Thursday, 25 December 2014

پاکستانی مصنف راشد اشرف کی دو مزید کتابیں منظر عام پر

(طیب فرقانی ،بیورو چیف بصیرت آن لائن )
میرے ای میل ان باکس میں ہر ہفتے گوگل کی جانب سے ایک برقی خط موصول ہوتا ہے جس میں کچھ یوں لکھا ہوتا ہے ’’ طیب یہ ہے وہ سب کچھ جو چھوٹ گیا راشد اشرف کی جانب سے ‘‘ ۔گوگل ٹوٹی پھوٹی اردو میں ترجمہ کرکے ہمیں یہ بتاتا ہے کہ راشد اشرف نے گوگل پر کسی نئی دستاویز کااشتراک کیا ہے اورآپ نے ابھی تک اسے پڑھا نہیں ہے ۔راشد اشرف ہر ہفتے پاکستان کے پرانی کتابوں کے اتوار بازا رجاتے ہیں اور وہاں سے قدیم و جدید قیمتی کتابیں ڈھونڈ کر لاتے ہیں ۔قیمتی سے میری مراد اہم اور معیاری ہے ۔اگرچہ راشد اشرف قیمت بھی کچھ نہ کچھ چکاتے ہی ہوں گے ۔ان کے اتوار بازا جانے کی ایک طویل داستان ہے جسے وہ بسا اوقات اردو نیٹ جاپان اور ہماری ویب کے ذریعے ہم تک پہنچاتے رہتے ہیں ۔لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہے جتنی آسانی سے میں آپ کو بتا رہا ہوں ۔اتوار بازا جانا ،کتابوں کے ڈھیر میں اہم کتاب تلاش کرنااور پھر قیمتی کتابوں کو اسکین کرکے اسکرائب پر اپ لوڈ کرنا صبرآزما اور مشقت بھرا کام ہے جو وہ کسی صلے کی تمنا کیے بغیر کرتے جا رہے ہیں ۔ایک انداز ے کے مطابق اب تک انھوں تقریباً ڈیڑھ لاکھ صفحات اسکین کرکے اسکرائب پر اپ لوڈ کر دیا ہے ۔ہندوستان میں ریختہ ڈاٹ کام نے قدیم و جدید کتابوں کو اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کا بے حد اہم کارنامہ انجام دیا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے لیکن راشد اشرف کی اپ لوڈ کی ہوئی کتابیں آپ پی ڈی ایف فائل میں ڈاؤن لوڈ بھی کرسکتے ہیں اور اپنے پاس محفوظ بھی رکھ سکتے ہیں ۔جب کہ ریختہ آپ کو ڈاؤن لوڈ کرنے کی سہولت فراہم نہیں کرتی ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ راشد اشرف ایسی کوئی کتاب اپ لوٖڈ نہیں کرسکتے جس سے کاپی رائٹ کا مسئلہ پیدا ہو۔ان کی اپ لوڈ کی ہوئی کتابیں آج سے تقریبا پچاس ساٹھ سال پرانی ہیں جن کے مصنفین اب بقید حیات نہیں ہیں ۔
اس طویل تمہید کے بعد آئیے اب رخ کرتے ہیں راشد اشرف کی طرف ۔راشدا شرف پیشے سے انجینئر ہیں اور کراچی پاکستان میں رہتے ہیں ۔وہیں ان کی پیدائش ہوئی ۔عمرکا ابتدائی حصہ حیدر آباد سندھ میں گزرا۔اور پھر وہ کراچی ہی آگئے ۔اپنی پیشہ ورانہ زندگی سے فرصت نکا ل کر وہ اردو زبان و ادب کو انٹر نیٹ سے جوڑنے میں اپنا رول بخوبی نبھارہے ہیں ۔ان کا خاص میدان نثر ہے ۔انھوں نے ابن صفی کو پڑھا بھی ،ان پر کتابیں بھی لکھی اور مرتب کی ہیں اور اپنی تحریروں میں ابن صفی کی پیروی بھی کرتے نظر آتے ہیں ۔تحریروں میں طنز و مزاح اور انوکھے اسلوب پیدا کرنا شاید انھوں نے ابن صفی سے ہی سیکھا ہے ۔انھوں نے اب تک دو کتابیں ابن صفی کے فن اور شخصیت پر لکھی اور مرتب کی ہیں ۔’’ ابن صفی کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا ‘‘ اور ابن صفی ۔شخصیت اور فن ‘‘ نے ہندو پاک میں ابن صفی کے چاہنے والوں کا دل موہ لیا ہے ۔اس کے بعد ان کی ایک اور کتاب مولاناعبد السلام نیازی پر آئی ۔اورا ب دوکتابیں ’’ چراغ حسن حسرت ‘‘ اور طرز بیاں اور ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی ہیں ۔یہ کتابیں اٹلانٹس پبلیکشنز نے شائع کی ہے ۔جن کا اجرا کراچی بین الاقومی کتابی میلے کے موقعے پر پاکستان کے صاحبان علم و فن کے ہاتھوں عمل میں آیا ۔اس موقع پرجناب امین ترمذی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’راشد اشرف نے کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو دوسال میں پانچ کتابیں لکھ ڈالیں ۔اور اس میں اس بات کا خاص خیال رکھا کہ محمود غزنوی کی طرح صرف حملوں کی گنتی میں اضافہ نہ ہوتا رہے بلکہ فتوحات پر بھی نظر رکھی جائے ۔‘‘پروفیسر رئیس فاطمہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے راشد اشرف کی کتابوں کا تعارف پیش کیا اور راشد اشرف کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا ’’ایسے عالم میں راشد اشرف کا دم غنیمت جانئے جو قحط الرجال کے اس عہد میں برابر اپنے اکابر اور باکمالوں کو یاد رکھے ہوئے ہیں اور دوسروں تک ان کا فیض جاریہ بھی پہنچاتے رہتے ہیں ۔راشد اشرف خوش رہو اور یہی کام کرتے رہو۔‘‘ اس موقعے پر جنا ب عقیل عباس جعفری ،جناب معین الدین عقیل اور معراج جامی بھی شریک ہوئے اور اظہار خیال کیا ۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ چراغ حسن ایک ادبی اور صحافتی شخصیت تھے جن پر یہ پہلی کتاب ہے ۔راشد اشرف نے اس کتاب میں ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والے مضامین کو مرتب و مولف کیا ہے ۔جب کہ ’’ طرز بیا ں اور ‘‘ میں خود نوشتوں پر تبصرے ،تحقیقی مقالہ جات اوراتوار بازا ر سے ملنے والی کتابوں کے احوال شامل ہیں ۔راشد اشرف کو خود نوشتوں ،خاکوں ،اور سفر ناموں سے خاص لگاؤ ہے اور یہ ان کا خاص میدان ہے ۔غیر افسانوی ادب کی تحقیق میں یہ بڑا کارنامہ ہے ۔ہماری دعا ہے کہ وہ اپنا کام یوں ہی جاری رکھیں ۔کام کرنے والوں کو وقت ان کا صلہ دیر سے ہی سہی دیتا ضرور ہے ۔