Wednesday, 26 February 2014

عبدل بھائی سے ایک مکالمہ۔۔انشائیہ

عبدل بھائی کا خاندانی نام عبدالمبین ہے ،لیکن وہ عبدل بھائی کے نام سے ہی مشہور ہیں۔تخفیف نام کے پس پشت بڑی لمبی داستان ہے ۔اجی کہیے کہ داستان امیر حمزہ بھی ہیچ ہے۔جتنے منہ اتنی باتیں۔کچھ تجزیہ کاروں کو اس کے پیچھے عالمی خفیہ ایجنسیوں موساد،ایف۔بی۔آئی،آئی ایس آئی وغیرہ کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ظاہر ہے جس کے پیچھے ایسی جھوٹی سچی اورقانونی غیر قانونی ایجنسیوں کا ہاتھ ہو ،اس کا نام کیا ،اس کا وجود ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا ۔کچھ تبصرہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہو نہ ہو یہ انہی لوگوں کا کام ہے جنہوں نے آئے دن ہندوستانی نوجوانوں کی بے جا گرفتاریا ں کرکے جیل بھرنے اور تمغہ حاصل کرنے کا شعار اپنا لیا ہے ۔کچھ لوگ اس کے پیچھے \"ماقبل جدیدیت \" جیسی ادبی وجہ مانتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں لوگ ناموں کو بکری کی طرح چباکر بولنے کے عادی ہیں ۔کچھ مغرّبین یعنی مشرقی انگریز پرستوں کا خیا ل ہے کہ یہ Shortsپہننے والوں کی تقلید میں Short Formا پنانے کا نتیجہ ہے ۔بہر حال وجہ جو بھی ہو یہاں ان کا پورا نام نقل کرنا ضروری ہے تاکہ آنے والی نسل کے لئے مشعل راہ ہو۔(چاہے موجودہ نسل کے لئے ہو،نہ ہو)چوں کہ یہ قدیم واہی تباہی شاہی خاندان کے چشم و چراغ(آنکھ اور لالٹین )ہیں ،اور ان کو ملکی ،غیر ملکی،سیاسی ،سماجی اور ادبی تمغوں طغروں سے نوازاگیا ہے ،اس لئے ان کے نام کے سابقے لاحقے فیلانہ اور فرسانہ ہیں ۔۔۔۔نواب تنگ وجنگ بہادر ،لاغر ولاچار عبدالمبین عرف عبدل بھائی سالار،ہفت ہزاری ،پہاڑی ،نقادی وافسانوی وغیرہ۔۔۔
حالاں کہ وہ کسی تعارف کے محتاج و حقدار نہیں مگر چوں کہ وہ آئندہ نسل کی آبیاری کریں گے اور ان کے لئے راستے کا روڑا نہ بن کر نشان راہ بنیں گے ،اس لئے مکمل تعارف ضروری ہے تاکہ سند رہے ،اور ان کے جسمانی حجم کی طرح موٹے حروف میں ان کا نام لکھا جائے ۔
اس سرسری تعارف کے بعد اب ان کی خدمات عظیمہ وجلیلہ (بر وزن قلیلہ و رذیلہ)دیکھیں ۔یقین ہے ایک ہی جھلک میں آنکھیں خیرہ ہوجائیں گی۔(خدا نہ کرے)۔۔۔ان کی خدمات کا اعتراف بڑے بڑے سیاست دانوں ،شاعروں ،ادیبوں نے ہوٹلوں ،قہوہ خانوں ،سیلونوں اور چوراہوں پر بیٹھ کر ،کھڑے ہوکر کیا ہے ۔ادبی اور اقتباسی زبان میں کہیں تو ایسی ہی شخصیات کی تعریف میں رشید حسن خاں نے فرمایا ہے :
’’یہ حضرات علم اور دریافت سے زیادہ ہاتھ کی صفائی پر ایمان رکھتے ہیں ۔
تھوڑا سا سماجی پس منظر دکھایا ،کچھ لسانیاتی انداز کی گفتگو کرلی،کسی طالب علم 
سے ا صل متن نقل کرالیا اور باقی کام تو کاتب کرہی لیا کرتا ہے ‘‘۔ 
ان کی سیاسی سماجی خدمات کی جھلکیاں بھی جھانکیوں کی شکل میں ٹی و ی چینلوں پر نظر آتی رہتی ہیں ،جن کے عوض متعدد بار ٹی وی اینکروں اور نیوز ایڈیٹروں کو ’’رشوتانہ انعام ‘‘لیے اور دیے گئے ہیں ۔ایسی عجیب و غریب شخصیت سے ہمارے ہفت روزہ اخبار نوائے بے ادب کے (سب ایڈیٹر نہیں )ایک ایڈیٹر شاہد جھنجھٹ نے انٹر ویو لیا ہے ۔پیش ہیں انٹر ویو کے خاص اقتباسات۔
