Thursday, 19 September 2013

ہتھیاروں کی دوڑ کس کے حق میں مفید ہے

پچھلے برس ۲۰۱۲ میں سحر اردو ٹی وی نے یوتھ ڈبیٹ کا انعقاد کیا تھا غالبا یہ ہر سال منعقد ہوتا ہے ۔مگر ایک بار میں بھی شریک ہوا تھا ۔اس موقع پر مجھے دو ڈبیٹ میں حصہ لینا تھا ۔ٹی وی والوں نے حوصلہ افزائ کے لئے انعامات بھی رکھے تھے ۔اتفاق سے دونوں مقابلوں میں مجھے اول انعام سے نوازا گیاتھا ۔بعد میں اس کی ویڈیوز یو ٹیوب پر اپلوڈ کر دی گئیں۔ میں نے وہاں سے ڈاون لوڈ کر کے اس کو ایڈٹ کیا تھا تاکی (تھمبنائل) ویڈیو کی ابتدائی صورت میں میں نظر آوں۔اور پھر سے اسے اپلوڈ کر دیا ۔اب جب کہ آج کل بلاگنگ کرر ہا ہوں تو سوچا اس کو بھی بلاگ پر ڈال دوں ۔ایک نظر ڈال کر دیکھیں کیسا تھا پروگرام؟ٹوپک وہی تھا جو اس کا عنوان ہے۔


پچھلے برس ۲۰۱۲ میں سحر اردو ٹی وی نے یوتھ ڈبیٹ کا انعقاد کیا تھا غالبا یہ ہر سال منعقد ہوتا ہے ۔مگر ایک بار میں بھی شریک ہوا تھا ۔اس موقع پر مجھے دو ڈبیٹ میں حصہ لینا تھا ۔ٹی وی والوں نے حوصلہ افزائ کے لئے انعامات بھی رکھے تھے ۔اتفاق سے دونوں مقابلوں میں مجھے اول انعام سے نوازا گیاتھا ۔بعد میں اس کی ویڈیوز یو ٹیوب پر اپلوڈ کر دی گئیں۔اب جب کہ آج کل بلاگنگ کرر ہا ہوں تو سوچا اس کو بھی بلاگ پر ڈال دوں ۔ یہ ایک دوسرا ویڈیو ہے جسے میں نے مکمل (بغیر ایڈٹ کیے ہوئے)یو ٹیوب سے ڈائرکٹ اپلوڈ کیا ہے۔ایک نظر ڈال کر دیکھیں کیسا تھا پروگرام؟ٹوپک وہی تھا جو اس کا عنوان ہے۔





بزم سخن|مغرب میں اسلامی اقدار کی توہین|Bazm Sukhan|Youth Debate|Insultin...

پچھلے برس ۲۰۱۲ میں سحر اردو ٹی وی نے یوتھ ڈبیٹ کا انعقاد کیا تھا غالبا یہ ہر سال منعقد ہوتا ہے ۔مگر ایک بار میں بھی شریک ہوا تھا ۔اس موقع پر مجھے دو ڈبیٹ میں حصہ لینا تھا ۔ٹی وی والوں نے حوصلہ افزائ کے لئے انعامات بھی رکھے تھے ۔اتفاق سے دونوں مقابلوں میں مجھے اول انعام سے نوازا گیاتھا ۔بعد میں اس کی ویڈیوز یو ٹیوب پر اپلوڈ کر دی گئیں۔اب جب کہ آج کل بلاگنگ کرر ہا ہوں تو سوچا اس کو بھی بلاگ پر ڈال دوں ۔ یہ ایک دوسرا ویڈیو ہے جسے میں نے مکمل (بغیر ایڈٹ کیے ہوئے)یو ٹیوب سے ڈائرکٹ اپلوڈ کیا ہے۔ایک نظر ڈال کر دیکھیں کیسا تھا پروگرام؟ٹوپک وہی تھا جو اس کا عنوان ہے۔





گلزار کی چند مزید تریوینی کا ترجمہ

گلزار کی تریوینی میں غضب کا جادو ہے اور اتنا ہی خلوص بھی ۔ وہ اکثر سادہ لفظوں میں چنگاری بھر دیتے ہیں موضوعات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے وہ کسی سرحد کے قائل نہیں ۔انکے نزدیک سب سے بڑا دھرم انسانیت ہے ۔ملاحظہ کریں چند مزید تریوینی اور لطف اندوز ہوں ۔
تریوینی: 

پیڑوں کے کاٹنے سے ناراض ہوئے ہیں پنچھی
دانہ چگنے بھی نہیں آتے مکانوں پہ پرندے

کوئی بلبل بھی نہیں بیٹھتی اب شعر پہ آکر

ترجمہ:

Deforestation has upset the birds
.They don't come to peck on houses

Not even a nightingale comes and sits on a couplet

تریوینی:

ہوائیں زخمی ہوجاتی ہیں کانٹے دار تاروں سے
جبیں گھستا ہے دریا جب تیری سرحد گزرتا ہے

میرا ایک یارہے "دریائے راوی" پار رہتا ہے

ترجمہ:
.Air is wounded by barbed wires
.River rubs its forehead while crossing your boarder

"I have a friend who lives beyond the river "Ravi

تریوینی:
میں سب سامان لے کر آگیا اس پار دریا کے
میری گردن کسی نے قتل کر کے اس طرف رکھ لی

اسے مجھ سے بچھڑ جانا گوارا نہ ہو شاید

ترجمہ:

.I came up with all goods across the boarder
.Some one cut my neck and kept it that side

.He might not endure to be separated

تریوینی:
آو زبانیں بانٹ لیں اپنی اپنی ہم
نہ تم سنوگے بات ،نہ ہم کو سمجھنا ہے

دو ان پڑھوں کو کتنی محبت ہے ادب سے 
ترجمہ:
.Let's divide our languages
.Neither will you listen nor will I understand

!What love for literature the two illiterate have

تریوینی:
زندگی کیا ہے جاننے کے لئے
زندہ رہنا بہت ضروری ہے 

آج تک کوئ رہا تو نہیں
ترجمہ :
.To know what life is
.It's necessary to be alive

.But no one has lived till now

تریوینی :
ہے نہیں جو دکھائی دیتا ہے 
آئینہ پر چھپا ہوا چہرہ 

ترجمہ آئینہ کا ٹھیک نہیں 
ترجمہ:
.The face is not really that
seeing reflected on the mirror

.The mirror has lost its polish

Sunday, 15 September 2013

ہندوستانی عدلیہ


مکرمی!

