Saturday, 17 August 2013

سوشل میڈیا:ادب،سیاست اور سماج

میڈیا ایک ذریعہ ہے رابطے کا۔آج کے جمہوری سماج میں اس کی اہمیت جمہوریت کے چوتھے ستون کے طور پر مسلم ہے۔میڈیا کسی خاص ادارے یا حکومت کے تحت ہوتی ہے جس کا کام غیر جانبداری کے ساتھ کسی خبر کو عوام و خواص تک پہنچاناہے ۔لیکن جب سے اس نے خود کو ایک بزنس کے طور پر متعارف کروایاہے تب سے کوئی بھی دولت مند شخص یا طبقہ اپنے نظریے کے تحت میڈیا کا غلط استعمال کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے۔یہیں سے ’’پیڈ نیوز‘‘ کی اصطلاح نے جنم لیاہے۔اور میڈیا نے خبر رسانی سے آگے بڑھ کر تجزیہ اورتبصرہ کرتے ہوئے ذہن سازی کی ڈگر اپنالی۔اور خبروں کو چھپانے اور بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا رجحان عام ہوا۔ہماری قومی الیکٹرانک میڈیا نے تو بہت سے معاملوں میں ٹرایل کورٹ کا رول بھی نبھایا ہے،جس پہ تنقیدیں ہوتی رہی ہیں ۔اس کے باوصف آج بھی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی اہمیت برقرار ہے ۔آج بھی اس سے استفادہ کیا جارہاہے اور کیاجاتا رہے گا جب تک کہ دنیا بھر میں اس کے خلاف کوئی بڑا انقلاب رونما نہ ہو۔
اس انقلاب کی پہلی سیڑھی کے طور پر سوشل میڈیا نے اپنا وجود منوایا ۔سوشل میڈیا میں ٹوئیٹر اور فیس بک کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔مارک زکر برگ نے فروری ۴۰۰۲ میں ہارورڈ یونیورسٹی میں اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ جب فیس بک کی بنیاد رکھی تھی تو اسے بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ آگے چل کر یہ کس قدر تہلکہ مچاسکتا ہے۔مارک نے یہ ویب سائٹ صرف ہارورڈ یونیورسٹی کے طلبا میں ربط وتعلق بنائے رکھنے کے لئے بنائی تھی ۔لیکن نو سال کی اس مختصر مدت میں فیس بک نے میڈیا کے ہر فارمیٹ کو متاثر کیاہے۔’’اباؤٹ ڈاٹ کام‘‘ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق ستمبر ۲۰۱۱ تک فیس بک کے فعال یوزرس کی تعداد ۷۵۰ملین تھی۔دنیا بھر میں ہر مذہب اور ہر طبقے کے لوگ نہ صرف اس کے شیدائی ہیں بلکہ بہت سے لوگ اسے نشے کی طرح استعمال کرتے ہیں ۔
ٹیکنالوجی نے انسان کو جتنے فوائد سے مالامال کیاہے اس سے انکار کی گنجائش نہیں ۔لیکن اس کے جانبی مضرات(سایڈ افیکٹ)سے بھی انکار نہیں کیا سکتا۔ہماری اس گفتگو میں فیس بک کو محوری حیثیت حاصل ہے۔فیس بک نے ہمیں ایک دوسرے کو جاننے اور ایک دوسرے سے بہ سرعت معلومات کے تبادلے میں بے حد آسانی فراہم کی ہے۔ہندوستان میں فیس بک یوزرس کی موجودہ صحیح تعداد ہمیں نہیں معلوم ،لیکن شہر وں سے دیہاتوں تک شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جس نے فیس بک کانام نہ سنا ہو۔نوجوانوں کے لئے اس میں خاص کشش ہے ۔ایسے میں فیس بک نے ادب اور اہل ادب کو بھی متاثر کیا ہے۔اردو ،ہندی اور ہندوستان کی دوسری زبانوں کے ادبا اور شعراکی بڑی جماعت فیس بک کا بہتر استعمال کررہی ہے۔بیرون ملک اردو ہندی کے ادبا اور شعرا سے ہم فیس بک کے ذریعے ہی متعارف ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ فیس بک ادبی تحقیق کے ایک نئے وسیلے کے طور پر ابھراہے۔لیکن کیا فیس بک پر پوسٹ کیاجانے والا ادب اپنے اندر وہی لطف،چاشنی اور صحت رکھتا ہے جو مطبوعہ کتب ورسائل اور اخبارات میں ملتی ہے ؟ اس سوال کا جوا ب تھوڑا مشکل ہے۔فیس بک کے ادب میں بہ نسبت مطبوعہ تخلیقات کے غلطیوں کا امکان زیادہ رہتاہے۔اس لئے کہ یہاں بسا اوقت بے احتیاطی راہ پاجاتی ہے۔یہاں کوئی ایڈیٹر نہیں ہوتاہے۔پھر یہ کہ فیس بک پر نہ مکمل کتاب پوسٹ کی جاسکتی ہے اور نہ ہی پڑھی جاسکتی ہے۔بعض دفعہ تو تمام پوسٹ کو دیکھ پانا بھی مشکل ہوتاہے۔اس کے باوجود ادب کے فروغ میں اس نے بڑا اہم رول اداکیا ہے۔
