Monday, 29 July 2019



’شب انتظار گزری ہے‘ : دیہی زندگی کے مسائل بیان کرتا ایک ناول


طیب فرقانی 




’شب انتظار گزری ہے‘ : دیہی زندگی کے مسائل بیان کرتا ایک ناول


ڈاکٹر انوار الحق ہندوستان میں نئی نسل کے ادبی حلقوں کی معروف شخصیت ہیں ۔بہار کے ضلع مظفرپور سے تعلق رکھتے ہیں۔ فی الحال ڈائنامک انگلش ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں انگریزی معلم کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔غریب اور نادار بچوں کی مفت تعلیم و تربیت کے لیے فلاحی ادارے” دی ونگس فاؤنڈیشن“ کے بانی ہیں ۔ان کاانگریزی ناول” دی لانگ ویٹ ©“کا اڑیازبان میں ترجمہ پہلے ہی ہوچکا ہے۔
۸۱۰۲ میں اس ناول کا کامیاب اردو ترجمہ بھی منظر عام پر آیا ۔ترجمہ وسیم احمد علیمی نے کیاجو شعبہء اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اس وقت ایم اے کے طالب علم ہیں ۔زمانہ طالب علمی سے ہی ان کو ترجمہ نگاری سے نہایت شغف ہے اور اس ناول کے ترجمہ کے علاوہ انہوں نے بوکر ٹی واشنگٹن کی خود نوشت(Up from slavery to the White House) ”اپ فرام سلیوری ٹو دی وائٹ ہاو ¿س “کے تیسرے باب ”دی اسٹرگل فا ر این ایجوکیشن “ کا ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ کئی انگریزی افسانوں کا ترجمہ بھی کیا ہے ۔ترجمہ نگار وسیم احمد علیمی سے بڑی امیدیں ہیں ۔وہ کم عمری میں بڑے کام کرنے کی طرف گامزن ہیں ۔ انھوں نے محنت سے یہ کام کیا ہے ۔ مختلف ثقافتی ، ادبی اور علمی سرگرمیوں میںپیش پیش رہتے ہیں ۔ بی اے کے دوران ہی کسی ناول کا ترجمہ ان کے بہتر مستقبل کا اشاریہ ہے۔ اور اس کام کے لئے انھیں یقینا سراہا جانا چاہئے ۔ ان کے استاد ڈاکٹر سید تنویر حسین نے ان کے اس کام کو سراہا بھی ہے۔ ترجمہ اچھا ہے ۔ رواں دواں ہے ۔ دیہاتی لہجے کو ابھارنے کے لئے کئی مقام پر ترجمہ نگار نے تلفظ کو بگاڑ کر دیہاتی تلفظ دکھانے کی کوشش کی ہے ۔ جیسے فکر کو پھکر ،آفت کو آپھت اور خوب صور ت کو کھبسورت وغیرہ ۔ ناول کا حجم اتنا ہے کہ آپ اسے ایک نششت میں پڑھ سکتے ہیں ۔ طباعت اچھی ہے ۔ اچھے کاغذ پہ شائع کیا گیا ہے ۔ کمپوزنگ کی غلطیاں نہ کے برابر ہیں ۔ پروف ریڈنگ اچھے سے کی گئی ہے ۔ ناول قابل مطالعہ ہے ۔ اور مصنف و ترجمہ نگار دونوں ہی مبارک باد کے مستحق ہیں۔
یہ ناول ہندوستان کے دیہی نچلے متوسط طبقے کے ایسے مسلمان گھرانوں کی کہانی پر مشتمل ہے جن کوآزادیءہند کے وقت اعلا خاندان تسلیم کیا جاتا تھا ۔بنگلہ دیش بننے سے بہاری مسلمانوں کو جن اذیتوں سے گزرنا پڑا ناول اس کی جھلکیاں پیش کرتا ہوا نظرا ٓتا ہے۔ ناول نگار کو قرة العین حیدر کی تحریروں سے خاصا شغف رہا ہے اور انھوں نے قرة العین حیدر کی غیر افسانوی نثر پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ اس لیے مان کر چلنا چاہیے کہ انھوں نے ’وقت ‘کے تصور کو گہرائی سے سمجھا ہوگا ۔ اور اس کا اچھا خاصا اثر ان کے ناول پر دکھائی دیتا ہے ۔ وقت انسانی کرداروںکو کس طرح بدل کر رکھ دیتا ہے اور ان کے جذبات و احساسات پر کس طرح حاوی ہوجاتا ہے اس کی ایک مثال اس ناول میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ وقت بڑے بڑے زخموں پہ مرحم بھی رکھ دیتا ہے اور نہ جانے کتنے زخموں کو پیدا کرتا ہے اور نہ جانے کتنے زخموں کو یوں ہی ہراچھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے ۔ اس ناول کے کرداروں کی زندگی میں وقت بے رحم دریا کی طرح بہتا رہتا ہے ۔ کبھی اپنی نرمی اور ملائمت کی چادر ان کرداروں کی زندگی پر ڈال دیتا ہے تو کبھی نرم اور ملائم چادروں کو بہا کر لے جاتا ہے ۔ ناول کی ابتدا میں ترجمہ نگار نے خلیل جبران کے ناول ’ شکستہ پر‘ کا ایک اقتباس پیش کیا ہے جو وقت کی تبدیلی کو بیان کرتاہے ۔ یہ اقتباس بامعنی ہے ۔ اور درست مقام پہ پیش کیا گیا ہے ۔

کہانی ایک دیہاتی معذور مسلم لڑکی کے آس پاس گردش کرتی ہے جس کا نام رانی ہے ۔ ہندوستانی صوبہ بہار کے ضلع مظفرپور اور اس کے اطراف کی اس کہانی کا مرکزی کردار رانی ہے جو اپنے نام کے معنی کے برخلاف ایک پولیو زدہ معذور لڑکی ہے ۔ جس نے زندگی میں غربت کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ۔ لیکن اس نے اپنی غربت زدہ زندگی سے نکلنے کی کوئی بھرپور کوشش کبھی نہیں کی ۔ بس وقت نے کبھی اس کا ساتھ دیا کبھی اس سے منہ موڑ کر آگے نکل گیا ۔ اس نے اپنی زندگی کی آرزوﺅں میں گزاری ۔ کبھی یہ آرزو کہ کوئی نیک سیرت شخص آئے اوراس کی معذوری کی پرواہ کیے بغیر اس کو بیا ہ کر لے جائے ۔ کبھی یہ آرزو کہ اس کی جیٹھانی اس کے برے وقت میں کام آئے اور کبھی یہ آرزو کہ اس کا بیٹا پروفیسر بن جائے ۔ پہلی آرزو پوری ہوتی ہے جب کہ دوسری اور تیسری آرزو پوری ہونے سے قبل وہ تپ دق کا لقمہ بن جاتی ہے ۔ کہانی کا آغاز رانی کے بچپن سے ہوتا ہے ۔ وہ نہر کے کنارے اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی ہوتی ہے ۔ اور اس کی چپل نہر میں گرجاتی ہے ۔ وہ ہزار کوششوں کے باوجود نہر سے اپنی گلابی رنگ کی نئی چپل خود سے نہیں نکال پاتی ۔تب اسے کوئی سہیلی چپل نکا ل کر دیتی ہے ۔ ناول میںیہ اس کی پہلی ناکام کوشش تھی ۔اقتباس ملاحظہ کریں:
”ناتواں قدموں سے اپنی چپل پر قابو پانے کی کوشش میں اس نے اپنا توازن کھو دیا۔اس کی چپل پیروں سے آزاد ہوکر نہر میں جا گری جہاں اس کی نگاہیں اس ہچکولے کھاتے چپل کو دیکھ سکتی تھیں ، وہ ایک بے نیاز سی لڑکی تھی ، اس نے اپنی سہیلیوں کی مدد کے بغیر ہی چپل باہر نکالنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔۔۔جب ایک لڑکی نے اس کو نہر کی جانب لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا تو دوسری لڑکیوں کے ہمراہ شور مچاتی ہوئی اس کی طرف لپکی ،ایک نے اس کو کھینچ کر باندھ پر لا کھڑ اکیا ،دوسری وہیں پڑی ایک لکڑی کی مدد سے اس کی گلابی چپل کو باہر لے آئی “۔
(شب انتظار گزری ہے ،ص۵۲،۶۲)
دوسری کوشش وہ تب کرتی ہے جب اسے سسرال میں اپنے سسر کی نصیحتوں پہ عمل کرتے ہوئے خاندان کی شیرازہ بندی کرنی ہوتی ہے اور اس کوشش میں وہ کامیاب ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ زندگی سے لڑکر زندگی کو اپنے موافق بنانے کی کوشش کرتے ہوئے اسے کسی مقام پر نہیں دکھایا گیا ہے ۔اس کی پوری زندگی میں وقت اور حالات یا تو اس کے مخالف رہتے ہیں یا اس کے موافق ۔ ناول میں تعلیم نسواں کا موضوع بھی ڈھونڈا جاسکتا ہے ۔رانی کا باپ اپنی بیٹی کو تعلیم دلوانے کے بجائے اس کی شادی کی فکر زیادہ کرتا ہے ۔
ناول کی کہانی کا زمانہ بیسویں صدی کی ساتویں دہائی سے شروع ہوتا ہے اور تقریبا تین نسلوں کی کہانی بیان کرتا ہے ۔ بین السطور سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف اسے کس زمانے میں لکھ رہا ہے ۔ کیوں کہ ناول نگار واقعات بیان کرتے ہوئے زمانے کی وضاحت بھی کرتا جاتا ہے ۔ مثلا وہ کہتا ہے کہ اُس زمانے میں فون کی سہولت نہیں تھی یا اُس زمانے میں سفر مشکل ہوا کرتا تھا وغیرہ ۔ یہ ناول روشن خیال اور ترقی پسند مصنف کی تخلیق ہے ۔وہ رانی کو مرکزمیں رکھ کر مختلف سماجی ، سیاسی ، تہذیبی ، مذہبی ، معاشی او ر اخلاقی مسائل کو کریدنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس کوشش میں کہانی اکثر اپنے ڈگر سے بھٹک جاتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ خاص واقعات کو اپنے اظہار خیال کے لئے مصنف نے تختہ مشق بنایا ہے ۔ حالاں کہ ان موضوعات و مسائل کی سنجیدگی اور سنگینی سے انکار ممکن نہیں ہے۔ لیکن ان مسائل کو ٹھیک طرح سے ناول میں گوتھا نہیں گیا ہے ۔ یا پھر انھیں ادھورا چھوڑ دیا گیا ہے ۔ اسی وجہ سے ناول کے اختتام تک یہ اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کہانی کہاں پر جاکر ختم ہوگی ۔ رانی کے کھیل سے کہانی شروع ہوتی ہے ۔ پھر اس کے باپ کے جیل چلے جانے کی بات شروع ہوتی ہے ۔ پھر اس کے بھائی کے مدرسے چلے جانے کی بات شروع ہوجاتی ہے ۔ یہاں مصنف نے مدرسہ میں مولوی حضرات کی جنسی بے راہ روی کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ مدرسوں میں اغلام بازی کی قبیح کرتوتوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور بچوں کی ذہنی و فکری اور نفسیاتی پیش کش اس حصے کو ناول کا بہترین حصہ بناتا ہے ۔ اور ایسا لگتا ہے کہ ناول نگار رانی کے بھائی کو مرکزی کردار میں ڈھالنا چاہتا ہے ۔ تبھی کہانی کا رخ رانی کی شادی کی طرف پھیر دیاجاتاہے ۔ یہ صرف ایک مثال ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ناول نگار واقعات کو بننے کی کوشش تو کرتا ہے لیکن وہ کڑیوں کو کبھی بڑھادیتا ہے یا کبھی گھٹا دیتا ہے ۔
