظر ڈال کر دیکھیں کیسا تھا پروگرام؟ٹوپک وہی تھا جو اس کا عنوان ہے۔





بزم سخن|مغرب میں اسلامی اقدار کی توہین|Bazm Sukhan|Youth Debate|Insultin...

پچھلے برس ۲۰۱۲ میں سحر اردو ٹی وی نے یوتھ ڈبیٹ کا انعقاد کیا تھا غالبا یہ ہر سال منعقد ہوتا ہے ۔مگر ایک بار میں بھی شریک ہوا تھا ۔اس موقع پر مجھے دو ڈبیٹ میں حصہ لینا تھا ۔ٹی وی والوں نے حوصلہ افزائ کے لئے انعامات بھی رکھے تھے ۔اتفاق سے دونوں مقابلوں میں مجھے اول انعام سے نوازا گیاتھا ۔بعد میں اس کی ویڈیوز یو ٹیوب پر اپلوڈ کر دی گئیں۔اب جب کہ آج کل بلاگنگ کرر ہا ہوں تو سوچا اس کو بھی بلاگ پر ڈال دوں ۔ یہ ایک دوسرا ویڈیو ہے جسے میں نے مکمل (بغیر ایڈٹ کیے ہوئے)یو ٹیوب سے ڈائرکٹ اپلوڈ کیا ہے۔ایک نظر ڈال کر دیکھیں کیسا تھا پروگرام؟ٹوپک وہی تھا جو اس کا عنوان ہے۔





گلزار کی چند مزید تریوینی کا ترجمہ

گلزار کی تریوینی میں غضب کا جادو ہے اور اتنا ہی خلوص بھی ۔ وہ اکثر سادہ لفظوں میں چنگاری بھر دیتے ہیں موضوعات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے وہ کسی سرحد کے قائل نہیں ۔انکے نزدیک سب سے بڑا دھرم انسانیت ہے ۔ملاحظہ کریں چند مزید تریوینی اور لطف اندوز ہوں ۔
تریوینی: 

پیڑوں کے کاٹنے سے ناراض ہوئے ہیں پنچھی
دانہ چگنے بھی نہیں آتے مکانوں پہ پرندے

کوئی بلبل بھی نہیں بیٹھتی اب شعر پہ آکر

ترجمہ:

Deforestation has upset the birds
.They don't come to peck on houses

Not even a nightingale comes and sits on a couplet

تریوینی:

ہوائیں زخمی ہوجاتی ہیں کانٹے دار تاروں سے
جبیں گھستا ہے دریا جب تیری سرحد گزرتا ہے

میرا ایک یارہے "دریائے راوی" پار رہتا ہے

ترجمہ:
.Air is wounded by barbed wires
.River rubs its forehead while crossing your boarder

"I have a friend who lives beyond the river "Ravi

تریوینی:
میں سب سامان لے کر آگیا اس پار دریا کے
میری گردن کسی نے قتل کر کے اس طرف رکھ لی

اسے مجھ سے بچھڑ جانا گوارا نہ ہو شاید

ترجمہ:

.I came up with all goods across the boarder
.Some one cut my neck and kept it that side

.He might not endure to be separated

تریوینی:
آو زبانیں بانٹ لیں اپنی اپنی ہم
نہ تم سنوگے بات ،نہ ہم کو سمجھنا ہے

دو ان پڑھوں کو کتنی محبت ہے ادب سے 
ترجمہ:
.Let's divide our languages
.Neither will you listen nor will I understand

!What love for literature the two illiterate have

تریوینی:
زندگی کیا ہے جاننے کے لئے
زندہ رہنا بہت ضروری ہے 

آج تک کوئ رہا تو نہیں
ترجمہ :
.To know what life is
.It's necessary to be alive

.But no one has lived till now

تریوینی :
ہے نہیں جو دکھائی دیتا ہے 
آئینہ پر چھپا ہوا چہرہ 

ترجمہ آئینہ کا ٹھیک نہیں 
ترجمہ:
.The face is not really that
seeing reflected on the mirror

.The mirror has lost its polish

Sunday, 15 September 2013

ہندوستانی عدلیہ


مکرمی!

ایک بار پھر تین مسلم نوجوانوں کو دہلی کے تیس ہزاری کورٹ نے دہشت گردی کے الزام سے بری کر دیاہے۔اس واقعے نے بے قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرنے کے معاملے پر ایک اور سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے عدلیہ ہی آخری پناہ گاہ ہے۔مسلمانوں کا ہندوستانی عدلیہ پر اعتماد اور بھی مضبوط ہوا ہے۔دوسری طرف ہندوستانی پولیس کے رویے پر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ وہ کس قدر متعصب ہو گئی ہے۔ پولیس کے اس طرز عمل سے جہاں عوام کا بھروسہ متزلزل ہوا ہے وہیں یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ پولیس میں ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی کو مزید فعال اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ورنہ ہندوستانی سماج میں انتشار مزید بڑھ جائے گا۔ہمارے ملک کی کامل ترقی اس بات میں مضمر ہے کہ یہاں کا ہر باشندہ انتظامیہ اور عدلیہ کی طرف سے مطمئن ہواورکسی خاص طبقے یا فرقے کو جان بوجھ کر ہدف نہ بنایا جائے۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۲۵
(روزنامہ راشٹریہ سہارا میں شائع شدہ)

