پریم چند اور منٹو کے افسانوں کی فلم بندی اور صدا بندی: تقابلی مطالعہ
از طیب فرقانی
( (26/8/2018 This article was published in Pindar Daily News Paper ,Patna,
courtesy: Kamran Ghani
آج جب ہم اردو کے فروغ میں فلم اور میڈیا کا کردار پہ غور و فکر کررہے ہیں ایک سوال پوچھا جانا چاہئے کہ الیکٹرانک عہد میں یا سائبر عہد میں فکشن یاقصے کہانیوں کی تحریری شکل کی کیا اہمیت ہے ؟ آج کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ آپ کی پانچ سو صفحے کا ناول یا چار صفحے کا افسانہ پڑھے ؟ فیس بک ، یو ٹیوب ،ٹوئیٹر اور واٹس ایپ کے زمانے میں ان تحریری کہانیوں کی اہمیت کم ہوئی ہے یا نہیں ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ کتابیں پڑھنے کا رجحان کم ہوا ہے ۔ اور جو لوگ کتابیں پڑھتے ہیں ان کے لئے اسی آئی ٹی عہد میں مزید راستے ہم وار کردیے ہیں ۔ اب ہارڈ کاپی کی کتابیں پڑھنے کا رواج کم ہوا ہے لیکن سافٹ کاپی پڑھنے کا رواج بڑھا پے ۔ کیوں کہ سافٹ کا پی آپ کو سوشل میڈیا کے گلیاروں میں بھی دستیاب ہے ۔ بس انگلی کے پوروے کی ایک جنبش ہی کافی ہے ۔ پروفیسر خالد سعید نے اس سلسلے میں ایک اہم بات کہی ہے کہ شعر وکہانی کا رشتہ کسی عہد سے نہیں بلکہ انسانی کی ات سے جڑا ہے ۔ جب تک انسان ہے شعرو کہانیاں لکھی اور کہی جاتی رہیں گی ۔ اسی آئی ٹی عہد میں ہیری پوٹر کی کہانیوں کے لئے لمبی قطار دیکھی گئی ہے ۔
منشی پریم چند (پ:۱۸۸۵ ،ف:۱۹۳۶) اور سعادت حسن منٹو (پ:۱۹۱۲،ف:۱۹۵۵) اردو افسانوی ادب کے بے تاج بادشاہ ہیں ۔ ان کی تخلیق کردہ مختصر کہانیاں شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں اور ان کی آج بھی وہی معنویت ہے جو ان کے زمانے میں تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو آج بھی اسی ذوق سے پڑھا جاتا ہے ۔ اور ہر طبقے کے کے لوگوں نے ان کو پڑھا ہے ۔ یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں کہ آج جب ہم ان کے افسانوں کی فلم بندی یا صدا بندی کی بات کررہے ہیں کبھی یہ دونوں خود فلمی دنیا سے منسلک رہے ۔ منٹو نے تو غالب جیسی شاہکار فلم بنائی ۔ پریم چند کے زمانے تک فلم نے اتنی ترقی نہیں کی تھی اس وقت خاموش فلمیں ہی بناکرتی تھیں ۔ پہلی بولتی فلم عالم آرا ۳۱ ۱۹ میں بنی اورپریم چند ۱۹۳۶ میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے ۔
خاموش فلموں کے زمانے میں گل بکاؤلی ، ۱۹۲۴ ، اردو کے شیکسپئر آغا حشر کاشمیری کے ڈرامے ’’صید ہوس‘‘ خان بہادر پر اردشیر ایرانی (پ:۱۸۸۶،ف: ۱۹۶۹) نے ۱۹۲۶ میں فلم بنائی تھی ۔ مرزا ہادی رسوا (پ:۱۸۵۷،ف:۱۹۳۱) کے لکھنوی تہذیب کی بہترین عکاسی پیش کرنے والے شاہ کار ناول امراؤ جان اد پر تین فلممیں بنیں ۔ مہندی (۱۹۵۸ ) ، امراؤ جان (۱۹۸۱)ریکھا اور نصیرالدین شاہ کی اداکاری سے سجی اس فلم کے ہدایت کار مظفر علی اور نغمہ نگار گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ شاعر شہریار تھے ۔ فلم کا ایک نغمہ یوں ہے
دل چیز کیا ہے آپ مری جان لیجئے
بس ایک بار میرا کہا مان لیجئے
تیسری فلم اسی امراؤ جان کی ریمیک تھی ۔ جو سنجے لیلا بھنسالی نے ایشوریہ رائے ، شبانہ اعظمی ، ابھییشک بچن اور سنیل شیٹی کی اداکاری میں بنائی تھی ۔ فلم ناقدین کا کہنا ہے کہ بھنسالی اس فلم میں اتنے کامیاب نہ ہوسکے ۔ بھنسالی کو تہذیبی اور نیم تاریخی فلم بنانے کے لئے جانا جاتا ہے ۔ ان کی فلم بلیک ، دیوداس ، رام لیلا ، باجی راؤ مستانی اور پدماوت سبھی نیم تاریخی اور تہذٰیبی فلمیں ہیں ۔ بیسویں صدی کے اہم ترین ہندوستانی فلم ساز ستیہ جیت رے (پ:۱۹۲۱ ، ف:۱۹۹۲ ) نے پریم چند کے افسانہ شطرنج کی بازی پر فلم بنائی تھی ۔ جب کہ چھوٹے پر دے پر سمپورن سنگھ کالرا یعنی گلزار نے پریم چند کی تحریر کے نام سے ان کے افسانوں کی اسکرین پلے اور مکالمے لکھے ۔