Sunday, 30 March 2014

سیاسی ہلچل کے درمیان مغربی بنگال میں گیارہویں اور بارہوں جماعتوں کے امتحانات اختتام پذیر... اوردو کا چوطرفہ خسارہ

(طیب فرقانی بیوروچیف بصیرت آن لائن حلقہ شمالی دیناج پور)
شمالی دیناج پور میں جہاں اس وقت عام انتخابات کی وجہ سے جلسے ،جلوسوں اور میٹینگوں کا سلسلہ جاری ہے وہیں گیارہوں اور بارہوں جماعتوں کے امتحانات آج شام اختتام پذیر ہوگئے ۔اس حلقے میں کل ہی کانگریس اور ترنمول کانگریس کے امیدوار دیپا داس منشی اور ستیہ رنجن داس منشی نے بڑے اجتماعات کو خطاب کرکے عوام کو علاقے کی ترقی کا خواب پھر سے سجانے کو کہا وہیں نہ جانے کتنے طلبا کے مستقبل داؤ پر بھی لگے ۔۱۲مارچ سے شروع ہوئے امتحانات آج پوری طرح سے ختم ہوگئے ۔بارہویں جماعت کے امتحانات جمعرات کو ہی اختتام پذیر ہوگئے تھے ۔لیکن اصل معاملہ امتحانات سے جڑی بدعنوانیوں کا ہے ۔جو جوں کا توں ہے اور نہ جانے کب تک اس کا خاتمہ ممکن ہو۔بارہویں جماعت کے امتحانات تو خیر کسی حد تک شفافیت بھرے رہے لیکن گیارہوں جماعت کے امتحانات خاص طور سے اردو میڈیم اسکولوں میں پور ی طرح سے ایک بار پھر غیر شفاف رہے ۔نقلوں کا سلسلہ جاری رہا اور طلبا کے مستقبل سے کھلواڑ کی ایک اور تاریخ رقم کی گئی ۔جس کی وجہ سے اردو میڈیم اسکولوں کا معیار بد سے بد تر ہوتا جا رہا ہے ۔گیارہویں جماعت کے امتحانات چوں کہ ہوم سینٹر میں ہوتے ہیں اس لئے اسکولوں کے اساتذہ نے نقل کرانے کو اپنی مجبوری بنا لی ہے ۔اساتذہ سال بھر کلاس نہیں لیتے اور امتحانات کے وقت انہیں طلبا کو نقل سے باز رکھنے کی جرات نہیں ہوتی ۔ان کے پاس نقل کرانے کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں رہ جاتا ہے ۔چاہے طلبا اور اردو کا کتنا ہی خسارہ ہوجائے ۔دوسری بات یہ کہ گیارہوں بارہوں جماعتوں کے امتحانات کے سوالنامے صرف انگریزی اور اور بنگلہ میں ہی دئے جاتے ہیں باوجود اس کے کہ امتحانات اردو میں دئے جاسکتے ہیں ۔اس فلسفے کے پس پشت کون سا نظریہ قائم ہے یہ تو ذمہ داران بورڈ اور اردو اکادمی ہی بتا سکتی ہے لیکن طلبا کو ایسے میں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پرتا ہے ۔کیوں کہ نہ وہ بنگلہ ٹھیک سے جانتے ہیں اور نہ انگریزی ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو سمجھ میں آیا وہ لکھ دیا اور جو سمجھ میں نہیں آیا اس کا خدا ہی حافظ ۔اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ رہی کہ گیارہویں جماعت کے ہر مضمون کے لئے ۲۰ نمبرات کا پروجیکٹ دیا گیا ہے بشمول تمام زبانوں کے سوائے اردو کے ۔صرف اردو ہی ایک ایسی زبان یا مضمون رہا جو پروجیکٹ سے محروم رکھا گیا ہے ۔طلبا یہ سوال کرتے دکھے کہ آخر اردو کو ہی پروجیکٹ سے محروم رکھنے کی وجہ کیا ہے ۔انہوں نے اپنا احتجاج درج کرایا اور ذمہ داران اردو اور بورڈ سے مطالبہ کیا کہ اردو میں بھی ۲۰ نمبرات کا پروجیکٹ دیا جائے ۔اس طرح انتخابی موسم میں جہاں ہر پارٹی کے امیدوار نئے پرانے وعدوں کی جھری لگا رہے ہیں کیا وہ ان مسائل پر بھی توجہ دیں گے یہ دیکھنے والی بات ہوگی ۔
http://baseeratonline.com/2014/03/29/%d8%b3%db%8c%d8%a7%d8%b3%db%8c-%db%81%d9%84%da%86%d9%84-%da%a9%db%92-%d8%af%d8%b1%d9%85%db%8c%d8%a7%d9%86-%d9%85%d8%ba%d8%b1%d8%a8%db%8c-%d8%a8%d9%86%da%af%d8%a7%d9%84-%d9%85%db%8c%da%ba-%da%af%db%8c/