سوشل میڈیا ،خاص طور سے فیس بک کی بڑھتی اہمیت نے اہل سیاست کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔۲۰۱۴ میں ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات کے پیش نظر تو اس میں مزید تیزی آگئی ہے ۔اگلا وزیر اعظم کون ہوگا :مودی یا راہل؟اس طرح کے سینکڑوں پوسٹ ہماری نظر سے گذرتے ہیں ۔پھر اس پہ کمنٹ کا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔کوئی حمایت کرتا ہے اور کوئی مخالفت ۔لیکن جس بات کی طرف سے اہل دانش کو تشویش ہے وہ ہے کمنٹ کی زبان۔راہل یا مودی ،کانگریس یا بی جے پی کی حمایت و مخالفت میں جس طرح کی زبان استعمال کی جارہی ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھی یونیورسٹی ایسی کیوں نہیں ہے جو دنیا کی دو سو یونیورسٹیوں کی صف میں شامل کی جاسکے ۔خاص طور سے نیوز چینلوں کی خبری پوسٹ یا سوال پر جس طرح کی کمنٹ کی جارہی ہے اس کو پڑھنے کے بعد ایک مہذب آدمی شرم سے پانی پانی ہوجا تا ہے ۔اس قدر بے ہودہ مغلظات بکے جاتے ہیں کہ خداکی پناہ!مودی جی کے حمایتیوں نے تو گویا بے ہودہ زبان استعمال کرنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔پھر جواب اور جواب الجواب کا سلسلہ چلتا ہے ۔پھر ہندو مسلم مذاہب کی توہین کی جاتی ہے ۔جواب در جواب میں جس معقولیت اور معروضیت کا تقاضا کیا جاتا ہے فیس بک پر وہ ندارد ہے ۔دوستوں کی فہرست سے کسی بدتمیز کو تو ہٹایا جاسکتا ہے لیکن نیوز چینلوں کی پوسٹ سے کسی کمنٹ کو حذف کرنا عام آدمی کے بس میں نہیں ہے ۔اور نیوز چینل والے بے ہودہ زبان استعمال کی گئی کمنٹ کو اس وقت تک حذف نہیں کرتے جب تک اسکی شکایت نہ کی جائے۔شکایت کے بعد بھی اس کی ضمانت نہیں ہے کہ اسے حذف بھی کر دیا جائے گا ۔بے شمار فرضی ناموں سے بنائے گئے فیس بکی صفحوں کا بے دریغ غلط استعمال ہورہا ہے ۔جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے بھڑکاؤ پوسٹ کیے جارہے ہیں ۔انقلاب کے ایڈیٹر نارتھ جناب شکیل شمسی نے اس بات کی طرف پہلے بھی توجہ دلائی ہے۔ایسے میں نوجوانوں کو خاص طور سے ہشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔جذبات میں نہ آکر اور کسی بھی طرح کی بدتمیزی سے گریز کرتے ہوئے بھر پور معقولیت اور معروضیت سے ایسے ملک دشمن عناصر کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ورنہ فرقہ پرستی کی زہریلی سیا ست کرنے والوں نے ملک کو تباہ کرنے کا جو ایجنڈا بنا رکھا ہے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے ۔اس سلسلے میں فیس بک پر ’’مسلم برادر ہوڈ‘‘ نام کی کمیونٹی اگلے ماہ کی ۲۶ تاریخ کو فیس بک پرگندی زبان استعمال کرنے والوں کے خلاف ملک بھر میں پر امن مظاہرہ کرنے کا اہتمام کر رہی ہے ۔ایسے میں ہندوستانی نوجوانوں کو ملک میں امن و امان قائم رکھنے اور گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت کرتے ہوئے ہر زہریلی سیاست کا منہ توڑ جواب دینا ہوگا اور خود کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ نانک وچشتی کے عظیم ملک ہندوستان کے تعلیم یافتہ اور مہذب افراد ہیں ۔