ایک بار پھر تین مسلم نوجوانوں کو دہلی کے تیس ہزاری کورٹ نے دہشت گردی کے الزام سے بری کر دیاہے۔اس واقعے نے بے قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرنے کے معاملے پر ایک اور سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے عدلیہ ہی آخری پناہ گاہ ہے۔مسلمانوں کا ہندوستانی عدلیہ پر اعتماد اور بھی مضبوط ہوا ہے۔دوسری طرف ہندوستانی پولیس کے رویے پر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ وہ کس قدر متعصب ہو گئی ہے۔ پولیس کے اس طرز عمل سے جہاں عوام کا بھروسہ متزلزل ہوا ہے وہیں یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ پولیس میں ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی کو مزید فعال اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ورنہ ہندوستانی سماج میں انتشار مزید بڑھ جائے گا۔ہمارے ملک کی کامل ترقی اس بات میں مضمر ہے کہ یہاں کا ہر باشندہ انتظامیہ اور عدلیہ کی طرف سے مطمئن ہواورکسی خاص طبقے یا فرقے کو جان بوجھ کر ہدف نہ بنایا جائے۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۲۵
(روزنامہ راشٹریہ سہارا میں شائع شدہ)

Saturday, 14 September 2013

عبدالمبین عرف عبدل


آہ مولانا عبدل! بے چارے تسکین شوق کی خاطر مارے گئے!
شوق بہر حال شوق ہے جس کی تکمیل میں ہر شخص ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے چاہے سر پر چوٹی ہو یا چٹیا۔ پھر مولانا عبدل کیسے پیچھے رہ جاتے۔ لیکن انھیں کیا پتا تھا کہ وہ اس طرح پھنسیں گے کہ نکل ہی نہیں پائیں گے۔
نام تو ان کا عبد المبین تھا لیکن کثرت استعمال کی وجہ سے گھستے گھستے عبدل رہ گیا تھا۔ خنجر تخلص فرماتے تھے۔ اگرچہ کبھی انھیں ایک شعر کہنے کا بھی اتفاق نہیں ہوا تھا مگر شعر و شاعری سے بڑا ’’عجیب قسم‘‘ کا لگاؤ تھا۔ بڑے بڑے شاعروں کے شعر یاد تھے۔ لیکن ایمانداری کی بات یہ تھی کہ کبھی سرقۂ شعر نہیں کرتے تھے۔ جس شاعر کا شعر ہوتا بڑے خلوص سے اس کا نام بھی بتا دیتے۔ ایسے ہی ایک دفعہ کسی مجلس میں شعر و شاعری کی ٹھن گئی۔ اس گلستان شاعری کے سبھی بلبلوں نے اپنے اپنے رنگ میں شاعری کی کاشت شروع کر دی۔ ایک نے گلکاری کی۔
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے وہ پھر لہو کیا ہے
جو ساس ہی کو نہ پیٹے وہ پھر بہو کیا ہے
دوسرے نے پیوند کاری کی۔
بروز حشر میں سیدھا چلا جاؤں گا جنت میں
وہیں سے آدم آئے تھے وہ میرے باپ کا گھر ہے
تیسرے نے کچھ یوں پھلجھڑیاں چھوڑیں۔
اف یہ تیرا تیر نظر، زخمی جگر، جاؤں کدھر
ہے آج سنڈے جس کے سبب چھٹی پر ہیں سب ڈاکٹر
ادھر مولانا عبدل دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہے تھے اور جب ان سے برداشت نہیں ہوا تو ڈپٹ کر بولے۔
درد سر ہوتا ہے بے رنگ نہ فریاد کریں
بلبلیں مجھ سے گلستاں کا سبق یاد کریں
ان کی اس تعلّی کو دیکھ کر مجھ سے بھی نہ رہا گیا اور تڑ سے میں نے کہا ’’ارے آپ کیا کرسکتے ہیں جب کہ خود دوسروں کے اشعار سنایا کرتے ہیں۔‘‘ یہ سن کر مولانا جوش میں آگئے۔ کہنے لگے اس کے جواب میں میر انیس کی ’’غزل‘‘ کے دو شعر سنو!
ایک قطرے کو جو دوں بسط تو قلزم کردوں
بحر مواج فصاحت کا تلاطم کر دوں
ماہ کو مہر کروں ذروں کو انجم کر دوں
گنگ کو ماہر انداز تکلم کردوں
محفل سے واہ واہ کی صدا اٹھی۔ مگر میں نے دھیرے سے مولانا عبدل کے کان میں کہا کہ جناب یہ میر انیس کی غزل کے اشعار نہیں ہیں یہ تو ان کے مرثیہ کے اشعار ہیں۔ ’’تو کیا میر انیس نے اپنا مرثیہ خود لکھا تھا؟‘‘ انھوں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ میں نے کہا ’’میرا مطلب ہے کہ میر انیس مرثیہ نگاری کے لیے مشہور ہیں اور آپ کے سنائے ہوئے یہ دونوں شعر دراصل ان کے لکھے ہوئے ایک مرثیہ کے ہیں۔‘‘ لیکن اب کیا ہوتا تیر تو کمان سے نکل چکا تھا۔ جس کی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے مولانا نے اس کی بڑی پیاری توجیہ کی۔ کہنے لگے ’’ارے تمھیں کیا پتا؟ میر انیس اپنے مراثی کی ابتدا غزل کے اشعار سے کرتے تھے۔ مولانا عبدل کی یہ توجیہ سن کر انگشت بدندان ہونے کی بجائے میں انگشت بہ اذان ہوگیا۔ میں یہ سوچ کر رہ گیا کہ مولانا نے شاعری کا بڑا ’’گہرا‘‘ مطالعہ کیا ہوگا۔
خیر! مولانا عبدل شعر و شاعری کے شوقین تو تھے ہی ساتھ ہی انھیں اپنی تصویر کھینچوا کر اخباروں میں چھپوانے کا شوق بھی کچھ کم نہ تھا۔ ہر وقت اسی کوشش میں رہتے کہ کسی طرح ان کی تصویریں بڑے بڑے اخبارات میں شائع ہو جائیں۔ ایک بار میر باقر نے ان سے کہا: بھئی عبدل! یہ تم نے کیا خبط پال لیا ہے کہ تمھیں بس ایک ہی جنون رہتا ہے کہ کب تمھاری تصویر اخبار میں چھپے؟ مولانا پوری سنجیدگی سے گویا ہوئے: باقر صاحب ایسی بات نہیں کہتے۔ اگر یہ خبط ہے تو پھر آج کے ان شاعروں کے بارے میں کیا کہیے گا جنھیں نذرانوں سے زیادہ مشاعروں کی تصویریں عزیز ہوتی ہیں۔
گورداس پور میں پیدا ہوئے مولانا عبدل جب ملک کی ایک مشہور و معروف درس گاہ سے فارغ التحصیل ہو کر آئے تھے تو بڑے کرو فر سے چلتے۔ انھیں بڑا ’’گمان‘‘ رہتا تھا کہ وہ ایک عظیم الشان درس گاہ سے سند یافتہ ہیں۔ یہاں یہ بحث بے کار ہے کہ ان کی بھی کوئی سند تھی یا نہیں؟ بڑی بے چین طبیعت پائی تھی انھوں نے۔ کسی ایک نقطے پر ٹھہرتے ہی نہیں تھے۔ شروع شروع میں بڑے زور و شور سے اپنے مسلک حق کا پرچار کیا۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب کبھی کسی خانقاہ یا زیارت گاہ کے قریب سے ان کی سائیکل یا رکشہ کا گزر ہوتا تو دل ہی دل میں فوراً توبہ اور تجدید ایمان کرتے اور ناک بھوں اس طرح سکوڑتے جیسے کوئی بدبو سی آ رہی ہو۔
لیکن اس شہر میں ان کے مسلک حق کی دال گلنا تو دور ہانڈی بھی نہیں رکھی جاسکتی تھی۔ اس لیے آہستہ آہستہ وہ سیکولر ہوتے گئے۔ اور پھر ان کے پیٹ میں اس ’’سیکولرازم‘‘ کا درد اس شدت سے اٹھا کہ انھوں نے ’’اتحاد ملت‘‘ کا بڑا زور دار نعرہ مارا۔ مگر ہائے ناکامی! ان کی ایک بھی نہ چلی اور اس میں بھی وہ فیل ہوگئے۔
اخبارات کا مطالعہ کثرت سے کرتے تھے۔ کوئی کام تو تھا نہیں اس لیے اردو اخبارات کے ساتھ ساتھ ہندی اخبارات کی بھی چندی چھڑا کر چاٹ جاتے تھے۔ رہی انگلش! تو انگلش سے انھیں اللہ واسطے کی دشمنی تھی۔ انھیں انگریزوں سے زیادہ انگریزی سے نفرت تھی۔ پتا نہیں اس کے پیچھے کیا اسباب تھے۔ بہرحال ان اخبارات میں بڑے بڑے مذہبی رہنماؤں اور دھارمک پنڈتوں کی تصویریں شائع ہوتی تھیں۔ انھیں کو دیکھ کر ان کے دل میں بھی اخبارات میں تصویریں شائع کرانے کا شوق پیدا ہوا جو آگے چل کر ’’عشق‘‘ کی شکل اختیار کر گیا۔ اور پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایک مہینے کے اندر اندر شہر میں ان کا ’’ڈنکا‘‘ بجنے لگا۔ روز ان کا بیان مع تصویر ضرور چھپتا تھا۔ مگر اس کے لیے انھیں کافی پاپر پیلنے پڑے۔ انھوں نے ایک خانقاہ کے متولی کو پٹایا اور آہستہ آہستہ خانقاہ پر قابض ہوگئے۔ اب اگر ان کی خانقاہ میں آیت کریمہ کا ختم بھی ہوتاتھا تو اخبارات میں اس کی سرخیاں ضرور مل جاتی تھیں وہ بھی مع تصویر۔
پھر تو انھیں چرس جیسا نشہ لگ گیا۔ کوئی موقع ہو یا نہ ہو ایک تصویر ضرور چھپنی چاہیے۔ اگر کبھی کسی مقام پر دیکھتے کہ ان کی تصویر نہیں لی جا رہی ہے تو غول میں جبراً گھسنے کی کوشش کرتے۔ اور تصویر کھنچاتے وقت کیمرے سے اتنے قریب ہوجاتے کہ لگتا جیسے کیمرے میں گھس ہی تو جائیں گے۔