Friday, 28 March 2014

چھت کی سیر..............انشائیہ از طیب فرقانی ؔ

مرزا محمد ہادی رسوا کے ناول امراؤ جان ادا کے بارے میں وقت کے لحیم شحیم نقّادوں نے کہا ہے کہ اس ناول میں طوائف کے کوٹھے کو مرکز بنا کر اس وقت کے لکھؤوکی سیر کرائی گئی ہے اور لکھنوی تہذیب کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔ میں گرمی کی ایک شام چھت پر بیٹھا تنقید کے بخار میں مبتلا تھا تبھی مجھے خیال آیا کہ ہند وستان کے بعض علاقوں میں چھت کو بھی کوٹھا کہا جا تا ہے ۔ پرانے زمانے میں جب کہ گاؤں دیہات میں صرف مٹی یا پھونس کے مکانات ہو اکرتے تھے، اگر کوئی پختہ مکان بنوا لیتا تھا تولوگ اسی کو کوٹھا کا نام دے دیتے تھے۔اور کوٹھی کی چھت کو کوٹھا کہنے لگتے تھے۔
تعجب ہے کہ امریکہ کے خلائی مشن سینٹر\"ناسا\"نے \"گاڈپار ٹیکل \" ڈھونڈ لینے کا جھانسا دیا اور مریخ پر زندگی کی تلاش کا دلاسا دیا مگر چھت اور اس کی قیمتی سر گرمیوں کو یکسر بھلا دیا ۔ چھت بڑی غیر معمولی جگہ ہے۔ چھت پر اگر آپ تنہا بیٹھ کر مومن کا یہ شعر گنگنائیں !
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا 
جب کوئی دوسر ا نہیں ہوتا
تو ساری کائنات آپ کو اپنی آغوش میں سمٹتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
چھتیں مختلف قسم کی ہوتی ہیں ۔ شہروں میں تو زیادہ تر پختہ چھتیں ہوتی ہیں لیکن ان چھتوں کے نیچے رہنے والے لوگ پختہ ہوتے ہیں یا نہیں اس امر کا سراغ پا لینا بڑا مشکل ہے۔ بشیر بدر نے اپنے من میں ڈوب کرایسے پختہ لوگوں کا سراغ پا لینے کی کوشش کی تھی اور اس نتیجے پر پہنچے تھے ۔
گھروں پہ نام تھے ،ناموں کے ساتھ عہدے تھے 
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا
میر تقی میر کا اجڑا دیار \"دلّی \"آج بہت ترقی کر گئی ہے ۔لیکن آج بھی یہاں آسمان کا بوسہ لیتی ہوئی چھتوں کے نیچے پلاسٹک کی چھتوں والی جھگّی جھونپڑیاں موجود ہیں ۔جو انسا نی مساوات اور ترقی کے ڈھونگ کومنہ چڑھاتی رہتی ہیں۔ اور چونکہ ان جھگیوں میں رہنے والے لو گ بے زبان ہوتے ہیں۔ اس لئے بلڈوزروں کی بے رحمی سیاسی آنکھیں بھی انہی جھگیوں کو تاکتی رہتی ہیں۔
جھگی جھونپڑیوں کے لئے ہندوستان کا ممبئی شہر بہت مشہور جہاں کل ممبئی کی تقریباََ ساٹھ فیصد آبادی ممبئی کی چھ فیصد زمین پر بنے مکانات کی چھت کے نیچے گزارا کرتی ہے۔ ایسے شہر کو جب لوگ عروس البلاد کہتے ہیں تو میرے ذہن میں ایسی دلہن کا تصور آتا ہے جس کاآنچل ہی میلا ہو ۔ایسی بستی کا شاعر جب اپنے معشوق کو چھت پر دیکھتا ہے تو اس کے قلم سے کچھ اس طرح کے اشعار نکلتے ہیں ۔
مایوسئی دل ،درد محبت ،ستم دوست
آلام زمانے میں مرے نام بہت ہیں
کچھ فرصت نظارہ ملے آنکھ کو تب نہ
جلوے تیرے مانا کہ لب بام بہت ہیں 
آپ سے امید کی جاتی ہے کہ \"لب بام\"کو آپ \" منی کا جھنڈو بام\"نہیں سمجھیں گے۔
آج دنیا بھر میں بڑھتے تشدد کے پس پشت بھی چھتوں کا بڑا کردار ہے۔ کچھ سالوں قبل تک چھتیں سیمنٹ کی نہ ہو کر چھپروں کی ہو ا کرتی تھیں۔ یہ چھتیں ٹھنڈی ہو اکرتی تھیں ۔تو لوگوں کے دماغ بھی ٹھنڈے رہتے تھے۔مزید یہ کہ ان چھتوں میں گوریّا اپنے گھو نسلے بنا کر انسان کو ہر وقت امن و شانتی کا پاٹھ پڑھایا کرتی تھیں۔ جب سے چھتیں سیمنٹ کی ہوئی ہیں ، گوریّا نے بوریا بستر باندھ لیا، گرمی میں اضافہ ہوا،اوپر سے بلڈ پریشر کی مار الگ، لوگوں کے دماغ اس قدر گرم رہنے لگے کہ ٹھنڈا ہونے کا نا م ہی نہیں لیتے ۔ اجی ! نمرود تو بڑا کمزور تھا کہ ایک معمولی مچھر سے مارا گیا ، آج کے نمرودں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سنامی کی ہوا بھی کم پڑ جاتی ہے۔