طیب فرقانی 
ریسرچ اسکالر ،شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی 

Wednesday, 7 August 2013

دہلی پولیس کمشنر نیرج کمار کے نام کھلا خط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراسلہ [روزنامہ انقلاب میں شائع شدہ]

دہلی پولیس کمشنر نیرج کمار کے نام کھلا خط
کمشنر صاحب آپ ہمارے ملک کی راجدھانی دہلی کے پولیس کمشنر ہیں ۔چوں کہ آپ بلاواسطہ مرکزی حکومت کے ماتحت ہیں اس لئے آپ کا عہدہ بہت بڑا ہے اور آپ کی ذمہ داری بھی بڑی ہے ۔اوور یہ بھی سچ ہے کہ آپ اور آپ جیسے سارے افسران کو جو تنخواہیں ملتی ہیں وہ ہم ہندوستانیوں کے ٹیکس کی جمع پونجی ہوتی ہیں ۔اس لئے بھی آپ پر اورآپ جیسے افسران پر عظیم ذمہ داریا ں عائد ہوتی ہیں ۔پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ مسلم علاقے جامعہ نگر سے ایک مدرسے کا طالب علم(مثال کے طور پر عبدالملک چودھری) اٹھا لیا جاتا ہے ،اس سے پاکستان ،طالبان اور دہشت گردوں سے رابطے کے بارے میں سوال کیا جاتاہے ،دھمکیاں دی جاتی ہیں اور دن بھر بندی بنائے رکھا جاتا ہے اور آپ کی پولیس کہتی ہے کہ اسے کچھ نہیں معلوم؟جب کہ آپ کی ’’اپنی انٹیلی جنس‘‘پاکستان سے بازآباد کاری کے لئے آرہے لیاقت علی کا پتا لگا لیتی ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ دہلی میں بلکہ پورے ملک میں وہ ہورہا ہے جو آپ کی ذمہ داریوں کے سراسر خلاف ہے۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ آپ کی انٹیلی جنس کو یہ پتا ہوتا ہے کہ لیاقت علی بڑی واردات انجام دینے پاکستان سے چل چکا ہے لیکن یہ پتا نہیں ہوتا کہ دہلی کے ایک گیسٹ ہاؤس میں اے۔کے ۵۶ اور ہتھ گولے رکھے جاچکے ہیں ،اور لیاقت علی کے بیان پر ہی آپ کو پتا چلتاہے کہ ایساہوچکا ہے۔یہ بھی عجیب بات نہیں ہے کہ لیاقت علی کے سلسلے میں کشمیر پولیس آپ کے مطابق جھوٹ بول رہی ہے اور آپ کی ’’اپنی انٹیلی جنس‘‘ کی خبریں بڑی پکی ہیں ؟جس پر آپ مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں ۔اور اس پر کیا کہا جائے کہ پاکستان سے ایک ’’خطرناک دہشت گرد‘‘ آتاہے اور اپنے ساتھ جوکچھ لاتا ہے وہ ہتھیار نہیں بیوی اور بچے ہیں ،اور اپنے آنے سے قبل جو چند ہتھیار ایک مقام پر رکھوا دیتا ہے اس سے آپ اور آپ کی انٹیلی جنس بے خبر رہتی ہے؟۔وہ ہتھیار کہاں سے آئے کون لایا اور رکھ کر کہاں غائب ہوگیا اس سے بھی آپ بے خبر ہیں ۔ہتھیار کی خبر آپ کو لیاقت علی کے بتانے پر ہی کیوں ملتی ہے ؟آپ کی انٹیلی جنس کی کچھ تو ذمہ داریاں ہیں ؟۔کیا یہ اہل وطن سے ناانصافی نہیں ہے کہ مسلسل ایک خاص طبقے کو نشانہ بنا کر جھوٹی گرفتاریوں کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے؟۔اگر میں یہ سوال پوچھنے کی جرء ات کروں کہ ہندوستانی نوجوانوں کے ساتھ ناانصافی کا یہ سلسلہ کب تک چلے گا تو کہیں مجھے بھی تو گرفتار نہیں کرلیا جا ئیگا ؟ ۔آپ سے گزارش ہے کہ قصور واروں کو ضرور سزادیں مگر بے قصوروں پھنسانا ،انہیں پریشان کرنا اور اپنے عہدے کا غلط استعمال کرنا بند کریں ۔کیوں کہ خنجر کی زبان کو آپ خاموش رکھیں گے تو آستیں کا لہو ضرور پکارے گا۔