ایک دن میں نے ایک مقامی اخبار میں ان کی تصویر دیکھی ایسا لگ رہا تھا کہ کھجور کا ایک تنا اب گرا کہ تب گرا۔ ان کے تصویر کھنچوانے کے اس جنون نے ان کو بڑا بدنام کیا۔ لیکن ان پر اس کا ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوا بلکہ اس میں اور شدت آگئی۔ کسی نے ان سے ان کی اس بدنامی کا ذکر کیا تو طیش میں آکر کہنے لگے، ’’اسی کا نام تو شہرت اور نیک نامی ہے جسے میرے حاسدین بدنامی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔‘‘ اور پھر انھوں نے مقامی اخبارات سے ترقی کرکے قومی اور بین الاقوامی اخبارات میں پہنچنے کے زینے تلاش کرنے شروع کر دیے۔ اور اس بھنور میں ایسا پھنسے کہ پھنسے ہی رہ گئے۔
دسری طرف ان کی شہرت حدود شہر کو توڑ کر دور دراز علاقوں تک پھیلنے لگی تھی یہاں تک کہ صوبائی اور قومی دارالحکومت تک پہنچ چکی تھی۔ ان کے سلسلے میں لوگوں کے دو طرح کے خیالات تھے۔ کچھ لوگ کہتے کہ یہ مولانا بڑا ہی ناہنجار ہے۔ سستی شہرت بٹورنے کے لیے جھوٹی سچی خبریں اپنی تصویر کے ساتھ خواہ مخواہ شائع کراتا ہے۔ اس گروہ میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ اخبارات کے نامہ نگار اور مدیران بھی تھے۔ جنھوں نے مولانا کو بڑے قریب سے ’’کیمرے‘‘ میں دیکھا تھا۔ خاص طور سے ایڈیٹر حضرات کے پاس جب ان کی کوئی رپورٹ پہنچتی تو وہ زیر لب بڑ بڑاتے کہ"Love Letter" آگیا۔
دوسرے گروہ میں علمائے کرام تھے جو عصر حاضر میں میڈیا کی ضرورتوں کے تحت مولانا کے اس عمل کو اگرچہ لائق تحسین نہیں سمجھتے تھے مگر خاموش حمایت ضرور کرتے تھے۔ مولانا عبدل کو اس کا بڑا فائدہ ہوا۔ اب وہ ملک کی کئی بڑی جمعیتوں اور تنظیموں کے سکریٹری اور جنرل سکریٹری بنا دیے گئے۔ اب انھوں نے تین طرح کے لیٹر پیڈ چھپوائے جن پر رپورٹ لکھ کر بھیجتے تھے۔ ایک لیٹر پیڈ خانقاہ کے متولی کی حیثیت سے (واضح رہے کہ وہ متولی اپنی محنتوں سے بنے تھے) دوسرا متعدد جمعیتوں اور تنظیموں کے سکریٹری اور جنرل سکریٹری کی حیثیت سے۔ اور تیسرا اپنے مادر علمی کے اولڈ بوائز کے صدر اعلیٰ کی حیثیت سے۔ چونکہ اولڈ بوائز والی تنظیم کی تشکیل انھوں نے خود کی تھی اس لیے صدر اعلیٰ سے نیچے رہنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اگرچہ دوسرے عہدوں کا پر ہونا ہنوز باقی تھا۔
اسکااثر ان کی معاشی حالت پر بھی پڑا اور سائیکل چلا چلاکر جوتیاں گھسنے والا آدمی سزوکی اور ٹویرا جیسی مہنگی گاڑیوں میں گھومنے لگا۔ معاشی حالت سدھری تو تن و توش میں بھی سدھار آیا۔ اتنا! کہ اگلی سیٹ پر ان کے اور ڈرائیور کے علاوہ کسی تیسرے کے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔
ابھی ان کی فراغت کے چار ہی سال ہوئے تھے کہ ملک کی سب سے بڑی عید، ’’عام انتخابات‘‘ کا اعلان ہوگیا۔کون نہیں جانتا کہ اس عید کے لیے لیے روزے نہیں رکھے جاتے بلکہ مولانا عبدل کی طرح ایمان دار اور مخلص قسم کے لوگ رمضان کا حصہ اسی مہینے میں کھا پی کر رمضان کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ سیاسی پارٹیاں اپنے انتخابی اشتہار میں جٹ گئیں۔ ’’ایک پارٹی‘‘ کے علاوہ ساری پارٹیاں مسلمانوں سے ہمدردی کا جذبہ جو ان کی ’’ناف‘‘ میں چھپا رہتا ہے ظاہر کرنے لگیں۔ ظاہر ہے اس کے لیے ان کو مسلم قیادت کے چھوٹے تالاب کی بڑی مچھلیوں کو بے خلوص نمستے بھی کہنا پڑا اور مدارس کی بوسیدہ نظر آنے والی دہلیز بھی پھلانگنی پڑی۔ جس کی بڑی بڑی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں۔ جنھیں دیکھ کر مولانا عبدل مچل مچل جاتے اور ان کے پیٹ کا چوہا اور شدت سے اچھل کود مچانے لگتا۔
ایک دن موقع ہاتھ آہی گیا۔ مجھ سے بولے ’’یار تم جبار کو تو جانتے ہی ہوگے۔‘‘ میں نے کہا ہاں کیوں نہیں وہی تو جو گورداس پور میں بھینس چگایا کرتے تھے اور شہر میں مفتی صاحب کہلاتے تھے۔‘‘ پہلے تو ان کے چہرے پر جھلاہٹ کے آثار دکھے پھر پتا نہیں کیا ہوا بڑی مقفی اردو میں بولے ’’اخبار کمر لچکدار کے نامہ نگار اور تصویر کار ذیشان جبار کی بات کر رہا ہوں اے نابکار‘‘ مجھے ان کی ایسی اردو پر بڑا رشک ہوا اور میں نے بڑی عاجزی سے کہا ’’مگر جناب! مجھ نابکار کو ’’تصویر کار‘‘ کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔ انھوں نے فخر سے سینہ تان کر کہا ’’فوٹو گرافر کا اردو ترجمہ تصویر کار ہے۔‘‘ اچھا تو پھر؟ میں نے کہا۔ کہنے لگے ’’اس نے مجھے بتایا ہے کہ آج شام گاندھی اسٹیڈیم میں ایک بہت بڑا سیاسی جلسہ ہونے جا رہا ہے۔ بڑے بڑے نیتا آ رہے ہیں۔ سنا ہے کہ وہ فلمی اداکار بھی آ رہا ہے.... ارے وہی.... کیا نام ہے اس کا.... جو ’’جادو کی جھپی‘‘ دیتا ہے؟ میں نے بڑی لجاجت سے کہا ’’ارے سرکار مجھ خاکسار کو فلمی اداکار سے کیا سرورکار‘‘ اور مسکرا پڑا۔ میری مسکراہٹ پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے مولانا عبدل بولے ’’زیادہ قافیہ پیمائی نہ کرو۔ میں تمھیں بس یہ بتا رہا ہوں کہ اس جلسہ میں مجھے قومی سطح کے اخبارات میں شائع ہونے کا موقع ملنے والا ہے۔‘‘ میں نے بطور تجسس پوچھ لیا ’’وہ کیسے؟‘‘ مگر وہ گول کر گئے اور کچھ بتائے بغیر اٹھ کر چل دیے۔
مولانا عبدل کی یہ بات شام تک میرے ذہن پر سانپ کی طرح پھن کاڑھے چھائی رہی جس کا اثر یہ ہوا کہ شام ہوتے ہی میرے قدم اسٹیڈیم کی طرف اٹھ گئے اور میں ٹھیک وقت پر وہاں پہنچ گیا۔ چونکہ ایک فلمی اداکار بھی تشریف لا رہے تھے اس لیے پنڈال بڑا شاندار لگایا گیاتھا اور سامنے شمال کی جانب بڑے لوگوں کے لیے شاندار اسٹیج۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر پہلے سے ہی ’’جادو کی جھپی‘‘ والے اداکار کو دیکھنے اور سننے کے لیے اپنی اپنی جگہوں پر لہرا رہا تھا۔ جنھیں دیکھ کر میرے ذہن میں ایک بیہودہ خیال آیا کہ اگر مولانا عبدل کی آیت کریمہ میں اتنے ہی لوگ جمع ہو جائیں تو ان کی تو چاندی ہوجائے گی۔
خیر! جلسہ خلاف دستور وقت سے ہی شروع ہوگیا۔ روایتی انداز میں آغاز کے بعد سیاسی ’’چھٹ بھیوں‘‘ کی بڑی لچھے دار اور گرجدار تقریریں ہوئیں۔ جلسہ جب اپنی جوانی کو پہنچا تو ’’جادو کی جھپی‘‘ والے فلمی اداکار کو ڈائس پربلایا گیا۔ پورا مجمع تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ فلم اداکار ہاتھ ہلاتا ہوا ڈائس پر آیا اور ابھی تقریر شروع ہی کی تھی کہ میں نے اسٹیج کے قریب ایک گاڑی رکتی ہوئی دیکھی، جوکچھ کچھ جانی پہچانی سی لگی اور پھر میرے خیال کی تصدیق ہوگئی۔ یہ مولانا عبدل کی گاڑی تھی۔ کیونکہ گاڑی سے اترنے والا کوئی اور نہیں مولانا عبدل ہی تھے۔ گاڑی سے اترکر مولانا بڑی شان سے اسٹیج کی طرف بڑھے اور جیسے ہی انھوں نے اسٹیج پر قدم رکھا ایک زلزلہ سا آگیا۔ پتا نہیں کیا ہوا پورا اسٹیج کھاس پھوس کی طرح ڈھ گیا، جس میں اسٹیج کی زینت بنے حضرات غائب ہوگئے۔ ادھر مجمع سے بھاگو بھاگو کا شور نشور بلند ہوا۔ پھر جو افرا تفری مچی ہے تو جس کے جدھر سینگ سمائے بھاگ نکلا۔ ایسے میں وہاں میں کیوں ٹکا رہتا؟
اگلی صبح مجھے پتا چلا کہ مولانا کی تصویریں قومی و بین الاقوامی اخبارات میں شائع ہوئی ہیں، لیکن خود مولانا عبدل اسپتال میں ہیں۔ میں جب اسپتال میں ان سے ملا تو بڑے ہشاش بشاش نظر آئے اور قریب ہی پڑے ہوئے اخبار کی طرف اشارہ کیا اور میں نے سر تسلیم خم کر دیا۔

طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ

ماہنامہ ایوان اردو دہلی اور اردو نیٹ جاپان پر شائع شدہ  جس کی لنک درج ذیل ہے 

Tuesday, 10 September 2013

جامعہ میں بیچلر سطح پر دو سال اردو

مکرمی!
آپ کا با وقار روزنامہ "انقلاب " بڑی خوش اسلوبی سے صحافت اور اردو کی خدمت انجام دے رہا ہے۔ آپ کے اخبار سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہندوستان کی عظیم یونی ور سٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر نجیب جنگ صاحب نے جامعہ میں بیچلر سطح پر دو سال اردو مضمون کو لازم قرار دیا ہے۔یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ صرف مضمون کو لازم نہیں کیا گیا ہے بل کہ اس کے نمبرات ڈویژن میں شمار کئے جاءں گے۔ یہ بات تمام اہل اردو کے لیے باعث مسرت و شادمانی ہے۔اس لئے کہ اردو جب تک لازمی مضمون کے طور پہ نہ پڑھائی جائے، بھارت میں اردو کے فروغ کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔یو پی میں بھی تمام اسکولوں میں اردو کو لازمی مضمون بنانے کی کوششیں چل رہی ہیں ،خدا کرے بار آور ہو۔ہم تمام اہل اردو کی طرف سے جامعہ کے وائس چانسلر نجیب جنگ صاحب ،اکیڈمک کونسل اور شعبہء اردوشکریہ کے مستحق ہیں۔ہم انہیں مبارک باد پیش کرتے ہیں۔