گرمی بڑھی تو اس نے سوچا کہ اب ہوا محل تعمیر کئے جائیں چنانچہ اس نے اپنی بلندی و برتری کی پیاس بجھانے کے لئے چھت پر چھت اس قدر تعمیر کی کہ \"ورلڈ ٹریڈ سینٹر\" اور \"برج الخلیفہ\" وجود میں آگیا۔ اب تو اس کے پاؤں زمین پر پڑتے ہی نہیں ہیں ۔ وہ ہوا میں معلق ہو کر ہوا ہوائی ہو گیا ہے۔
در اصل جب سے انسان میں ہو ا سے باتیں کرنے ، ہوائی چھوڑنے ، اور ہوّا کھڑا کرنے کی ہو ا سمائی ہے،اسے ہوا سے لڑنے اور ہوا پر گرہ لگانے کی ہوا و ہوس ہوگئی ہے۔ اور اس نے ہوا خور ی چھوڑ کر ہوا دینے کی عادت ڈال لی ہے۔
ہماری زندگی میں چھتوں کی بڑی اہمیت ہے ۔جانور بلوں ، بھٹوں اور غاروں میں رہتے ہیں ۔اور انسان کو روٹی اور کپڑا کے ساتھ چھت کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔حد تو یہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد بھی قبروں ، مقبروں اور مزاروں کی چھت کے نیچے رہتا ہے۔لیکن یہ بات ان لوگوں کے سمجھ میں بھی آنی چاہئے جو یو پی کے پرتاپ گڑھ میں مکانات کو چتاؤں کی طرح پھونک دیتے ہیں اور احمد آباد میں اس ولی دکنی کے مزار کوڈھا دیتے ہیں جن کو کاشی عین کوچۂ یار لگتا تھا ۔ اور جن کے محبوب کے رخ کا تل ہری دوار میں بسنے والا ہندو نظر آتا تھا ۔
کوچۂ یارعین کاسی ہے جوگئی دل وہا ں کا باسی ہے
اے صنم ! تجھ جبیں اُپر یہ خال ہندوے ہر دوار باسی ہے
لیکن یہ تو سب جانتے ہیں کہ جس کے پاس کوئی چھت نہ ہوآسمان اس کی چھت ہے ۔ ہندوستان کے پڑوس میں واقع تبّت کو \"Roof of the World\"دنیا کی چھت کہا جاتا ہے ۔ لیکن یہاں کے رہنما بے چارے دلائی لاما، میانمار میں بے چھت کئے جارہے مسلمانوں کو اپنے ہم مذہبوں سے نہیں بچا سکے کیوں کہ خود انہیں \"دو گز زمیں نہ ملی کوئے یار میں \"
ہم اپنے بہت سارے کا م چھتوں کے اُوپر انجام دیتے ہیں ۔ جیسے سردیوں میں دھوپ لینا ،اناج اور کپڑے سکھا نا ،دیوالی اور شب برات کے موقع سے دیئے اور موم بتیاں جلا کر چراغاں کرنا ۔ لیکن چھتوں کا تعلق ایسے کاموں سے بہت ہے جن کے نام میں لاحقے کے طور پر\" بازی \"آتا ہے ۔ جیسے پتنگ بازی کرنا اور بسا اوقات پتنگ بازی کرتے کرتے قلا بازی کھا جانا اور دن بھر پتنگ بازی کرتے رہنے کی وجہ سے ابّا جی کی طرف سے تھپڑ بازی ہو جانا۔
لیکن ان سب بازیوں میں عشق بازی کا اپنا الگ مقام ہے۔ عشق بازی کے لئے چھت ہمیشہ سے مناسب مقام رہا ہے۔ ۔چچا غالب اپنے معشوق کو چھت پر دیکھ کر پھولے نہیں سماتے تھے اور انہیں بار بار دیکھنے کی ہوس ہوتی تھی ۔
مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس 
زلف سیاہ رُخ پہ پریشاں کئے ہوئے
حسرت موہانی کا معشوق تو خود ہی چھت پر آجاتا تھا وہ بھی دو پہر کی دھوپ میں ننگے پاؤں۔
دو پہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے 
وہ تیر ا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
لیکن آج کا عاشق دو پہر کو نہیں آتا بلکہ رات کو موبائل لے کر چھت پر ہی صبح کر دیتا ہے۔چوروں کے ایک گروہ نے صرف اسی لئے چوری سے توبہ کر لی کہ رات کو چوری کے سارے مواقع پر ان موبائل والے عاشقوں نے پہرے بیٹھا دئے ہیں ۔ جو رات کو چوری چھپے اپنے معشوق سے عشق بازی فرماتے ہیں اور صبح دیر تک خواب بازی فرماتے ہیں ۔ اماں جگا جگا کر جب جھنجھلا جاتی ہیں تو یہ کہہ کر ابا جی کا فائدہ کر وا دیتی ہیں \"رات بھر پتا نہیں کس اماّں کے ساتھ لگا رہتا ہے اور دن میں پڑا سوتا رہتا ہے\"۔
چھت پر خوب صورت چاند دیکھنے کا خوبصورت رواج بھی ہے ۔ یہ سن کر آپ کے من میں لڈّو پھوٹے گا کہ ایک چاند تو مشبہ ہے اور ایک چاند مشبہ بہ ہے اور دونو ں کو دیکھنے سے دل کو سکون ملتا ہے۔ایک عاشق نے تو ڈر کے مارے اپنے ماہ جبیں سے کہہ دیا تھا ؂ 
ماہ نو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہر گز
شہر میں عید کی تاریخ بدل جائیگی