طیب فرقانی
ریسرچ اسکالرشعبہ اردو ،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی۲۵

Tuesday, 6 August 2013

مراسلہ [روزنامہ انقلاب میں شائع شدہ]

مکرمی!
بے گناہ مسلم نوجوانوں کی رہائی اور انصاف کے معاملے کو لے کر ہندوستان کی مسلم و غیر مسلم لیڈر شپ کی جد و جہد میں تیزی آرہی ہے ۔یہ خوش آئند بات ہے۔لوک جن شکتی پارٹی کے کارکن امانت اللہ خاں بٹلہ ہاؤس میں غیر معینہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں ۔اور لوگ ان سے جڑتے جا رہے ہیں۔یہ مسئلہ ہی ایسا کہ اسے سنجیدگی سے لیا جاناچاہیے۔یہ ہندوستان کے شہریوں کا مسئلہ ہے۔سیکولر ملک کے قانون کا مسئلہ ہے ۔ظالم اور مظلوم کا مسئلہ ہے ۔
اس سلسلے میں ہر انصاف پسند کا یہی مطالبہ ہے کہ دہشت گردی کے الزام میں بند نوجوانوں کے مقدموں کی سماعت کے لئے فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم ہوں اور مقدموں کو جلد از جلد نپٹایا جائے ۔جو بے گناہ مسلم نوجوان اب تک رہا ہو چکے ہیں اور جو آئندہ ہوں گے ان کی باز آباد کاری کا اہتمام کیا جائے۔اس سلسلے کی سب سے اہم کڑی ہے،غلط طریقے سے بے گناہوں کو جیل بھیجنے والے پولیس افسروں اور ایجنسیوں کے خلاف کاروائی ۔بلکہ حکومت اس کے لئے قانونی شق بھی تیار کرے کہ جو پولیس افسر آئندہ بھی اس قسم کی غیر قانونی سر گر می میں ملوث ہوں گے ان کے خلاف دہشت گردی کے تحت ہی مقدمہ چلایا جائے گا۔ہم ہندوستانی شہری حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے آئین کی پاسداری کرے اور مظلوم کے لئے انصاف کو سہل حصول بنائے۔
طیب فرقانی
رسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی۲۵ 

مراسلہ [روزنامہ انقلاب میں شائع شدہ]