شاہد جھنجھٹ:جناب آپ ملک کی نامور (بر وزن جانور)ہستی بننے والے ہیں ۔کشمیر سے کنیا کماری تک آپ کی شہرت کا طبلہ پیٹا جاتاہے ۔آپ کے دیوانے آپ کی دل چسپیوں ،مشغلوں سے واقف ہونا چاہتے ہیں کیا آپ قارئین کو بتا ئیں گے کہ آپ کو کن چیزوں کا شوق ہے ؟
عبدل بھائی:دیکھئے میرے شوق وقت و حالات کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں ۔آج کل مجھے فلموں کا بڑا شوق ہے ۔انگریزی میں ایک فقرہ ہے Have a sweet tooth یعنی میٹھے کا شوقین ہونا ۔میں نے ایک فقرہ تخلیق کیا ہے Have a cinema eye اور آپ کے سامنے ایک راز سر بستہ سے پردہ ہٹانا چاہوں گا کہ مجھے صرف فلمیں دیکھنے کاہی شوق نہیں بلکہ ادا کاری ،ہدایت کاری اور وہ۔۔۔۔کیا کہتے ہیں مکابازی ۔۔۔نہیں مکالمہ بازی کا بھی بے حد شوق ہے ۔فلموں کا شوق تو میں اسکرین پر پورا کرتا ہوں باقی سب خواب میں ۔
شاہد جھنجھٹ:جناب آپ کالج کے دنوں میں طلبا یونین کے لیڈر ہوا کرتے تھے ۔کیا آپ کو لگتا ہے کہ کالجوں یونیورسٹیوں میں طلبا کا انتخاب ہونا چاہئے؟
عبدل بھائی :انتخاب کا معاملہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے اکثر منتخب نمائندے بدعنوان ہیں ۔بدعنوانی کا لفظ عربی فارسی سے مرکب ہے ۔کسی شاعر نے کہا ہے ؂
عربی چھڑائے چربی فارسی نکالے تیل
اردو ہے کچھ کچھ ہندی ہے کھیل 
اس وقت دنیا میں مشہور کھیل کرکٹ ہے ۔کرکٹ کا ہم وزن لفظ گرگٹ ہے ۔گرگٹ رنگ بدلتا ہے ۔
جھنجھٹ:(بیچ میں ٹوکتے ہوئے)آپ کی اس برق زبانی سے یاد آیا کہ ادب میں شعور کی رو بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟
عبدل بھائی :دیکھو! شعور کی رو گرگٹ کے رنگ بدلنے کی طرح ہے ۔مثال کے طور پر رنگ سے آپ کا ذہن رنگ داری کی طرف جاسکتا ہے۔رنگ داری وصولنے والے کو رنگ دار کیوں کہتے ہیں۔طرح دار کیوں نہیں کہتے؟ اردو میں طرحی مشاعرہ ہوتا ہے ۔پطرس بخاری کے زمانے میں کتوں کا مشاعرہ ہوتا تھا۔ہمارے زمانے میں پارلیمنٹ میں مشاعرہ ہوتا ہے۔غالب کے تتبع میں ایسے ایسے مشکل اشعار پڑھے جاتے ہیں کہ ایک ایک شعر کو سمجھنے کے لئے صدر مشاعرہ پورا پورا سیشن ملتوی کر دیتے ہیں ۔پھر جب مشاعرے کا آغاز ہوتا ہے تو لوگ ایک دوسرے پر گرجتے برستے ہیں ،بھونکتے کاٹتے ہیں ۔اب کاٹنے کا تعلق دیکھئے! بسوں ٹرینوں میں جیب کترے جیب کاٹ لیتے ہیں ۔گھر میں بیوی جیب کاٹ لیتی ہے ۔آفس میں باس پگاڑ کاٹ لیتا ہے ۔حکومت سبسیڈی کاٹ لیتی ہے ۔حکومت اب بوڑھی ہوگئی ہے ۔افسوس کہ انا ہزارے بھی بوڑھے ہوگئے اور وزیر اعظم بننے کی خواہش میں اڈوانی جی جیسے کئی ایک نیتا بوڑھے ہوگئے ۔ 
شاہد جھنجھٹ:آپ کا سیاسی نظریہ کیا ہے ؟
عبدل بھائی :شروع شروع میں ہر سیاسی نظریہ اچھا لگتا ہے ۔کارل مارکس کا نظریہ تو اقبال کو بھی اچھا لگ گیا تھا ۔جبھی تو انہوں نے ’’ہر خوشہء گندم کو جلادو‘‘ والا شعر کہہ دیا ۔گویا گندم کو جلا دو اور گندم نما جو کو رہنے دو۔واہ ! یہ کوئی بات ہوئی۔