Saturday, 14 September 2013

عبدالمبین عرف عبدل


آہ مولانا عبدل! بے چارے تسکین شوق کی خاطر مارے گئے!
شوق بہر حال شوق ہے جس کی تکمیل میں ہر شخص ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے چاہے سر پر چوٹی ہو یا چٹیا۔ پھر مولانا عبدل کیسے پیچھے رہ جاتے۔ لیکن انھیں کیا پتا تھا کہ وہ اس طرح پھنسیں گے کہ نکل ہی نہیں پائیں گے۔
نام تو ان کا عبد المبین تھا لیکن کثرت استعمال کی وجہ سے گھستے گھستے عبدل رہ گیا تھا۔ خنجر تخلص فرماتے تھے۔ اگرچہ کبھی انھیں ایک شعر کہنے کا بھی اتفاق نہیں ہوا تھا مگر شعر و شاعری سے بڑا ’’عجیب قسم‘‘ کا لگاؤ تھا۔ بڑے بڑے شاعروں کے شعر یاد تھے۔ لیکن ایمانداری کی بات یہ تھی کہ کبھی سرقۂ شعر نہیں کرتے تھے۔ جس شاعر کا شعر ہوتا بڑے خلوص سے اس کا نام بھی بتا دیتے۔ ایسے ہی ایک دفعہ کسی مجلس میں شعر و شاعری کی ٹھن گئی۔ اس گلستان شاعری کے سبھی بلبلوں نے اپنے اپنے رنگ میں شاعری کی کاشت شروع کر دی۔ ایک نے گلکاری کی۔
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے وہ پھر لہو کیا ہے
جو ساس ہی کو نہ پیٹے وہ پھر بہو کیا ہے
دوسرے نے پیوند کاری کی۔
بروز حشر میں سیدھا چلا جاؤں گا جنت میں
وہیں سے آدم آئے تھے وہ میرے باپ کا گھر ہے
تیسرے نے کچھ یوں پھلجھڑیاں چھوڑیں۔
اف یہ تیرا تیر نظر، زخمی جگر، جاؤں کدھر
ہے آج سنڈے جس کے سبب چھٹی پر ہیں سب ڈاکٹر
ادھر مولانا عبدل دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہے تھے اور جب ان سے برداشت نہیں ہوا تو ڈپٹ کر بولے۔
درد سر ہوتا ہے بے رنگ نہ فریاد کریں
بلبلیں مجھ سے گلستاں کا سبق یاد کریں
ان کی اس تعلّی کو دیکھ کر مجھ سے بھی نہ رہا گیا اور تڑ سے میں نے کہا ’’ارے آپ کیا کرسکتے ہیں جب کہ خود دوسروں کے اشعار سنایا کرتے ہیں۔‘‘ یہ سن کر مولانا جوش میں آگئے۔ کہنے لگے اس کے جواب میں میر انیس کی ’’غزل‘‘ کے دو شعر سنو!
ایک قطرے کو جو دوں بسط تو قلزم کردوں
بحر مواج فصاحت کا تلاطم کر دوں
ماہ کو مہر کروں ذروں کو انجم کر دوں
گنگ کو ماہر انداز تکلم کردوں
محفل سے واہ واہ کی صدا اٹھی۔ مگر میں نے دھیرے سے مولانا عبدل کے کان میں کہا کہ جناب یہ میر انیس کی غزل کے اشعار نہیں ہیں یہ تو ان کے مرثیہ کے اشعار ہیں۔ ’’تو کیا میر انیس نے اپنا مرثیہ خود لکھا تھا؟‘‘ انھوں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ میں نے کہا ’’میرا مطلب ہے کہ میر انیس مرثیہ نگاری کے لیے مشہور ہیں اور آپ کے سنائے ہوئے یہ دونوں شعر دراصل ان کے لکھے ہوئے ایک مرثیہ کے ہیں۔‘‘ لیکن اب کیا ہوتا تیر تو کمان سے نکل چکا تھا۔ جس کی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے مولانا نے اس کی بڑی پیاری توجیہ کی۔ کہنے لگے ’’ارے تمھیں کیا پتا؟ میر انیس اپنے مراثی کی ابتدا غزل کے اشعار سے کرتے تھے۔ مولانا عبدل کی یہ توجیہ سن کر انگشت بدندان ہونے کی بجائے میں انگشت بہ اذان ہوگیا۔ میں یہ سوچ کر رہ گیا کہ مولانا نے شاعری کا بڑا ’’گہرا‘‘ مطالعہ کیا ہوگا۔
خیر! مولانا عبدل شعر و شاعری کے شوقین تو تھے ہی ساتھ ہی انھیں اپنی تصویر کھینچوا کر اخباروں میں چھپوانے کا شوق بھی کچھ کم نہ تھا۔ ہر وقت اسی کوشش میں رہتے کہ کسی طرح ان کی تصویریں بڑے بڑے اخبارات میں شائع ہو جائیں۔ ایک بار میر باقر نے ان سے کہا: بھئی عبدل! یہ تم نے کیا خبط پال لیا ہے کہ تمھیں بس ایک ہی جنون رہتا ہے کہ کب تمھاری تصویر اخبار میں چھپے؟ مولانا پوری سنجیدگی سے گویا ہوئے: باقر صاحب ایسی بات نہیں کہتے۔ اگر یہ خبط ہے تو پھر آج کے ان شاعروں کے بارے میں کیا کہیے گا جنھیں نذرانوں سے زیادہ مشاعروں کی تصویریں عزیز ہوتی ہیں۔
گورداس پور میں پیدا ہوئے مولانا عبدل جب ملک کی ایک مشہور و معروف درس گاہ سے فارغ التحصیل ہو کر آئے تھے تو بڑے کرو فر سے چلتے۔ انھیں بڑا ’’گمان‘‘ رہتا تھا کہ وہ ایک عظیم الشان درس گاہ سے سند یافتہ ہیں۔ یہاں یہ بحث بے کار ہے کہ ان کی بھی کوئی سند تھی یا نہیں؟ بڑی بے چین طبیعت پائی تھی انھوں نے۔ کسی ایک نقطے پر ٹھہرتے ہی نہیں تھے۔ شروع شروع میں بڑے زور و شور سے اپنے مسلک حق کا پرچار کیا۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب کبھی کسی خانقاہ یا زیارت گاہ کے قریب سے ان کی سائیکل یا رکشہ کا گزر ہوتا تو دل ہی دل میں فوراً توبہ اور تجدید ایمان کرتے اور ناک بھوں اس طرح سکوڑتے جیسے کوئی بدبو سی آ رہی ہو۔
لیکن اس شہر میں ان کے مسلک حق کی دال گلنا تو دور ہانڈی بھی نہیں رکھی جاسکتی تھی۔ اس لیے آہستہ آہستہ وہ سیکولر ہوتے گئے۔ اور پھر ان کے پیٹ میں اس ’’سیکولرازم‘‘ کا درد اس شدت سے اٹھا کہ انھوں نے ’’اتحاد ملت‘‘ کا بڑا زور دار نعرہ مارا۔ مگر ہائے ناکامی! ان کی ایک بھی نہ چلی اور اس میں بھی وہ فیل ہوگئے۔
اخبارات کا مطالعہ کثرت سے کرتے تھے۔ کوئی کام تو تھا نہیں اس لیے اردو اخبارات کے ساتھ ساتھ ہندی اخبارات کی بھی چندی چھڑا کر چاٹ جاتے تھے۔ رہی انگلش! تو انگلش سے انھیں اللہ واسطے کی دشمنی تھی۔ انھیں انگریزوں سے زیادہ انگریزی سے نفرت تھی۔ پتا نہیں اس کے پیچھے کیا اسباب تھے۔ بہرحال ان اخبارات میں بڑے بڑے مذہبی رہنماؤں اور دھارمک پنڈتوں کی تصویریں شائع ہوتی تھیں۔ انھیں کو دیکھ کر ان کے دل میں بھی اخبارات میں تصویریں شائع کرانے کا شوق پیدا ہوا جو آگے چل کر ’’عشق‘‘ کی شکل اختیار کر گیا۔ اور پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایک مہینے کے اندر اندر شہر میں ان کا ’’ڈنکا‘‘ بجنے لگا۔ روز ان کا بیان مع تصویر ضرور چھپتا تھا۔ مگر اس کے لیے انھیں کافی پاپر پیلنے پڑے۔ انھوں نے ایک خانقاہ کے متولی کو پٹایا اور آہستہ آہستہ خانقاہ پر قابض ہوگئے۔ اب اگر ان کی خانقاہ میں آیت کریمہ کا ختم بھی ہوتاتھا تو اخبارات میں اس کی سرخیاں ضرور مل جاتی تھیں وہ بھی مع تصویر۔
پھر تو انھیں چرس جیسا نشہ لگ گیا۔ کوئی موقع ہو یا نہ ہو ایک تصویر ضرور چھپنی چاہیے۔ اگر کبھی کسی مقام پر دیکھتے کہ ان کی تصویر نہیں لی جا رہی ہے تو غول میں جبراً گھسنے کی کوشش کرتے۔ اور تصویر کھنچاتے وقت کیمرے سے اتنے قریب ہوجاتے کہ لگتا جیسے کیمرے میں گھس ہی تو جائیں گے۔
ایک دن میں نے ایک مقامی اخبار میں ان کی تصویر دیکھی ایسا لگ رہا تھا کہ کھجور کا ایک تنا اب گرا کہ تب گرا۔ ان کے تصویر کھنچوانے کے اس جنون نے ان کو بڑا بدنام کیا۔ لیکن ان پر اس کا ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوا بلکہ اس میں اور شدت آگئی۔ کسی نے ان سے ان کی اس بدنامی کا ذکر کیا تو طیش میں آکر کہنے لگے، ’’اسی کا نام تو شہرت اور نیک نامی ہے جسے میرے حاسدین بدنامی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔‘‘ اور پھر انھوں نے مقامی اخبارات سے ترقی کرکے قومی اور بین الاقوامی اخبارات میں پہنچنے کے زینے تلاش کرنے شروع کر دیے۔ اور اس بھنور میں ایسا پھنسے کہ پھنسے ہی رہ گئے۔
دسری طرف ان کی شہرت حدود شہر کو توڑ کر دور دراز علاقوں تک پھیلنے لگی تھی یہاں تک کہ صوبائی اور قومی دارالحکومت تک پہنچ چکی تھی۔ ان کے سلسلے میں لوگوں کے دو طرح کے خیالات تھے۔ کچھ لوگ کہتے کہ یہ مولانا بڑا ہی ناہنجار ہے۔ سستی شہرت بٹورنے کے لیے جھوٹی سچی خبریں اپنی تصویر کے ساتھ خواہ مخواہ شائع کراتا ہے۔ اس گروہ میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ اخبارات کے نامہ نگار اور مدیران بھی تھے۔ جنھوں نے مولانا کو بڑے قریب سے ’’کیمرے‘‘ میں دیکھا تھا۔ خاص طور سے ایڈیٹر حضرات کے پاس جب ان کی کوئی رپورٹ پہنچتی تو وہ زیر لب بڑ بڑاتے کہ"Love Letter" آگیا۔
دوسرے گروہ میں علمائے کرام تھے جو عصر حاضر میں میڈیا کی ضرورتوں کے تحت مولانا کے اس عمل کو اگرچہ لائق تحسین نہیں سمجھتے تھے مگر خاموش حمایت ضرور کرتے تھے۔ مولانا عبدل کو اس کا بڑا فائدہ ہوا۔ اب وہ ملک کی کئی بڑی جمعیتوں اور تنظیموں کے سکریٹری اور جنرل سکریٹری بنا دیے گئے۔ اب انھوں نے تین طرح کے لیٹر پیڈ چھپوائے جن پر رپورٹ لکھ کر بھیجتے تھے۔ ایک لیٹر پیڈ خانقاہ کے متولی کی حیثیت سے (واضح رہے کہ وہ متولی اپنی محنتوں سے بنے تھے) دوسرا متعدد جمعیتوں اور تنظیموں کے سکریٹری اور جنرل سکریٹری کی حیثیت سے۔ اور تیسرا اپنے مادر علمی کے اولڈ بوائز کے صدر اعلیٰ کی حیثیت سے۔ چونکہ اولڈ بوائز والی تنظیم کی تشکیل انھوں نے خود کی تھی اس لیے صدر اعلیٰ سے نیچے رہنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اگرچہ دوسرے عہدوں کا پر ہونا ہنوز باقی تھا۔
اسکااثر ان کی معاشی حالت پر بھی پڑا اور سائیکل چلا چلاکر جوتیاں گھسنے والا آدمی سزوکی اور ٹویرا جیسی مہنگی گاڑیوں میں گھومنے لگا۔ معاشی حالت سدھری تو تن و توش میں بھی سدھار آیا۔ اتنا! کہ اگلی سیٹ پر ان کے اور ڈرائیور کے علاوہ کسی تیسرے کے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔
ابھی ان کی فراغت کے چار ہی سال ہوئے تھے کہ ملک کی سب سے بڑی عید، ’’عام انتخابات‘‘ کا اعلان ہوگیا۔کون نہیں جانتا کہ اس عید کے لیے لیے روزے نہیں رکھے جاتے بلکہ مولانا عبدل کی طرح ایمان دار اور مخلص قسم کے لوگ رمضان کا حصہ اسی مہینے میں کھا پی کر رمضان کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ سیاسی پارٹیاں اپنے انتخابی اشتہار میں جٹ گئیں۔ ’’ایک پارٹی‘‘ کے علاوہ ساری پارٹیاں مسلمانوں سے ہمدردی کا جذبہ جو ان کی ’’ناف‘‘ میں چھپا رہتا ہے ظاہر کرنے لگیں۔ ظاہر ہے اس کے لیے ان کو مسلم قیادت کے چھوٹے تالاب کی بڑی مچھلیوں کو بے خلوص نمستے بھی کہنا پڑا اور مدارس کی بوسیدہ نظر آنے والی دہلیز بھی پھلانگنی پڑی۔ جس کی بڑی بڑی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں۔ جنھیں دیکھ کر مولانا عبدل مچل مچل جاتے اور ان کے پیٹ کا چوہا اور شدت سے اچھل کود مچانے لگتا۔
ایک دن موقع ہاتھ آہی گیا۔ مجھ سے بولے ’’یار تم جبار کو تو جانتے ہی ہوگے۔‘‘ میں نے کہا ہاں کیوں نہیں وہی تو جو گورداس پور میں بھینس چگایا کرتے تھے اور شہر میں مفتی صاحب کہلاتے تھے۔‘‘ پہلے تو ان کے چہرے پر جھلاہٹ کے آثار دکھے پھر پتا نہیں کیا ہوا بڑی مقفی اردو میں بولے ’’اخبار کمر لچکدار کے نامہ نگار اور تصویر کار ذیشان جبار کی بات کر رہا ہوں اے نابکار‘‘ مجھے ان کی ایسی اردو پر بڑا رشک ہوا اور میں نے بڑی عاجزی سے کہا ’’مگر جناب! مجھ نابکار کو ’’تصویر کار‘‘ کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔ انھوں نے فخر سے سینہ تان کر کہا ’’فوٹو گرافر کا اردو ترجمہ تصویر کار ہے۔‘‘ اچھا تو پھر؟ میں نے کہا۔ کہنے لگے ’’اس نے مجھے بتایا ہے کہ آج شام گاندھی اسٹیڈیم میں ایک بہت بڑا سیاسی جلسہ ہونے جا رہا ہے۔ بڑے بڑے نیتا آ رہے ہیں۔ سنا ہے کہ وہ فلمی اداکار بھی آ رہا ہے.... ارے وہی.... کیا نام ہے اس کا.... جو ’’جادو کی جھپی‘‘ دیتا ہے؟ میں نے بڑی لجاجت سے کہا ’’ارے سرکار مجھ خاکسار کو فلمی اداکار سے کیا سرورکار‘‘ اور مسکرا پڑا۔ میری مسکراہٹ پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے مولانا عبدل بولے ’’زیادہ قافیہ پیمائی نہ کرو۔ میں تمھیں بس یہ بتا رہا ہوں کہ اس جلسہ میں مجھے قومی سطح کے اخبارات میں شائع ہونے کا موقع ملنے والا ہے۔‘‘ میں نے بطور تجسس پوچھ لیا ’’وہ کیسے؟‘‘ مگر وہ گول کر گئے اور کچھ بتائے بغیر اٹھ کر چل دیے۔
مولانا عبدل کی یہ بات شام تک میرے ذہن پر سانپ کی طرح پھن کاڑھے چھائی رہی جس کا اثر یہ ہوا کہ شام ہوتے ہی میرے قدم اسٹیڈیم کی طرف اٹھ گئے اور میں ٹھیک وقت پر وہاں پہنچ گیا۔ چونکہ ایک فلمی اداکار بھی تشریف لا رہے تھے اس لیے پنڈال بڑا شاندار لگایا گیاتھا اور سامنے شمال کی جانب بڑے لوگوں کے لیے شاندار اسٹیج۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر پہلے سے ہی ’’جادو کی جھپی‘‘ والے اداکار کو دیکھنے اور سننے کے لیے اپنی اپنی جگہوں پر لہرا رہا تھا۔ جنھیں دیکھ کر میرے ذہن میں ایک بیہودہ خیال آیا کہ اگر مولانا عبدل کی آیت کریمہ میں اتنے ہی لوگ جمع ہو جائیں تو ان کی تو چاندی ہوجائے گی۔
خیر! جلسہ خلاف دستور وقت سے ہی شروع ہوگیا۔ روایتی انداز میں آغاز کے بعد سیاسی ’’چھٹ بھیوں‘‘ کی بڑی لچھے دار اور گرجدار تقریریں ہوئیں۔ جلسہ جب اپنی جوانی کو پہنچا تو ’’جادو کی جھپی‘‘ والے فلمی اداکار کو ڈائس پربلایا گیا۔ پورا مجمع تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ فلم اداکار ہاتھ ہلاتا ہوا ڈائس پر آیا اور ابھی تقریر شروع ہی کی تھی کہ میں نے اسٹیج کے قریب ایک گاڑی رکتی ہوئی دیکھی، جوکچھ کچھ جانی پہچانی سی لگی اور پھر میرے خیال کی تصدیق ہوگئی۔ یہ مولانا عبدل کی گاڑی تھی۔ کیونکہ گاڑی سے اترنے والا کوئی اور نہیں مولانا عبدل ہی تھے۔ گاڑی سے اترکر مولانا بڑی شان سے اسٹیج کی طرف بڑھے اور جیسے ہی انھوں نے اسٹیج پر قدم رکھا ایک زلزلہ سا آگیا۔ پتا نہیں کیا ہوا پورا اسٹیج کھاس پھوس کی طرح ڈھ گیا، جس میں اسٹیج کی زینت بنے حضرات غائب ہوگئے۔ ادھر مجمع سے بھاگو بھاگو کا شور نشور بلند ہوا۔ پھر جو افرا تفری مچی ہے تو جس کے جدھر سینگ سمائے بھاگ نکلا۔ ایسے میں وہاں میں کیوں ٹکا رہتا؟
اگلی صبح مجھے پتا چلا کہ مولانا کی تصویریں قومی و بین الاقوامی اخبارات میں شائع ہوئی ہیں، لیکن خود مولانا عبدل اسپتال میں ہیں۔ میں جب اسپتال میں ان سے ملا تو بڑے ہشاش بشاش نظر آئے اور قریب ہی پڑے ہوئے اخبار کی طرف اشارہ کیا اور میں نے سر تسلیم خم کر دیا۔

طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ

ماہنامہ ایوان اردو دہلی اور اردو نیٹ جاپان پر شائع شدہ  جس کی لنک درج ذیل ہے 

Tuesday, 10 September 2013

جامعہ میں بیچلر سطح پر دو سال اردو

مکرمی!
آپ کا با وقار روزنامہ "انقلاب " بڑی خوش اسلوبی سے صحافت اور اردو کی خدمت انجام دے رہا ہے۔ آپ کے اخبار سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہندوستان کی عظیم یونی ور سٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر نجیب جنگ صاحب نے جامعہ میں بیچلر سطح پر دو سال اردو مضمون کو لازم قرار دیا ہے۔یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ صرف مضمون کو لازم نہیں کیا گیا ہے بل کہ اس کے نمبرات ڈویژن میں شمار کئے جاءں گے۔ یہ بات تمام اہل اردو کے لیے باعث مسرت و شادمانی ہے۔اس لئے کہ اردو جب تک لازمی مضمون کے طور پہ نہ پڑھائی جائے، بھارت میں اردو کے فروغ کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔یو پی میں بھی تمام اسکولوں میں اردو کو لازمی مضمون بنانے کی کوششیں چل رہی ہیں ،خدا کرے بار آور ہو۔ہم تمام اہل اردو کی طرف سے جامعہ کے وائس چانسلر نجیب جنگ صاحب ،اکیڈمک کونسل اور شعبہء اردوشکریہ کے مستحق ہیں۔ہم انہیں مبارک باد پیش کرتے ہیں۔

طیب فرقانی
   c azeem dairy,batla house,jamia nagar,okhla new delhi 25 /327

دہلی ،دلی اور دلہی

مکرمی!
دہلی ،دلی اور دلہی کے عنوان سے جناب شکیل احمد صاحب کا مضمون (شا ئع شدہ ۲۷؍جنوری ۲۰۱۳)دہلی کی تہذیب وروایت پر روشنی ڈالنے والا مختصر مضمون ہے۔شکیل شمسی صاحب کی جادو بیانی سے ہر وہ شخص واقف ہے جو ان کے مستقل کالم’’موضوع گفتگو‘‘ کا مطالعہ کرتا ہے۔لیکن اس مضمون کے مطالعے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ مضمون بڑی جلد بازی میں قلم بند کیا گیا ہے۔ورنہ یہ ناممکن ہے کہ شکیل صاحب جیسے صحافی سے یہ بات پوشیدہ رہ جاتی کہ دہلی اور بہاری ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم کی طرح ہیں ۔شکیل صاحب نے اپنے مضمون میں جن چار تہذیبوں او ر اس کے اثرات کا ذکر کیا ہے ان میں بہار اور بہاریوں کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے ۔کہاجاتا ہے کہ دہلی کی دو چیزیں بہت مشہور ہیں ۔اور ان دونوں میں ایک نقطے کا فرق ہے۔وہ دو مشہور چیزیں ہیں ’’بہاری اور نہاری ‘‘۔پرانی دلی اور ذاکر نگر کی نہاری سے تو ہم جیسے نا رسا لوگ بھی واقف ہیں ۔اور بہار تو دہلی میں ہر جگہ نظر آتا ہے۔دہلی میں چھٹ پوجا بہار سے ہی آیا ہے۔یہاں تو کئی علاقوں میں بہاری محلے آباد ہیں اور ان کو بہاری محلہ ہی کہا جاتا ہے۔ایک رکشے والے سے چیف جسٹس آفتاب عالم تک عظیم آباد اور بہار سے آئے ہوئے لوگ پوری دہلی میں پھیلے ہوئے ہیں ۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی بہت سے لوگ ’’بہاری‘‘کو بہ نظر تحقیر ہی دیکھتے ہیں ۔یہاں میرا مقصود کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں ہے بلکہ شکیل صاحب کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرانا مقصود ہے کہ ایسے اہم موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جلد بازی سے کام نہ لیں ۔کیوں کہ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردوجامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۲۵       
                                                                      اخبار کا تراشہ

عام آدمی کو ہتھیار نہیں تعلیم وروزگار چاہیے۔

مکرمی!
ہم آئے دن الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں یہ خبریں پڑھتے سنتے رہتے ہیں کہ فلاں ملک نے فلاں میزائل کا تجربہ کیا اور فلاں نے فلاں کا۔۔۔۔میزائلوں اور بموں کے علاوہ دوسرے ہتھیار بھی ایک ملک دوسرے ملک سے خریدتے بیچتے رہتے ہیں۔اس کے سیاسی اور اقتصادی فوائد زیادہ اور عوامی فوائد کم سے کم ہیں۔عالمی سطح پر اگر ہم دیکھیں تو جی ایف پی( گلوبل فائر پاور) کی لسٹ میں امریکا،روس،چین،ہندوستان اور برطانیہ بالترتیب سر فہرست ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے استثنا کے ساتھ دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار ہیں۔
عالمی دفاعی خرچ کو دیکھیں تو کل ملا کر 1.7 ٹریلین ڈالر سالانہ خرچ ہوتا ہے یہ رپورٹ 2011 کی ہے، جب کہ 2010 میں یہ خرچ1.63 ٹریلین ڈالر تھا ۔اس کامطلب یہ ہے کہ ایک سال میں1.3 فی صد خرچ کا اضافہ ہوا ۔اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہتھیاڑوں کی دوڑ کس قدر تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
اس کا تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر یہ رقم دنیا کی 7 ارب آبادی پر برابر سے تقسیم کر دی جائے تو تقریبا 236 ڈالر فی کس کے حصے میں آئے گا ۔ہندوستانی روپیوں کے حساب سے یہ 13000 ہزار بنتے ہیں ۔ اب دنیا میں غربت کی سطح دیکھیں تو پوری دنیا میںیومیہ تقریبا25 ہزار افراد صرف بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔حیرت کی بات ہے کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کو یہ بات کیوں نہیں سوجھتی ۔جس طرح غذا ہر انسان کا بنیادی حق ہے اسی طرح تعلیم ایک بنیادی حق ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق ہرسال ہتھیاروں پر جتنی رقم خرچ کی جاتی ہے اگر اس کا ایک فیصد سے بھی کم دنیا کے تمام بچوں کی تعلیم پر خرچ کیا جائے تو سارے بچے اسکولوں میں ہوں گے ۔اور یقیناًیہ عمل انسانیت کے حق میں اور امن و سکون کے فروغ میں معاون ہوگا۔
نفسیاتی طور سے جائزہ لیں تو ہم پاتے ہیں کہ ہتھیا ر فی نفسہ جنگ پر ابھارتے ہیں ۔اگر آپ کے سامنے ہتھیاررکھا ہو توآپ اسے چھوئیں گے اور اسے چلانے کی لوشش کریں گے ۔یہ ایک نفسیاتی مرحلہ ہے ۔ملکوں کے پاس جب ہتھیار ہوتے ہیں تو وہ یا تو خود کسی ملک پر جنگ مسلط کر دیتے ہیں جیسا امریکا کرتا آرہا ہے یا پھر وہ دوسرے ممالک کو ہتھیار بیچ دیتے ہیں یا کمزورممالک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرکے ان کو ہتھیار خریدنے پر مجبور کر تے ہیں۔پچھلی کئی دہائیوں سے یہی ہو رہا ہے اور سرمایہ دار ممالک لوگوں کے خون سے اپنی جیبیں بھر رہے ہیں ۔اس تجزیے کو سامنے رکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ہتھیاروں کا فروغ اگر کسی کے حق میں مفید ہے وہ سرمایہ دار ہیں ۔عام آدمی کو ہتھیار نہیں تعلیم وروزگار چاہیے۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ 

۔گوتم بدھ کو مار دیا

مکرمی!
میانمار کے بودھسٹوں نے ایک بار پھر انسانیت کا لباس اتار پھینکا ہے۔اس سے پہلے بھی وہ ننگ انسانیت بن چکے ہیں ،مگر پیاس ہے کہ بجھتی نہیں۔انہیں خون کی پیاس ہے یا اس علاقے میں موجود تیل کی پیاس ہے؟تیل بیچ کر وہ انسانیت کا لباس خرید سکیں گے؟جب ایک بے گناہ انسان مرتا ہے تو ساری انسانیت مرجاتی ہے ۔گوتم بدھ کو یہ معلوم تھا،مگر ان کے ماننے والے برمی لوگوں کو یہ نہیں معلوم ہے۔یا شاید معلوم ہو ،مگر ان کی عقل پر پردہ پڑگیا ہو! آہ! انہوں نے اقلیت کا یہ حال کیا ہے ؟زندہ لوگوں کوجلادیا گیا ہے ۔لاشیں بے گوروکفن پڑی ہیں جنہیں خاک بھی میسر نہیں ۔ان کے مکانوں سے کوئی آواز بھی نہیں آتی ۔اب کبھی نہیں آئے گی۔ان کا قصور زندہ رہنا تھا۔انسان ہونا تھا۔یا پھر مسلمان ہونا ۔کوئی اپنے جانور کو بھی زندہ نہیں جلاتا۔انسان کو مارنے سے مذہب مرتا ہے یا انسان؟گوتم بدھ اس کا جواب نہیں دے سکتے ،وہ یہ سن بھی نہیں سکتے ،لیکن انہوں نے کہا ضرور تھا ۔۔۔اہنسا کی راہ چلنا۔۔۔ان کے ماننے والوں نے بھلا دیا ۔جاہلیت کا زمانہ ہے ،جہاں ہر چیز تعصب ،نفرت اور لالچ کے بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔اہنسا کے الف پران جاہلوں نے اپنی انا کی کالک پوت دی ۔میانمار میں لوگوں نے مسلمانوں کو مارا ؟انسان کو مارا؟۔نہیں نہیں انہوں نے اپنے ضمیر کو مار دیا ۔اپنے مذہب کو مار دیا ۔گوتم بدھ کو مار دیا ۔اپنے خدا کو مار دیا ۔

Friday, 6 September 2013

گلزار کے چند ’’تریونی‘‘ (ہائیکو) کا ترجمہ


گلزار ہندوستانی سنیما کی بڑی شخصیت کانام ہے ۔وہ’’ ہندوستانی زبان‘‘ کے اچھے شاعر ہیں ۔ان کی تریوینی کا مجموعہ اسی نام سے شائع ہو چکا ہے ۔بنیادی طور سے یہ دیو ناگری میں ہے۔ٹرانسلیشن کی کلاس میں میم اس کا ترجمہ کرواتی ہیں ۔میں نے جو ترجمہ کیا ہے اسے آپ سے شئیر کر رہا ہوں ۔پہلے اردو رسم خط میں ’’تریوینی‘‘ ہے پھر انگریزی میں اس کا ترجمہ ۔دیکھیں کہ گلزار کی شاعری بھی کیا خوب ہے ۔(تریوینی میں تین سطریں ہوتی ہیں ۔دو سطروں کے بعد ایک سطر یوں ہی خالی چھوڑ کر چوتھی سطر لکھتے ہیں ۔اور پہلیدو سطروں میں جو بات کہی جاتی ہے وہ اکثر تیسری سطر میں بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور یہیں پر شاعر کے فن کا امتحان ہوتا ہے )