مدرسوں میں اغلام بازی کی قباحت پہ بات کرنے والی کوئی تحریر اس سے پہلے میری نظر سے نہیں گزری ۔ یہ ایک سنجیدہ موضوع اور مسئلہ ہے ۔ مصنف اپنی تمام تر روشن خیالی کے ساتھ اس باب میں بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے قلم کے شہوار کو رفتار دیتا ہے ۔ رانی کا بھائی آخر کار اسی قبیح عمل کا شکار ہوکر مدرسے کی تعلیم سے متنفر ہوجاتا ہے ۔ اور پھر کبھی تعلیم گاہ کی صورت تک دیکھنا گوارا نہیں کرتا ۔ اس کی جہالت کا ذمہ دار وہ طبقہ اشرافیہ ہے جسے مسلم سماج کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری دی گئی ہے ۔
اس کے علاوہ ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزام میں پھنسائے جانے کے بے شمار واقعات نے پچھلی کچھ دہائیوں میں مسلمانوں کو سماجی اور معاشی سطح پر ایسا ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جس کاکرب ناک بیان ایک الگ موضوع کا تقاضا کرتا ہے ۔ مصنف ناول کے اختتام پہ ایسے ہی ایک کردارسے متعارف کراتا ہے ۔اور دکھا تا ہے کہ کس طرح ایسے ایک نوجوان کی زندگی برباد ہوجاتی ہے جس کی ماں کو بھیک مانگنا پڑتا ہے ۔ناانصافی کے اس منظر پہ رک کرمصنف نے اپنے کردار کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ ذہن کو جھنجھوڑ نے کے لئے کافی ہے۔ لیکن یہ واقعہ کہانی میں اچانک نمودار ہوتا ہے ۔ اسے ناول کے علت و معلول سے عمدہ مناسبت نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ ناول بہار کے متوسط طبقے کے خاندانی اور خانگی جھگڑوں کو بھی پیش کرتا ہے ۔ رانی کے مائکے اور سسرال دونوں ہی خاندان کو آپسی رنجش اور سازشوں میں ملوث دکھایا گیا ہے ۔اور پھر تھک ہار کر ایک ہوتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے ۔ یہ وقت کے دریا کے زیر اثر وقوع پذیر ہونے والے ان سچے واقعات میں سے ہیںجن کا سامنا ہندوستانی مسلمان کرتے رہتے ہیں :
”حامد کے پاس خاصی زمین تھی جس سے غلے اگا کر وہ اپنے بال بچوں کی پر ورش کر سکتا تھا،جب تینوں بھائیوں میں جائیداد کا بٹوارہ ہوا تو حامدکے بڑے بھائی راشد نے اپنے حق سے زیادہ زمین پر قبضہ جمانے کی کوشش کی ۔ نتیجتاََ دوسرے بھائیوں نے اس کی لالچ کی مخالفت شروع کر دی ۔ یہیں سے ان کے درمیاں قانونی جنگ کی بنیاد پڑی ۔بہت جلد اس معاملے کو عزت و دستار کا رنگ دے دیا گیا اور دن بہ دن تینوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے در پے ہو گئے ۔رفتہ رفتہ ان کی توجہ معاشی زندگی اور بچوں کی تعلیم و تربیت سے ہٹ کر اسی قانونی جنگ پر مرکوز ہو گئی ۔ اس طرح کی جنگ عموماََ ان متوسط طبقوں کے خاندانوں میں نسلاََ بعد نسل چلی آرہی تھی “۔
(شب انتظار گزری ہے ۔ص۴۳)
اس طرح ناول کئی ٹکڑوں میں بٹاہوا نظر آتا ہے ۔ مسائل و موضوعات اگرچہ بہت سنجیدہ اور سنگین ہیں لیکن ناول نگار ان کو سجانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوا ہے ۔ ان برے لوگوں میں ایک اچھا آدمی اور مثالی آدمی بھی ہوتا ہے ۔ جیسے پریم چند کے ناولوں میں ہوتا ہے ۔ وہ ہے رانی کا سسر ۔ رانی کا سسر ہر اعتبار سے ایک مکمل اور مثالی کردار ہے ۔ وہ اپنے بیٹے کے لئے ایک معذور لڑکی کو پسند کرتا ہے ۔ اور اس عمل کو اپنے عمل خیر میں شامل کرتا ہے ۔ اس کی موت پہ ایک پنڈت اس کی لاش کو گھر پہنچانے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور ناول نگار یہاں گنگا جمنی تہذیب کو ابھارنے کی کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ کسی حد تک رانی کا شوہر بھی ایک مثالی کردار ہے لیکن ناول کے اختتام سے ٹھیک قبل وہ اپنی تمام مثالیت کو طاق پہ رکھ کر انسان بن جاتا ہے ۔ رانی کے کردار کو بھی مثالی بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس میں کسی طرح کی کوئی برائی نہیں ہے ۔ وہ ایک وفا شعار بیٹی ، بیوی ، بہو اور مشفق ماں کی زندگی گزار کر اس دنیا سے چلی جاتی ہے ۔قاری کی امیدکے مطابق ناول کو اس کی موت پہ ختم ہوجانا چاہئے تھا لیکن ناول رانی کی موت کے بعد بھی اپنی کہانی میں کچھ نئے واقعات شامل کرلیتا ہے ۔ اس طرح ناول نگار نے مثالیت اور عینیت دونوں سے کام لیا ہے ۔ناول میں تمام کردار ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور کہانی کی بنت بھی فکشن کے تقاضوں کو پورا کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ترجمہ میں اردو فکشن کی زبان کا خیال رکھا گیا ہے اور زبان کو افسانوی انداز میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔ اقتباس ملاحظہ کریں :
”مشترکہ فیملی کے ساتھ رانی کی دس سالہ زندگی ہو یا فیملی سے علحدہ ہو کر سالوں سال کی زندگی ،رانی کو اپنی زندگی میں ہمیشہ پر خار وادیوں سے گزرنا پڑا۔ خوشی ہو یا غم ،وقت کا قافلہ تو ہمیشہ گزر ہی جاتاہے ۔ اس سے کیا فرق پڑتاہے کہ جب آپ ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھیں تو آپ کو یادوں کا ایک ہرا بھرا گلشن نظر آئے یا خوف و ہراس کا ایک عالم ؟ ماضی تو ماضی ہی ہوتاہے “۔
(شب انتظار گزری ہے ،ص۲۴۱)
(Living in a joint family for ten years and living
separately for many years was full of thorns for
Rani. The time passed as it always passes; it doesn’t
matter whether it leaves good memories for you or it
horrifies you when you look back.)
[long Wait, Chapter Fifteen, pg 109]
کہانی کے کچھ کردار اور مقام کو ڈی کوڈ کرنا آسان ہے ۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ ناول نگار نے اپنے آس پاس کے کچھ کرداروں کے ناموں کو بدل کر اور کچھ واقعات کو جوڑ توڑ کر ان میں رنگ بھرنے کی کوشش کی ہے ۔ رانی کا بیٹا انس جس یونیورسٹی میں پڑھتا ہے وہ مظفر پور یونیورسٹی اور پروفیسر قادری ناز قادر ی ہوسکتے ہیں ۔ اسی طرح قاضی نگر قاضی چک بھی ہوسکتا ہے ۔ رانی کے بیٹے انس کی کہانی خود مصنف کی زندگی سے ملتی جلتی ہے ۔ مصنف نے مظفرپور یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ۔ اردو ادب کی تعلیم حاصل کی ۔ ادب میں انھیں قرة العین حیدر کافی پسند رہی ہیں انھوں نے قرة العین حید ر پر کام بھی کیا ہے ۔ رانی کابیٹاانس بھی قرة العین حیدر کو پسند کرتا ہے ۔اور دہلی جاکر پروفیسر بننے کا خواب دیکھتا ہے لیکن زندگی گزارنے کے لئے کال سینٹر وغیرہ میں کام کرنا پڑتا ہے ۔ مصنف بھی دہلی جاکر پی ایچ ڈی مکمل کرنے سے قبل کئی اداروں میں نوکری کرتے رہے ۔انھیں بھی پروفیسر بننے کا شوق رہا ہے ۔یعنی ابھی بھی ان کو پروفیسر بننے کا موقع نہیں ملا ہے ۔ انھیں اردو ادب کی تعلیم لینے والوں کی معاشی زندگی کا خاصا تجربہ ہے ۔ اس لئے کہانی کے اس حصے کو وہ بہترین انداز میں پیش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔اردو ادب کے طلبا کو ہندوستان میں جن معاشی مسائل کا سامنا ہے مصنف نے ان پہ بھر پورروشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ ناول نگار پوری کہانی میں خود مختار راوی کی حیثیت سے کہانی سناتا جاتا ہے ۔مکالموں سے کم کام لیا گیا ہے ۔ ناول میں کہانی بیان کرنے کی کسی جدید تکنیک کا استعمال نہیں ہوا ہے ۔ ایک خط مستقیم پر کہانی آگے بڑھتی ہے اور ختم ہوجاتی ہے ۔