شاہد جھنجھٹ :موجودہ عالمی سیاسی منظرنامے پر آپ کچھ کہنا چاہیں گے ؟
عبدل بھائی :میں بس دنیا کے تمام حکمرانوں سے گزارش کروں گا کہ تھوڑا کم کھائیں ۔کھا کھا کر چمڑی موٹی نہ کریں ۔کم کھائیں گے تو کم بولیں گے ۔کم بولیں گے تو صوتی آلودگی بھی کم ہوگی اور بد امنی بھی کم پھیلے گی ۔دیکھئے ایک فی البدیہہ شعر ہوگیا ۔
ان کے بولے سے جو مچ جاتی ہے دنیا میں ہلچل 
لوگ سمجھتے ہیں کہ نیتا کی زبان اچھی ہے 
شاہد جھنجھٹ:سنا ہے کہ آپ محاوروں اور ضرب الامثال کو جدیدیانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔؟
عبدل بھائی:(بھڑکتے ہوئے)آپ جدیدیانے کی بات کر رہے ہیں ،ارے میں انہیں سائنٹفک بنانا رہا ہوں ۔مثال کے طور پر ’’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے ‘‘۔یہ تو گزرے زمانے کی بات ہے ،جب لوگ نیم وحشی ہوا کرتے تھے ۔اب پھونک کر کھانے پینے کو ڈاکٹر منع کرتے ہیں ۔اس سے بیکٹریا ان اشیا میں شامل ہوجاتا ہے ۔اس لئے یہ ضرب المثل نیم وحشی ہے ۔یہ نہ سمجھا جائے کہ ’’نیم وحشی ‘‘ کی ترکیب میں نے کلیم الدین احمد سے لی ہے ۔ایک اور مثال دیتا ہوں ۔نالائق بیٹے کو عاق کرنا۔اب اس عمل کے خلاف بیٹوں نے باپ کو اولڈ ایج ہوم میں عاق کرنا شروع کردیا ہے ۔اس لئے ان کو سائنٹفک بنانا ضروری ہے ۔
شاہد جھنجھٹ:کہا جاتا ہے کہ آپ قدح خوار شاعر ہیں ۔اس سلسلے میں روشنی ڈالیں۔
عبدل بھائی :ارے جناب یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی ۔مسئلہ یہ ہے کہ تحقیق کے مخالف تاثراتی نقادوں نے کسی شعر کو دیکھ کر فیصلہ کر دیا ہوگا ۔ویسے قدح خواری تو ہماری روشن روایت رہی ہے ۔آپ کو بتا ؤ ں کہ ہمارے ریختے کا ایک شاعر تھا بہرام بخاری ،جس کا تخلص ہی سقا تھا ۔کیا غزل کہی ہے ۔ایک شعر سنا تا ہوں ۔
رہ بسوئے دیر بردم بول پری 
درد درد بادہ خوردم بول پری
(قارئین سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ ’’بول پری ‘‘ کو بھل(بھول ) پڑے پڑھیں ۔ایڈیٹر)
غالب اور فراق قدح خوار نہ ہوتے تو کوئے یار میں خوار ہوتے پھرتے ۔مشاعروں میں بھی اسی شاعر کے ہاتھ پاؤں چلتے ہیں جس کو قدح خواری کا فن آتا ہو۔غرض کہ ہر فن کار کو پھن کاڑھنے کے لئے قدح خوار ہونا ضروری ہے ۔اقبال اگرچہ حقہ پیتے تھے اور فیض کو سگریٹ کے بغیر ترقی پسندی کا نشہ نہیں چڑھتا تھا ۔لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ ہم ان کی پگڑیاں اچھالتے پھریں ۔اب یہی دیکھئے کہ ریاض خیرآبادی جیسے شریف لوگوں کو ہم خمریات کا شاعر کہتے ہیں ۔
شاہد جھنجھٹ:آپ کی کوئی زیر طبع کتاب؟
عبدل بھائی :جی ہاں ! میری ایک نئی کتاب زیر طبع ہے ’’جوانی جو برسوں چلے‘‘۔
جھنجھٹ:جناب یہ تو کوئی جسمانی ٹانک کا نام معلوم ہوتا ہے ۔
عبدل بھائی :آپ ٹھیک سمجھے ۔آج کے نوجوانوں کی نادانیاں اور جوانیاں ہم معنی ہوکر رہ گئی ہیں ۔انہیں ملک و ملت کا مستقبل بنانے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں ٹانک دیا جائے ۔
کوئی شعر جو آپ کو بہت پسند ہو؟
عبدل بھائی :
کام کی بات میں نے کی ہی نہیں 
یہ میرا طور زندگی ہی نہیں