مکرمی!
مذہبی جذبات اتنے حساس بنا دئیے گئے ہیں کہ ہر کوئی اس کی آڑ میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے ۔سرحد پار پاکستانی مفاد پرست سیاست دانوں اور سر حد کے اس پار بی جے پی ،دونوں نے اپنے سیاسی مفاد کی خاطر ہندو مسلمان کے جذبات کو کھلونا بنا کر رکھ دیا ہے ۔اب افضل گرو کا معاملہ ہی لے لیجئے۔پاکستان خود مسلکی اور مذہبی جنونیت کا شکا رہے ۔آئے دن بم دھماکے،خونریزیاں اور تشدد نے پاکستان کی جڑیں ہلاکر رکھ دی ہے۔اس کے باوجود عوام کے جذبات کا غلط فائدہ اٹھاکر ووٹ بٹورنے اور اپنی ناکامیاں چھپانے کی خاطر پاکستانی پارلیمنٹ نے افضل گرو کے معاملے میں قرار داد پاس کر ڈالا۔پاکستانی عوام کو پاکستانی پارلیمنٹ سے سوال کرنا چاہیے کہ پاکستان اس قرارداد سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے ۔سوائے نقصان کے پاکستان کو کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔دونوں ملکوں کے آپسی تعلقات خراب ہوں گے،پاکستان کی بدنامی ہوگی،جنونیت اور تشدد کو بڑھاوا ملے گا ،جو خود پاکستانیوں کو ہی نہیں جھیلنا ہوگا بلکہ اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔شکیل شمشی صاحب کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ پاکستان افضل گرو کی بات تو کہہ رہا ہے لیکن اس نے آج تک ان پانچ پاکستانی دہشت گردوں کی لاش کے بارے میں کوئی سوال نہیں اٹھایا جو ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے کے دوران مارے گئے تھے۔افضل گرو تو ہندوستانی تھا۔
ایسی ہی اندھی ،غیر معقول اور جذباتی سیاست ہندوستان میں بی جے پی کرتی آئی ہے اور کر رہی ہے۔جان سب کی برابر ہے ۔ہندو ہو یا مسلمان۔بے قصور مارا جائے گا توتمام عالم انسانیت کا نقصان ہے۔اور ہر انصاف پسند انسان اس کے غم میں برابر کا شریک ہے ۔ہمارے ملک کی حفاظت پر مامور بہادر جوان ملک کے کسی بھی کونے میں کسی بھی طرح سے مارے جائیں ،چاہے پاکستانیوں کے ہاتھوں یا نکسلیوں کے ہاتھوں،ان کا خون برابر ہے۔ان پر سیاست نہیں ان کو انصاف دلانے کی بات کی جانی چاہئے۔مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بات کی جانی چاہئے ۔موت پر سیاست کرنا انسانیت کا بحران ہے۔ایسی مفاد پرست سیاست کو عوام مسترد کر ے گی۔
طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۲۵

کہانی

آٹھ رکعتیں جیسے ہی مکمل ہوئیں وہ اگلی صف سے اٹھا اور تیزی سے پیچھے آنے کی کوشش کی ۔لوگوں نے اسے گھور کر دیکھا۔اور تسبیح پڑھتے ہوئے ایک بولا "تھک گیا کیا؟"
دوسرا"گرمی بہت ہورہی ہے پیاس لگ رہی ہوگی"
تیسرا"آج کل نوجوانوں کا حال بہت برا ہے ۔تھوڑی پڑھیں گے پھر اٹھ کے بھاگ لیں گے "
چوتھا "ارے بڈھا ہوگیا کیا ۔جوان بن جوان "
پانچواں "اہل حدیث ہوگا۔یہ لوگ بھی نا۔بیچ بیچ میں سے اٹھ کے بھاگنے کی نئی نکالی ہے"
غرض کہ بہت سی باتیں لوگ سوچ رہے تھے ۔وہ آج کھانا کھا کر تراویح کی نماز پڑھنے آیا تھا۔اس نے کسی کی پرواہ نہیں کی ۔ضرورت بھی نہیں تھی ۔لوگ اس کے کان میں تھوڑی کہہ رہے تھے ۔ویسے بھی اسے جلدی تھی وہ تیزی سے نکلا چلا گیا اور وضو خانے میں گھس گیا۔بیس رکعتِیں تراویح اور وتر وغیرہ پڑھ کر لوگ نکلے تو اسے بھی مسجد سے نکلتے دیکھا  ۔سوچنے لگے 'یہ تو بیچ تراویح سے ہی اٹھ کر بھاگ گیا تھا پھر سوچا ارے چھوڑو یار بھاگا ہوگا ہمیں کیا؟