Monday, 10 June 2019

 فوزیہ رباب کے شعری مجموعے”آنکھوں کے اس پار“ پر ایک مختصر سا تبصرہ 

 مبصر:طیب فرقانی
عصر حاضر میں مشاعروں کی دنیامیں متعدد شاعرات نے توجہ حاصل کی ہے،لیکن سنجیدہ ادبی افق پر شاعرات خاص طور سے ہندوستان میں اب بھی کم یاب ہیں۔ حالاں کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب عورت کا شاعری کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔اب عورت شاعری کرتی ہے اور اسے عورت ہونے پر کوئی شرمندگی کا احساس نہیں ہے۔ فوزیہ رباب کا شمار ایسی ہی شاعرات میں ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ”آنکھوں کے اس پار“ پچھلے بر س (۲۰۱۷) میں منظر عام پر آیا۔ فوزیہ کی غزلوں میں نظموں سے زیادہ بانکپن اور تاثیر ہے۔ اس لئے ابھی تک ان کو غزلوں کی شاعرہ ہی سمجھا جانا چاہئے۔ ان کی غزلوں کی تین جہتیں ہیں جنھیں تین منازل سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ یہ تین منازل نوعمری، شادی کے بعد کا زمانہ اور اولاد کے حصول کے زمانے پر مشتمل ہے۔ ان تینوں منازل میں عشق ہی ان کی شاعری کا محور و مرکز ہے۔کیفتیں علاحدہ علاحدہ ہیں۔ یوں بھی نو عمری کی شاعری میں رومانیت اور محبت کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن عمر بڑھنے (گھٹنے بھی کہہ سکتے ہیں)کے ساتھ ساتھ مشاہدات کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ اور محبت کا استعارہ پورے معاشرے،ملک بلکہ پوری دنیا کو اپنی معنوی تہوں میں سمیٹ لیتا ہے۔
”آنکھوں کے اس پار“ میں شہزادے کا خواب بُننے، اظہار عشق کرنے، وصل کی لذت سے سرشار ہونے کی آرزو اور ہجر کا کرب؛ان سبھی لمحات کے نقوش دیکھے جاسکتے ہیں۔ اور ہر نقش دامن دل می کشید کہ جاں ایں جا است۔ فوزیہ کے شعری مجموعے کی رسم اجر ا کے موقعے پر جسٹس اعجاز سہیل صدیقی نے فوزیہ کو ہندوستان کی پروین شاکر کہا تھا۔ لیکن ا س بات کا فیصلہ تو وقت کرے گاکہ فوزیہ ہندوستان کی پروین شاکر ہیں یا نہیں۔کیوں کہ یہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔یہ بات ضرور ہے کہ نسائی جذبات کے اظہار میں یعنی غزلوں کے موضوعات کے لحاظ سے فوزیہ کو پروین شاکر کے قریب کہا جاسکتا ہے۔لیکن فوزیہ کے تجربات،لفظیات،اسلوب اور مسائل الگ ہیں جو فوزیہ کی شناخت قائم کرتے ہیں۔ نسائی جذبات کے اظہار میں یعنی غزلوں کے موضوعات کے لحاظ سے فوزیہ کو پروین شاکر کے قریب کہا جاسکتا ہے۔ یہ ضروری بھی نہیں کہ کوئی شاعر یا شاعرہ اپنے ماقبل شاعریا شاعرہ کی طرح ہو تبھی اس کی عظمت قائم ہوگی۔ یہ ضرور ہے کہ بعد کا شاعر ماقبل کے شاعر سے متاثر ہوتا ہے۔ ان سے اخذ و ماخوذ اور استفادہ کرتا ہے۔ اور پھر اپنی راہ خود نکالنے کی سعی کرتا ہے۔
فوزیہ رباب پروین شاکر سے متاثر نظر آتی ہیں۔ اس بات کا اعتراف انھوں نے اپنی نظم ”لہو انسانیت کا ہے“ میں کیا ہے۔
”فقط جو زندگی کے آٹھویں ہی سال میں ہر دن
بڑے ہی شوق سے ابن صفی، پروین شاکر
کی کتابیں پڑھتی رہتی تھی۔“ (لہو انسانیت کا ہے)
فوزیہ کی شاعری میں ابن صفی کی صاف ستھری زبان اور پروین شاکر جیسے جذبات موجود ہیں۔لیکن ان کی غزلوں اور نظموں کو بہت ٹھہر کر، غور کرکے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ بھاری،بوجھل اور ثقالت سے پاک ابن صفی کی نکھری زبان کی جھلک ان کی شاعری میں بخوبی دیکھی جاسکتی ہے۔ ان کی شاعری میں کوئی پردہ نہیں۔ فوراسمجھ میں آجانے والی شاعری۔ شاعری کی سطح پر شاعری کے لئے یہ کوئی عیب نہیں لیکن اس میں معنوی تہہ داری شاعر ی کے حسن کو دوبالا کرکے اعلا بناتی ہے۔ متذکرہ بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فوزیہ کو شاعری سے بچپن سے لگاؤ ہے۔ وہ ایک فطری شاعرہ ہیں۔ان کی شاعری کسبی نہیں وہبی ہے۔
فوزیہ کی غزلوں کا کردار عشق کی تما م سرحدوں سے گزرجانا چاہتا ہے۔ اس کے نزدیک عشق کا جذبہ تمام جذبوں پر حاوی ہے۔ اس میں نہ وہ گناہ ہ دیکھتا ہے اور نہ ثواب۔ نہ صبح نہ شام،ہر وقت جام عشق پی کر حالت سرور میں رقص کرتا نظر آتا ہے۔ وہ عشق کی منزل تک پہنچنے کے لئے تما م سرحدوں کو توڑ ڈالنا چاہتا ہے۔
کیا مری ذات کا قصور حضور
عشق میں گنہ ثواب رباب
اس کی خاطر کوئی سویر نہ شام
جو پئے عشق کی شراب
ہم نے تو بس پیار کیا تھا پاپ نہیں
لوگوں نے بات بڑھادی شہزادے
ہنستے ہنستے روتی ہوں پھر ہنستی ہوں
عشق نے کیسی مجھ کو سزا دی شہزادے
پھیل گئی ہر گام رباب محبت یوں
می رقصم می رقصم رقصم می رقصم
متذکرہ بالا اشعار میں فوزیہ کے نظریہ عشق کی جھلک صاٖ ف محسوس کی جاسکتی ہے۔ ہنستے ہنستے رونا اور پھر ہنسنا یا محبت میں مسلسل رقص کرتے رہنا عشق کی اس منزل میں ہوتا ہے جب عشق دیوانگی کی حد کو چھولے۔یہ اشعار رواں دواں ہیں اور ان میں کوئی تہہ داری نہیں ہے۔ استعاروں کا ایسا کوئی نظام نہیں ہے جس سے اشعار کے کئی معنی نکالے جاسکیں انھیں کریدنا پڑے۔ یا ٹھہر کر پڑھنے کی ضرورت پڑے۔ فوزیہ کے عشق میں خود سپردگی اور وارفتگی کمال عروج پر نظر آتی ہے۔وہ محبوب پر اپنا سب کچھ نثار کردیتی ہیں۔ اپنا وقت، اپنی زندگی اور اپنی ہستی سب محبوب پر وار دینے کا جذبہ ان کی شاعری میں طرح طرح سے بیان ہوا ہے۔
یوں نہیں ہے کہ فقط نین ہوئے ہیں میرے
دیکھ کر تجھ کوہوئی ساری کی ساری پاگل
میں رباب اس سے زیادہ تجھے اب کیا دیتی
زندگی میں نے تیرے نام پہ واری پاگل
اس نے پوچھا کہ مری ہوناں؟ تو پھر میں نے کہا
ہاں تمھاری، میں تمھاری، میں تمھاری پاگل
لکھوں تیر ا نام پڑھوں تو سانول تیرا نام
تیرا ہی بس نام لکھا ہے آنکھوں کے اس پار
رفتہ رفتہ ہوگئے آخر تیرے نام
میرا جیون میرے موسم شہزادے
میری ہستی میں بھی تیری ہستی ہے
میرا مجھ میں کچھ بھی نہ چھوڑا شہزادے
عشق صرف ان کی آنکھوں میں نہیں بلکہ رگ و پے میں سرایت کرجاتا ہے۔اور پھر وہ اپنی زندگی اپنے محبوب کے نام کرکے بار بار یہ تاکید کرتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ ہاں میں تمھاری، میں تمھاری، میں تمھاری پاگل۔اس تکرار میں ان کے جذبے کی شدت محسوس کی جاسکتی ہے۔ یہ سبھی جذبات ان کی شاعری کی پہلی منزل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔سرور عشق میں رقص کرتے ہوئے اپنا سب کچھ محبوب کے نام کردینا۔ دوسری منزل میں ان کی غزل کا کردار اپنی شخصیت منوانے، خودشناسی کے عمل سے گزرنے اور خود کو اہمیت دینے لگتا ہے۔ وہ اپنے حسن کی تعریف خود ہی کرتا ہے۔ محبوب سے اپنی بات منوانے کی للک اس میں دکھائی دیتی ہے خود کو شہزادی اور راج کماری کے خطاب سے نواز تا ہے اور ایک وقت محبوب کو بھول جانے کی دھمکی بھی دے بیٹھتا ہے۔
میں نے پوچھا کہ کوئی مجھ سے زیادہ ہے حسیں
آئینہ ہنس کے یہ بولا اری جاری پاگل
شہزادے یہ دنیا فکر میں غلطاں ہے
جب سے میں ہوں تم پر مائل شہزادے
تم تو کہتے تھے رباب اب میں تیری مانوں گا
پھر بھی تم دیر سے گھر آتے ہوحد کرتے ہو
ہم جسے دیکھ لیں فقط اک بار
سب کے سب اس کو دیکھنے لگ جائیں
تجھ کو شاید یقیں نہ آئے مگر
میں تجھے بھول بھال سکتی ہوں
وہ مجھ کو دیکھ کے دوڑا ہوا چلا آئے
میں اپنے آپ کو کچھ اس طرح سراب کروں
پہلی منزل اور دوسری منزل کا فرق ملاحظہ کریں۔آئینہ سے اپنے حسین ترین ہونے کی داد طلب کرنااور آئینے کے جواب کو مبہم رکھ دینا،شہزادے کو بھول بھال جانے کی دھمکی دینا اور خود کو سراب بنالینے کی آرزو اپنی شخصیت کو منوانے کے عمل کا اشاریہ ہے۔ فوزیہ کی شاعری کی تیسری منزل وہ ہے جب وہ ماں بن جاتی ہیں۔ تب ان کی شاعری میں عشق کا استعارہ وسیع ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کے اندر سارے جہاں کا غم جھانکنے لگتا ہے۔ حالاں کہ ا س منزل کے نقوش بہت واضح نہیں ہیں۔لیکن ان منزل میں ان کی خود اعتمادی قابل دید ہے۔
عجیب حوصلہ رب نے دیا ہے ماؤں کو
کہ بن کے آل کی خاطر جو مرد رہنا ہے
ماں ہوں اتنی دعا میں طاقت ہے
سب بلاؤں کو ٹال سکتی ہوں
اب محبت کی اور کیا حد ہو
میری بیٹی میں تو جھلکتا ہے
فوزیہ کی شاعری کا کردار اپنے محبوب کو مختلف ناموں سے پکارتا ہے۔ یہ نام ان کی شاعری کی پہچان بن سکتے ہیں۔ کوزہ گر، سائیں، شہزادہ، سوہنا، مٹھرا، بالم، سائیاں۔ ا ن الفاظ کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر ہندی سے ماخوذ ہیں۔دوسری یہ کہ یہ تمام الفاظ مختلف حالات میں مختلف کیفیات سے روشناس کراتے ہیں۔ صرف یہی نہیں ان کی غزلوں میں عام طور سے ہندی الفاظ وافعال استعما ل ہوئے ہیں۔
سیج، سوہنا، نین، ساون،سندر، دَھن، آس، برہن، دیپ، جیون، بندھن، سمانا، گھائل، پاپ، باس، نگر، راج کماری، وارنا، گہنا، پیا، سجن۔اس طرح کے الفاظ اردو کی ابتدائی شاعری میں ملتے ہیں۔ولی دکنی اور ان جیسے شاعروں کے یہاں ہندی الفاظ کا کثرت سے استعمال ملتا ہے۔ بعد میں غزلوں میں یہ زبان عام طور سے دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن فوزیہ کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ہندی کے ان الفاظ کو بڑی خوب صورتی سے برتا ہے۔ جیسے عام بول کی چال کی زبان ہو۔ فوزیہ صرف ہندی الفاظ پر ہی نہیں رکتیں بلکہ وہ ہندی تہذیب سے اپنی شاعری میں استفادہ کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کا یہ شعر دیکھیں:
کروں دعائیں دیپ بہا کر پانی میں
میرے سنگ کٹے جیون شہزادے کا
پانی میں دیپ بہانے کا عمل ہندوستانی خواتین کروا چوتھ کے موقعے پر کرتی ہیں۔ اس موقعے پر وہ اپنے شوہروں کی لمبی عمر کی دعامانگتی ہیں اور نیک تمنائیں پیش کرتی ہیں۔ فوزیہ اپنے محبوب کے لئے اسی عمل سے گزرنے کی خواہش کا اظہار کرتی ہیں۔ اور دعا کرتی ہیں کہ ان کا محبوب ان کے ساتھ ہمیشہ رہے۔
فوزیہ گجرات میں پلی بڑھیں۔وہیں سے ایم اے بی ایڈ کیا۔ متعدد ادبی تنظیموں اور رسائل و جرائد سے وابستہ ہیں۔ ناری سمان ایوارڈ یافتہ ہیں اور ان کے اعزاز میں پاکستان میں ایک مشاعرہ بھی منعقد ہوچکا ہے۔ بجنور کے تعلیم یافتہ گھرانے سے ان کا تعلق ہے۔ بجنوری لہجے میں ایک غزل لطف دیتی ہے۔
آپ سے ہے مجھے کوئی گلہ شکوہ ناجی بالکل نہیں
جی نہیں یہ ہے میری وفا کا صلہ ناجی بالکل نہیں
فوزیہ کی زیادہ تر غزلیں غزل مسلسل کے درجے میں ہیں۔ اگر ان غزلوں کو عنوان دے دیں تو نظم کے قریب ہوجائیں گی۔ایک مکالماتی غزل بھی خوب ہے۔ردیف و قوافی میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ غزل کے فنی اسرار و رموز سے خوب واقف ہیں۔ چھوٹی اور بڑی ہر دو طرح کی بحر میں ان کی غزلیں بڑی شاعری کا پیش خیمہ ہیں۔ در اصل فوزیہ اپنے جذبات کے اظہار میں بے باک ہیں۔ اور ایک ہی جذبے کو مسلسل مختلف انداز میں بیان کرنے پر قدرت رکھتی ہیں۔ ان کے جذبات میں شدت ہے۔ ذیل کے اشعار میں ہجر کے کرب کا بیان کس شدت سے ہواہے ملاحظہ کریں:
کب تک اک اک لمحہ یوں ہی کاٹیں گے
دیواروں کو درد سنا کر شہزادے
قبر پہ روتے رہنے سے سکھ پاؤگے
تم نے کتنی دیر لگادی شہزادے
فوزیہ کا غالب و حاوی لہجہ طربیہ ہے لیکن جیسا کہ مذکور ہوا وقت کے ساتھ ان کی محبت کا استعارہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ دردو الم میں ڈوبے اشعار متعدد مقام پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ دردصرف ایک ذات کا نہیں بلکہ کائنات کا درد ہے۔ نظموں میں کبھی وہ برمی مہاجر مسلمانوں کی حالت زار اور عالم اسلا م کی بے حسی پر سراپا احتجاج نظر آتی ہیں تو کبھی شاعروں ادیبوں کو درد میں ڈوبے اور اداس لوگوں کے لئے قلم اٹھانے کے لئے برانگیختہ کرتی ہیں۔ غزل کے یہ اشعار دیکھیں:
ان کے دکھ درد کا تجھ سے بھی مداوا نہ ہوا
اپنی حالت پہ جو ہنستے رہے فنکار ترے
زعم ہے تجھ کواگر اپنے قبیلے پہ تو سن
میرے قدموں پہ گرے تھے سردار ترے
آج بازا ر میں لائی گئی جب تیری شبیہ
بھاگتے دوڑتے آپہنچے خریدار تیرے
جانے کیا رنگ رباب اب انھیں دے گی دنیا
کس قدر درد سے لبریز ہیں اشعار تیرے
فوزیہ کے مجموعہ ء کلام کے فلیپ پر منتخب اشعار ہیں۔ میں نے ان کے علاوہ اشعار کا انتخاب کیا ہے تاکہ ان کی شاعری کی دوسری جہتیں روشن ہوسکیں۔ یہاں صرف دو اشعار پیش خدمت ہیں ذرا ان کی پیکر تراشی کے نمونے دیکھیں:
رکھ دیتا ہے ہاتھ آنکھوں پر غیر کو جب بھی دیکھوں
جانے ایسا کون چھپا ہے آنکھوں کے اس پار
بینائی تیرے رستوں کو تھام کر بیٹھی ہے
تیرے گھر کا در بھی وا ہے آنکھوں کے اس پار