طیب فرقانی
   c azeem dairy,batla house,jamia nagar,okhla new delhi 25 /327

دہلی ،دلی اور دلہی

مکرمی!
دہلی ،دلی اور دلہی کے عنوان سے جناب شکیل احمد صاحب کا مضمون (شا ئع شدہ ۲۷؍جنوری ۲۰۱۳)دہلی کی تہذیب وروایت پر روشنی ڈالنے والا مختصر مضمون ہے۔شکیل شمسی صاحب کی جادو بیانی سے ہر وہ شخص واقف ہے جو ان کے مستقل کالم’’موضوع گفتگو‘‘ کا مطالعہ کرتا ہے۔لیکن اس مضمون کے مطالعے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ مضمون بڑی جلد بازی میں قلم بند کیا گیا ہے۔ورنہ یہ ناممکن ہے کہ شکیل صاحب جیسے صحافی سے یہ بات پوشیدہ رہ جاتی کہ دہلی اور بہاری ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم کی طرح ہیں ۔شکیل صاحب نے اپنے مضمون میں جن چار تہذیبوں او ر اس کے اثرات کا ذکر کیا ہے ان میں بہار اور بہاریوں کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے ۔کہاجاتا ہے کہ دہلی کی دو چیزیں بہت مشہور ہیں ۔اور ان دونوں میں ایک نقطے کا فرق ہے۔وہ دو مشہور چیزیں ہیں ’’بہاری اور نہاری ‘‘۔پرانی دلی اور ذاکر نگر کی نہاری سے تو ہم جیسے نا رسا لوگ بھی واقف ہیں ۔اور بہار تو دہلی میں ہر جگہ نظر آتا ہے۔دہلی میں چھٹ پوجا بہار سے ہی آیا ہے۔یہاں تو کئی علاقوں میں بہاری محلے آباد ہیں اور ان کو بہاری محلہ ہی کہا جاتا ہے۔ایک رکشے والے سے چیف جسٹس آفتاب عالم تک عظیم آباد اور بہار سے آئے ہوئے لوگ پوری دہلی میں پھیلے ہوئے ہیں ۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی بہت سے لوگ ’’بہاری‘‘کو بہ نظر تحقیر ہی دیکھتے ہیں ۔یہاں میرا مقصود کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں ہے بلکہ شکیل صاحب کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرانا مقصود ہے کہ ایسے اہم موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جلد بازی سے کام نہ لیں ۔کیوں کہ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردوجامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۲۵       
                                                                      اخبار کا تراشہ

عام آدمی کو ہتھیار نہیں تعلیم وروزگار چاہیے۔

مکرمی!
ہم آئے دن الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں یہ خبریں پڑھتے سنتے رہتے ہیں کہ فلاں ملک نے فلاں میزائل کا تجربہ کیا اور فلاں نے فلاں کا۔۔۔۔میزائلوں اور بموں کے علاوہ دوسرے ہتھیار بھی ایک ملک دوسرے ملک سے خریدتے بیچتے رہتے ہیں۔اس کے سیاسی اور اقتصادی فوائد زیادہ اور عوامی فوائد کم سے کم ہیں۔عالمی سطح پر اگر ہم دیکھیں تو جی ایف پی( گلوبل فائر پاور) کی لسٹ میں امریکا،روس،چین،ہندوستان اور برطانیہ بالترتیب سر فہرست ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے استثنا کے ساتھ دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار ہیں۔
عالمی دفاعی خرچ کو دیکھیں تو کل ملا کر 1.7 ٹریلین ڈالر سالانہ خرچ ہوتا ہے یہ رپورٹ 2011 کی ہے، جب کہ 2010 میں یہ خرچ1.63 ٹریلین ڈالر تھا ۔اس کامطلب یہ ہے کہ ایک سال میں1.3 فی صد خرچ کا اضافہ ہوا ۔اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہتھیاڑوں کی دوڑ کس قدر تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
اس کا تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر یہ رقم دنیا کی 7 ارب آبادی پر برابر سے تقسیم کر دی جائے تو تقریبا 236 ڈالر فی کس کے حصے میں آئے گا ۔ہندوستانی روپیوں کے حساب سے یہ 13000 ہزار بنتے ہیں ۔ اب دنیا میں غربت کی سطح دیکھیں تو پوری دنیا میںیومیہ تقریبا25 ہزار افراد صرف بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔حیرت کی بات ہے کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کو یہ بات کیوں نہیں سوجھتی ۔جس طرح غذا ہر انسان کا بنیادی حق ہے اسی طرح تعلیم ایک بنیادی حق ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق ہرسال ہتھیاروں پر جتنی رقم خرچ کی جاتی ہے اگر اس کا ایک فیصد سے بھی کم دنیا کے تمام بچوں کی تعلیم پر خرچ کیا جائے تو سارے بچے اسکولوں میں ہوں گے ۔اور یقیناًیہ عمل انسانیت کے حق میں اور امن و سکون کے فروغ میں معاون ہوگا۔
نفسیاتی طور سے جائزہ لیں تو ہم پاتے ہیں کہ ہتھیا ر فی نفسہ جنگ پر ابھارتے ہیں ۔اگر آپ کے سامنے ہتھیاررکھا ہو توآپ اسے چھوئیں گے اور اسے چلانے کی لوشش کریں گے ۔یہ ایک نفسیاتی مرحلہ ہے ۔ملکوں کے پاس جب ہتھیار ہوتے ہیں تو وہ یا تو خود کسی ملک پر جنگ مسلط کر دیتے ہیں جیسا امریکا کرتا آرہا ہے یا پھر وہ دوسرے ممالک کو ہتھیار بیچ دیتے ہیں یا کمزورممالک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرکے ان کو ہتھیار خریدنے پر مجبور کر تے ہیں۔پچھلی کئی دہائیوں سے یہی ہو رہا ہے اور سرمایہ دار ممالک لوگوں کے خون سے اپنی جیبیں بھر رہے ہیں ۔اس تجزیے کو سامنے رکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ہتھیاروں کا فروغ اگر کسی کے حق میں مفید ہے وہ سرمایہ دار ہیں ۔عام آدمی کو ہتھیار نہیں تعلیم وروزگار چاہیے۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ 

۔گوتم بدھ کو مار دیا

مکرمی!
میانمار کے بودھسٹوں نے ایک بار پھر انسانیت کا لباس اتار پھینکا ہے۔اس سے پہلے بھی وہ ننگ انسانیت بن چکے ہیں ،مگر پیاس ہے کہ بجھتی نہیں۔انہیں خون کی پیاس ہے یا اس علاقے میں موجود تیل کی پیاس ہے؟تیل بیچ کر وہ انسانیت کا لباس خرید سکیں گے؟جب ایک بے گناہ انسان مرتا ہے تو ساری انسانیت مرجاتی ہے ۔گوتم بدھ کو یہ معلوم تھا،مگر ان کے ماننے والے برمی لوگوں کو یہ نہیں معلوم ہے۔یا شاید معلوم ہو ،مگر ان کی عقل پر پردہ پڑگیا ہو! آہ! انہوں نے اقلیت کا یہ حال کیا ہے ؟زندہ لوگوں کوجلادیا گیا ہے ۔لاشیں بے گوروکفن پڑی ہیں جنہیں خاک بھی میسر نہیں ۔ان کے مکانوں سے کوئی آواز بھی نہیں آتی ۔اب کبھی نہیں آئے گی۔ان کا قصور زندہ رہنا تھا۔انسان ہونا تھا۔یا پھر مسلمان ہونا ۔کوئی اپنے جانور کو بھی زندہ نہیں جلاتا۔انسان کو مارنے سے مذہب مرتا ہے یا انسان؟گوتم بدھ اس کا جواب نہیں دے سکتے ،وہ یہ سن بھی نہیں سکتے ،لیکن انہوں نے کہا ضرور تھا ۔۔۔اہنسا کی راہ چلنا۔۔۔ان کے ماننے والوں نے بھلا دیا ۔جاہلیت کا زمانہ ہے ،جہاں ہر چیز تعصب ،نفرت اور لالچ کے بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔اہنسا کے الف پران جاہلوں نے اپنی انا کی کالک پوت دی ۔میانمار میں لوگوں نے مسلمانوں کو مارا ؟انسان کو مارا؟۔نہیں نہیں انہوں نے اپنے ضمیر کو مار دیا ۔اپنے مذہب کو مار دیا ۔گوتم بدھ کو مار دیا ۔اپنے خدا کو مار دیا ۔