Sunday, 4 August 2013

دہلی میں بس کا ایک سفر


بس ایسا لفظ ہے جو کئی معنوں میں مستعمل ہے ۔ایک طاقت و قوت کے معنی میں ،جسے ہندی میں’’ وش‘‘ کہا جاتا ہے۔جیسے طلبا اکثر کہتے ہیں ’’میرا بس چلے تومیں ایسے سارے ٹیچروں کو نکال باہر کروں جو پابندی سے کلا س نہیں لیتے اور طلبا کے مستقبل سے کھلواڑ کرتے ہیں اور جو موضوع پر کلاسوں میں گفتگو نہیں کرتے ۔اسی طرح لفظ بس کی تکرار سے خاموش ہوجانے یا کسی کام سے روکنے کا معنی پیدا ہوتا ہے جیسے کوئی چڑچڑی بیوی اپنے شوہر سے اکثرکہا کرتی ہے ’’بس بس بہت ہوگیا ۔اب اگر آپ نے کچھ کہا تو مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا لوں گی ہاں!‘‘۔ایک بس وہ ہوتی ہے جس سے ہم سفر کرتے ہیں ۔کبھی سیٹ پر بیٹھ کر ،سیٹ نہ ملے تو کھڑے ہوکراور کھڑے ہونے کی جگہ نہ ملے تو لٹک کر ۔گاؤں دیہات میں تو بس کی چھت پر بیٹھنے کا اپنا ایک الگ ہی مزا ہے۔
اس بس کی تکرار کے بجائے اگر ٹکرار ہوجائے یعنی دو بسیں پہلوانوں کی طرح آمنے سامنے آجائیں تو سب سے زیادہ نقصان حکومت وقت کا ہوتا ہے ۔اس کے خزانے سے کم سے کم دوچار لاکھ کی رقم تو کم ہوہی جاتی ہے ۔حادثے میں جو بالکل مر جائیں ان کو پچاس پچاس ہزار اور جو تھوڑا بہت مریں ان کو پچیس پچیس ہزار روپے دینے کا اعلان۔اور یہ رقم بھی کم جان لیوا نہیں ہوتی ہے ۔زندہ لوگوں تک پہنچتے پہنچتے نہ جانے کتنے ضمیروں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے ۔
آج کل دہلی کی بسیں اپنے شباب پر ہیں ،سرخ روشن پیشانی اور سبز و سرخ لبادہ اوڑھے یہ بسیں کبھی کبھی تو جوانی کی حقیقی آگ میں واقعی جھلس جاتی ہیں ۔(دہلی میں سفر کرتے وقت استاد محترم پروفیسر خالد محمود کی یہ بات ہمیشہ یا د رکھتا ہوں کہ کسی کو تم نہ ٹکر مار دو اور کوئی تمہیں نہ ٹکر مار دے)
ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اس کی پہچان ہے ۔اور میرے خیال میں اس کا سب سے بڑا مظاہرہ دہلی کی بسوں میں ہوتا ہے ۔بیک وقت کم سے کم چار صوبوں بہار،یوپی ،ہریانہ اور دہلی کے لوگ اپنی اپنی بھاشا اور تہذیب کے ساتھ ضرور سفر کرتے ہیں ۔ان بسوں میں مختلف قسم کی ’’بھاشا مشرن‘‘ دیکھ کر افضل کی بکٹ کہانی کی زبان یاد آجاتی ہے ۔ایک دن میں پنجابی باغ سے مہارانی باغ کے لئے بس میں سوار ہوا۔دروازے کی پاس والی سیٹ پر ایک موٹی سی عورت براجمان تھی اور بھیڑ کی وجہ سے دروازہ بالکل جام ہوگیا تھا۔عورت نے اپنے سامنے کھڑے ہوئے لڑکے سے کہا’’ارے ہٹ جا مجھے اترنا ہے‘‘۔لڑکا بولا ’’مجھے بھی اترنی ہے‘‘۔موٹی عورت پر ایک پرانا لطیفہ یاد آیا :ایک تھے نتھو رام جی ۔بیڑی بڑی کثرت سے پیتے تھے اور وقت و مقام کا انھیں خیال نہیں رہتا تھا کہ وہ کب اور کہا ں بیڑی دھونک رہے ہیں ۔ایک دفعہ بس میں بھی شروع ہوگئے ۔پاس ہی ایک عورت اپنے چھ سات ننھے منے بچوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔نتھو رام جی کی بیڑی کا دھواں اسے ناگوار گزرا اور اس نے ٹن ٹنا کر اعتراض کردیا ۔’’