لیکن چھت پر چاند دیکھتے وقت اس بات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ کہیں چاند کے ابّا نہ ٹپک پڑیں، ورنہ چاند کے بجائے تارے نظر آجائیں گے۔ ہمارے ایک بزرگ شاعراظہر شاہ خاں نے ایسے ہی ایک تجربے کا ذکر فرمایا ہے کہ ؂
چاند رات آئے تو سب دیکھیں ہلال عید کو
ایک ہمارا ہی نصیبہ ہڈیاں تڑوا گیا
چھت پہ ہم تھے چاند کے نظارے میں کھوئے ہوئے
بس اچانک چاند کا ابّا وہاں پر آ گیا
ریسرچ اسکالر: شعبۂ اردو، 
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۲۵

مغربی بنگال میں اب پرائمری ٹیٹ بھی خطرے میں

(طیب فرقانی بیورو چیف بصیرت آن لائن حلقہ شمالی دیناج پور )
مغربی بنگال کے بورڈ آف پرائمری ایجوکیشن نے نوٹس جاری کرکے اعلان کیا ہے کہ الیکشن کی وجہ سے پرائمری ٹیٹ غیر معینہ مدت کے لئے موخر کردیا گیا ہے ۔واضح ہو کہ بورڈ نے ۱۸؍فروری ۲۰۱۴ کو پرائمری ٹیچر کے لئے اہلیتی امتحانات کا اعلان کیا تھا ۔جس کے مطابق ۳۰؍مارچ ۲۰۱۴ کو امتحانات منعقد ہونا تھے جس میں وہ سارے امیدوار بھی شرکت کرنے والے تھے جو پچھلے امتحانات میں ناکام رہے تھے اور نئے امیدواروں کے لئے الگ سے رول نمبر اور امتحانات کے مقامات کا اعلان کرنا باقی تھا ۔عجیب بات یہ ہے کہ اس طرح کے تمام امتحانات میں حکومت کی لاپرواہیوں اور حکومت مخالف لابیوں کی وجہ سے مقدمات کا ایک طول سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔نتیجے میں عام آدمی بس امیدوں کے سہارے جیتا رہتا ہے ۔اس بار کا پرائمری ٹیٹ بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا ۔آخر کار اسی ہفتے کولکاتا ہائی کورٹ نے یہ حکم دیا کہ پرائمری ٹیٹ اپنے وقت پر ہی کرائے جائیں اور تربیت یافتہ امیدواروں کو ہی ترجیح دی جائے ۔اس حکم کے بعد ان تمام لوگوں نے راحت کی سانس لی تھی جو ٹیٹ کی تیاری کر رہے تھے اور اس شش و پنج میں تھے کہ امتحانات منعقد ہون گے یا نہیں ۔لیکن اچانک ہی حکومت نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور پھر سے ٹیٹ امتحانات کو موخر کردیا گیا جس کی وجہ سے امیدواروں میں اضطراب پایا جاتا ہے ۔امیدواروں کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کی ناکامی ہے جو عوام کو دھوکہ دے کر ووٹ بٹورنے کی سیاست کر رہی ہے ۔اگر الیکشن کی وجہ سے ہی امتحانات موخر کرنا مان لیاجائے تو کیا حکومت کو الیکشن کی خبر پہلے سے نہ تھی ۔ایسے ہی ایک امیدوار اکبر نے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اعلانات کر کے حکومتیں عوام کو اس دھوکے میں رکھتی ہیں کہ وہ ان کی خیر خواہ ہے اور پھر کوئی بہانہ بنا کر امتحانات موخر کردئے جاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جو کام پچھلی حکومت کر رہی تھی وہی موجودہ حکومت دہرانے میں لگی ہے اور مغربی بنگال کو ہر سطح پر پیچھے لے جایا جارہا ہے ۔واضح ہو کہ بورڈ کی ویب سائٹ بھی غیر فعال رہتی ہے ۔اور وقت پر امیدواروں کو اطلاعات نہیں مل پاتی ہے ۔
ذیل میں لنک ملاحظہ کریں

http://baseeratonline.com/2014/03/28/%d9%85%d8%ba%d8%b1%d8%a8%db%8c-%d8%a8%d9%86%da%af%d8%a7%d9%84-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%a7%d8%a8-%d9%be%d8%b1%d8%a7%d8%a6%d9%85%d8%b1%db%8c-%d9%b9%db%8c%d9%b9-%d8%a8%da%be%db%8c-%d8%ae%d8%b7%d8%b1%db%92/