طیب فرقانی
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی 
اردو نیٹ جاپان پر شائع شدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذیل میں لنک بھی دی جارہی ہے 
http://urdunetjpn.com/ur/2014/02/23/tayyab-furqani-2/

Tuesday, 25 February 2014

پارلیمنٹ اور اسمبلی کی بےحرمتی میں روز بروز اضافہ

مکرمی!
پارلیمنٹ و اسمبلی کو مندر مسجد کی طرح مقدس کہا جاتا ہے ۔لیکن ان مقامات کی جس طرح بے حرمتی روز بروز بڑھتی جارہی ہے اس سے یہ تشویش لاحق ہوگئی ہے کہ کہیں ان کو ایک دن مسمار نہ کردیا جائے ۔جس طرح ہمارے ملک ہندوستان میں مساجد ،منادر اور دیگر مقدس سمجھے جانے والے مقامات کو سیاست کی آنچ پر ماضی میں چڑھایا جاتا رہا ہے ۔پارلیمنٹ و اسمبلی کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے ۔یہ بات تو طے ہے کہ مذہبی مقامات کی تقدیس کو ہر حال میں اولیت حاصل ہے اور اسی طرح پارلیمنٹ و اسمبلی کی تقدیس و حرمت کو برقرار رکھنا ہندوستانی جمہوریت کا مقدس فریضہ ہے ۔ان کی بے حرمتی پورے ہندوستان کی بے حرمتی ہے ۔ان مقامات میں بھیجے گئے عوای نمائندے عوام کی سوچ اور خیالات کی بھی نمائندگی کرتے ہیں اور اگر وہ ان مقامات کی توہین کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پورا ہندوستان اس میں ملوث ہے ۔اپنی بات منوانے کے لئے جمہوریت میں پر امن اور شائستہ طریقے سے بہت سے راستے ہیں لیکن ہٹ دھرمی اور دوسروں کی توجہ جلد مبذول کروانے کے لئے کسی ممبر اسمبلی یا پارلیمنٹ کو ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ بھرے مجمعے میں نیم برہنہ ہوجائے یا کسی کو تھپڑ ماردے یا مرچ کا سفوف اڑائے ۔سابق امریکی صدر جارج بش کو عراقی صحافی کے ذرئے جوتے مارے جانے کو بعد ہمارے ملک میں بھی اس طرح کے حربے اپنائے گئے ۔جس میں توجہ مبذول کرانے کا جذبہ بھی کہیں نہ کہیں کار فرماہوتا ہے ۔یہ بھی لائق تحسین عمل نہیں ہے ۔ملک کے نمائندے کو تھپڑ یا جوتا مارنا ایک قبیح عمل ہے اسی طرح پارلیمنٹ یا اسمبلی میں اخلاقی قدروں کی پاسداری ان سیاسی لیڈروں کے فرائض میں شامل ہے ۔اس کے لئے خصوسی توجہ کی ضرورت ہے ۔اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایسا عمل پھر نہ دہرایا جائے اس کے لئے خاص ضابطہ بنایا جانا چاہئے ورنہ ہمارے ملک میں اخلاقیات پر ’’لیکچر‘‘ دینا بے معنی ہوکر رہ جائے گا ۔اس سلسلے میں متعدد صحافیوں نے اپنی آرا کا اظہار کیا ہے اور ان اعمال کی مذمت کی ہے لیکن معاملہ ہے کہ روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے ۔اس کو ایک بھر پور آواز ایشو کے طور پر اٹھا نے کا وقت آچکا ہے ۔ہم عوام اپنے لیڈروں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسمبلی اور پارلیمنٹ کی اخلاقیات کی پاسداری کریں اور کسی بھی حال میں اس کی توقیر کی پامالی نہ ہونے دیں ۔
طیب فرقانی 
کانکی ،گوالپوکھر ،اتر دیناجپور ،مغربی بنگال
اخبار مشرق کولکاتا میں شائع شدہ (۲۵ فروری ۲۰۱۴)
                                                                                                  اخبار کا تراشا