شرم نہیں آتی سامنے لکھا ہوا ہے No Smoking اور تم بیٹھے بیڑی دھونکے جارہے ہو۔پھینکو اسے بس کے باہر‘‘۔لیکن نتھو رام جی اطمینان سے بیڑی پیتے رہے اور آہستہ سے سر گھماکر بولے ’’میڈم آپ نے یہ تو پڑھ لیا No Smoking مگر آپ کو یہ نہیں دکھتا ہے ’’بچے دو ہی اچھے ،چھوٹا پریوار سکھی پریوار‘‘۔آپ اپنے زائد بچوں کو اٹھا کر بس کے باہر پھینک دیجئے میں بیڑی پھینکے دیتا ہوں ‘‘۔
دہلی کی بسوں میں روز کوئی نہ کوئی نیا مسافر ضرور سفر کرتا ہے ۔اس کے نئے ہونے کا پتہ تب چلتا ہے جب وہ بار بار آپ سے پوچھتا ہے ’’فلاں اسٹاپ کتنی دور ہے ۔کتنے نمبر کی بس وہاں جاتی ہے ؟‘‘لیکن میرے ساتھ اس دن بڑے عجیب حادثے ہوئے ۔میری بغل والی سیٹ پر ایک ایسا آدمی بیٹھا ہوا تھا جس نے پنجابی باغ سے مہارانی باغ تک کوئی اسٹاپ ایسا نہ چھوڑا ہوگا جب اس نے مجھ سے ’’سمے‘‘ نہ پوچھا ہو۔’کتنا سمے ہوا بھائی ؟‘ میں بتا بتا کر تھک گیا وہ پوچھتے پوچھتے نہیں تھکا ۔ایک وقت خیال آیا کہ گھڑی اتار کر اس کو تھما دوں لیکن چوں کہ نقصان اپنا ہی تھا اس لئے خاموش رہا ۔دہلی کی بسوں میں لیڈیز سیٹیں ریزرو ہوتی ہیں ۔(اب ۲۵ فیصد سے بڑھ کر ۳۵ فیصد ہوگئیں ہیں )ایسے میں خواتین کو یہ اختیا ر ہوتا ہے کہ اگر کوئی مرد ان کی سیٹ پر بیٹھا ہو تو اسے ’’اکھاڑ ‘‘ پھنکیں ۔اس دن میں نے مردوں کی سیٹ پر ایک خاتون کو بیٹھے ہوئے دیکھا اور اس کشمکش میں پڑگیا کہ انھیں اٹھا ؤں یا نہ اٹھاؤں ۔اٹھاؤں نہ اٹھاؤں ۔پھر یہ سوچ کر دل کو مطمئن کرلیا کہ ’’ناری سمان‘‘ہمارا اخلاقی فریضہ ہے ۔لیکن دوسرے دن لیڈیز سیٹ خالی پا کر اس پس وپیش میں پڑگیا کہ بیٹھوں یا کھڑا رہوں ۔بیٹھتا ہوں اور کوئی خاتون بعد میں اٹھادے تو توہین اور سیٹ خالی ہوتے ہوئے بھی کھڑا رہوں تو حماقت۔اسی ادھیڑبن میں تھا کہ جیسے پیچھے سے کسی نے کہا ’’آج سنڈے ہے ،آج کے دن لیڈیز کم سفر کرتی ہیں ۔بیٹھ جاؤ‘‘ ۔اور میں دھم سے ایسے بیٹھ گیا جیسے سیٹ بھاگی جا رہی ہو۔اور اپنی آنکھیں بند کرلیں اور سونے کا ناٹک کرنے لگا کہ اگر کوئی خاتون آبھی جائے تو سوتا ہوا سمجھ کر نہ اٹھائے ۔لیکن اس وقت مجھے بڑا افسوس ہوا جب ایک نوجوان نے اپنی سیٹ ایک پری رو کے لئے قربان کردی ۔میں افسوس سے ہاتھ مل رہا تھا کہ باہر سے ایک کارڈ میرے ہاتھوں میں آکر گرا ۔یہ کوئی بنگالی بابا کا وزیٹنگ کاردڈتھا جس پر کچھ دعوے تحریر تھے ۔ان میں سے ایک یہ تھا کہ کسی کو بس میں کرنے کے لئے ہم سے رابطہ کریں ۔اور میں یہ نہیں سمجھ پایا کہ یہ ’’بس‘‘ کس معنی میں مستعمل ہوا ہے ۔اتنے میں بس اسٹاپ آگیا اور میں اتر گیا۔

طیب فرقانی 
ریسرچ اسکالر ،شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی





روزنامہ قومی سلامتی دہلی میں شائع شدہ انشائیہ کی تصویر اور لنک یہاں دی جا رہی ہے اس کے علاوہ اردو نیٹ جاپان کی لنک نیچے موجود ہے



سرخی شامل کریں