Monday, 24 March 2014

تعلیم بھی سیاسی آلودگی کا شکار

(طیب فرقانی ،بیورو چیف بصیرت آن لائن حلقہ شمالی دیناج پور )
انتخابی موسم نے جہاں دوسرے شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا ہے وہیں تعلیم پر بہت برا اثر ڈالتے رہے ہیں ۔مغربی بنگال میں ٹیچر اہلیتی امتحانات کو اسی زاویے سے دیکھا جا رہا ہے ۔واضح ہو کہ مغربی بنگال میں موجودہ حکومت نے پرائمری ، اور ثانوی اسکولوں میں اساتذہ کی بحالی کے لئے بالتر تیب ۸؍فروری ۲۰۱۴ اور ۲۹؍جنوری ۲۰۱۴ کو نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا ۔جس کے مطابق پرائمری سطح کے لئے ۳۰؍مارچ ۲۰۱۴ اور ثانوی سطح کے لئے ۹؍مارچ ۲۰۱۴ کو اہلیتی امتحانات ہونے تھے ۔ان خبروں کے آنے کے بعدمعلمیکے امیدوار امتحانات کی تیاری میں جٹ گئے ۔ہزاروں لڑکوں اور لڑکیوں نے اپنے گھر سے دور کرایے کا مکان لے کر تیاری شروع کر دی ۔لیکن بد قسمتی سے ثانوی سطح کے اہلیتی امتحانات سے ٹھیک چار روز قبل تاریخ میں یہ کہہ کے ترمیم کر دی گئی کہ حالات ناساز گار تھے ۔اور اب اگلی تاریخ ۲۹؍ مارچ ۲۰۱۴ کی ہوگی ۔یہاں تک تو سب ٹھیک ٹھاک تھا ۔لیکن اسے حکومت کی لاپرواہ کہیں یا سوچی سمجھی حرکت کہ اب اس تاریخ میں بھی لوگ اہلیتی امتحانات نہیں دے سکیں گے ۔اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ دے بھی پائیں گے یا نہیں ۔چوں کہ قومی کونسل برائے تربیت اساتذہ (این سی ٹی ) کی ہدایات کے مطابق ۳۱؍ مارچ ۲۰۱۴ کے بعد غیر تربیت یافتہ اساتذہ کی تقرری نہیں ہوسکے گی ۔اور چوں کہ اس بار منعقد ہورہے امتحانات میں غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے لئے بھی اسامیاں نکالی گئی ہیں ۔اب سوال یہ تھا کہ کیا ۲۹؍ مارچ کو منعقد ہورہے اہلیتی امتحانات این سی ٹی کی ہدایات کو مد نظر رکھ کر لیے جا رہے ہیں یا نہیں اسی کو لیکر کولکاتا ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر کے اسے غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔جس پر ۱۹ مارچ کو حکم امتناعی جاری کر دیا گیا ۔اور حکومت سے کہا گیا کہ وہ ۲۵ ؍اپریل تک جائزہ لے کر اپنا جواب داخل کرے ۔اس خبر نے امیدواروں میں اضطراب پیدا کر دیا ۔کیوں کہ اپریل میں ہی عام انتخابات ہونا ہیں ۔ایسے میں امیدواروں میں کافی مایوسی پائی جارہی ہے اور وہ اپنی تیاری چھوڑ کر دوسرے کاموں میں لگ گئے ہیں ۔جب کہ اپوزیشن نے اسے حکومت کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ قرار دیا ہے ۔فارورڈ بلاک کے ایم ایل اے علی عمران نے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ حکومت سیاسی چال چل رہی اور ریوینو حاصل کرنے کی غرض سے اس نے اسامیاں نکالی تھیں اور اب خود حکومت کے کارندے نے اس پر اسٹے آرڈر لے لیا تاکہ عوام کو یہ باور کرایا جا سکے کہ وہ ان کی خیر خوا ہ ہے لیکن قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے امتحانات میں تاخیر ہورہی ہے ۔اس سلسلے میں الزامات درست ہوں یا نہ ہوں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کرنے سے قبل ان قانونی پیچیدگیوں کا جائزہ نہیں لیا تھا ۔اگر لیا تھا توآخری وقت سے قبل ہی کیوں نہیں امتحانات منعقد کئے گئے اور اگر نہیں لیا تھا تو کیا حکومت کو اتنی فرصت نہیں ہے کہ وہ عوام کے حق میں فیصلہ کرتے وقت قانونی پیچیدگیوں کا جائزہ لے سکے ۔واضح ہو کہ مغربی بنگال میں ائمہ اور موذنین کی امدادی تنخواہ کے سلسلے میں ممتا حکومت کا یہی لاپرواہی والا رویہ رہا ہے ۔ایسے میں عوام کی خیر خواہ کہی جانے والی حکومتیں تعلیم کو بھی سیاست کے میدان میں لاکر اپنا الو سیدھا کرنے میں لگی ہوئی ہیں ۔جو ایک افسوسناک رویہ ہے ۔
لنک ملاحظہ کریں