Friday, 6 September 2013

گلزار کے چند ’’تریونی‘‘ (ہائیکو) کا ترجمہ


گلزار ہندوستانی سنیما کی بڑی شخصیت کانام ہے ۔وہ’’ ہندوستانی زبان‘‘ کے اچھے شاعر ہیں ۔ان کی تریوینی کا مجموعہ اسی نام سے شائع ہو چکا ہے ۔بنیادی طور سے یہ دیو ناگری میں ہے۔ٹرانسلیشن کی کلاس میں میم اس کا ترجمہ کرواتی ہیں ۔میں نے جو ترجمہ کیا ہے اسے آپ سے شئیر کر رہا ہوں ۔پہلے اردو رسم خط میں ’’تریوینی‘‘ ہے پھر انگریزی میں اس کا ترجمہ ۔دیکھیں کہ گلزار کی شاعری بھی کیا خوب ہے ۔(تریوینی میں تین سطریں ہوتی ہیں ۔دو سطروں کے بعد ایک سطر یوں ہی خالی چھوڑ کر چوتھی سطر لکھتے ہیں ۔اور پہلیدو سطروں میں جو بات کہی جاتی ہے وہ اکثر تیسری سطر میں بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور یہیں پر شاعر کے فن کا امتحان ہوتا ہے )

(۱) تریوینی:
کون کھائے گا ؟کس کا حصہ ہے
دانے دانے پہ نام لکھا ہے

سیٹھ سود چند ،مول چند،جیٹھا

ترجمہ:
Who will eat? whose share is it
Every grain has name on it

Saith sood chand,Mool chand,Jetha

(۲) تریوینی:
سب پہ آتی ہے ،سب کی باری سے
موت منصف ہے ،کم و بیش نہیں

زندگی سب پہ کیوں نہیں آتی ؟
ترجمہ:
It comes on all on their turn.
Death is judge,no less or more

Why does life not come on all

(۳) تریوینی:
کیا پتہ کب کہاں سے مارے گی ؟
بس کہ میں زندگی سے ڈرتا ہوں

موت کا کیا ہے ایک بار مارے گی
ترجمہ:
How to know when and where it will hit from
I am just afraid of life.

what about the death it will kills only once

(۴) تریوینی:
پرچیاں بٹ رہی ہیں گلیوں میں
اپنے قاتل کا انتخاب کرو

وقت یہ سخت ہے چناؤ کا
ترجمہ:
Pamphlets are being dished out in streets.
Select your killer

It harsh time to select

(۵) تریوینی:
بھیگا بھیگا سا کیوں ہے یہ اخبار
اپنے ہاکر کو کل سے چینج کرو

’’پانچ سو گاؤں بہہ گئے اس سال‘‘
ترجمہ:
Why this paper seems wet
Change your hawker from tomorrow

"Five hundred villages have been swept away"

(۶) تریوینی:
جنگل سے گزرتے تھے تو کبھی بستی بھی کہیں مل جاتی تھی
اب بستی میں کوئی پیڑ نظر آجائے تو جی بھر آتا ہے

دیوار پہ سبزہ دیکھ کے اب یاد آتا ہے ،پہلے جنگل تھا
ترجمہ:
Sometimes I countered settlement while passing by jungle.
Now I feel sad when I see any tree in village.

Seeing greenery on wall reminds me year was a jungle.
***.

تبصرہ نام کتاب: اقبال کی نظموں کا تجزیاتی مطالعہ

نام کتاب: اقبال کی نظموں کا تجزیاتی مطالعہ
مصنف:ڈ اکٹر فخرالاسلام اعظمی
ناشر: شبلی نیشنل کالج
صفحات: ۱۶۰
قیمت: ۵۰ روپے

اردو نظم نگاری میں اقبال کا مرتبہ کس قدر اعلی ہے ،یہ بتانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔اقبال اور ان کی شاعری پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔زیر تبصرہ کتاب،جو ڈاکٹر فخرالاسلام اعظمی کی تصنیف شدہ ہے ،بھی اقبال کی نظموں سے متعلق ہے۔ ڈاکٹر فخرالاسلام کا تعلق شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ سے ہے ۔انہوں نے طلبہ کی ضرورتوں کے تحت کتابیں تصنیف کی ہیں ۔’’شعور فن‘‘ کے نام سے ان کی ایک تصنیف طلبا میں کافی مشہور رہی ہے،جو نیٹ ۔جے،۔آر۔ ایف۔ کی تیاری کرنے والے طلبا کو مد نظر رکھ کر لکھی گئی تھی ۔اس کتاب کی تصنیف میں ڈاکٹر الیاس اعظمی بھی ان کے شریک کار رہے ہیں ۔مگر زیر نظر کتاب بلا شرکت غیرے ہے ۔دونوں کتابوں کا پیش لفظ بھی دوسطروں کے اضافے کے ساتھ ایک ہی ہے ۔اسی پیش لفظ سے کتاب کی تصنیف کے مقاصد پر روشنی بھی پڑتی ہے ۔ذیل میں ہم چند سطریں نقل کر ہے ہیں :
’’اس کتاب میں شامل تمام مضامین طلبا کی درسی ضروریات کے پیش نظر لکھے گئے ہیں ،ہو سکتا ہے کہ بعض مضامین میں تشنگی محسوس ہو،لیکن ایسے مضامین میں مضمون نگار کو اپنی مخصوص سطح کے ساتھ ساتھ طلبا کی ذہنی سطح کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے ‘‘
۱۶۰ صفحے کی اس کتاب میں اقبال کی تمام نظموں کا تجزیاتی مطالعہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان کی دس طویل و مختصر نظموں کا ہی تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے ۔جو اس طرح ہیں ۔خضر راہ،فرشتوں کا گیت ،فرمان خدا ،لینن خدا کے حضور میں ،جبریل وابلیس ،ذوق و شوق،ساقی نامہ،مسجد قرطبہ ،شعاع امید ،ابلیس کی مجلس شوری اور نیا شوالہ ۔ تجزیاتی مطالعے کے ساتھ ساتھ نظموں کی تشریح بھی دی گئی ہے اور مصنف کے بقول’’تشریح کے سلسلے میں پروفیسر سلیم چشتی کی شرح کلیات اقبال سے خاطر خواہ استفادہ کیا گیا ہے ۔‘‘
اس طرح کتاب کے تین حصے ہیں ۔ پہلے حصے میں صرف نظموں کے متون دیے گئے ہیں ۔دوسرے حصے میں تجزیاتی مطالعہ اور تیسرے حصے میں تشریح۔تشریح میں مشکل الفاظ کی تشریح بھی کی گئی ہے کتاب کی یہ ترتیب (اگر طلبا کی درسی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے رکھی گئی ہے تو) مناسب نہیں ہے ۔مناسب ترتیب یہ ہوتی کہ ایک نظم کا متن ،اس کے مشکل الفاظ کی تشریح اور پھر تشریح اور اس کے بعد تجزیاتی مطالعہ۔پھر ایک نظم کا متن اور اسی ترتیب سے تشریح و تجزیہ ۔ کتاب کا ٹائٹل پیج عمدہ ہے اور طباعت بھی مناسب ہے ۔
ڈاکٹر فخرالاسلام کا قلم الفاظ کو سجانے میں مہارت رکھتا ہے ۔تجزیاتی مطالعے میں خوب صورت جملوں اور فقروں کا استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ موصوف اچھے نثر نگار ہیں ۔ساتھ ہی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے کلیم الدین احمد اور نورالحسن نقوی جیسے نقادوں کے اقتباسات بھی درج کیے گیے ہیں ۔نظم کے فکری اور فنی ،دونوں پہلووں کا تجزیہ کیا گیا ہے ۔مگر فکری پہلو پر زیادہ زور ہے ۔مجموعی طور پہ کتاب طلبا کے لئے مفید ہے

طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۲۵ 

Sunday, 1 September 2013

ٹرین میں چوہا

نائن الیون کی تاریخ تھی جب میں نے ٹرین میں چوہا دیکھا۔ذہن کوزور کا جھٹکا زوروں سے لگا۔وہ تو خیر ہوا کہ میں ہندوستانی ٹرین میں تھا۔امریکہ کی کسی ٹرین میں ہوتا تو میرا کیا حشر ہوتا ،خدا ہی جانے۔چوہا ٹھیک میرے سامنے والی نچلی برتھ کے نیچے تھا ۔ایک لمحے کو دہشت ہوئی۔پھر دہشت گرد یاد آئے۔پھر امریکہ یاد آیا ۔ورلڈ ٹریڈ سینٹر یاد آیا ،جہاں ہزاروں بے قصور لوگ موت کے گھاٹ اتار دئے گئے۔پھر افغانستان یاد آیا ،جہاں آج بھی عام لوگ چوہوں کی طرح چھپے رہتے ہیں ۔پھر لیڈران جہان بانیاں یاد آگئے ۔ پھر اپنے ملک کے نیتا یاد آگئے۔ پھر عبدل بھائی کیسے نہ یادآتے ۔
عبدل بھائی آج کل مرکزی کابینہ میں خوراکی کے وزیر ہیں ۔کالج کے زمانے میں طلبا یونین کے انتخاب میں ہم سے ہاتھ جوڑ کر ووٹ مانگا کرتے تھے ۔سنا ہے اب وہ ہاتھ جوڑ کر ووٹ نہیں مانگتے بلکہ دونوں ہاتھوں سے ’’خوراک‘‘ سمیٹ رہے ہیں ۔
پھر چوہے کی طرف متوجہ ہوا تو عبدل بھائی کی تین خصوصیات اس میں دکھیں ۔غرور ،دور بینی اور حساسیت۔چوہے کی بڑی بڑی مونچھیں ،اس کے غرور وتکبر کا پتا دے رہی تھیں ۔یہ عام عبدل بھائی کی خاص خصوصیت ہے ۔ آنکھیں گلیلیو کی دور بین کی طرح لگیں۔مانو گلیلیو پہلی دفعہ دور بین لگا کر سب کو چندھیائی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو ۔ہمارے عبدل بھائی بھی کم دور بین نہیں ہیں ۔کب کس پارٹی میں شامل ہونا ہے ،کس عہدے میں زیادہ کمائی ہوگی ،ان سب کا اندازہ انہیں شاید سیاست کی دنیا میں آنے سے قبل ہی ہوگیا تھا ۔چوہے کی حساسیت کا پتا اس کی مسلسل ہلتی ہوئی گردن اور تھرکتے ہوئے بدن سے چلتا ہے ۔ذرا سا آپ ہلے نہیں کہ اس نے یو ٹرن لیا ۔یو ٹرن لینا بھی ہمارے عبدل بھائی کی خصوصیت ہے ۔کبھی کہیں گے ’’ہندوستان صرف اکثریت کا ہے ۔‘‘میڈیا گھیرے گی تو یو ٹرن لیتے ہوئے کہیں گے ’’یہ تو میرا سوال تھا جسے میڈیا نے توڑمروڑ کر پیش کیا ۔‘‘ زیادہ گھیرا جائے تو یہ کہہ کر دامن بچا لیں گے کہ ’’چوہے کے خراٹے لینے سے شیر کی نیند میں خلل نہیں پڑتا ۔‘‘
میں اسی سوچ میں گم تھا کہ ذہن کے پردۂ سیمیں پر ایک دوشیزۂ سوال نے انگڑائی لی ۔اور اس کی دو شیزگی اس طرح نکھری کہ اس وقت ٹرین میں چوہے کا کیا کام ؟پھر ان مونگ پھلی کے چھلکوں پر نظر پڑی جسے لوگ ٹائم پاس کر نے کے لئے چوہوں کی طرح کتر کتر کے فرش پر ڈال دیتے ہیں ۔اور آدمی اور چوہے کا فرق مٹنے میں ذرا سا فاصلہ رہ جا تا ہے ۔
میں نے سوچا چوہوں کا آبائی وطن کھیت کھلیان ہی تو ہوتا ہے ،یا پھر وہ اسٹو رروم میں پائے جاتے ہیں ۔یہ اپنا دیس چھوڑ کر ولا یت میں کیا کر رہا ہے ؟ولا یت کے نام پر ولا یتی لوگ یاد آگئے۔پھر انگریزوں کا دور حکومت یا د آیا اور میں الجھنے لگا اور پھر بے اختیا ر میری زبان سے نکلا :’’ہشت‘‘اور چوہا دہشت زدہ ہوکر بھاگ نکلا ۔جتنی تیزی سے وہ بھاگ رہا تھا اتنی تیزی سے میرے خیالات کی رو بہک رہی تھی ۔
چوہے کو سنسکرت میں کیا کہتے ہیں ۔۔۔موسک
فارسی میں کیا کہتے ہیں ۔۔۔موش
انگریزی میں کیا کہتے ہیں ۔۔۔Mouse
تینوں زبانوں میں چوہے کے نام میں کسی قدر صوتی مماثلت ہے ۔اور اسی مماثلت نے مجھے بہار پہنچا دیا ۔
بہار کے کچھ علاقوں کے گاؤں دیہات میں ’’پتھروں کے عہد‘‘کی ایک ہندو ذات بستی ہے ۔ادبی زبان میں اسے آپ ’’خرمن غیر کی خوشہ چیں قوم ‘‘کہہ سکتے ہیں ،جو زندگی کا سفر جا ری رکھنے کے لئے مرغی پالن کرتی ہے اور کھیت کھلیانوں میں گرے پڑے اور چوہوں کے بلوں میں جمع شدہ دھان گیہوں چن چن کر جمع کرتی ہے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے بے تحاشہ پیدا کردہ بچوں کے پیٹ پالتی ہے۔ساتھ ہی چوہوں کی جڑیں کھود ڈالتی ہے۔بلوں سے اس طرح کھود کر نکالتی ہے گویا ان سے ’’نکسلی ‘‘دشمنی ہو۔مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی زبان میں چوہے کو ’’مُوسا‘‘کے نام سے جانا جا تا ہے اور اسی مناسبت سے اس ذات کو ’’مُسہر‘‘اور ان کی بستی کو’’ مُسہر ٹولی ‘‘ کہا جاتا ہے۔مجھے جملہ معترضہ کے طور پر خیال آیا کہ ادھر ہی کچھ علاقوں میں خالو کو’’ مَوسا‘‘کہا جاتاہے ۔اردو میں مُوسااور مَوسا اگر ایک ہی رسم خط میں لکھا جائے اور یقیناًلکھا جائے گا تو عبدل بھائی جیسے وزیر تو کچھ بھی پڑھ لیں گے ۔خالو کو چوہا اور چوہے کو خالو بنا دیں گے ۔کیوں کہ وہ کالج کے زمانے میں پڑھتے کم تھے اور لیڈری زیا دہ کرتے تھے۔