(۱) تریوینی:
کون کھائے گا ؟کس کا حصہ ہے
دانے دانے پہ نام لکھا ہے

سیٹھ سود چند ،مول چند،جیٹھا

ترجمہ:
Who will eat? whose share is it
Every grain has name on it

Saith sood chand,Mool chand,Jetha

(۲) تریوینی:
سب پہ آتی ہے ،سب کی باری سے
موت منصف ہے ،کم و بیش نہیں

زندگی سب پہ کیوں نہیں آتی ؟
ترجمہ:
It comes on all on their turn.
Death is judge,no less or more

Why does life not come on all

(۳) تریوینی:
کیا پتہ کب کہاں سے مارے گی ؟
بس کہ میں زندگی سے ڈرتا ہوں

موت کا کیا ہے ایک بار مارے گی
ترجمہ:
How to know when and where it will hit from
I am just afraid of life.

what about the death it will kills only once

(۴) تریوینی:
پرچیاں بٹ رہی ہیں گلیوں میں
اپنے قاتل کا انتخاب کرو

وقت یہ سخت ہے چناؤ کا
ترجمہ:
Pamphlets are being dished out in streets.
Select your killer

It harsh time to select

(۵) تریوینی:
بھیگا بھیگا سا کیوں ہے یہ اخبار
اپنے ہاکر کو کل سے چینج کرو

’’پانچ سو گاؤں بہہ گئے اس سال‘‘
ترجمہ:
Why this paper seems wet
Change your hawker from tomorrow

"Five hundred villages have been swept away"

(۶) تریوینی:
جنگل سے گزرتے تھے تو کبھی بستی بھی کہیں مل جاتی تھی
اب بستی میں کوئی پیڑ نظر آجائے تو جی بھر آتا ہے

دیوار پہ سبزہ دیکھ کے اب یاد آتا ہے ،پہلے جنگل تھا
ترجمہ:
Sometimes I countered settlement while passing by jungle.
Now I feel sad when I see any tree in village.

Seeing greenery on wall reminds me year was a jungle.
***.

تبصرہ نام کتاب: اقبال کی نظموں کا تجزیاتی مطالعہ

نام کتاب: اقبال کی نظموں کا تجزیاتی مطالعہ
مصنف:ڈ اکٹر فخرالاسلام اعظمی
ناشر: شبلی نیشنل کالج
صفحات: ۱۶۰
قیمت: ۵۰ روپے

اردو نظم نگاری میں اقبال کا مرتبہ کس قدر اعلی ہے ،یہ بتانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔اقبال اور ان کی شاعری پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔زیر تبصرہ کتاب،جو ڈاکٹر فخرالاسلام اعظمی کی تصنیف شدہ ہے ،بھی اقبال کی نظموں سے متعلق ہے۔ ڈاکٹر فخرالاسلام کا تعلق شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ سے ہے ۔انہوں نے طلبہ کی ضرورتوں کے تحت کتابیں تصنیف کی ہیں ۔’’شعور فن‘‘ کے نام سے ان کی ایک تصنیف طلبا میں کافی مشہور رہی ہے،جو نیٹ ۔جے،۔آر۔ ایف۔ کی تیاری کرنے والے طلبا کو مد نظر رکھ کر لکھی گئی تھی ۔اس کتاب کی تصنیف میں ڈاکٹر الیاس اعظمی بھی ان کے شریک کار رہے ہیں ۔مگر زیر نظر کتاب بلا شرکت غیرے ہے ۔دونوں کتابوں کا پیش لفظ بھی دوسطروں کے اضافے کے ساتھ ایک ہی ہے ۔اسی پیش لفظ سے کتاب کی تصنیف کے مقاصد پر روشنی بھی پڑتی ہے ۔ذیل میں ہم چند سطریں نقل کر ہے ہیں :
’’اس کتاب میں شامل تمام مضامین طلبا کی درسی ضروریات کے پیش نظر لکھے گئے ہیں ،ہو سکتا ہے کہ بعض مضامین میں تشنگی محسوس ہو،لیکن ایسے مضامین میں مضمون نگار کو اپنی مخصوص سطح کے ساتھ ساتھ طلبا کی ذہنی سطح کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے ‘‘
۱۶۰ صفحے کی اس کتاب میں اقبال کی تمام نظموں کا تجزیاتی مطالعہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان کی دس طویل و مختصر نظموں کا ہی تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے ۔جو اس طرح ہیں ۔خضر راہ،فرشتوں کا گیت ،فرمان خدا ،لینن خدا کے حضور میں ،جبریل وابلیس ،ذوق و شوق،ساقی نامہ،مسجد قرطبہ ،شعاع امید ،ابلیس کی مجلس شوری اور نیا شوالہ ۔ تجزیاتی مطالعے کے ساتھ ساتھ نظموں کی تشریح بھی دی گئی ہے اور مصنف کے بقول’’تشریح کے سلسلے میں پروفیسر سلیم چشتی کی شرح کلیات اقبال سے خاطر خواہ استفادہ کیا گیا ہے ۔‘‘
اس طرح کتاب کے تین حصے ہیں ۔ پہلے حصے میں صرف نظموں کے متون دیے گئے ہیں ۔دوسرے حصے میں تجزیاتی مطالعہ اور تیسرے حصے میں تشریح۔تشریح میں مشکل الفاظ کی تشریح بھی کی گئی ہے کتاب کی یہ ترتیب (اگر طلبا کی درسی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے رکھی گئی ہے تو) مناسب نہیں ہے ۔مناسب ترتیب یہ ہوتی کہ ایک نظم کا متن ،اس کے مشکل الفاظ کی تشریح اور پھر تشریح اور اس کے بعد تجزیاتی مطالعہ۔پھر ایک نظم کا متن اور اسی ترتیب سے تشریح و تجزیہ ۔ کتاب کا ٹائٹل پیج عمدہ ہے اور طباعت بھی مناسب ہے ۔
ڈاکٹر فخرالاسلام کا قلم الفاظ کو سجانے میں مہارت رکھتا ہے ۔تجزیاتی مطالعے میں خوب صورت جملوں اور فقروں کا استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ موصوف اچھے نثر نگار ہیں ۔ساتھ ہی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے کلیم الدین احمد اور نورالحسن نقوی جیسے نقادوں کے اقتباسات بھی درج کیے گیے ہیں ۔نظم کے فکری اور فنی ،دونوں پہلووں کا تجزیہ کیا گیا ہے ۔مگر فکری پہلو پر زیادہ زور ہے ۔مجموعی طور پہ کتاب طلبا کے لئے مفید ہے

طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۲۵ 

Sunday, 1 September 2013

ٹرین میں چوہا

نائن الیون کی تاریخ تھی جب میں نے ٹرین میں چوہا دیکھا۔ذہن کوزور کا جھٹکا زوروں سے لگا۔وہ تو خیر ہوا کہ میں ہندوستانی ٹرین میں تھا۔امریکہ کی کسی ٹرین میں ہوتا تو میرا کیا حشر ہوتا ،خدا ہی جانے۔چوہا ٹھیک میرے سامنے والی نچلی برتھ کے نیچے تھا ۔ایک لمحے کو دہشت ہوئی۔پھر دہشت گرد یاد آئے۔پھر امریکہ یاد آیا ۔ورلڈ ٹریڈ سینٹر یاد آیا ،جہاں ہزاروں بے قصور لوگ موت کے گھاٹ اتار دئے گئے۔پھر افغانستان یاد آیا ،جہاں آج بھی عام لوگ چوہوں کی طرح چھپے رہتے ہیں ۔پھر لیڈران جہان بانیاں یاد آگئے ۔ پھر اپنے ملک کے نیتا یاد آگئے۔ پھر عبدل بھائی کیسے نہ یادآتے ۔
عبدل بھائی آج کل مرکزی کابینہ میں خوراکی کے وزیر ہیں ۔کالج کے زمانے میں طلبا یونین کے انتخاب میں ہم سے ہاتھ جوڑ کر ووٹ مانگا کرتے تھے ۔سنا ہے اب وہ ہاتھ جوڑ کر ووٹ نہیں مانگتے بلکہ دونوں ہاتھوں سے ’’خوراک‘‘ سمیٹ رہے ہیں ۔
پھر چوہے کی طرف متوجہ ہوا تو عبدل بھائی کی تین خصوصیات اس میں دکھیں ۔غرور ،دور بینی اور حساسیت۔چوہے کی بڑی بڑی مونچھیں ،اس کے غرور وتکبر کا پتا دے رہی تھیں ۔یہ عام عبدل بھائی کی خاص خصوصیت ہے ۔ آنکھیں گلیلیو کی دور بین کی طرح لگیں۔مانو گلیلیو پہلی دفعہ دور بین لگا کر سب کو چندھیائی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو ۔ہمارے عبدل بھائی بھی کم دور بین نہیں ہیں ۔کب کس پارٹی میں شامل ہونا ہے ،کس عہدے میں زیادہ کمائی ہوگی ،ان سب کا اندازہ انہیں شاید سیاست کی دنیا میں آنے سے قبل ہی ہوگیا تھا ۔چوہے کی حساسیت کا پتا اس کی مسلسل ہلتی ہوئی گردن اور تھرکتے ہوئے بدن سے چلتا ہے ۔ذرا سا آپ ہلے نہیں کہ اس نے یو ٹرن لیا ۔یو ٹرن لینا بھی ہمارے عبدل بھائی کی خصوصیت ہے ۔کبھی کہیں گے ’’ہندوستان صرف اکثریت کا ہے ۔‘‘میڈیا گھیرے گی تو یو ٹرن لیتے ہوئے کہیں گے ’’یہ تو میرا سوال تھا جسے میڈیا نے توڑمروڑ کر پیش کیا ۔‘‘ زیادہ گھیرا جائے تو یہ کہہ کر دامن بچا لیں گے کہ ’’چوہے کے خراٹے لینے سے شیر کی نیند میں خلل نہیں پڑتا ۔‘‘
میں اسی سوچ میں گم تھا کہ ذہن کے پردۂ سیمیں پر ایک دوشیزۂ سوال نے انگڑائی لی ۔اور اس کی دو شیزگی اس طرح نکھری کہ اس وقت ٹرین میں چوہے کا کیا کام ؟پھر ان مونگ پھلی کے چھلکوں پر نظر پڑی جسے لوگ ٹائم پاس کر نے کے لئے چوہوں کی طرح کتر کتر کے فرش پر ڈال دیتے ہیں ۔اور آدمی اور چوہے کا فرق مٹنے میں ذرا سا فاصلہ رہ جا تا ہے ۔
میں نے سوچا چوہوں کا آبائی وطن کھیت کھلیان ہی تو ہوتا ہے ،یا پھر وہ اسٹو رروم میں پائے جاتے ہیں ۔یہ اپنا دیس چھوڑ کر ولا یت میں کیا کر رہا ہے ؟ولا یت کے نام پر ولا یتی لوگ یاد آگئے۔پھر انگریزوں کا دور حکومت یا د آیا اور میں الجھنے لگا اور پھر بے اختیا ر میری زبان سے نکلا :’’ہشت‘‘اور چوہا دہشت زدہ ہوکر بھاگ نکلا ۔جتنی تیزی سے وہ بھاگ رہا تھا اتنی تیزی سے میرے خیالات کی رو بہک رہی تھی ۔
چوہے کو سنسکرت میں کیا کہتے ہیں ۔۔۔موسک
فارسی میں کیا کہتے ہیں ۔۔۔موش
انگریزی میں کیا کہتے ہیں ۔۔۔Mouse
تینوں زبانوں میں چوہے کے نام میں کسی قدر صوتی مماثلت ہے ۔اور اسی مماثلت نے مجھے بہار پہنچا دیا ۔
بہار کے کچھ علاقوں کے گاؤں دیہات میں ’’پتھروں کے عہد‘‘کی ایک ہندو ذات بستی ہے ۔ادبی زبان میں اسے آپ ’’خرمن غیر کی خوشہ چیں قوم ‘‘کہہ سکتے ہیں ،جو زندگی کا سفر جا ری رکھنے کے لئے مرغی پالن کرتی ہے اور کھیت کھلیانوں میں گرے پڑے اور چوہوں کے بلوں میں جمع شدہ دھان گیہوں چن چن کر جمع کرتی ہے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے بے تحاشہ پیدا کردہ بچوں کے پیٹ پالتی ہے۔ساتھ ہی چوہوں کی جڑیں کھود ڈالتی ہے۔بلوں سے اس طرح کھود کر نکالتی ہے گویا ان سے ’’نکسلی ‘‘دشمنی ہو۔مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی زبان میں چوہے کو ’’مُوسا‘‘کے نام سے جانا جا تا ہے اور اسی مناسبت سے اس ذات کو ’’مُسہر‘‘اور ان کی بستی کو’’ مُسہر ٹولی ‘‘ کہا جاتا ہے۔مجھے جملہ معترضہ کے طور پر خیال آیا کہ ادھر ہی کچھ علاقوں میں خالو کو’’ مَوسا‘‘کہا جاتاہے ۔اردو میں مُوسااور مَوسا اگر ایک ہی رسم خط میں لکھا جائے اور یقیناًلکھا جائے گا تو عبدل بھائی جیسے وزیر تو کچھ بھی پڑھ لیں گے ۔خالو کو چوہا اور چوہے کو خالو بنا دیں گے ۔کیوں کہ وہ کالج کے زمانے میں پڑھتے کم تھے اور لیڈری زیا دہ کرتے تھے۔
بہر حال میں سوچنے لگا کہ ڈارون کو اگر ان مُسہروں کے اس تابناک روکی زیارت کا شرف حاصل ہوتا تو وہ یہی کہتا کہ یہ لوگ کسی زمانے میں چوہا رہے ہوں گے اور صدیوں ارتقا کے منازل طے کر کے آدھے انسان تو بن ہی گئے کیوں کہ چہرے مہرے ،گھر بار اور اوڑھنا بچھونا کے اعتبار سے ٹی وی پر پروسے جانے والے گلیمر کے مقابلے میں یہ لوگ آدھے ہی انسان لگتے ہیں ۔پوری بستی کے عورت مرد،بوڑھے بچے اور جوانوں کے سارے لباس اکٹھا کر لئے جائیں تو بھی منسٹر عبدل بھائی کے پچھلے ایک مہینے میں تبدیل کئے ہوئے ڈریسوں سے کم پڑجائیں ۔اور پوری بستی کے مکانات کی’’ اینٹ شماری ‘‘کی جائے تو ریلائنس کے کسی بند پڑے پٹرول پمپ کی اینٹوں سے بھی کم پڑجائیں ۔ان کے یہاں فراوانی صرف دو چیزوں میں ہے ۔آدمی کے بچوں میں اور مرغی کے بچوں میں ۔مردم شماری والے بھی ان علا قوں کا رخ کرتے ہوئے گھبرا تے ہیں اور جو تھوڑے بہت ’’ذمہ دار ناگرک‘‘ ہوتے ہیں وہ پہلے سے ہی ایک بوری کاغذاور ایک تھیلا قلم کا انتظام کر لیتے ہیں تاکہ بچوں کو شمار کرتے وقت ان کی ’’روشنائی ‘‘خشک نہ ہوجائے۔
یہ لوگ آدھے انسان اس لئے بھی ہیں کیوں کہ یہ انتہائی حقیر جانور ،چوہے مارتے ہیں اور وہ بھی لاٹھی ڈنڈے سے ۔جس دن یہ بندوق سے آدمی مارنا شروع کر دیں گے پورے انسان ہوجائیں گے ،کیوں کہ آج کل پورا انسان چوہا مارتا ہی کہاں ہے ۔وہ تو قید کرتا ہے اور کسی پڑوسی کے گھر کے سامنے چھوڑ آتا ہے ۔مارتا تو وہ انسان کو ہے ۔کبھی بندوق سے کبھی بم سے اور دل نہ بھرے تو ایٹم بم سے ۔اتنے میں میں نے دیکھا کہ وہ چوہا پھر سے اپنی جگہ واپس آگیا ہے۔میں نے دل میں کہا ’’بے غیرت‘‘۔پتا نہیں ۔شاید وہ سمجھ گیا اور مجھے گھورنے لگا ۔کبھی پھدکنے لگتا اور کبھی میری طرف دیکھ کر سر ہلاتے ہوئے ہونٹوں کو تیزی سے جنبش دیتا ۔گویا بدبدا کر کہہ رہا ہو ’’بے غیرت ہم نہیں تم لوگ ہو ۔مونگ پھلیا ں ،چنا جور گرم بسکٹ اور چپس کھاکر پوری ٹرین گندی کر دیتے ہو ۔میں توصاف کرنے آیا ہوں ۔‘‘پھر وہ آسمان کی طرف دیکھ کر وہی حرکت کرنے لگا ۔گویا خدا سے گڑگڑا کر کہہ رہا ہو :
’’الہی ان کا من و سلوی روک لے ۔یہ آدھا کھاتے ہیں اور اور آداھا گوداموں میں بھر کر مہنگائی بڑھاتے ہیں اور ہم غریبوں پر ظلم ڈھاتے ہیں ۔ان کے بجا ئے ہمیں اور ہماری ’چوہا قوم‘ کو خوب دے تاکہ ہم موٹے تازے ہو جائیں تو کم سے کم ’مسہر ‘لوگوں کے پیٹ توبھریں ۔
اتنے میں ٹرین کینٹین کا کارندہ کھانے کا آرڈر لینے آگیا ۔میں نے یہ سوچ کر انکار کر نے عقل مندی دکھائی کہ آدمی ہی تو ہے ۔پورا آدمی ۔کیا پتا کھانے میں نشہ آور دواملا دے ۔سامان لوٹ لے ۔میرے انکار کر نے پروہ آگے بڑھ گیا ۔میں نے دیکھا کہ چوہے نے یو ٹرن لیا اور تیزی سے کینٹین کی طرف بھاگا ۔تب میری سمجھ میں آیا کہ وہ ولایت میں کیا کر رہا ہے ۔
ولایت جانے کی چار وجہیں میری سمجھ میں آتی ہیں ۔تلاش معاش،تلاش مال ،حفظان جان و صحت اور جلا وطنی۔پچھلی دو دہائیوں میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والوں میں دو لوگ بہت مشہور ہوئے ہیں ایک ’’آفتاب ‘‘ اور دوسرے ’’ماہ تاب‘‘۔ حسن اتفاق سے دونوں مشرق میں ہی اُگے اور مغرب میں ڈوبنے والے ہیں ۔چوہے کو ہم کتنی ہی حقارت سے کیوں نہ دیکھیں وہ کائنات کے نجات دہندہ کی شان میں گستاخی نہیں کر سکتا۔حفظان جان وصحت کے لئے ولا یت دو طرح کے لوگ جاتے ہیں ۔ایک وہ جنہیں خدا نہ خواستہ بھیانک مرض لاحق ہو،دوسرے وہ جنہیں ملک وقوم سے غداری کا تمغہ ملا ہو اور حفظان جان کی خاطر ولایت میں کوئی خاطر خواہ مقام تلا ش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہوں ۔یہ دونوں باتیں چوہوں میں نہیں پائی جاتیں ۔وہ چوہا تو نہایت ہی تندرست اور تن وتوش والا بیوپاری لگ رہا تھا ۔
رہا ملک وقوم سے غداری کا سوال تو ان کے یہاں ملکی سرحدیں ہی نہیں ہوتیں اور قوم سے غداری کا شرف تو حضرت میر جعفر جیسے لوگوں کا شیوہ ہے ۔بے چارے چوہے تو آخر چوہے ٹھرے ۔قوم سے غداری کا مطلب کیا جانیں ۔رہاتلاش مال اورتلاش معاش ،تو پہلے ان دونوں کا فرق سمجھ لیں تاکہ آگے کی بکواس سمجھنے میں آسانی ہو ۔تلاش مال اور تلا ش معاش میں وہی فرق ہوتا ہے جو قوت لایموت اور حرص لایموت میں ہے اور خوردن برائے زیستن اور زیستن برائے خوردن میں ہے ۔اور جو فرق پیٹ اور توند میں ہے یعنی تلاش معاش تو یہ ہے کہ انسان اتنی روزی کمائے کہ خودکواور اپنے متعلقین کو چین سے قبر تک پہنچادے اور تلاش مال یہ ہے کہ ؂
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
اتنا گہرا تجزیہ کرنے کے بعد میری سمجھ میں آیا کہ چوہا تلاش معاش میں ولایت میں بھٹک رہا ہے کیوں کہ سارا مال تو ولایتی بینکوں میں ہی جمع ہے ***
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۲۵

اردو نیٹ جاپان کی لنک جہاں یہ انشائیہ شائع ہوا تھا
http://urdunetjpn.com/ur/2013/02/19/inshaiya-tayyab-furqani/