ترنمول کانگریس فرقہ پرستوں کا دامن تھام لے گی۔محمد سلیم

(طیب فرقانی،بیورو چیف بصیرت آن لائن حلقہ شمالی دیناج پور)
کانگریس سرمایہ داروں کی پارٹی ہے اور بی جے پی فرقہ پرست جب کہ ترنمول کانگریس کا ایجنڈہ فرقہ پرستوں کو مضبوط کرنا ہے ۔ان خیالات کا اظہار آج سی پی آئی ایم کے لیڈر محمد سلیم نے کیا ۔وہ اتر دیناج پو ر کے لوک سبھا حلقہ انتخاب رائے گنج کے گوال پوکھر بلاک میں سی پی آئی ایم کے کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے ۔انہوں نے کانگریس کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقے میں کانگریس کی امیدوار دیپا داس منشی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ کانگریس کی حالت پورے ملک میں خستہ ہے اور اس بار اسے کوئی بھی طاقت بار آور ہونے میں معاون نہیں ہوسکتی ۔کانگریس نے ٹو جی اسپیکٹرم ،کامن ویلتھ گیم اور کوئلہ بلاک جیسے تباہ کن گھپلوں گھوٹالوں کی ایک تاریخ رقم کی ہے ۔جس سے نہ صرف ملک کی معاشی حالت خراب ہوئی ہے بلکہ غریب اور زیادہ غریب ہوتے چلے گئے ہیں ۔اس لئے اس بار سی پی آئی ایم نہ صرف کانگریس کو کراری شکست دے گی بلکہ ملک کے غریب عوام کے حقوق کو ایوان بالا تک پہنچائے گی ۔انہوں نے مودی اور بی جے پی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ بی جے پی ایک فرقہ پرست اور سرمایہ دار پارٹی ہے ۔جس کے پی ایم امیدوار کے لئے ٹی وی پراسی طرح اشتہارات دئے جارہے ہیں جس طرح صابن اور شیمپو کے اشیا کا اشتہار دیا جاتا ہے ۔محمد سلیم نے کارکنوں میں جوش بھرتے ہوئے کہا کہ آپ سب خود کو سلیم سمجھ کر انتخابی مہم میں پوری طرح جٹ جائیں ۔واضح ہو کہ رائے گنج کا حلقہء انتخاب مغربی بنگال میں کانگریس کی قابل اعتماد اور مضبوط سیٹ رہی ہے۔یہاں سے پریہ داس رنجن منشی لگاتار دوبار ایم پی رہے ہیں اور ان کی شدید علالت کی وجہ سے تیسری بار ان کی اہلیہ دیپا داس منشی موجودہ ایم پی ہیں ۔لیکن علاقے سے ان کی بے تعلقی کی وجہ سے یہ علاقہ پس ماندہ ترین علاقوں میں شمار ہونے لگا ہے ۔جس کی وجہ سے عوام میں کافی ناراضگی پائی جاتی ہے ۔اسی کے مد نظر سی پی آئی ایم نے اس بار بنگال کے اپنے قد آور لیڈر محمد سلیم کو میدان میں اتارا ہے ۔اس علاقے میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ہونے کی وجہ سے مانا جاتا ہے کہ محمد سلیم کو مسلم چہرہ ہونے کا فائدہ مل سکتا ہے ۔جیت ہار کا فیصلہ تو یہاں کے ووٹر ہی کریں گے لیکن جس طرح سے ہر پارٹی کے امیدوار ووٹروں سے نئے نئے وعدے کر کے ان کو استعمال کر تے رہیں ہیں اس نے ووٹروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا ہے ۔انتخابی مہم کے آخری دنوں میں پیسے بانٹنے کا شیطانی کھیل بھی کھیلا جاتا ہے جس سے چند پیسوں کے لالچ میں غریب عوام دھوکہ کھا جاتے ہیں اور علاقے کی پس ماندگی جوں کی توں بنی رہتی ہے ۔محمد سلیم نے بھی اس ’’انتخابی رشوتانہ کھیل ‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ چند پیسوں کے لالچ میں نہ آئیں اور ایسے لوگوں کو اس الیکشن میں ہراکر کرپشن کو مٹانے میں سی پی آئی ایم کا ساتھ دیں ۔انہوں نے فرقہ پرستی کا خاص طور سے ذکر کیا اور کہا کہ سی پی آئی ایم نے اپنے دور اقتدار میں ایسے لوگوں کو پنپنے نہیں دیا ،اس کے بر خلاف موجودہ حکومت نے کولکاتا کے بریگیڈ میدان میں مودی کی ریلی ہونے دی ۔در اصل موجودہ حکمران پارٹی کی سربراہ ممتا بنرجی پی جے پی اور آر ایس ایس کا دوسرا چہرہ ہیں ۔جو الیکشن کے بعد بی جے پی کا دامن تھامنے میں دیر نہیں کریں گی ۔انہوں نے نریندر مودی کے اس بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے بنگالی عوام سے اپیل کی تھی کہ انھیں دہلی میں اور ممتا جی کو بنگال میں مضبوط بنائیں ۔چوں کی رائے گنج حلقہ انتخاب سے اس بار سماجوادی پارٹی بھی میدان میں ہے اس لئے محمد سلیم نے مظفر نگر فساد کا حوالہ دیتے ہوئے ملائم سنگھ اور ان کی پارٹی کو بھی فرقہ فرست کہا ۔اس بار کا لوک سبھا الیکشن اس حلقے میں اس لئے بھی دل چسپ مانا جارہا ہے کہ کانگریس کی امیدوار دیپا داس منشی کے دیور ستیہ داس رنجن منشی ا ن کے خلاف ترنمول کانگریس سے امیدوار ہیں جس پر چٹکی لیتے ہوئے محمد سلیم نے کہا کہ عوام دیور بھابھی کے اس کھیل کو اس بار پوری طرح ناکام بنا دے گی ۔محمد سلیم نے اردو طبقے کا خیال کرتے ہوئے اردو اور بنگلہ دونوں زبان میں تقریر کی ۔واضح ہو کہ مغربی بنگال میں اردوداں طبقہ سی پی آئی ایم کی اردو سے بے اعتنائی سے نالاں رہاہے یہی وجہ ہے کہ محمد سلیم کا انتخابی اشتہار جگہ جگہ اردو میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے ۔انہوں نے اپنی پارٹی کی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے عوام سے ایک موقع مانگا ۔اب عوام ان کو یہ موقع دے گی یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہاں موجود کارکنوں میں جوش بھر نے کے لئے محمد سلیم کافی محنت کرتے ہوئے دکھائی دئے ۔اس موقع پر سی پی آئی ایم سے منسلک فارورڈ بلاک کے ایم ایل اے محمدعمران اور بلاک اور ضلع سطح کے کارکنان کے ساتھ کامریڈ ماسٹر شبیر احسن بھی موجود رہے ۔
لنک ملاحظہ کریں