Sunday, 9 February 2014

زنا بالجبر انسانیت کے ماتھے پر بد نما داغ

مکرمی !
جموڑیہ میں ہوئے حالیہ جنسی درندگی کی خبر آپ نے اپنے اخبار ’اخبار مشرق ‘میں پہلے صفحے پر شائع کی ہے ۔یہ صحافت کے میدان میں قابل ستائش عمل ہے ۔معاملہ یہ ہے کہ سیاست دانوں کے الٹے سیدھے بیان ہم پہلے صفحے پر پاتے ہیں اور خواتین کے ساتھ ہورہے ظلم و زیادتی کو اندرونی صفحے میں چھوٹی موٹی سرخی کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے ۔حالاں کہ خواتین کے ساتھ بڑھتی زیادتی کی خبریں نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع کی جانی چاہئیں ۔یہ ہمارے لئے لمحہء فکریہ ہے کہ خواتین کے ساتھ منظم زیادتیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں ۔ابھی حال ہی میں بیر بھوم ضلع کا بھیانک واقعہ انسانیت کے ماتھے پر ایک ایسا بد نما داغ بن چکا ہے ۔جسے افسوس کی کوئی مقدار دھو کر صاف نہیں کرسکتی ۔ایک خاتون وزیر اعلی کی حکومت میں ایک قبائیلی لڑکی کو جس طرح غیر مہذب اور بد ترین کھاپ پنچایت نے ذلیل و رسوا کیا ہے اس نے ہم ہندوستانیوں کا سر شرم سے جھکا دیا ہے ۔یہ کھاپ پنچایتوں کی غنڈہ گردی کی انتہا ہے ۔دہلی گینگ ریپ تو چند سرپھرے اور جنونی افراد کی بد ترین کارستانی تھی لیکن بیر بھوم کا واقعہ ایک مکمل سوچا سمجھا اور ہوش وحواس میں رچا گیا ایسا گھناؤنا عمل ہے جس کی ذمے دار نہ صرف نام نہاد کھاپ پنچایتیں ہیں بلکہ حکومت وقت بھی ہے ۔مغربی بنگال کی موجودہ حکومت کسی بھی طرح اس واقعے سے اپنا دامن نہیں بچا سکتی ۔ووٹ کے لالچ میں مسلح افراد کو کھلے عام اپنی مرضی سے فیصلے کرنے اور ایک متوازی عدالت قائم کرنے کا اختیار دینا حکومت کی دوغلی پالیسی ہے ۔کوئی بھی عدالت سخت سے سخت سزا جو دے سکتی ہے وہ موت ہے ۔لیکن بیر بھوم کی پنچایت نے اس قبائیلی لڑکی کے ساتھ زنا بالجبر اور وہ بھی کھلے عام مکمل تیاری کے ساتھ کرنے کا فیصلہ سناکر نہ صرف بد بختانہ حرکت کی ہے بلکہ اس لڑکی کو ہزار موت سے بدترین موت کی سزا سنائی ہے ۔اس کے لئے نہ صرف ان بد بختوں کو سزا ملنی چاہئے بلکہ حکومت کے زیر اثر ان تمام افراد کو اپنا احتساب کرنا چاہئے جو طاقت کے نشے میں چور ایک کمزور اور بے بس خاندان کی تباہی کا خاکہ بناتے ہیں ۔پولیس ان بد بختوں سے اس لئے ڈرتی ہے کہ انھیں حکومت کی سرپرستی حاصل ہے ۔یہ تو کھلی ہوئی ڈکٹیٹر شپ ہے نہ کہ جمہوریت ۔جمہوریت میں امن وقانون اور عدل و انصاف ہی اولین شرائط ہیں ۔کوئی حکومت اگر ان سے خالی ہے تو وہ یا تو کمزور ہے یا ڈکٹیٹر ہے ۔معاوضے کے چند حقیر سکے یا افسوس کے چند بے وزن بول اس قبائیلی لڑکی اور اس جیسی لڑکیوں کے درد کا کبھی مداوا نہیں ہوسکتے ۔لہذا حکومت نہ صرف ان بد بختوں کو قرار واقعی سزا دلوائے بلکہ اپنا حکومتی رویہ بھی بدلے ۔تاکہ مظلوموں کو انصاف مانگنے سے قبل ہی تحفظ حاصل ہو۔اصل معاملہ مظلوم کو انصاف ملنا تو ہے ہی اس سے زیادہ ضروری ہے کسی کو مظلوم نہ بننے دینا ۔
طیب فرقانی 
کانکی ،گوالپوکھر، اتر دیناج پور 

اخبارمشرق رانچی ۹فروری ۲۰۱۴ کے شمارے میں شائع شدہ


                                                                                                   اخبار کا تراشا