پاپا کے نام
آپ کے بغیر یہ پہلی عید آدھی ادھوری رہی پاپا!
پچھلی عید پہ جب یہ تصویر لی تھی تو نہیں سوچا تھا کہ پھر کبھی آپ کی تصویر نہ لے سکوں گا۔ تصویر تو عکس ہے۔ اصل زندگی تو وہ تھی جو آپ نے جی اور ہم دوبھائیوں اور دو بہنوں کے درمیان بانٹ دی۔ آپ کے پاس بانٹنے کے لئے کوئی خزانہ نہیں تھا۔ امی اکثر آپ کی زندگی کاماحصل جاننے کی کوشش کرتیں اور کہتیں کہ زندگی میں آپ نے کیا کیا؟ اور میرا جواب بہت سادہ سا تھا کہ ہم چار بھائی بہنوں کی مکمل پرورش ہی آپ کی زندگی کا ماحصل تھا۔ یہ کارنامہ ایک عام انسان کے لئے کم نہیں ہوتا۔ عام انسان تاریخ کا حصہ نہیں ہوتا۔ ہم بھائی بہنوں میں سے کوئی بڑا آدمی نہ بن سکا۔ ہم نے کوئی کارنامہ بھی انجام نہیں دیا کہ ہمارے کارناموں کی وجہ سے آپ جانے جاتے۔ میں کوئی قلم کار ہوتا تو آپ کی سوانح عمری میں کوئی نہ کوئی کرامت ضرور ڈھونڈ لیتا تاکہ تاریخ کے کسی گوشے میں آپ کو جگہ مل جاتی۔ شاعر ہوتا تو ایک لازوال نظم لکھ کر آپ کو امر کردیتا لیکن میرے لیے اس سے بڑی آپ کی کوئی کرامت نہیں ہے کہ آپ ہم میں زندہ ہیں۔ آپ میری خوبیوں میں زندہ ہیں۔ میری پسند ناپسند، میرے عمل اور رد عمل میں زندہ ہیں۔ میری شکل و صورت میں زندہ ہیں۔ میرے احساسات و جذبات میں زندہ ہیں۔ میں بکازار سے بکرے کا گوشت لینے جاتا ہوں تو پشت یا گردن کا گوشت لیتا ہوں یا پایہ سری لیتا ہوں کیوں کہ یہ آپ کو بھی پسند تھے اور مجھے بھی۔مچھلی میں جھینگا مچھلی اور گینچا مچھلی مجھے بھی پسند ہیں اور،کھانے میں سلاد مجھے میں بھی پسند ہیں۔ سائل کو کچھ نہ کچھ دے کر ہی لوٹنے کے عمل کو میں نے بھی اپنانے کی کوشش کی ہے۔مالدہ (لنگڑا) آم مجھے بھی بہت پسند ہے۔اس رمضان بنگال میں ہیم ساگر پہ نظر پڑتی تو آپ مجھ میں زندہ ہوجاتے کیوں کہ ہیم ساگر آپ کو بہت پسند تھا۔ایک میں نے اور ایک بار باجی نے کولکاتا سے یہ آم آپ کو لاکر دیا تھاتو آپ دل ہی دل میں بہت خوش ہوئے تھے کیوں کہ آپ اپنی خوشی کا اظہار بہت کھل کر کبھی نہیں کرتے تھے۔ایک عام انسان کے لیے اس سے بڑی اور کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ وہ بے داغ زندگی گزار کر صاف ستھری صور ت و سیرت لے کر قبر میں جا سورہے۔ موت اس کی کرے جس کا زمانہ افسوس: یہ محاورہ مجھے اس وقت سب سے بُرا محاورہ لگ رہا ہے۔ اصل میں موت اس کی جس نے عام حالات میں صاف ستھری زندگی گزاری ہواور لب پہ کوئی شکوہ نہ ہو۔ آپ کو زندگی سے کبھی شکایت نہ رہی۔ آپ نے کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا۔ نہ کوئی ادارہ بنایا، نہ کسی مسجد و مدرسے کی بنیاد ڈالی، نہ کسی عہدے یا منصف پر فائز ہوئے لیکن زمانہ اس بات کی گواہی دے گا کہ آپ کے اوپر کسی قسم کی بدعنوانی،کرپشن، جھگڑے لڑائی یا بدتمیزی کی کوئی چھینٹ نہ پڑی۔ آپ نے قرآن کو سمجھ کر تو نہیں پڑھا لیکن اتنا پڑھا کہ قرآن کے کئی سپارے آپ کو زبانی یاد تھے اور محلے کی مسجد میں جب امام صاحب نہیں ہوتے تھے تو آپ کو ہی امامت کے لئے آگے بڑھا یا جاتا۔ آخری عمر کی وہ نماز مجھے یاد ہے جب آپ کو دھوپ کی معمولی شدت بھی برداشت نہیں تھی اور میں آپ کے ساتھ چھتری لے کر مسجد جایا کرتا تھا۔ گاؤں کے معزز ترین لوگ بھی آپ کی نیک نامی کی قسمیں کھاتے تھے۔ آپ کے پاس کبھی کوئی گاڑی نہیں رہی لیکن چار پہیہ والے حضرات آپ کی عیادت کے لئے گاڑی لے کر آپ کے دروازے تک آتے اور میں اس کا گواہ ہوں۔ ان گاڑیوں کو جب میں دیکھتا ہوں تو آپ کی تصویر نظروں کے سامنے پھرجاتی ہے۔ برسر روزگار ہونے کے بعد میری دو خواہشیں تھیں جو میں نے کبھی آپ کو نہیں بتائی۔ آپ بھی اپنی خواہش کبھی کسی سے مشترک نہیں کرتے تھے۔ شاید آپ کی یہ خصلت مجھ میں آگئی ہے۔ میری خواہش تھی کہ آپ کو حج کراؤں اور ایک چار پہیہ والی گاڑی آپ کے دروازے پہ رکے اور آپ اس میں یہ سوچ کر بیٹھیں کہ یہ میرے بیٹے کی گاڑی ہے تو میر ا سینہ فخر سے اونچا ہوجائے۔ لیکن بہت سی ایسی ہی خواہشوں کی طرح ان خواہشوں نے دم توڑ دیا جب آپ نے دم توڑ دیا۔ آخری دنوں میں کئی بار آپ شدید بیمار ہوئے، کبھی میں اور کبھی بھیا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آپ کے پاس دوڑے چلے آتے۔ ایسا کئی بار ہوا کہ آپ کی روح نکل جانے کا گمان ہوا لیکن آپ واپس آجاتے۔جیسے خدا کہتا ہو کہ اپنی اولاد سے تھوڑی اور خدمت لے کر آؤ۔ بھیا خوش قسمت تھے کہ آخری لمحے میں آپ کے پاس رہے۔ میں وہ رات نہیں بھولتا جب میں گھر سے ڈیوٹی جوائن کرنے نکلا اور اگلی صبح آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ بھیا کو یقین نہیں ہوا کہ آپ چلے گئے اس لیے ڈاکٹر کو بلا کر تصدیق چاہی۔ تب مجھے اطلاع دی۔ اس سے قبل تک آپ نے گھر کے تمام افراد کو بہ حالت غشی یاد کیا۔ اور تقریبا سبھی لوگوں نے آپ کو آخری لمحے میں دیکھا۔ اس سے بڑی بات ایک عام آدمی کے لیے اور کیا ہوسکتی ہے۔
آپ چلے گئے ادھر ہندوستان بھی سیاسی اور سماجی اعتبار سے بہت بدل گیا ہے۔ بہار میں سماجی انصاف کی لڑائی لڑنے والا آپ کا پسندیدہ نیتا تو آپ کے سامنے ہی جیل چلا گیا اور مئی ۲۰۱۹ں ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں بھگوا کو زبردست کامیابی ملی۔ اچھا ہی ہوا کہ آپ چلے گیے۔ رہتے بھی توکون سا تیر مار لیتے کیوں کہ آپ جیسے لوگوں کے ووٹ کی اب کوئی قیمت ہی نہیں بچی۔ اب آپ کو اس بات کا ڈر تو نہیں ہوگا کہ کسی دن ٹرین میں چلتے ہوئے یا مسجد سے نکلتے ہوئے کوئی شخص آکر زبردستی جے شری رام بولنے کے لیے کہے گا یا آپ کی ٹوپی اتارنے کو کہے گا۔ اور سیکولر پارٹیاں ایک مذمت نامہ بھی پیش نہیں کرسکیں گی۔ یہ بھی کیا کم بات تھی کہ آپ کا ہر ووٹ صرف سیکولر لوگوں کو ہی پڑا؟
آج عید کے دن صبح امی فون پہ رور ہی تھیں۔ آپ کو یاد کرکے۔ میں نہیں رویا۔ میں آپ کی رحلت پہ بھی نہیں رویا تھا۔ایسا نہیں تھا کہ میں رونا نہیں چاہتا تھا۔یا میں روتا نہیں ہوں۔ رونے والے بندے کو اللہ بہت پسند فرماتا ہے۔ لیکن  مجھے آپ نے سکھایا تھا کہ بین کرنا گناہ ہے۔اور تین دن سے زیادہ سوگ منانا بھی اسلامی قاعدے کے مطابق گناہ ہے۔ آپ کو میں نے دعاؤں کے سوا کبھی روتے نہیں دیکھا۔ آپ اس وقت بھی نہیں روئے جب پندرہ سولہ سال کا ہونہار بیٹا آپ کے ہاتھوں سے اس طرح غائب ہوگیا جیسے وہ کبھی آپ کا بیٹا تھا ہی نہیں۔ نہ جانے کس جگہ جاکر وہ وہ چھپ گیا۔ آج تک صحیح خبر کسی نے نہیں دی۔ امی اس بیٹے کے لیے برسوں روتی رہیں۔ مگر میں نے آپ کو صرف یہ کہتے سنا کہ صبر کرو اللہ صبر کا پھل دے گا۔ آپ کمال کے تھے۔ زندگی کی اتنی بڑی ٹریجڈی میں آپ جس ثابت قدمی سے اپنے خدا پر یقین بنائے رہے وہ تاریخ کے کسی ورق میں درج نہ ہو لیکن آپ کا یہ عمل مجھ میں زندہ ہے۔ صبر کا پہاڑ تھے۔ زندگی کے کسی موڑ پر آپ کو میں نے اس بیٹے کے کھوجانے کا افسوس کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جس طرح آپ اچھے مسلمان بن کر اس دنیا سے گئے مجھ میں اس کی کچھ خو بو تو ہے۔ اس لیے آپ مجھ میں زندہ ہیں۔ لیکن امی ایک خاتون ہیں۔ ان کا دل ویسے بھی بہت نرم تھا۔ وہ روتی ہیں جب آپ کو یاد کرتی ہیں۔ ویسے بھی وہ ان دنوں بالکل اکیلی ہیں۔ بھیا اپنے کام کی وجہ سے باہر رہتے ہیں۔ بھابھی بچوں کی پڑھائی کی وجہ سے مظفرپور میں رہتی ہیں۔ میرے ساتھ آپنے چھوٹی بہو کو بھی زبردستی بھیج دیا تاکہ آپ کو پوتے /پوتی کاسکھ مل سکے اور مجھ سے آپ کی نسل آگے بڑھ سکے۔ لیکن خدا کا کرنا دیکھئے ادھر آپ کی آنکھیں بند ہوئیں ادھر آپ کو میری نسل سے پوتے /پوتی کا سکھ ملنے کی امید جاگی ہے۔ جس لمحے کا آپ نے پانچ برسوں تک انتظار کیا وہ لمحہ بھی اس وقت آیا جب آپ اس دنیا میں نہیں ہیں۔ آج میں آپ کو لکھ رہا ہوں کہ آپ کی چھوٹی بہو کی کوکھ میں تین ماہ کا بچہ ہے۔ اگر سب ٹھیک ٹھاک رہا اور پچھلی بار کی طرح خدا کی نامنظوری نہیں ہوئی تو اس برس کے اخیر تک میرے ذریعے آپ کی نسل آگے بڑھ جائے گی۔ آپ ہوتے تو کتنی دعائیں دیتے۔ آپ کو بچوں سے بہت پیار تھا۔ بچوں کے ساتھ گھل مل جانا،ان سے چھیڑ چھاڑ کرنا آپ کو کتنا پسند تھا یہ آپ کے قریب رہنے والے ہی جانتے ہیں۔ میں تصور کرتا ہوں کہ میرے بچے سے آپ بہت پیار کرتے۔  آپ علیین میں ہوں گے۔ اگر میرے جذبات آپ تک پہنچ رہے ہوں تو یقین جانئے آپ اپنے پوتے /پوتی میں بھی زندہ رہیں گے۔ میں ان کو آپ کی دو خصلتیں ضرور سکھاؤں گا۔ ہر مشکل میں صبر کرنا اور خدا پہ مکمل یقین رکھنا۔آج سے دس برس قبل جب پرانے گھر میں رہتے تھے اور ساجھی جگہ کی دشواریوں سے تنگ آکر امی گھر اور باتھ روم میں توسیع کی بات کرتیں اور آپ کہتے کہ صبر کرو خدا ضرور دے گا تو مجھے آپ کی باتیں اتنی اچھی نہیں لگتی تھیں۔ میں سوچتا تھا کہ خدا پہ آپ کے یقین کی ایسی کون سی وجہ ہے۔ لیکن پچھلے پانچ برسوں میں ہم نے گھر کی توسیع بھی کی۔ اپنا ٹوائلٹ باتھ روم اور دوسری سہولیات زندگی بھی میسر آگئی تو میری آنکھیں کھل گئیں۔ وقت سب بدل دیتا ہے۔ ایک وقت تھا جب آپ ہر عید پہ میرے لیے کپڑے بنواتے،پچھلی عیدوں پہ میں آپ کے لیے کپڑے لے جاتا تو آپ بطور قناعت کہتے کہ آپ کو نئے کپڑوں کی ضرورت نہیں۔ لیکن جب وہ کپڑے آپ پہن لیتے اور سرما، عطر لگا کر عید گاہ کی طرف جاتے تو میرا دل مسرت آمیز ہوجاتا تھا۔ اس عید یہ مسرت مجھے حاصل نہ ہوسکی۔  اہل خانہ کی خوشیوں کو ترجیح دینا اور خود کی ضرورتوں کو بھول جانے کی آپ کی روش نے ہی آپ کو تپ دق میں مبتلا کیا اور اسی مرض میں آپ دار فانی کو کوچ کرگئے۔خدا یقینا آپ پہ مہربان ہوگا۔
آپ کے جانے کے بعد بھیا سنبھل نہیں سکے ہیں۔ انھیں روزگار کی فکر ہے۔ بھیا کی بیٹیا ں:زینب علی، عابدہ علی اور بیٹا احمد علی جو آپ کے ساتھ اس تصویر میں ہے۔ اچھے ہیں۔ نئے اسکول میں داخلہ لیا ہے۔ امی کی حالت میں نے بتا ہی دی آپ کو۔ میں آپ کی چھوٹی بہو کے ساتھ آپ کے پوتا /پوتی کا منتظر ہوں۔ اور کوشش کررہا ہوں کہ آپ کے نقش قدم پہ چلتا رہوں۔ آپ رجعت پسند نہیں تھے۔ ترقی پسند تھے۔ نئی چیزوں کو قبول کرنے کے لیے آپ نے کبھی نہیں روکا۔ میں بھی رجعت پسند نہیں ہوں۔ آپ مجھ میں زندہ ہیں۔ بار بار ندا فاضلی کی نظم یاد آجاتی ہے۔ ”میں تمھاری قبر پہ فاتحہ پڑھنے نہیں آیا“۔لیکن نہ تو میں شاعر ہوں اور نہ ایسا ہوا کہ فاتحہ پڑھنے نہ جاؤں۔ میں آپ کی قبر پہ فاتحہ پڑھنے گیا تھا اور آئندہ بھی جاتا رہوں گا۔لیکن تب بھی آپ مجھ میں زند ہ ہیں ایک مشہور  شاعر کےباپ کی حیثیت سے نہیں ایک عام آدمی کے باپ کی حیثیت سے۔ آپ نے اپنے پیچھے جوتھوڑے بہت قرضے چھوڑے تھے اپنے علم کی حد تک ہم نے سب چکتا کردیے ہیں۔ میری ناہنجاریوں کو درگزر فرمانا۔ آپ صابر اور معاف کرنے والے تھے۔ 

Monday, 1 April 2019

’پیام صبا‘ کا معنیاتی جہاں (تبصرہ) 