اتر دیناج پور میں تعلیم پر اثر انداز ہوتیں سیاسی سرگرمیاں

ابھی حال ہی میں بصیرت آن لائن اردو پورٹل نیوز پیپر کے لئے رضا کارانہ طور پر بطور بیورو چیف حلقہ شمالی دیناج پور سے خبریں دینے  کا عمل شروع کیا ہو اسی تعلق سے اس کالم ان خبروں کا سلسلہ اپنے بلاگ کے قارئین کے لئے شروع کر رہا ہوں تاکہ طیب فرقانی کی باتیں آسانی سے ان تک پہنچ جائیں ۔۔۔۔۔پہلی خبر مندرجہ ذیل سرخی کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں 

                                                                اتر دیناج پور میں تعلیم پر اثر انداز ہوتیں سیاسی سرگرمیاں 

مغربی بنگال کے ضلع اتر دیناج پور کے رائے گنج حلقے میں ملک کی دیگر ریاستوں اور علاقوں کی طرح انتخابات کے پیش نظر سیاسی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں ۔یہاں سے ملک کی چھوٹی بڑی متعدد پارٹیوں نے اپنے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے ۔خاص بات یہ ہے کہ علاقے میں مسلم ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ۔جس کی وجہ سے آسام میں اپنی حیثیت منوا لینے والی مسلم مسائل پر ارتکاز کرنے والی نسبتا جدید پارٹی یوڈی ایف ،جو مولانا بد ر الدین اجمل کی پارٹی کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، نے بھی اس بار لوک سبھا کے الیکشن میں اس علاقے سے اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے ۔یو ڈی ایف کے امیدوار سید ضمیر الحسن نے اس علاقے میں اپنی میٹینگیں کرنی شروع کردی ہیں ۔دوسری طرف کانگریس کی مضبوط سمجھی جانی والی امید وار دیپا داس منشی اور سی پی آئی ایم سے محمد سلیم اپنی اپنی دعوے داری کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں جٹے ہوئے ہیں ۔جیت کا تمغہ کسے ملے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ اس علاقے میں انتخابی موسم تعلیم کے لئے موسم خزاں بن کر آتا ہے ۔سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا مسئلہ ویسے ہی کمزور رہتا ہے لیکن انتخابی موسم میں اس پر خزاں کا موسم اور گہرا ہوجاتا ہے۔جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں اساتذہ پوری آب و تاب سے نہ صرف سیاست میں دل چسپی لیتے ہیں بلکہ اس میں عملی حصہ لے کر کسی امیدوار کو جیت دلانے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں ۔اساتذہ کا سیاست سے لگاؤ بچوں کی تعلیم پر برا اثر ڈالتا ہے ۔کیوں کہ اساتذہ اپنی سیاسی سرگرمیاں انجام دینے کے سلسلے میں میٹینگوں اور جلسوں میں شریک ہوتے ہیں اور اسکولوں سے غائب رہتے ہیں ۔سیاسی شخصیت ہونے کی وجہ سے اپنے اثر رسوخ کا استعمال کر کے وہ اسکول انتظامیہ اور صدر مدرس کو قابو میں رکھتے ہیں ۔ان کا اپنا تو بھلا ہوجاتا ہے لیکن قوم کے نو نہالوں کا جو ہوتا ہے وہ تو علاقے کی تعلیمی صورت حال ہی بتا تی ہے ۔کہتے ہیں کہ یہاں دو ہی پیشے کامیاب ہیں ،معلمی اور سیاست ۔جس میں نہ کوئی رسک ہے اور نہ کھونے کا کوئی غم ۔کل وقتی گارنٹی ۔یہی وجہ ہے کہ آج کل اسکولوں میں اساتذہ کی غیر حاضری کی شرح بڑھی ہوئی ہے ۔ایسے میں مسلمان یہ امید کرتے ہیں کہ کسی طرح کوئی چمتکار ہوجائے اور ان کی پس ماندگی دور ہو ۔لیکن وہ چمتکار کرے گا کون یہ دیکھنے والی بات ہوگی ۔
ذیل میں لنک بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے

Monday, 3 March 2014

سیکڑوں مسلم طلبا و اساتذہ جمعہ کی نماز سے محروم

مکرمی!
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ۔یہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی کا پورا حق حاصل ہے ۔اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جہاں کہیں فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ یا خلل پڑے اسے دور کیا جائے ۔اب آئیے اس تحریر کے مقصد کی طرف۔مغربی بنگال میں آج کل سکنڈری بورڈ کے تحت دسویں (مدھیامک ) کے امتحانات جاری ہیں ۔اس کا آغاز ۲۴؍فروری سے ہوا۔۲۷؍فروری کو ہندو مذہبی تہوار ’’شبھ راتری‘‘ کی وجہ سے امتحانات معطل رہے یا یوں کہیں کہ چھٹی رہی ۔جب کہ ۲۸ ؍فروری کو جمعے کے دن امتحانات جاری رہے ۔چوں کہ امتحانات کا وقت دن کے ۱۲؍بجے سے شروع ہوکر تین بجے تک جاری رہتا ہے ۔اسی دوران جمعے کی نماز کا وقت بھی ہوتا ہے ۔ایسے میں وہ مسلم طلبا جو اس بار دسویں (مدھیامک) کے امتحانات میں شامل ہوئے ہیں وہ نماز جمعہ ادا کرنے سے قاصر رہے کیوں کہ جمعے کی نماز کے وقت وہ امتحانات میں مصروف رہے ۔یہ ان کا مذہبی حق تھا جو امتحانات کی نذر ہوگیا ۔اس سے نہ صرف طلبا متاثر ہوئے بلکہ سینکڑوں وہ مسلم اساتذہ بھی متاثر ہوئے جو ممتحن کی حیثیت سے مقرر ہوئے ہیں ۔ایسی صورت میں اس کی ذمہ داری کون لے گا؟کیا اس کا ذمہ دار بورڈ کو ٹھہرایا جانا چاہئے ،حکومت کو یا پھر ان مسلم ارباب اقتدار کو جو وزیر اعلی کی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملاتے پھرتے ہیں اور انھیں مسلم عوام کی کوئی فکر نہیں ہے ۔تعجب ہے کہ موجودہ حکومت کے مسلم حامیوں میں مولانا برکتی جیسے اونچی پہنچ والے علما بھی شامل ہیں اور کسی کی بھی توجہ اس بات کی طرف نہیں گئی کہ وہ حکومت یا بورڈ کو توجہ دلاتے کہ جمعے کے دن کا یا تو شیڈیول ہی نہ رکھیں یا پھر اوقات میں ترمیم کریں ۔مثلا جمعے کے دن اگر امتحانات ہوں تو یا ۹بجے سے شروع ہوں اور بارہ بجے تک ختم ہوجائیں یا دو بجے سے شروع ہوں اور پانچ بجے ختم ہوجائیں ۔اس طرح مسلم طلبا اور اساتذہ جمعے کی نماز ،جو ان کا مذہبی فریضہ ہے، ادا کرسکیں ۔در اصل جمعے کی نماز جماعت سے ہی ادا کی جاسکتی ہے ۔جب کہ دیگر نمازوں کے کے لئے گنجائش موجود ہے ۔اس لئے خاص طور موجودہ حکومت میں شامل مسلم رہنماؤں کو اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ آئندہ کے شیڈیول میں وہ بورڈ یا حکومت کو اس کی طرف متوجہ کریں ۔ابھی مارچ میں ہائر سکنڈری کے امتحانات بھی ہونے والے ہیں ۔اس لئے بر وقت توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ورنہ مغربی بنگال میں مسلمانوں کو اس کا شدید نقصان اٹھا نا پڑے گا ۔
طیب فرقانی 
کانکی ،گوالپوکھر ،اتر دیناج پور ، مغربی بنگال

روزنامہ آبشار کولکاتا اور بصیرت آن لائن پہ شائع شدہ۔۔۔۔ذیل میں لنک دی جا رہی ہے