جنھیں دوردرشن پر نشر کیا گیا ۔ یو ٹیوب میں دور درشن آرکائیوز میں انھیں دیکھا جاسکتا ہے ۔ آل انڈیا ایف ایم ریڈیو سے اپنا کریرشروع کرنے والی مشہور ریڈیو جاکی جو ان دنوں ریڈیو مرچی میں کام کرتی ہیں ، نے منٹو کے افسانوں کو ایک پرانی کہانی کے نام سے صدابند کرنے کی بہترین اور کامیاب کوشش کی ہے ۔ فلم بندی اور صدا بندی میں کیافرق ہے اسے ہم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کیا کسی تخلیق کی فلم بندی ہوبہو سکتی ہے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔افلاطون نے شاعری اور ڈرامہ کو نقل کی نقل کہا تھا ۔ اس اعتبار سے افسانہ نقل کی نقل ہے پھر اس کی فلم بندی نقل کی نقل کی نقل ہے ؟ یا نہیں ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عمل تخلیقی حقائق کی باز تخلیق ہے انگریزی میں کہیں تو Recreation of recreated realities ہیں ۔ جب کسی ایسی تخلیق کی فلم بندی ہوتی ہے جو فلم کے لئے نہیں لکھی گئی ہے تو اس میں لا محالہ کچھ نہ کچھ تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں ۔ کیوں کہ فلم سے محظوظ ہونے کے لئے خواندگی لازم نہیں ۔ لیکن فکشن کے لئے خواندگی ضروری ہے ۔ تحریری فکشن میں سب کچھ الفاظ ہی ہوتے ہیں ۔ اور تخلیق کار ان الفاظ میں جادو بھرتا ہے ۔ جب کہ فلم میں الفاظ صرف مکالمے کے طور پہ استعمال ہوتے ہیں اور فلم ساز کو کہانی آگے بڑھانے کے لئے مناظر فلمانے پرتے ہیں ۔ اس طرح الفاظ کا وہ رس جو تحریری کہانیوں میں ہوتا اکثر فلموں سے ناپید ہوجاتا ہے ۔ دو تین مثالوں سے سمجھیں ۔
’’ دونو عیش کے بندے تھے مگر بے غیرت نہ تھے ۔قومی دلیری ان میں عنقا تھی مگر اتی دلیری ان میں کوٹ کوٹ کے بھری تھی ۔ ۔۔۔تلواریں چمکیں ۔چھپاچھپ آواز آئی اور دنوں زخم کھاکر گر پڑے ۔دونوں دونوں نے وہیں تڑپ تڑپ کر جان دی ۔ ۔اپنے بادشاہ کے لئے جن کی آنکھوں سے ایک بوند آنسو نہ گری ۔ انھیں دو آدمیوں نے شطرنج کے وزیر کے لئے اپنی گردنیں کٹادیں ۔ ‘‘ (شطرنج کی بازی )
’’ادھر حضور سنگھ کی آنکھوں میں موتیا بند اتر آیا اور وہ ہمیشہ چارپائی پر بیٹھا کانوں سے دیکھنے کی کوشش کرتا ۔ ‘‘ (ایک چادر میلی سی )
ستیہ جیت رے نے اس انجام کو ہی بدل دیا ۔ ان کی فلم شطرنج کی بازی میں تلواروں کی جگہ طمنچہ دکھایا گیا ہے ۔ پریم چند کے میر و میرزا دونوں مر جاتے ہیں جب کہ ستیہ جیت رے نے دونوں کو زندہ رکھا ہے ۔ میں نے جب دوردرشن کی وہ سیریز دیکھی جس کا اسکرین پلے گلزار نے لکھا ہے تو شروع میں مجھے دھچکا لگا اور میں نے سوچا کہ شاید وہ کہانی میں بھول گیا ہوں ۔ میں نے پریم چند کی ان کہانیوں کو نکال کر دوبار ہ پڑھا تب مجھے سمجھ میں آیا کہ دراصل کہانیوں کی فلم بندی کی وجہ سے ان میں تبدیلیاں کی گئی ہیں ۔
اب آئیے آر جے صائمہ کی صدا بندی کی طرف ۔آر جے صائمہ نے منٹو کی کہانیوں کی صدا بندی کی ہے ۔ریڈیو پر تو اسے آپ صرف آواز کے ذریعے ہی سن سکتے ہیں ۔ ہاں آواز میں تخلیقیت پیدا کرنے بھر پور کوشش کی گئی ہے ۔ بیچ بیچ میں دوسری آوازیں بھی شامل کی گئی ہیں ۔ ریڈیو تو آواز وں کا ہی مخزن ہے ۔ لیکن یوٹیوب پر ریڈیو مرچی کے آرکائیوز میں جو کہانیاں آپ سنیں گے ان میں سمعی اثرات کے ساتھ بصری اثرات ڈالنے کی بھی کوشش کی گئی ہے ۔ فرق یہ ہے کہ کہانی آوازوں کے ذریعے آگے بڑھتی رہتی ہے اور ساتھ ہی اسکرین پر کارٹونی تصاویر چمکتی رہتی ہیں ۔ اس سے کہانی کے مناظر کی بھی تخلیق ہوتی ہے ۔ اور وہ الفاظ جو منٹو نے لکھے ہیں آپ انھیں ہو بہو سن سکتے ہیں ۔ میر ے نزدیک یہ کہانیوں کی پیش کش کا یہ طریقہ زیادہ معنی خیز ہے ۔ اسے پوری طرح سمجھنا ہو تو دوسردرشن کی وہ فلمیں بھی دیکھیں جو منٹو کی کہانیوں پر فلمائی گئیں ہیں ۔ چاہے وہ کالی شلوار ہو یا دوسری فلمیں ۔