طیب فرقانی 

یہ دوپہر کا وقت کا تھا جب پیام صبا موصول ہوا ۔ علاقے میں سیلاب کی تباہی نے ہوا اور صبا دونوں کی آمد کو متاثر کیا تھا ۔ پیام صبا کامران غنی صبا کا شعری مجموعہ ہے (نام تو سنا ہی ہوگا ) ۔ میں یہاں کامران غنی سے اپنے تعلق کا اظہار نہیں کروں گا ۔ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ وہ میرے بے حد عزیز دوست ہیں ۔ اور ہم دونوں نے ایک ساتھ بہت سا را وقت گزارا ۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہوں نہ ہوں خوشیوں میں ضرور شامل رہے ۔ میں ان کے اہل خانہ اور حسب و نسب پر بھی روشنی نہیں ڈالوں گا ۔ میں یہ بھی نہیں لکھنا چاہتا کہ وہ نانیہال اور دادیہال دونوں طرف سے اعلا، باظرف ، مذہبی اور تعلیم یافتہ خاندان کے چشم و چراغ ہیں ۔ میں یہاں پیام صبا پر اپنے تاثرات پیش کرنا چاہتاہوں ۔ آپ اسے تاثراتی تنقید کہہ کر پڑھیں یہ آپ کی صواب دید پر منحصر ہے ۔ 
پیام صبا میں سب سے پہلے انتساب متاثر کرتا ہے ۔اللہ کے نام منسوب کرنے کا چلن عام نہیں ہے ۔ ہم اکثر والدین ، کسی دوست یا کسی مخصوص ہستی کی طرف اپنی تخلیقات و تصنیفات کو منسوب کرتے ہیں لیکن کامران کو پہلے اللہ یاد آتا ہے ۔ وہ اپنے مجموعے کے مطالعے سے قبل ہمیں بھی اللہ کی یاد دلاتا ہے ۔ اور شاید یہ کہنا چاہتا ہے کہ دیکھو بھائی مجموعے کا مطالعہ اللہ کو حاضر ناظر رکھ کر کرنا ۔ کیوں کہ اللہ کی توفیق کے بغیر نہ تخلیق آب دار ہوتی ہے اور نہ مطالعہ ۔ پیام صبا مختصر مجموعہ کلام ہے اور کامران کا اولین مجموعہ کلام ہے۔ اس کی ابتدا میں دس مضامین شامل ہیں ۔ یہ سارے مضامین کامران کی ایک نظم ’’مجھے آزاد ہونا ہے ‘‘ کے تجزیے اور تنقید پر مبنی ہیں ۔ یہ مضامین شامل کتاب نہ ہوں تو مجموعے کا حجم آدھا رہ جائے گا۔ مضامین کی ترتیب منطقی ہے ۔ یہ سوال کہ صرف ایک ہی نظم پر اتنے مضامین کیوں لکھے گئے ؟ کامران کی دوسری نظمیں قابل توجہ کیوں نہ ہوئیں ۔ پوچھا جانا چاہئے ۔ میں نے خود سے اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن میں کسی خاص نتیجے پر نہیں پہنچ سکا ۔ شاید دوسری نظموں تک اہل علم کی رسائی نہ ہوئی ۔ یا یہ کہ اس نظم کے مرکزی خیال ، پیش کش اور ڈکشن میں ایسی بات ہے کہ وہ جلدی اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے ۔ زیادہ تر لکھنے والوں نے نظم میں موت کے عناصر یا موت کو یاد کرنے اور زندگی اور موت کے حوالے سے بات کی ہے ۔ موت کو یاد کرنا اور موت کی آرزو کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں ۔ موت کو یاد کرنا ،اس کی حقیت پر غور کرنا اچھی بات ہے لیکن موت کی آرزو کرنا ؟ 
شاعر کہتا ہے :
مراجی چاہتا ہے تیاگ کر سب کچھ 
کسی گمنام بستی میں چلاجاؤں 
یہ گمنام بستی کون سی ہے ؟ کیا موت کے بعد جہاں ہم بستے ہیں اسے گمنام بستی کہا جاسکتا ہے ؟ اگر یہ اسی بستی کو کہا جاتا ہے تو یہ موت کی آرزو ہے ۔ موت کی یاد نہیں ۔ اور اس بستی میں ہم سبھی کو جانا ہے ۔ آج نہیں تو کل ۔ لیکن شاعر اس بستی میں بھی کسی کی شرکت نہیں چاہتا۔ یہ بستی اگر قبرستان ہے تو دوسروں کی شرکت یقینی ہے ۔ قبر کو بستی کہا نہیں جاسکتا ۔ قبر کو بستی سے تشبیہہ دینا غیر متعلق ہے ۔ شاعر ایک ایسی بستی میں بسنے کی آرزو کرتا ہے جس کی خصوصیت گمنامی کے علاوہ یہ بھی ہے کہ وہاں اس کے کسی جاننے پہچاننے والے کے پہنچنے کا کوئی امکان نہ ہو ۔ شاعر صرف جاننے پہچاننے والے سے بھاگنا چاہتا ہے یا سبھی سے ؟ پھر وہ اسی بستی کو گوشہ عزلت بھی کہتا ہے ۔ اور پاتا ل بھی ۔ پاتال میں کون سی بستی ہے ؟ بستی میں گوشہ عزلت کیسے ممکن ہے ؟ ان سب سوالوں پہ میں غور کرتا ہوں تو الجھ جاتا ہوں ۔ اور میں مجبور ہوجاتا ہوں کہ کہوں کہ شاعر موت کی آرزو نہیں کررہا ہے بلکہ وہ موت کو یاد کر رہا ہے ۔ وہ جب جب زندگی کو سمجھنا چاہتا ہے موت اس کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے ۔ وہ دنیا کی عزت و شہرت کی طرف لپکتا ہے تو موت اس کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہے ۔ وہ مال و دولت کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے تو اسے موت کی یاد آتی ہے ۔ یہی حال زندگی کے سارے شعبوں کا ہے ۔ وہ زندگی کے ہر اس شعبے کا جائزہ لیتا ہے جو انسان کو عزت و شہرت کی بلندی پر لے جاتے ہیں ، جس میں نام و نمود کی آمیزش ہوتی ہے ۔ شہرت ، چرچا ، نا م و نشان ، غلغلہ ، سورج کا دیا یہ الفاظ اس نظم کے خاص الفاظ ہیں ۔ یہ الفاظ مجھ سے کہتے ہیں کہ تمہارا دوست کامران موت کی آرزو نہیں کر رہا ہے وہ خلوص کی آرزو کررہا ہے ۔ خلوص ایک گمنام بستی ہے ۔ اس بستی تک کسی کی رسائی ممکن نہیں ۔ یہاں تک کہ ایک ہاتھ کو دسرے کی خبر نہیں ۔ یہ بستی کہاں ہے کوئی نہیں جانتا ۔ شاید پاتا ل میں ہو۔حتی کہ شاعر کو خود نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہے ۔ لیکن جہاں بھی ہے شاعر کی تمنا بھی یہی ہے ۔ اور اس بستی تک پہنچنے سے اسے زندگی کے وہ تمام شعبے روکتے ہیں جن سے وہ متعلق ہے ۔ وہ انھیں شعبوں کا ذکر تا ہے جن سے وہ براہ راست یا بالواسطہ متعلق ہے ۔ اخبار ، جلسہ ، محفل ، تحقیق ، سیاست ، صحافت ، ادب ، صوت و رنگ و چنگ اور دولت وہ خاص شعبے ہیں جن سے شاعر متعلق ہے ۔ انھیں شعبوں کا وہ خاص طور سے کیوں ذکر کرتا ہے ؟ زندگی کے اور بھی دوسرے شعبے ہیں جہاں شاعر کا لاشعور جھانکنے کی کوشش نہیں کرتا ۔ شاعر کے لا شعور میں ان شعبوں کا ذکر اس لئے ہے کہ ان میں اکثر و بیشتر نام و نمود کی آمیزش ہوتی ہے اور شاعر کو نام و نمود سے آلودہ شعبے میں زندگی کو آگے بڑھانا کار عبث معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن ان شعبوں سے چھٹکارا اتنا آسان ہے کیا ؟ ان شعبوں نے اسے جکڑ رکھا ہے ۔ قیدی بنا رکھا ہے ؟ وہ ان شعبوں سے زیادہ ان کی نمائش سے ان کی رعنائی سے اور ان کی بے مقصد خواہش سے آزادی چاہتا ہے ۔ 
مجھے آزاد ہونا ہے 
زمانے بھر کی ہر خواہش سے 
ہررعنائی سے ،جھوٹی نمائش سے 
مجھے آزاد ہونا ہے 
یہ نظم ایک سوچتے ذہن اور پرخلوص دل کا استعارہ ہے ۔ 
پیام صبا میں ایک حمد ، چار نعتیں اور ایک منقبت شامل ہے ۔ حمد آزاد نظم کی ہیئت میں اپنے گناہوں کی معافی اور خدا کی رحمتوں سے امید پر مبنی ہے ۔ 
نعتوں میں ایک خواہش بار بار سر اٹھاتی ہے ۔ شاعر مدینے سے دور ہجر کے کرب میں مبتلا ہے اور در مصطفی پر حاضری کے لئے تڑپ رہا ہے ۔ وہ بار بار خود کو مدینے بلائے جانے کی آرزو کرتا ہے ۔ یہ آرزو اتنی شدید ہے کہ کم سے کم خواب میں درمصطفی تو ضرور دیکھنا چاہتا ہے ۔ 
ہجر میں دل پریشان ہے یا خدا 
خواب میں روضہء مصطفی چاہئے 
میں اٹھاؤں کیسے یہ بار غم ترا ہجر مجھ پہ عذاب ہے 
کبھی بخت میرا بھی جاگ اٹھے ،کبھی در پہ ہو مری حاضری 
اب اور بار ہجر اٹھانا محال ہے 
خوابوں میں ہی دکھادے مجھے روئے مصطفی 
اب اور کتنا ہجر کا صدمہ اٹھاؤں میں 
اک بار اپنے پاس بلالو مرے نبی 
یہ چاروں نعتیں غزل کے فارم میں ہیں ۔ منقبت امام حسین کی شان میں ہے ۔ جس میں شاعر حسنین علیہماالسلام کو روز محشر کا وسیلہ بناتا ہے ۔ 
پیام صبا میں غزلیں زیادہ ہیں اور نظمیں کم ۔ مگر غزلوں کو بعد میں رکھا گیا ہے اور نظموں کو پہلے ۔ اس ترتیب کی وجہ کامران بھائی تم ہی بتاسکتے ہو۔ لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ تمہاری نظمیں تمہاری غزلوں سے زیادہ پراثر ہیں تم بھی شاید ایسا ہی سوچتے ہو۔ میں نے اس سوال پہ غور کیا تو میں بھی اسی نتیجے پر پہنچا ۔ دراصل تم ہر اچھے تخلیق کار کی طرح حساس او ر درد مند انسان ہو ۔ تمھارے احساسات تمھارے درون میں ایک ہلچل پیدا کرتے ہیں اور پھر اس ہلچل پر مسلسل غور کرتے ہو ۔ کبھی تمھیں کوئی راستہ مل جاتا ہے اور کبھی تم کشمکش کے درمیان جھولتے رہتے ہو۔ 
’’یہی سب کچھ میں اکثر سوچتا ہوں 
اور جب بھی سوچتا ہوں 
تب مجھے یہ سب فقط کار عبث معلوم ہوتا ہے ‘‘
(مجھے آزاد ہونا ہے ) 