Saturday, 17 August 2013

سوشل میڈیا:ادب،سیاست اور سماج

میڈیا ایک ذریعہ ہے رابطے کا۔آج کے جمہوری سماج میں اس کی اہمیت جمہوریت کے چوتھے ستون کے طور پر مسلم ہے۔میڈیا کسی خاص ادارے یا حکومت کے تحت ہوتی ہے جس کا کام غیر جانبداری کے ساتھ کسی خبر کو عوام و خواص تک پہنچاناہے ۔لیکن جب سے اس نے خود کو ایک بزنس کے طور پر متعارف کروایاہے تب سے کوئی بھی دولت مند شخص یا طبقہ اپنے نظریے کے تحت میڈیا کا غلط استعمال کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے۔یہیں سے ’’پیڈ نیوز‘‘ کی اصطلاح نے جنم لیاہے۔اور میڈیا نے خبر رسانی سے آگے بڑھ کر تجزیہ اورتبصرہ کرتے ہوئے ذہن سازی کی ڈگر اپنالی۔اور خبروں کو چھپانے اور بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا رجحان عام ہوا۔ہماری قومی الیکٹرانک میڈیا نے تو بہت سے معاملوں میں ٹرایل کورٹ کا رول بھی نبھایا ہے،جس پہ تنقیدیں ہوتی رہی ہیں ۔اس کے باوصف آج بھی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی اہمیت برقرار ہے ۔آج بھی اس سے استفادہ کیا جارہاہے اور کیاجاتا رہے گا جب تک کہ دنیا بھر میں اس کے خلاف کوئی بڑا انقلاب رونما نہ ہو۔
اس انقلاب کی پہلی سیڑھی کے طور پر سوشل میڈیا نے اپنا وجود منوایا ۔سوشل میڈیا میں ٹوئیٹر اور فیس بک کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔مارک زکر برگ نے فروری ۴۰۰۲ میں ہارورڈ یونیورسٹی میں اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ جب فیس بک کی بنیاد رکھی تھی تو اسے بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ آگے چل کر یہ کس قدر تہلکہ مچاسکتا ہے۔مارک نے یہ ویب سائٹ صرف ہارورڈ یونیورسٹی کے طلبا میں ربط وتعلق بنائے رکھنے کے لئے بنائی تھی ۔لیکن نو سال کی اس مختصر مدت میں فیس بک نے میڈیا کے ہر فارمیٹ کو متاثر کیاہے۔’’اباؤٹ ڈاٹ کام‘‘ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق ستمبر ۲۰۱۱ تک فیس بک کے فعال یوزرس کی تعداد ۷۵۰ملین تھی۔دنیا بھر میں ہر مذہب اور ہر طبقے کے لوگ نہ صرف اس کے شیدائی ہیں بلکہ بہت سے لوگ اسے نشے کی طرح استعمال کرتے ہیں ۔
ٹیکنالوجی نے انسان کو جتنے فوائد سے مالامال کیاہے اس سے انکار کی گنجائش نہیں ۔لیکن اس کے جانبی مضرات(سایڈ افیکٹ)سے بھی انکار نہیں کیا سکتا۔ہماری اس گفتگو میں فیس بک کو محوری حیثیت حاصل ہے۔فیس بک نے ہمیں ایک دوسرے کو جاننے اور ایک دوسرے سے بہ سرعت معلومات کے تبادلے میں بے حد آسانی فراہم کی ہے۔ہندوستان میں فیس بک یوزرس کی موجودہ صحیح تعداد ہمیں نہیں معلوم ،لیکن شہر وں سے دیہاتوں تک شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جس نے فیس بک کانام نہ سنا ہو۔نوجوانوں کے لئے اس میں خاص کشش ہے ۔ایسے میں فیس بک نے ادب اور اہل ادب کو بھی متاثر کیا ہے۔اردو ،ہندی اور ہندوستان کی دوسری زبانوں کے ادبا اور شعراکی بڑی جماعت فیس بک کا بہتر استعمال کررہی ہے۔بیرون ملک اردو ہندی کے ادبا اور شعرا سے ہم فیس بک کے ذریعے ہی متعارف ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ فیس بک ادبی تحقیق کے ایک نئے وسیلے کے طور پر ابھراہے۔لیکن کیا فیس بک پر پوسٹ کیاجانے والا ادب اپنے اندر وہی لطف،چاشنی اور صحت رکھتا ہے جو مطبوعہ کتب ورسائل اور اخبارات میں ملتی ہے ؟ اس سوال کا جوا ب تھوڑا مشکل ہے۔فیس بک کے ادب میں بہ نسبت مطبوعہ تخلیقات کے غلطیوں کا امکان زیادہ رہتاہے۔اس لئے کہ یہاں بسا اوقت بے احتیاطی راہ پاجاتی ہے۔یہاں کوئی ایڈیٹر نہیں ہوتاہے۔پھر یہ کہ فیس بک پر نہ مکمل کتاب پوسٹ کی جاسکتی ہے اور نہ ہی پڑھی جاسکتی ہے۔بعض دفعہ تو تمام پوسٹ کو دیکھ پانا بھی مشکل ہوتاہے۔اس کے باوجود ادب کے فروغ میں اس نے بڑا اہم رول اداکیا ہے۔
سوشل میڈیا ،خاص طور سے فیس بک کی بڑھتی اہمیت نے اہل سیاست کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔۲۰۱۴ میں ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات کے پیش نظر تو اس میں مزید تیزی آگئی ہے ۔اگلا وزیر اعظم کون ہوگا :مودی یا راہل؟اس طرح کے سینکڑوں پوسٹ ہماری نظر سے گذرتے ہیں ۔پھر اس پہ کمنٹ کا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔کوئی حمایت کرتا ہے اور کوئی مخالفت ۔لیکن جس بات کی طرف سے اہل دانش کو تشویش ہے وہ ہے کمنٹ کی زبان۔راہل یا مودی ،کانگریس یا بی جے پی کی حمایت و مخالفت میں جس طرح کی زبان استعمال کی جارہی ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھی یونیورسٹی ایسی کیوں نہیں ہے جو دنیا کی دو سو یونیورسٹیوں کی صف میں شامل کی جاسکے ۔خاص طور سے نیوز چینلوں کی خبری پوسٹ یا سوال پر جس طرح کی کمنٹ کی جارہی ہے اس کو پڑھنے کے بعد ایک مہذب آدمی شرم سے پانی پانی ہوجا تا ہے ۔اس قدر بے ہودہ مغلظات بکے جاتے ہیں کہ خداکی پناہ!مودی جی کے حمایتیوں نے تو گویا بے ہودہ زبان استعمال کرنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔پھر جواب اور جواب الجواب کا سلسلہ چلتا ہے ۔پھر ہندو مسلم مذاہب کی توہین کی جاتی ہے ۔جواب در جواب میں جس معقولیت اور معروضیت کا تقاضا کیا جاتا ہے فیس بک پر وہ ندارد ہے ۔دوستوں کی فہرست سے کسی بدتمیز کو تو ہٹایا جاسکتا ہے لیکن نیوز چینلوں کی پوسٹ سے کسی کمنٹ کو حذف کرنا عام آدمی کے بس میں نہیں ہے ۔اور نیوز چینل والے بے ہودہ زبان استعمال کی گئی کمنٹ کو اس وقت تک حذف نہیں کرتے جب تک اسکی شکایت نہ کی جائے۔شکایت کے بعد بھی اس کی ضمانت نہیں ہے کہ اسے حذف بھی کر دیا جائے گا ۔بے شمار فرضی ناموں سے بنائے گئے فیس بکی صفحوں کا بے دریغ غلط استعمال ہورہا ہے ۔جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے بھڑکاؤ پوسٹ کیے جارہے ہیں ۔انقلاب کے ایڈیٹر نارتھ جناب شکیل شمسی نے اس بات کی طرف پہلے بھی توجہ دلائی ہے۔ایسے میں نوجوانوں کو خاص طور سے ہشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔جذبات میں نہ آکر اور کسی بھی طرح کی بدتمیزی سے گریز کرتے ہوئے بھر پور معقولیت اور معروضیت سے ایسے ملک دشمن عناصر کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ورنہ فرقہ پرستی کی زہریلی سیا ست کرنے والوں نے ملک کو تباہ کرنے کا جو ایجنڈا بنا رکھا ہے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے ۔اس سلسلے میں فیس بک پر ’’مسلم برادر ہوڈ‘‘ نام کی کمیونٹی اگلے ماہ کی ۲۶ تاریخ کو فیس بک پرگندی زبان استعمال کرنے والوں کے خلاف ملک بھر میں پر امن مظاہرہ کرنے کا اہتمام کر رہی ہے ۔ایسے میں ہندوستانی نوجوانوں کو ملک میں امن و امان قائم رکھنے اور گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت کرتے ہوئے ہر زہریلی سیاست کا منہ توڑ جواب دینا ہوگا اور خود کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ نانک وچشتی کے عظیم ملک ہندوستان کے تعلیم یافتہ اور مہذب افراد ہیں ۔

طیب فرقانی 
ریسرچ اسکالر ،شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی 

Wednesday, 7 August 2013

دہلی پولیس کمشنر نیرج کمار کے نام کھلا خط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراسلہ [روزنامہ انقلاب میں شائع شدہ]

دہلی پولیس کمشنر نیرج کمار کے نام کھلا خط
کمشنر صاحب آپ ہمارے ملک کی راجدھانی دہلی کے پولیس کمشنر ہیں ۔چوں کہ آپ بلاواسطہ مرکزی حکومت کے ماتحت ہیں اس لئے آپ کا عہدہ بہت بڑا ہے اور آپ کی ذمہ داری بھی بڑی ہے ۔اوور یہ بھی سچ ہے کہ آپ اور آپ جیسے سارے افسران کو جو تنخواہیں ملتی ہیں وہ ہم ہندوستانیوں کے ٹیکس کی جمع پونجی ہوتی ہیں ۔اس لئے بھی آپ پر اورآپ جیسے افسران پر عظیم ذمہ داریا ں عائد ہوتی ہیں ۔پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ مسلم علاقے جامعہ نگر سے ایک مدرسے کا طالب علم(مثال کے طور پر عبدالملک چودھری) اٹھا لیا جاتا ہے ،اس سے پاکستان ،طالبان اور دہشت گردوں سے رابطے کے بارے میں سوال کیا جاتاہے ،دھمکیاں دی جاتی ہیں اور دن بھر بندی بنائے رکھا جاتا ہے اور آپ کی پولیس کہتی ہے کہ اسے کچھ نہیں معلوم؟جب کہ آپ کی ’’اپنی انٹیلی جنس‘‘پاکستان سے بازآباد کاری کے لئے آرہے لیاقت علی کا پتا لگا لیتی ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ دہلی میں بلکہ پورے ملک میں وہ ہورہا ہے جو آپ کی ذمہ داریوں کے سراسر خلاف ہے۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ آپ کی انٹیلی جنس کو یہ پتا ہوتا ہے کہ لیاقت علی بڑی واردات انجام دینے پاکستان سے چل چکا ہے لیکن یہ پتا نہیں ہوتا کہ دہلی کے ایک گیسٹ ہاؤس میں اے۔کے ۵۶ اور ہتھ گولے رکھے جاچکے ہیں ،اور لیاقت علی کے بیان پر ہی آپ کو پتا چلتاہے کہ ایساہوچکا ہے۔یہ بھی عجیب بات نہیں ہے کہ لیاقت علی کے سلسلے میں کشمیر پولیس آپ کے مطابق جھوٹ بول رہی ہے اور آپ کی ’’اپنی انٹیلی جنس‘‘ کی خبریں بڑی پکی ہیں ؟جس پر آپ مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں ۔اور اس پر کیا کہا جائے کہ پاکستان سے ایک ’’خطرناک دہشت گرد‘‘ آتاہے اور اپنے ساتھ جوکچھ لاتا ہے وہ ہتھیار نہیں بیوی اور بچے ہیں ،اور اپنے آنے سے قبل جو چند ہتھیار ایک مقام پر رکھوا دیتا ہے اس سے آپ اور آپ کی انٹیلی جنس بے خبر رہتی ہے؟۔وہ ہتھیار کہاں سے آئے کون لایا اور رکھ کر کہاں غائب ہوگیا اس سے بھی آپ بے خبر ہیں ۔ہتھیار کی خبر آپ کو لیاقت علی کے بتانے پر ہی کیوں ملتی ہے ؟آپ کی انٹیلی جنس کی کچھ تو ذمہ داریاں ہیں ؟۔کیا یہ اہل وطن سے ناانصافی نہیں ہے کہ مسلسل ایک خاص طبقے کو نشانہ بنا کر جھوٹی گرفتاریوں کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے؟۔اگر میں یہ سوال پوچھنے کی جرء ات کروں کہ ہندوستانی نوجوانوں کے ساتھ ناانصافی کا یہ سلسلہ کب تک چلے گا تو کہیں مجھے بھی تو گرفتار نہیں کرلیا جا ئیگا ؟ ۔آپ سے گزارش ہے کہ قصور واروں کو ضرور سزادیں مگر بے قصوروں پھنسانا ،انہیں پریشان کرنا اور اپنے عہدے کا غلط استعمال کرنا بند کریں ۔کیوں کہ خنجر کی زبان کو آپ خاموش رکھیں گے تو آستیں کا لہو ضرور پکارے گا۔

طیب فرقانی
ریسرچ اسکالرشعبہ اردو ،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی۲۵

Tuesday, 6 August 2013

مراسلہ [روزنامہ انقلاب میں شائع شدہ]

مکرمی!
بے گناہ مسلم نوجوانوں کی رہائی اور انصاف کے معاملے کو لے کر ہندوستان کی مسلم و غیر مسلم لیڈر شپ کی جد و جہد میں تیزی آرہی ہے ۔یہ خوش آئند بات ہے۔لوک جن شکتی پارٹی کے کارکن امانت اللہ خاں بٹلہ ہاؤس میں غیر معینہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں ۔اور لوگ ان سے جڑتے جا رہے ہیں۔یہ مسئلہ ہی ایسا کہ اسے سنجیدگی سے لیا جاناچاہیے۔یہ ہندوستان کے شہریوں کا مسئلہ ہے۔سیکولر ملک کے قانون کا مسئلہ ہے ۔ظالم اور مظلوم کا مسئلہ ہے ۔
اس سلسلے میں ہر انصاف پسند کا یہی مطالبہ ہے کہ دہشت گردی کے الزام میں بند نوجوانوں کے مقدموں کی سماعت کے لئے فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم ہوں اور مقدموں کو جلد از جلد نپٹایا جائے ۔جو بے گناہ مسلم نوجوان اب تک رہا ہو چکے ہیں اور جو آئندہ ہوں گے ان کی باز آباد کاری کا اہتمام کیا جائے۔اس سلسلے کی سب سے اہم کڑی ہے،غلط طریقے سے بے گناہوں کو جیل بھیجنے والے پولیس افسروں اور ایجنسیوں کے خلاف کاروائی ۔بلکہ حکومت اس کے لئے قانونی شق بھی تیار کرے کہ جو پولیس افسر آئندہ بھی اس قسم کی غیر قانونی سر گر می میں ملوث ہوں گے ان کے خلاف دہشت گردی کے تحت ہی مقدمہ چلایا جائے گا۔ہم ہندوستانی شہری حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے آئین کی پاسداری کرے اور مظلوم کے لئے انصاف کو سہل حصول بنائے۔
طیب فرقانی
رسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی۲۵ 