بہر حال میں سوچنے لگا کہ ڈارون کو اگر ان مُسہروں کے اس تابناک روکی زیارت کا شرف حاصل ہوتا تو وہ یہی کہتا کہ یہ لوگ کسی زمانے میں چوہا رہے ہوں گے اور صدیوں ارتقا کے منازل طے کر کے آدھے انسان تو بن ہی گئے کیوں کہ چہرے مہرے ،گھر بار اور اوڑھنا بچھونا کے اعتبار سے ٹی وی پر پروسے جانے والے گلیمر کے مقابلے میں یہ لوگ آدھے ہی انسان لگتے ہیں ۔پوری بستی کے عورت مرد،بوڑھے بچے اور جوانوں کے سارے لباس اکٹھا کر لئے جائیں تو بھی منسٹر عبدل بھائی کے پچھلے ایک مہینے میں تبدیل کئے ہوئے ڈریسوں سے کم پڑجائیں ۔اور پوری بستی کے مکانات کی’’ اینٹ شماری ‘‘کی جائے تو ریلائنس کے کسی بند پڑے پٹرول پمپ کی اینٹوں سے بھی کم پڑجائیں ۔ان کے یہاں فراوانی صرف دو چیزوں میں ہے ۔آدمی کے بچوں میں اور مرغی کے بچوں میں ۔مردم شماری والے بھی ان علا قوں کا رخ کرتے ہوئے گھبرا تے ہیں اور جو تھوڑے بہت ’’ذمہ دار ناگرک‘‘ ہوتے ہیں وہ پہلے سے ہی ایک بوری کاغذاور ایک تھیلا قلم کا انتظام کر لیتے ہیں تاکہ بچوں کو شمار کرتے وقت ان کی ’’روشنائی ‘‘خشک نہ ہوجائے۔
یہ لوگ آدھے انسان اس لئے بھی ہیں کیوں کہ یہ انتہائی حقیر جانور ،چوہے مارتے ہیں اور وہ بھی لاٹھی ڈنڈے سے ۔جس دن یہ بندوق سے آدمی مارنا شروع کر دیں گے پورے انسان ہوجائیں گے ،کیوں کہ آج کل پورا انسان چوہا مارتا ہی کہاں ہے ۔وہ تو قید کرتا ہے اور کسی پڑوسی کے گھر کے سامنے چھوڑ آتا ہے ۔مارتا تو وہ انسان کو ہے ۔کبھی بندوق سے کبھی بم سے اور دل نہ بھرے تو ایٹم بم سے ۔اتنے میں میں نے دیکھا کہ وہ چوہا پھر سے اپنی جگہ واپس آگیا ہے۔میں نے دل میں کہا ’’بے غیرت‘‘۔پتا نہیں ۔شاید وہ سمجھ گیا اور مجھے گھورنے لگا ۔کبھی پھدکنے لگتا اور کبھی میری طرف دیکھ کر سر ہلاتے ہوئے ہونٹوں کو تیزی سے جنبش دیتا ۔گویا بدبدا کر کہہ رہا ہو ’’بے غیرت ہم نہیں تم لوگ ہو ۔مونگ پھلیا ں ،چنا جور گرم بسکٹ اور چپس کھاکر پوری ٹرین گندی کر دیتے ہو ۔میں توصاف کرنے آیا ہوں ۔‘‘پھر وہ آسمان کی طرف دیکھ کر وہی حرکت کرنے لگا ۔گویا خدا سے گڑگڑا کر کہہ رہا ہو :
’’الہی ان کا من و سلوی روک لے ۔یہ آدھا کھاتے ہیں اور اور آداھا گوداموں میں بھر کر مہنگائی بڑھاتے ہیں اور ہم غریبوں پر ظلم ڈھاتے ہیں ۔ان کے بجا ئے ہمیں اور ہماری ’چوہا قوم‘ کو خوب دے تاکہ ہم موٹے تازے ہو جائیں تو کم سے کم ’مسہر ‘لوگوں کے پیٹ توبھریں ۔
اتنے میں ٹرین کینٹین کا کارندہ کھانے کا آرڈر لینے آگیا ۔میں نے یہ سوچ کر انکار کر نے عقل مندی دکھائی کہ آدمی ہی تو ہے ۔پورا آدمی ۔کیا پتا کھانے میں نشہ آور دواملا دے ۔سامان لوٹ لے ۔میرے انکار کر نے پروہ آگے بڑھ گیا ۔میں نے دیکھا کہ چوہے نے یو ٹرن لیا اور تیزی سے کینٹین کی طرف بھاگا ۔تب میری سمجھ میں آیا کہ وہ ولایت میں کیا کر رہا ہے ۔
ولایت جانے کی چار وجہیں میری سمجھ میں آتی ہیں ۔تلاش معاش،تلاش مال ،حفظان جان و صحت اور جلا وطنی۔پچھلی دو دہائیوں میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والوں میں دو لوگ بہت مشہور ہوئے ہیں ایک ’’آفتاب ‘‘ اور دوسرے ’’ماہ تاب‘‘۔ حسن اتفاق سے دونوں مشرق میں ہی اُگے اور مغرب میں ڈوبنے والے ہیں ۔چوہے کو ہم کتنی ہی حقارت سے کیوں نہ دیکھیں وہ کائنات کے نجات دہندہ کی شان میں گستاخی نہیں کر سکتا۔حفظان جان وصحت کے لئے ولا یت دو طرح کے لوگ جاتے ہیں ۔ایک وہ جنہیں خدا نہ خواستہ بھیانک مرض لاحق ہو،دوسرے وہ جنہیں ملک وقوم سے غداری کا تمغہ ملا ہو اور حفظان جان کی خاطر ولایت میں کوئی خاطر خواہ مقام تلا ش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہوں ۔یہ دونوں باتیں چوہوں میں نہیں پائی جاتیں ۔وہ چوہا تو نہایت ہی تندرست اور تن وتوش والا بیوپاری لگ رہا تھا ۔
رہا ملک وقوم سے غداری کا سوال تو ان کے یہاں ملکی سرحدیں ہی نہیں ہوتیں اور قوم سے غداری کا شرف تو حضرت میر جعفر جیسے لوگوں کا شیوہ ہے ۔بے چارے چوہے تو آخر چوہے ٹھرے ۔قوم سے غداری کا مطلب کیا جانیں ۔رہاتلاش مال اورتلاش معاش ،تو پہلے ان دونوں کا فرق سمجھ لیں تاکہ آگے کی بکواس سمجھنے میں آسانی ہو ۔تلاش مال اور تلا ش معاش میں وہی فرق ہوتا ہے جو قوت لایموت اور حرص لایموت میں ہے اور خوردن برائے زیستن اور زیستن برائے خوردن میں ہے ۔اور جو فرق پیٹ اور توند میں ہے یعنی تلاش معاش تو یہ ہے کہ انسان اتنی روزی کمائے کہ خودکواور اپنے متعلقین کو چین سے قبر تک پہنچادے اور تلاش مال یہ ہے کہ ؂
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
اتنا گہرا تجزیہ کرنے کے بعد میری سمجھ میں آیا کہ چوہا تلاش معاش میں ولایت میں بھٹک رہا ہے کیوں کہ سارا مال تو ولایتی بینکوں میں ہی جمع ہے ***
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۲۵

اردو نیٹ جاپان کی لنک جہاں یہ انشائیہ شائع ہوا تھا
http://urdunetjpn.com/ur/2013/02/19/inshaiya-tayyab-furqani/