’’مجھے بھی اک تجسس تھا 
کہ دیکھوں تو !
کہ اس لمحے کے برزخ کے پرے کیا ہے 
گزشتہ شب نہ جانے کب 
یہی کچھ سوچتے میں نیند کی آغوش میں پہنچا ‘‘
(فنا آغوش) 
سوچتے سوچتے تم کسی لمحے میں نظم لکھنے بیٹھ جاتے ہو ۔ جب کہ غزل کے معاملے میں ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ہے شاید ۔ بسا اوقات تم ’’طرحی مصرعے ‘‘ پر غزل لکھنے بیٹھتے ہو ۔ اس وقت تمھارے پاس وقت کم ہوتا ہے ۔ اس لمحے میں تمھیں غور و فکر کے لئے وقت نہ مل پانے کی وجہ سے شاعر ی ہوجاتی ہے لیکن تمھارا جوہر پوری طرح نہیں کھل پاتا ۔ لیکن جب بھی وہ لمحہ آتا ہے کہ غزل تم سے خود لکھواتی ہے تب تم خوب لکھتے ہو ۔ 
میرے دوست وہ لمحہ جب تم گہرائی سے کسی فکر میں ڈوبے تھے تمھاری ایک نظم ’’وہ شمع اب خموش ہے ‘‘ میں قید ہوگیا ہے ۔ اس نظم کے ہر لفظ میں اس لمحے کا کرب قید ہوگیا ہے ۔ جو فکری گہرائی اور فنی حسن اس نظم میں ہے شاید دوسری نظم میں نہیں ۔ تمھاری یہ نظم مجھے تمھاری شاعری کا حاصل معلوم ہوتی ہے ۔ تمھاری نظم ’’ مراوجود‘‘ اور ’’منافق ‘‘ بھی ایسے ہی لمحے کو گرفت میں لئے ہوئے ہے جب تم انسانی وجود اور انسانی رویے پر گہرائی سے سوچنے میں منہک تھے ۔ ایک اور بات جو تمھاری نظموں میں مجھے نمایاں نظر آتی ہے وہ ہے کسی واقعے سے متاثر ہوکر کہی گئی نظم ۔ کسی واقعے سے متاثر ہوکر نظم کہنے کی روایت قدیم ہے ۔ تم جدید زمانے میں مسلمانوں سے متعلق پیش آنے والے واقعات پر اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہو ۔ ان واقعات کے مختلف پہلوؤں پر سوچنے لگتے ہو، اپنے درون میں کشمکش محسوس کرتے ہو اور پھر نظم کی صورت میں کوئی نئی راہ سجھانے کی کوشش کرتے ہو ۔ مگر اے میرے دوست مجھے لگتا ہے کہ تمھیں اپنی تخلیق کی بھٹی میں مزید کوئلے ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ کیوں کہ کسی واقعے سے متاثر ہوکر کہی گئی نظم وقتی ہوجاتی ہے جب کہ اعلا شاعری عمومیت کا تقاضا کرتی ہے۔ تم اپنی نظموں میں جدید ہیئت کا استعمال زیادہ کرتے ہو۔ لیکن نئے استعارے اور نئے فقرے کی تخلیق کا سفر ادھورا ہے ۔ 
تمھاری غزلیں محبت کا گیت گاتی ہیں ۔تم سرِ دار بھی پیار و محبت کے نغمے گانے کے قائل ہو ۔ تم بندگی کو عاشقی اور عاشقی کو بندگی کہتے ہو۔ اسی لئے نقش پا پہ جبیں رکھ کر چلتے ہو ۔ 
سنا تھا نقش کف پا پہ چلنا پڑتا ہے 
بجز جبیں کے رہ عشق میں نشاں نہ ملا 
یہ ایساعشق ہے کہ اس میں خلوص کے سوا اور کچھ نہیں ۔ تم بے وجہ عشق کرتے ہو ۔ کسی لالچ ، ہوس ، طمع کی کوئی گنجائش نہیں ۔ 
کیوں مجھ سے محبت کا سبب پوچھتے ہو 
بے وجہ بھی ہوتے ہیں کئی کام مری جاں 
اس عشق میں تم خالص ہو ۔ منافقت سے پاک تمھاراصوفیانہ عشقیہ جذبہ تمھیں تنہائی قبول کرنے اور تعلقات کو یکسر ختم کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔ 
منافقت نہیں آتی سو رنجشوں کے بعد 
تعلقات کا ہم اختتام کرتے ہیں 
محفل رنگ و بو ہو مبارک تمھیں 
میرا سارا جہاں میری تنہائیاں 
یہی وجہ ہے کہ تمھاری غزلیں ہجر ، اشک اور آئینہ کے ارد گرد گھومتی ہیں ۔ مجموعے میں اٹھائیس غزلیں شامل ہیں ۔ تقریبا ہر غزل میں تم ہجر اور ہجر کے نتیجے میں اشک بہانے کا ذکر کرتے ہو ۔ غم حیات پہ تو تم نے پوری ایک غزل لکھی ہے ۔ تم کلاسیکی عاشق ہو میرے دوست ۔ تمھاری غزلوں کا حاوی رنگ کلاسیکس سے متاثر ہے ۔ کہیں کہیں تم نے جد ت بھی پیدا کی ہے ۔ اسی لئے تم شاعرانہ تعلی بھی کرتے ہو۔ 
یہ شور کیسا ہے آج کی محفل میں کس کی آمد کی دھوم سی ہے 
کوئی نہیں وہ صبا ہی ہوگا جدا ہے رنگ اس کی شاعری کا 

شاعری سن کے صبا کی سبھی حیران سے ہیں 
اس کے فن میں کوئی جادو ہے ،نشہ ہے ، کیا ہے ؟

جدیداسلوب و آہنگ کی سب سے اچھی غزل وہ ہے جو تم نے ’’مانند ‘‘ کی ردیف میں کہی ہے ۔ پوری غزل تشبیہوں اور استعاروں کی نئی دنیا آباد کرتی ہے ۔ اس میں تمھارا فن عروج پہ نظر آتا ہے ۔ اب کچھ اشعار میری زبان سے سن لو ۔ 
اب اس کی محبت کو صبا بھول ہی جاؤ 
فرقت ہی محبت کا انجام مری جاں 
درد جس میں نہ ہو اس دل کی حقیقت کیسی 
ہجر کا غم ہی نہیں ہو تو محبت کیسی 
ہجر کی رات تنہائیوں میں صبا 
کون کرتا رہا تجھ سے سر گوشیاں 
غم الفت ، شب فرقت ، نگاہ یاس اور حسرت 
صبا تیری رفاقت میں بجز غم کیا ملا مجھ کو 
کیا خبر تھی شب فراق کے بعد 
زندگی خود سے روٹھ جائے گی 
تمھاری یاد کا سورج غروب ہونے تک 
نماز ہجر کا ہم اہتمام کرتے ہیں 
رستے میں اگر ہجر کا دریا نہیں آتا 
ہم ڈوبتے خشکی میں سفینہ نہیں آتا 
عشق اگر شدید تر ہو تو ہجر میں اشکوں کا بہنا فطری بھی ہے اور ضروری بھی ۔ تم تو رونے میں بھی اس قدر مخلص ہو کہ آنسوؤں کی آہستہ خرامی کو عیب سمجھتے ہو ۔رونا تمھارے لئے دعا اور آہیں عبادت ہیں ۔ 
ہم رونے پہ آجائیں تو طوفان اٹھادیں 
’’شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا ‘‘
کسی کی یاد کے جگنو ہماری آنکھوں میں 
بشکل اشک مسلسل قیام کرتے ہیں 
لکھنا شب فرقت کو آہوں کی عبادت تم 
روتی ہوئی آنکھوں کو مصروف دعا لکھنا 
ائے کہ نگاہ خندہ زن تیرے غرور کی قسم 
ایک عجب سرور ہے دیدۂ اشک بار میں 
میں اپنی آنکھوں کو رکھتا ہوں باوضو ہر دم 
کہ تیرا ذکر مقدس کتاب کی ماند 
قطرۂ اشک کو تسبیح کے دانے سمجھو 
دیکھو پلکوں سے ٹپکتی ہے عبادت کیسی 
میرے بھائی کامران ! مبارک ہو تمھیں کہ اخلاص ، کردار اور تصوف کی جو روایت تمھیں ورثے میں ملی ہے وہی تمھاری غزلیہ شاعری میں ڈھل گئی ہے ۔ کہیں کہیں تم ملکی حالات ، سماجی کرب اور موت کو بھی اپنا موضوع سخن بناتے ہو ۔تمھاری شاعری کی خاص بات یہ ہے کہ سطحیت سے پرے اظہار ذات کا ایک ایسا وسیلہ بن گئی ہے جس میں جام نو میں بادۂ کہنہ کی جھلک صاف نظر آتی ہے ۔ تمھاری شاعری میں کہیں ’’پہیلیاں ‘‘ بجھانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے ۔ تم سچ ہی کہتے ہو کہ تم نے بیچ کا راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن یہ راستہ ابھی دور تک پھیلا ہوا ہے اور منزل ابھی دھندلکے میں ہے ۔ چلتے رہو ۔ ۔۔۔۔

Friday, 29 March 2019

عبدل بھائی کی ہوٹل بازیاں (انشائیہ)


طیب فرقانی*

اردو کی کلاسیکی شاعری میں آسمان کو ظالم وجابر اور بے داد کہا گیا ہے لیکن شاید ہی کسی نے سورج سے آنکھیں ملاکر اس کو ظالم کہا ہو ۔ سورج کا ڈوبنا ابھرنا امید و ناامیدی کی علامت ہونی چاہئے ۔سلسلہ ء روزو شب اس کی کروٹوں سے دراز ہوتا جاتا ہے ۔یہ وقت کی زنجیر اپنی کمر سے باندھے بھاگا چلا جاتا ہے اور کوئی اس مجرم کو ٹھہرنے کا حکم دیتے ہوئے انگریز جنرل کے لہجے میں یہ نہیں کہہ سکتا ’’ اسٹاپ ‘‘ نہ کوئی اسے لکھنوی ادا سے کہہ سکتا ہے کہ جناب والا اپنی حرکتوں سے باز آجائیں ورنہ ایک دن آپ کائنات کا ہی بیڑا غرق کر دیں گے ۔ کوئی بھوجپوریا بھی استدعا نہیں کر سکتا کہ ’’ بھیا کہاں بھاگے جات ہو تنی ٹھہرا ،ہمراکے نیند پورا کرلے وے دا ‘‘ نہ کوئی رائٹر اس پر فل اسٹاپ لگا سکتا ہے ۔نہ ہی وہ کسی کا محبوب ہے کہ کہا جاسکے ؂


اداس ، شام تنہائی ،کسک ،یادوں کی بے چینی 
مجھے سب سونپ کر سورج اتر جاتا ہے پانی میں 