مراسلہ [روزنامہ انقلاب میں شائع شدہ]

مکرمی!
مذہبی جذبات اتنے حساس بنا دئیے گئے ہیں کہ ہر کوئی اس کی آڑ میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے ۔سرحد پار پاکستانی مفاد پرست سیاست دانوں اور سر حد کے اس پار بی جے پی ،دونوں نے اپنے سیاسی مفاد کی خاطر ہندو مسلمان کے جذبات کو کھلونا بنا کر رکھ دیا ہے ۔اب افضل گرو کا معاملہ ہی لے لیجئے۔پاکستان خود مسلکی اور مذہبی جنونیت کا شکا رہے ۔آئے دن بم دھماکے،خونریزیاں اور تشدد نے پاکستان کی جڑیں ہلاکر رکھ دی ہے۔اس کے باوجود عوام کے جذبات کا غلط فائدہ اٹھاکر ووٹ بٹورنے اور اپنی ناکامیاں چھپانے کی خاطر پاکستانی پارلیمنٹ نے افضل گرو کے معاملے میں قرار داد پاس کر ڈالا۔پاکستانی عوام کو پاکستانی پارلیمنٹ سے سوال کرنا چاہیے کہ پاکستان اس قرارداد سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے ۔سوائے نقصان کے پاکستان کو کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔دونوں ملکوں کے آپسی تعلقات خراب ہوں گے،پاکستان کی بدنامی ہوگی،جنونیت اور تشدد کو بڑھاوا ملے گا ،جو خود پاکستانیوں کو ہی نہیں جھیلنا ہوگا بلکہ اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔شکیل شمشی صاحب کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ پاکستان افضل گرو کی بات تو کہہ رہا ہے لیکن اس نے آج تک ان پانچ پاکستانی دہشت گردوں کی لاش کے بارے میں کوئی سوال نہیں اٹھایا جو ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے کے دوران مارے گئے تھے۔افضل گرو تو ہندوستانی تھا۔
ایسی ہی اندھی ،غیر معقول اور جذباتی سیاست ہندوستان میں بی جے پی کرتی آئی ہے اور کر رہی ہے۔جان سب کی برابر ہے ۔ہندو ہو یا مسلمان۔بے قصور مارا جائے گا توتمام عالم انسانیت کا نقصان ہے۔اور ہر انصاف پسند انسان اس کے غم میں برابر کا شریک ہے ۔ہمارے ملک کی حفاظت پر مامور بہادر جوان ملک کے کسی بھی کونے میں کسی بھی طرح سے مارے جائیں ،چاہے پاکستانیوں کے ہاتھوں یا نکسلیوں کے ہاتھوں،ان کا خون برابر ہے۔ان پر سیاست نہیں ان کو انصاف دلانے کی بات کی جانی چاہئے۔مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بات کی جانی چاہئے ۔موت پر سیاست کرنا انسانیت کا بحران ہے۔ایسی مفاد پرست سیاست کو عوام مسترد کر ے گی۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۲۵

کہانی

آٹھ رکعتیں جیسے ہی مکمل ہوئیں وہ اگلی صف سے اٹھا اور تیزی سے پیچھے آنے کی کوشش کی ۔لوگوں نے اسے گھور کر دیکھا۔اور تسبیح پڑھتے ہوئے ایک بولا "تھک گیا کیا؟"
دوسرا"گرمی بہت ہورہی ہے پیاس لگ رہی ہوگی"
تیسرا"آج کل نوجوانوں کا حال بہت برا ہے ۔تھوڑی پڑھیں گے پھر اٹھ کے بھاگ لیں گے "
چوتھا "ارے بڈھا ہوگیا کیا ۔جوان بن جوان "
پانچواں "اہل حدیث ہوگا۔یہ لوگ بھی نا۔بیچ بیچ میں سے اٹھ کے بھاگنے کی نئی نکالی ہے"
غرض کہ بہت سی باتیں لوگ سوچ رہے تھے ۔وہ آج کھانا کھا کر تراویح کی نماز پڑھنے آیا تھا۔اس نے کسی کی پرواہ نہیں کی ۔ضرورت بھی نہیں تھی ۔لوگ اس کے کان میں تھوڑی کہہ رہے تھے ۔ویسے بھی اسے جلدی تھی وہ تیزی سے نکلا چلا گیا اور وضو خانے میں گھس گیا۔بیس رکعتِیں تراویح اور وتر وغیرہ پڑھ کر لوگ نکلے تو اسے بھی مسجد سے نکلتے دیکھا  ۔سوچنے لگے 'یہ تو بیچ تراویح سے ہی اٹھ کر بھاگ گیا تھا پھر سوچا ارے چھوڑو یار بھاگا ہوگا ہمیں کیا؟

Sunday, 4 August 2013

دہلی میں بس کا ایک سفر


بس ایسا لفظ ہے جو کئی معنوں میں مستعمل ہے ۔ایک طاقت و قوت کے معنی میں ،جسے ہندی میں’’ وش‘‘ کہا جاتا ہے۔جیسے طلبا اکثر کہتے ہیں ’’میرا بس چلے تومیں ایسے سارے ٹیچروں کو نکال باہر کروں جو پابندی سے کلا س نہیں لیتے اور طلبا کے مستقبل سے کھلواڑ کرتے ہیں اور جو موضوع پر کلاسوں میں گفتگو نہیں کرتے ۔اسی طرح لفظ بس کی تکرار سے خاموش ہوجانے یا کسی کام سے روکنے کا معنی پیدا ہوتا ہے جیسے کوئی چڑچڑی بیوی اپنے شوہر سے اکثرکہا کرتی ہے ’’بس بس بہت ہوگیا ۔اب اگر آپ نے کچھ کہا تو مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا لوں گی ہاں!‘‘۔ایک بس وہ ہوتی ہے جس سے ہم سفر کرتے ہیں ۔کبھی سیٹ پر بیٹھ کر ،سیٹ نہ ملے تو کھڑے ہوکراور کھڑے ہونے کی جگہ نہ ملے تو لٹک کر ۔گاؤں دیہات میں تو بس کی چھت پر بیٹھنے کا اپنا ایک الگ ہی مزا ہے۔
اس بس کی تکرار کے بجائے اگر ٹکرار ہوجائے یعنی دو بسیں پہلوانوں کی طرح آمنے سامنے آجائیں تو سب سے زیادہ نقصان حکومت وقت کا ہوتا ہے ۔اس کے خزانے سے کم سے کم دوچار لاکھ کی رقم تو کم ہوہی جاتی ہے ۔حادثے میں جو بالکل مر جائیں ان کو پچاس پچاس ہزار اور جو تھوڑا بہت مریں ان کو پچیس پچیس ہزار روپے دینے کا اعلان۔اور یہ رقم بھی کم جان لیوا نہیں ہوتی ہے ۔زندہ لوگوں تک پہنچتے پہنچتے نہ جانے کتنے ضمیروں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے ۔
آج کل دہلی کی بسیں اپنے شباب پر ہیں ،سرخ روشن پیشانی اور سبز و سرخ لبادہ اوڑھے یہ بسیں کبھی کبھی تو جوانی کی حقیقی آگ میں واقعی جھلس جاتی ہیں ۔(دہلی میں سفر کرتے وقت استاد محترم پروفیسر خالد محمود کی یہ بات ہمیشہ یا د رکھتا ہوں کہ کسی کو تم نہ ٹکر مار دو اور کوئی تمہیں نہ ٹکر مار دے)
ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اس کی پہچان ہے ۔اور میرے خیال میں اس کا سب سے بڑا مظاہرہ دہلی کی بسوں میں ہوتا ہے ۔بیک وقت کم سے کم چار صوبوں بہار،یوپی ،ہریانہ اور دہلی کے لوگ اپنی اپنی بھاشا اور تہذیب کے ساتھ ضرور سفر کرتے ہیں ۔ان بسوں میں مختلف قسم کی ’’بھاشا مشرن‘‘ دیکھ کر افضل کی بکٹ کہانی کی زبان یاد آجاتی ہے ۔ایک دن میں پنجابی باغ سے مہارانی باغ کے لئے بس میں سوار ہوا۔دروازے کی پاس والی سیٹ پر ایک موٹی سی عورت براجمان تھی اور بھیڑ کی وجہ سے دروازہ بالکل جام ہوگیا تھا۔عورت نے اپنے سامنے کھڑے ہوئے لڑکے سے کہا’’ارے ہٹ جا مجھے اترنا ہے‘‘۔لڑکا بولا ’’مجھے بھی اترنی ہے‘‘۔موٹی عورت پر ایک پرانا لطیفہ یاد آیا :ایک تھے نتھو رام جی ۔بیڑی بڑی کثرت سے پیتے تھے اور وقت و مقام کا انھیں خیال نہیں رہتا تھا کہ وہ کب اور کہا ں بیڑی دھونک رہے ہیں ۔ایک دفعہ بس میں بھی شروع ہوگئے ۔پاس ہی ایک عورت اپنے چھ سات ننھے منے بچوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔نتھو رام جی کی بیڑی کا دھواں اسے ناگوار گزرا اور اس نے ٹن ٹنا کر اعتراض کردیا ۔’’شرم نہیں آتی سامنے لکھا ہوا ہے No Smoking اور تم بیٹھے بیڑی دھونکے جارہے ہو۔پھینکو اسے بس کے باہر‘‘۔لیکن نتھو رام جی اطمینان سے بیڑی پیتے رہے اور آہستہ سے سر گھماکر بولے ’’میڈم آپ نے یہ تو پڑھ لیا No Smoking مگر آپ کو یہ نہیں دکھتا ہے ’’بچے دو ہی اچھے ،چھوٹا پریوار سکھی پریوار‘‘۔آپ اپنے زائد بچوں کو اٹھا کر بس کے باہر پھینک دیجئے میں بیڑی پھینکے دیتا ہوں ‘‘۔
دہلی کی بسوں میں روز کوئی نہ کوئی نیا مسافر ضرور سفر کرتا ہے ۔اس کے نئے ہونے کا پتہ تب چلتا ہے جب وہ بار بار آپ سے پوچھتا ہے ’’فلاں اسٹاپ کتنی دور ہے ۔کتنے نمبر کی بس وہاں جاتی ہے ؟‘‘لیکن میرے ساتھ اس دن بڑے عجیب حادثے ہوئے ۔میری بغل والی سیٹ پر ایک ایسا آدمی بیٹھا ہوا تھا جس نے پنجابی باغ سے مہارانی باغ تک کوئی اسٹاپ ایسا نہ چھوڑا ہوگا جب اس نے مجھ سے ’’سمے‘‘ نہ پوچھا ہو۔’کتنا سمے ہوا بھائی ؟‘ میں بتا بتا کر تھک گیا وہ پوچھتے پوچھتے نہیں تھکا ۔ایک وقت خیال آیا کہ گھڑی اتار کر اس کو تھما دوں لیکن چوں کہ نقصان اپنا ہی تھا اس لئے خاموش رہا ۔دہلی کی بسوں میں لیڈیز سیٹیں ریزرو ہوتی ہیں ۔(اب ۲۵ فیصد سے بڑھ کر ۳۵ فیصد ہوگئیں ہیں )ایسے میں خواتین کو یہ اختیا ر ہوتا ہے کہ اگر کوئی مرد ان کی سیٹ پر بیٹھا ہو تو اسے ’’اکھاڑ ‘‘ پھنکیں ۔اس دن میں نے مردوں کی سیٹ پر ایک خاتون کو بیٹھے ہوئے دیکھا اور اس کشمکش میں پڑگیا کہ انھیں اٹھا ؤں یا نہ اٹھاؤں ۔اٹھاؤں نہ اٹھاؤں ۔پھر یہ سوچ کر دل کو مطمئن کرلیا کہ ’’ناری سمان‘‘ہمارا اخلاقی فریضہ ہے ۔لیکن دوسرے دن لیڈیز سیٹ خالی پا کر اس پس وپیش میں پڑگیا کہ بیٹھوں یا کھڑا رہوں ۔بیٹھتا ہوں اور کوئی خاتون بعد میں اٹھادے تو توہین اور سیٹ خالی ہوتے ہوئے بھی کھڑا رہوں تو حماقت۔اسی ادھیڑبن میں تھا کہ جیسے پیچھے سے کسی نے کہا ’’آج سنڈے ہے ،آج کے دن لیڈیز کم سفر کرتی ہیں ۔بیٹھ جاؤ‘‘ ۔اور میں دھم سے ایسے بیٹھ گیا جیسے سیٹ بھاگی جا رہی ہو۔اور اپنی آنکھیں بند کرلیں اور سونے کا ناٹک کرنے لگا کہ اگر کوئی خاتون آبھی جائے تو سوتا ہوا سمجھ کر نہ اٹھائے ۔لیکن اس وقت مجھے بڑا افسوس ہوا جب ایک نوجوان نے اپنی سیٹ ایک پری رو کے لئے قربان کردی ۔میں افسوس سے ہاتھ مل رہا تھا کہ باہر سے ایک کارڈ میرے ہاتھوں میں آکر گرا ۔یہ کوئی بنگالی بابا کا وزیٹنگ کاردڈتھا جس پر کچھ دعوے تحریر تھے ۔ان میں سے ایک یہ تھا کہ کسی کو بس میں کرنے کے لئے ہم سے رابطہ کریں ۔اور میں یہ نہیں سمجھ پایا کہ یہ ’’بس‘‘ کس معنی میں مستعمل ہوا ہے ۔اتنے میں بس اسٹاپ آگیا اور میں اتر گیا۔