یا یہ کہ ؂


ڈھلی جو شام تو مجھ میں سمٹ گیا جیسے 
قرار پانے سمندر میں آفتاب اترے 


یہ تو بس وقت کی زنجیر میں کڑیا ں جوڑتا جاتا ہے ۔ ان کڑیوں کو پکڑ کے لٹک جائیں اور ذرا ماضی کے جھروکوں سے تاکیں تو عجیب و غریب دنیا کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں ۔ اور مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے ، ذہن کی سطح پر ہتھوڑے برساتا ہے ۔
عبدل بھائی اپنے ساڑھے پانچ ستارہ ہوٹل میں ۹۰ کے زاویے پر بیٹھے یہی سب سوچ رہے تھے کہ آج جن عالی شان ہوٹل میں وہ بیٹھے ہیں ، قدیم زمانے کے مسافروں کو یہ کہاں نصیب تھا ۔بادشاہوں نوابوں کے زمانے میں مسافروں کے ٹھہرنے کے لئے سڑکوں کے کنارے سرائے بنادیے جاتے تھے ۔پھر مذہبی اور سماجی اداروں نے دھرم شالائیں اور مسافر خانے بنوادیے ۔لیکن جیسے جیسے انسانوں کا جنگل گھنا ہوتا گیا اور سورج نے وقت کی زنجیر میں صدیوں کی کڑیا ں جوڑ دیں تو آج اسے ہوٹل اور موٹیل میسر آگئے ۔جن نے سوئزر لینڈ بینک کی تجوریا ں بھرنے کے لئے گویا روپوں کی مشین لگادی ۔ ایسے میں عبدل بھائی نے بھی بہتی گنگامیں ڈبکی لگانے کی بھرپور کوشش کی ۔اور ساڑھے پانچ ستارہ ہوٹل ’’ پوری طرح ‘‘ کھول لیا ۔ 
ان کے ساڑھے پانچ ستارہ ہوٹل کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ جب وہ وزیر خوراک و رسد تھے تو خوراک کو بہتر طور سے ہضم کرنے اور میلے کچیلے سیاہ دھن کو دھو دھا کر اجلا سفید بنانے کے لئے اپنی بیگم ( جو ان کی سیاہ و سپید کی مالکن تھیں ) کے نام سے ایک عالی شان ہوٹل بنوادئے ۔
ان کے ہوٹل کے ساڑھے پانچ ستارہ ہونے پر کسی نے تعجب سے پوچھا تھا کہ پانچ ستارہ تو ہوتا ہے یہ ساڑھے کا لاحقہ کیوں ؟ تو انھوں نے میڈیا کی بدعنوانی پر برستے ہوئے بتایا تھا کہ’’ اس مقابلہ جاتی عہد میں میں نے اپنے ہوٹل کو چمکانے کے لیے میڈیا کو کچھ روپے دیے تھے اور کہا تھا کہ میرے ہوٹل کو چھ ستارہ ہونے کا پروپیگنڈہ کرے ۔مگر بر ا ہو اس کم بخت نمائندے کا جس نے آفس تک پورا پیسہ نہیں پہنچایا اور تھوڑی سی بالائی اپنی جیب کی تھیلی میں ڈال لی ۔ (چور چور موسیرے بھائی ) آفس والوں نے پیسہ کم دیکھ کر آدھا ستارہ گھٹا دیا ۔وہ تو شکر ہوا کہ انھوں نے آدھا ستارہ ہی گھٹا یا ورنہ میڈیا والے تو اچھے اچھوں کا سورج تک ڈوبا دیتے ہیں ۔‘‘ اور پھر وہ کچھ سوچنے لگے ۔اچانک سر اٹھا یا اور ایک شعر ٹھوک ڈالا ۔ ؂
میڈیا کی آزادی گل نئے کھلاتی ہے 
اس پہ مت بھروسا کر آج کے زمانے میں 
دنیا جانتی ہے کہ ہمار ے عبدل بھائی کو اردو سے بڑی محبت ہے ۔وہ تو پارلیمنٹ میں بھی برملا فیض ،غالب اور فراق کے اشعار پڑھ کر ان کی روح کو ثواب پہنچاتے ہیں ۔ انھوں نے اردو کی تندوری ،رومالی اور چپاتی نما بڑی ،چھوٹی ،کچی پکی اور سینکی ہوئی تمام طرح کی روٹیاں کھائی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب انھوں نے اپنے ساڑھے پانچ ستارہ ہوٹل کے لیے ڈگری یا فتہ خانساماں کا اشتہار دیا تو صراحت کردی کہ امیدوار چاہے ہر چیز سے نابلد ہو مگر اردو سے بلد ہونا چاہئے ۔نہ معلوم ’’ بلد ‘‘ کا یہاں کیا مطلب تھا ۔ وہ چوں کہ ماہر لسانیا ت بھی تھے اور ظفر اقبال کی غزلوں سے انھیں خاص شغف تھا ، اس لیے ہوسکتا ہے ان کے نزدیک ’’ بلد ‘‘ کا مطلب جان کا ر ہو ۔یہ بھی بعید ازقیاس نہیں کہ انھوں نے قافیہ باز شاعروں کو چڑانے کے لئے ایسے کیا ہو ۔ بہر حال انھوں نے صراحت کردی کہ انٹر ویو اردو میں ہی دیا جاسکے گا ۔
امیدوار مقررہ تاریخ پر انٹر ویو کے لیے حاضر ہوئے ۔ انٹر ویو لینے والے پینل میں پہلے اور آخری فرد عبدل بھائی ہی تھے۔ انٹر ویو شروع ہوا ۔ایک امیدوار چیمبر کا دروازہ ادھ کھلا کر کے بولا ’’May I come in sir‘‘’’No‘‘آپ بالکل نہیں آسکتے۔آپ نے اشتہا رمیں نہیں دیکھا تھا کہ انٹر ویو صرف اور صرف اردو میں ہی ہونا ہے ۔ گیٹ آؤٹ ! ۔وہ بے چارہ ڈرا سہما منہ ہی منہ کچھ بدبدتا ہو الٹے پاؤں واپس ہوا۔ پتا نہیں عبدل بھائی کی شان میں گستاخی کررہا تھا یا اپنی قسمت کو کوس رہا تھا ۔عبدل بھائی نے اس امیدوار کو پھر بلا بھیجا اور اسے نصیحت کی کہ دیکھو ہر چیز میں غیروں کی تقلید اچھی نہیں ہوتی ۔ہمارا حال یہ ہے کہ ہم غیروں کی تقلید میں اس قدر صم بکم ہوگئے ہیں کہ چے خف جو نرا سیانا تھا ، کی اس بات کو بھی سچ مان لیتے ہیں کہ ’’ تنقید نگار اس مکھی کی طرح ہے جو کھوڑے کو ہل چلانے سے روکتی ہے ۔ارے ہل تو بیل چلاتے ہیں ۔یہ گھوڑے کہاں سے آگئے ۔‘‘ تھوڑا اور پر جوش ہو کر بولے ’’ حد تو یہ کہ میں نے جب ایک ادبی محفل میں اس تشویش کا اظہار کیا تو لوگ میری ہی اصلاح کرنے لگے کہ روس میں گھوڑے ہی ہل چلاتے ہیں ۔اور میں نے اپنا منہ پیٹ لیا۔ ‘‘ پھر انھوں نے پروفیسرانہ انداز میں نکتہ بیانی کی ’’ میں ایسے موقعوں پر سر نہیں پیٹتا ۔ کیوں کہ شاید تمہیں معلوم ہو کہ حضرت ابراہیم کے پاس بڑھاپے میں اولاد کی خوش خبری سنانے جب فرشتہ آیا تو ان کی بیوی نے سر نہیں پیٹا تھا ۔جانتے ہوکیا پیٹا تھا ؟‘‘ امیدوار ، جو بڑی دیر سے ہونقوں کی طرح بیٹھا تھا ، چونکا اور نفی میں منڈی ہلادی ۔ ’’ انھوں نے اپنا منہ پیٹا تھا ۔اس لیے میں اپنا منہ پیٹتا ہوں ۔‘‘ اس وقت عبد ل بھائی کے چہرے پر عجیب طرح کی مسکراہٹ تھی اور چہرے کا تاثر ایسا ہی تھا جیسے وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہوں اور امریکہ کے صدر کو چائے پلارہے ہوں ۔ اور اسی دوران معاہدوں اور منصوبوں پر تبادلہء خیالات کر رہے ہوں ۔ ’ ’ اور پھر یہ کہ ضرب الامثال اور محاوروں کو زمانے کے ساتھ بدلتے رہنا چاہئے ۔مثال کے طور پر آج پاجامے کا دور ختم ہورہا ہے اس کی جگہ’’ لووَر ‘‘نے لے لی ہے ۔ اس لیے ’ آدمی ہو یا پاجامہ ‘ کو میں بولتا ہوں ’ آدمی ہو یا لووَر‘ اور کچھ بعید نہیں کہ آئندہ زمانے میں ’آدمی ہو یا لووَ ر ‘ کی جگہ ’آدمی ہو چی پَر ‘ استعمال کروں ۔خیر آپ تو تشریف لے جائیں اور دوسر ے امیدوار کو موقع دیں ۔ دوسرے امیدواروں نے جب یہ ماجرا سنا تو انگریزی کا ایک لفظ بھی استعمال نہ کرنے اور بہتر اردو بولنے کی تیاری شروع کر دی ۔ چنانچہ اگلے امیدوار نے دروازہ کھول کر بڑے ہی شائستہ انداز میں پوچھا ’’ کیامیں آپ کی دیدان کبیران و مبارکان کے پیش نششتہ کرسی پر اپنی مقعد حقیرہ و رزیلہ رکھنے کی جسارت و گستاخی کر سکتا ہوں ؟‘‘ عبدل بھائی کا سر چکراگیا ۔ تھوڑی دیر تو وہ کھجانے کے بہانے اپنا سر سہلاتے رہے پھر مری مری آواز میں بولے ۔’’ آپ اندر آسکتے ہیں ‘‘ ۔
اب باضابطہ انٹر ویو شروع ہوا ۔عبدل بھائی نے سوالات پہلے سے ترتیب دے رکھے تھے ۔اور ہرایک سے وہی سوالات پوچھے گئے ۔اس سلسلے کا ایک سوال حالی کے درج ذیل شعر کی تشریح پر مشتمل تھا ۔ 
کوئی دن میں وہ دور آئے گا بے ہنر بھیک تک نہ پائے گا 
جواب میں کوئی تو ہکا بکا رہ جاتا ۔کوئی معذرت کرلیتا کہ تشریح اس کے بس کی بات نہیں اس کے اساتذہ نے صرف حالی کے مقدمے کے بارے میں ہی پڑھا یا ہے ۔ان کے اشعار پر کبھی روشنی نہیں ڈالی ۔ ایک نے تو جھنجلا کریہ تک کہہ دیا کہ ’’ ہم جیسے لوگ اگر شعر و شاعری کے چکر میں پڑ گئے تو متشاعر حضرات کیا پروڈکٹ بیچیں گے ؟(عبدل بھائی نے دل ہی دل میں کہا تھا کہ اور وہ کرتے بھی کیا ہیں ) لیکن ایک امیدوار جس نے پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کا کورس کر رکھا تھا ،بڑے اعتماد سے شعر کی تشریح کچھ اس طرح کی :
’’ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں حالی کی شاعری مقصدی اور افادی شاعری تھی ۔اس شعر میں حالی نے قوم کی اصلاح کرتے ہوئے ہنر کی اہمیت بتائی ہے اور کہا ہے کہ اگر بھیک مانگنے سے بچنا چاہتے ہو تو کھانا پکانے کا خوب اچھا ہنر سیکھو ۔اور پانچ ستارہ ہوٹل میں صدر خانسا ماں بنو ۔ہوٹلوں میں جو بخشش ملے اسے بھیک مت سمجھو کیوں کہ ایک دن آئے گا جب جمہوریت آئے گی اور حکومتیں بڑی کمپنیوں سے بڑا چندہ لینے کے لئے ملک میں مہنگائی کو بے قابو کردیں گی ، تب آدھے پیٹ آٹا اور ایک داڑھ شکر بھی مشکل سے ملے گی ۔اس کی زد میں امیر غریب سب آئیں گے اور کوئی بھیک تک دینے والا نہ ہوگا ۔ایسے برے وقت میں بخشش میں ملے پیسے اور دفتروں میں میز کے زیریں سے ملی بالائی ہی کام آئے گی ۔‘‘ 
اس سلسلے کا ایک دوسرا سوال یہ تھا کہ تخلیق کا ر کی موت تو ہوگئی ،نقاد کی موت کب ہوگی ؟ رجائیت پسند امیدار تو موت کانام سن کر ہی گھبرا جاتے تھے ،جواب کیا دیتے ۔لیکن اسی امیدوار نے جوشاید پہلے سے ہی غصے میں بھر اہو تھا بڑا بھیانک جواب دیا تھا ۔ اس نے کہا کہ جب ہم جیسے خانساماں کو سیمیناروں میں جدید انداز کے کھانے پکانے کے لئے بلایا جائے گا اور ہم بر گر اور پیتزاجیسے خوش نما کھاناکھلا کر ان کی توندیں اتنی بھر دیں گے کہ وہ پھٹ جائیں ۔اس پر عبدل بھائی نے ناصحانہ انداز میں کہا تھا کہ نہیں نہیں ایسی زبان آپ جیسے شائستہ اور ذہین شخص کے لیے زیبا نہیں ۔
پیشہء خانسامانی سے متعلق بھی ایک سوال کچھ یوں تھا کہ خانساماں کسے کہتے ہیں ۔زیادہ تر امیدواروں نے تکنیکی اور رٹی ہوئی تعریف کی تھی ۔لیکن مذکورہ ذہین امیدوار انٹر ویو کے داؤ پیچ سے واقف تھا ۔ اسے پتا تھا کہ ہر جواب ذرا تفصیلی اور دل چسپ ہونا چاہئے تاکہ سامنے والے پر آپ کی شخصیت پوری طری واضح ہوجائے ،سو اس نے قدرے تفصیلی جواب دیا ۔ ’’ خانساماں ایک آؤٹ دیٹیڈ قدیم لفظ ہے ، آج اسی کو شیف کہا جاتا ہے ۔کچھ عرصے پہلے تک باورچی کہا جاتا تھا ۔ اس کی اپنی تہذیبی تاریخ ہے ۔اس سلسلے میں متعصب تاریخ نگاروں کا بڑا رول رہا ہے جنھوں نے ان خانساماں کو نظر انداز کیا ۔ خانساماں قیمہ ڈال کرطاہری پکایا کرتا تھا ، باورچی قورمے اور بریانی پکایا کرتا تھا ۔اور شیف بر گر ،پیتز ااور گرم کتا یعنی ہاٹ ڈوگ پکاتا ہے ۔خانسامان اور معجونی حکیم میں ایک خاص قسم کا تعلق ہے ۔دونوں پکاؤ ہوتے ہیں ۔پہلے حکیم دوائیں پکاتے تھے اب اشتہاروں سے پکاتے ہیں ۔دیواروں اور اخباروں میں ایسے ایسے اشتہار دیتے ہیں کہ کان کے ساتھ آنکھیں بھی پک جاتی ہیں ۔اخباروں کے اشتہاروں سے آپ آنکھیں سینک بھی سکتے ہیں ۔پہلے حکیم ایسا جوشاندہ دیتے تھے کہ دماغ سے نزلہ پک کر بہہ جاتا تھا اب ایسے اشتہار دیتے ہیں کہ نزلہ ریڑھ کی ہڈی سے پک کر ٹپک پڑے ۔‘‘ 
اس سلسلے کا آخری سوال فلسفیانہ تھا اور اس لیے بڑا دل چسپ تھا کہ اس کا جواب تقریباً ہر امیدوار نے اپنے اپنے نظریے ،صلاحیت اور سمجھ کے مطابق دیا تھا ۔ لیکن لاجواب کرنے والا جواب اسی مذکورہ امیدوار کا تھا ۔ سوال تھا ’’ زندگی کیا ہے ؟‘‘چند جوابات اس طرح تھے : 
زندگی جھنڈو بام ہے ،زندگی زندہ دلی کا نام ہے ،زندگی فالودہ ہے ،کباڑہ ہے ، زندگی دولت کی ہوس اور پیاس ہے ،زندگی خوب صورت احساس ہے ، زندگی بھگوان کی کرپاہے خدا کی ہزار نعمت ہے ، زندگی دیوانے کا خواب ہے ،زندگی محبت ہے ،زندگی گرل فرینڈ ہے ، زندگی عورت ہے ، زندگی کھانے پینے سونے جاگنے کا نام ہے ،دنیا دھوکا ہے اور زندگی تماشا ۔ یہ سب سوشل میڈیا والے جوابات تھے ۔ انھیں پسند و ناپسند کرنے کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کسی پوسٹ کو لائک و شیئر کرنے نہ کرنے کا معاملہ ۔ لیکن آخری جواب ان سب کو جامع تھا جسے آپ ضرور شیئر کرنا چاہیں گے ۔ وہ کچھ اس طرح تھا : 
’’ زندگی کے تین روپ ہیں ۔تن ،من اور دھن ۔ غریب کے پاس صرف تن ہی تن ہوتا ہے ۔نہ من نہ دھن ۔ اس کی زندگی جھنڈو بام ہوتی ہے لوگ اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے مرض کا علاج کرتے ہیں ۔ اورپھر بام کی خالی ڈبیہ کی طرح پھینک دیتے ہیں ۔ متوسط طبقے کے پاس تن کے ساتھ من بھی ہوتا ہے ۔ اس کی زندگی کبھی خوشی کبھی غم اور دھوپ چھاؤں کی طرح ہوتی ہے ۔یعنی گھن چکر ہوتی ہے ۔ وہ صرف تن پر ٹک نہیں سکتا کیوں کہ من کا ’ایک من ‘ بوجھ لے کر ڈھوتا رہتا ہے ۔ہوتا ہے تو خوب شکم سیر ہوکر کھاتا ہے اور نہیں ہوتا ہے تو من مسوس کر رہ جاتا ہے ۔ اعلا طبقے کے پاس یہ تینوں چیزیں وافر مقدار میں ہوتی ہیں ۔تن کو چربی بے قابوبناتی ہے ، من کبھی مانتا نہیں اور دھن کا پتا نہیں کہ اس کے پاس کتنا ہے ۔مذہبی لوگ نرک اور جہنم سے سب سے زیادہ اسی طبقے کو ڈراتے ہیں اور ان کے چندے کے بغیر بھلا بھی نہیں ہوتا ۔تو نتیجہ یہ نکلاکہ زندگی الجھی ہوئی ہے ،اوبڑ کھابڑ تاریک زمینی سیارے کی طرح ۔اس میں امید کا سورج ہر روز نکلتا ہے اور ہر روز چھپ جاتا ہے۔ جب تک خدا اس سورج پہ فل اسٹا پ نہیں لگا دیتا یہ کسی کو تیز روشنی دے گا ،کسی کو ہلکی اور کسی کو بالکل نہیں ۔ اور ندا فاضلی کہتے پھریں گے ؂


کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا 
کہیں زمیں کہیں آسماں نہیں ملتا 


* بپریت چوک ،اتردیناج پور ،مغربی بنگال 
نام میں کیا رکھا ہے (انشائیہ)


طیب فرقانی *


سیب کو دیکھ کر یا اس کا نام سن کر کچھ لوگوں کے منہ میں پانی آتا ہے تو کچھ لوگوں کے ذہن میں اسحاق نیوٹن کا نام آتا ہے ۔ اور نام کاذکر سن کر شیکسپئر کی یاد ہی آسکتی ہے کیوں کہ منہ میں پانی آنا ممکن نہیں ۔ شیکسپئر جتنا مشہور و مقبول ہوا شاید اس سے زیادہ اس کا یہ مقولہ مشہور ہوا کہ نام میں کیا رکھا ہے ۔یہ کہنا بڑا آسان ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے لیکن اسے ہضم کرنا اتنا ہی مشکل معلوم ہوتا ہے جتنا پتھر چبانا مشکل ہے ۔ کیوں کہ اکثر ہم اپنی پوری زندگی نام و نمود ہی کے لئے تو جیتے رہتے ہیں ۔ جیون میں اگر نام نہ ہو تو جیون میں کیا رکھا ہے ؟ نیم اور فیم کے لئے دنیا میں لوگ نہ جانے کیا کیا کرتے ہیں ۔’’نیم‘‘ کے لئے صرف نِیم ہی نہیں بلکہ نِیم چڑھا کریلا بھی بن جانے میں قباحت محسوس نہیں کرتے۔ کبھی سر کے بل کھڑے ہوتے ہیں تو کبھی دھڑ کے بل کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ کبھی ہاتھ کی کھاتے ہیں تو کبھی منہ کی کھاتے ہیں ۔کبھی جوتی میں دال بانٹتے ہیں تو کبھی جوتی ہی کھالیتے ہیں ۔ مصطفی خاں شیفتہ تو سر عام یہ اقرار کرتے ہیں :
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کامٍ ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍبدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا 
اکبر الہ آبادی تو بدنامی کوالہ آبادی امرود کا جیلی بنا کر کھانے کو تیار بیٹھے تھے : 


لوگ کہتے ہیں کہ بدنامی سے بچنا چاہئے 
کہہ دو، بے اس کے جوانی کا مزا ملتا نہیں 


دوسری طرف شیخ ابراہیم ذوق کو محبت کا ذائقہ اتنا تیکھا لگتا ہے کہ محبت کانام لینے سے بھی کان پکڑ کر توبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ 


معلوم جو ہوتا ہمیں انجام محبت 
لیتے نہ کبھی بھول کے ہم نام محبت 


شیخ ابراہیم ذوق کا زمانہ شیخوخیت کو پہنچا یہاں ذرا صاحب شباب شاعروں کو دیکھئے کہ شہرت و بدنامی نے ان کو کس حال کو پہنچا دیا ۔ 


اب تو اپنے دروازے سے نام کی تختی اتار 
لفظ ننگے ہوگئے شہرت بھی گالی ہوگئی        اقبال ساجد 


خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن 
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو      احمد مشتاق 


آگے بڑھنے سے قبل درد کا یہ درناک شعر بھی ملاحظہ فرمائیں ۔ 
ہر چند تجھے صبر نہیں درد ولیکن 
اتنا بھی نہ ملیو کہ وہ بدنام بہت ہو (خواجہ میر درد) 


نام کا اثر اگر آپ کی شخصیت پر گہرا پڑتا ہے تو آپ کے نام کا اثر دوسروں پر بھی گہرا ہی پڑتا ہے ۔ ہمارے دیش میں کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ نام پوچھ کر نوکری دی گئی اور نام پوچھ کر کرایے پر مکان دیا جاتا ہے ۔بعض لوگ تو ڈرائیور اور کسٹمر کئیر کا نام بھی پوچھ لیتے ہیں ۔اور نام اگر ان کے حساب سے معقول نہ ہوتو اپنی تمام نا معقولیت کا اظہار بڑی ڈھٹائی سے کرتے ہیں ۔ ہم تو وہ مہان لوگ ہیں جو بے جان اشیا ؛جیسے سڑکوں ، مکانوں، اور یادگاروں کے نام پر بھی اعتراض جتانے میں نیکی اور پونیہ کا پہلو نکال لیتے ہیں ۔ خواہ وہ سیاست کی نیکی ہو یا مفاد پرستی کی ۔ امریکن ہوائی اڈوں پر اکثر مخصوص نام والے حضرات کی خصوصی آؤ بھگت ہوتی ہے ۔ ناموں کا ہماری زندگی میں اتنا گہرا اثر ہے کہ ہم دوسروں کے نام چرانے(اور چَرنے میں بھی) میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ لیکن ناموں کی اس چوری میں دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ نامور لوگوں کے نام ہی اکثر چرائے جاتے ہیں ۔ جیسے غریب کے گھر ڈاکہ نہیں ڈلتا ویسے ہی بے نام کے’ نام‘ بھی سیندھ ماری سے محفوظ رہتے ہیں ۔ شاہ رخ خاں نے جب ہندی فلمی صنعت میں اپنا نام بنایا تو ہند و پاک میں شاہ رخ نام جھاڑ جھنکار کی طرح اگا ۔پاکستانی شاعر احمد فراز کو اس بات پر فخر تھا کہ ماؤں نے ان کے نام پر بچوں کے نام رکھ دئیے :


اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں تجھے 
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا 


پچھلے دنوں جھاڑ کھنڈ سے یہ خبر آئی کہ ایک ۲۵ ؍ سال کے نوجوان انجینئر نے عدالت میں درخوات پیش کی کہ سی بی ایس کو حکم دیا جائے کہ اس کے تعلیمی اسناد میں اس کانام تبدیل کردے کیوں کہ اس نے اپنا نام بدل لیا ہے لیکن بورڈ تعلیمی اسناد میں نام بدلنے پر تیار نہیں ہے ۔ نام بدلنے کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی ۔ پتا چلا کہ اس انجینئر کو بین الاقوامی کمپنیوں میں اس کے نام کی وجہ سے نوکری نہیں مل رہی ہے تھی ۔ اس کا نام تھا ۔صدام حسین ۔ آہ ! مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے ۔نام بڑے اور درشن چھوٹے کہاوت تو ضرور سنی ہوگی ۔ نام معنوی اعتبار سے بھی بڑے ہوتے ہیں اور حجم کے اعتبار سے بھی ۔بہ اعتبار حجم اگر نام بڑے ہوں تو سمجھ لیجئے نام میں القاب و آداب کو ٹھونس دیا گیا ہے ۔مذہب ہمیں سادگی سکھاتا ہے لیکن اکثر و بیشتر مذہبی لوگوں کے ناموں کے ساتھ القاب و آداب ٹھونس کر کاغذکی سادگی کو سیاہی سے نہلایا جاتا ہے ۔ نام کا اثر ہماری زندگی پر گہرا نہ ہوتا تو ہم ہندوستانی ’’نام کرن ‘‘ کی اصطلاح ہی کیوں استعمال کرتے ۔ مجھے تو لگتا ہے کہ جلد ہی ہمارے بچوں کے نام یوں ہوں گے :مسٹر ہیش ٹیگ فلاں ، حضرت فیس بکیا لکھنوی ، شری واٹس ایپ حید ر آبادی ، کانپوریا یوٹیوبر ۔اور پھر اس قسم کے گیت مقبول ہوں گے ۔نام تیرا مستانہ کام تیرا گھبرانہ ۔ایسی پیشن گوئی کی ضرورت یوں آن پڑی کہ لوگ اپنے بچوں کے نام یونیک رکھنا چاہتے ہیں ۔ اب جمن، جمعراتی ، شبراتی اور رمضانی جیسے نام رکھنے کے دن لد گئے ۔ بھلا ہو بی جے پی سرکار کا جس نے زعفرانی نام کا جھنڈا ابھی بھی بڑی مضبوطی سے تھا م رکھا ہے ۔ یہ بوڑھے لوگ بھی سماج میں ناموں کے بدلتے رجحان پر کتنا کڑھتے ہوں گے ۔ ہائے وہ کیا زمانہ تھا جب لوگ پیدائش کے دن ، مہینے اور رات کے حساب سے نام رکھتے تھے ۔ 
سنا ہے کہ کوپن ہیگن یونیورسٹی میں ناموں کی تفتیش کا شعبہ ہے ۔ تعجب اس بات پر ہوا کہ اتنا آزاد خیال اور روشن دماغ لوگوں کا ملک نام رکھنے میں اتنی تنگ دلی کا مظاہرہ ہو کہ پہلے سے طے شدہ سات ہزار ناموں میں سے ہی کوئی نام رکھا جاسکتا ہے ۔ اگر کوئی نام ماں باپ کو نہ جچے تو اس کا حل یہ کہ یونیورسٹی کے مذکورہ شعبے سے رابطہ کرکے اپنے بچوں کا کوئی بہتر نام رکھ سکتے ہیں ۔ ہائے ظالم ترقی کا یہ راز ہم مشرقی لوگوں پہ کیوں نہ کھلا ۔ہمارے یہاں ناموں کے بدلنے کا رواج بھی ہے ۔موجودہ زمانے میں نام بدلناہندوستان کے سیاسی منظرنامے کا ایک اہم کھیل ہے۔ معلوم نہیں گرنتھوں میں اس یگ کو کیا کہا گیا ہے جس میں نام بدلنے پر ووٹ ملیں گے ۔نوٹ پر ووٹ تو سنا ہی ہوگا لیکن نام بدل کر ووٹ ؟ زمانہ ہی بدل گیا ۔حالی کہتے تھے جب زمانہ بدلے تم بھی بدل جاؤ ۔ پتہ نہیں انھوں نے کیا بدلنے کو کہا ؟ نام بھی بدل لیں ؟ نام نہ بدلیں تو کیا بدلیں ؟ کیا نام بدلنا لنگی بدلنے یا ٹوپی بدلنے جتنا آسان ہے ؟ لوگ تو مسجدوں مندروں کے سامنے سے جوتے چپل تک بدل لیتے ہیں ۔ انسان گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے ۔لیکن گرگٹ کمبخت گرگٹ ہی رہ گیا اس احمق نے اپنا نام نہیں بدلا ۔ میں سفارش کرتا ہوں کہ آئندہ زمانے میں نام بدلنے کی وزارت قائم کی جائے ۔اور وزارت کا نام رکھا جائے ’’نام بدلُو وزارت ‘‘ جیسے پارٹی بدلنے والے کو دل بدلو کہا جاتا ہے ۔ اچھا ،دل بدلنے اور دِل بدلنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا ۔لیکن انسان موسم کی طرح بدل جاتا ہے ۔ آلودگی نے موسم بدل دیا ہے اور ہم نے آلودگی کا مفہوم بدل دیا ہے ۔یو ں تو دل خون سے آلودہ ہوتا ہے لیکن اگر کدورت ، نفاق اور مفاد پرستی کی قلعی سے دل آلودہ ہو جائے تو انسان کھڑے کھڑے بدل جاتا ہے اور ہوا بھی نہیں لگتی ۔لوگ نام کا فائدہ بھی اٹھا تے ہیں ۔ عشاق محبوب کے نام سر کٹانے کو تیار رہتے ہیں ۔ شاعر کے نام پر مجمع زیادہ بڑا ہوجاتا ہے ۔اور خود شاعروں نے بھی نام پر مشق سخن کی ہے ۔ راحت اندوری کو جانتے ہی ہوں گے آپ ؟ یہ دیکھئے کیسا عشق فرمایا ہے انھوں نے :


تمھارے نام پر میں نے ہر آفت سر پہ رکھی تھی 
نظر شعلوں پہ رکھی تھی زباں پتھر پہ رکھی تھی 


نام کے ساتھ اگر ’’پر ‘‘ لگ جائے تو باغوں ں میں بہار آجائے۔ لوگ خدا کے نام پر بھیک مانگتے ہیں ۔ خدا کے نام پر بھیک دیتے ہیں ۔ خدا کے نام پر دنیا کی خطرناک جنگیں ہوئی ہیں ۔ اسی لئے دواکر راہی جھنجھلا کر سوال پوچھتے ہیں:


سوال یہ ہے کہ اس پر فریب دنیامیں 
خدا کے نام پہ کس کس کا احترام کریں 


منتری صاحب کے نام پر کام کو بھی پر لگ جاتے ہیں ۔ عشق کے نام پر تتلیاں ’’ یلایلیاں ‘‘ کرتی ہیں ۔ سیاست کے نام پر کردار کشیاں اور نوٹ بندیاں ہوتی ہیں ۔سیمینار کے نام پر نوٹ سازیاں ہوتی ہیں ۔ اور مجبوری کا نام مہاتما گاندھی ہوجاوے ہے ۔ اب خود پر جبر کرکے یہ اشعار پڑھنے کی زحمت گوارا کریں ۔ 
ساتھ رکھئے کام آئے گا بہت نام خدا 


خوف گر جاگا تو پھر کس کو صدا دی جائے گی (احترام اسلام )
اہل دنیا سے مجھے کوئی اندیشہ نہ تھا 
نام تیرا کس لئے مرے لبوں پہ جم گیا (احترام اسلام ) 
کوئی تہمت ہو مرے نام چلی آتی ہے 
جیسے بازار میں ہر گھر سے گلی آتی ہے (انجم خیالی )
وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے 
گلی گلی مری رسوائیوں کا ساتھی ہو افتخار عارف 

Uttar Dinajpur
West Bengal