طیب فرقانی 
ریسرچ اسکالر ،شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی





روزنامہ قومی سلامتی دہلی میں شائع شدہ انشائیہ کی تصویر اور لنک یہاں دی جا رہی ہے اس کے علاوہ اردو نیٹ جاپان کی لنک نیچے موجود ہے



سرخی شامل کریں

Friday, 19 April 2013

مشاعرہ جشن بہار{۱۲ اپریل ۲۰۱۳ }



مشاعرہ جشن بہار{۱۲ اپریل ۲۰۱۳ } 






یہ مشاعرہ دہلی کی گنگا جمنی تہذیب کا نمائندہ مشاعرہ ہے جو پچھلے پندرہ سالوں سے بلا ناغہ منعقد کیا جاتا ہے ۔متھرا روڈ پر واقع دہلی پبلک اسکول جو کہ ایک انگلش میڈیم اسکول ہے ،کے وسیع و خوب صورت لان میں اس کا انعقاد ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہوتا ہے ۔کامنا پرساد اس کی کنوینر ہیں اور وہ شاعروں اور شاعرات کا خوب صورت انتخاب کرتی ہیں ۔خود کئی ایک کتابوں کی مصنفہ ہیں اور ہندوستان کی قدیم گنگا جمنی تہذیب کی دلدادہ ہیں ۔اس سال میں بھی اس مشاعرے میں شریک ہوا۔اس سلسلے میں صرف اتنا کہنا کافی سمجھتا ہوں کہ اس سے بہتر مشاعرہ میں نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا نہ سنا ۔یہ بین الاقوامی مشاعرہ تھا ۔وہ لوگ جو بھارت یا پاکستان کے ہیں اور یورپی ممالک میں رہتے ہیں انہیں ہم اپنے یہاں مشاعروں اور دوسرے پروگراموں میں مدعو کرتے ہیں اور اسے بڑے فخر کی بات سمجھتے ہیں کہ ہم نے بین الاقوامی پروگرام کرایا ۔لیکن اس مشاعرے میں کم سے کم تین ایسے شاعر تھے جو بیرونی ممالک سے آئے تھے اور وہ ہندوستانی یا پاکستانی نہیں تھے۔اس میں امریکا سے آئے میکس بروس نادر{نادر تخلص}، سب سے زیادہ اہم تھے ،جنہوں نے اس طرح اپنی شاعری سنائی کہ یقین نہیں آتا تھا کہ ایک غیر ملکی خاص طور سے انگریزی بولنے والا شخص اس طرح اور اس لہجے میں شاعری کرے اور سنائے کہ ہندوستانی سن کر عش عش کرے ۔ایک اردو ادیب، پروفیسر ہیروجی کوٹاوکا، جاپان سے تھے انہوں نے شاعری تو نہں سنائی لیکن اپنی اردو میں لکھی ایک تحریر پڑھ کر سنائی۔ یہ صدارتی خطبہ تھا۔ان کو لہجے پر قدرت حاصل نہیں تھِی لیکن خیال بہت اچھا تھا کہ جاپانیوں کو یورپ کے بجائے ایشیا خاص طور سے اردو ادب سے استفادہ کرنا چاہئیے۔تیسری شخصیت تھی عمر سالم السدوس کی ۔یہ سعودی عرب سے تھے۔خالص عربی ۔انہوں نے اردو پر ایک خوبصرت نظم کہی۔اسی وجہ سے کپل سبل نے کہا ''ہندوستان سے جو اردو کی روشنی پھیلی ہے اس نے پوری دنیا میں اپنا جلوہ دکھایا ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو کسی مذہب کی زبان کا نام نہیں ، بلکہ تہذب کا نام ہے " انہون نے یہ بھی کہا کہ اردو زبان کی مٹھاس سے انکار نہیں کیا جاسکتا،لیکن اردو کے لئے صرف اتنا کہنا کافی نہیں ہے اردو کی ترقی تبھی ممکن ہے جب اس کو ٹکنالوجی اور روزگار سے وابستہ کیا جائے۔انہوں نے سہ لسانی فارمولے کے موقف کااعادہ کیا ۔اس موقع پر جسٹس کاٹجو بھی نہ صرف موجود رہے بلکہ انہوں نے اپنا دیرینہ مطالبہ دہرایا کہ غالب کو پس از مرگ بھارت رتن دیا جائے۔جسٹس کاٹجو ایک اردو داں شخصیت کا نام ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ادرو شاعری دنیا کی کسی بھی شاعری سے بہتر ہے اور وہ اپنے اس موقف کا اظہار برملا کرتے ہیں ۔وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ آج بھی اردو شاعری کو فیض اور مجاز جیسی شاعری کو آگے بڑھانا چاہئیے۔مشاعرے کی بانی کامنا پرساد نے کہا کہ اردو زبان کو پانچویں جماعت تک لازمی قرار دیا جائے۔اس مشاعرے کی ایک خاس بات یہ بھی تھی کہ اسٹیج کو جدید طرز سے تیار کیا گیا تھا اور لان کے چاروں طرف اردو اور ہندی رسم خط میں اردو کے معروف اشعارکپڑے کے بینروں پر لکھ کرلگائے گئے تھے۔مشاعرے کے اہتمام میں کافی رقم اور ذہن کا ستعمال ہوا تھا ۔منتخب سامعین تھے۔ اس سے میری مراد ہے سنجیدہ سامعین۔ سامعین کافی تعداد میں تھے۔اور تمام شاعرون کو بہتر انداز میں سنا گیا۔قریب بارہ بجے مشاعرہ ختم ہوگیا تھا ۔یہ جمعے کا دن تھا اور مشاعرہ شام سات بجے شروع ہوا تھا ۔مشاعرے کی ابتدا میں ایک ناخوشگوار واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک شخص بھگوا رنگ کا رومال گلے میں ڈالے اسٹیج پر آیا اور "پاکستانی شاعر واپس جاو" کے نعرے لگانے لگا ۔پاکستان سے مشہور شاعرات فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید آئی تھیں۔ فہمیدہ ریاض نے متاثر کیا ۔اس کے علاوہ پاکستانی نژاد امریکی شاعر فرحت شہزاد نے بھی اچھی شاعری پیش کی۔یہان ساری شخصیتوں کے نام نہیں گنوا سکتا صرف اتنا کہنا کافی ہوگا کہ دہلی کے تقریبا تمام چنندہ محبان اردو موجود تھے۔مشعرے کی نظامت منظور عثمانی نے اپنے مخصوص انداز میں کی۔ ایک اور قابل ذکر شاعر تھے مشہور فلمی گیت کار جاوید اختر۔انہوں نے شطرنج اور وقت کے موضوع پر اپنی مشہور نظمیں سنائیں۔طنز و مزاح کے صرف ایک شاعر کو دعوت دی گئی تھی اور وہ تھے پاپولر میرٹھی۔ پاپولر میرٹھی صاحب کی مزاحیہ نظم "چلو دل دار چلو چاند کے پار چلو" بڑی فرمائشوں سے سنی جاتی ہے۔ منتخب اشعار اور تصاویر ذیل میں ملاحظہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نئے آسماں کی تلاش میں یہ بچھڑ گئے ہیں زمین پر
یہ ہمارے بچوں کا درد ہے انہیں ہجرتوں نے تھکا دیا
{ڈاکٹر نصرت مہدی}

سارا بدن عجیب سی خوشبو سے بھر گیا 
شاید ترا خیال حدوں سے گزر گیا
{آلوک شریواستو}

ملالہ روشنی ویسے ہی کم ہے 
چراغ زندگی بجھنے نہ پائے
لہو سے تم نے لکھا حرف تازہ
کسی صورت یہ اب مٹنے نہ پائے
{حارث خلیق}

بھری محفل میں تنہائی بہت ہے 
کسی کی یاد پھر آئی بہت ہے 
ترے حصے میں ہر قطرہ ہے دریا 
مرے حصے میں پیاس آئی بہت ہے
{میکس بروس نادر}

سوچتے سب ہیں ضروری ہے بغاوت لیکن 
چاہتے یہ ہیں کہ آغاز کوئی اورکرے 
{عقیل نعمانی}

اے کاش پھر سے جوانی مری پلٹ آئے
اسے دکھاوں بڑھاپے نے کیا کمال کیا
{عمر سالم السدوس}

خاموش تم تھے اور میرے ہونٹ بھی تھے بند
پھر اتنی دیر کون تھا جو بولتا رہا
{شین کاف نظام}

بھول جاوں میں ساری دنیا کو
اتنی شدت سے یاد آیا کر
کیا ضروری ہے کچھ بہانا ہو
ہم سے ویسے بھی روٹھ جایا کر
{منظور عثمانی}

آنکھوں میں رکھ رہا ہوں بڑی احتیاط سے
یہ بھول کر کہ پھر یہی منظر ستائیں گے
{پروفیسر وسیم بریلوی}



تصاویر


اسٹیج پر بیٹحے شعراء اور اپنا کلام سناتے آلوک شریواستو{غالبا}


مشاعرہ گاہ میں سامعین  کے ساتھ میں میرے دوست سعید اور ریحان سعید

سامعین کا ایک منظر

امریکی شاعر میکس بروس نادر

کپل سبل

شین کاف نظام

کپل سبل


عربی شاعر عمر سالم السدوس

مزاحیہ شاعر پاپولر میرٹھی



پاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض

گیت کار جاوید اختر

اسٹیج کا ایک منظر

پاکستانی شاعرہ کشور ناہید

پروفیسر وسیم بریلوی

پروفیسر وسیم بریلوی